منگل، 15 دسمبر، 2020

حضرت فاطمہ زہرا علیہاالسلام کی فضلیت و برتری جناب مریم سلام اللہ علیہا پر

 باسمہ تعالیٰ

حضرت فاطمہ زہرا علیہاالسلام کی فضلیت و برتری جناب مریم سلام اللہ علیہا پر

 آیت کی روشنی میں 

سید محمد حسنین باقری


آیت(وَ إِذْ قالَتِ الْمَلائِكَةُ يا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفاكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفاكِ عَلي‏ نِساءِ الْعالَمِينَ) (آل عمران، آیت۴۲)کے سلسلے میں وضاحت:

۱۔ اس آیت میں عالمین سے مراد تمام زمانے نہیں ہیں بلکہ خاص زمانہ ہے،جس کی دلیل مندرجہ ذیل روایات ہیں ۔

الف: سیوطی نے اپنی تفسیر میں عبدالرزاق اور عبد بن حمید کے ذریعہ قتادہ سے نقل کیا ہے کہ : ہر زمانہ کے لیے ایک عالَم ہے۔(الدر المنثور فی تفسیر المأثور،جلال الدین سیوطی، جلد ۱، صفحہ ۶۸، کتابخانہ آیت الله مرعشی نجفی، قم، ۱۴۰۴ھ)

ب: فخر رازی نے اس آیت ’’انی فضلتکم علی العالمین‘‘ (میں نے تم کو عالمین پر فضیلت عطا کی ہے ) یہ آیت پیغمبر کو شامل نہیں ہے، کہا ہے: بنی اسرائیل کو اپنے زمانے کے  لوگوں پر فضیلت و برتری حاصل ہےلیکن پیغمبرؐ اس زمانے میں نہیں تھے اور جس زمانے میں موجود نہیں تھے لہذا آپؐ کا شمار عالمین میں نہیں ہوگا اس لیے کہ معدوم شیٔ کا شمار عالمین میں نہیں ہوتا۔( مفاتیح الغیب،فخرالدین رازی ابوعبدالله محمد بن عمر، ج۲، ص۴۴۴، دار احیاء التراث العربی، طبع سوم، بیروت،۱۴۲۰ھ)(لہذا یہ آیت حضرت فاطمہ کو بھی شامل نہیں ہوگی یعنی حضرت فاطمہ پر جناب مریم کی فضیلت اس آیت سے ثابت نہیں ہوگی)

ج: اسحاق بن بشر اور ابن عساکر نے ابن عباس سے اس آیت’’ و  اصطفاک علی نساء العالمین‘‘ کے سلسلے میں نقل کیا ہے کہ اس آیت کا مطلب ہے: ’’تم کو چنا ہے تمہارے اپنے زمانے کےلوگوں پر۔(تفسیر در منثور، ج۲،ص۲۴)

  ۲۔ اہل سنت کی روایات میں آیت کی تخصیص:(کہ جناب مریم صرف اپنے زمانے پر فضیلت رکھتی ہیں اور حضرت فاطمہ تمام زمانوں پر)

الف: اس آیت کے ضمن میں ’’ وَ أَنِّی فَضَّلْتُکُمْ عَلَى الْعالَمِینَ» [سورہ بقرہ، آیت ۴۷ و ۱۲۲] کہ خداوند عالم بنی اسرائیل سے فرمایاتا ہے:ہم نے تم کو عالمین پر برتری عطا کی کسی مسلمان کو اس میں شک نہیں کہ یہ آیت پیغمبر کو شامل نہیں ہے جبکہ بظاہر یہ آیت عام ہے۔جب پیغمبر کو شامل نہیں ہے تو اس کی عمومیت ختم ہوگئی۔

سیوطی نے اپنی تفسیر میں عبدالرزاق اور عبد بن حمید کے ذریعہ قتادہ سے و انی فضلتکم علی العالمین کے سلسلے میں نقل کیا ہے کہ وہ اپنے زمانے کے لوگوںپر فضیلت ہیں۔ (در منثور،ج۱،ص۶۸)

 فخر رازی نے اس آیت کے سلسلے میں کہا کہ اپنےزمانے کے لوگوں پر فضیلت رکھتی ہیں۔(مفاتیح الغیب، ج۳، ص۴۸۴)

ب. وَ اصْطَفاکِ عَلى‏ نِساءِ الْعالَمِینَ» [سورہ آل عمران، آیت ۴۲]  کے سلسلے میں اہل سنت کے نظریات:

سیوطی نے اپنی تفسیر میں اس آیت  «عَلى‏ نِساءِ الْعالَمِینَ»  کے سلسلے میں لکھا کہ اپنے زمانے کی امت پر [تفسیر در منثور،ج۲،ص۲۴]

ایک اور اہل سنت مفسر نے لکھا کہ : خدا وند عالم نے جناب عیسی کی ماں(مریم ) کو منتخب کیا اور انھیں پاک قرار دیا اور انھیں اپنے زمانے کی عورتوں پر فضیلت عطا کی(تفسیر وسیط، سید محمد طنطاوی،ج۲،ص۱۰۱)

۳۔عالمین کی عورتوں پر فضیلت جناب مریم سے مخصوص نہیں ہے یہ برتری تو دیگر خواتین کو بھی حاصل ہے جیسا کہ پیغمبر کی مشہور حدیث ہے جسے انس ابن مالک نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ نے فرمایا: دنیا کی عورتوں میں فضلیت رکھنے والی چار خواتین ہیں: مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزحم زوجہ فرعون، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت رسول اللہ۔ (فتح القدیر،  محمد بن علی شوکانی، ج۱، ص۳۹۰، دار ابن کثیر، دار الکلم الطیب، طبع اول، دمشق، بیروت،۱۴۱۴ھ؛ تفسیر ابن کثیر دمشقی، تحقیق: محمد حسین شمس الدین، ج۲، ص۳۴، دار الکتب العلمیہ، منشورات محمد علی بیضون،طبع اول، بیروت،۱۴۱۹ھ ؛مستدرک الصحیحین ج 3 باب مناقب فاطِمَہ ص 171/ سیر أعلام النبلاء ج 2 ص 126/ البدایہ والنھایہ ج 2 ص 59/ مناقب الإمام علی لابن المغازلی ص 363.)

جبکہ آیت تطہیر اور آیہ مباہلہ و دیگر آیات کی روشنی میں حضرت فاطمہ زہراؑ کو تمام کائنات پر فضیلت حاصل ہے۔

اس کے علاوہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی جناب مریم علیہا السلام پر برتری و فضلیت کے لیے دیگر امور میں بطور اشارہ:

۱۔ خاندانی شرافت۔ ۲۔ پیغمبرؐ جیسا باپ۔ ۳۔ علیؑ جیسا شوہر۔ ۴۔ حسنینؑ جیسے بیٹے۔ ۵۔ ولادت کے وقت خواتین کا حاضر ہونا

۶۔ آسمانی نام(جناب مریم کا نام ماں نے رکھا ’’انی سمیتھا مریم‘‘ جبکہ حضرت فاطمہ نام خدا نے رکھا)۔ ۷۔ پیغمبرؐ جیسا کفیل و سرپرست 

۸۔ جائے تربیت۔ (حضرت مریم کے لیے؛ ’’کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَکَرِیَّا المِحْرَابَ‘‘ اور حضرت فاطمہؑ کے لیے:’’فِی بُیُوتٍ اَذِنَ اللّه ُ أنْ تُرفَعَ وَ یُذکَرَ فِیهَا اسْمُهُ...‘‘) ۹۔ مقام ولایت الٰہی ۔ ۱۰۔ حضرت فاطمہؑ کی نسل میں امامت کا ہونا۔ ۱۱۔ کوثر کے ذریعہ خطاب۔ ۱۲۔ میدان محشر کے سلسلے میں پیغمبر کی روایات

۱۳۔ نبیؑ جیسی ذات کا کھڑے ہونا(صحیح ترمذی وغیرہ)

۱۴۔ حضرت فاطمہ کی خوشی کو رسولؐ و خدا کی خوشی قرار دینا اور حضرت زہرا کی ناراضگی کو رسولؐ و خدا کی ناراضگی قرار دینا(پیغمبرؐ کی متفق علیہ روایات )

۱۵۔یہ حدیث حضرت فاطمہ ؑ کے سلسلے میں : ’’فاطمة سيدة نساء أهل الجنة‘‘(کنز العمّال ج13 ص94/ صحیح البخاری، کتاب الفضائل، باب مناقب فاطمہ/ البدایہ والنھایہ ج 2 ص61)

۱۶۔ متفق علیہ حدیث ’’فاطمۃ بضعۃ منی‘‘۔ ۱۷۔ إنّما سمّیت فاطمة لأنّ الله عزّوجلّ فطم من أحبّها من النّار»(مجمع الزوائد : 9/201)

مریم از یک نسبت عیسی عزیز از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز

نور چشم رحمة للعالمین آن امام اولین و آخرین

بانوی آن تاجدار ’’ہل اتے‘‘ مرتضی مشکل گشا شیر خدا

مادر آن مرکز پرگار عشق مادر آن کاروان سالار عشق

مزرع تسلیم را حاصل بتول مادران را اسوۂ کامل بتول

رشتۂ آئین حق زنجیر پاست پاس فرمان جناب مصطفی است

ورنہ گرد تربتش گردیدمی سجدہ ہا بر خاک او پاشیدمی (علامہ اقبال)

ترجمہ:حضرت مریمؑ تو حضرت عیسٰیؑ سے نسبت کی بنا پر عزیز ہیں جبکہ حضرت فاطمہ الزاھرہؑ ایسی تین نسبتوں سے عزیز ہیں۔ پہلی نسبت یہ کہ آپؓ رحمتہ للعالمینﷺ کی نورِنظر ھیں، جو پہلوں اور آخروں کے امام ہیں۔ دوسری نسبت یہ کہ آپؓ " ہل اتی " کے تاجدار کی حرم ھیں۔ جو اللہ کے شیر ہیں اور مشکلیں آسان کر دیتے ہیں۔ تیسری نسبت یہ کہ آپؓ اُن کی ماں ہیں جن میں سے ایک عشقِ حق کی پرکار کے مرکز بنے اور دوسرے عشقِ حق کے قافلے کے سالار بنے۔ حضرت فاطمہؓ تسلیم کی کھیتی کا حاصل تھیں اور آپ مسلمان ماوں کے لئے اسوہ کامل بن گئیں۔ اللہ تعالٰی کی قانون کی ڈوری نے میرے پاوں باندھ رکھے ہیں۔ رسول اللہﷺ کے فرمان کا پاس مجھے روک رہا ہے، ورنہ میں حضرت فاطمہؓ کے مزار کا طواف کرتا اور اس مقام پر سجدہ ریز ہوتا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں