جمعہ، 3 جون، 2011

جوان، نو جوانی اور اسلام


جوان، نو جوانی اور اسلام
نوجوانی ہر انسان کی زندگی کی ایک درخشاں حقیقت اور بے بدل اور عدیم المثال باب ہے۔ جس ملک یا جس معاشرہ میں نوجوانوں کے مسائل پر کماحقہ توجہ دی جاتی ہے وہ ملک یا معاشرہ ترقی کی راہ میں بڑی کامیابیاں حاصل کرتا ہے۔ یہ نوجوانی، یہ ضوفشاں دور وہ دور ہے کہ جو اپنی کم طوالت کے باوجود انسان کی پوری زندگی پر طویل المیعاد اور دائمی اثرات مرتب کرتا ہے۔
جس طرح نوجوانوں کے جسم انرجی اور شادابی کی آماجگاہ ہوتے ہیں ان کی روح بھی اسی طرح شاداب ہوتی ہے۔ اس متنفس کو اس کی فکری توانائی، اس کی عقلی صلاحیت، اس کی جسمانی طاقت، اس کی اعصابی قوت اور اس کے ناشناختہ پہلوؤں کے ساتھ اللہ تعالی نے خلق فرمایا ہے تاکہ وہ ان قدرتی نعمتوں اور اس مادی دنیا کو وسیلے کے طور پر استعمال کرے اور خود کو قرب الہی کے بلند مقامات پر پہنچائے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نوجوانوں کے بارے میں بڑی تاکیدات فرمائی ہیں۔ آپ نوجوانوں کے ساتھ بہت مانوس تھے اور آپ نے کارہائے بزرگ کی انجام دہی میں نوجوانوں کی طاقت سے استفادہ کیا۔ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام مکے میں اپنی نوجوانی کے ایام میں فداکار، با ہوش ،سرگرم و فعال اور پیش قدم نوجوان کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔ پر خطر میدانوں میں سینہ سپر ہو جاتے اور دشوار ترین کام اپنے ذمے لے لیتے تھے۔ آپ نے اپنی فداکاری و جاں نثاری سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدینہ کی جانب ہجرت کی راہ ہموار کی، اس کے بعد آپ مدینہ منورہ میں بھی فوج کے سپہ سالار، فعال دستوں کے قائد، عالم، دانشمند، سخی اور شجاع انسان کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔ میدان جنگ میں آپ پیش قدم سردار لشکر اور جانباز سپاہی تھے، حکومتی اور انتظامی امور میں آپ ایک مدبر انسان تھے، سماجی امور میں آپ ہر لحاظ سے پیش پیش رہنے والے شخص تھے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی دس سال اور چند مہینوں کی حکومت میں صرف علی علیہ السلام کی با عظمت ذات سے ہی نہیں بلکہ بنیادی طور پر نوجوانوں سے بھرپور استفادہ کیا۔
نوجوان حق بات کو آسانی سے قبول کر لیتا ہے، یہ بہت اہم ہے۔ نوجوان پوری صداقت کے ساتھ واضح الفاظ میں اپنا اعتراض بیان کرتا ہے اور بغیر کسی اندرونی جھجک اور پس و پیش کے بے فکری کے ساتھ اقدام کرتا ہے۔ یہ بھی بہت اہم بات ہے۔ آسانی سے بات کا قبول کرنا، سچائی کے ساتھ اپنا اعتراض بیان کر دینا اور بے فکری کے ساتھ عمل کرنا۔ اگر آپ ان تینوں خصوصیات کو ایک ساتھ رکھئے اور غور کیجئے تو آپ کو بڑی خوبصورت اور دلکش حقیقت نظر آئے گی، آپ کو معلوم ہوگا کہ مسائل کے حل کی کتنی اہم کنجی آپ کو مل گئی ہے۔
نوجوان فطری طور پر اصلاح پسند ہوتا ہے۔ فطری طور پر عدل و انصاف کا خواہاں ہوتا ہے، قانونی آزادی اور اسلامی امنگوں کو عملی جامہ پہنائے جانے کا خواہشمند ہوتا ہے۔ اسلامی اہداف اور مقاصد اس کے اندر ہیجانی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں، اس کے اندر جوش و جذبہ پیدا کر دیتے ہیں۔ اس کے ذہن میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی جو تصویر ہے وہ اسے ہیجان میں مبتلا کر دیتی ہے۔ مقائسے اور موازنے کے ذریعے چیزوں کی خامیوں کی نشاندہی کرکے انہیں دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بہت بڑی اور بالکل نمایاں خصوصیت ہے۔
نوجوانی کے قابل تعریف خصائص میں، توانائی، قدرت، جدت عمل اور جوش و جذبہ ہے۔ کیا نوجوان کی یہ خصوصیات اکتسابی ہیں یعنی کیا اس نے یہ خصوصیات اپنے اندر پیدا کی ہیں؟ نہیں، انصاف پسندی، جوش و جذبہ، بلند ہمتی یہ خصوصیات جو نوجوان میں پائی جاتی ہیں وہ ایسی نہیں ہیں کہ اس نے ان کے لئے خاص محنت کی ہو۔ یہ تو اس کی زندگی اور اس کی عمر کے اس مرحلے کا فطری تقاضا ہے۔ بنابریں یہ عطیات ہیں، تو ظاہر ہے کہ اس کے جواب میں کچھ فرائض بھی ہوں گے جنہیں پورا کیا جانا چاہئے۔
یہ صرف ماں باپ ہی نہیں ہیں جو جوانوں کے ذمہ دار ہیں بلکہ اساتذہ،قوم کے بزرگ افراد،علماء ،تعلیمی عہدہ دار، سیاسی حکام، معاشی منصوبہ ساز، سب کو ان افراد میں شمار کیا جاتا ہے جو نوجوانوں کے ذمہ دار کہلاتے ہیں۔ 
ایک طریقہ تو یہ ہے کہ یہ افراد، دانشمندانہ، عاقلانہ اور عالمانہ انداز اختیار کرتے ہوئے سب سے پہلے اس دریا کی اہمیت و افادیت کو پہچانیں، دوسرے مرحلے میں ان جگہوں اور مراکز کی نشاندہی کریں جنہیں اس دریا کے پانی کی ضرورت ہے، تیسرے مرحلے میں منصوبہ بندی اور پانی کی سپلائی کا نیٹ ورک تیار کریں اور پھر پانی کو جہاں جہاں ضرورت ہے، پہنچائیں۔ یہ کر لیا گیا تو ہزاروں باغ اور لالہ زار چمن اس لا محدود نعمت الہی سے بہرہ مند ہوں گے اور بے آب و گیاہ خطوں میں شادابی دوڑ جائے گی۔ اس دریائے متلاطم کے پانی کو انرجی پیدا کرنے والے ڈیم تک بھی پہنچایا جا سکتا ہے اور اس طرح انرجی کا ایک عظیم سرچشمہ تیار کیا جا سکتا ہے اور پورے سماج کو فعالیت اور سعی و کوشش کے لئے آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر اس سلسلے میں یہ طرز عمل اختیار کیا جائے تو یہ نعمت ثمر بخش اور بارآور بن جائے گی جس پر اگر معاشرے کا ہر فرد روزانہ سیکڑوں بار سجدہ شکر بجا لائے تو بھی کم ہے۔ اس طرح کے طرز عمل کا لازمہ ہے منصوبہ بندی کرنا، رہنمائی کرنا، راستوں اور میدانوں کو کھولنا، احتیاجات کو متعین کرنا اور اس گراں بہا پونجی اور اس ہدیہ الہی کو ضرورت کی جگہ پر رکھنا ہے۔ جس کا نتیجہ شادابی، تازگی، تعمیر و ترقی، جوش و جذبے اور برکت و رحمت کی شکل میں نکلے گا۔
دوسرا طرز عمل یہ ہے کہ یہ افراد اس موجزن اور فیض رساں دریا کو اس کی حالت پر چھوڑ دیں، اس کے بارے میں کوئی فکر کرنے کی زحمت نہ کریں، اس کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہ کریں اور اس کی قدر و قیمت نہ سمجھیں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ نہ صرف کھیتیاں سوکھ جائیں گی اور باغ اجڑ جائیں گے بلکہ خود یہ پانی بھی ضائع ہوگا۔ اس صورت حال میں اس پانی کا بہتر انجام یہی ہو سکتا ہے کہ وہ سمندر کے کھارے پانی میں مل کر ضائع ہو جائے، یا پھر دلدل یا ایسے مرکز میں تبدیل ہو جائے جو انواع و اقسام کی آفات و بلیات کی جڑ شمار کئے جاتے ہیں، بد ترین صورت حال یہ ہو سکتی ہے کہ ایک سیلاب کا روپ اختیار کرکے قوم کی ساری جمع پونجی کو مٹا دے۔ اگر منصوبہ بندی نہ ہوئی اور محنت سے کام نہ کیا گیا تو یہی نتائج نکلیں گے۔
علمی، اخلاقی اور جسمانی خود سازی وہ توقعات ہیں جو نوجوانوں سے کی جا سکتی ہیں اور خود نوجوانوں کو بھی اس خود سازی کی احتیاج ہے۔ نوجوان کو چاہئے کہ خود فیصلہ کرے اور اپنی زمین پر اپنی پسند کا بیج بوئے، اپنی ثقافتی دولت اور جمع پونجی سے استفادہ کرے، اپنے ارادے کو بروئے کار لائے، اپنی شخصیت اور اپنی خود مختاری کو اہمیت دے۔ دوسروں کی تقلید اور اغیار کے آئیڈیل کی نقل نہ کرے۔
نوجوانوں کو تقلید کا اسیر نہیں ہونا چاہئے۔ جس روش اور جس راہ پر چل کر ان کا ذہن، ان کا ارادہ اور جذبہ ایمانی تقویت پاتا ہو اور جس پر چل کر وہ اخلاقی خوبیوں سے آراستہ ہو سکتے ہوں اسی راستے کے بارے میں انہیں فکر کرنا چاہئے۔ ایسی صورت میں نوجوان اس ستون میں تبدیل ہو جائے گا جس پر ملک کی تمدنی زندگی اور اس قوم کی حقیقی تہذیب کا تکیہ ہے۔
نوجوانوں کے لئے جو چیزیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں ان میں ایک آگاہانہ احساس ذمہ داری ہے۔ نوجوان میں توانائی اور انرجی بھری ہوتی ہے اور وہ حساس بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ احساس ذمہ داری سے مراد یہ ہے کہ انسان جس طرح زندگی، معیشت، روزگار، شادی بیاہ اور اپنی ذات سے متعلق دیگر چیزوں کی فکر میں رہتا ہے، ان اہداف و مقاصد کے لئے بھی فکرمند رہے جو اس کی ذاتی زندگی سے بالاتر ہیں، وہ اہداف جو صرف اس کی ذات تک محدود نہیں ہیں بلکہ ایک گروہ ، ایک قوم ، تاریخ اور تمام انسانیت سے متعلق ہیں۔
انسان کے اندر ان اہداف کے تعلق سے بھی احساس ذمہ داری، فرض شناسی اور پابندی ہونا چاہئے۔ کوئی بھی انسان اور کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک سعادت و خوشبختی کی بلند چوٹیوں پر نہیں پہنچ سکتا جب تک اس کے اندر یہ احساس ذمہ داری اور فرض شناسی پیدا نہ ہو جائے۔ یہ احساس ذمہ داری اور فرض شناسی آگاہانہ انداز میں ہونی چاہئے، انسان کو پتہ ہونا چاہئے کہ وہ کس ہدف و مقصد کی جانب بڑھ رہا ہے اور راستے میں کون سی رکاوٹیں موجود ہیں۔ اسی کو آگاہانہ احساس ذمہ داری اور فرض شناسی کہتے ہیں۔
نوجوان اپنے معاشرے کے امور کے سلسلے میں بہت حساس ہوتا ہے۔ معاشرے یعنی اس فضا میں جس میں نوجوان سانسیں لے رہا ہے اگر تفریق و امتیاز ہو تو وہ آزردہ خاطر اور رنجیدہ ہوتا ہے، اگر گھر کے اندر تفریق نظر آئے تو نوجوان کبیدہ خاطر ہو جاتا ہے، اگر اسکول اور کلاس کے اندر اسے تفریق و امتیاز دکھائی دیتا ہے تو اس کو دلی تکلیف پہنچتی ہے۔ بعض افراد ایسے بھی ہیں جو ان سماجی برائیوں اور آفتوں کے سلسلے میں بے حسی کا شکار ہو گئے ہیں یا اپنی ذاتی زندگی اور امور میں مستغرق ہیں، یا پھر دیکھتے دیکھتے اسی کے عادی ہو گئے ہیں۔ نوجوان ایسا نہیں ہوتا۔ نوجوان جذباتی ہوتا ہے۔ اگر معاشرے میں انصاف و مساوات نہ ہو تفریق و امتیاز ہو تو نوجوان کو دکھ ہوتا ہے۔ اگر معاشرے میں بد عنوانیاں پھیل جائیں تو وہ نوجوان جو اپنے ملک کے وقار کا متمنی ہے یقینا آزردہ خاطر ہوگا۔ اگر کہیں قومی جوش و جذبے کا معاملہ ہو تو وہاں نوجوانوں کی فرض شناسی قابل دید ہوتی ہے۔ ایران پر مسلط شدہ جنگ کے دوران امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ایک اشارے پر اور محاذوں میں سے کسی محاذ کی ایک درخواست پر نوجوان جوق در جوق محاذوں کی سمت دوڑ پڑتے تھے، حالانکہ ان کو یہ یقین ہوتا تھا کہ سامنے خطرات موجود ہیں۔ ہر معاشرے میں نوجوانوں کی یہ مشترکہ خصوصیت ہے، تاہم جن معاشروں میں ایمان و روحانی اقدار ہیں وہاں یہ خصوصیت زیادہ نظر آتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں جب دفاع کا مسئلہ، قومی حمیت کا معاملہ اور عز و وقار اور آزادی و خود مختاری کی حفاظت کی بات آ جاتی ہے تو نوجوان بے لوثی اور بے غرضی کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں اور اقدام کرتے ہیں، انہیں اپنی زندگی اور اپنے چین و سکون کی ذرہ برابر فکر نہیں ہوتی، وہ پر خطر وادی میں اتر جاتے ہیں۔
ایک مجاہد نوجوان کے لئے جو چیزیں لازمی ہیں ان میں تعلیم کا حصول، سستی و کاہلی کا مقابلہ، گومگو کی کیفیت سے چھٹکارا اور غور و فکر کی عادت ہے۔ نوجوانوں کو چاہئے کہ مختلف امور میں غور و فکر کرنے کی عادت ڈالیں، یہ بھی ایک طرح کا جہاد ہے۔ ہر انسان بالخصوص نوجوان نسل کے لئے بہت بڑے خطرات میں سے ایک یہ ہے کہ واقعات و حادثات اور معاشرے کی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں سے لا تعلق بنا رہے۔ نوجوانوں کے افکار و نظریات کو صحیح سمت و رخ عطا کرنا بہت بڑی ذمہ داری ہے اور بعض افراد ہیں جن کے دوش پر یہ فریضہ ہے تاہم اس کے ساتھ ہی نوجوانوں کا بھی یہ فریضہ ہے کہ مختلف امور کے سلسلے میں غور و فکر کریں اور سوچ سمجھ کر اپنی راہ پر آگے بڑھیں۔ چھوٹے بڑے ہر واقعے کے سلسلے میں تدبر اور غور و فکر کرنے کی عادت ڈالیں، مطالعہ کریں، جائزہ لیں۔ اگر کسی نے غور و فکر اور تدبر کی اپنی عادت ڈال لی اور اہل فکر و نظر میں شامل ہو گیا تو دوسروں کے مشوروں سے بھی استفادہ کرے گا۔ جو چیزیں غور و فکر سے انسان کو روک دیتی ہیں ان میں بد عنوانی اور مایوسی کے دام میں پھنس جانا ہے۔ بنابریں نوجوانوں کا ایک بڑا جہاد مایوسی اور بد عنوانی کے علل و اسباب کا ازالہ کرنا ہے۔
نوجوان سب سے پہلے مرحلے میں تعلیم، نوکری، روزگار اور مستقبل کی فکر میں رہتا ہے۔ مستقبل کو روشن اور یقینی بنانا اس کے نزدیک بہت اہم ہوتا ہے۔ اپنا گھر بسانا اور ہمت و حوصلے کے مطابق علمی سرگرمیاں انجام دینا بھی اس کے لئے بہت اہم ہوتا ہے، شادمانی و ہیجانی کیفیت کا بھی وہ دلدادہ ہوتا ہے۔ انسان کے اندر پائی جانے والی جمالیاتی حس نوجوان میں زیادہ قوی ہوتی ہے، انسانی جذبات و احساسات بھی نوجوان کے اندر زیادہ قوی ہوتے ہیں۔ یہی نوجوان کے شخصی اور ذاتی مسائل و امور ہیں لیکن نوجوان کی فکرمندی یہیں تک محدود نہیں ہے۔
نوجوان کو جو فکریں لاحق رہتی ہیں ان میں روحانیت و معنویت کی بھی فکر ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس پر منصوبہ سازوں اور ذمہ دار افراد کی پوری توجہ ہونا چاہئے۔ نوجوانی کے دور میں ایک عمومی مذہبی و عرفانی جذبہ غالب رہتا ہے۔ نوجوانوں کی قلبی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تعالی، روحانیت کے اس مرکز اور حقیقت کے اس محور سے رابطہ و رشتہ قائم کریں چنانچہ مذہبی پروگراموں میں نوجوان بڑی دلچسپی و رغبت سے شرکت کرتے ہیں۔ جہاں بھی مذہبیت کا رنگ پھیکا نہیں پڑا ہے وہاں نوجوان آپ کو حاضر ملیں گے۔
البتہ بہت سے مذاہب میں، دنیا کے بہت سے ممالک میں مذہبی روحانیت و معنویت کے جلوے نظر نہیں آتے تو نوجوان ان مذاہب سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ اس پر توجہ نہیں دیتے لیکن جس معاشرے میں مذہب کی قدر و قیمت پہچانی جاتی ہے، جہاں مذہب میں جان ہے اور خاص پیغام ہے معرفت و عرفان ہے اور مذہب نوجوان کو روحانیت و معنویت و جوش و جذبہ عطا کرتا ہے وہاں نوجوان مذہب کی جانب راغب نظر آتے ہیں۔
عبادت انسانوں کے دلوں اور روحوں کی تطہیر کا عمل ہے۔ عبادت انسان کا گوہر بیش بہا ہے۔ جن لوگوں کے سر سجدہ حق سے محروم ہیں وہ روحانیت و معنویت کی لذت سے بھی نابلد ہیں۔ خدا کی ذات سے انسیت، اللہ تعالی سے راز و نیاز، خدائے وحدہ لا شریک لہ سے طلب حاجت، اس کی بارگاہ میں اپنے غموں اور دکھوں کا شکوہ، غنی مطلق خدا سے اپنی خواہشات کا اظہار، اعلی اہداف کے حصول کے لئے اللہ تعالی سے طلب نصرت و مدد، یہ چیزیں انسان کو عبادت سے ملتی ہیں۔ بہترین عبادت گزاروں کا تعلق نوجوانوں کے طبقے سے ہوتا ہے۔ نوجوان کی عبادت میں زیادہ انہماک و ارتکاز، جوش و جذبہ اور روحانیت ہوتی ہے اور اس کی دعائیں زیادہ مستجاب ہوتی ہیں۔
نوجوان کے اندر نوجوانی کے ایام بالخصوص اس دور کی ابتدا میں بہت سی خواہشات ہوتی ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ چونکہ اس کی نئی شخصیت کی تعمیر ہو رہی ہوتی ہے لہذا وہ مائل ہوتا ہے کہ اس کی اس نئی شخصیت کو با قاعدہ تسلیم کیا جائے جبکہ اکثر و بیشتر یہ ہو نہیں پاتا اور والدین نوجوان کی نئی شخصیت اور شناخت کو تسلیم نہیں کرتے۔ دوسرے یہ کہ نوجوان کے اندر اپنے الگ قسم کے احساسات و جذبات ہوتے ہیں۔ اس کا روحانی و جسمانی نشو نما ہو رہا ہوتا ہے اور اس کے قدم ایک نئی وادی میں پڑ رہے ہوتے ہیں، اکثر و بیشتر یہ ہوتا ہے کہ ارد گرد کے لوگ، خاندان کے افراد اور معاشرے کے لوگ اس نئی وادی اور نئی زندگی سے ناآشنا ہوتے ہیں یا پھر اس پر توجہ ہی نہیں دیتے۔ ایسے میں نوجوان میں احساس تنہائی اور اجنبیت پیدا ہونے لگتا ہے۔ بڑے بوڑھوں کو چاہئے کہ اپنے نوجوانی کے ایام کی یاد کو تازہ کریں۔ اوائل بلوغ کا مرحلہ ہو یا بعد کا نوجوان کو نوجوانی کے دور میں بہت سی ایسی چیزوں کا سامنا ہوتا ہے جو ان کے لئے نا آشنا اور نامعلوم ہوتی ہیں۔ اس کے سامنے متعدد نئے سوال آتے ہیں جو جواب طلب ہوتے ہیں۔ اس کے ذہن میں شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں اور وہ ان سوالات اور شکوک و شبہات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ اسے تشفی بخش اور مناسب جواب نہیں دیا جاتا نتیجے میں نوجوان کو خلا اور ابہام کا احساس ہوتا ہے۔ نوجوان کے اندر یہ بھی نیا احساس پیدا ہوتا ہے کہ اس کے اندر توانائیاں اور انرجی بھری ہوئی ہے، وہ اپنے اندر جسمانی اور فکری و ذہنی دونوں طرح کی توانائیاں پاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو توانائی اور انرجی نوجوان کے اندر بھری ہوتی ہے وہ اس کے ذریعے سے کرشماتی کام انجام دے سکتا ہے، اس میں پہاڑوں کو ان کی جگہ سے ہٹا دینے کی صلاحیت ہوتی ہے لیکن نوجوان دیکھتا ہے کہ اس کی اس توانائی اور انرجی سے استفادہ نہیں کیا جا رہا ہے نتیجے میں اسے لگتا ہے کہ وہ عبث اور بے کار گھوم رہا ہے۔ اس کے علاوہ نوجوانی میں انسان کو پہلی بار ایک بڑی دنیا کا سامنا ہوتا ہے جس کا سامنا اس نے پہلے نہیں کیا ہوتا ہے، اسے اس دنیا کی بہت سی چیزوں کے بارے میں کچھ نہیں معلوم ہوتا ہے۔ اسے زندگی کے بہت سے ایسے واقعات اور تبدیلیوں کا سامنا ہوتا ہے جن کے بارے میں اسے نہیں معلوم کہ کیا کرنا چاہئے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ اسے کسی رہنمائی کرنے والے اور راستہ بتانے والے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب ماں باپ کی چونکہ مصروفیات زیادہ ہیں تو وہ نوجوان پر توجہ نہیں دے پاتے اور اس کی فکری مدد کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں جو ذمہ دار مراکز ہیں وہ اکثر و بیشتر وہاں جہاں انہیں کام کرنا چاہئے موجود نہیں ہوتے نتیجے میں نوجوان کو مدد نہیں مل پاتی اور نوجوان کو کسمپرسی کا احساس ستانے لگتا ہے۔
نوجوان چاہتا ہے کہ مذہبی اور دینی باتیں اسے بتائی اور سمجھائی جائیں۔ آج کا نوجوان چاہتا ہے کہ اپنے دین کو عقل و منطق اور دلیل و استدلال کی روشنی میں سمجھے، یہ بالکل بجا خواہش ہے۔ اس خواہش اور مطالبہ کی تعلیم تو خود دین نے لوگوں کو دی ہے۔ قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے سلسلے میں فکر و نظر اور فہم و تدبر کے ساتھ آگے بڑھیں۔ متعلقہ ذمہ دار افراد اگر نوجوانوں میں یہ فکری عمل رائج کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ دیکھیں گے کہ نوجوان دینی احکامات و تعلیمات پر عمل آوری سے بہت مانوس ہو گیا ہے۔
نوجوانوں کے اندر جنسیاتی پہلو ایک تشویشناک چیز ہے اور بر وقت شادی کرنے اور گھر بسانے سے اس تشویش کو برطرف کیا جا سکتا ہے۔ نوجوانوں کی شادی کے سلسلے میں میرا تو یہ خیال ہے کہ اگر اس رسم و رواج اور اسراف و زیادہ روی سے پرہیز کیا جائے جو بد قسمتی سے ہمارے درمیان پھیلتی جا رہی ہے تو نوجوان اس موقع پر جب انہیں ضرورت ہے شادی کر سکتے ہیں۔ نوجوانی کی عمر شادی کے لئے بہت مناسب عمر ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ مغربی ثقافت کی اندھی اور کورانہ تقلید کے نتیجے میں بہت پہلے سے خاندانوں کے اندر یہ غلط رواج آ گیا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شادی تاخیر سے ہونا چاہئے، جبکہ اسلام میں یہ نہیں ہے۔ اسلام کی نظر میں تو شادی، آغاز نوجوانی کے بعد جتنی جلدی کر دی جائے بہتر ہے۔
عصر حاضر میں جدید ٹکنالوجی کا سہارا مل جانے کے بعد ثقافتی یلغار اور بھی خطرناک ہو چکی ہے۔ نوجوانوں کے ذہن و دل اور فکر و نظر تک رسائی کے سیکڑوں اطلاعاتی راستے اور وسائل موجود ہیں۔ ٹی وی، ریڈیو اور کمپیوٹر سے متعلق انواع و اقسام کی روشوں کا استعمال کیا جانے لگا ہے اور نوجوانوں میں گوناگوں شکوک و شبہات پیدا کئے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر جب یورپیوں نے اندلس کو مسلمانوں سے واپس لینے کا ارادہ کیا تو دراز مدت پالیسی تیار کی۔ ان دنوں صیہونی نہیں ہوا کرتے تھے لیکن دشمنان اسلام اور سیاسی مراکز اسلام کے خلاف تب بھی سرگرم عمل تھے۔ انہوں نے نوجوانوں کو گمراہ کرنا شروع کر دیا۔ یہ کام وہ دینی اور سیاسی عوامل کے تحت انجام دے رہے تھے۔ ایک کام یہ کیا گیا کہ انہوں نے کچھ مخصوص مقامات معین کر دئے جہاں نوجوانوں کو مفت شراب پلائی جاتی تھی! نوجوانوں کو (فاحشہ) لڑکیوں اور عورتوں کے جال میں پھنسایا گیا تاکہ وہ شہوت پرستی میں مبتلا ہو جائیں۔ زمانہ گزر جانے کے بعد بھی کسی قوم کو آباد یا برباد کرنے والے اصلی طریقے بدلتے نہیں ہیں۔ آج بھی وہ یہی سب کچھ کر رہے ہیں۔
انسان کا ایک بد ترین دشمن جو خود اس کے اندر جنم لیتا ہے، سستی، کاہلی، کام چوری اور کام میں دل کا نہ لگنا ہے۔ اس دشمن سے سختی کے ساتھ نمٹنا چاہئے۔ اگر نوجوان اس دشمن کا مقابلہ کرنے اور اسے زیر کرنے میں کامیاب ہو گیا تو باہری دشمن کی ملک پر یلغار کی صورت میں بھی دشمن پر غالب آ جائے گا۔ اس اندرونی دشمن پر قابو پا لیا تو اس باہری دشمن کو بھی مغلوب کر لے جائے گا جو ایک ملت کے وسائل اور ذخائر کو لوٹ لینے کی کوشش کر رہا ہے اور اگر کہیں انسان اپنی کاہلی پر قابو نہ پا سکا، بلکہ الٹے کاہلی ہی اس پر غالب آ گئی تو جب بھی فرائض اسے کسی میدان میں اترنے پر آمادہ کریں گے وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہی رہے گا۔ جو شخص درس، کام، عبادت اور گوناگوں خاندانی، سماجی اور دیگر فرائض کی انجام دہی کے لئے تیار نہیں ہوتا اور سستی و آرام طلبی میں پڑا رہتا ہے اسے یہ دعوی کرنے کا حق نہیں کہ اگر باہری دشمن نے اس پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی تو وہ دشمن کے مقابلے میں فتحیاب ہوگا۔
سامراج نوجوان نسل کے لڑکے لڑکیوں کو جو عزم و ارادے اور طہارت و پاکدامنی کے ساتھ دین و روحانیت اور عالم اسلام کی صف اول میں سرگرم عمل ہوں، ہرگز پسند نہیں کرتا۔ وہ گمراہ اور بے راہرو نوجوان نسل دیکھنا چاہتے ہیں، اسے یہ پسند ہے۔ دشمن کی خواہشات کے بر خلاف مسلم نوجوان کو چاہئے کہ ثابت قدمی کا مظاہر کرے۔ تمام ذمہ داروں کو چاہئے کہ سب سے پہلے کمر ہمت کسیں، کسی شخص اور کسی چیز سے خوفزدہ نہ ہوں، دشمن کی ہنگامہ خیزی سے مرعوب نہ ہوں۔ یہ عظیم قومی محاذ ان کے اختیار میں ہے، انہیں چاہئے کہ اس سے بھرپور استفادہ کریں۔ قوم کے افراد بالخصوص نوجوانوں کو چاہئے کہ اپنی قدر و منزلت کو سمجھیں اور خود سازی پر توجہ دیں۔
صحتمند انسانی و الہی فطرت ایک خدائی دولت ہے۔ نوجوانوں کو چاہئے کہ اس فطرت سے بھرپور استفادہ کریں اور گناہوں کے مقابلے میں مضبوط قوت ارادی کا مظاہرہ کریں۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ انسان گناہوں کے سلسلے میں اپنے نفس کو قابو میں نہیں رکھ سکتا۔ جی نہیں، ایسا نہیں ہے کہ یہ محال ہو۔ ہاں اس کے لئے مشق ضروری ہے۔ نوجوانی کے ایام میں جو نوجوان فیصلہ کر لیتے تھے کہ اپنی قوت ارادی کو مضبوط کریں گے وہ اپنی نفسانی خواہشات کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہتے تھے۔ اسلام میں روزہ جو واجب قرار دیا گیا ہے، در حقیقت اسی راہ میں کی جانے والی مشق ہے۔ انسان کبھی کبھی کسی گناہ کی جانب کھنچا چلا جاتا ہے۔ لیکن جب انسان اس گناہ کی جانب بڑھ رہا ہوتا ہے تو کیا وہ واقعی بے اختیار ہو جاتا ہے؟ گناہ کی غلاظت میں ڈوب جانے کے علاوہ کیا واقعی کوئی راستہ اس کے پاس نہیں ہوتا؟ اکثر و بیشتر تو یہ ہوتا ہے کہ فیصلہ انسان کے ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن نفسانی خواہشات اور وسوسے اسے فیصلہ نہیں کرنے دیتے۔ اگر انسان نے اپنی عمر ان وسوسوں کی رو میں بہتے ہوئے گزار دی تو پھر بڑھاپے میں وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پائے گا، یہ اس کے لئے بے حد دشوار اور سخت ہوگا لیکن نوجوان میں اس کی ضروری طاقت و قوت موجود ہوتی ہے۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ گناہ و معصیت سے دوری تو بڑھاپے کا کام ہے، جبکہ بوڑھوں کا عالم یہ ہوتا ہے کہ جس طرح ان کے جسمانی اعضا کمزور اور مضمحل ہو چکے ہوتے ہیں اسی طرح ان کی روحانی طاقت بھی ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ نوجوان میں فیصلہ کرنے اور ثابت قدم رہنے کی طاقت زیادہ ہوتی ہے۔
جو نوجوان قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ انہوں نے تا حیات فکری اور ذہنی ذخیرہ تیار کر لیا ہے۔ یہ بے حد قیمتی چیز ہے۔ ممکن ہے کہ نوجوانی کے ایام میں آیات قرآنی سے گہرے مفاہیم اور تعلیمات کا استنباط نہ ہو سکے اور نوجوان صحیح طور پر اس کا ادراک نہ کر پائے، ممکن ہے کہ نوجوان کو قرآنی تعلیمات کی بہت سطحی باتیں ہی سمجھ میں آ سکیں لیکن جیسے جیسے وہ علمی پیشرفت کرے گا اور اس کی معلومات میں اضافہ ہوگا وہ اپنے حافظے اور ذہن میں موجود آیات قرآنی سے اور زیادہ استفادہ کرنے کے لائق ہوگا۔ ذہن انسانی میں قرآن کا نقش ہو جانا بہت بڑی نعمت ہے۔ ایک شخص ہے جو کسی موضوع پر کوئی آیت تلاش کرنے کے لئے بارہا قرآن کی فہرست اور آیات کو متلاشی نظروں سے دیکھتا ہے اور دوسرا شخص ہے کہ آیات قرآنی اس کے ذہن و دل اور آنکھوں کے بالکل سامنے ہیں اور وہ انہیں با قاعدہ دیکھ رہا ہوتا ہے اور اسلامی تعلیمات کے ہر شعبے میں ضرورت کے مطابق وہ قرآن سے استنباط اور استدلال کرتا ہے، ان پر غور و فکر کرتا ہے اور ان سے استفادہ کرتا ہے، دونوں میں بہت فرق ہے۔ بچپنے اور لڑکپن سے لیکر نوجوانی تک قرآن سے انس بہت بڑی نعمت ہے۔
نوجوانوں کو چاہئے کہ اللہ تعالی پر توکل کریں، اس سے طلب نصرت و مدد کریں، اپنے قلوب میں ایمان کو مضبوط کریں، یہ کامیابیاں بہت اہم ہیں، خود اس نوجوان کی شخصی کامیابی کے لحاظ سے بھی اور قومی کامیابی کی نظر سے بھی، انہیں چاہئے کہ ایمان کو کمزور کرنے والے عوامل و اسباب کو یہ موقع نہ دیں کہ وہ دیمک کی مانند ایمان کی جڑوں کو چاٹ جائیں۔
اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور توجہ اس لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے نفس اور اپنے دل کو مستحکم اور قوی بنا سکیں۔ واقعی اگر ہمارے اندر ہماری اندرونی ساخت محکم بنی رہی تو کوئی بھی بیرونی مشکل ہمیں مغلوب نہیں کر سکے گی۔ اپنے باطن اور اپنے دل کو اس طرح محکم بنانے کی ضرورت ہے کہ تمام ظاہری جسمانی اور ارد گرد کی خامیوں، کمیوں اور کمزوریوں پر قابو پایا جا سکے۔ یہ چیز توکل علی اللہ سے حاصل ہوتی ہے۔
نوجوانوں کو چاہئے کہ اپنے طبقے کے اندر تلاش و جستجو، امید و بلند ہمتی، خود اعتمادی کے جذبے اور اس خیال کو کہ " ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں" تقویت پہنچائیں۔ عربوں کے یہاں ایک کہاوت ہے " ادل دلیل علی امکان شی وقوعہ" اس بات کی محکم ترین دلیل کہ ایک چیز دائرہ امکان میں ہے، یہ ہے کہ وہ چیز واقع ہو جائے۔
نوجوانوں کو چاہئے کہ حصول علم کی راہ میں اور اپنی علمی توانائیاں بڑھانے کے سلسلے میں ہرگز کوئی کوتاہی نہ کریں۔ جو کامیابیاں حاصل کر چکے ہیں اس پر قناعت نہ کریں بلکہ اسے پہلا قدم ہی مانیں۔ نوجوان کوہ پیما کی مانند ہوتا ہے جسے چوٹی پر پہنچ جانے تک آگے بڑھنا ہی رہتا ہے۔ راستے کے شروعاتی پیچ و خم میں بسا اوقات آدمی کو پسینے چھوٹنے لگتے ہیں۔ ابتدائی کامیابیوں پر قانع نہیں ہونا چاہئے۔ نظریں چوٹی پر ٹکی ہونی چاہئے۔ محنت و مشقت کرنی چاہئے، دشواریوں اور سختیوں کو برداشت کرنا چاہئے تاکہ چوٹی کو فتح کیا جا سکے۔
نوجوانوں کو چاہئے کہ وقت کا بہترین استعمال کریں۔ البتہ یہ چیز وقت کو منظم کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔ انہیں چاہئے کہ بیٹھ کر اپنی سمجھ سے اپنا نظام الاوقات تیار کریں۔ نظام الاوقات کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا کوئی عمومی نمونہ نہیں ہے کہ میں کہوں کہ سارے لوگ اسی ایک نظام الاوقات کے مطابق کام کریں۔ ہر انسان اپنی عمر کے لحاظ سے، اپنی گھریلو زندگی کی مصروفیات کے لحاظ سے، اپنے وسائل کے لحاظ سے، اس شہر کے لحاظ سے جہاں وہ زندگی گزار رہا ہے، ممکن ہے کہ ایک مخصوص نظام الاوقات تیار کرے۔ نظام الاوقات ہر ایک کو تیار کرنا چاہئے اور اس کے ذریعے اپنے وقت کا بہترین استعمال کرنا چاہئے۔
اگر انسان کوئی با ارزش چیز حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ محنت و سخت کوشی کی عادت ڈال لے، یہ لازمی اور ضروری ہے۔ البتہ بنیادی طور پر نوجوانوں کی اہم ترین خصوصیتوں میں سے تین خصوصیتیں بہت نمایاں ہوتی ہیں۔ اگر ان تینوں خصوصیات کی نشاندہی کر دی جائے اور ان کو صحیح سمت میں رکھا جائے تو ایک نوجوان با آسانی زندگی کے سفر کو پورا کرکے اپنے اہداف تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ یہ تینوں خصوصیات ہیں انرجی، امید اور جدت عمل۔ یہ نوجوان کی تین نمایاں خصوصیات ہیں۔
قرآن میں ایک بے حد حیاتی نکتہ بیان کیا گیا ہے اور وہ ہے تقوے پر توجہ۔ جب لوگ تقوا کا نام سنتے ہیں تو ان کے ذہن و خیال میں جو تصویر ابھر کر آتی ہے وہ نماز، روزے، عبادات، اذکار اور دعا و مناجات کی تصویر ہوتی ہے۔ یہ ساری چیزیں تقوا میں شامل ضرور ہیں اور تقوا کا جز ہیں لیکن ان میں کوئی بھی تقوا کا ہم معنی لفظ نہیں ہے۔ تقوا یعنی اپنے اعمال و رفتار پر محتاطانہ نظر رکھنا۔ تقوا یعنی یہ کہ انسان کو بخوبی علم ہو کہ وہ کیا کر رہا ہے، یعنی یہ کہ اپنا ہر عمل غور و فکر اور ارادے اور نیت کے ساتھ منتخب کرے، اس انسان کی مانند جو گھوڑے پر سوار ہے اور باگ اس کے ہاتھ میں ہے اور جانتا ہے کہ اس کی منزل کہاں ہے۔ جس انسان میں تقوا نہ ہو اس کے اعمال و رفتار، اس کے فیصلے اور اس کا مستقبل اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں رہتا۔ نہج البلاغہ کے خطبے کے مطابق اس کی مثال ایسے انسان کی ہے جسے سرکش گھوڑے پر ڈال دیا گیا ہو، وہ خود سوار نہ ہوا ہو اور اگر خود سے سوار بھی ہوا ہے تو اسے گھڑ سواری نہ آتی ہو۔ لگام اس کے ہاتھ میں تو ہے لیکن اسے نہیں معلوم کی گھڑ سواری کیسے کی جاتی ہے، اسے نہیں پتہ کہ کہاں جانا ہے۔ گھوڑا جہاں بھی اسے لے جائے گا وہ مجبورا چلا جائے گا، ظاہر ہے کہ اسے نجات کی توقع نہیں رکھنا چاہئے کیونکہ گھوڑا سرکش ہے۔
نوجوانوں کو اپنے ہیجانی جذبے کو تسکین دینے اور اس سے استفادہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ غور کیا جائے کہ ہیجان خاص مواقع پر پیدا ہوتا ہے۔ بعض چیزیں ہیں جن میں ہیجان بالکل نمایاں اور واضح ہوتا ہے۔ جیسے کھیل کود، مثال کے طور پر فٹبال ایک ہیجانی چیز ہے۔ فٹبال کے کھیل کا انداز ہی یہی ہے اور کرکٹ ،والیبال اور ٹینس سے یہ مختلف اور الگ ہے۔ کیونکہ اس کھیل کا ڈھانچہ ہی کچھ اس انداز کا ہے کہ اس میں مقابلہ آرائی، ہیجان اور اس جیسی دیگر چیزیں زیادہ ہیں۔ ویسے کھیل کوئی بھی ہو مجموعی طور پر ایک ہیجانی کیفیت پیدا کرنے والا ہوتا ہے۔ فنکارانہ کاموں میں بھی ہیجان ہوتا ہے۔ لیکن یہ ایسی چیزیں ہیں کہ جن کا ہیجان ظاہر نہیں ہوتا۔
ہیجان صرف انہیں چیزوں تک محدود نہیں ہے۔ اگر انسان کو اپنی دلچسپی کا میدان اور شعبہ مل جائے خواہ وہ کوئی بھی میدان ہو تو وہ آسانی سے اپنے جوش و ولولے اور ہیجانی جذبے کی تسکین کا سامان فراہم کر سکتا ہے۔ 
انسان جب درس کا نام زبان پر لاتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ درس میں کوئی ہیجان اور جوش و خروش ہے ہی نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ کلاس میں کوئی ہیجان اور جوش و خروش نہیں ہوتا لیکن فرض کیجئے کہ یونیورسٹی کے اندر یا باہر کلاس میں تمام وسائل سے آراستہ ایک ورکشاپ ہو، جس طرح آج کل ہو رہا ہے کہ انجینئرنگ کے طلبہ جاتے ہیں اور کارخانوں سے رابطہ کرتے ہیں، نوجوان کو اگر یہ محسوس ہو کہ اس ورکشاپ میں وہ وسائل ہیں جن سے اپنی دلچسپی کی چیز ایجاد کر سکتا ہے اور اس کے ذہن میں جو آئیڈیا ہے اس جگہ پر وہ اسے عملی جامہ پہنا سکتا ہے، تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس کا ہیجان اور جوش و خروش کم ہوگا؟ اس میں بڑا جوش و خروش پیدا ہو جائے گا۔ تحقیق کا کام شوق اور دلچسپی سے انجام دیاجانا چاہئے۔ وہ تحقیقاتی کام جس کے لئے انسان کو مجبور کیا جائے اور کہا جائے کہ یہ تحقیق لامحالہ پوری کرنا ہے تو اس کام میں کوئی جوش و خروش اور کوئی ہیجان نہیں ہوگا، اس کا کوئی نتیجہ بھی نہیں نکلے گا۔
گوناگوں سماجی اور سیاسی امور میں اختلاف نظر سے ڈرنا نہیں چاہئے۔ نظریات کا اختلاف کوئی بری چیز نہیں ہے اور اس میں کوئی اشکال بھی نہیں ہے کہ دو سیاسی نظریات ہوں۔ ایک نوجوان کسی ایک نظرئے کا حامی ہے او ر دوسرا دوسرے نظرئے کا طرفدار۔ جو چیز نقصان دہ ہے وہ ہے بے سوچے سمجھے اور بغیر مطالعے اور تحقیق کے اقدام کر دینا، عجلت پسندانہ فیصلہ اور بغیر معلومات کے عمل کرنا۔ میں نوجوانوں کو اس چیز سے دور رہنے کی ہدایت کرنا چاہوں گا۔ نوجوانی کا لازمی تقاضا عجلت پسندانہ فیصلہ کرنا نہیں ہے۔ نوجوانی کے معنی بیباکانہ اقدام کرنا ضرور ہے لیکن اس سے مراد یہ ہے کہ انسان نشیب و فراز اور پیچ و خم کے وہم میں نہ پڑے۔ اس سے مراد یہ ہرگز نہیں ہے کہ بے سوچے سمجھے اور بغیر غور و فکر کے اقدام کر دیا جائے۔ نوجوان سوچ سمجھ کر نپا تلا قدم بھی اٹھا سکتا ہے اور بغیر سوچے سمجھے بھی کام کر سکتا ہے۔ یعنی فکری صلاحیتوں کو بخوبی بروئے کار لاکر اقدام کرے۔ اگر اس میں غور و فکر کرنے، مطالعہ و تحقیق اور تدبر کی عادت پیدا ہو جائے، در حقیقت یہ ایسی خصوصیات ہیں کہ نوجوان میں پیدا ہو سکتی ہیں اور بعض خصوصیات تو حق پسندی کی مانند نوجوان کی سرشت میں شامل ہوتی ہیں، تو نظریاتی اختلاف میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور اس سے گمراہی پیدا نہیں ہوگی، یا کم از کم یہ ہوگا کہ کوئی بڑا نقصان نہیں ہوگا۔
دوسروں کی نفی کر دینے کی عادت، یہ کہ کوئی انسان سماجی امور میں ایک موقف اپنائے اور اعلان کر دے کہ بس یہی صحیح موقف ہے اس کے علاوہ کوئی اور موقف صحیح ہو ہی نہیں سکتا تو یہ درست نہیں ہے، یہ اچھی عادت نہیں ہے۔ اصول دین کے سلسلے میں تو یہ ہے کہ انسان فکر و مطالعے کے ساتھ اس کی جانب بڑھے اور ایک مستحکم نقطے پر پہنچ جانے کے بعد دو ٹوک انداز میں کہہ دے کہ حقیقت یہی ہے، اس کے علاوہ نہیں۔ اس مقام پر یہ کہنا کہ "بس یہی ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں" برا نہیں ہے بلکہ اچھی بات ہے لیکن سماجی مسائل میں، سیاسی امور میں اور سماجی اختلافات کی صورت میں یہ کہنا کہ "بس یہی ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں" ٹھیک نہیں ہے۔ میری نظر میں انسان کو چاہئے کہ دوسرے فریق کے نظرئے کو بھی تحمل کرے۔ جب وہ اپنے نظرئے کے مطابق کوئی عمل انجام دینا چاہے تو بہت سوچ سمجھ کر کام کرنے کی کوشش کرے۔ اگر ایسا ہو تو میری نظر میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ (رہبر انقلاب اسلامی ایران آیةاللہ خامنہ ای کی تقریر سے استفادہ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں