منگل، 15 دسمبر، 2020

مَہر فاطمی

باسمہ تعالیٰ


مَہر فاطمی

سید محمد حسنین باقری


شادی کے واجبات میں مَہر ہے جس کی ادائیگی شوہر کے لیے لازم ہے۔ ہر وہ چیز جو ملکیت کے قابل ہو اسے مہر قرار دیا جا سکتا ہے چاہے وہ پیسہ ہو یا زمین، مکان و غیرہ ہو یا منفعت، یا کسی چیز کی تعلیم دینا ہو جیسے کسی فن کی تعلیم یا قرآن کی تعلیم وغیرہ ... یہ سب مہر قرار پا سکتے ہیں ۔ مہر کی مقدار کا تعین طرفین کی رضایت پر منحصر ہے ، اس کے لئے کوئی خاص مقدار معین نہیں کی گئی ہے جس پر دونوں راضی ہوں وہ مہر ہوسکتا ہے۔البتہ مستحب یہ ہے کہ اس کی مقدار مہر فاطمی سے زیادہ نہ ہو ۔(تحریر الوسیلہ، امام خمینیؒ، فصل فی المھر، م 1؛ استفتاءات،امام خمینیؒ، ج‌3، ص 177، ؛ منھاج، آیت الله سیستانی، ج 3، م 286؛ منھاج آیۃ اللہ خوئیؒ و آیۃاللہ وحید، م 1352؛ جامع المسائل، آیت الله بہجتؒ، ج 4، ص 50، م 1 ؛ الاحکام الواضحہ، آیت الله فاضلؒ، م 1728.)

امیرالمومنین علیہ السلام نے حضرت فاطمہ سلام اللہ سے شادی کے وقت جو مہر ادا فرمایا تھا اُسے ’’مہر فاطمی‘‘ کہا جاتاہے۔ حضرت امیرؑ نے عقد نکاح سے پہلے ہی اپنی زرہ بیچ کر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مہر ادا فرمایا جو کہ روایات کے مطابق چار سو سے پانچ سو درہم کے درمیان تھا ، لیکن پانچ سو درہم والی روایت مشہور اور قوی تر ہے ۔ (الھدایۃ الکبری، ، حسین بن حمدان خصیبی، ص 115۔ مناقب ابن شہر آشوب، ج۳، ص۳۵۰، ۳۵۱، کنزالعمال، ج۱۳، ص۶۸۰)۔

امام علی رضاؑ کی حدیث کے مطابق حق مہر کی سنت، کہ جو مہرالسنہ کے نام سے مشہور ہے، وہ ۵۰۰  درہم معین ہوا تھا۔ ( بحار الانوار، ج۹۳، ص۱۷۰، روایت ۱۰) 

۵۰۰  درہم ۱۲۵۰  سے ۱۵۰۰  گرام چاندی بیان کی گئی ہے۔(یعنی کم از کم ایک کلو ڈھائی سو گرام چاندی یا اس کی قیمت مہر فاطمی قرار پائے گا) اور اس زمانے میں ہر دس درہم چاندی ایک دینار سونے کے برابر تھی، اور مہرالسنہ(حق مہر) تقریباً ۱۷۰تا ۲۲۳ گرام سونا بنتا ہے۔ یہ مقداربھی درہم اور دینار کے وزن مختلف ہونے کی وجہ سے، مختلف ہے۔ ( جواہر الکلام، ج۱۵، ص۱۷۴-۱۷۹۔ توضیح المسائل مراجع، ج۲، ص۱۲۹)  امام علیؑ نے حق مہر کی ادائیگی کے لئے زرہ، بھیڑ کا چمڑا، یمنی کرتا یا اونٹ ان میں سے کوئی ایک چیز فروخت کی تھی(مشہور زرہ ہے)۔ جب رقم پیغمبرؐ کو دی تو آپؐ نے اس رقم کو گنے بغیر کچھ رقم بلال کو دی اور فرمایا: اس رقم سے میری بیٹی کے لئے اچھی خوشبو خرید کر لے آؤ! اور باقی بچی رقم ابوبکر کو دی اور فرمایا: اس سے کچھ گھر کی اشیاء جن کی ضرورت میری بیٹی کو ہو گی وہ تیار کرو۔ پیغمبرؐ نے عمار یاسر اور کچھ اور صحابہ کو بھی ابوبکر کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ حضرت زہراءؑ کے جہیز کے لئے کچھ اشیاء تیار کریں۔(ویکی شیعہ)

( مشہور یہ ہے کہ مہر میں سے ساٹھ درہم کا جہیز دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اولاً جہیز دینا غلط نہیں ہے،ہاں جہیز کا مطالبہ یا اس کی تمنا غلط بھی ہے اور شرافت انسانی کے خلاف بھی۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جب پیغمبر ﷺ نے پانچ سو درہم مہر میں سے ۶۰ درہم(یعنی مہر کا ۱۲ فیصد) کا جہیز دیا تو اب اگر کوئی جہیز کی تمنا رکھتا ہو تو اتنا مہر دے کہ اس کے ۱۲ فیصد کا جہیز لے!)    

ایک حدیث میں یہ بھی وارد ہے کہ: حضرت فاطمہ نے اپنے پدربزگوار سے چاہا کہ ان کا مہر قیامت کے دن امت کے گنہ گاروں کی شفاعت قرار دیںاور جبرئیل امین نے اس کا حکم آسمان سے پیغمبر ﷺ تک پہنچایا۔( احقاق الحق،قاضی نور الله شوشتری، ج۱۹، ص۱۳۱۔ الاسرار الفاطمیہ، محمد فاضل مسعودی، ج۱، ص۱۷۸)

کتاب ’’معانی الاخبار‘‘ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک حدیث کے مطابق: ’’ مَا تَزَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ ص شَیْئاً مِنْ نِسَائِهِ وَ لَا زَوَّجَ شَیْئاً مِنْ بَنَاتِهِ عَلَى أَکْثَرَ مِنِ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ أُوقِیَّةً وَ نَشٍّ وَ الْأُوقِیَّةُ أَرْبَعُونَ دِرْهَماً وَ النَّشُّ عِشْرُونَ دِرْهَماً‘‘ پیغمبر اکرم ﷺ نے اپنی تمام ازواج اور اپنی بیٹیوں کا مہر بارہ اَوقیہ اور نشّ سے زیادہ معین نہیں فرمایا۔ اوقیہ چالیس درہم کا اور نشّ بیس درہم کا ہوتا ہے۔ (بارہ اوقیہ اور ایک نش ، پانچ سو درہم کا ہوگا)۔

ایک شرعی درہم چاندی کی مقدار 12.6  چنے کے برابر ہے اور پانچ چنے ایک گرام کے بتائے گئے ہیں اس اعتبار سے ہر شرعی درہم کی قیمت 5.2 گرام چاندی ہوگی( استفتائات،آقای بہجت، ج۴، ص۳۶. ادب حضور،ابن طاووس، ص۱۴۳) ، ناپ تول کے اعتبار سے ہر شرعی درہم چھ دانق کے برابر اور ہر دانق آٹھ متوسط جَو کے برابر ہے( الأوزان والمقادیر،عاملی بیاضی، ص۲۲)۔ اس حساب سے ہر شرعی درہم اس درہم کے برابر ہے جس کا وزن ۴۸ دانہ جَو کے برابر ہو( الأوزان والمقادیر، عاملی بیاضی، ص۲۲)۔ شرعی درہم کو آدھا مثقال چاندی کے برابر بیان کیا گیا ہے( موسوعہ کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم،تھانوی، ج۱، ص۷۸۴)۔ 

اسلام میں شرعی درہم چاندی کے سکہ والے درہم کے علاوہ ہے( موسوعہ کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم، ج۱، ص۷۸۴)۔ اس لیے کہ چاندی کے سکے کا ممکن ہے کوئی بھی وزن ہو، لیکن شرعی درہم کا وزن معین ہوتا ہے(دیکھیے: موسوعہ کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم،تھانوی، ج۱، ص۷۸۴)۔ جیساکہ شرعی دینار کا وزن بھی معین ہے جو زمانہ جاہلیت سے چودھویں صدی تک ایک ہی رہا ہے(دیکھیے: الأوزان والمقادیر، عاملی بیاضی، ص۵۱)۔ اور محققین نے اس کو   265.4 گرام وزن سونے کے سکے کے برابر قرار دیا ہے۔( فرھنگ فقہ،ہاشمی شاہرودی، ج۳، ص۶۸۶)( ویکی شیعہ)۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں