جمعہ، 3 جون، 2011

قرآن کریم اور ہماری ذمہ داریاں


قرآن کریم اور ہماری ذمہ داریاں
قرآن کے سلسلے میں ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ ہمارے معاشرے اور قرآن کے درمیان کافی فاصلہ ہے۔ اس فاصلے کو کم کرنا چاہیے ،پچھڑے پن کی تلافی کرنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ باضابطہ طور پر معاشرے میں قرآن مجید کا وجود نہیں ہے؛ کہیں کہیں پر لوگ قرآن سے آشنا ہیں، دیندار لوگ گھروں میں قرآن پڑھتے ہیں لیکن یہ صرف قرآن کی تلاوت ہوتی ہے، قرآن مجید پر غور و فکر، بالخصوص پورے معاشرے کی سطح پر اور عمومی طور پر بہت کم ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا روشن فکراور کالج و یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والا طبقہ کافی حد تک قرآن مجید سے دور ہے؛ یعنی واقعا اس زمانے کے تعلیم یافتہ افراد کے درمیان ایسے لوگ دکھائی نہیں دیتے جو قرآن مجید سے انس اور آشنائی رکھتے ہوں اور وہ بھی بہت وسیع اور عمیق نہیں بلکہ محدود سی آشنائی بھی نہیں رکھتے ، حقیقت میں ایسے لوگ بہت کم ہیں، سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے تھوڑی بہت دینی تعلیم حاصل کی ہے یا کچھ آیتیں حفظ کر لی ہیںتاہم اسلامی ممالک میں خصوصا عرب ملکوں میں ان کی خاص صورتحال کی وجہ سے پہلے بھی حالات ایسے نہیں تھے اور اب بھی یہی صورتحال ہے۔ انسان جب ان کے روشن فکر افراد سے، تعلیم یافتہ افراد سے، یونیورسٹی سے متعلق افراد سے، جو مختلف سرکاری عہدوں پر بھی فائز ہیں، ملاقات کرتا ہے تو دیکھتا ہے کہ وہ لوگ اپنی گفتگو میں قرآن مجید کی آیتوں کو تمثیل کے طور پر، اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے شاہد کے طور پر، اپنی بات کی تائید میں اور دلیل کے طور پراستعمال کرتے ہیں؛ یہ وہ چیز ہے جو ہمارے روشن فکر طبقے میں موجود نہیں ہے ۔ یہ قرآن مجید سے دور رہنے کا سبب ہے اور ہم اس سے دور ہو چکے ہیں۔ ان ممالک میں تعلیم و تربیت کا معیار کیسا تھا؟ یہ ایک الگ بحث ہے۔ تو خاص طور پر عرب ممالک میں یہ بات رائج تھی اور اب بھی ہے۔ یہ عرب ممالک کے سیاستداں اور حکام جن پر ہم عمل میں قرآن مجید کی بنیادی تعلیمات سے دوری پر اعتراض کرتے ہیں اور یہ اعتراض بھی بالکل بجا ہے تاہم ان کے ذہن میں اور زبان پر قرآن مجید موجود ہے۔ ہمیشہ افسوس ہوتا ہے کہ ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔مثال کے طور پر اگر میں تشبیہ دینا چاہوں تو باذوق افراد اپنی گفتگو میں ممکنہ طور پر بعض کہاوتیں، بعض جملے ،شعراء  کے اشعار یا کسی معروف مصنف کے جملوں کا استعمال کر سکتے ہیں، عرب اسی طرح سے قرآن مجید سے استفادہ کرتے ہیں؛ لیکن ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے۔ ہم تربیت اور پرورش کے طریقے کے سبب قرآن مجید سے دور ہو گئے ہیں۔
  ہم کو اس کی تلافی کرنا چاہیے ۔ قرآن میں ضم ہو جانا چاہئے، پوری طرح سے جڑ جانا چاہیے؛ قرآن کے مفاہیم ایسے مفاہیم ہیں جو زندگی کے لیے صرف معلومات نہیں ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی کے پاس قرآن کی اچھی معلومات ہوتی ہیں تاہم اس کی زندگی میں قرآن کا کوئی اثر نہیں ہوتا!  ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہماری زندگی میں قرآن مجسم ہو جائے۔ جس طرح سے کہ جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک زوج مکرمہ سے پیغمبرۖ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ ''کان خلقہ القرآن'' (فضائل الخمسہ،ج١،ص١١٧)ان کا اخلاق قرآن تھا۔ یعنی قرآن مجسم تھا۔ اس بات کو ہمارے معاشرے میں بھی عملی جامہ پہنایا جانا چاہیے۔
مفاہیم، قرآنی کلمات کے حقیقی معنی کے مطابق ہو جائیں اس کے لیے ہمارا انفرادی رویہ، انتظامی رویہ، تنظیمی رویہ، تعلیم و تربیت کے سلسلے میں ہمارا رویہ؛ تعلیم و تربیت کے اداروں سے مراد تمام یونیورسٹیاں، تحقیقی مراکز اور تمام دینی تعلیمی مراکز ہیں؛ خاندان کے اندر ہمارا رویہ، ہمارا سیاسی رویہ، ہمارا بین الاقوامی رویہ، یہ سب اسلام کی بنیاد پر ہونا چاہیے؛ یہ کب ہوگا؟ یہ تب ہوگا جب ہم قرآن مجید کے مفاہیم سے صحیح طریقے سے اور بخوبی واقف ہوں گے۔ یہ وہی کام ہے جو قرآن پر تحقیق کی اس عظیم تحریک سے، چاہے وہ خواتین کے شعبے سے متعلق ہو یا مردوں کے شعبے سے، عملی جامہ پہنے گا۔ سمت یہ ہونی چاہیے؛ اسی سمت میں تحقیقات کو آگے بڑھنا چاہیے۔
قرآن مجید کے سلسلے میں تحقیقی کاموں کے بارے میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ جو شخص بھی قرآن مجید پر کام کے راستے میں آگے بڑھنا چاہتا ہے اسے اپنے دل کو قرآن کی خالص حقیقت سے روبرو ہونے کے لیے تیار کرنا چاہیے؛ یعنی دل کی پاکیزگی۔ اگر دل پاکیزہ نہ ہو، قرآن کی زبان سے حق اور حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہو، غیر اسلامی اور غیر خدائی معیارات پر فریفتہ ہو تو قرآن سے روبرو ہونے کے باوجود وہ اس سے استفادہ نہیں کرے گا۔ یہ جو قرآن مجید فرما رہا ہے کہ ''یضل بہ کثیرا و یھدی بہ کثیرا''(سورۂ بقرہ،آیت٢٦) تو قرآن کے ذریعے اضلال اورگمراہی کیوں؟ قرآن کے ذریعے ہدایت تو خیر واضح ہے لیکن قرآن کے ذریعے اضلال اور گمراہی کیونکر ممکن ہے؟ یہ اس وجہ سے ہے کہ ''و اما الذین فی قلوبھم مرض فزادتھم رجسا الی رجسھم(سورہ توبہ،آیت١٢٥) جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہے، وہ جب قرآن پڑھتے ہیں تو ان کی اندرونی گندگی اور برائی میں اضافہ ہی ہوگا۔ قرآن مجید کی یہ آیت یا کوئی دوسرا سورہ ان کی گندگی میں اضافہ ہی کرے گا۔ یہ گندگی کیا ہے؟ یہ ''فی قلوبھم مرض'' کون سا مرض ہے؟ یہ مرض، اخلاقی بیماریوں سے عبارت ہے۔ جب ہم حسد میں مبتلا ہیں، جب دوسروں کی برائی چاہتے ہیں جب حرص و طمع میں پھنسے ہوئے ہیں، جب دنیا پرستی میں گرفتار ہیں، جب نفسانی خواہشات ہم پر غالب آ چکی ہیں، جب اقتدار پرستی کا ہم پر غلبہ ہو چکا ہے، جب حق تلفی، حق کو نہ دیکھنا اور حق کو چھپانا ہماری روح اور ہمارے دل پر غالب آ چکا ہے تو ہم قرآن مجید سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ جو چیز قرآن سے ہمیں ملنی چاہیے ہم اس کی ضد اور برخلاف چیز کو قرآن سے حاصل کرتے ہیں۔ خدا سے پناہ مانگنی چاہیے۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہوگا کہ بعض لوگ اسلام کی سرکوبی کے لیے کبھی کبھی قرآن کی کوئی آیت پڑھتے ہیں! پاکیزگی کے ساتھ قرآن مجید سے روبرو ہونا چاہیے تاکہ نور قرآن اور نصیحت قرآن ہمارے دل میں سما سکے اور ہم اس سے استفادہ کر سکیں، ان شاء اللہ۔
قرآنی تحقیقات میں بنیادی اور اصولی، علمی کاموں پر توجہ بہت زیادہ ضروری ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جسے بھی عربی آتی ہو وہ قرآن مجید کی تمام باتوں کو صحیح طریقے سے سمجھ لے گا اور قرآن کے سلسلے میں تحقیق کر سکے گا، نہیں۔سب سے پہلے تو خود قرآن مجید سے انس بہت ضروری ہے؛ یعنی قرآن مجید کے سلسلے میں تحقیق کرنے والے کو پورے قرآن سے مانوس ہونا چاہیے؛ قرآن کی تلاوت، قرآن کو دوبارہ اور سہ بارہ پڑھنا اور قرآن مجید میں بذات خود غور کرنا اس بات میں مدد کرتا ہے کہ جب ہم قرآن مجید میں کسی ایک خاص موضوع کے بارے میں حقائق تلاش کریں تو اس موضوع کے بارے میں ہم کسی نتیجے تک پہنچ جائیں، بنابریں خود قرآن مجید سے انس بہت زیادہ ضروری ہے۔
اس کے بعد قرآن مجید سے استفادے کی کیفیت ہے؛ قرآن مجید کی آیات اور معصومین کی روایات سے استفادے کے سلسلے میں ہمارے علمائے دین اور فقہا کی جو روش ہے وہ ایک مجرب روش ہے، ایک مکمل طور پر آزمایا ہوا اور ثابت شدہ علمی طریق کار ہے؛ انہیں حاصل کرنا چاہیے۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ جو بھی قرآن کے سلسلے میں تحقیق کرنا چاہتا ہے وہ جا کر کئی برسوں تک دینی تعلیم حاصل کرے، میرا مطلب یہ نہیں ہے، تاہم قرآنی تحقیق، قرآن کے سلسلے میں بعض بنیادی اور تمہیدی چیزوں کے ادراک کے بغیر ممکن نہیں ہے؛ ان میں زبان سے آگاہی، زبان کے نکات اور ظرافتوں سے آگاہی، اصول فقہ کی بعض بنیادی باتوں سے آگاہی، یہ سب ضروری چیزوں میں شامل ہیں، انہیں سیکھنا چاہیے، اسی طرح قرآن کے ذیل میں موجود روایات سے بھی استفادہ کرنا چاہیے۔ یہ ساری باتیں قرآن کے سلسلے میں تحقیق کرنے میں بہت موثر ہیں۔
ہیومن سائنس کے موضوعات کے بارے میں ایک گلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں یہ موضوعات ایسے معیارات اور بنیادوں پر استوار ہیں جو قرآنی اور اسلامی بنیادوں کے منافی ہیں۔مغربی ہیومن سائنس، ایک دوسری آئیڈیالوجی پر مبنی ہیں، خلقت کے بارے میں ان کے ایک دوسرے ادراک پر مبنی ہیں اور یہ ادراک اور نظریہ زیادہ تر مادی ہے۔ تو یہ نظریہ، ایک غلط نظریہ ہے؛ یہ بنیاد ایک غلط بنیاد ہے۔ ہم ان علوم کے بارے میں کسی بھی قسم کی اسلامی تحقیق کئے بغیر انہیں ترجمے کی صورت میں اپنے درمیان لے آتے ہیں اور مختلف شعبوں میں ان کی تعلیم دیتے ہیں؛ جبکہ انسانی علوم کی جڑ، اساس اور بنیاد کو قرآن مجید میں تلاش کرنا چاہیے۔ قرآن مجید میں تحقیق کا ایک اہم شعبہ یہ ہے۔ مختلف میدانوں میں قرآن مجید کے نکات اور ظریف باتوں پر توجہ دی جانی چاہیے اور انسانی علوم کے بنیادی معیارات کو قرآن کریم میں تلاش کرنا چاہیے۔ یہ ایک بہت ہی بنیادی اور اہم کام ہے۔ اگر یہ ہوگیا تو پھر مختلف انسانی علوم کے محققین اور صاحب نظر افراد ان بنیادوں پر عظیم عمارتیں تعمیر کر سکیں گے۔ اسی طرح وہ مغرب والوں اور جن لوگوں نے علوم کے میدان میں پیشرفت کی ہے، ان کی پیشرفت سے استفادہ بھی کر سکیں گے تاہم بنیاد، قرآنی بنیاد ہونی چاہیے۔(رہبر انقلاب ایران آیةاللہ خامنہ ای کی تقریر سے اقتباس)

طاغوتی نظاموں میں جس طرح سے عورت کو ایک دوسری نظر سے دیکھا جاتا تھا اسلام اس کے بالکل برخلاف عورت کو ایک شخصیت عطا کرتا ہے۔ اسلام میں جب مومن کے لیے کوئی نمونہ اور آئیڈیل معین کیا جاتا ہے تو عورت کا نمونہ معین کیا جاتا ہے۔و ضرب اللہ مثلا للذین امنوا امراة فرعون))1 یہ پہلی شخصیت، ((و مریم ابنت عمران))2 یہ دوسری شخصیت، ان لوگوں کے لیے نمونہ جو ایمان لائے ہیں۔ جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہے ان کے لیے بھی دو عورتوں کی مثالیں ہیں: ((امرا ةنوح و امرا لوط انتا تحت عبدین من عبادنا ۔۔۔ فخانتاھما))3 یعنی عورت کو قرآن نہ صرف یہ کہ خواتین کے لیے بلکہ پورے معاشرے کے لیے محور، عبرت اور آئینہ قرار دیتا ہے۔ کسی مرد کا بھی انتخاب کیا جا سکتا تھا۔ نہیں، یہ اس منحرف اور غلط نظریے کے مقابلے کے لیے ہے جو خواتین کے سلسلے میں موجود تھا۔ یہ نظریہ ہمیشہ تحقیر آمیز نہیں تھا تاہم ہمیشہ غلط تھا۔
طاغوتی نظام میں ہمیشہ غلط طریقے سے عورت کو دیکھا گیا ہے؛ آج بھی مغرب میں ایسا ہی ہے۔ اب ممکن ہے کہ مغرب کے انہی نظاموں میں بہت سے مردوں کی طرح کچھ خواتین بھی اہم، محترم اور پاکیزہ شخصیت کی مالک ہوں لیکن مغرب کی رائج ثقافت میں عورت کے بارے میں عمومی نظریہ، غلط نظریہ ہے، اسے ایک استعمال کی چیز کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، یہ ایک اہانت آمیز نظریہ ہے۔ مغرب کی نظر میں اس بات کی وجہ کہ آپ چادر نہ اوڑھیں اور حجاب نہ کریں، یہ نہیں ہے کہ آپ آزاد رہیں۔ آپ یہ کہہ رہی ہیں کہ مجھے حجاب کے ساتھ بھی آزادی حاصل ہے۔ بنابریں بات کچھ اور ہے؛ مردوں کی حریص نگاہوں کی تسکین کے لیے، مرد کی ناجائز خواہشات کی تکمیل کے لیے وہ چاہتے ہیں کہ عورت ایک خاص انداز میں معاشرے میں سامنے آئے۔ یہ عورت کی سب سے بڑی توہین ہے؛ اب چاہے وہ اس بات پر کتنے ہی پردے ڈالتے رہیں اور اسے دوسرے نام دیتے رہیں۔
عورت کی شان یہ ہے کہ اسے موقع دیا جائے کہ وہ ان تمام عظیم اور اہم صلاحیتوں اور استعدادوں کو جنہیں خداوند متعال نے عورت سمیت ہر انسان کے اندر رکھا ہے اور ان صلاحیتوں کو جو صرف خواتین کے اندر ہی ہوتی ہیں، مختلف سطحوں پر پوری طرح سے ظاہر کر سکے؛ خاندان کی سطح پر، معاشرے کی سطح پر، عالمی سطح پر، علم و دانش کے لیے، معرفت اور تحقیق کے لیے، تربیت، پرورش اور تعمیر کے لیے۔ عورت کے احترام کا مطلب یہ ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں