ہفتہ، 4 جون، 2011

شیعہ امامیہ اور علم کلام


شیعہ امامیہ اور علم کلام

تحریر: حجةالاسلام و المسلمین ربانی گلپائگانی ترجمہ: سید محمد حسنین باقری
''شیعہ'' لغت و اصطلاح میں:لغت میں لفظ شیعہ کا اطلاق دو معنی پر ہوتا ہے : 
ایک کسی مطلب پر دو یا چند افراد کی موافقت وہماہنگی اور دوسرے کسی فرد یا گروہ کا کسی دوسرے فرد یا گروہ کی پیروی کرنا۔
( الشیعة؛القوم الذین تجتمعوا علی  امر، وکل قوم اجتمعوا علی امر فہم شیعة، وکل قوم امرہم واحد یتبع بعضہم رأی بعض فہم شیع، (لسان العرب ،کلمہ شیع؛ المیزان،ج١٧،ص١٤٧)
اور اصطلاح میں مسلمانوں کے اس گروہ کو شیعہ کہتے ہیں جوحضرت علی  ـ کی بلا فصل امامت و خلافت کا عقیدہ رکھتے ہیں نیز یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام اور پیغمبر  ۖ کا جانشین شرعی نص کے ذریعہ معین ہوتا ہے اور حضرت علی  ـ اور بقیہ تمام ائمہ  ٪ کی امامت شرعی نص کے ذریعہ ثابت ہے۔( اوائل المقالات،ص٣٥؛ الملل والنحل،ج١،ص١٤٦)
حضرت علی  ـکے چاہنے والوں اور پیروی کرنے والوں پر لفظ شیعہ کا اطلاق پہلی مرتبہ پیغمبر اکرم  ۖ کی جانب سے ہوا ہے. یہ بات پیغمبر اکرم  ۖ سے بیان شدہ متعدد حدیثوں میں ذکر ہوئی ہے جیسا کہ سیوطی نے جابر بن عبد اللہ انصاری اور ابن عباس اورحضرت علی  ـ سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم  ۖ نے آیت (ِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ُوْلٰئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) ( سورہ بینہ:٧)( بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے یہی لوگ بہترین خلائق ہیں) کی تفسیرمیں حضرت علی  ـ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: قیامت کے دن تم اورتمہارے شیعہ کامیاب ہونگے( تفسیر در المنثور،ج٨،ص٥٨٩، مطبوعہ دارالفکر؛ اس کے علاوہ د یکھئے: الغدیر، ج٢، ص٥٨ ۔ ٥٧ )
شیعیت کی تاریخ میں متعدد فرقے وجود میں آئے جن میں سے بہت سے ختم ہوچکے ہیں لہٰذا ان کے بارہ میں بحث کرنے سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔ شیعوں کے ا صلی فرقے جو اس وقت موجود ہیںوہ اس طرح ہیں: شیعہ اثناعشری ، شیعۂ زیدیہ ،شیعہ اسماعیلیہ. یہاں پر موضوع بحث شیعہ اثنا عشری ہے۔ 
وجہ تسمیہ:شیعوں میں اکثر شیعۂ امامیہ اثنا عشریہ ہیں ۔ چونکہ وہ پیغمبر  ۖ کے جانشینوں کو بارہ جانتے ہیں اس وجہ سے اثنا عشریہ( بارہ امامی) کہے جاتے ہیں، بارہ اماموں کے نام اور خصوصیات ، پیغمبر اکرم  ۖ سے مروی روایتوں میں بیان ہوئے ہیں. بارہ امام یہ ہیں:
١۔ علی بن ابی طالبـ
٢۔ حسن بن علی  ـ
٣۔ حسین بن علی  ـ
٤۔ علی بن الحسین  ـ(امام سجاد )
٥۔محمد بن علی  ـ(امام باقر  )
٦۔ جعفر بن محمد  ـ (امام صادق  )
٧۔موسیٰ بن جعفر  ـ (امام کاظم )
٨۔ علی بن موسیٰ   ـ(امام رضا )
٩۔ محمد بن علی  ـ ( امام جواد )
١٠۔ علی بن محمد  ـ (امام ہادی )
 ١١۔حسن بن علی  ـ (امام عسکری )
 ١٢۔ حجة بن الحسن ( امام مہدی )
شیعہ ا ثنا عشری امامت کے مسئلے میں خاص تاکید رکھتے ہیں اور امام کی عصمت اور امت اسلامی کے دوسرے افراد پرافضلیت کو بہت اہم اوربنیادی جانتے ہیں دوسری طرف پہلے تین اماموں کے بعد امامت کو امام حسین  ـ کی اولاد میں منحصر جانتے ہیں امام کے سلسلے میں مذکورہ خاص عقائد کی وجہ سے امامیہ کے نام سے مشہور ہوئے ہیں۔
شیخ مفید  شیعہ کی یہ تعریف کرنے کے بعد کہ وہ لوگ جو حضرت علی  ـ کی بلا فصل امامت کاعقیدہ رکھتے ہیں،شیعہ امامیہ کے بارے میں کہتے ہیں: یہ عنوان شیعوں کے اس گروہ سے مخصوص ہے جو ہر زمانے میں امام کے موجود ہونے اور نص جلی کے واجب ہونے اور ہرامام کے لئے عصمت اورکمال کے معتقد اور امامت کو (پہلے تین اماموں کے علاوہ) امام حسین  ـ کی اولاد میںمنحصر جانتے ہیں...۔( اوائل المقالات،ص٣٨)
تاریخ پیدائش تشیع:باوجودیکہ پیغمبر  ۖ کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان بعض مسائل میں اختلافات پیش آئے (اس سلسلے میں علامہ شر ف الدین کی کتاب '' النص والاجتہاد'' کی طرف رجوع کیا جائے) پھر بھی فرقے او رگروہ جو بعد میں وجود میں آئے اس زمانے میں موجودنہیں تھے لیکن پیغمبر اکرم  ۖ کی رحلت کے بعد اختلافات وجود میں آئے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے درمیان مختلف فرقے پیدا ہوئے ۔ سب سے اہم اختلاف جو پیغمبر  ۖ کی وفات کے بعد ابتدائی دنوں میں وجود میں آیا وہ امامت و خلافت کے مسئلے سے متعلق تھا جس نے مسلمانوں کودو گروہوں میں تقسیم کیا۔
ایک گروہ کا عقیدہ یہ تھا کہ نبوت کی طرح امامت بھی الہٰی منصب و مقام ہے اور امام کے شرائط میں سے یہ ہے کہ وہ خطا وگناہ سے معصوم ہو اور اس صفت کو خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا. اسی بناپر امام کے معین ہونے کا راستہ نص الہٰی ہے جو قرآن یا احادیث نبوی میں بیان ہوتی ہے اوراس نص کے مطابق علی ابن ابی طالب  ـ پیغمبر اکرم  ۖ کے جانشین اور مسلمانوں کے امام ہیں۔ حضرت علی  ـ ، بنی ہاشم اور مہاجر و انصارمیں سے بعض بزرگ اصحاب اسی نظریہ کے قائل تھے اور امامت کے مسئلے میں یہی شیعوں ( خصوصاً شیعہ امامیہ) کا عقیدہ ہے۔
دوسر ا گروہ کہ جس کے سر فہرست ابو بکر و عمر تھے، اس عقیدہ پر تھا کہ پیغمبر  ۖنے اپنا جانشین معین نہیں کیا ہے اور یہ کا م مسلمانوں کے حوالے کردیاہے، لہٰذا خلافت و امامت کے مسئلے کی اہمیت اور امت اسلامی کی سرنوشت میںاس کے حیات بخش کردار کے پیش نظر،ایک جلد بازی کے اقدام میں (اس حالات میں کہ جب حضرت علی  ـ اور بعض بزرگ اصحاب، پیغمبرۖ کی تجہیز و تکفین میں مشغول تھے) بعض مہاجرین و انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اورخلیفہ پیغمبر  ۖ کے سلسلے میں کافی بحث و گفتگو کے بعد خلیفۂ پیغمبر کے عنوان سے ابوبکر کی بیعت کی ، اور چونکہ دنیائے اسلام اور دنیا کے سیاسی و ا جتماعی شرائط کچھ اس طرح تھے کہ اگر امام علی  ـ اور آپ کے ساتھی اپنے عقیدے کو ثابت کرنے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے عملی اقدام یا جنگ کرتے تو اسلام باہر ی دشمنوں (ایران وروم) و اندرونی دشمنوں ( منافقین) کی جانب سے سخت نقصان اٹھاتا. لہذا امام علی  ـ نے صبر وتحمل ہی میں اسلام و مسلمین کی مصلحت دیکھی اگر چہ مناسب مواقع پر ان کے غلط اقدام کے بارے میں اپنا نظریہ بیان کرتے رہے اور جنگ وجدال سے پرہیز کیا۔ اور اسلامی معاشرے کی ہدایت و ترقی کے سلسلے میں کسی بھی طرح کی تلاش وکوشش سے خود داری نہیں کی۔
مسائل حل کرنے میں وہ خلفا کی مدد کرتے ،یہاں تک کہ خلیفہ دوم سے نقل ہوا کہ انہوں نے ستر مرتبہ کہا ''... اگر علی  ـ نہ ہوتے تو میں ہلاک ہوجاتا '' اور اسی طرح کہا :خدایا مجھے کسی ایسے مشکل مسئلے سے روبرو نہ کرنا جس میں علی ابن ابی طالب   ـ نہ ہوں۔( مذکورہ روایات کے لئے الغدیر، ج١ کی طرف مراجعہ کیا جائے)
شیعہ فرقہ، علی ابن ابی طالب کے ماننے والوں اور آپ  کی بلافصل امامت کا عقیدہ رکھنے والوں کے عنوان سے پیغمبر  ۖکی وفات کے بعد ابتدائی دنوں میں وجود میں آیاالبتہ ایسی روایتیں بھی پائی جاتی ہیں جس میںپیغمبر  ۖ کے زمانے ہی میں لفظ شیعہ کا اطلاق چار افراد یعنی سلمان ، مقداد، ابوذر ، عمار یاسرپر ہوتا تھا۔ ( فرق الشیعہ،ص١٧۔١٨؛ اعیان الشیعہ،ج١،ص ٨۔١٩)۔ یہ وہی افراد ہیں جو خلافت و امامت کے مسئلے میں حضرت علی  ـ کو پیغمبر  ۖ کا بلافصل خلیفہ جانتے تھے اوراس بات کومد نظر رکھتے ہوئے کہ امامت کے مسئلے میں شیعوں کا نظریہ ،کتاب و سنت کی نصوص پر موقوف ہے ، یہ کہا جاسکتا ہے کہ : در حقیقت، شیعیت، اسلام کے ساتھ رہی ہے اگرچہ ایک مذہب کے عنون سے پیغمبر  ۖ کی رحلت کے بعد وجود میں آئی ہے۔
تاریخ پیدائش کلام امامیہ:جیسا کہ اس سے پہلے ذکر ہوا کہ امامیہ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جوامامت کے مسئلہ میں نص شرعی کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ یعنی امام کے معین ہونے کا راستہ شرعی نص ہے۔ اسی طرح ذکر ہوا کہ امامت کے سلسلے میں اختلاف پیغمبر  ۖکی وفات کے فوراً بعد مسلمانوں کے درمیان پیش آیا اور اس سلسلے میںدو کلی نظریئے وجود میں آئے:
ایک یہ کہ خلیفہ اور امام خدا کی جانب سے ،پیغمبر  ۖکے ذریعے معین ہوا ہے ۔ اور دوسرا یہ کہ اس پر کوئی نص نہیں آئی اور مسلمانوں پر چھوڑدیا گیا ہے۔
ا مام علی  ـ اور بزرگان مہاجر وانصار میں سے ایک گروہ پہلے نظریے کے قائل تھے جن کے نام اور ان کے احتجاجات ، تاریخ وحدیث کی کتابوں میں ذکر ہوئے ہیں۔ شیخ صدوق   نے کتاب خصال میں بارہ افراد کے نام ان کے احتجاجات کے ساتھ نقل کیے ہیں ، مہاجرین یہ ہیں: خالد بن سعید عاص، مقداد بن اسود، ابی بن کعب ، عمار یاسر، ابوذر غفاری، سلمان فارسی، عبد اللہ بن مسعود،بریدہ اسلمی اور انصار یہ ہیں: خزیمہ بن ثابت، سہل بن حنیف، ابو ایوب انصاری،ابوہیثم بن تیہان وغیرہ ان لوگوں نے اپنے احتجاجات میں دو مطلب کی طرف استناد کیا ہے ایک پیغمبر  ۖسے وارد نص اور دوسرے امام علی  ـ کی افضلیت و برتری۔
 علامہ طباطبائی کلام امامیہ کی تاریخ پیدائش کے سلسلے میں کہتے ہیں : کلام امامیہ کی تاریخ پرانی ہے ، پیغمبر  ۖکی رحلت کے بعد ہی وجود میں آیا اس زمانے میں اکثر متکلمین اصحاب میں سے تھے ،مثلاً: سلمان ، ابوذر، مقداد، عمر بن حمق وغیرہ اورتابعین میں سے بھی مثلا، رشید، کمیل ومیثم وغیرہ علوی تھے جو بنی امیہ کے ہاتھوں مارے گئے ، اورامام باقر   ـ و امام صادق   ـ کے زمانے میں قدرت پیدا کی اور بحثیں کیں، کتاب و رسالے لکھے(المیزان،ج٥،ص٢٧٨)
مسألہ امامت سے قطع نظر بعض دوسرے مسائل جیسے خدا کے صفات ، قضاو قدر، جبر و استطاعت او رتفویض جوقدیمی ترین کلامی بحثیں ہیں ان مسائل میں بھی امامیہ صف اول میں ہے ا س لئے کہ سب سے پہلا شخص جس نے اس سلسلے میں کلامی بحث کی اور سؤالات و شبہات کے جواب دیئے وہ حضرت علی  ـ کی ذات ہے اور بلاشک آپ کے اصحاب و ساتھیوں نے بھی آپ کے کلامی نظریات و آراء کی پیروی کرتے ہوئے ان کو ضرورت کے موقع پر پیش کیا ہے ۔ امام علی  ـ کے بعد امام حسن اور امام حسین  اور ان کے بعد امام زین العابدین   ـ اور دوسرے ائمہ  ٪ میں سے ہر ایک اپنی امامت کے دور میں کلام کے صاحب عصمت استاد، کلامی جدو جہد کے علمبردار اور صحیح اسلامی عقائد کے مدافع کے عنوان سے تھے اور اس راہ میں اصحاب و شاگردوں کی بھی تربیت کی ہے۔
لہذا تاریخی اعتبار سے امامیہ مذہب اور کلام تمام اسلامی کلامی مذاہب پر مقدم ہے یہاں تک کہ قدر یہ کے ظہور میں آنے سے پہلے ( پہلی صدی ہجری کے اواخر میں) اور معتزلہ کے وجود میں آنے ( دوسری صدی ہجری کے ابتدا میں ) اور توحید و عدل الہی سے دفاع کے لئے تشبیہ گرا و جبر گرالوگوں  کے ساتھ مبارزہ کے لئے اٹھنے سے پہلے ہی کلام امامیہ کے رہبروںنے اس راستے کو طے کیا اوراپنی محکم اور قوی عقلی دلیلوں کے ذریعے توحید اورعدل کے ستونوںکو محکم کیا ہے۔ اسی دلیل کی وجہ سے عدل اور توحید کو دو علوی افکار  کے عنوان سے یاد کیا گیاہے(العدل و التوحید علویان)۔
ممکن ہے کہا جائے : صحیح ہے کہ اسلامی عقائد سے دفاع ، کلامی اعتراضات و شبہات کی جواب دہی اور کلام تقریری کے اعتبار سے کلام امامیہ مقدم ہے لیکن دوسرے دو اعتبار سے معتزلہ کا کلامی مکتب، امامیہ پر مقدم ہے:ایک اصول و قواعدکی تاسیس اور استدلال کے طریقوںکی ترسیم۔دوسرے کلامی رسائل و کتب کی تالیف و تصنیف کے اعتبار سے کہ یہ دونوں چیزوں ایک کلامی مکتب کے اہم خصوصیات میں شمار ہوتے ہیں۔
لیکن یہ کہنا صرف خام خیالی ہے اس لئے کہ دونوںموارد میں امامیہ پیش قدم  رہا ہے اس لئے کہ امام علی  ـ (قرآن کے بعد) پہلے شخص ہیں جنہوں نے عقلی تفکرات و نظریات کے دروازے مسلمانوں پر کھولے اور معارف و عقائد کے اصولوں کوبیان اور ان کو مستحکم کیا ، جیسا کہ توحید و عدل ( جواہم کلامی محور میں سے ہیں) کے سلسلے میں فرمایا: ''التوحید الا تتوہمہ ، والعدل الاتتہمہ''( نہج البلاغہ، حکمت ٤٧٠) توحید یہ ہے کہ اسے اپنے وہم و تصور کا پابند نہ بنائو. اور عدل یہ ہے کہ اس پر الزام نہ لگائو۔
اور اسی طرح امام علی  ـ  الہٰی صفات کی شناخت پر عقل کی توانائی کے سلسلے میں فرماتے ہیں :'' لم یطلع العقول علی تحدید صفتہ ولم یحجبہا عن واجب معرفتہ ''.(نہج البلاغہ،خطبہ٤٩)نہ عقلوں کو اپنی صفات کی حقیقت سے آگاہ نہیں کیا اور ان کو اپنی معرفت سے محروم نہیں رکھا۔
اسی طرح روایت ہے کہ ایک دن امام کو اطلاع دی گئی کہ مسلمانوں کا ایک گروہ عدل الہٰی کے سلسلے میں بحث کررہا ہے ۔ امام  مسجد میں آئے اورپیدائش کی غرض، بندوں کی ذمہ داری ، وعدوعیدا ور دنیاوی لذائذ و آرام کے سلسلے میں تقریر فرمائی۔
 معروف معتزلی عالم و متکلم جاحظ (متوفی٢٥٥ ھ)نے امام کے اسی کلام کے سلسلے میں کہا ہے : ''یہ تاریخ انسانیت کا ایسا جامع کلام ہے جو ان کی کتابوں میں نقل ہوا یا محاورات میں استعمال ہوا ہے'' اورکلام معتزلہ کے مشہور استادابو علی جبائی (متوفی ٣٠٣ھ) نے کہاہے : جاحظ نے سچ کہا ہے اس لئے کہ اس کلام (کلام امام)میں کمی و زیادتی نہیں ہوسکتی۔(احتجاج طبرسی،ص٢٠٧)
امامیہ علم کلام میں تألیف کے اعتبار سے بھی معتزلہ اور دوسرے مکاتب  سے متاخر نہیں رہے ہیں اس لئے کہ ان رسائل کے علاوہ جنہیں ائمہ شیعہ نے بعض کلامی مسائل میں لکھا ہے ( جیسے مسألہ ''قدر'' کے سلسلے میں رسالہ امام حسن مجتبیٰ  ـ)امامیہ متکلمین بھی زمانۂ قدیم سے کلامی موضوعات کے سلسلے میں صاحب تصنیف و تالیف رہے ہیں ۔
نجاشی نے کہا ہے: عیسی بن روضہ (تابعی)سب سے پہلے شخص ہیں جنھوں نے امامت کے موضوع پرکتاب لکھی ہے.( رجال نجاشی، ترجمہ نمبر ٧٩٦؛مذکورہ شخصیت منصور کے زمانے میں تھی)
ابن ندیم نے علی بن اسماعیل بن میثم تمار (متوفیٰ ١٧٩ھ) کو سب سے پہلا شخص جانا ہے کہ جنھوں نے امامت کے سلسلے میں تکلم کیا اور پھر ان کی تالیفات میں کتاب ''الامامة'' و''کتاب الاستحقا ق ''کانام لیا ہے۔( فہرست ابن ندیم، فن دوم، مقالہ سوم،ص٢٤٩) اور نجاشی کے مطابق وہ نظّام اور ابو ہذیل کے معاصر تھے اور ان کے ساتھ کلامی مناظرہ کیا ہے۔(رجال نجاشی، نمبر ٦٦١)
امام صادق و امام کاظم   کے زمانے میں شیعہ متکلمین میں سے ایک اہم شخصیت ہشام بن حکم تھے، علم کلام میں متعدد رسالے و کتابیں لکھیں جن میں سے کتاب التوحید ، کتاب الامامة، کتاب فی الجبر والقدر، کتاب الاستطاعة، الرّد علی اصحاب الاثنین،الدلالات علی حدوث الاشیائ،الرّد علی الزنادقہ،الرّد علی من قال بامامة المفضول،المعرفة وغیرہ کا نام لیا جاسکتا ہے۔
لہذا کلام امامیہ دو اعتبار سے دوسرے تمام اسلامی کلامی مکاتب پر مقدم ہے:١۔وجود میں آنے اور کلامی بحثیں پیش کرنے کے اعتبار سے۔٢۔ کلامی اصول و مبادی کی تأسیس کے اعتبار سے اور اگر کلام میں تالیف  وتصنیف کے اعتبار سے دوسروں سے مقدم نہ مانیں پھر بھی حد اقل دوسروں سے مؤخر نہیں ہے۔
احمد امین کا جواب:احمد امین نے پہلے کہا کہ: '' شیعہ اصول دین سے متعلق بہت سے مسائل میں معتزلہ سے ہمفکر ہیں مثلا صفات عین ذات ہیں، قرآن مخلوق ہے، کلام نفسی کا انکار، خدا سے رؤیت بصری کا انکار ،حسن وقبح عقلی، قدرت و اختیار انسان، خداوند عالم سے قبیح باتوں کا صادر نہ ہونا، افعال الہٰی اغراض کے تابع ہیں وغیرہ..'' پھر کہا ہے: میںشیعہ متکلم ابراہیم بن نوبخت کی کتاب ''یا قوت'' پڑھ رہا تھا اس میں امامت سے متعلق بحث کو چھوڑ کر معلوم ہو رہا تھا گویا میں معتزلی عقائدکی کوئی کتاب پڑھ رہا ہوں۔
 اس کے بعد اس بارے میں کہ ان دوکلامی مکتب میں سے کون دوسرے کا تابع ہے ، کہا ہے: بعض شیعہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ معتزلہ نے اپنے اصولی عقائد کو ان سے لیا لیکن میں ترجیح دیتا ہوں کہ شیعوں نے اپنی تعالیم کو معتزلہ سے لیا ہے، جیسا کہ مذہب اعتزال کی تاریخ کے مطالعہ سے اس بات کی تائید ہوتی ہے اور شیعۂ زیدیہ کے پیشوا زید بن علی ، واصل بن عطاء کے پیروکار تھے ا ورا مام جعفر صادق  ـ اپنے چچا کے ساتھ رابطے میں تھے جیسا کہ ابوالفرج اصفہانی نے ''مقاتل الطالبین'' میں نقل کیا ہے کہ جعفر بن محمد ،زید کی رکاب کو پکڑتے اور جب وہ گھوڑے پر سوار ہوجاتے توان کے لباس کوصحیح کرتے تھے اوردوسری طرف بہت سے معتزلی حضرات شیعہ مذہب کی طر ف منتقل ہوئے۔(ضحی الاسلام، احمد امین، ج٢،ص٢٦٨۔٢٦٧)
احمد امین کے جواب میں چند نکات پیش ہیں:
اولاً: توحید و عدل اوردوسری کلامی بحثوں کے سلسلے میں مولائے کائنات کے کلام و اقوال اوراسی طرح بزرگان معتزلہ کی اس بات پرتصریح کہ انہوں نے اپنے  مکتب کے اصول و قواعد کوامام علی  ـ سے سیکھا ہے (شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج١٠، ص٢٢٧)مذکورہ دونوں باتوں کومدنظر رکھتے ہوئے اگر دیکھا جائے تواحمد امین کا نظریہ ''اجتہاد در مقابل نص'' اورحقیقت سے بہت دور ہے ۔
ثانیاً: زیدبن علی کی واصل کی شاگردی پرکوئی محکم دلیل ہمارے پاس نہیں ہے۔ بہت ہی بعید ہے کہ علوی گھرانے کا پلا ہوا اور تربیت یافتہ، امام زین العابدین و امام محمد باقر  جیسے کلام کے ماہرین کے ہوتے ہوئے اپنے عقائد کودوسرے سے سیکھے وہ بھی ایسے سے جواس سے چھوٹا یا ہم سن وسال ہو۔
بالفرض اگر اس بات کومان  بھی لیا جائے تو اس سے معتزلہ سے زیدیہ مذہب کی پیروی  ثابت ہوتی ہے نہ بارہ ا مامی امامیہ کی...
ثالثاً: امامیہ، معتزلہ کے ساتھ تمام کلامی مسائل میں مکمل طور پر ہماہنگی نہیں رکھتے جیسا کہ تفویض معتزلہ کے سلسلے میں ان کی مخالفت مشہور ہے. اسی طرح ایمان، وعدو وعید، گناہ کبیرہ کے ارتکاب، شفاعت اور دوسرے بہت سے کلامی مسائل میں ان سے مخالفت رکھتے ہیں۔اس سلسلے میں شیخ مفید کی اوائل المقالات کی طرف رجوع کیا جائے ۔
رابعاً: اکثر معتزلی حضرات کا رجحان شیعوں کی طرف صرف فرضیہ ہے اس لئے کہ امامت کی بحثوں کے سلسلے میں ان کی شیعوں کے ساتھ مخالفت روشن ہے . آل بویہ ( چوتھی صدی ہجری کی ا بتدا میں) جو شیعہ تھے اور معتزلہ کے ساتھ ان کی ان کا برتاؤ مسالمت آمیز تھا، صرف ان کے زمانے میں کسی سیاسی پہلو کی وجہ سے معتزلہ اور شیعہ نزدیک ہوئے . لیکن اس سے پہلے ان کے درمیان اس طرح کا کوئی رابطہ نہیں تھا. بلکہ آپس میں اختلافات بھی تھے۔
ہاں! اگر شیعوں کی طرف میلان سے مراد اہل بیت پیغمبر  ۖ کی مودت و محبت ہے تو کہا جائے کہ اشعریوں اور حنبلیوں کے بزرگ افراد بھی یہ میلان رکھتے تھے اوراگر مراد یہ عقیدہ ہے کہ حضرت علی  ـد وسرے خلفاء سے برتر ہیں تو یہ عقیدہ صرف بغداد کے اکثر معتزلہ کو شامل ہوتا ہے اس لئے کہ وہ لوگ خلفاکی خلافت کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ امام علی  ـکو ان سے برتر جانتے تھے۔ لیکن اگر تشیع سے مراد امام علی  ـ اور دوسرے ائمہ کی امامت پر نص کے ہونے کا عقیدہ رکھنا ہے ،تو اس میں شیعہ منفرد ہیں۔
کلام امامیہ کا طریقۂ بحث:کلام امامیہ، عقلی استدلال کے طریقے کی پیروی کرتاہے اور عقلی تفکر کی بہت زیادہ اہمیت کا قائل ہے اور کلام معتزلہ کے ساتھ ا ن کا فرق یہ ہے کہ تنہا عام عقل پر بھروسہ نہیں کرتے بلکہ عقل برتر ( یعنی عقل ائمہ) کو تکیہ گاہ قراردیتے ہیں۔ اسی وجہ سے دینی معارف کو بیان کرنے اور کلامی پیچیدگیوں کو حل کرنے میں لغزش و انحراف سے محفوظ رہے ہیں اور تمام جگہوں پر اعتدال کے راستے ( امر بین الامرین) کو طے کیا ہے۔
جیسا کہ استاد مطہری  نے بیان کیا ہے کہ شیعی تعقل و تفکر نہ صرف افکار حنبلی (جو مذہبی عقائد میں استدلال کے سرے سے ہی منکر ہیں) اور اشعری تفکر( کہ جنہوں نے اصالت کوعقل سے لیا ہے اور اس کو ظواہر الفاظ کا تابع قرار دیا ہے) کے مخالف و مغایر ہے بلکہ معتزلی تفکر کے( تمام عقل گرائی کے باوجود) بھی مخالف ہے اس لئے کہ معتزلی تفکر گرچہ عقلی ہے لیکن جدلی ہے نہ کہ برہانی، اسی وجہ سے اکثر اسلامی  فلاسفہ شیعہ رہے ہیں۔
در حقیقت اسلامی معارف میں عقلی و عمیق بحثیں پہلی مرتبہ حضرت علی  ـ کے توسط سے آپ  کے خطبات و دعوات اورمذاکرات میں پیش ہوئیں اور وہ بحثیں معنوی رنگ رکھتے ہوئے معتزلیوںو اشعریوں کی کلامی روش سے حتی کہ بعض شیعہ علماء کی کلامی روش سے بھی جو  اپنے زمانے کے کلام سے متأثر ہوئے ،مکمل طور پر متفاوت ہے۔(آشنائی باعلوم اسلامی(کلام ۔عرفان)،ص٥٤)
 شیعہ حدیثوں میں کلامی بحثیں دقیق ترین عقلی وبرہانی روش پر مورد تحقیق قرار پائی ہیں اسی وجہ سے دینی معارف کے سلسلہ میں شیعہ احادیث امامیہ متکلمین و حکماء کے اصیل ترین منابع سمجھے جاتے ہیں اور اسلامیکلام و فلسفہ کا پایۂ تکمیل کو پہنچنا انہیں افکار و نظریات کی بنیاد پر ہے۔
شہید مطہری نے اسلامی فلسفہ میں نہج البلاغہ کی تاثیر کے سلسلہ میں کہا ہے: نہج البلاغہ ،مشرقی فلسفہ کی تاریخ میں بہت بڑا حصہ رکھتا ہے، صدر المتألہین جنہوں نے حکمت الہٰی کے نظریات کو پیش کرنے میں دوسروں پر سبقت حاصل کی وہ امام علی  ـ کے کلمات سے بہت زیادہ متأثر تھے،توحیدکے مسائل میںان کی روش ذات سے ذات اور ذات سے صفات و افعال پر استدلال کی بنیاد پر ہے اور یہ تمام واجب کے وجود محض ہونے پرموقوف ہے اور وہ ان کے فلسفہ عامہ میں بیان شدہ دوسرے بعض کلی اصول کی بنیاد پر قائم ہے۔(سیری در نہج البلاغہ، دوسراحصہ ،ص٧٦)
علامہ طباطبائی شیعی اور معتزلی کلام کے فرق کے سلسلے میں لکھتے ہیں : بعض لوگوں نے غلط فہمی کا شکار ہوکرکلام شیعی اور کلام معتزلہ کی روش کو ایک جانا ہے لیکن اس تصور کے غلط ہونے پر دلیل یہ ہے کہ وہ اصول جو ائمہ اہل بیت  ٪ سے بیان  ہوئے اور امامیہ ان پراعتماد کرتے ہیں وہ معتزلہ کے مزاج سے سازگار نہیں ہیں۔ (المیزان ،ج٥،ص٢٧٩)
محقق لا ہیجی کا قول:محقق لاہیجی نے کلام امامیہ کی خصوصیات اس طرح بیان کی ہیں :''گذشتہ باتوں سے یہ واضح ہوگیا کہ کلام مشہور جو اشعریت و اعتزال پر تقسیم ہے وہ قابل اعتبار یقینی معارف میں غیر یقینات پرموقوف ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں ہے''۔اس کے بعد معارف یقینی کے بیان کرنے میں حکماء و پیغمبروں کے طریقہ میں فرق کو پیش کرتے ہوئے کہا ہے: جومقدمات معصوم سے لئے جائیں وہ برہانی قیاس میں اولیات کی جگہ پر ہیں اور جس طرح قیاس برہانی یقین کا فائدہ دیتا ہے اسی طرح وہ دلیل جو معصوم سے لئے گئے مقدمات سے تشکیل پائی ہو وہ بھی یقین کا فائدہ پہنچائے گی اس طرح سے کہ یہ معصوم کا کہا ہوا ہے او ر جو بھی معصوم کاکہا ہوا ہووہ حق ہے پس یہ مقدمہ حق ہے پس کلام کی یہ قسم صحیح ہوگی اور یقین کا فائدہ دینے میں طریقۂ برہان کی طرح ہوگی اور فرق یہی ہوگاکہ طریقۂ حکمت ،یقین تفصیلی کا فائدہ دیتا ہے اور یہ طریقہ یقین اجمالی کا فائدہ دیتا ہے اور یہ طریقہ قدیم شیعہ متکلمین کا ہے جیسے ہشام بن حکم وغیرہ اور ائمہ کی احادیث میں ثابت ہوا ہے کہ جو کلام ہم سے حاصل ہو وہ قابل قبول ہے اور اس کے علاوہ مذموم، اورمراد یہی کلام ہے جو بیان ہوا۔(گوہر مراد، ص٢٦۔٢٤)
ان محقق کا نظریہ اس اعتبار سے ثابت اور قوی ہے کہ انہوں نے کلام امامیہ کی خصوصیت کو ائمہ معصومین  ٪ کے ارشادات و کلام میں موقوف جانا ہے لیکن اس کے باوجود بھی ان کی بات اعتراض و اشکال  سے خالی نہیں ہے اس لئے کہ ایک شیعہ متکلم تمام مسائل میں معصوم کے کلام کی طرف نسبت دیتے ہوئے اپنے دعوے کو ثابت اور مد مقابل کے نظریے کو باطل نہیں کرسکتا ۔ اس لئے کہ ممکن ہے مدمقابل معصوم کے وجود کا اس طرح قائل نہ ہو جس طرح شیعہ قائل ہیں اور اس کے علاوہ بعض کلامی مسائل مثلانبوت، اعجاز قرآن، عصمت وغیرہ ان مسائل میں سے نہیں ہیں جنہیں معصوم کے کلام پر تکیہ کرتے ہوئے ثابت کیا جائے یا دوسرے الفاظ میں یہ باتیں معصومین کے کلام کی حجیت کے مقدمات میں سے ہیں۔
البتہ جب ایک شیعہ متکلم چاہے کہ دینی معارف و مفاہیم کو معصومین  ٪ کے ماننے والوں کے لئے بیان کرے تو ایسی صورت میں مذکورہ طریقے سے استدلال کر سکتا ہے اور اس کا استدلال، برہانی ہوگا اس لئے کہ بغیر کسی شک کے معصوم  کا کلام صحیح اورواقع  کے مطابق ہوگا نیز یقینی قضایا میں اس کا شمار ہوگا 
اور جو انہوں نے ذکر کیا کہ امام معصوم نے اس کلام کو ممدوح جانا ہے جو ان سے لیا گیا ہو، وہ اسی زاویہ سے متعلق ہے یعنی اگر کوئی چاہے کہ دینی عقائد کو شیعوں کے لئے بیان کرے تووہ معتزلی و اشعری کلام کے قواعد اور ان کے نظریات کو بنیاد قرار نہ دے۔ اس لئے کہ اس میں خطا و غلطیاں بہت زیادہ پائی جاتی ہیں۔ جیسا کہ ارادہ الہٰی ، رؤیت، جبرو اختیار ،عصمت، امامت اور قیامت سے متعلق بحثوں جیسے اہم مسائل میں ان کی غلطیاں مسلّم اور واضح و روشن ہیں اورہرگز مراد یہ نہیں ہے کہ ہر کلامی مسئلہ میں معصوم کے کلام کی طرف رجوع کیا جائے، ایسے کے سامنے جو حتی کہ معصوم پیشوا کے وجود کو بھی قبول نہیں کرتا۔ مثلاً کیا صحیح ہے کہ امامت کے سلسلہ میں اور امام میں عصمت کی شرط اوراس کا خدا کی جانب سے نصب  کیا جانا جیسے مسائل میں کسی معصوم کے کلام سے استدلال کیا جائے یا خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کریم کی آیات سے تمسک حاصل کیا جائے؟!
 اگر اس طرح کی جگہوںمیں کسی آیت یا حدیث کی طرف استناد ہوتا ہے تواس وجہ سے ہے کہ در حقیقت وہ آیت یاروایت خود استدلال عقلی کو بیان کر رہی ہے اس طرح سے کہ وہ روشن اور سب کے لئے قابل فہم بیان ہوئی ہے۔
متکلمین اور ان کے کلامی آثار:تمام شیعہ متکلمین کے حالات زندگی اور ا ن کے کلامی آثار کو بیان کرنے کے لئے ایک مستقبل کتاب کی ضرورت ہے ہم یہاں صرف چند نمونے ذکر کرر ہے ہیں:
١۔ہشام بن حکم: (وفات ١٧٩   ھ یا ١٩٩   ھ)امام صادق  و امام کاظم   کے اصحاب و شاگردوں میں سے تھے اورعلم  کلام میں ا ئمہطاہرین ٪ کے اہم شاگردوں میں سے ا یک تھے۔
علم کلام میں ان کی مہارت ، خاص وعام اور موافق و مخالف کے نزدیک مشہور ہے ۔ امام صادق  ـ نے ان کی تعریف وتوصیف میں فرمایا ہے: '' ہشام بن حکم ہمارے حق کے دفاع میں جلودار ہیں، ہماری رائے اور ہماری بات کی سچائی کی تائید کرتے ہیں ہمار ے دشمنوں کے باطل عقائد کا قلع قمع کرتے جو بھی ان کے طریقے کی پیروی کرے گویا  اس نے ہماری پیروی کی ہے اور جو بھی ان کی مخالفت کرے اورا نکار کرے اس نے مجھ سے دشمنی کی اورہمارا انکار کیا''۔(فلاسفة الشیعہ،ص٦٣٤)
شہرستانی نے ان کو ا صول عقائد میں صاحب نظر اور عمیق جانا ہے(ملل و نحل شہرستانی،ج١،ص١٨٥) احمد امین مصری نے کہا ہے: ہشام سے نقل شدہ بہت سے مناظرے ان کے حضور ذہن اورقوی دلیل پردلالت کرتے ہیں۔( ضحی ا لاسلام،ج٣،ص٢٦٨)
کلامی موضوع پر ان کی بعض کتابیں:الامامة؛الدلالات علی حدوث الاشیائ؛ الرّد علی الزنادقہ؛ الرّد علی اصحاب الاثنین؛التوحید؛الرّد علی مَن قال بامامة المفضول؛ کتاب فی الجبر و القدر؛ المعرفة؛ الاستطاعة؛ القدر؛ و...
٢۔ شیخ مفید: ( ابو عبد اللہ محمد بن نعمان المعروف شیخ مفید ،٣٣٨ھ۔٤١٣ھ)ن کو زمانۂ غیبت کی ابتداء میں شیعہ امامیہ کے عقائدمیں نئی روح پھوکنے والا کہا جاسکتا ہے اس لئے کہ عباسی حکومت میں سیاسی تبدیلیوں کے پیدا ہونے سے جو مناسب موقع ملااس میں اور اسی طرح آل بویہ جو شیعہ تھے اور سیاست میں اہم کردار رکھتے تھے ان کے زمانے میں شیخ مفید نے فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شیعی عقائد کے اصول و مبانی کو قرآن و سنت اور قوی عقلی دلیلوں کے ذریعے تبیین کیا۔ متعدد کلامی کتابیں اور رسالے تحریر کیے جو مصنفات شیخ مفید کے نام سے یکجا شائع ہوئے ہیں ان کے کلامی آثار میں سے دو بہت اہم ہیں: ایک '' اوائل المقالات فی المذاہب والمختارات'' ہے جس میں شیعہ عقائدکو نقل کرتے ہوئے دوسرے مذاہب و اسلامی فرقوں سے مقایسہ کیا ہے اور دوسری کتاب'' تصحیح الاعتقادات بصواب الانتقاد'' ہے جو شیخ صدوق  کی کتاب ''الاعتقادات فی دین الامامیہ'' کی تنقیدی شرح ہے۔
٣۔ابو اسحاق ابراہیم بن نوبخت:کتاب '' الیاقوت فی علم الکلام'' کے مؤلف ہیں جس کی شرح علامہ حلّی نے ''انوار الملکوت فی شرح الیاقوت'' کے نام سے کی ہے. ان کی یہ کتاب علم کلام میں شیعہ امامیہ کے استدلالی متون کی قدیمی ترین کتابوں میں سے ہے جس میں اسلامی عقائدکے بارے میں عقلی طریقے سے بحث کی  گئی ہے اور آغاز کتاب میں منطقی و فلسفی بحثیں بھی بطور اختصار بیان ہوئی ہیں۔
ابو اسحاق ،نو بخت خاندان کے دوسرے مفکرین کی طرح فلسفہ میں بھی استاد و صاحب نظر تھے اور علم کلام میں فلسفی بحثوں کے قواعد وروش سے استفادہ ان کے ایجادات میں سے ہے حالانکہ ان کے بعد یہ طریقہ فخر الدین رازی اورخواجہ نصیر الدین طوسی کے ذریعے آگے بڑھا اور خواجہ نصیرا لدین کے ذریعے اپنے بلند مقام تک پہنچا۔ ان کے زمانے کے سلسلے میں اختلاف ہے لیکن مختلف قرائن سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ چوتھی صدی ہجری میں زندگی گزار رہے تھے۔(اس سلسلے میں کتاب خاندان نوبختی یا کتاب انوار الملکوت کے مقدمے جسے محقق کتاب نے لکھا ہے رجوع کیا جاسکتا ہے)
٤۔ سید مرتضیٰ : (ابو القاسم علی بن الحسین بن موسی المعروف سید مرتضیٰ وملقب بہ علم الہدیٰ،٤٣٦ھ۔ ٣٥٥ھ)شیخ مفید کے شاگردوں میں سے او رعلم کلام میں مانے ہوئے  اور بے نظیر استاد تھے ان کے مقام و منزلت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ خواجہ نصیر الدین جب بھی مجلس درس میں تذکرہ کرتے تو کہتے: '' صلوات اللہ علیہ''( فلاسفة الشیعہ ،٣٣٩ ) اور علامہ حلّی نے ان کے آثار کی توصیف کرتے ہوئے کہا ہے :'' امامیہ نے سید مرتضیٰ کے زمانے سے آج تک ان کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے ( رجال علامہ ،ص٩٥) اورابو العلاء معرّی نے سید مرتضیٰ سے ملاقات کے بعد جب ان سے پوچھا گیا کہ سید کوکیسا پایا؟ تو کہا: اگران کے پاس آتے تو تمام انسانوں کو ایک شخص میں اور زمین کو ایک گھر میں اور زمانے کو ایک لمحے میں پاتے۔
علم کلام کے موضوع پر ان کی مشہور ترین کتابوں میں سے '' الشافی '' (امامت کے موضوع پر)،'' تنزیہ الانبیائ''( پیغمبروں و ائمہ کی عصمت کے سلسلے میں)اور ''الذخیرہ فی اصول الدین '' ہیں سب سے پہلے ''الشافی'' کو جو پانچ جلدوں میں شائع ہوئی ہے امامت کے موضوع پر قاضی عبد الجبار معتزلی کے اعتراضات کے جواب میں لکھا:'' تنزیہ الانبیائ'' انبیاء و ائمہ کی عصمت کے سلسلے میں شبہات کے جواب میں ہے اور تیسر ی کتاب جیسا کہ اس کے نام سے واضح ہے ، اصول دین کے بارے لکھی گئی ہے۔ ان کے رسالا ت کا مجموعہ تین جلدوں میں ''رسائل الشریف المرتضیٰ'' کے نام سے شائع ہوا ہے ۔
٥۔ شیخ طوسی:( محمد ابن حسن طوسی ،(٤٦٠۔٣٨٥) المعروف شیخ طوسی وشیخ الطائفہ)سید مرتضیٰ کے شاگرد اور مختلف اسلامی علوم و فنون میں علمی تبحر میں یکتائے زمانہ تھے ، علم کلام، فقہ، حدیث ، اصول فقہ، تفسیر، دعا وآداب عبادت میں متعدد تألیفات ہیں جو تمام کی تمام دینی علوم کے مصادر میں شمار ہوتی ہیں ۔ علم کلام میں بہت زیادہ کتابیں لکھیں ہیں جن میں سے ریاضة العقول (علم کلام پر مقدمہ)، تلخیص الشافی، تمہید الاصول، الغیبة، الاقتصاد فی الاعتقاد ( دیکھئے الفہرست شیخ طوسی مقدمے کے ساتھ؛ کتاب معالم العلمائ) اور توحید و عدل قابل ذکر ہیں۔
٦۔ سدید الدین حمصی رازی :( انہوں نے ٥٨٠  سے ٥٩٠   کے درمیان وفات پائی ہے فخر الدین رازی نے ان کے بعض احتجاجات کو آیہ مباہلہ کی تفسیر میں نقل کیا ہے اسی طرح خواجہ نصیر الدین طوسی نے بھی کتاب قواعد العقائد کی اعادہ معدوم کی بحث میں صفر ١٣٣ میں ان کا ذکر کیا ہے)چھٹی صدی ہجری میںزندگی گزاری اور شیعوں کے برجستہ متکلمین میں شمار کئے جاتے ہیں علم کلام میں اہم اور مفید کتاب '' المنقذ من التقلید ''کے نام سے لکھی ۔ اس کے اختتام کی تاریخ ٥٨١  ھ ہے۔
٧۔ خواجہ نصیرا لدین طوسی: (محمد بن محمد بن حسن طوسی(٦٧٢۔٥٩٨) ان کو محقق طوسی نصیر الدین سلطان المحققین ، خواجہ نصیر الدین اور خواجہ کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے)یہ ایک برجستہ اسلامی متکلمین میں سے ہیں جو تمام شیعہ و سنی محققین کے نزدیک قابل احترام ہیں ان کی زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: 
پہلا دور: اسماعیلیوں سے ملاقات سے پہلے جس میں بعض شہروں مثلاً قم و نیشاپور میں تحصیل علم میں مشغول تھے۔
دوسرادور:اسماعیلیوں سے آشنائی و رفت و آمد کادور جو ایک چوتھائی صدی سے زیادہ تھا ایران میں مغولوں کی وجہ سے نا امنی کے سبب خواجہ اسماعیلیوں کے پاس رہے اور ٦٥٣  ھ میں ہلاکوں خان کے ہاتھوں اسماعیلیوں کی شکست تک وہیں رہے مورخین نے اس دور کو قید و زنداں کے دور سے یاد کیا ہے ان کے مطابق اسماعیلی، خواجہ کو ڈرادھمکا کر اپنے پاس لے گئے اور ان سے چاہا کہ ان کی موافقت کریں ۔
شرح اشارات جواسی دور میں لکھی گئی اس کے آخر میں شیخ کی عبارت اسی نظریہ کے تائید کرتی ہے چونکہ انہوںان شرائط کو بہت برے شرائط سے یاد کیا ہے اورمندرجہ ذیل شعر کو انہیں شرائط کو یاد کرتے ہوئے ذکر کیا ہے  
بہ گرداگرد خود چندان کہ بینم

بلا انگشتری ومن نگینم               ( شرح اشارات،ج٣،ص٤٢١۔٤٢٠)
بہر حال اس دورہ میں انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں جن میں سے روضة القلوب، رسالة التولی و التبری، تحریر المجسطی ، تحریر اقلیدس ،روضة التسلیم، مطلوب المومنین و شرح اشارات ہیں۔
تیسرا دور: ہلاکو خان مغول کے ہاتھوں اسماعیلیوں کی شکست کادور ہے اس دورمیں انہوں نے مناسب تدبیر کے ساتھ ہلاکوں خان کے نظریات و احساسات کو مکمل طور پر مسخّر کیا اور اس کودین اسلام سے مشرف کیا اس ذ ریعہ سے ہلاکو کے ہاتھوں لوگوں کے قتل عام کو روکا اورعلم و دانش کے پھیلانے اور امامیہ مذہب کے مستحکم کرنے میں تمام پائے جانے والے امکانات کو بروئے کار لائے اوردیکھ بھال کے لئے سپرد کئے گئے اوقاف کے ذریعہ آپ نے علماء کی حمایت اور' 'مراغہ'' کے بڑے رصد خانہ کو تاسیس کرنے کے علاوہ چارلاکھ کتابوں پر مشتمل کتب خانہ کی بنیاد ڈالی۔
خواجہ نصیر الدین طوسی نے اہم کلامی آثار چھوڑے جن میں سے اہم کتاب ''تجرید العقائد'' ہے جو ہراعتبار سے بے سابقہ ہے اسی وجہ سے تمام اسلامی مفکرین نے چاہے وہ سنی ہوں یا شیعہ اس کتاب کو مورد توجہ قرا ر دیا ہے اس کتاب کی بہت زیادہ شرحیں لکھی گئیں اورحاشیہ لگائے گئے۔ '' قواعد العقائد'' بھی علم کلام میں جامع اور مختصر کتاب ہے جس میں زیادہ تر مختلف اسلامی مذاہب کے آرا ء و اقوال کو بیان کیا گیا ہے اگر چہ تمام مسائل میں امامیہ کے نظریے کو بیان کر کے اس کومستحکم کیا ہے اور بعض جگہوں پرمخالف نظریات کو نقد بھی کیاہے لیکن ان کا انتقاد واستدلال کا پہلو ،نقل عقائد ومذاہب کے پہلو سے کم ہی ہے۔ '' تلخیص المحصل'' جو '' نقد المحصل'' کے نام سے بھی مشہور ہے نیز خواجہ کے اہم کلامی آثار میں سے ایک ہے (خواجہ نصیر الدین طوسی کی زندگی اوران کے آثار کے سلسلے میں مزید معلومات کے لئے ''فرق و مذاہب کلامی'' آقای ربانی گلپائگانی،کی طرف مراجع کیاجاسکتا ہے؛مترجم)
٨۔ ابن میثم بحرانی :(کمال الدین میثم علی بن میثم بحرانی (٦٩٩۔٦٣٦ھ) جو علوم معقول ومنقول میں استاد اور صاحب نظر تھے۔ نہج البلاغہ کی مشہور و معروف شرحوں میں سے ان کی پانچ جلدوں پر مشتمل شرح ہے ۔ قواعد المرام فی علم الکلام، ایک اہم کلامی کتاب ہے جو آٹھ قواعد پر تنظیم دی گئی ہے: پہلے قاعدہ میں بعض اہم منظقی بحثوں کا خلاصہ ذکر ہوا ہے ۔ دوسرے قاعدہ میں فلسفہ کے عمومی مسائل سے متعلق دس بحثوں کوذکر کیا گیا ہے تیسرے قاعدہ میں حدوث عالم کو ثابت کیا گیا ہے .چوتھا قاعدہ وجود صانع کی دلیلوں اور خدا کے صفات ثبوتیہ و سلبیہ کی تبیین پر مشتمل ہے۔ پانچویں قاعدہ میں افعال خداوند اورمسئلہ عدل الہٰی سے بحث کی گئی ہے ۔ چھٹا قاعدہ نبوت سے متعلق ہے ۔ ساتواں قاعدہ معاد جسمانی و روحانی کے سلسلہ میں اورآخری یعنی آٹھویں قاعدہ میں امامت کے سلسلے میں بحث ہوئی ہے۔
٩۔علامہ حلّی: (جمال الدین حسن بن یوسف بن علی بن مطہر (٧٢٦۔٦٤٨ھ) علوم نقلی و عقلی میں جامعیت کے اعتبار سے نوادر زمانہ میں شمار ہوتے ہیں آپ کے مقام ومرتبہ کے لئے یہی کافی ہے کہ آپ کے استاد خواجہ نصیر الدین طوسی نے ان کو تعظیم و ا حترام کے ساتھ یا د کیا ہے اورجب ان سے حلّہ کے مشاہدات منجملہ علامہ حلّی سے ملاقات کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کو عظیم وماہر مفکر کے عنوان سے یاد کیا ہے ( اعیان الشیعہ،ج٥،ص٣٩٦) علامہ حلّی  نے عقلی ونقلی علوم میں متعدد کتابیں لکھیں ۔ اعیان الشیعہ کے مؤلف نے فقہ،اصول فقہ، کلام ، تفسیر، آداب بحث ، فلسفہ ، حدیث ، رجال، ادبیات اور ادعیہ کے موضوع پر سو سے زیادہ آثار کا ذکر کیا ہے: بعض مشہور کلامی آثار اس طرح ہیں:نہایة المرام فی علم الکلام ، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد ، کشف الفوائد فی شرح قواعد العقائد، نہج المستر شدین فی اصول الدین ، انوار الملکوت فی شرح الیاقوت، کشف الحق ونہج الصدق، منہاج الکرامة فی اثبات الامامة، الالفین، الباب الحادی عشر، الرسالة السعدیة فی الکلام۔
١٠۔ فاضل مقداد: (ابو عبد اللہ مقداد بن عبد اللہ بن محمد بن الحسین بن محمد السیّوری متوفی ٨٢٦ ھ ، سیوری کوفہ و حلّہ کے درمیان فرات کے نزدیک واقع سیوراء شہر سے نسبت کی وجہ سے) مختلف علوم بالخصوص فقہ و کلام میں مشہور شیعہ علماء میںسے ہیں۔ فقہ میں اہم کتابوں میں سے کتاب ،''کنز العرفان فی فقہ القرآن'' آیات الاحکام کے بارے میں اور کتاب ''نضد القواعد الفقہیہ علی مذہب الامامیة'' ہیں ۔ مشہور ترین کلامی کتابوں میںسے : '' ارشاد الطالبین فی شرح نہج المسترشدین'' ،'' اللوامع الالٰہیة فی المباحث الکلامیة'' اور'' النافع یوم الحشر فی شرح باب الحادی عشر '' ہیں، ان کی کلامی کتابوں کی طرف رجوع کرنے سے اس فن میں ان کی مہارت و اضح ہوتی ہے نیز مطالب بیان کرنے میں قدرت ودقت اور اقوال پر تسلط قار ی کومتعجب کرتا ہے۔ ( در آمدی بر علم کلام)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں