پیر، 6 جون، 2011

انوار الحدیث


انوار الحدیث
فضائل صلوات:
٭آ ل رسولۖ کو صلوات میں شامل کرنا ضروری
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مجھ پر صلوات بھیجتا ہے لیکن میری آل پر صلوات نہیں بھیجتا وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھ سکتا۔( جبکہ جنت کی خوشبو پانچ سو سال کے فاصلے سے سونگھی جاسکتی ہے) (فضائل صلوات اور مشکلات کا حل، صفحہ ٢٨)
٭ناقص صلوات نہ پڑھو!
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: مجھ پر ناقص درود نہ بھیجا کرو لوگوں نے عرض کیا: ناقص درود کیا ہے؟ فرمایا: 'اللھم صلّ علی محمد' کہہ کر نہ رہ جاؤ یہ ناقص صلوات ہے بلکہ یوں کہو: اللھم صلی علیٰ محمدۖ و آل محمد۔     (حاشیہ قرآن مترجم مولانا فرمان علی صاحب بنقل از صواعق محرقہ ابن حجر مکّی) ٭بہتّر شہیدوں کا اجر
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے:جو بھی کہے:''صلّی اللہ علیٰ محمد و آل محمد'' (یعنی محمد وآل محمدۖ پر صلوات پڑھے) تو خدا وند عالم اس کو بہتّر شہیدوں کا اجر عطا فرماتا ہے۔     (جامع الاخبار،صفحہ٧٤)
٭فقر و تنگ دستی کا علاج صلوات
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: صلوات پڑھنے سے فقر و تنگ دستی دور ہوتی ہے۔ (داستانہائے صلوات٩٧)
٭سب سے بڑا کنجوس!
رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: سب سے بڑا کنجوس وہ ہے جس کے سامنے میرا نام لیا جائے لیکن مجھ پر صلوات نہ پڑھے۔ 
(کنز العمال ،حدیث٢١٤٤)
٭صلوات کے ساتھ حاجت پوری ہوتی ہے
امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے: جب خدا سے کوئی حاجب طلب کرو تو پہلے رسول خداۖ پر درود پڑھو پھر اپنی حاجت مانگو کیونکہ خدا اس سے بلند تر ہے کہ اس سے دو حاجتیں طلب کی جائیں اور وہ ایک تو پوری کردے اور ایک روک لے۔ (صحیفۂ سجادیہ، مترجم مولانا مفتی جعفر حسین صاحب،صفحہ ١٠٤) ٭سب سے سنگین عمل صلوات 
امام محمد باقر علیہ السلام  نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن میزان اعمال پر سب سے سنگین اور وزنی عمل جو قرار دیا جائے گا وہ محمدۖ وآل محمد پر صلوات ہے۔ 
      (بحار ٩٤،٤٩،٩: کافی ٢/٤٩٤)
٭بغیر صلوات کے دعا رکی رہتی ہے
امام جعفر صادق علیہ السلام  نے ارشاد فرمایا: ہر دعا اس وقت تک رکی رہتی ہے (اور خدا تک نہیں پہنچتی) جب تک محمدۖ اور ان کی آل پر درود نہ بھیجا جائے۔ 
                          (صحیفہ سجادیہ ،ترجمہ مفتی جعفر صاحب،صفحہ ١٢٠)
٭ایک صلوات کے بدلے ہزار نیکیاں
امام جعفر صادق علیہ السلام  نے ارشاد فرمایا:جو محمد اور آل محمدۖ پر صلوات پڑھتا ہے تو پروردگار عالم اس کے نامۂ اعمال میں ہزار نیکیاں لکھتا ہے۔
(جامع الاخبار،صفحہ٧٧)
٭گناہوں کا کفارہ صلوات
امام رضا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: جو شخص اپنے گناہوں کا کفارہ ادا نہیں کرسکتا اسے کثرت سے صلوات پڑھنا چاہئے۔ اس لئے کہ محمد وآل محمد ۖ پر صلوات پڑھنے سے گناہ ختم ہوجاتے ہیں۔ (جامع الاخبار ٢٨)

  ناقص صلوات نہ پڑھو!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:مجھ پر بترائ(دم کٹی )صلوات نہ پڑھو،لوگوں نے سوال کیا : اے اللہ کے رسول!یہ دم کٹی صلوات کیا ہے؟ فرمایا:اللھم صل علی محمد کہہ کر خاموش ہوجاؤ(تو یہ دم کٹی صلوات ہے) بلکہ کہو: ''اللھم صلّ علی محمد و علی آل محمد''۔حضرتۖ سے سوال کیا گیا :اے اللہ کے رسول ۖ! آپ کے اھل کون لوگ ہیں؟فرمایا:علی و فاطمہ و الحسن و الحسین۔ (کشف الغمہ،ج١،فصل فی الامر بالصلاة،ص٣٢٥؛ینابیع المودة،قندوزی،جزء اول،باب وجوب الامام،ص١١)
صلوات کا طریقہ!
عبد الرحمن ابن ابی لیلی نقل کرتے ہیں کہ کعب ابن عجرہ نے مجھ سے ملاقات کی اور کہا :آیا تم پسند کرتے ہو کہ ایک حدیث ہدیہ کے طور پر تمھیں تمھارے سامنے پیش کروں؟وہ حدیث یہ ہے کہ ایک دن پیغمبر اکرم  ۖ ہم صحابہ کے پاس آئے ۔ہم نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول!ہم نے آپ پر سلام کرنے کے طریقے کو (قرآن سے )سیکھا ہے لیکن فرمائیے کس طرح آپ پر صلوات بھیجیں؟حضرتۖ نے فرمایا: کہو: ''اللھم صل علی محمد و آل محمد کما صلیت علی ابراھیم و آل ابراھیم انک حمید مجید''پروردگارا !محمدۖ اور ان کی آل پر درود بھیج جیسا کہ ابراہیم پر درود بھیجاہے بیشک تو حمید و بزگوار ہے۔((صحیح  بخاری،کتاب التفسیر،ج٦،ص٢١٧،سورہ احزاب کے ذیل میں؛ کنزالعمال،ج٢،حدیث٤٠٠٦؛ صواعق محرقہ،ص٤٦)
صلوات پڑھنے سے نفاق و کینہ ختم ہوتا ہے
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مجھ پر بلند آواز سے صلوات پڑھو اس لیے کہ اس سے نفاق و کینہ ختم ہوتا ہے۔ (اصول کافی،ج٢،ص٤٩٣،ح١٣)
صلوات فراموشی کا علاج
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:جب کوئی چیز بھول جاؤ تو مجھ پر صلوات بھیجو کہ یہ اس چیز کے یاد آنے کا سبب ہے۔انشاء اللہ(فضائل صلوات ،ص٤٠)
صلوات، نجات اخروی کا سبب
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:جو بھی ایک دفعہ مجھ پر صلوات پڑھے تو اس کا کوئی گناہ باقی نہیں رہتا اور جو ہزار مرتبہ صلوات پڑھے تو خدا وند عالم اسے آتش دوزخ سے نجات عطا کرتا ہے۔(ثمرات الحیات،ج٢،ص٧٥٨بنقل از لآلی الاخبار)
صلوات پڑھنے سے امام زمانہ کا دیدار!
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص نماز صبح و نماز ظہر کے بعد اللھم صل علیٰ محمد و آل محمد و عجّل فرجھم کہتا رہے تو وہ اس وقت تک نہیں مر سکتا جب تک کہ امام مہدی عج کا دیدار و ملاقات نہ کرلے۔(سفینةالبحار،ج٢،ص٥٠۔آثار و برکات صلوات ،ص٦٨)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نام سن کر صلوات پڑھو
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:جب تم جناب رسول خدا کا نام لو یا کوئی دوسرا تمہارے سامنے نام لے یا اذان وغیرہ میں ان جنابۖ کا نام نامی سنو توآنحضرتۖ پر درود بھیجو۔(حاشیہ ترجمہ قرآن مولانا مقبول احمد صاحب، ص٩٩٦بنقل از اصول کافی و من لایحضر)


ہفتہ، 4 جون، 2011

شیعہ امامیہ اور علم کلام


شیعہ امامیہ اور علم کلام

تحریر: حجةالاسلام و المسلمین ربانی گلپائگانی ترجمہ: سید محمد حسنین باقری
''شیعہ'' لغت و اصطلاح میں:لغت میں لفظ شیعہ کا اطلاق دو معنی پر ہوتا ہے : 
ایک کسی مطلب پر دو یا چند افراد کی موافقت وہماہنگی اور دوسرے کسی فرد یا گروہ کا کسی دوسرے فرد یا گروہ کی پیروی کرنا۔
( الشیعة؛القوم الذین تجتمعوا علی  امر، وکل قوم اجتمعوا علی امر فہم شیعة، وکل قوم امرہم واحد یتبع بعضہم رأی بعض فہم شیع، (لسان العرب ،کلمہ شیع؛ المیزان،ج١٧،ص١٤٧)
اور اصطلاح میں مسلمانوں کے اس گروہ کو شیعہ کہتے ہیں جوحضرت علی  ـ کی بلا فصل امامت و خلافت کا عقیدہ رکھتے ہیں نیز یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام اور پیغمبر  ۖ کا جانشین شرعی نص کے ذریعہ معین ہوتا ہے اور حضرت علی  ـ اور بقیہ تمام ائمہ  ٪ کی امامت شرعی نص کے ذریعہ ثابت ہے۔( اوائل المقالات،ص٣٥؛ الملل والنحل،ج١،ص١٤٦)
حضرت علی  ـکے چاہنے والوں اور پیروی کرنے والوں پر لفظ شیعہ کا اطلاق پہلی مرتبہ پیغمبر اکرم  ۖ کی جانب سے ہوا ہے. یہ بات پیغمبر اکرم  ۖ سے بیان شدہ متعدد حدیثوں میں ذکر ہوئی ہے جیسا کہ سیوطی نے جابر بن عبد اللہ انصاری اور ابن عباس اورحضرت علی  ـ سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم  ۖ نے آیت (ِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ُوْلٰئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) ( سورہ بینہ:٧)( بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے یہی لوگ بہترین خلائق ہیں) کی تفسیرمیں حضرت علی  ـ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: قیامت کے دن تم اورتمہارے شیعہ کامیاب ہونگے( تفسیر در المنثور،ج٨،ص٥٨٩، مطبوعہ دارالفکر؛ اس کے علاوہ د یکھئے: الغدیر، ج٢، ص٥٨ ۔ ٥٧ )
شیعیت کی تاریخ میں متعدد فرقے وجود میں آئے جن میں سے بہت سے ختم ہوچکے ہیں لہٰذا ان کے بارہ میں بحث کرنے سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔ شیعوں کے ا صلی فرقے جو اس وقت موجود ہیںوہ اس طرح ہیں: شیعہ اثناعشری ، شیعۂ زیدیہ ،شیعہ اسماعیلیہ. یہاں پر موضوع بحث شیعہ اثنا عشری ہے۔ 
وجہ تسمیہ:شیعوں میں اکثر شیعۂ امامیہ اثنا عشریہ ہیں ۔ چونکہ وہ پیغمبر  ۖ کے جانشینوں کو بارہ جانتے ہیں اس وجہ سے اثنا عشریہ( بارہ امامی) کہے جاتے ہیں، بارہ اماموں کے نام اور خصوصیات ، پیغمبر اکرم  ۖ سے مروی روایتوں میں بیان ہوئے ہیں. بارہ امام یہ ہیں:
١۔ علی بن ابی طالبـ
٢۔ حسن بن علی  ـ
٣۔ حسین بن علی  ـ
٤۔ علی بن الحسین  ـ(امام سجاد )
٥۔محمد بن علی  ـ(امام باقر  )
٦۔ جعفر بن محمد  ـ (امام صادق  )
٧۔موسیٰ بن جعفر  ـ (امام کاظم )
٨۔ علی بن موسیٰ   ـ(امام رضا )
٩۔ محمد بن علی  ـ ( امام جواد )
١٠۔ علی بن محمد  ـ (امام ہادی )
 ١١۔حسن بن علی  ـ (امام عسکری )
 ١٢۔ حجة بن الحسن ( امام مہدی )
شیعہ ا ثنا عشری امامت کے مسئلے میں خاص تاکید رکھتے ہیں اور امام کی عصمت اور امت اسلامی کے دوسرے افراد پرافضلیت کو بہت اہم اوربنیادی جانتے ہیں دوسری طرف پہلے تین اماموں کے بعد امامت کو امام حسین  ـ کی اولاد میں منحصر جانتے ہیں امام کے سلسلے میں مذکورہ خاص عقائد کی وجہ سے امامیہ کے نام سے مشہور ہوئے ہیں۔
شیخ مفید  شیعہ کی یہ تعریف کرنے کے بعد کہ وہ لوگ جو حضرت علی  ـ کی بلا فصل امامت کاعقیدہ رکھتے ہیں،شیعہ امامیہ کے بارے میں کہتے ہیں: یہ عنوان شیعوں کے اس گروہ سے مخصوص ہے جو ہر زمانے میں امام کے موجود ہونے اور نص جلی کے واجب ہونے اور ہرامام کے لئے عصمت اورکمال کے معتقد اور امامت کو (پہلے تین اماموں کے علاوہ) امام حسین  ـ کی اولاد میںمنحصر جانتے ہیں...۔( اوائل المقالات،ص٣٨)
تاریخ پیدائش تشیع:باوجودیکہ پیغمبر  ۖ کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان بعض مسائل میں اختلافات پیش آئے (اس سلسلے میں علامہ شر ف الدین کی کتاب '' النص والاجتہاد'' کی طرف رجوع کیا جائے) پھر بھی فرقے او رگروہ جو بعد میں وجود میں آئے اس زمانے میں موجودنہیں تھے لیکن پیغمبر اکرم  ۖ کی رحلت کے بعد اختلافات وجود میں آئے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے درمیان مختلف فرقے پیدا ہوئے ۔ سب سے اہم اختلاف جو پیغمبر  ۖ کی وفات کے بعد ابتدائی دنوں میں وجود میں آیا وہ امامت و خلافت کے مسئلے سے متعلق تھا جس نے مسلمانوں کودو گروہوں میں تقسیم کیا۔
ایک گروہ کا عقیدہ یہ تھا کہ نبوت کی طرح امامت بھی الہٰی منصب و مقام ہے اور امام کے شرائط میں سے یہ ہے کہ وہ خطا وگناہ سے معصوم ہو اور اس صفت کو خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا. اسی بناپر امام کے معین ہونے کا راستہ نص الہٰی ہے جو قرآن یا احادیث نبوی میں بیان ہوتی ہے اوراس نص کے مطابق علی ابن ابی طالب  ـ پیغمبر اکرم  ۖ کے جانشین اور مسلمانوں کے امام ہیں۔ حضرت علی  ـ ، بنی ہاشم اور مہاجر و انصارمیں سے بعض بزرگ اصحاب اسی نظریہ کے قائل تھے اور امامت کے مسئلے میں یہی شیعوں ( خصوصاً شیعہ امامیہ) کا عقیدہ ہے۔
دوسر ا گروہ کہ جس کے سر فہرست ابو بکر و عمر تھے، اس عقیدہ پر تھا کہ پیغمبر  ۖنے اپنا جانشین معین نہیں کیا ہے اور یہ کا م مسلمانوں کے حوالے کردیاہے، لہٰذا خلافت و امامت کے مسئلے کی اہمیت اور امت اسلامی کی سرنوشت میںاس کے حیات بخش کردار کے پیش نظر،ایک جلد بازی کے اقدام میں (اس حالات میں کہ جب حضرت علی  ـ اور بعض بزرگ اصحاب، پیغمبرۖ کی تجہیز و تکفین میں مشغول تھے) بعض مہاجرین و انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اورخلیفہ پیغمبر  ۖ کے سلسلے میں کافی بحث و گفتگو کے بعد خلیفۂ پیغمبر کے عنوان سے ابوبکر کی بیعت کی ، اور چونکہ دنیائے اسلام اور دنیا کے سیاسی و ا جتماعی شرائط کچھ اس طرح تھے کہ اگر امام علی  ـ اور آپ کے ساتھی اپنے عقیدے کو ثابت کرنے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے عملی اقدام یا جنگ کرتے تو اسلام باہر ی دشمنوں (ایران وروم) و اندرونی دشمنوں ( منافقین) کی جانب سے سخت نقصان اٹھاتا. لہذا امام علی  ـ نے صبر وتحمل ہی میں اسلام و مسلمین کی مصلحت دیکھی اگر چہ مناسب مواقع پر ان کے غلط اقدام کے بارے میں اپنا نظریہ بیان کرتے رہے اور جنگ وجدال سے پرہیز کیا۔ اور اسلامی معاشرے کی ہدایت و ترقی کے سلسلے میں کسی بھی طرح کی تلاش وکوشش سے خود داری نہیں کی۔
مسائل حل کرنے میں وہ خلفا کی مدد کرتے ،یہاں تک کہ خلیفہ دوم سے نقل ہوا کہ انہوں نے ستر مرتبہ کہا ''... اگر علی  ـ نہ ہوتے تو میں ہلاک ہوجاتا '' اور اسی طرح کہا :خدایا مجھے کسی ایسے مشکل مسئلے سے روبرو نہ کرنا جس میں علی ابن ابی طالب   ـ نہ ہوں۔( مذکورہ روایات کے لئے الغدیر، ج١ کی طرف مراجعہ کیا جائے)
شیعہ فرقہ، علی ابن ابی طالب کے ماننے والوں اور آپ  کی بلافصل امامت کا عقیدہ رکھنے والوں کے عنوان سے پیغمبر  ۖکی وفات کے بعد ابتدائی دنوں میں وجود میں آیاالبتہ ایسی روایتیں بھی پائی جاتی ہیں جس میںپیغمبر  ۖ کے زمانے ہی میں لفظ شیعہ کا اطلاق چار افراد یعنی سلمان ، مقداد، ابوذر ، عمار یاسرپر ہوتا تھا۔ ( فرق الشیعہ،ص١٧۔١٨؛ اعیان الشیعہ،ج١،ص ٨۔١٩)۔ یہ وہی افراد ہیں جو خلافت و امامت کے مسئلے میں حضرت علی  ـ کو پیغمبر  ۖ کا بلافصل خلیفہ جانتے تھے اوراس بات کومد نظر رکھتے ہوئے کہ امامت کے مسئلے میں شیعوں کا نظریہ ،کتاب و سنت کی نصوص پر موقوف ہے ، یہ کہا جاسکتا ہے کہ : در حقیقت، شیعیت، اسلام کے ساتھ رہی ہے اگرچہ ایک مذہب کے عنون سے پیغمبر  ۖ کی رحلت کے بعد وجود میں آئی ہے۔
تاریخ پیدائش کلام امامیہ:جیسا کہ اس سے پہلے ذکر ہوا کہ امامیہ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جوامامت کے مسئلہ میں نص شرعی کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ یعنی امام کے معین ہونے کا راستہ شرعی نص ہے۔ اسی طرح ذکر ہوا کہ امامت کے سلسلے میں اختلاف پیغمبر  ۖکی وفات کے فوراً بعد مسلمانوں کے درمیان پیش آیا اور اس سلسلے میںدو کلی نظریئے وجود میں آئے:
ایک یہ کہ خلیفہ اور امام خدا کی جانب سے ،پیغمبر  ۖکے ذریعے معین ہوا ہے ۔ اور دوسرا یہ کہ اس پر کوئی نص نہیں آئی اور مسلمانوں پر چھوڑدیا گیا ہے۔
ا مام علی  ـ اور بزرگان مہاجر وانصار میں سے ایک گروہ پہلے نظریے کے قائل تھے جن کے نام اور ان کے احتجاجات ، تاریخ وحدیث کی کتابوں میں ذکر ہوئے ہیں۔ شیخ صدوق   نے کتاب خصال میں بارہ افراد کے نام ان کے احتجاجات کے ساتھ نقل کیے ہیں ، مہاجرین یہ ہیں: خالد بن سعید عاص، مقداد بن اسود، ابی بن کعب ، عمار یاسر، ابوذر غفاری، سلمان فارسی، عبد اللہ بن مسعود،بریدہ اسلمی اور انصار یہ ہیں: خزیمہ بن ثابت، سہل بن حنیف، ابو ایوب انصاری،ابوہیثم بن تیہان وغیرہ ان لوگوں نے اپنے احتجاجات میں دو مطلب کی طرف استناد کیا ہے ایک پیغمبر  ۖسے وارد نص اور دوسرے امام علی  ـ کی افضلیت و برتری۔
 علامہ طباطبائی کلام امامیہ کی تاریخ پیدائش کے سلسلے میں کہتے ہیں : کلام امامیہ کی تاریخ پرانی ہے ، پیغمبر  ۖکی رحلت کے بعد ہی وجود میں آیا اس زمانے میں اکثر متکلمین اصحاب میں سے تھے ،مثلاً: سلمان ، ابوذر، مقداد، عمر بن حمق وغیرہ اورتابعین میں سے بھی مثلا، رشید، کمیل ومیثم وغیرہ علوی تھے جو بنی امیہ کے ہاتھوں مارے گئے ، اورامام باقر   ـ و امام صادق   ـ کے زمانے میں قدرت پیدا کی اور بحثیں کیں، کتاب و رسالے لکھے(المیزان،ج٥،ص٢٧٨)
مسألہ امامت سے قطع نظر بعض دوسرے مسائل جیسے خدا کے صفات ، قضاو قدر، جبر و استطاعت او رتفویض جوقدیمی ترین کلامی بحثیں ہیں ان مسائل میں بھی امامیہ صف اول میں ہے ا س لئے کہ سب سے پہلا شخص جس نے اس سلسلے میں کلامی بحث کی اور سؤالات و شبہات کے جواب دیئے وہ حضرت علی  ـ کی ذات ہے اور بلاشک آپ کے اصحاب و ساتھیوں نے بھی آپ کے کلامی نظریات و آراء کی پیروی کرتے ہوئے ان کو ضرورت کے موقع پر پیش کیا ہے ۔ امام علی  ـ کے بعد امام حسن اور امام حسین  اور ان کے بعد امام زین العابدین   ـ اور دوسرے ائمہ  ٪ میں سے ہر ایک اپنی امامت کے دور میں کلام کے صاحب عصمت استاد، کلامی جدو جہد کے علمبردار اور صحیح اسلامی عقائد کے مدافع کے عنوان سے تھے اور اس راہ میں اصحاب و شاگردوں کی بھی تربیت کی ہے۔
لہذا تاریخی اعتبار سے امامیہ مذہب اور کلام تمام اسلامی کلامی مذاہب پر مقدم ہے یہاں تک کہ قدر یہ کے ظہور میں آنے سے پہلے ( پہلی صدی ہجری کے اواخر میں) اور معتزلہ کے وجود میں آنے ( دوسری صدی ہجری کے ابتدا میں ) اور توحید و عدل الہی سے دفاع کے لئے تشبیہ گرا و جبر گرالوگوں  کے ساتھ مبارزہ کے لئے اٹھنے سے پہلے ہی کلام امامیہ کے رہبروںنے اس راستے کو طے کیا اوراپنی محکم اور قوی عقلی دلیلوں کے ذریعے توحید اورعدل کے ستونوںکو محکم کیا ہے۔ اسی دلیل کی وجہ سے عدل اور توحید کو دو علوی افکار  کے عنوان سے یاد کیا گیاہے(العدل و التوحید علویان)۔
ممکن ہے کہا جائے : صحیح ہے کہ اسلامی عقائد سے دفاع ، کلامی اعتراضات و شبہات کی جواب دہی اور کلام تقریری کے اعتبار سے کلام امامیہ مقدم ہے لیکن دوسرے دو اعتبار سے معتزلہ کا کلامی مکتب، امامیہ پر مقدم ہے:ایک اصول و قواعدکی تاسیس اور استدلال کے طریقوںکی ترسیم۔دوسرے کلامی رسائل و کتب کی تالیف و تصنیف کے اعتبار سے کہ یہ دونوں چیزوں ایک کلامی مکتب کے اہم خصوصیات میں شمار ہوتے ہیں۔
لیکن یہ کہنا صرف خام خیالی ہے اس لئے کہ دونوںموارد میں امامیہ پیش قدم  رہا ہے اس لئے کہ امام علی  ـ (قرآن کے بعد) پہلے شخص ہیں جنہوں نے عقلی تفکرات و نظریات کے دروازے مسلمانوں پر کھولے اور معارف و عقائد کے اصولوں کوبیان اور ان کو مستحکم کیا ، جیسا کہ توحید و عدل ( جواہم کلامی محور میں سے ہیں) کے سلسلے میں فرمایا: ''التوحید الا تتوہمہ ، والعدل الاتتہمہ''( نہج البلاغہ، حکمت ٤٧٠) توحید یہ ہے کہ اسے اپنے وہم و تصور کا پابند نہ بنائو. اور عدل یہ ہے کہ اس پر الزام نہ لگائو۔
اور اسی طرح امام علی  ـ  الہٰی صفات کی شناخت پر عقل کی توانائی کے سلسلے میں فرماتے ہیں :'' لم یطلع العقول علی تحدید صفتہ ولم یحجبہا عن واجب معرفتہ ''.(نہج البلاغہ،خطبہ٤٩)نہ عقلوں کو اپنی صفات کی حقیقت سے آگاہ نہیں کیا اور ان کو اپنی معرفت سے محروم نہیں رکھا۔
اسی طرح روایت ہے کہ ایک دن امام کو اطلاع دی گئی کہ مسلمانوں کا ایک گروہ عدل الہٰی کے سلسلے میں بحث کررہا ہے ۔ امام  مسجد میں آئے اورپیدائش کی غرض، بندوں کی ذمہ داری ، وعدوعیدا ور دنیاوی لذائذ و آرام کے سلسلے میں تقریر فرمائی۔
 معروف معتزلی عالم و متکلم جاحظ (متوفی٢٥٥ ھ)نے امام کے اسی کلام کے سلسلے میں کہا ہے : ''یہ تاریخ انسانیت کا ایسا جامع کلام ہے جو ان کی کتابوں میں نقل ہوا یا محاورات میں استعمال ہوا ہے'' اورکلام معتزلہ کے مشہور استادابو علی جبائی (متوفی ٣٠٣ھ) نے کہاہے : جاحظ نے سچ کہا ہے اس لئے کہ اس کلام (کلام امام)میں کمی و زیادتی نہیں ہوسکتی۔(احتجاج طبرسی،ص٢٠٧)
امامیہ علم کلام میں تألیف کے اعتبار سے بھی معتزلہ اور دوسرے مکاتب  سے متاخر نہیں رہے ہیں اس لئے کہ ان رسائل کے علاوہ جنہیں ائمہ شیعہ نے بعض کلامی مسائل میں لکھا ہے ( جیسے مسألہ ''قدر'' کے سلسلے میں رسالہ امام حسن مجتبیٰ  ـ)امامیہ متکلمین بھی زمانۂ قدیم سے کلامی موضوعات کے سلسلے میں صاحب تصنیف و تالیف رہے ہیں ۔
نجاشی نے کہا ہے: عیسی بن روضہ (تابعی)سب سے پہلے شخص ہیں جنھوں نے امامت کے موضوع پرکتاب لکھی ہے.( رجال نجاشی، ترجمہ نمبر ٧٩٦؛مذکورہ شخصیت منصور کے زمانے میں تھی)
ابن ندیم نے علی بن اسماعیل بن میثم تمار (متوفیٰ ١٧٩ھ) کو سب سے پہلا شخص جانا ہے کہ جنھوں نے امامت کے سلسلے میں تکلم کیا اور پھر ان کی تالیفات میں کتاب ''الامامة'' و''کتاب الاستحقا ق ''کانام لیا ہے۔( فہرست ابن ندیم، فن دوم، مقالہ سوم،ص٢٤٩) اور نجاشی کے مطابق وہ نظّام اور ابو ہذیل کے معاصر تھے اور ان کے ساتھ کلامی مناظرہ کیا ہے۔(رجال نجاشی، نمبر ٦٦١)
امام صادق و امام کاظم   کے زمانے میں شیعہ متکلمین میں سے ایک اہم شخصیت ہشام بن حکم تھے، علم کلام میں متعدد رسالے و کتابیں لکھیں جن میں سے کتاب التوحید ، کتاب الامامة، کتاب فی الجبر والقدر، کتاب الاستطاعة، الرّد علی اصحاب الاثنین،الدلالات علی حدوث الاشیائ،الرّد علی الزنادقہ،الرّد علی من قال بامامة المفضول،المعرفة وغیرہ کا نام لیا جاسکتا ہے۔
لہذا کلام امامیہ دو اعتبار سے دوسرے تمام اسلامی کلامی مکاتب پر مقدم ہے:١۔وجود میں آنے اور کلامی بحثیں پیش کرنے کے اعتبار سے۔٢۔ کلامی اصول و مبادی کی تأسیس کے اعتبار سے اور اگر کلام میں تالیف  وتصنیف کے اعتبار سے دوسروں سے مقدم نہ مانیں پھر بھی حد اقل دوسروں سے مؤخر نہیں ہے۔
احمد امین کا جواب:احمد امین نے پہلے کہا کہ: '' شیعہ اصول دین سے متعلق بہت سے مسائل میں معتزلہ سے ہمفکر ہیں مثلا صفات عین ذات ہیں، قرآن مخلوق ہے، کلام نفسی کا انکار، خدا سے رؤیت بصری کا انکار ،حسن وقبح عقلی، قدرت و اختیار انسان، خداوند عالم سے قبیح باتوں کا صادر نہ ہونا، افعال الہٰی اغراض کے تابع ہیں وغیرہ..'' پھر کہا ہے: میںشیعہ متکلم ابراہیم بن نوبخت کی کتاب ''یا قوت'' پڑھ رہا تھا اس میں امامت سے متعلق بحث کو چھوڑ کر معلوم ہو رہا تھا گویا میں معتزلی عقائدکی کوئی کتاب پڑھ رہا ہوں۔
 اس کے بعد اس بارے میں کہ ان دوکلامی مکتب میں سے کون دوسرے کا تابع ہے ، کہا ہے: بعض شیعہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ معتزلہ نے اپنے اصولی عقائد کو ان سے لیا لیکن میں ترجیح دیتا ہوں کہ شیعوں نے اپنی تعالیم کو معتزلہ سے لیا ہے، جیسا کہ مذہب اعتزال کی تاریخ کے مطالعہ سے اس بات کی تائید ہوتی ہے اور شیعۂ زیدیہ کے پیشوا زید بن علی ، واصل بن عطاء کے پیروکار تھے ا ورا مام جعفر صادق  ـ اپنے چچا کے ساتھ رابطے میں تھے جیسا کہ ابوالفرج اصفہانی نے ''مقاتل الطالبین'' میں نقل کیا ہے کہ جعفر بن محمد ،زید کی رکاب کو پکڑتے اور جب وہ گھوڑے پر سوار ہوجاتے توان کے لباس کوصحیح کرتے تھے اوردوسری طرف بہت سے معتزلی حضرات شیعہ مذہب کی طر ف منتقل ہوئے۔(ضحی الاسلام، احمد امین، ج٢،ص٢٦٨۔٢٦٧)
احمد امین کے جواب میں چند نکات پیش ہیں:
اولاً: توحید و عدل اوردوسری کلامی بحثوں کے سلسلے میں مولائے کائنات کے کلام و اقوال اوراسی طرح بزرگان معتزلہ کی اس بات پرتصریح کہ انہوں نے اپنے  مکتب کے اصول و قواعد کوامام علی  ـ سے سیکھا ہے (شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج١٠، ص٢٢٧)مذکورہ دونوں باتوں کومدنظر رکھتے ہوئے اگر دیکھا جائے تواحمد امین کا نظریہ ''اجتہاد در مقابل نص'' اورحقیقت سے بہت دور ہے ۔
ثانیاً: زیدبن علی کی واصل کی شاگردی پرکوئی محکم دلیل ہمارے پاس نہیں ہے۔ بہت ہی بعید ہے کہ علوی گھرانے کا پلا ہوا اور تربیت یافتہ، امام زین العابدین و امام محمد باقر  جیسے کلام کے ماہرین کے ہوتے ہوئے اپنے عقائد کودوسرے سے سیکھے وہ بھی ایسے سے جواس سے چھوٹا یا ہم سن وسال ہو۔
بالفرض اگر اس بات کومان  بھی لیا جائے تو اس سے معتزلہ سے زیدیہ مذہب کی پیروی  ثابت ہوتی ہے نہ بارہ ا مامی امامیہ کی...
ثالثاً: امامیہ، معتزلہ کے ساتھ تمام کلامی مسائل میں مکمل طور پر ہماہنگی نہیں رکھتے جیسا کہ تفویض معتزلہ کے سلسلے میں ان کی مخالفت مشہور ہے. اسی طرح ایمان، وعدو وعید، گناہ کبیرہ کے ارتکاب، شفاعت اور دوسرے بہت سے کلامی مسائل میں ان سے مخالفت رکھتے ہیں۔اس سلسلے میں شیخ مفید کی اوائل المقالات کی طرف رجوع کیا جائے ۔
رابعاً: اکثر معتزلی حضرات کا رجحان شیعوں کی طرف صرف فرضیہ ہے اس لئے کہ امامت کی بحثوں کے سلسلے میں ان کی شیعوں کے ساتھ مخالفت روشن ہے . آل بویہ ( چوتھی صدی ہجری کی ا بتدا میں) جو شیعہ تھے اور معتزلہ کے ساتھ ان کی ان کا برتاؤ مسالمت آمیز تھا، صرف ان کے زمانے میں کسی سیاسی پہلو کی وجہ سے معتزلہ اور شیعہ نزدیک ہوئے . لیکن اس سے پہلے ان کے درمیان اس طرح کا کوئی رابطہ نہیں تھا. بلکہ آپس میں اختلافات بھی تھے۔
ہاں! اگر شیعوں کی طرف میلان سے مراد اہل بیت پیغمبر  ۖ کی مودت و محبت ہے تو کہا جائے کہ اشعریوں اور حنبلیوں کے بزرگ افراد بھی یہ میلان رکھتے تھے اوراگر مراد یہ عقیدہ ہے کہ حضرت علی  ـد وسرے خلفاء سے برتر ہیں تو یہ عقیدہ صرف بغداد کے اکثر معتزلہ کو شامل ہوتا ہے اس لئے کہ وہ لوگ خلفاکی خلافت کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ امام علی  ـکو ان سے برتر جانتے تھے۔ لیکن اگر تشیع سے مراد امام علی  ـ اور دوسرے ائمہ کی امامت پر نص کے ہونے کا عقیدہ رکھنا ہے ،تو اس میں شیعہ منفرد ہیں۔
کلام امامیہ کا طریقۂ بحث:کلام امامیہ، عقلی استدلال کے طریقے کی پیروی کرتاہے اور عقلی تفکر کی بہت زیادہ اہمیت کا قائل ہے اور کلام معتزلہ کے ساتھ ا ن کا فرق یہ ہے کہ تنہا عام عقل پر بھروسہ نہیں کرتے بلکہ عقل برتر ( یعنی عقل ائمہ) کو تکیہ گاہ قراردیتے ہیں۔ اسی وجہ سے دینی معارف کو بیان کرنے اور کلامی پیچیدگیوں کو حل کرنے میں لغزش و انحراف سے محفوظ رہے ہیں اور تمام جگہوں پر اعتدال کے راستے ( امر بین الامرین) کو طے کیا ہے۔
جیسا کہ استاد مطہری  نے بیان کیا ہے کہ شیعی تعقل و تفکر نہ صرف افکار حنبلی (جو مذہبی عقائد میں استدلال کے سرے سے ہی منکر ہیں) اور اشعری تفکر( کہ جنہوں نے اصالت کوعقل سے لیا ہے اور اس کو ظواہر الفاظ کا تابع قرار دیا ہے) کے مخالف و مغایر ہے بلکہ معتزلی تفکر کے( تمام عقل گرائی کے باوجود) بھی مخالف ہے اس لئے کہ معتزلی تفکر گرچہ عقلی ہے لیکن جدلی ہے نہ کہ برہانی، اسی وجہ سے اکثر اسلامی  فلاسفہ شیعہ رہے ہیں۔
در حقیقت اسلامی معارف میں عقلی و عمیق بحثیں پہلی مرتبہ حضرت علی  ـ کے توسط سے آپ  کے خطبات و دعوات اورمذاکرات میں پیش ہوئیں اور وہ بحثیں معنوی رنگ رکھتے ہوئے معتزلیوںو اشعریوں کی کلامی روش سے حتی کہ بعض شیعہ علماء کی کلامی روش سے بھی جو  اپنے زمانے کے کلام سے متأثر ہوئے ،مکمل طور پر متفاوت ہے۔(آشنائی باعلوم اسلامی(کلام ۔عرفان)،ص٥٤)
 شیعہ حدیثوں میں کلامی بحثیں دقیق ترین عقلی وبرہانی روش پر مورد تحقیق قرار پائی ہیں اسی وجہ سے دینی معارف کے سلسلہ میں شیعہ احادیث امامیہ متکلمین و حکماء کے اصیل ترین منابع سمجھے جاتے ہیں اور اسلامیکلام و فلسفہ کا پایۂ تکمیل کو پہنچنا انہیں افکار و نظریات کی بنیاد پر ہے۔
شہید مطہری نے اسلامی فلسفہ میں نہج البلاغہ کی تاثیر کے سلسلہ میں کہا ہے: نہج البلاغہ ،مشرقی فلسفہ کی تاریخ میں بہت بڑا حصہ رکھتا ہے، صدر المتألہین جنہوں نے حکمت الہٰی کے نظریات کو پیش کرنے میں دوسروں پر سبقت حاصل کی وہ امام علی  ـ کے کلمات سے بہت زیادہ متأثر تھے،توحیدکے مسائل میںان کی روش ذات سے ذات اور ذات سے صفات و افعال پر استدلال کی بنیاد پر ہے اور یہ تمام واجب کے وجود محض ہونے پرموقوف ہے اور وہ ان کے فلسفہ عامہ میں بیان شدہ دوسرے بعض کلی اصول کی بنیاد پر قائم ہے۔(سیری در نہج البلاغہ، دوسراحصہ ،ص٧٦)
علامہ طباطبائی شیعی اور معتزلی کلام کے فرق کے سلسلے میں لکھتے ہیں : بعض لوگوں نے غلط فہمی کا شکار ہوکرکلام شیعی اور کلام معتزلہ کی روش کو ایک جانا ہے لیکن اس تصور کے غلط ہونے پر دلیل یہ ہے کہ وہ اصول جو ائمہ اہل بیت  ٪ سے بیان  ہوئے اور امامیہ ان پراعتماد کرتے ہیں وہ معتزلہ کے مزاج سے سازگار نہیں ہیں۔ (المیزان ،ج٥،ص٢٧٩)
محقق لا ہیجی کا قول:محقق لاہیجی نے کلام امامیہ کی خصوصیات اس طرح بیان کی ہیں :''گذشتہ باتوں سے یہ واضح ہوگیا کہ کلام مشہور جو اشعریت و اعتزال پر تقسیم ہے وہ قابل اعتبار یقینی معارف میں غیر یقینات پرموقوف ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں ہے''۔اس کے بعد معارف یقینی کے بیان کرنے میں حکماء و پیغمبروں کے طریقہ میں فرق کو پیش کرتے ہوئے کہا ہے: جومقدمات معصوم سے لئے جائیں وہ برہانی قیاس میں اولیات کی جگہ پر ہیں اور جس طرح قیاس برہانی یقین کا فائدہ دیتا ہے اسی طرح وہ دلیل جو معصوم سے لئے گئے مقدمات سے تشکیل پائی ہو وہ بھی یقین کا فائدہ پہنچائے گی اس طرح سے کہ یہ معصوم کا کہا ہوا ہے او ر جو بھی معصوم کاکہا ہوا ہووہ حق ہے پس یہ مقدمہ حق ہے پس کلام کی یہ قسم صحیح ہوگی اور یقین کا فائدہ دینے میں طریقۂ برہان کی طرح ہوگی اور فرق یہی ہوگاکہ طریقۂ حکمت ،یقین تفصیلی کا فائدہ دیتا ہے اور یہ طریقہ یقین اجمالی کا فائدہ دیتا ہے اور یہ طریقہ قدیم شیعہ متکلمین کا ہے جیسے ہشام بن حکم وغیرہ اور ائمہ کی احادیث میں ثابت ہوا ہے کہ جو کلام ہم سے حاصل ہو وہ قابل قبول ہے اور اس کے علاوہ مذموم، اورمراد یہی کلام ہے جو بیان ہوا۔(گوہر مراد، ص٢٦۔٢٤)
ان محقق کا نظریہ اس اعتبار سے ثابت اور قوی ہے کہ انہوں نے کلام امامیہ کی خصوصیت کو ائمہ معصومین  ٪ کے ارشادات و کلام میں موقوف جانا ہے لیکن اس کے باوجود بھی ان کی بات اعتراض و اشکال  سے خالی نہیں ہے اس لئے کہ ایک شیعہ متکلم تمام مسائل میں معصوم کے کلام کی طرف نسبت دیتے ہوئے اپنے دعوے کو ثابت اور مد مقابل کے نظریے کو باطل نہیں کرسکتا ۔ اس لئے کہ ممکن ہے مدمقابل معصوم کے وجود کا اس طرح قائل نہ ہو جس طرح شیعہ قائل ہیں اور اس کے علاوہ بعض کلامی مسائل مثلانبوت، اعجاز قرآن، عصمت وغیرہ ان مسائل میں سے نہیں ہیں جنہیں معصوم کے کلام پر تکیہ کرتے ہوئے ثابت کیا جائے یا دوسرے الفاظ میں یہ باتیں معصومین کے کلام کی حجیت کے مقدمات میں سے ہیں۔
البتہ جب ایک شیعہ متکلم چاہے کہ دینی معارف و مفاہیم کو معصومین  ٪ کے ماننے والوں کے لئے بیان کرے تو ایسی صورت میں مذکورہ طریقے سے استدلال کر سکتا ہے اور اس کا استدلال، برہانی ہوگا اس لئے کہ بغیر کسی شک کے معصوم  کا کلام صحیح اورواقع  کے مطابق ہوگا نیز یقینی قضایا میں اس کا شمار ہوگا 
اور جو انہوں نے ذکر کیا کہ امام معصوم نے اس کلام کو ممدوح جانا ہے جو ان سے لیا گیا ہو، وہ اسی زاویہ سے متعلق ہے یعنی اگر کوئی چاہے کہ دینی عقائد کو شیعوں کے لئے بیان کرے تووہ معتزلی و اشعری کلام کے قواعد اور ان کے نظریات کو بنیاد قرار نہ دے۔ اس لئے کہ اس میں خطا و غلطیاں بہت زیادہ پائی جاتی ہیں۔ جیسا کہ ارادہ الہٰی ، رؤیت، جبرو اختیار ،عصمت، امامت اور قیامت سے متعلق بحثوں جیسے اہم مسائل میں ان کی غلطیاں مسلّم اور واضح و روشن ہیں اورہرگز مراد یہ نہیں ہے کہ ہر کلامی مسئلہ میں معصوم کے کلام کی طرف رجوع کیا جائے، ایسے کے سامنے جو حتی کہ معصوم پیشوا کے وجود کو بھی قبول نہیں کرتا۔ مثلاً کیا صحیح ہے کہ امامت کے سلسلہ میں اور امام میں عصمت کی شرط اوراس کا خدا کی جانب سے نصب  کیا جانا جیسے مسائل میں کسی معصوم کے کلام سے استدلال کیا جائے یا خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کریم کی آیات سے تمسک حاصل کیا جائے؟!
 اگر اس طرح کی جگہوںمیں کسی آیت یا حدیث کی طرف استناد ہوتا ہے تواس وجہ سے ہے کہ در حقیقت وہ آیت یاروایت خود استدلال عقلی کو بیان کر رہی ہے اس طرح سے کہ وہ روشن اور سب کے لئے قابل فہم بیان ہوئی ہے۔
متکلمین اور ان کے کلامی آثار:تمام شیعہ متکلمین کے حالات زندگی اور ا ن کے کلامی آثار کو بیان کرنے کے لئے ایک مستقبل کتاب کی ضرورت ہے ہم یہاں صرف چند نمونے ذکر کرر ہے ہیں:
١۔ہشام بن حکم: (وفات ١٧٩   ھ یا ١٩٩   ھ)امام صادق  و امام کاظم   کے اصحاب و شاگردوں میں سے تھے اورعلم  کلام میں ا ئمہطاہرین ٪ کے اہم شاگردوں میں سے ا یک تھے۔
علم کلام میں ان کی مہارت ، خاص وعام اور موافق و مخالف کے نزدیک مشہور ہے ۔ امام صادق  ـ نے ان کی تعریف وتوصیف میں فرمایا ہے: '' ہشام بن حکم ہمارے حق کے دفاع میں جلودار ہیں، ہماری رائے اور ہماری بات کی سچائی کی تائید کرتے ہیں ہمار ے دشمنوں کے باطل عقائد کا قلع قمع کرتے جو بھی ان کے طریقے کی پیروی کرے گویا  اس نے ہماری پیروی کی ہے اور جو بھی ان کی مخالفت کرے اورا نکار کرے اس نے مجھ سے دشمنی کی اورہمارا انکار کیا''۔(فلاسفة الشیعہ،ص٦٣٤)
شہرستانی نے ان کو ا صول عقائد میں صاحب نظر اور عمیق جانا ہے(ملل و نحل شہرستانی،ج١،ص١٨٥) احمد امین مصری نے کہا ہے: ہشام سے نقل شدہ بہت سے مناظرے ان کے حضور ذہن اورقوی دلیل پردلالت کرتے ہیں۔( ضحی ا لاسلام،ج٣،ص٢٦٨)
کلامی موضوع پر ان کی بعض کتابیں:الامامة؛الدلالات علی حدوث الاشیائ؛ الرّد علی الزنادقہ؛ الرّد علی اصحاب الاثنین؛التوحید؛الرّد علی مَن قال بامامة المفضول؛ کتاب فی الجبر و القدر؛ المعرفة؛ الاستطاعة؛ القدر؛ و...
٢۔ شیخ مفید: ( ابو عبد اللہ محمد بن نعمان المعروف شیخ مفید ،٣٣٨ھ۔٤١٣ھ)ن کو زمانۂ غیبت کی ابتداء میں شیعہ امامیہ کے عقائدمیں نئی روح پھوکنے والا کہا جاسکتا ہے اس لئے کہ عباسی حکومت میں سیاسی تبدیلیوں کے پیدا ہونے سے جو مناسب موقع ملااس میں اور اسی طرح آل بویہ جو شیعہ تھے اور سیاست میں اہم کردار رکھتے تھے ان کے زمانے میں شیخ مفید نے فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شیعی عقائد کے اصول و مبانی کو قرآن و سنت اور قوی عقلی دلیلوں کے ذریعے تبیین کیا۔ متعدد کلامی کتابیں اور رسالے تحریر کیے جو مصنفات شیخ مفید کے نام سے یکجا شائع ہوئے ہیں ان کے کلامی آثار میں سے دو بہت اہم ہیں: ایک '' اوائل المقالات فی المذاہب والمختارات'' ہے جس میں شیعہ عقائدکو نقل کرتے ہوئے دوسرے مذاہب و اسلامی فرقوں سے مقایسہ کیا ہے اور دوسری کتاب'' تصحیح الاعتقادات بصواب الانتقاد'' ہے جو شیخ صدوق  کی کتاب ''الاعتقادات فی دین الامامیہ'' کی تنقیدی شرح ہے۔
٣۔ابو اسحاق ابراہیم بن نوبخت:کتاب '' الیاقوت فی علم الکلام'' کے مؤلف ہیں جس کی شرح علامہ حلّی نے ''انوار الملکوت فی شرح الیاقوت'' کے نام سے کی ہے. ان کی یہ کتاب علم کلام میں شیعہ امامیہ کے استدلالی متون کی قدیمی ترین کتابوں میں سے ہے جس میں اسلامی عقائدکے بارے میں عقلی طریقے سے بحث کی  گئی ہے اور آغاز کتاب میں منطقی و فلسفی بحثیں بھی بطور اختصار بیان ہوئی ہیں۔
ابو اسحاق ،نو بخت خاندان کے دوسرے مفکرین کی طرح فلسفہ میں بھی استاد و صاحب نظر تھے اور علم کلام میں فلسفی بحثوں کے قواعد وروش سے استفادہ ان کے ایجادات میں سے ہے حالانکہ ان کے بعد یہ طریقہ فخر الدین رازی اورخواجہ نصیر الدین طوسی کے ذریعے آگے بڑھا اور خواجہ نصیرا لدین کے ذریعے اپنے بلند مقام تک پہنچا۔ ان کے زمانے کے سلسلے میں اختلاف ہے لیکن مختلف قرائن سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ چوتھی صدی ہجری میں زندگی گزار رہے تھے۔(اس سلسلے میں کتاب خاندان نوبختی یا کتاب انوار الملکوت کے مقدمے جسے محقق کتاب نے لکھا ہے رجوع کیا جاسکتا ہے)
٤۔ سید مرتضیٰ : (ابو القاسم علی بن الحسین بن موسی المعروف سید مرتضیٰ وملقب بہ علم الہدیٰ،٤٣٦ھ۔ ٣٥٥ھ)شیخ مفید کے شاگردوں میں سے او رعلم کلام میں مانے ہوئے  اور بے نظیر استاد تھے ان کے مقام و منزلت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ خواجہ نصیر الدین جب بھی مجلس درس میں تذکرہ کرتے تو کہتے: '' صلوات اللہ علیہ''( فلاسفة الشیعہ ،٣٣٩ ) اور علامہ حلّی نے ان کے آثار کی توصیف کرتے ہوئے کہا ہے :'' امامیہ نے سید مرتضیٰ کے زمانے سے آج تک ان کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے ( رجال علامہ ،ص٩٥) اورابو العلاء معرّی نے سید مرتضیٰ سے ملاقات کے بعد جب ان سے پوچھا گیا کہ سید کوکیسا پایا؟ تو کہا: اگران کے پاس آتے تو تمام انسانوں کو ایک شخص میں اور زمین کو ایک گھر میں اور زمانے کو ایک لمحے میں پاتے۔
علم کلام کے موضوع پر ان کی مشہور ترین کتابوں میں سے '' الشافی '' (امامت کے موضوع پر)،'' تنزیہ الانبیائ''( پیغمبروں و ائمہ کی عصمت کے سلسلے میں)اور ''الذخیرہ فی اصول الدین '' ہیں سب سے پہلے ''الشافی'' کو جو پانچ جلدوں میں شائع ہوئی ہے امامت کے موضوع پر قاضی عبد الجبار معتزلی کے اعتراضات کے جواب میں لکھا:'' تنزیہ الانبیائ'' انبیاء و ائمہ کی عصمت کے سلسلے میں شبہات کے جواب میں ہے اور تیسر ی کتاب جیسا کہ اس کے نام سے واضح ہے ، اصول دین کے بارے لکھی گئی ہے۔ ان کے رسالا ت کا مجموعہ تین جلدوں میں ''رسائل الشریف المرتضیٰ'' کے نام سے شائع ہوا ہے ۔
٥۔ شیخ طوسی:( محمد ابن حسن طوسی ،(٤٦٠۔٣٨٥) المعروف شیخ طوسی وشیخ الطائفہ)سید مرتضیٰ کے شاگرد اور مختلف اسلامی علوم و فنون میں علمی تبحر میں یکتائے زمانہ تھے ، علم کلام، فقہ، حدیث ، اصول فقہ، تفسیر، دعا وآداب عبادت میں متعدد تألیفات ہیں جو تمام کی تمام دینی علوم کے مصادر میں شمار ہوتی ہیں ۔ علم کلام میں بہت زیادہ کتابیں لکھیں ہیں جن میں سے ریاضة العقول (علم کلام پر مقدمہ)، تلخیص الشافی، تمہید الاصول، الغیبة، الاقتصاد فی الاعتقاد ( دیکھئے الفہرست شیخ طوسی مقدمے کے ساتھ؛ کتاب معالم العلمائ) اور توحید و عدل قابل ذکر ہیں۔
٦۔ سدید الدین حمصی رازی :( انہوں نے ٥٨٠  سے ٥٩٠   کے درمیان وفات پائی ہے فخر الدین رازی نے ان کے بعض احتجاجات کو آیہ مباہلہ کی تفسیر میں نقل کیا ہے اسی طرح خواجہ نصیر الدین طوسی نے بھی کتاب قواعد العقائد کی اعادہ معدوم کی بحث میں صفر ١٣٣ میں ان کا ذکر کیا ہے)چھٹی صدی ہجری میںزندگی گزاری اور شیعوں کے برجستہ متکلمین میں شمار کئے جاتے ہیں علم کلام میں اہم اور مفید کتاب '' المنقذ من التقلید ''کے نام سے لکھی ۔ اس کے اختتام کی تاریخ ٥٨١  ھ ہے۔
٧۔ خواجہ نصیرا لدین طوسی: (محمد بن محمد بن حسن طوسی(٦٧٢۔٥٩٨) ان کو محقق طوسی نصیر الدین سلطان المحققین ، خواجہ نصیر الدین اور خواجہ کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے)یہ ایک برجستہ اسلامی متکلمین میں سے ہیں جو تمام شیعہ و سنی محققین کے نزدیک قابل احترام ہیں ان کی زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: 
پہلا دور: اسماعیلیوں سے ملاقات سے پہلے جس میں بعض شہروں مثلاً قم و نیشاپور میں تحصیل علم میں مشغول تھے۔
دوسرادور:اسماعیلیوں سے آشنائی و رفت و آمد کادور جو ایک چوتھائی صدی سے زیادہ تھا ایران میں مغولوں کی وجہ سے نا امنی کے سبب خواجہ اسماعیلیوں کے پاس رہے اور ٦٥٣  ھ میں ہلاکوں خان کے ہاتھوں اسماعیلیوں کی شکست تک وہیں رہے مورخین نے اس دور کو قید و زنداں کے دور سے یاد کیا ہے ان کے مطابق اسماعیلی، خواجہ کو ڈرادھمکا کر اپنے پاس لے گئے اور ان سے چاہا کہ ان کی موافقت کریں ۔
شرح اشارات جواسی دور میں لکھی گئی اس کے آخر میں شیخ کی عبارت اسی نظریہ کے تائید کرتی ہے چونکہ انہوںان شرائط کو بہت برے شرائط سے یاد کیا ہے اورمندرجہ ذیل شعر کو انہیں شرائط کو یاد کرتے ہوئے ذکر کیا ہے  
بہ گرداگرد خود چندان کہ بینم

بلا انگشتری ومن نگینم               ( شرح اشارات،ج٣،ص٤٢١۔٤٢٠)
بہر حال اس دورہ میں انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں جن میں سے روضة القلوب، رسالة التولی و التبری، تحریر المجسطی ، تحریر اقلیدس ،روضة التسلیم، مطلوب المومنین و شرح اشارات ہیں۔
تیسرا دور: ہلاکو خان مغول کے ہاتھوں اسماعیلیوں کی شکست کادور ہے اس دورمیں انہوں نے مناسب تدبیر کے ساتھ ہلاکوں خان کے نظریات و احساسات کو مکمل طور پر مسخّر کیا اور اس کودین اسلام سے مشرف کیا اس ذ ریعہ سے ہلاکو کے ہاتھوں لوگوں کے قتل عام کو روکا اورعلم و دانش کے پھیلانے اور امامیہ مذہب کے مستحکم کرنے میں تمام پائے جانے والے امکانات کو بروئے کار لائے اوردیکھ بھال کے لئے سپرد کئے گئے اوقاف کے ذریعہ آپ نے علماء کی حمایت اور' 'مراغہ'' کے بڑے رصد خانہ کو تاسیس کرنے کے علاوہ چارلاکھ کتابوں پر مشتمل کتب خانہ کی بنیاد ڈالی۔
خواجہ نصیر الدین طوسی نے اہم کلامی آثار چھوڑے جن میں سے اہم کتاب ''تجرید العقائد'' ہے جو ہراعتبار سے بے سابقہ ہے اسی وجہ سے تمام اسلامی مفکرین نے چاہے وہ سنی ہوں یا شیعہ اس کتاب کو مورد توجہ قرا ر دیا ہے اس کتاب کی بہت زیادہ شرحیں لکھی گئیں اورحاشیہ لگائے گئے۔ '' قواعد العقائد'' بھی علم کلام میں جامع اور مختصر کتاب ہے جس میں زیادہ تر مختلف اسلامی مذاہب کے آرا ء و اقوال کو بیان کیا گیا ہے اگر چہ تمام مسائل میں امامیہ کے نظریے کو بیان کر کے اس کومستحکم کیا ہے اور بعض جگہوں پرمخالف نظریات کو نقد بھی کیاہے لیکن ان کا انتقاد واستدلال کا پہلو ،نقل عقائد ومذاہب کے پہلو سے کم ہی ہے۔ '' تلخیص المحصل'' جو '' نقد المحصل'' کے نام سے بھی مشہور ہے نیز خواجہ کے اہم کلامی آثار میں سے ایک ہے (خواجہ نصیر الدین طوسی کی زندگی اوران کے آثار کے سلسلے میں مزید معلومات کے لئے ''فرق و مذاہب کلامی'' آقای ربانی گلپائگانی،کی طرف مراجع کیاجاسکتا ہے؛مترجم)
٨۔ ابن میثم بحرانی :(کمال الدین میثم علی بن میثم بحرانی (٦٩٩۔٦٣٦ھ) جو علوم معقول ومنقول میں استاد اور صاحب نظر تھے۔ نہج البلاغہ کی مشہور و معروف شرحوں میں سے ان کی پانچ جلدوں پر مشتمل شرح ہے ۔ قواعد المرام فی علم الکلام، ایک اہم کلامی کتاب ہے جو آٹھ قواعد پر تنظیم دی گئی ہے: پہلے قاعدہ میں بعض اہم منظقی بحثوں کا خلاصہ ذکر ہوا ہے ۔ دوسرے قاعدہ میں فلسفہ کے عمومی مسائل سے متعلق دس بحثوں کوذکر کیا گیا ہے تیسرے قاعدہ میں حدوث عالم کو ثابت کیا گیا ہے .چوتھا قاعدہ وجود صانع کی دلیلوں اور خدا کے صفات ثبوتیہ و سلبیہ کی تبیین پر مشتمل ہے۔ پانچویں قاعدہ میں افعال خداوند اورمسئلہ عدل الہٰی سے بحث کی گئی ہے ۔ چھٹا قاعدہ نبوت سے متعلق ہے ۔ ساتواں قاعدہ معاد جسمانی و روحانی کے سلسلہ میں اورآخری یعنی آٹھویں قاعدہ میں امامت کے سلسلے میں بحث ہوئی ہے۔
٩۔علامہ حلّی: (جمال الدین حسن بن یوسف بن علی بن مطہر (٧٢٦۔٦٤٨ھ) علوم نقلی و عقلی میں جامعیت کے اعتبار سے نوادر زمانہ میں شمار ہوتے ہیں آپ کے مقام ومرتبہ کے لئے یہی کافی ہے کہ آپ کے استاد خواجہ نصیر الدین طوسی نے ان کو تعظیم و ا حترام کے ساتھ یا د کیا ہے اورجب ان سے حلّہ کے مشاہدات منجملہ علامہ حلّی سے ملاقات کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کو عظیم وماہر مفکر کے عنوان سے یاد کیا ہے ( اعیان الشیعہ،ج٥،ص٣٩٦) علامہ حلّی  نے عقلی ونقلی علوم میں متعدد کتابیں لکھیں ۔ اعیان الشیعہ کے مؤلف نے فقہ،اصول فقہ، کلام ، تفسیر، آداب بحث ، فلسفہ ، حدیث ، رجال، ادبیات اور ادعیہ کے موضوع پر سو سے زیادہ آثار کا ذکر کیا ہے: بعض مشہور کلامی آثار اس طرح ہیں:نہایة المرام فی علم الکلام ، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد ، کشف الفوائد فی شرح قواعد العقائد، نہج المستر شدین فی اصول الدین ، انوار الملکوت فی شرح الیاقوت، کشف الحق ونہج الصدق، منہاج الکرامة فی اثبات الامامة، الالفین، الباب الحادی عشر، الرسالة السعدیة فی الکلام۔
١٠۔ فاضل مقداد: (ابو عبد اللہ مقداد بن عبد اللہ بن محمد بن الحسین بن محمد السیّوری متوفی ٨٢٦ ھ ، سیوری کوفہ و حلّہ کے درمیان فرات کے نزدیک واقع سیوراء شہر سے نسبت کی وجہ سے) مختلف علوم بالخصوص فقہ و کلام میں مشہور شیعہ علماء میںسے ہیں۔ فقہ میں اہم کتابوں میں سے کتاب ،''کنز العرفان فی فقہ القرآن'' آیات الاحکام کے بارے میں اور کتاب ''نضد القواعد الفقہیہ علی مذہب الامامیة'' ہیں ۔ مشہور ترین کلامی کتابوں میںسے : '' ارشاد الطالبین فی شرح نہج المسترشدین'' ،'' اللوامع الالٰہیة فی المباحث الکلامیة'' اور'' النافع یوم الحشر فی شرح باب الحادی عشر '' ہیں، ان کی کلامی کتابوں کی طرف رجوع کرنے سے اس فن میں ان کی مہارت و اضح ہوتی ہے نیز مطالب بیان کرنے میں قدرت ودقت اور اقوال پر تسلط قار ی کومتعجب کرتا ہے۔ ( در آمدی بر علم کلام)

علم اصول کی تاریخ

علم اصول کی تاریخ

پیغمبر گرامی اسلام  ۖنے اپنی بعثت کی ابتداء میں ایک نیا دین پیش کیا ۔واضح ہے کہ شروع میں بہت ہی کم افراد آپ کے ارد گر د جمع ہوئے نتیجتاً اگر کسی مسئلے میں کوئی مشکل پیش آتی تھی تو لوگ آنحضرتۖ کی طر ف رجوع اور ابہام کو دور کرتے تھے لیکن جب اسلام پھیلنے لگا اور وحی کا سلسلہ رک گیا او ر تشریع کا زمانہ ختم ہوگیا اور حضور اکرم  ۖکی وفات ہوگئی تو مختلف علاقوں میں اسلام پھیلنے کی وجہ سے بہت سے جدید مسائل کا پیش آنا ناگزیر تھا جو مناسب جواب طلب کر رہے تھے جب کہ دوسری طرف وحی کا چراغ خاموش ہوچکا تھا ۔
ان مشکلات کے مقابلے میں اسلامی معاشرے میں دو نظریہ سامنے آئے:
(١) ایک نظریہ یہ تھا کہ پیغمبرۖ کی حیات کے زمانے میں احکام کا بیان کرنا آنحضرتۖ کے ذمہ تھا اور آپۖنے وفات سے قبل خداوند عالم کے حکم کے مطابق حضرت علی  ـکو اپنا جانشین معین فرمایا اور آپ کو عِدل قرآن قرار دیا اور احکام کے بیان کرنے کی ذمہ داری بھی آپ کے سپرد کی ۔اس نظریہ کے مطابق رسول خدا  ۖ کے بعد احکام کا بیان کرنا اور قرآنی مفاہیم کی تبیین ،اہلبیت پیغمبرکی ذمہ داری ہے اسی وجہ سے شیعہ حضرات احکام الٰہی حاصل کرنے کے لئے آئمہ  یا ان کے شاگردوں کی طرف رجو ع کرتے تھے ایسے شاگرد جو اتنی صلاحیت رکھتے تھے کہ ائمہ معصومین  کی رائے کو استنباط کرکے رجوع کرنے والوں کو بتائیں۔
(٢) دوسرا گروہ کسی خاص شخص کو اسلامی احکام کے بیان کرنے کے لئے معین نہیں کرتا تھا بلکہ صرف قرآن وسنت رسول ۖکو تنہا منبع جانتے تھے اورجب عملی منزل میں مشکلات و اشکالات پیش آئے تو متوجہ ہوئے کہ صرف یہ دو منابع ان لوگوں کے لئے جو ابدہ نہیں ہیں اسی وجہ سے دوسرے منابع مثلا قیاس استحسان ،مصالح مرسلہ،سد ذرائع وغیرہ کی پناہ لی اور ان کے مطابق اجتہاد اور استنباط احکام کیا ۔
اسلام میں اجتہاد :
کیا اسلام کے ظاہر ہونے کے ساتھ ہی اجتہاد بھی وجود میں آیا ہے؟ بعض کہتے ہیں کہ چونکہ اجتہاد کے معنی فرع کو اصل پر پلٹانے کے ہیں یعنی اصولی عالم ایک فرعی حکم کو اصول کے عمومی و اصلی قواعد سے استنباط و استخراج کرتاہے لہذا اجتہاد اس معنی میں ایک امر حاد ث ہے جو ائمہ کے زمانے میں موجود نہیں تھا اس وجہ سے علمائے امامیہ کے درمیان اجتہاد امام زمانہ   کی غیبت کبریٰ کے بعد شروع ہوا ہے پس علم اصول بھی کہ جس کا نتیجہ اجتہاد تھا امام عصر کی غیبت کے بعد وجود میں آیا ہے اگر چہ اہل سنت پیغمبرۖ کے زمانے میں بھی ضرورت کے وقت اجتہاد کرتے تھے ۔بزرگ عالم شیخ آقا بزرگ تہرانی ،مقریزی سے نقل کرتے ہیں کہ '' ان العشرة المبشرہ کانوا یجتھدون ویفتون فی حیاة النبیۖ'' وہ دس افراد جنھیں پیغمبرۖ نے جنت کی بشارت دی تھی، پیغمبرۖ کے زمانے میں بھی اجتہاد کرتے اور فتویٰ دیتے تھے ۔مقریزی کا کہنا ہے : پیغمبر اسلام  ۖکی وفات کے بعد آپ ۖ کے اصحاب مختلف شہروں میںتہران میں گئے اوربعض مدینے میں ابو بکر کے پاس رک گئے ابو بکر بھی کتاب و سنت کے مطابق حکم کرتے اور جب کوئی مسئلہ کتاب و سنت میں نہیں پاتے تو دوسرے اصحاب سے سوال کرتے ا ور جب ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا تو اس مسئلے میں اجتہاد کرتے تھے نتیجہ یہ نکلا کہ علم اصول اہل سنت کے درمیان اجتہاد و استنباط کی وجہ سے خلفاء کے زمانے میں آیا ہے  (حصر الاجتہاد ۔(ص ٩٠)
پروفیسر چارلس آدامس کہتے ہیں : شیعہ ،ائمہ کی زندگی تک اجتہاد نہیں کرتے تھے اور اجتہاد کی ضرورت بھی نہیں تھی ۔اس لئے کہ جس مسئلے میں بھی مشکل پیش آتی تھی اس کے حل کے لئے اپنے زمانے کے امام معصوم کی طرف رجوع کرتے تھے ۔( ہزارۂ شیخ طوسی ج ٢ ،ص ٣٣٧)
جیسا کہ بعض علماء حقوق نے بھی اپنی کتابوں میں اس عقیدے کی پیروی کی ہے افرائد الاصول ،ج ١ ،ص  ٨،مبانی استنباط حقوق اسلامی ،ص ١٣)حقیقت کیا ہے ؟ کیا مذکورہ معنی میں اجتہاد شیعوں کے درمیان امام زمانہ  کی غیبت کے بعد وجو دمیں آیا اور اہل سنت اس مسئلے میں شیعوں سے پیش قدم رہے ہیں یا نہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ خود ائمہ کے مطابق اجتہاد کرتے تھے ،اسی وجہ سے امام صادق  ـاور امام رضا  ـنے فرمایا ہے : اصول بیان کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور تفریع کرناتمہاری ذمہ داری ہے ( قال الصادق  ـ) انما علینا القاء الاصول وعلیکم ان تفرعوا ،وقال الرضا  ـعلینا القاء الاصول وعلیکم التفریع '(وسائل ج١٨، ح٥١)
لہذا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ائمہ کے زمانے میں اجتہاد کی ضرورت نہیں تھی چونکہ ضرورت کے وقت ان کے ماننے والے خود ان سے پوچھ لیتے تھے دلیل یہ ہے کہ :
( ان میں سے بعض دلیلیں شہید مرتضیٰ مطہری  نے کتاب ہزارہ شیخ طوسی،ج ٢ ،ص ٣٥١ میں بیان کی ہے ) 
(١) ائمہ معصومین زیادہ مدینے میں رہتے تھے اور مدینے کے شیعوں کا آپ کی طرف رجوع کرنا آسان تھا لیکن دوسرے اسلامی ممالک کے شیعہ کس طرح اپنے مسائل ائمہ سے حاصل کرتے خاص کر خلیفہ دوم کے زمانے میں کہ جب اسلامی حکومت کا دائرہ اقیانوس اطلس سے وسط چین تک اور ادرال کے پہاڑوں سے خلیج فارس تک اور بحر عمارہ تک اور جنوبی یورپ سے پھیلا ہوا تھا اور سفر بھی چارپایوں اور جانوروں کے ذریعے انجام پاتے تھے لہذا مہینوں وقت چاہئے تھا کہ ایک شیعہ اپنے کو مدینے میں پہونچائے اور اپنا مسئلہ پیش کرے ۔اسی وجہ سے لوگ اپنے شہروں میں ائمہ کے اصحاب اور شاگردوں کی طرف رجوع کرتے تھے اور وہ لوگ بھی ان قواعد کے مطابق جو ائمہ نے انھیں تعلیم دئے رد فرع پر اصل کرتے اور حکم الہی کو استنباط کرتے تھے اور رجوع کرنے والے کو مناسب جواب دیتے تھے۔
(٢) اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ائمہ معصومین کبھی قید خانہ میںبھی اور کبھی حکومت کو زیر نظر اور کبھی مخصوص جگہوں پر ٹھہرائے جاتے تھے کس طرح ممکن تھا شیعہ اپنے مسائل کو ان سے پوچھتے ؟ جیسا کہ امام صادق  ـکے سلسلے میں نقل ہوا ہے کہ آپ کا ایک شیعہ آپ سے کوئی کرنا چاہتا تھا لیکن  چونکہ جانتا تھا حضرت تخت نظر ہیں لہذا مجبور ہوکر سبزی بیچنے والے کے لباس میں ٹوکری اپنے سر پر رکھ کر سبزی بیچنے کے بہانے سے امام صادق  ـکے مکان میں گیا اور اپنا مسئلہ شرعی معلوم کیا پس کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ شیعہ جب بھی کوئی مسئلہ معلوم کرنا چاہتے تھے اپنے زمانے کے امام کے پاس مراجعہ کرتے تھے ؟ کیا امام ہادی  ـاور امام حسن عسکری سر من رائے میں فوجی چھاونی میں مجبوراًزندگی نہیں گزارتے رہتے تھے ؟کیا شیعوں کے ممکن تھا کہ آسانی کے ساتھ ان سے رجو ع کریں؟آیا امام موسیٰ بن جعفر  ـسالوں قید خانہ میں ہی رہے؟آیا شیعوں کو اس زمانے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی؟اور کیا اس زمانے میں بلا تکلیف رہے ؟ یا اس جہاد کے ذریعہ جسے ائمہ کے شاگرد انجام دیتے تھے ،اپنے جواب حاصل کرتے تھے۔
(٣) ائمہ سے جو روایتیں صادر ہوتی تھیں بے شک عام و خاص ،مطلق و مقید وغیرہ ہوتی تھیں ۔اسی صورت میں روایات کے درمیان اور ان کے درمیان کے تعارض کو رفع کرنا او ر ان کے مطابق فتویٰ اس زمانے میں بھی رائج اور معمول تھا اور یہ بھی اجتہاد و استنباط کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے ۔
(٤) جب دو یا چند روایتوں کے درمیان مضمون و مختور کے اعتبار سے تعارض ہو تو ائمہ اطہار نے ایسی صورت میں روایات علاجیہ کے ذریعہ تکلیف کو معین فرماتے ہوئے ۔وظیفہ کو مشخص کیا ہے او ر ان روایات میں کوئی قید نہیں لگائی ہے مثلا یہ نہیں کہا کہ :امام زمانہ  ـکی غیبت کے زمانے میں تمہاری تکلیف و ذمہ داری یہ ہے راوی کہتا ہے امام صادق  سے میں نے سوال کیا کبھی آپ سے دو خبریں ایسی نقل ہوتی ہیں کہ دونوں ایک دوسرے سے متعارض و مخالف ہوئی ہیں ایسی صورت میں تکلیف ووظیفہ کیاہے ؟ حضرت نے فرمایا :روایت مشہور پر عمل کرو اور غیر مشہور کو چھوڑ دو میں نے عرض کیا کہ اگر دونوں مشہور ہوںتو کیا کیا جائے ؟فرمایا جس روایت کا راوی زیادہ عادل ،زیادہ فقیہ ،زیادہ سچا اور زیادہ تقوے والا ہوتو اس کوملاک عمل قرار دو۔میں نے عرض کیا کہ اگر دونوں ہی ایسے ہوں تو کیا کریں ؟ حضرت نے مختلف راستے بتاتے ہوئے فرمایا :ان دونوں روایتوں میں سے جس کا مضمون اہل سنت سے کے موافق ہو اس کا تر ک کرو اور اس مخالف روایت پر عمل کرو ۔آخر میں جب راوی کہتا کہ : تمام شرائط مساوی ہیں ۔حضرت فرماتے ہیں ۔ایسی صورت میں توقف کرو یہاں تک کہ اپنے امام کو پیدا کرو اور اس سے پوچھو (وسائل الشیعہ ،کتاب القضاء ،ص ٧٥،جلد ١٨) 
چونکہ ان تمام روایات  علاجیہ میں اس طرح کی کوئی قید بیان نہیں ہوئی ہے کہ یہ وظیفہ دستور غیبت کے زمانے میں مخصوص ہے نہ کہ ائمہ کے حضور کے زمانے سے۔لہذا ہم اس نتیجے پر پہونچتے ہیں کہ ائمہ کے زمانے میں بھی اجتہاد موجود تھا۔
(٥) مقبولہ ابن حنظلہ میں راوی امام جعفر صادق سے سوال کرتا ہے : اگر اصحاب میں سے دو آدمی آپ سے مطلب نقل کرنے میں اختلاف کریں تو تکلیف و وظیفہ کیا ہے؟ حضرت فرماتے ہیں :علمائے شیعہ کے درمیان تلاش وجستجو کر کے ایسے کو انتخاب کرو جو احادیث وکلمات کے سلسلے میں اچھی معلومات رکھتا ہو اور احکام کے استنباط میں اہل نظر ہو (قلت کیف یصنعان؟ قال انظروا الی من کان منکم قد روی حدیثنا ونظر فی حلالنا و حرامنا وعرف احکامنا فارضوا بہ حکما فانی قدجعلتہ علیکم حاکما ۔ (فروع کافی ،کتاب القضاء ،ج ٧،ص ٤١٢حدیث ٥)
حضر ت نے یہ جو فرمایا کہ  ''نظرفی حلالنا و حرامنا''مراد یہ ہے کہ جو ادلہ احکام یعنی احادیث و کتاب خدا کی معرفت اور اطلاع کے ذریعہ حرام وحلال تک پہونچتے ہوں ۔اب کیا اجتہاد کے علاوہ اور کچھ ہے ؟ اور ''عرف احکامنا ''اس جملے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس راوی کی طرف کرنا چاہئے جس نے احکام کو معرفت کے ساتھ حاصل کیا ہو ۔یہ نہیں فرمایا کہ''علم احکامنا ''ہمارے احکام کو جانتا ہو ۔ بلکہ فرمایا کہ ہمارے احکام کو پہچانتا ہو اور پہچاننا و شناخت (شناخت و معرفت) ادلہ کے ساتھ ہوتا ہے یہ مطلب بھی اجتہاد کو یہاں کر رہا ہے اسی طرح حضرت آگے فرماتے ہیں ''فانی قد جعلتہ علیکم حاکما ''اس جملے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایسے افراد کو اجتہاد و نظر ،حجت ہے چاہے امام معصوم کے حضور کے زمانے ہو یا ان کی غیبت کے زمانے میں۔
(٦) ائمہ معصومین خود بھی اپنے بعض جلیل القدر اصحاب کو حکم دیتے تھے کہ مسجد میں بیٹھتی اور لوگوں کے لئے فتویٰ صادر کریں ۔مثلا امام باقر  نے ابن بن تغلب سے فرمایا ۔مسجد مدینہ میں بیٹھو اور لوگوں کے لئے فتویٰ صادر کرو ۔اس لئے کہ میں جانتا ہوں کہ ہمارے شیعوں کے درمیان تمہارے جیسے لوگ دیکھے جائیں ۔( قال لہ ابو جعفر الباقر  :اجلس فی مسجد المدینہ ولفت الناس فانی احب ان یریٰ فی شیعتی مثلک '' ۔     (جامع الرواة ،ج ١ ،ابان بن تغلب ،فہرست شیخ طوسی ''ابان'')
(٧) بہت سی روایات میں ملتا ہے کہ ائمہ کرام اپنے شیعوں کو فتویٰ حاصل کرنے کے لئے اپنے فاضل اصحاب اور شاگردوں کے پاس تھے ۔مثلا عبد العزیز بن مہتدی امام رضا  سے نقل کرتے ہیں : جب میں نے حضرت  سے عرض کیا میں ہر وقت آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوسکتا ایسی صورت میں فرماتے ہیںکہ اپنے مسائل کوکسی سے معلوم کروں ؟ تو حضرت فرمایا : یونس بن عبد الرحمن سے پوچھو(عن العزیز بن المہتدی قال :'' خد عن یونس بن عبد الرحمن '' جامعہ الرواة ،ج ٢ ،یونس عبد الرحمن ،فہرست شیخ طوسی ،یونس بن عبد الرحمن )اسی طرح علی بن مسیب ہمدانی جب یہی سوال  امام رضا  سے کرتے ہیں تو حضرت فرماتے ہیں زکریا بن آدم قمی سے جو پوچھو دین و دنیا کے امیں ہیں ۔ (عن علی ابن المسیب الہمدانی قال ''قلت للرضا  شقنی بعیدة ولست اصل الیک فی کل وقت خمس آخذ عنہ معالم دینی ؟قال من ذکریا بن آدم المامون  علی الدین والدنیا ''
( جامع الراوة ،ج ١، زکریا بن آدم '') 
اسی طرح امام صادق  اسی طرح کے سوال کے جواب میں ابن ابی یعفور کو محمد بن مسلم کے پاس بھیجتے ہیں (عن عبد اللہ بن یعفور قال قلت لابی عبد اللہ  ''انہ لیس کل ساعة القاک ولا یمکن القدوام ویجیٔ الرجل من اصحابنا یسئلنی ولیس عندی کل ما یسئلنی عنہ قال فمایمنعک عن محمد بن مسلم الثقفی فانہ قد سمع من ابی وکان عندہ وجیھا ،(جامع الراوة ج ٢ ،محمد بن مسلم )
(٨) نتیجہ یہ کہ جاہل کا عالم ک طرف رجوع کرنا تمام عقلائے عالم کے درمیان اور وظیفہ واحکام کو معین و مشخص کرتے ہیں پیغمبر اکرم ۖ کے بعد سے اسلام کے ماننے والوں کے درمیان یہی سیرت جاری رہی ہے ۔
اب تک بیان شدہ باتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ائمہ کے زمانے میں بھی شیعہ اجتہاد کے محتاج رہے ہیں اور یہ کام آپ کے شاگردوں کے ذریعہ انجام پاتا رہا ۔اسی بنا پر قنا تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام میں بیان ہوا ہے کہ : سب سے پہلے جس نے علم اصول کی بنیاد رکھی وہ امام محمد باقر  اور پھر امام صادق  ہیں اور آپ علم اصول کے قواعد اپنے اصحاب کو لکھواتے تھے (تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام مین اصول فقہ کے املاء کی نسبت امام باقر  اور صادق  کی طرف دی گئی ہے اور یہ بات ہمارے دعوے کے منافی نہیں ہے چونکہ ہم کہتے ہیں کہ اصول میں سب سے پہلے تصنیف شافعی کے توسط سے ہے ''ہم بیان کر چکے ہیں کہ املاء اصول فقہ ان دو امام معصوم کے ذریعہ تھا جب کہ پہلی تصنیف ہشام بن حکم اور اس کے توسط سے تھی جو ائمہ کے شاگرد میں سے تھے۔
سب سے پہلی اصولی کتاب کی تصنیف :
علم اصول کی سب سے پہلی کتاب کس نے تصنیف کی؟ علم اصول میں سب سے پہلی تصنیف کس شخص کے ذریعہ وجود میں آئی اس سلسلے میں علماء اہل سنت کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ،بعض نے ابو حنیفہ اور ایک گروہ نے محمد بن حسن شیبانی اور کچھ نے شافعی اور بعض نے ابو یوسف کے نام لئے ہیں۔جلال الدین سیوطی سے کتاب الوسائل الی معرفة الاول (البتہ کتاب تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام ص ٣١٠، اس طرح فوائدع الاصول ،ج ١،ص ٧،میں کتاب الاوائل جلال الدین سیوطی سے نقل اجماع ہوا ہے کہ اصول میں سب  سے پہلی تصنیف شافعی کے توسط سے ہے۔اور کتاب اصول الاستنباط ،ص ٤٢،میں سیوطی کے قول کو نقل کرنے کے ضمن میں بیان کیا ہے کہ سیوطی کا مقصد یہ ہے کہ اہل سنت کے ائمہ اربعہ کے درمیان ،اصول فقہ میں پہلی تالیف ،شافعی کی ہے) میں نقل ہوا ہے کہ اصول میں سے سے پہلی کتاب اصول الفقہ کے نام سے ابو حنیفہ(متوفی ١٥٠ھ) کے توسط سے لکھی گئی ہے (ملاک استنباط ،٩)لیکن ابن ندیم نے اپنی کتاب فہرست میں محمد بن حسن شیبانی (ہارون رشید کے قاضی القضاة ،متوفی ١٨٢ھ یا ١٨٩ھ) کا نام لیا ہے (فہرست ابن قدیم ،ص ٣٧٨) اور کتاب مقدمہ ابن خلدون (مقدمہ ابن خلدون ،ص ٣٦٠) اور کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون (کشف الظنون عن اسامی الکتب والظنون ،ج١،ص ١١١) وغیرہ میں بیان ہوا ہے کہ محمد بن ادریس شافعی متوفی ٢٠٤ ھ اصول میں پہلے مولف ہیں اور ابن خلدون کی تصنیف کتاب وفیات الاعیان (وفیات الاعیان وانباء ابناء الزمان ،ج٦،ص ٣٨٢) اس طرح کتاب اعلام زرکلی میں اعلام قارموس تراجم ،ج٨،ص ١٩٣) میں آیا ہے کہ اصول میں پہلی تصنیف ابو یوسف (یعقوب بن ابراہیم معروف بہ ابی یوسف ،قاضی القضاة خلفائے بنی عباسی،متوفیٰ ١٨٢ھ) کے توسط سے ڈاکٹرمحمود شہبانی کا نظریہ ہے کہ :اصول میں پہلی تالیف ابی یوسف یا محمد بن حسن شیبانی کے ذریعے ہے (فوائد الاصول ،ج ١،ص ٧) اور ڈاکٹر ابو الحسن محمدی کا بھی عقیدہ ہے کہ یہ کام شافعی کے ذریعے انجام پایا ہے (مبانی استنباط حقوق اسلامی ص١٢) مندرجہ بالا مطالب کو دیکھتے ہوئے کہنا چاہئے کہ اصول میں سب سے پہلی کتاب جو تالیف ہوئی ہے وہ الفاظ و مباحثھا کے نام سے ہشام بن حکم (متوفیٰ ١٧٩ھ) کے ذریعہ تھی اسکے بعد یونس بن عبد الرحمن نے کتاب اختلاف الحدیث و مسائلة (تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام ،ص ٣١٠،اصول الاستنباط ،ص ٤١) تالیف کی اور اس میں دو حدیثوں کے تعارض اور تعادل وتراجیح کے مسئلے کو بیان کیا ہے۔اوریہ دو افراد شیعوں کی عظیم اور جلیل القدر شخصیتون میں سے تھے اس لئے کہ ہشام بن حکم امام صادق  کے شاگردوں میں سے تھے یونس ابن عبد الرحمن امام موسیٰ کاظم  کے شاگردوں میں سے تھے ،
شیخ آقا بزرگ تہرانی کہتے ہیں کہ امام صادق  نے چار ہزار شاگردوں کی تربیت کی ان میں سے چار سو شاگرد ایسے تھے جو امام سے جو کچھ سنتے تھے اسے لکھتے تھے اور قواعد احکام سے متعلق موضوعات کو ''اصل'' کی صورت میں یا دداشت کرتے تھے جن کو جمع کر کے ''اصول اربعماة ''وجود میں آئی ہے جو شیعوں کی چار قابل اعتبار کتابوں کی تالیف کا منشاء ہے وہ چار کتابیں: 
(١) کافی (شیخ کلینی ،متوفیٰ ٣٢٩ھ ،٦١١٩٩حدیثوں پر مشتمل)
(٢) من لا یحضر الفقیہ (شیخ صدوق  ،متوفیٰ ٤٦٠ھ ٩٠٤٤احادیث پر مشتمل)
(٣) تہذیب الاسلام (شیخ طوسی ،متوفیٰ ٤٦٠ھ ١٢٥٩٠حدیثوں پر مشتمل)
(٤) استبصار (شیخ طوسی، ١١٥٥احادیث پر مشتمل ،احصر الاجتہاد ،ص ٤١)
امام زمانہ  کی غیبت کبریٰ کے بعد اصول:
 امام زمانہ کی غیبت کے بعد ابو محمد حسین ابن علی ابی عقیل نعمانی پہلے شخص ہیں جنہوں نے اصول فقہ کو اختیار کیا فقہ میں ایک کتاب ''التمسک بحبل الرسول ''کے نام سے لکھی (کتاب تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام ص ٣١١، میں پہلے ابو سہل ،نوبختی ،پھر حسن بن موسیٰ نو بختی اور ان دونوں کے بعد ابن جنی کا نام ذکر ہوا ہے ) ان کے بعد محمد بن احمد بن دائود بن علی ابن الحسن متوفیٰ ٣٦٨ھ نے کتاب مسائل الحدیثین المختلفین لکھی ،پھر ابو علی محمد بن احمد بن جنید اسکانی متوفیٰ ٣٨١ھ نے کشف التمویہ والالباس علی اعمار الشیعہ فی امر القیاس اور اظہار ماسترہ اہل العباد میں الرواة عن ائمة العشرة فی امر الاجتہاد ،جیسی کتابیں لکھیں،ان کے بعد شیخ مفید ابو عبد اللہ محمد بن محمد بن نعمان ،متوفیٰ ٤١٣ھ نے کتاب اصول الفقہ لکھی پھر ان کے شاگرد علی ابن الحسین بن موسیٰ بن محمد بن ابراہیم بن موسیٰ کاظم المعروف بہ سید مرتضیٰ ،متوفیٰ ٤٣٦ھ نے کتاب الاربعة الی اصول شریعہ اور سید مرتضیٰ کے بعد ان کے شاگرد ابو جعفر محمد بن الحسن بن علی الطوسی المعروف شیخ طوسی متوفیٰ ٤٦٠ھ نے کتاب عدة الاصول عالم تشیع کو پیش کیں،شیخ طوسی کے ایک صدی تک اجتہاد متوقف ہوگیا اور در حقیقت میں سب ہی مرحوم طوسی کے مقلد تھے (فوائد الاصول ،ج١،ص ١٠) یہاں تک کی شیخ طوسی کے پوتے محمد بن ادریس متوفیٰ ٥٩٨ھ نے کتاب سرائر تحریر کی ،ابن ادریس کے بعد ایک دوسرا مرحلہ شروع ہوا ۔پھر محقق حلی متوفیٰ ٦٧٦ھ کا زمانہ آیا انہوں نے نہج الاصول الی معرفة الاصول اور المعارج لکھیں،پھر محقق حلی کے بھانجے ابو منصور جمال الدین حسن ابن یوسف بن علی بن مطہر المعروف بہ علامہ حلی  متوفیٰ ٧٢٦ھ نے متعدد کتابین لکھیں جن میں سے ایک مبادی الاصول الی علم الاصول ہے دسویں صدی ہجری تک تمام علماء علامہ حلی  کے نظریات و افکار سے متاثر رہے اس وقت تک کہ ابو منصور جمال الدین حسن بن زین الدین متوفیٰ ١٠١١ھ نے کتاب معالم الدین فی الاصول لکھی۔
ڈاکٹر شہبانی لکھتے ہیں کہ معالم کے لکھے جانے کے بعد سے اصول پر تین زمانے گزرے : زمانہ ٔ توقف، زمانہ گسترشی، زمانہ تلخیص 
(١) توقف کا دور :
گیارہویں اور بارہویں صدی ہجری میں اکثر اصولی بحثیں کتاب معالم کے ارد گرد تھیں اور کوئی خاص کتاب سامنے نہیں آئی اور شاید اس کی وجہ ،اخباریوں کا نفوذ تھا جو اصولیوں  کے آگے بڑھنے نہیں دیتے تھے(اخباری گری اور اس تفکر کی پیدائش کی وجہ کو ہم آگے بیان کریں گے)
(٢) گسترش کا دور :
تیرہویں صدی ہجری سے آقا محمدباقر بن محمد اکمل المعروف بہ وحیدبہیہانی کے سامنے آنے کی وجہ سے اصول اوراصولیوں نے نئی زندگی پائی اور اخباریوں کی بساط لٹ گئی۔ا س زمانہ میں بعض اصولی کتابوں نے اصول فقہ کو آگے بڑھایا ،مثلا مرزا ابو القاسم گیلانی المعروف بہ میرازی قمی متوفیٰ ١٢٣١ھ کی کتاب قوانین الاصول اور شیخ مرتضیٰ ابن محمد امین المعروف بہ شیخ مرتضیٰ انصاری متوفی 
(٣)تلخیص کا دور:
 چودہویں صدی ہجری کے شروع سے علمائے اصول نے کوشش کی کہ علم اصول کے حواشی و زوائد کو  کم کریں اور اس کو کامل فرمائیں ،ملا محمد کاظم خراسانی متوفیٰ ١٣٢٩ھ المعروف بہ آخوندنے اس دور میں کفایة الاصول لکھی جو آج تک حوزہ کی اہم درسی کتابوں میں سے ہے۔(فوائد الاصول ،ج ١،ص ١٣)
آج حوزات علمیہ نے میرزاری قمی و شیخ مرتضیٰ انصاری وآخوند خراسانی اور ان کے زیر دست شاگرد وں مثلا میرزا حسین تائنی و شیخ ضیاء الدین عراقی ،شیخ محمد حسین اصفہانی المعروف بہ کمیانی اور آخون کے واسطے شاگردوں کے بلند افکار و نظریات سے بہرہ وفائدہ حاصل کیا ہے،اور دور حاضر کے بزرگ ترین اصول امام خمینی اور آیة اللہ خوئی  ۔مترجم نے اپنی وسعت اور اجتہاد میں زمان و  مکان کے نقش کو پیش کرنے کے ذریعہ اصول استنباط میں ایک عظیم اور جدید تحول ایجاد کیا ہے۔
امام خمینی  مجمع تشخیص مصلحت نظام کو ایک پیغام میں لکھتے ہیں آج کے پر آشوب دور میں انتہائی اہم مسائل میں سے ایک ،اجتہاد میں زمان ومکان کا نقش اور ارادہ و پلانگ کی نوعیت ہے (صحیفۂ نور ج ٢١،ص ٦١،٩٨،١٠٠)
اس طرح اپنے ایک دوسرے پیغام میں مراجع و علماء کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اجتہاد کو معنی کرنے والے دو عناصر زمان و مکان ہیں ایک مسئلہ جس کا پہلے حکم تھا ایک نظام کی سیاست اجتہاد اور اقتصاد کی وجہ سے کوئی دوسرا حکم پیدا کرے۔
بایں معنی کہ وہ جدید موضوع جو ظاہراً قدیم سے فر ق نہیں کر رہا ہے اجماعی ،واقتصادی،سیاسی رابط کی دقیق شناخت کی وجہ سے وہ جدید موضوع ہوجائے تو لامحالہ ایک نیا حکم چاہ رہا ہو ۔آگے بیان کرتے ہیں ۔ممکن ہے آئندہ سالوں میں عوام کے امور کے چلانے کا شیوہ وطریقہ بدل جائے ،اور انسانی معاشرہ اپنے مشکلات کے حل کے لئے اسلام کے جدید مسائل کی ضرورت محسوس کرے ،علمائے کرام کو چاہئے کہ ابھی سے اس موضوع کے سلسلے میں کوئی فکر کریں (گذشتہ ماخذ)اخباریت اور اس کے وجود میں آنے کی وجہ سے علمائے شیعہ نے احکام شرعی تک پہونچنے کے دو راستے اختیار کئے یا یہ کہا جائے کہ دو گروہ میں تقسیم ہوگئے ایک اصولی عالم اور ایک اخباری عالم ،جو علماء احکام میں اجتہاد و استنباط کی طرف متوصل ہوئے ان کو اصولی کہا گیا اور جو مشکل کے حل کے لئے صرف روایات کی طرف متوسل ہوئے اور مقام تعارض میں بھی احتیاط کیا انہیں اخباری کہا گیا ۔ 
(١)اصولیوں کا طریقہ وروش
،علمائے اصول چاروں ادلہ (کتاب ،سنت،اجماع ،عقل )کے ذریعے احکام کو استنباط کرتے ہیں یعنی اکثر فقہاء شیعہ احکام شرعی کے استنباط میں پہلے کتاب الٰہی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اگر مورد حکم نہیں پاتے تو معتبر روایات کی طرف رجوع کرتے اور آیت وروایت کے نہ ملنے کی صورت میں ،عقل کی طرف راجعہ کرتے ہوئے برائت یا احتیاط یا تخییر یا استصحاب کا حکم لگاتے ہیں ،لیکن اجماع ،اگر اجماع سے اور لوگوں کے عقیدے کے مطابق جو استصحاب کی حجیت کو از باب عقل جانتے ہیں ۔)کو معصوم کی رائے کے کشف ہونے کی وجہ سے حجت مانیں تا ایسی صورت میں طبعا ًاجماع کی طرف رجوع در حقیقت عقل کی طرف رجوع ہوگا اور اگر اجماع کو اس جہت سے حجت مانیں کہ اجماع کرنے والوں کے اتفاق سے حا صل کرتے ہیں کہ امام معصوم ،مجمعین کے درمیان ہے تو ایسی صورت میں طبعا اجماع از باب رجوع یہ سنت ،حجت ہوگا ۔
(٢)اخباریوں کا طریقہ وروش
اخباری لوگ اپنے استنباط میں صرف ایسے اخبار (حدیث)سے تمسک کرتے ہیں ،ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو ظواہر قرآن کو بھی حجت نہیں جانتے چونکہ معتقد ہیں کہ قرآن سب کے لئے قابل خیر نہیں ہے بلکہ جن پر قرآن نازل ہو اہے صرف وہی لوگ قرآن کو سمجھ سکتے ہیں (یعنی پیغمبر اور معصومین )پس اخباریوں کے نزدیک ملاک عمل وہ روایتیں ہیں جو کتب چہار گانہ (کافی ، من لایحضر الفقیہ،تہذیب ،استبصار ،)اور دوسری معتبر کتابوں میں ذکر ہوئی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ روایات کے ذریعہ احکام کی تبیین مل چکی ہے ۔لہٰذا امام زمانہ  کے غیبت کے بعد سے اخباری ظواہر اخبار (ظاہر حدیث)پر عمل کرتے ہیں اور ایک اصلی کلی (قاعدہ کلیہ ) ان کا ملاک عمل عمل قرار پایا ،اور وہ اصل کلی یہ ہے کہ جس چیز میں بھی حرمت کا احتمال ہو وہ حرام اور جس میں وجوب کا احتمال ہو وہ واجب ہے ۔
اخبار ی گروہ کے مٔوسس میرزامحمد امین استرآبادی (متوفی١٠٢٣ھ ساکن مدینہ )انہوں نے اپنی کتاب الفوائد مدینہ میں اپنے مشرب کی تشریح کی ہے ۔
اخباری گری تفکر کے پیدائش کی وجہ ان کے مندرجہ ذیل عقائد تھے: 
١۔اخباری یہ خیال کرتے ہیں کہ علم اصول کے مؤسس مبکر ،اہل سنت ہیں ،اور امامیہ کے درمیان اس طرح کا تفکر امام زمانہ کی غیبت کے بعد وجود میں آیا ،گویا علم اصول کو قبول کرنا مکتب اہل سنت کے قبول کرنے کے مساوی ہے ،پس علم اصول کی بنیاد پر احکام کو استنباط کرنا مذہب اہل بیت کے خلاف ہے۔
(٣)چونکہ اکثر مباحث اصول محبتوں کی بنیاد عقلی قواعد ہے جبکہ ائمہ نے ہم کو تفسیر بالرائے سے منع فرمایا ہے لہٰذامسائل شرعیہ سمجھنے میں عقل کا کوئی دخل نہیں ہے ۔پس مسائل شرعی کو سمجھنے کا واحد راستہ ،نصوص ہیں (علم الاصول تاریخاً وتطوراً،ص ١٥٠)ایک اخباری فقیہ،ابن قیم کا کہنا ہے کہ ،عقل وفلسفہ کی پیداوار ہیں فلاح وکامیابی نصوص کی پیروی میں ہے (مکتب ہائے حقوق درحقوق اسلام ،ص ١١٦)
ملا امین استرآبادی سے نقل ہوا ہے، مدینہ میں میں نے پیغمبر کو خواب کی حالت میں دیکھا ،آنحضرت نے فرمایا ،اٹھو اور میرے دین کو اصولیوں کے ہاتھ سے نجات دو ۔(مرزھا،ص ٩٥)
ملا صدرا کے شاگرد ملا محسن فیض کاشانی فلسفی وعرفانی گرایش کے باوجود اہم اخباریوں میں شمار ہوتے ہیں ۔وہ کتاب الحق المبین میں لکھتے ہیں ،اہل استرآباد میں سے بعض علمائے شیعہ نے ان چیزوں کی طرف ہدایت پائی جن کی طرف میں نے ہدایت پائی تھی ،وہ مکہ میں رہتے تھے اور میں نے مکہ میں انکو دیکھا کہ وہ اخباروروایا ت پر عمل کے واجب ہونے اور طریقۂ اجتہاد کے طرد کے قائل تھے ،وہ اس سلسلے میںصحیح راستے پرتھے اور ہمیشہ کے لئے یہ درازہ ہمارے لئے کھولا اور صحیح راستے کی طرف ہماری توجہ کا سبب ہوئے (لیکھارہ اندیشہ ،شمارہ٣٢،ماہ مہردآبان ٩٦ھ ش)
اخباری افکار نے ایک صدی تک علمائے اور حوزات علمیہ کو متاثر کیا اور تیسری صدی میں محمد باقر ایں محمد اکمل المعروف وحید بھبھانی کے سامنے آنے تک یہی طریقہ چلتارہا ۔اگرچہ وحید بھبھانی نے پہلے کے علماء نے بھی کوششیں کیں حتیٰ کہ فاضل توئی ،سید حسین خوانساری ،سلطان العلماء ،اور محقق شیروانی جیسے اصولیوں نے علم اصول میں کتابیں لکھیں ، لیکن پھر بھی اخباری تفکر حوزات علمیہ پر مسلط رہا ۔
محقق خوانساری اپنی کتاب روضات الجنات میں جناب وحید بھبھانی کے سامنے آنے سے پہلے ،اخباریوں کے تسلط کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔عراقی شہر خاص کر کربلا ونجف ،اخباریوں سے بھرے ہوئے تھے ۔حتیٰ ان میں سے بعض اتنے متعصب وجاہل تھے کہ کو ئی ہمت نہیں کرتا تھا کہ اصولی فقہا کی کتابوں میں سے کوئی کتاب اعلانیہ طور پر اپنے ساتھ لیکر چلے اور اصولی کتابیں پوشیدہ طور پر اور لوگوں کی نظروں سے مخفی کرکے ہوتیں تھیں ۔
جب سے وحید بھبھانی سامنے آئے تو ان کے استدلال کی وجہ سے اور حوزہ علمیہ نجف اشرف پر تسلط اور ریاست کی وجہ سے اصولیوں کا مشرب غالب آیا اور اخباری گری ماند پڑگئی ۔پھر جلیل القدر وبزرگ اصولی جناب شیخ مرتضیٰ انصاری نے خاص نبوغ کی وجہ سے اصولی تفکر کو زندہ کرنے میں بنیادی رول ادا کیا اور آج حوزات علمیہ میں اخباریوں کے تفکر کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔(استفادہ از ''فرھنگ اصطلاحات تشریحی)سید محمد حسنین باقری


حضور اکرم ۖ اور شیعہ و سنی


حضور اکرم ۖ اور شیعہ و سنی
ختمی مرتبت ۖ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوناامت مسلمہ کی بنیادی اور اہم ترین ضرورت ہے اور مختلف اسلامی مکاتب فکر کے پیروکاروں کا اتحاد عالم اسلام کی مشکلات کا حل اور ترقی و پیشرفت کا ضامن ہے۔ جہل و غفلت اور تباہی و انحطاط کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں بشریت کے اخلاقی فضائل اور انسانی کمالات، پیغمبر اکرمۖ کے مقدس اور نورانی وجود کے ظہور کا نتیجہ ہیں۔ 
امت مسلمہ کے لئے حضرت ختمی مرتبتۖ کی ضوفشاں ہدایت پر غور و فکر کرنا اور اس سے سبق حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے اور عالم اسلام کی بڑی آبادی، نہایت اہم جغرافیائی محل وقوع اور بے پناہ افرادی قوت اور قیمتی ذخائر رکھنے کے ساتھ یہ بنیادی سوال اٹھایاجاسکتا ہے کہ اتنا عظیم مجموعہ اپنی ان خصوصیات کے باوجود کیوں سرگرداں اور پس و پیش کی کیفیت کا شکار ہے، غربت، تفریق، پسماندگی اور دوسری بہت سی ثقافتی کمزوریوں سے دوچار ہے اور دنیا کی تسلط پسند طاقتوں کے سامنے اپنے حقوق کا دفاع کرنے پر قادر نہیں ؟ 
مسلمانوں کے حقوق کے دفاع میں عالم اسلام کی عاجزی اور ناتوانی کو ایک مثال کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ فلسطین کی تاریخی اور مقدس سرزمین پر غاصبانہ قبضہ اور مظلوم فلسطینی قوم پر جرائم پیشہ صیہونیوں کے لا محدود اور بلا وقفہ جاری مظالم وہ گہرا زخم ہے جو امت مسلمہ کے عظیم پیکر کو مضطرب کئے ہوئے ہے لیکن عالم اسلامی مجموعی طور پر کچھ ایسا طرز عمل اختیار کئے ہوئے کہ گویا مسئلہ فلسطین کا اس سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ 
 اسرائیل کی غیر قانونی صیہونی حکومت ایک خطرناک کینسر ہے  اور اس مہلک سرطان اور اس کے حامیوں سے خود کو محفوظ رکھنے کا واحد راستہ اسلام کی سمت واپسی اور نبی اکر م  ۖ کی تعلیمات کو محور زیست قرار دینا ہے۔ 
مسلمانوں کے حقوق کے دفاع کے سلسلے میں عالم اسلام کی ناتوانی اور کمزوری کے علل و اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ امت مسلمہ کے اندر اختلاف و تفرقہ ڈالنے کی امریکا، برطانیہ اور دیگر اسلام دشمن طاقتوں کی مربوط کوششوں اور سازشوں کو دیکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ یہ تسلط پسند سامراجی طاقتیں بخوبی جانتی ہیں کہ اختلاف اور تفرقے کے ذریعے امت مسلمہ کو حیاتی اہمیت کے حامل مسئلہ فلسطین سے لا تعلق رکھا جا سکتا ہے، اسی لئے وہ ہر ممکنہ حربہ استعمال کرکے فرقہ وارانہ، مذہبی اور جغرافیائی اختلافات کو شیعہ اور سنی فرقوں نیز دیگر اسلامی مکاتب فکر کے دلوں میں شعلہ ور کر رہی ہیں۔ 
اتحاد و ہمدلی عظیم امت مسلمہ کی سب سے اہم ضرورت ہے اور اسلامی ممالک کی حکومتیں، روشن فکر دانشور، علما اور سیاسی و سماجی کارکنوں کو اتحاد قائم کرنے کے فریضے پر عمل کرنا چاہیے کہ اگر اسلامی بیداری میں اور بھی گہرائی اور گیرائی پیدا ہو جائے اور مسلمانوں کے قلوب ایک دوسرے کے اور بھی نزدیک آ جائیں تو اجتماعی تعاون و ترقی کی راہ کھل جائے گی اور مسئلہ فلسطین سمیت عالم اسلام کے بیشتر مسائل کا حل نکل آئے گا۔جارحیت کا نشانہ بننے والی اسلامی سرزمینوں کا دفاع تمام اسلامی مکاتب فکر کا متفق علیہ مسئلہ ہے اور اس اتفاق نظر کے باوجود بد قسمتی سے عالم اسلام شیعہ سنی اور دوسرے فرقوں کے اختلافات کو ہوا دینے والی امریکا اور برطانیہ کی سازشوں سے متاثر نظر آتا ہے۔ 
 اتحاد بین المسلمین اور مسئلہ فلسطین کا دفاع اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی اہداف اور ترجیحات میں ہے اور ان دونوں نکات کے سلسلے میں بانیٔ انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے بیانوں اور تاکید کو دیکھا جاسکتا ہے اور اسلامی نظام اور ملک کے تمام حکام اور ایرانی عوام ان اصولی مسائل کو شرعی واجب کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اور اس سلسلے میں سب کا نظریہ ایک رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ 
امت مسلمہ کی روز افزوں بیداری اور فلسطین کی حمایت میں اٹھنے والی قوموں کی آواز عالم اسلام کی رائے عامہ کی سطح پر اسلامی جمہوریہ ایران کے بر حق نظریے کا دلنشیں انعکاس ہے اور اسلامی حکومتوں کو بھی چاہئے کہ رسول اسلامۖ کی تأسی کرتے ہوئے مسلمانوں کے اتحاد اور ان کے حقوق کے دفاع بالخصوص غاصب اسرائیل کی صورت میں موجود سرطان کے مقابلے کی کوشش کریں تاکہ اللہ تعالی کی نصرت و اعانت سے مسلم امت کی دنیوی و اخروی سعادت و پیشرفت کی راہ ہموار ہو سکے۔ 
پیغمبر اسلامۖ  کے ساتھ امت اسلامی کے بے پناہ عشق اور والہانہ محبت کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ امت مسلمہ کو نبی اکرمۖ کے محور پر متحد ہونے اور دشمنان اسلام کی تفرقہ انگیزاور اختلافات پھیلانے والی سازشوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
 علم و حکمت ، تزکیہ و اخلاق اور عدالت و انصاف بعثت پیغمبر اکرمۖکے تین اہم پیغام تھے اور انسانی معاشرے کی مشکلات اور مصائب کو دیکھتے ہوئے اسوقت تمام انسانوں کو انبیا الہی کی تعلیمات کی سخت ضرورت ہے اور اسلام وقرآن میں یہ تمام تعلیمات موجود ہیں۔
معنوی علوم میں انسانی معاشرے کی پسماندگی اور اخلاق و معنویت سے دوری دنیا کی تمام مشکلات اور جنگ و خونریزی کا سرچشمہ ہے اور مروت ، انصاف ، محبت اور اخلاقی پاکیزگی کی طرف اسلام کی دعوت کی تمام قومیں خصوصا تمام ممالک کے اعلی حکام اور ممتاز افراد سخت محتاج ہیں ۔
قیام عدالت انسان کی ابدی ضرورت اور انبیا الہی کی بعثت کا دوسرا مقصدہے اور بعثت پیغمبر اکرمۖ کے تین اہم پیغامات ، یعنی علم ، اخلاق اور عدالت ملت ایران کے بنیادی اصولوں اور اساسی اقدار میں شمار ہوتے ہیں اور ہم سب کوان اصولوں کے تحقق کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔اسلامی اصولوں سے پیچھے ہٹنا ، طرح طرح کی مصلحتوں کے جال میں پھنسنا اور دنیا میں رائج مادی مکاتب فکر کی چاردیواری میں گرفتار ہونا ، بے شک ناکامی اور شکست سے دوچار ہونے کا سبب ہے اور آئندہ بھی ہوگا ۔
 انسانی معاشرہ دو بڑی مصیبتوں میں مبتلا ہے اول : وہ غلط راستہ جو اقوام عالم کو نیک بختی اور سعادت کے راستے کے عنوان سے دکھایا جاتاہے دوم : عالمی امور پر بد ترین افراد کا حاکم ہونا ۔
انسانی معاشرے کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ آج بد ترین افراد دنیا کی اصلاح کا پرچم بلند کئے ہوئے ہیں ۔امریکہ کی شیطانی اور مستکبر طاقت تمام انسانی معاشروں پر اپنی بے لگام حکومت مسلط کرنے کی کوشش میں مصروف ہے اور اسلام پر دہشت گردی اور بنیاد پرستی کا الزام لگارہی ہے جبکہ مسلمانوں پر ظلم و ستم اور دہشت گردی ، جنگ و خونریزی کا اصلی سبب ، خود امریکی حکومت ہے۔ 
 مسلمانوں میں بیداری، اسلامی شناخت کی طرف بازگشت، اور اسلامی ممالک کے حکمرانوں کے اندر جرات و ہمت مسلم اقوام کے رنج وغم کا علاج ہے اور امت مسلمہ قرآنی برکات اور اسلام کے نورانی احکام سے بہرہ مندہیں اور امت مسلمہ، پیغمبر خاتمۖ کے دین سے تمسک کے سایہ میں انسانی حیات کو لاحق تباہ کن خطرات کا مقابلہ کرسکتی ہے ۔
 رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی، دین وسیاست کو ایک سمجھنا اورعدل و انصاف و تزکیہ و تعلیم کے لئے اسلامی حکومت قائم کرنا آج کی اسلامی دنیا کے تمام مسائل کا حل ہے ۔
 رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یکسان طور پر سیاست ،تربیت اور انسانوں کی تعلیم پر توجہ فرمایا کرتے تھے اور یہ اسلام میں دین و سیاست کے ایک ہونے کی دلیل ہے ، رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں سیاست و تدبیر اور مدن کی ذمہ داری غیر مسلم کو نہیں سونپی جاسکتی اور نہ محض اخلاق و روحانیت پراکتفا کیاجاسکتا ہے ۔
بعض لوگ قرآن کی عبارت پر ایمان لے آتے ہیں لیکن اس کی سیاست پر ایمان نہیں لاتے اور کچھ لوگ اسلام کا سیاست میں خلاصہ کرتے ہیں اور اخلاق وروحانیت سے غافل رہتے ہیں لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ میں "دین و حکومت "اور "اخلاق وحکومت "کا سرچشمہ قرآن و وحی ہے ، اس نکتے کا ادراک اور اس پرعمل کرنا آج امت اسلامی کی ضرورت اور مسلمان قوموں کے تمام مسائل کا حل ہے ۔
آج امت اسلامی کو حقیقی معنی میں اسلامی حکومت تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ مسلمان اخلاقی و معنوی کمالات حاصل کرکے علمی و سائنسی،سیاسی ،اقتصادی ،اور ثقافتی میدانوں میں ہمہ گیر ترقی کی راہیں فراہم کرسکیں اور اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے دشمنوں کے مد مقابل اپنے مفادات کادفاع کرسکیں ۔
موجودہ دور میں عالم اسلام میں امریکہ اور سامراج کا ایک بنیادی ہدف، تفرقہ و اختلافات کی آگ بھڑکانہ ہے اور اس کا بہترین طریقہ اہل تشیع اور اہل تسنن کے درمیان اختلاف ڈالنا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں سامراج کے پروردہ عناصر آج عراق کے مسائل کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں؟! کس طرح زہرافشانی کر رہے ہیں اور دشمنی کے بیج بو رہے ہیں؟! مغرب کی تسلط پسند اور جاہ طلب طاقتیں برسہا برس سے اس کام میں مصروف ہیں۔ بہت ہوشیاری سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ہر وقت اور ہر موقع پر چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ شیعہ سنی جنگ امریکہ کا مرغوب ترین مشغلہ ہے۔ 
مسلم اقوام اپنی آنکھیں کھلی رکھیں، دشمن کی سازشوں اور چالبازیوں کو معمولی نہ سمجھیں۔ اپنی بیداری و ہوشیاری کی حفاظت کریں۔ یہ وقت مسلم اقوام کے اتحاد اور یکجہتی کا متقاضی ہے۔ میں تمام مسلمانوں اور تمام مسلم اقوام کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ شیعہ، سنی اختلاف پر قابو پائیں۔ مجھے وہ ہاتھ نظر آ رہے ہیں جو مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان شیعہ سنی جنگ شروع کروانے میں لگے ہیں۔ قتل عام کے جو واقعات ہو رہے ہیں، مساجد، امام بارگاہوں، نماز جماعت اور نماز جمعہ میں جو دھماکے ہو رہے ہیں ان میں صیہونزم اور عالمی استکبار کا پورا پورا ہاتھ ہے۔ یہ کام مسلمان انجام نہیں دے رہے ہیں۔ عراق، ایران، پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے ملنے والی اطلاعات، دنیائے اسلام میں رونما ہونے والے بھیانک واقعات میں صیہونیوں اور اسلام دشمن طاقتوں کا براہ راست یا بالواسطہ ہاتھ ہونے کی غمازی کرتی ہیں۔ 
ہم یہ نہیں کہنا چاہتے کہ شیعہ، سنی فرقے میں شامل ہو جائیں اور سنی شیعہ بن جائیں، یہ مراد نہیں ہے کہ ایک مذہب دوسرے میں ضم ہو جائے۔ ہمارا یہ کہنا نہیں ہے کہ شیعہ اور سنی حتی المقدور اپنے عقائد کے علمی استحکام کی کوشش نہ کریں۔ علمی کام تو مستحسن ہے اس میں کوئی مضایقہ نہیں ہے۔ بعض افراد اتحاد بین المسلمین کا ہدف حاصل کرنے کے لئے مذاہب کی نفی کی بات کرتے ہیں۔ مذاہب کی نفی سے مشکل حل ہونے والی نہیں ہے۔ مشکلات کا حل مذاہب کو صحیح انداز سے ثابت کرکے ممکن ہوگا۔ جو بھی فرقے ہیں وہ اپنے اپنے دائرہ کار میں معمول کے امور انجام دیں لیکن ایک دوسرے سے اپنے تعلقات بہتر کرنے پرخاص توجہ دیں۔ علمی کتابیں لکھیں لیکن یہ کام علمی فضا میں انجام پائے، اس کے باہر نہیں۔ اگر کوئی اپنی بات منطقی انداز میں ثابت کر دیتا ہے تو ہم اسے ایسا کرنے سے نہ روکیں لیکن اگر کوئی شخص اپنے بیان، کردار یا کسی اور طریقے سے اختلاف پیدا کرنا چاہتا ہے تو ہمارے خیال میں یہ تو دشمن کی خدمت ہے۔ اہل سنت کوبھی محتاط رہنا چاہئے اور شیعوں کو بھی۔ ہر شخص اپنے عقیدے اور اقدار کا احترام کرتا ہے اور یہ اس کا حق بھی ہے لیکن یہ عمل کسی دوسرے فرقے کی اقدار کی توہین کا باعث نہ بننے پائے جس کے عقائد ہم سے الگ ہیں۔ ہم ایک اسلام، ایک کعبے، ایک پیغمبر، ایک نماز، ایک حج، ایک جہاد اور ایک ہی شریعت کو ماننے اور اس پر عمل کرنے والے ہیں۔ مماثلتوں کے مقابلے میں اختلافی باتیں کئی گنا کم ہیں۔ اسلام دشمن طاقتیں،پورے عالم اسلام میں شیعہ سنی اختلاف کے شعلے دیکھنا پسند کرتی ہیں۔ 
امیر المومنین علی علیہ السلام کو شیعہ اور سنی اسی طرح دیگر فرقوں کے درمیان اختلاف کا باعث نہ بنائیے۔ امیر المومنین علیہ السلام تو نقطہ اتحاد ہیں، نہ کہ نقطہ اختلاف۔ دنیا کے گوشے گوشے میں آباد ہمارے بھائی بہن اس بات پر یقین رکھیں کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نقطہ اتحاد ہیں۔ پورا عالم اسلام امیر المومنین علی علیہ السلام کے سامنے عقیدت سے ہاتھ جوڑے کھڑا ہے۔ پوری تاریخ اسلام میں، وہ چاہے اموی دور ہو یا عباسی دور، کچھ گروہ امیر المومنین علی علیہ السلام سے دشمنی رکھتے تھے، لیکن مجموعی طور پر عالم اسلام جس میں شیعہ سنی دونوں شامل ہیں، امیر المومنین علی علیہ السلام کا عقیدتمند رہا ہے۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شان میں اہل سنت کے ائمہ فقہ نے طبع آزمائی کی ہے۔ امیر المومنین علی علیہ السلام کی شان میں کہے گئے معروف اشعار امام شافعی سے منسوب ہیں۔ انہوں نے حضرت علی علیہ السلام ہی نہیں تمام یا پھر اکثر ائمہ اہلبیت سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ ہم شیعوں کے نزدیک ان بزرگوار شخصیتوں کا مقام بالکل عیاں ہے۔ 
بد قسمتی سے عالم اسلام میں ایسے بھی عناصر ہیں جو امریکہ اور سامراجی طاقتوں کی قربت حاصل کرنے کے لئے ہر جائز ناجائز کام کرنے کو تیار ہیں اور شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دے رے ہیں۔ میں آج واضح طو پر کچھ ہاتھ دیکھ رہا ہوں جو عمدا اور پوری منصوبہ بندی کیساتھ شیعہ، سنی اختلافات کی آگ بھڑکا رہے ہیں، فرقوں کو ایک دوسرے سے جدا کر رہے ہیں، سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کی دشمنی پر اکسا رہے ہیں تاکہ حالات کا فائدہ اٹھا کر اپنا الو سیدھا کر سکیں اور مسلم ممالک میں ان کے ناجائز مفادات کو تحفظ حاصل ہو۔ ہمیں بہت زیادہ محتاط اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ 
جو لوگ شیعوں کو اہل سنت اور اہل سنت کو شیعہ کے خلاف مشتعل کر رہے ہیں وہ نہ تو شیعوں کے ہمدرد ہیں اور نہ ہی اہل سنت سے انہیں کوئی دلچسپی ہے۔ وہ سرے سے اسلام ہی کے دشمن ہیں۔ 
"رحما ء بینھم" یعنی مسلمان بھائی آپس میں ایک دوسرے کے ہمدرد بنیں۔ دشمن دونوں طرف سے حملے کر رہا ہے۔ ایک طرف تو غلو اور دشمنی اہلبیت کی ترویج کر رہا اور شیعوں کو اہل سنت کی نگاہ میں سب سے بڑا دشمن بنا کر پیش کر رہا ہے اور بد قسمتی سے مذاہبی انتہا پسندی کے شکار بعض افراد اس کا یقین بھی کربیٹھے ہیں، دوسری طرف شیعوں کو اہل سنت کے عقائد کی بے حرمتی اور ان کے جذبات کو مجروح کرنے پر اکساتا ہے۔ دشمن کی سازش یہ ہے کہ یہ دونوں فرقے ہمیشہ لڑتے مرتے رہیں۔ دشمن ایسے زاوئے سے اقدام کرتا ہے کہ ممکن ہے آپ متوجہ نہ ہوسکیں اور اس کی جانب سے غافل رہ جائیں۔ لہذا ہوشیار رہئے اور دشمن کو ہر روپ میں پہچاننے کی کوشش کیجئے " ولتعرفنھم فی لحن القول " اس کی باتوں سے بھی اسے پہچانا جا سکتا ہے۔ 
جن علاقوں میں مختلف مذاہب اور فرقوں کے افراد آباد ہیں اور اختلافات پیدا ہونے کا امکان ہے وہاں مذہبی اور نسلی ٹکراؤ سے خاص طور پر پرہیز کرتے ہیں۔ دشمن کو یہی نہیں پسند ہے۔ شیعہ، سنی جنگ دشمن کے لئے بہت قیمتی اور اہم ہے۔ امت مسلمہ اختلافات کی شکار رہے تو اس سے معنویت و روحانیت، شادابی و تازگی، قدرت و طاقت، اور قومی شکوہ و عظمت سب کچھ مٹ جائے گا جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے " وتذھب ریحکم"
اس سلسلے میں جو عوامل اتحاد کا مرکز قرار پا سکتے ہیں ان میں ایک نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات والا صفات ہے۔ مسلم دانشوروں کو چاہئے کہ اسلام کے سلسلے میں وسیع النظری کا ثبوت دیتے ہوئے اس عظیم شخصیت، اس کی تعلیمات اور اس کی محبت و عقیدت کے سلسلے میں محنت کریں۔ 
اتحاد بین المسلمین کے مسئلے کو شیعہ ہوں یا سنی اسی طرح ان سے نکلنے والے دیگر فرقے، بہت سنجیدگی سے لیں۔ تمام مسلمان اتحاد پر خاص توجہ دیں۔ اتحاد بین المسلمین کا مطلب پوری طرح واضح ہے۔ یہ مسلمانوں کے لئے موت و حیات کا مسئلہ ہے۔ یہ کوئی نعرہ نہیں، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ مسلم معاشروں کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھنے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہئے۔ البتہ اتحاد ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، اتحاد قائم کرنا ایک دشوار کام ہے لیکن مسلم اقوام کا اتحاد ان کے مکاتب فکر میں تنوع کے ساتھ ممکن ہے، ان کا طرز زندگی الگ الگ ہے ان کے آداب و رسومات مختلف ہیں، ان کی فقہ الگ الگ ہے لیکن ان میں اتحاد ہو سکتا ہے۔ مسلم اقوام کے درمیان اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ عالم اسلام سے متعلق مسائل کے سلسلے میں ایک دوسرے سے ہم آہنگی بنائے رکھیں، ایک ہی سمت میں بڑھیں، ایک دوسرے کی مدد کریں اور قوموں کے اندرونی وسائل کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ کریں۔