ہفتہ، 4 جون، 2011

اخلاقی نکات


بعض اخلاقی نکات 
آیة اللہ اشتہاردی۔قم
رفتار و گفتار میں تامل:
مراقبت و مواظبت کے معنی یہ ہیں کہ انسان جو بات بھی کرے اس میں تأمل اور غور وفکر کرے ، ہر شخص خود اپنا حساب و کتاب جانتا ہے ، '' بل الانسان علی نفسہ بصیرة'' ماہ مبارک رمضان کے آثار میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دیکھے اس مہینے کے بعد بہتر ی آئی یا نہیں؟ اگر وہ بری صفات جو ماہ رمضان سے پہلے تھیں اب وہ صفتیں اس مہینے کی برکت کی وجہ سے نہیں ہیں تو خدا کا شکر ہے کہ ماہ رمضان نے اس میں اثر کیا ہے ، امام خمینی نے فرمایا ہے : بعض لوگ ائمہ یا امام زادوں کے روضوں میں جاتے ہیں اور گریہ کرتے ہیں اگرروضہ سے باہر آنے کے بعد اس میں بہتری پیدا ہوتو وہ گریہ کا اثر ہے یعنی گریہ اس لئے ہو کہ میں نے ایک عمر ترقی نہیں کی اگر ایسا نہ ہوتو یہ رونامصنوعی ہے۔
دنیاوی زندگی کی اہمیت:
 تمام نیکیوںاور برکتوں کا محور زندگی ہے اور اس صورت میں انسان اپنے کو کامل کرسکتاہے اور کمالات حاصل کرسکتا ہے لہذ زندہ رہنے کی توفیق کی وجہ سے ذات الہی کو فراموش نہیں کرنا چاہئے اگرچہ زندگی میں بہت سے خطرات ہیں اور سب سے بڑا خطرہ گذشتہ اعمال کا محو ہوجانا ہے ، یہ ایک اہم مطلب ہے کہ انسان خیال رکھے کہ کہیں گذشتہ میں انجام دیئے ہوئے نیک اعمال ضائع نہ ہوجائیں۔
عمل میں اخلاص:
 انسان کو متوجہ رہنا چاہئے اور اپنے اعمال و عبادات کو دوسروں کے لئے انجام نہ دے قصد قربت کا مسئلہ بہت ہی مشکل ہے اور اس کو باقی رکھنا مشکل تر ہے ، جن لوگوں نے تبلیغ دین کی ہے اگر کسی کی ہدایت کی ہے ، کوئی نیک کام انجام دیاہے ، مسجد و امام باڑہ بنایا ہے یا کچھ لوگوں کو دیندار اور نماز خوان بنایا ہے  ... تو ضروری نہیں کہ ان باتوں کو دوسروں کے سامنے پیش کریں ، خد اکے تمام احکام و فرامین کو خلوص نیت کے ساتھ انجام دینا چاہئے ۔
طہارت کا استمرار:
ابتدائے جوانی میں خدا کی طرف توجہ بہت زیادہ ہوتی ہے اس لئے کہ نہ کسی سے دشمنی ہوتی ہے ، نہ غرور و گھمنڈ ہوتا ہے اور نہ زیادہ آرزوئیں ، پاک و صاف ہوتا ہے لیکن جب لوگوں کے درمیان آتا ہے اس وقت بخل، کینہ ، حسد ، غیبت اور بہتان وغیرہ پیدا ہوتا ہے ، یہ تمام کا م شیطانی ہیں ،خودسازی کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہئے ۔تعلیم کے وقت بھی اور دوسرے تک کوئی بات پہنچاتے وقت بھی، شیطان علماء اور صلحاء سے زیادہ سر وکار رکھتا ہے ، ناجائز راستوں کو جائز پیش کرتاہے ، خداوند عالم بھی ا ہل علم کو ہر اعتبار سے زیادہ مورد امتحان قرار دیتا ہے اور علماء دوسروں کے مقابلہ زیادہ الٰہی امتحان سے روبرو رہتے ہیں امام خمینی کہا کرتے تھے : بعض حضرات منبر پر جاتے ہیں اچھی تقریر کرتے ہیں لیکن قیامت میں ان کوکوئی بدلہ نہیں ملے گا ،کہا جائے گا کہ تم لوگوں کے لئے منبر پر گئے ،تم نے لوگوں کے لئے مجلسیں پڑھیں ، انہوںنے تمہاری تعریف کی ، واہ واہ کی اب ہم سے کیا چاہتے ہو؟!
لہذا توجہ رکھئے ایسا نہیں ہے کہ جو بھی دینی تعلیم کی طرف آتا ہے وہ خدا کے لئے درس پڑھتا ہے  یا جو بھی منبر پر جاتا ہے وہ خدا کے لیے جاتا ہے۔
زندگی میں حضور: 
اس بات کی طرف توجہ رکھئے کہ کبھی بھی اپنے کو دوسروں سے بہتر نہ سمجھئے ، اگر تبلیغ کے لئے کہیں گئے تو اپنے کو تمام لوگوں سے نیچا تصور کیجئے ، خدا وند عالم نے جناب موسیٰ سے خطاب کیا: اے موسیٰ! میری سب سے بری مخلوق کو میرے پاس لاؤ، جناب موسیٰ نے بہت زیادہ تلاش و جستجو کے بعد حتیٰ ایک مرا ہو ا کتا لانے سے بھی اجتناب کیا اور آخر میں خدا وند عالم کے سامنے عرض کیا : خدایا! میں نے اپنے سے برا کسی کو نہ پایا۔ میرزائے شیرازی  سے پوچھا گیا کہ آپ نے کیا کام کیا جس کی وجہ سے اس عظیم درجہ پر فائز ہوئے اور ایک دستخط کے ذریعہ استعمار کو شکست دیدی ؟ انہوںنے جواب دیا: میں نے کبھی بھی اپنے کو دوسروں سے برتر نہیں سمجھا۔
درس آموز نکات:
پیغمبر اکرم  ۖ نے فرمایا: کوے سے تین چیزیںسیکھو، ایک پوشیدگی جو کنایہ ہے غیرت و عفت کا ، دوسرے یہ کہ کوے طلوع آفتاب سے پہلے جگتے ہیں ، بہتر ہے کہ انسان جو کام بھی انجام دینا چاہے صبح تڑکے شروع کرے ، نیند چھوڑ کراپنا کام شروع کرے ،درس میں حاضر ہو ، پیغمبر نے تیسری چیز بیان کی جسے کوے سے سیکھنا چاہئے وہ حذرہ ہے یعنی کوا جیسے ہی دیکھتا ہے کہ کوئی زمین کی طرف جھکا تووہ فورا ًفرار کرتا ہے کہ کہیں وہ پتھر نہ اٹھائے اور مارنہ دے ، حذر کرتا ہے یعنی احتیاط کرتاہے ضروری نہیں کہ انسان سو فیصدی یقین کرے کہ فلاں چیز حرام ہے ، دیندار وہ شخص ہے کہ جب بات کرنا چاہئے تو اگر خوف ہو کہ غیبت ہوگی ، نہ کہے اور کچھ اپنے نفس کو لگام دے ۔
توبہ سے بہتر ہے گناہ نہ کرنا:
اگر انسان گناہان کبیرہ کو ترک نہ کرے تو گناہان صغیرہ بھی لکھ لئے جاتے ہیں لیکن اگر کبائر کو ترک کرے تو صغائر کو بھی خداوند عالم بخش دیتا ہے جس طرح سے سر پر ہتھوڑا مارناجائز نہیں ہے اسی طرح جھوٹ بولنا بھی جائز نہیں ہے بلکہ اس سے بھی بدتر ہے ، اس لئے کہ یہ علاج کے ذریعہ صحیح ہوجاتا ہے لیکن جھوٹ کے لئے توبہ کی ضرورت ہے اور توبہ کے بعد بھی اس کے اثرات ہیں ، امام خمینی اس سلسلے میں مثال دیتے ہوئے فرمایا کرتے تھے : دو نئے لباس تصور کیجئے ، ایک کو پہن کر دھو چکے ہیں اور دوسرا پہنا نہیں گیا ہے ، کوئی بھی گندا نہیں ہے پھر بھی آپس میںفرق ہے ، توبہ بھی دھونے کی طرح ہے انسان ممکن ہے کہ کام کرے کہ اس کا لباس زیادہ گندا نہ ہو، اگر زیادہ گندا ہوجائے تو اس کا دھونا اور صاف کرنا بہت ہوجاتا ہے ۔ (ترجمہ: محمد حسنین باقری۔از: افق حوزہ قم )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں