علم اصول کی تاریخ
پیغمبر گرامی اسلام ۖنے اپنی بعثت کی ابتداء میں ایک نیا دین پیش کیا ۔واضح ہے کہ شروع میں بہت ہی کم افراد آپ کے ارد گر د جمع ہوئے نتیجتاً اگر کسی مسئلے میں کوئی مشکل پیش آتی تھی تو لوگ آنحضرتۖ کی طر ف رجوع اور ابہام کو دور کرتے تھے لیکن جب اسلام پھیلنے لگا اور وحی کا سلسلہ رک گیا او ر تشریع کا زمانہ ختم ہوگیا اور حضور اکرم ۖکی وفات ہوگئی تو مختلف علاقوں میں اسلام پھیلنے کی وجہ سے بہت سے جدید مسائل کا پیش آنا ناگزیر تھا جو مناسب جواب طلب کر رہے تھے جب کہ دوسری طرف وحی کا چراغ خاموش ہوچکا تھا ۔
ان مشکلات کے مقابلے میں اسلامی معاشرے میں دو نظریہ سامنے آئے:
(١) ایک نظریہ یہ تھا کہ پیغمبرۖ کی حیات کے زمانے میں احکام کا بیان کرنا آنحضرتۖ کے ذمہ تھا اور آپۖنے وفات سے قبل خداوند عالم کے حکم کے مطابق حضرت علی ـکو اپنا جانشین معین فرمایا اور آپ کو عِدل قرآن قرار دیا اور احکام کے بیان کرنے کی ذمہ داری بھی آپ کے سپرد کی ۔اس نظریہ کے مطابق رسول خدا ۖ کے بعد احکام کا بیان کرنا اور قرآنی مفاہیم کی تبیین ،اہلبیت پیغمبرکی ذمہ داری ہے اسی وجہ سے شیعہ حضرات احکام الٰہی حاصل کرنے کے لئے آئمہ یا ان کے شاگردوں کی طرف رجو ع کرتے تھے ایسے شاگرد جو اتنی صلاحیت رکھتے تھے کہ ائمہ معصومین کی رائے کو استنباط کرکے رجوع کرنے والوں کو بتائیں۔
(٢) دوسرا گروہ کسی خاص شخص کو اسلامی احکام کے بیان کرنے کے لئے معین نہیں کرتا تھا بلکہ صرف قرآن وسنت رسول ۖکو تنہا منبع جانتے تھے اورجب عملی منزل میں مشکلات و اشکالات پیش آئے تو متوجہ ہوئے کہ صرف یہ دو منابع ان لوگوں کے لئے جو ابدہ نہیں ہیں اسی وجہ سے دوسرے منابع مثلا قیاس استحسان ،مصالح مرسلہ،سد ذرائع وغیرہ کی پناہ لی اور ان کے مطابق اجتہاد اور استنباط احکام کیا ۔
اسلام میں اجتہاد :
کیا اسلام کے ظاہر ہونے کے ساتھ ہی اجتہاد بھی وجود میں آیا ہے؟ بعض کہتے ہیں کہ چونکہ اجتہاد کے معنی فرع کو اصل پر پلٹانے کے ہیں یعنی اصولی عالم ایک فرعی حکم کو اصول کے عمومی و اصلی قواعد سے استنباط و استخراج کرتاہے لہذا اجتہاد اس معنی میں ایک امر حاد ث ہے جو ائمہ کے زمانے میں موجود نہیں تھا اس وجہ سے علمائے امامیہ کے درمیان اجتہاد امام زمانہ کی غیبت کبریٰ کے بعد شروع ہوا ہے پس علم اصول بھی کہ جس کا نتیجہ اجتہاد تھا امام عصر کی غیبت کے بعد وجود میں آیا ہے اگر چہ اہل سنت پیغمبرۖ کے زمانے میں بھی ضرورت کے وقت اجتہاد کرتے تھے ۔بزرگ عالم شیخ آقا بزرگ تہرانی ،مقریزی سے نقل کرتے ہیں کہ '' ان العشرة المبشرہ کانوا یجتھدون ویفتون فی حیاة النبیۖ'' وہ دس افراد جنھیں پیغمبرۖ نے جنت کی بشارت دی تھی، پیغمبرۖ کے زمانے میں بھی اجتہاد کرتے اور فتویٰ دیتے تھے ۔مقریزی کا کہنا ہے : پیغمبر اسلام ۖکی وفات کے بعد آپ ۖ کے اصحاب مختلف شہروں میںتہران میں گئے اوربعض مدینے میں ابو بکر کے پاس رک گئے ابو بکر بھی کتاب و سنت کے مطابق حکم کرتے اور جب کوئی مسئلہ کتاب و سنت میں نہیں پاتے تو دوسرے اصحاب سے سوال کرتے ا ور جب ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا تو اس مسئلے میں اجتہاد کرتے تھے نتیجہ یہ نکلا کہ علم اصول اہل سنت کے درمیان اجتہاد و استنباط کی وجہ سے خلفاء کے زمانے میں آیا ہے (حصر الاجتہاد ۔(ص ٩٠)
پروفیسر چارلس آدامس کہتے ہیں : شیعہ ،ائمہ کی زندگی تک اجتہاد نہیں کرتے تھے اور اجتہاد کی ضرورت بھی نہیں تھی ۔اس لئے کہ جس مسئلے میں بھی مشکل پیش آتی تھی اس کے حل کے لئے اپنے زمانے کے امام معصوم کی طرف رجوع کرتے تھے ۔( ہزارۂ شیخ طوسی ج ٢ ،ص ٣٣٧)
جیسا کہ بعض علماء حقوق نے بھی اپنی کتابوں میں اس عقیدے کی پیروی کی ہے افرائد الاصول ،ج ١ ،ص ٨،مبانی استنباط حقوق اسلامی ،ص ١٣)حقیقت کیا ہے ؟ کیا مذکورہ معنی میں اجتہاد شیعوں کے درمیان امام زمانہ کی غیبت کے بعد وجو دمیں آیا اور اہل سنت اس مسئلے میں شیعوں سے پیش قدم رہے ہیں یا نہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ خود ائمہ کے مطابق اجتہاد کرتے تھے ،اسی وجہ سے امام صادق ـاور امام رضا ـنے فرمایا ہے : اصول بیان کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور تفریع کرناتمہاری ذمہ داری ہے ( قال الصادق ـ) انما علینا القاء الاصول وعلیکم ان تفرعوا ،وقال الرضا ـعلینا القاء الاصول وعلیکم التفریع '(وسائل ج١٨، ح٥١)
لہذا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ائمہ کے زمانے میں اجتہاد کی ضرورت نہیں تھی چونکہ ضرورت کے وقت ان کے ماننے والے خود ان سے پوچھ لیتے تھے دلیل یہ ہے کہ :
( ان میں سے بعض دلیلیں شہید مرتضیٰ مطہری نے کتاب ہزارہ شیخ طوسی،ج ٢ ،ص ٣٥١ میں بیان کی ہے )
(١) ائمہ معصومین زیادہ مدینے میں رہتے تھے اور مدینے کے شیعوں کا آپ کی طرف رجوع کرنا آسان تھا لیکن دوسرے اسلامی ممالک کے شیعہ کس طرح اپنے مسائل ائمہ سے حاصل کرتے خاص کر خلیفہ دوم کے زمانے میں کہ جب اسلامی حکومت کا دائرہ اقیانوس اطلس سے وسط چین تک اور ادرال کے پہاڑوں سے خلیج فارس تک اور بحر عمارہ تک اور جنوبی یورپ سے پھیلا ہوا تھا اور سفر بھی چارپایوں اور جانوروں کے ذریعے انجام پاتے تھے لہذا مہینوں وقت چاہئے تھا کہ ایک شیعہ اپنے کو مدینے میں پہونچائے اور اپنا مسئلہ پیش کرے ۔اسی وجہ سے لوگ اپنے شہروں میں ائمہ کے اصحاب اور شاگردوں کی طرف رجوع کرتے تھے اور وہ لوگ بھی ان قواعد کے مطابق جو ائمہ نے انھیں تعلیم دئے رد فرع پر اصل کرتے اور حکم الہی کو استنباط کرتے تھے اور رجوع کرنے والے کو مناسب جواب دیتے تھے۔
(٢) اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ائمہ معصومین کبھی قید خانہ میںبھی اور کبھی حکومت کو زیر نظر اور کبھی مخصوص جگہوں پر ٹھہرائے جاتے تھے کس طرح ممکن تھا شیعہ اپنے مسائل کو ان سے پوچھتے ؟ جیسا کہ امام صادق ـکے سلسلے میں نقل ہوا ہے کہ آپ کا ایک شیعہ آپ سے کوئی کرنا چاہتا تھا لیکن چونکہ جانتا تھا حضرت تخت نظر ہیں لہذا مجبور ہوکر سبزی بیچنے والے کے لباس میں ٹوکری اپنے سر پر رکھ کر سبزی بیچنے کے بہانے سے امام صادق ـکے مکان میں گیا اور اپنا مسئلہ شرعی معلوم کیا پس کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ شیعہ جب بھی کوئی مسئلہ معلوم کرنا چاہتے تھے اپنے زمانے کے امام کے پاس مراجعہ کرتے تھے ؟ کیا امام ہادی ـاور امام حسن عسکری سر من رائے میں فوجی چھاونی میں مجبوراًزندگی نہیں گزارتے رہتے تھے ؟کیا شیعوں کے ممکن تھا کہ آسانی کے ساتھ ان سے رجو ع کریں؟آیا امام موسیٰ بن جعفر ـسالوں قید خانہ میں ہی رہے؟آیا شیعوں کو اس زمانے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی؟اور کیا اس زمانے میں بلا تکلیف رہے ؟ یا اس جہاد کے ذریعہ جسے ائمہ کے شاگرد انجام دیتے تھے ،اپنے جواب حاصل کرتے تھے۔
(٣) ائمہ سے جو روایتیں صادر ہوتی تھیں بے شک عام و خاص ،مطلق و مقید وغیرہ ہوتی تھیں ۔اسی صورت میں روایات کے درمیان اور ان کے درمیان کے تعارض کو رفع کرنا او ر ان کے مطابق فتویٰ اس زمانے میں بھی رائج اور معمول تھا اور یہ بھی اجتہاد و استنباط کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے ۔
(٤) جب دو یا چند روایتوں کے درمیان مضمون و مختور کے اعتبار سے تعارض ہو تو ائمہ اطہار نے ایسی صورت میں روایات علاجیہ کے ذریعہ تکلیف کو معین فرماتے ہوئے ۔وظیفہ کو مشخص کیا ہے او ر ان روایات میں کوئی قید نہیں لگائی ہے مثلا یہ نہیں کہا کہ :امام زمانہ ـکی غیبت کے زمانے میں تمہاری تکلیف و ذمہ داری یہ ہے راوی کہتا ہے امام صادق سے میں نے سوال کیا کبھی آپ سے دو خبریں ایسی نقل ہوتی ہیں کہ دونوں ایک دوسرے سے متعارض و مخالف ہوئی ہیں ایسی صورت میں تکلیف ووظیفہ کیاہے ؟ حضرت نے فرمایا :روایت مشہور پر عمل کرو اور غیر مشہور کو چھوڑ دو میں نے عرض کیا کہ اگر دونوں مشہور ہوںتو کیا کیا جائے ؟فرمایا جس روایت کا راوی زیادہ عادل ،زیادہ فقیہ ،زیادہ سچا اور زیادہ تقوے والا ہوتو اس کوملاک عمل قرار دو۔میں نے عرض کیا کہ اگر دونوں ہی ایسے ہوں تو کیا کریں ؟ حضرت نے مختلف راستے بتاتے ہوئے فرمایا :ان دونوں روایتوں میں سے جس کا مضمون اہل سنت سے کے موافق ہو اس کا تر ک کرو اور اس مخالف روایت پر عمل کرو ۔آخر میں جب راوی کہتا کہ : تمام شرائط مساوی ہیں ۔حضرت فرماتے ہیں ۔ایسی صورت میں توقف کرو یہاں تک کہ اپنے امام کو پیدا کرو اور اس سے پوچھو (وسائل الشیعہ ،کتاب القضاء ،ص ٧٥،جلد ١٨)
چونکہ ان تمام روایات علاجیہ میں اس طرح کی کوئی قید بیان نہیں ہوئی ہے کہ یہ وظیفہ دستور غیبت کے زمانے میں مخصوص ہے نہ کہ ائمہ کے حضور کے زمانے سے۔لہذا ہم اس نتیجے پر پہونچتے ہیں کہ ائمہ کے زمانے میں بھی اجتہاد موجود تھا۔
(٥) مقبولہ ابن حنظلہ میں راوی امام جعفر صادق سے سوال کرتا ہے : اگر اصحاب میں سے دو آدمی آپ سے مطلب نقل کرنے میں اختلاف کریں تو تکلیف و وظیفہ کیا ہے؟ حضرت فرماتے ہیں :علمائے شیعہ کے درمیان تلاش وجستجو کر کے ایسے کو انتخاب کرو جو احادیث وکلمات کے سلسلے میں اچھی معلومات رکھتا ہو اور احکام کے استنباط میں اہل نظر ہو (قلت کیف یصنعان؟ قال انظروا الی من کان منکم قد روی حدیثنا ونظر فی حلالنا و حرامنا وعرف احکامنا فارضوا بہ حکما فانی قدجعلتہ علیکم حاکما ۔ (فروع کافی ،کتاب القضاء ،ج ٧،ص ٤١٢حدیث ٥)
حضر ت نے یہ جو فرمایا کہ ''نظرفی حلالنا و حرامنا''مراد یہ ہے کہ جو ادلہ احکام یعنی احادیث و کتاب خدا کی معرفت اور اطلاع کے ذریعہ حرام وحلال تک پہونچتے ہوں ۔اب کیا اجتہاد کے علاوہ اور کچھ ہے ؟ اور ''عرف احکامنا ''اس جملے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس راوی کی طرف کرنا چاہئے جس نے احکام کو معرفت کے ساتھ حاصل کیا ہو ۔یہ نہیں فرمایا کہ''علم احکامنا ''ہمارے احکام کو جانتا ہو ۔ بلکہ فرمایا کہ ہمارے احکام کو پہچانتا ہو اور پہچاننا و شناخت (شناخت و معرفت) ادلہ کے ساتھ ہوتا ہے یہ مطلب بھی اجتہاد کو یہاں کر رہا ہے اسی طرح حضرت آگے فرماتے ہیں ''فانی قد جعلتہ علیکم حاکما ''اس جملے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایسے افراد کو اجتہاد و نظر ،حجت ہے چاہے امام معصوم کے حضور کے زمانے ہو یا ان کی غیبت کے زمانے میں۔
(٦) ائمہ معصومین خود بھی اپنے بعض جلیل القدر اصحاب کو حکم دیتے تھے کہ مسجد میں بیٹھتی اور لوگوں کے لئے فتویٰ صادر کریں ۔مثلا امام باقر نے ابن بن تغلب سے فرمایا ۔مسجد مدینہ میں بیٹھو اور لوگوں کے لئے فتویٰ صادر کرو ۔اس لئے کہ میں جانتا ہوں کہ ہمارے شیعوں کے درمیان تمہارے جیسے لوگ دیکھے جائیں ۔( قال لہ ابو جعفر الباقر :اجلس فی مسجد المدینہ ولفت الناس فانی احب ان یریٰ فی شیعتی مثلک '' ۔ (جامع الرواة ،ج ١ ،ابان بن تغلب ،فہرست شیخ طوسی ''ابان'')
(٧) بہت سی روایات میں ملتا ہے کہ ائمہ کرام اپنے شیعوں کو فتویٰ حاصل کرنے کے لئے اپنے فاضل اصحاب اور شاگردوں کے پاس تھے ۔مثلا عبد العزیز بن مہتدی امام رضا سے نقل کرتے ہیں : جب میں نے حضرت سے عرض کیا میں ہر وقت آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوسکتا ایسی صورت میں فرماتے ہیںکہ اپنے مسائل کوکسی سے معلوم کروں ؟ تو حضرت فرمایا : یونس بن عبد الرحمن سے پوچھو(عن العزیز بن المہتدی قال :'' خد عن یونس بن عبد الرحمن '' جامعہ الرواة ،ج ٢ ،یونس عبد الرحمن ،فہرست شیخ طوسی ،یونس بن عبد الرحمن )اسی طرح علی بن مسیب ہمدانی جب یہی سوال امام رضا سے کرتے ہیں تو حضرت فرماتے ہیں زکریا بن آدم قمی سے جو پوچھو دین و دنیا کے امیں ہیں ۔ (عن علی ابن المسیب الہمدانی قال ''قلت للرضا شقنی بعیدة ولست اصل الیک فی کل وقت خمس آخذ عنہ معالم دینی ؟قال من ذکریا بن آدم المامون علی الدین والدنیا ''
( جامع الراوة ،ج ١، زکریا بن آدم '')
اسی طرح امام صادق اسی طرح کے سوال کے جواب میں ابن ابی یعفور کو محمد بن مسلم کے پاس بھیجتے ہیں (عن عبد اللہ بن یعفور قال قلت لابی عبد اللہ ''انہ لیس کل ساعة القاک ولا یمکن القدوام ویجیٔ الرجل من اصحابنا یسئلنی ولیس عندی کل ما یسئلنی عنہ قال فمایمنعک عن محمد بن مسلم الثقفی فانہ قد سمع من ابی وکان عندہ وجیھا ،(جامع الراوة ج ٢ ،محمد بن مسلم )
(٨) نتیجہ یہ کہ جاہل کا عالم ک طرف رجوع کرنا تمام عقلائے عالم کے درمیان اور وظیفہ واحکام کو معین و مشخص کرتے ہیں پیغمبر اکرم ۖ کے بعد سے اسلام کے ماننے والوں کے درمیان یہی سیرت جاری رہی ہے ۔
اب تک بیان شدہ باتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ائمہ کے زمانے میں بھی شیعہ اجتہاد کے محتاج رہے ہیں اور یہ کام آپ کے شاگردوں کے ذریعہ انجام پاتا رہا ۔اسی بنا پر قنا تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام میں بیان ہوا ہے کہ : سب سے پہلے جس نے علم اصول کی بنیاد رکھی وہ امام محمد باقر اور پھر امام صادق ہیں اور آپ علم اصول کے قواعد اپنے اصحاب کو لکھواتے تھے (تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام مین اصول فقہ کے املاء کی نسبت امام باقر اور صادق کی طرف دی گئی ہے اور یہ بات ہمارے دعوے کے منافی نہیں ہے چونکہ ہم کہتے ہیں کہ اصول میں سب سے پہلے تصنیف شافعی کے توسط سے ہے ''ہم بیان کر چکے ہیں کہ املاء اصول فقہ ان دو امام معصوم کے ذریعہ تھا جب کہ پہلی تصنیف ہشام بن حکم اور اس کے توسط سے تھی جو ائمہ کے شاگرد میں سے تھے۔
سب سے پہلی اصولی کتاب کی تصنیف :
علم اصول کی سب سے پہلی کتاب کس نے تصنیف کی؟ علم اصول میں سب سے پہلی تصنیف کس شخص کے ذریعہ وجود میں آئی اس سلسلے میں علماء اہل سنت کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ،بعض نے ابو حنیفہ اور ایک گروہ نے محمد بن حسن شیبانی اور کچھ نے شافعی اور بعض نے ابو یوسف کے نام لئے ہیں۔جلال الدین سیوطی سے کتاب الوسائل الی معرفة الاول (البتہ کتاب تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام ص ٣١٠، اس طرح فوائدع الاصول ،ج ١،ص ٧،میں کتاب الاوائل جلال الدین سیوطی سے نقل اجماع ہوا ہے کہ اصول میں سب سے پہلی تصنیف شافعی کے توسط سے ہے۔اور کتاب اصول الاستنباط ،ص ٤٢،میں سیوطی کے قول کو نقل کرنے کے ضمن میں بیان کیا ہے کہ سیوطی کا مقصد یہ ہے کہ اہل سنت کے ائمہ اربعہ کے درمیان ،اصول فقہ میں پہلی تالیف ،شافعی کی ہے) میں نقل ہوا ہے کہ اصول میں سے سے پہلی کتاب اصول الفقہ کے نام سے ابو حنیفہ(متوفی ١٥٠ھ) کے توسط سے لکھی گئی ہے (ملاک استنباط ،٩)لیکن ابن ندیم نے اپنی کتاب فہرست میں محمد بن حسن شیبانی (ہارون رشید کے قاضی القضاة ،متوفی ١٨٢ھ یا ١٨٩ھ) کا نام لیا ہے (فہرست ابن قدیم ،ص ٣٧٨) اور کتاب مقدمہ ابن خلدون (مقدمہ ابن خلدون ،ص ٣٦٠) اور کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون (کشف الظنون عن اسامی الکتب والظنون ،ج١،ص ١١١) وغیرہ میں بیان ہوا ہے کہ محمد بن ادریس شافعی متوفی ٢٠٤ ھ اصول میں پہلے مولف ہیں اور ابن خلدون کی تصنیف کتاب وفیات الاعیان (وفیات الاعیان وانباء ابناء الزمان ،ج٦،ص ٣٨٢) اس طرح کتاب اعلام زرکلی میں اعلام قارموس تراجم ،ج٨،ص ١٩٣) میں آیا ہے کہ اصول میں پہلی تصنیف ابو یوسف (یعقوب بن ابراہیم معروف بہ ابی یوسف ،قاضی القضاة خلفائے بنی عباسی،متوفیٰ ١٨٢ھ) کے توسط سے ڈاکٹرمحمود شہبانی کا نظریہ ہے کہ :اصول میں پہلی تالیف ابی یوسف یا محمد بن حسن شیبانی کے ذریعے ہے (فوائد الاصول ،ج ١،ص ٧) اور ڈاکٹر ابو الحسن محمدی کا بھی عقیدہ ہے کہ یہ کام شافعی کے ذریعے انجام پایا ہے (مبانی استنباط حقوق اسلامی ص١٢) مندرجہ بالا مطالب کو دیکھتے ہوئے کہنا چاہئے کہ اصول میں سب سے پہلی کتاب جو تالیف ہوئی ہے وہ الفاظ و مباحثھا کے نام سے ہشام بن حکم (متوفیٰ ١٧٩ھ) کے ذریعہ تھی اسکے بعد یونس بن عبد الرحمن نے کتاب اختلاف الحدیث و مسائلة (تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام ،ص ٣١٠،اصول الاستنباط ،ص ٤١) تالیف کی اور اس میں دو حدیثوں کے تعارض اور تعادل وتراجیح کے مسئلے کو بیان کیا ہے۔اوریہ دو افراد شیعوں کی عظیم اور جلیل القدر شخصیتون میں سے تھے اس لئے کہ ہشام بن حکم امام صادق کے شاگردوں میں سے تھے یونس ابن عبد الرحمن امام موسیٰ کاظم کے شاگردوں میں سے تھے ،
شیخ آقا بزرگ تہرانی کہتے ہیں کہ امام صادق نے چار ہزار شاگردوں کی تربیت کی ان میں سے چار سو شاگرد ایسے تھے جو امام سے جو کچھ سنتے تھے اسے لکھتے تھے اور قواعد احکام سے متعلق موضوعات کو ''اصل'' کی صورت میں یا دداشت کرتے تھے جن کو جمع کر کے ''اصول اربعماة ''وجود میں آئی ہے جو شیعوں کی چار قابل اعتبار کتابوں کی تالیف کا منشاء ہے وہ چار کتابیں:
(١) کافی (شیخ کلینی ،متوفیٰ ٣٢٩ھ ،٦١١٩٩حدیثوں پر مشتمل)
(٢) من لا یحضر الفقیہ (شیخ صدوق ،متوفیٰ ٤٦٠ھ ٩٠٤٤احادیث پر مشتمل)
(٣) تہذیب الاسلام (شیخ طوسی ،متوفیٰ ٤٦٠ھ ١٢٥٩٠حدیثوں پر مشتمل)
(٤) استبصار (شیخ طوسی، ١١٥٥احادیث پر مشتمل ،احصر الاجتہاد ،ص ٤١)
امام زمانہ کی غیبت کبریٰ کے بعد اصول:
امام زمانہ کی غیبت کے بعد ابو محمد حسین ابن علی ابی عقیل نعمانی پہلے شخص ہیں جنہوں نے اصول فقہ کو اختیار کیا فقہ میں ایک کتاب ''التمسک بحبل الرسول ''کے نام سے لکھی (کتاب تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام ص ٣١١، میں پہلے ابو سہل ،نوبختی ،پھر حسن بن موسیٰ نو بختی اور ان دونوں کے بعد ابن جنی کا نام ذکر ہوا ہے ) ان کے بعد محمد بن احمد بن دائود بن علی ابن الحسن متوفیٰ ٣٦٨ھ نے کتاب مسائل الحدیثین المختلفین لکھی ،پھر ابو علی محمد بن احمد بن جنید اسکانی متوفیٰ ٣٨١ھ نے کشف التمویہ والالباس علی اعمار الشیعہ فی امر القیاس اور اظہار ماسترہ اہل العباد میں الرواة عن ائمة العشرة فی امر الاجتہاد ،جیسی کتابیں لکھیں،ان کے بعد شیخ مفید ابو عبد اللہ محمد بن محمد بن نعمان ،متوفیٰ ٤١٣ھ نے کتاب اصول الفقہ لکھی پھر ان کے شاگرد علی ابن الحسین بن موسیٰ بن محمد بن ابراہیم بن موسیٰ کاظم المعروف بہ سید مرتضیٰ ،متوفیٰ ٤٣٦ھ نے کتاب الاربعة الی اصول شریعہ اور سید مرتضیٰ کے بعد ان کے شاگرد ابو جعفر محمد بن الحسن بن علی الطوسی المعروف شیخ طوسی متوفیٰ ٤٦٠ھ نے کتاب عدة الاصول عالم تشیع کو پیش کیں،شیخ طوسی کے ایک صدی تک اجتہاد متوقف ہوگیا اور در حقیقت میں سب ہی مرحوم طوسی کے مقلد تھے (فوائد الاصول ،ج١،ص ١٠) یہاں تک کی شیخ طوسی کے پوتے محمد بن ادریس متوفیٰ ٥٩٨ھ نے کتاب سرائر تحریر کی ،ابن ادریس کے بعد ایک دوسرا مرحلہ شروع ہوا ۔پھر محقق حلی متوفیٰ ٦٧٦ھ کا زمانہ آیا انہوں نے نہج الاصول الی معرفة الاصول اور المعارج لکھیں،پھر محقق حلی کے بھانجے ابو منصور جمال الدین حسن ابن یوسف بن علی بن مطہر المعروف بہ علامہ حلی متوفیٰ ٧٢٦ھ نے متعدد کتابین لکھیں جن میں سے ایک مبادی الاصول الی علم الاصول ہے دسویں صدی ہجری تک تمام علماء علامہ حلی کے نظریات و افکار سے متاثر رہے اس وقت تک کہ ابو منصور جمال الدین حسن بن زین الدین متوفیٰ ١٠١١ھ نے کتاب معالم الدین فی الاصول لکھی۔
ڈاکٹر شہبانی لکھتے ہیں کہ معالم کے لکھے جانے کے بعد سے اصول پر تین زمانے گزرے : زمانہ ٔ توقف، زمانہ گسترشی، زمانہ تلخیص
(١) توقف کا دور :
گیارہویں اور بارہویں صدی ہجری میں اکثر اصولی بحثیں کتاب معالم کے ارد گرد تھیں اور کوئی خاص کتاب سامنے نہیں آئی اور شاید اس کی وجہ ،اخباریوں کا نفوذ تھا جو اصولیوں کے آگے بڑھنے نہیں دیتے تھے(اخباری گری اور اس تفکر کی پیدائش کی وجہ کو ہم آگے بیان کریں گے)
(٢) گسترش کا دور :
تیرہویں صدی ہجری سے آقا محمدباقر بن محمد اکمل المعروف بہ وحیدبہیہانی کے سامنے آنے کی وجہ سے اصول اوراصولیوں نے نئی زندگی پائی اور اخباریوں کی بساط لٹ گئی۔ا س زمانہ میں بعض اصولی کتابوں نے اصول فقہ کو آگے بڑھایا ،مثلا مرزا ابو القاسم گیلانی المعروف بہ میرازی قمی متوفیٰ ١٢٣١ھ کی کتاب قوانین الاصول اور شیخ مرتضیٰ ابن محمد امین المعروف بہ شیخ مرتضیٰ انصاری متوفی
(٣)تلخیص کا دور:
چودہویں صدی ہجری کے شروع سے علمائے اصول نے کوشش کی کہ علم اصول کے حواشی و زوائد کو کم کریں اور اس کو کامل فرمائیں ،ملا محمد کاظم خراسانی متوفیٰ ١٣٢٩ھ المعروف بہ آخوندنے اس دور میں کفایة الاصول لکھی جو آج تک حوزہ کی اہم درسی کتابوں میں سے ہے۔(فوائد الاصول ،ج ١،ص ١٣)
آج حوزات علمیہ نے میرزاری قمی و شیخ مرتضیٰ انصاری وآخوند خراسانی اور ان کے زیر دست شاگرد وں مثلا میرزا حسین تائنی و شیخ ضیاء الدین عراقی ،شیخ محمد حسین اصفہانی المعروف بہ کمیانی اور آخون کے واسطے شاگردوں کے بلند افکار و نظریات سے بہرہ وفائدہ حاصل کیا ہے،اور دور حاضر کے بزرگ ترین اصول امام خمینی اور آیة اللہ خوئی ۔مترجم نے اپنی وسعت اور اجتہاد میں زمان و مکان کے نقش کو پیش کرنے کے ذریعہ اصول استنباط میں ایک عظیم اور جدید تحول ایجاد کیا ہے۔
امام خمینی مجمع تشخیص مصلحت نظام کو ایک پیغام میں لکھتے ہیں آج کے پر آشوب دور میں انتہائی اہم مسائل میں سے ایک ،اجتہاد میں زمان ومکان کا نقش اور ارادہ و پلانگ کی نوعیت ہے (صحیفۂ نور ج ٢١،ص ٦١،٩٨،١٠٠)
اس طرح اپنے ایک دوسرے پیغام میں مراجع و علماء کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اجتہاد کو معنی کرنے والے دو عناصر زمان و مکان ہیں ایک مسئلہ جس کا پہلے حکم تھا ایک نظام کی سیاست اجتہاد اور اقتصاد کی وجہ سے کوئی دوسرا حکم پیدا کرے۔
بایں معنی کہ وہ جدید موضوع جو ظاہراً قدیم سے فر ق نہیں کر رہا ہے اجماعی ،واقتصادی،سیاسی رابط کی دقیق شناخت کی وجہ سے وہ جدید موضوع ہوجائے تو لامحالہ ایک نیا حکم چاہ رہا ہو ۔آگے بیان کرتے ہیں ۔ممکن ہے آئندہ سالوں میں عوام کے امور کے چلانے کا شیوہ وطریقہ بدل جائے ،اور انسانی معاشرہ اپنے مشکلات کے حل کے لئے اسلام کے جدید مسائل کی ضرورت محسوس کرے ،علمائے کرام کو چاہئے کہ ابھی سے اس موضوع کے سلسلے میں کوئی فکر کریں (گذشتہ ماخذ)اخباریت اور اس کے وجود میں آنے کی وجہ سے علمائے شیعہ نے احکام شرعی تک پہونچنے کے دو راستے اختیار کئے یا یہ کہا جائے کہ دو گروہ میں تقسیم ہوگئے ایک اصولی عالم اور ایک اخباری عالم ،جو علماء احکام میں اجتہاد و استنباط کی طرف متوصل ہوئے ان کو اصولی کہا گیا اور جو مشکل کے حل کے لئے صرف روایات کی طرف متوسل ہوئے اور مقام تعارض میں بھی احتیاط کیا انہیں اخباری کہا گیا ۔
(١)اصولیوں کا طریقہ وروش
،علمائے اصول چاروں ادلہ (کتاب ،سنت،اجماع ،عقل )کے ذریعے احکام کو استنباط کرتے ہیں یعنی اکثر فقہاء شیعہ احکام شرعی کے استنباط میں پہلے کتاب الٰہی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اگر مورد حکم نہیں پاتے تو معتبر روایات کی طرف رجوع کرتے اور آیت وروایت کے نہ ملنے کی صورت میں ،عقل کی طرف راجعہ کرتے ہوئے برائت یا احتیاط یا تخییر یا استصحاب کا حکم لگاتے ہیں ،لیکن اجماع ،اگر اجماع سے اور لوگوں کے عقیدے کے مطابق جو استصحاب کی حجیت کو از باب عقل جانتے ہیں ۔)کو معصوم کی رائے کے کشف ہونے کی وجہ سے حجت مانیں تا ایسی صورت میں طبعا ًاجماع کی طرف رجوع در حقیقت عقل کی طرف رجوع ہوگا اور اگر اجماع کو اس جہت سے حجت مانیں کہ اجماع کرنے والوں کے اتفاق سے حا صل کرتے ہیں کہ امام معصوم ،مجمعین کے درمیان ہے تو ایسی صورت میں طبعا اجماع از باب رجوع یہ سنت ،حجت ہوگا ۔
(٢)اخباریوں کا طریقہ وروش
اخباری لوگ اپنے استنباط میں صرف ایسے اخبار (حدیث)سے تمسک کرتے ہیں ،ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو ظواہر قرآن کو بھی حجت نہیں جانتے چونکہ معتقد ہیں کہ قرآن سب کے لئے قابل خیر نہیں ہے بلکہ جن پر قرآن نازل ہو اہے صرف وہی لوگ قرآن کو سمجھ سکتے ہیں (یعنی پیغمبر اور معصومین )پس اخباریوں کے نزدیک ملاک عمل وہ روایتیں ہیں جو کتب چہار گانہ (کافی ، من لایحضر الفقیہ،تہذیب ،استبصار ،)اور دوسری معتبر کتابوں میں ذکر ہوئی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ روایات کے ذریعہ احکام کی تبیین مل چکی ہے ۔لہٰذا امام زمانہ کے غیبت کے بعد سے اخباری ظواہر اخبار (ظاہر حدیث)پر عمل کرتے ہیں اور ایک اصلی کلی (قاعدہ کلیہ ) ان کا ملاک عمل عمل قرار پایا ،اور وہ اصل کلی یہ ہے کہ جس چیز میں بھی حرمت کا احتمال ہو وہ حرام اور جس میں وجوب کا احتمال ہو وہ واجب ہے ۔
اخبار ی گروہ کے مٔوسس میرزامحمد امین استرآبادی (متوفی١٠٢٣ھ ساکن مدینہ )انہوں نے اپنی کتاب الفوائد مدینہ میں اپنے مشرب کی تشریح کی ہے ۔
اخباری گری تفکر کے پیدائش کی وجہ ان کے مندرجہ ذیل عقائد تھے:
١۔اخباری یہ خیال کرتے ہیں کہ علم اصول کے مؤسس مبکر ،اہل سنت ہیں ،اور امامیہ کے درمیان اس طرح کا تفکر امام زمانہ کی غیبت کے بعد وجود میں آیا ،گویا علم اصول کو قبول کرنا مکتب اہل سنت کے قبول کرنے کے مساوی ہے ،پس علم اصول کی بنیاد پر احکام کو استنباط کرنا مذہب اہل بیت کے خلاف ہے۔
(٣)چونکہ اکثر مباحث اصول محبتوں کی بنیاد عقلی قواعد ہے جبکہ ائمہ نے ہم کو تفسیر بالرائے سے منع فرمایا ہے لہٰذامسائل شرعیہ سمجھنے میں عقل کا کوئی دخل نہیں ہے ۔پس مسائل شرعی کو سمجھنے کا واحد راستہ ،نصوص ہیں (علم الاصول تاریخاً وتطوراً،ص ١٥٠)ایک اخباری فقیہ،ابن قیم کا کہنا ہے کہ ،عقل وفلسفہ کی پیداوار ہیں فلاح وکامیابی نصوص کی پیروی میں ہے (مکتب ہائے حقوق درحقوق اسلام ،ص ١١٦)
ملا امین استرآبادی سے نقل ہوا ہے، مدینہ میں میں نے پیغمبر کو خواب کی حالت میں دیکھا ،آنحضرت نے فرمایا ،اٹھو اور میرے دین کو اصولیوں کے ہاتھ سے نجات دو ۔(مرزھا،ص ٩٥)
ملا صدرا کے شاگرد ملا محسن فیض کاشانی فلسفی وعرفانی گرایش کے باوجود اہم اخباریوں میں شمار ہوتے ہیں ۔وہ کتاب الحق المبین میں لکھتے ہیں ،اہل استرآباد میں سے بعض علمائے شیعہ نے ان چیزوں کی طرف ہدایت پائی جن کی طرف میں نے ہدایت پائی تھی ،وہ مکہ میں رہتے تھے اور میں نے مکہ میں انکو دیکھا کہ وہ اخباروروایا ت پر عمل کے واجب ہونے اور طریقۂ اجتہاد کے طرد کے قائل تھے ،وہ اس سلسلے میںصحیح راستے پرتھے اور ہمیشہ کے لئے یہ درازہ ہمارے لئے کھولا اور صحیح راستے کی طرف ہماری توجہ کا سبب ہوئے (لیکھارہ اندیشہ ،شمارہ٣٢،ماہ مہردآبان ٩٦ھ ش)
اخباری افکار نے ایک صدی تک علمائے اور حوزات علمیہ کو متاثر کیا اور تیسری صدی میں محمد باقر ایں محمد اکمل المعروف وحید بھبھانی کے سامنے آنے تک یہی طریقہ چلتارہا ۔اگرچہ وحید بھبھانی نے پہلے کے علماء نے بھی کوششیں کیں حتیٰ کہ فاضل توئی ،سید حسین خوانساری ،سلطان العلماء ،اور محقق شیروانی جیسے اصولیوں نے علم اصول میں کتابیں لکھیں ، لیکن پھر بھی اخباری تفکر حوزات علمیہ پر مسلط رہا ۔
محقق خوانساری اپنی کتاب روضات الجنات میں جناب وحید بھبھانی کے سامنے آنے سے پہلے ،اخباریوں کے تسلط کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔عراقی شہر خاص کر کربلا ونجف ،اخباریوں سے بھرے ہوئے تھے ۔حتیٰ ان میں سے بعض اتنے متعصب وجاہل تھے کہ کو ئی ہمت نہیں کرتا تھا کہ اصولی فقہا کی کتابوں میں سے کوئی کتاب اعلانیہ طور پر اپنے ساتھ لیکر چلے اور اصولی کتابیں پوشیدہ طور پر اور لوگوں کی نظروں سے مخفی کرکے ہوتیں تھیں ۔
جب سے وحید بھبھانی سامنے آئے تو ان کے استدلال کی وجہ سے اور حوزہ علمیہ نجف اشرف پر تسلط اور ریاست کی وجہ سے اصولیوں کا مشرب غالب آیا اور اخباری گری ماند پڑگئی ۔پھر جلیل القدر وبزرگ اصولی جناب شیخ مرتضیٰ انصاری نے خاص نبوغ کی وجہ سے اصولی تفکر کو زندہ کرنے میں بنیادی رول ادا کیا اور آج حوزات علمیہ میں اخباریوں کے تفکر کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔(استفادہ از ''فرھنگ اصطلاحات تشریحی)سید محمد حسنین باقری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں