منگل، 15 دسمبر، 2020

شہید قاسم سلیمانی اور تمنائے شہادت

 بسم رب الشھداء

شہید قاسم سلیمانی

 اور تمنائے شہادت


سید محمد حسنین باقری


اسلام کی نگاہ میں جان کی حفاظت واجب ہے۔ قرآن کریم نے ’’وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيْكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ‘‘(سورہ بقرہ ۱۹۵) [’’ اور اپنے نفس کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘] کہہ کر اپنے کو نقصان پہنچانے اور خودکشی کرنے سے سختی سے روکتے ہوئے اسے حرام قرار دیا ہے۔ کسی بھی فرد کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنی جان ہلاکت میں ڈالے ۔ حتی اسلام کی نگاہ میں بغیر کسی شرعی سبب کے کسی کو قتل کردینا پوری انسانیت کے قتل کے برابر جرم قرار دیا گیا ہے، اسی لیے ایک انسان کی جان بچانا یا اسے حیات دینا پوری انسانیت کو بچانے اور حیات کے مترادف ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:’’مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ۔۔۔۔‘‘(سورہ مائدہ، ۳۲)[’’جو شخص کسی نفس کو .... کسی نفس کے بدلے یا روئے زمین میں فساد کی سزا کے علاوہ قتل کرڈالے گا اس نے گویا سارے انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے ایک نفس کو زندگی دے دی اس نے گویا سارے انسانوں کو زندگی دے دی‘‘]۔ لیکن اسی اسلام نے نیک مقصد کے لیے، دین اور حق کی حفاظت کے لیے جان دینے کو نہ صرف قابل تعریف گردانا ہے بلکہ اس راہ میں جان دینے کی تاکید اور بعض مواقع پر جان دینے کو واجب و لازم قرار دیا ہے۔ اور راہ حق میں جان دینے کو شہادت کا نام دیکر حیات و زندگی سے تعبر کیا ہے۔ دو آیات میں شہید کو زندہ کہہ کر اس کی حیات کی گواہی دی ہے یہاں تک کہ شہید کو مردہ گمان کرنے یا مردہ کہنے سے بھی منع کیا ہے۔ارشاد ہوتا ہے:’’اور خبردار راہِ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہیں‘‘(سورہ آل عمران، آیت۱۶۹)۔ اور۔ ’’اور جو لوگ راہ خدا میں قتل ہوجاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے۔(سورہ بقرہ، آیت۱۵۴)۔ ایک جگہ راہ خدا میں جان دینے کو مغفرت و رحمت خدا کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ ’’ اگر تم راہِ خدا میں مرگئے یا قتل ہوگئے تو خدا کی طرف سے مغفرت اور رحمت ان چیزوں سے کہیں زیادہ بہتر ہے جنہیں یہ جمع کررہے ہیں (سورہ آل عمران، آیت۱۵۷)۔ سورہ توبہ میں راہ خدا میں جان دینے کو جنت کی ضمانت اور عظیم کامیابی بتاتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: ’’بیشک اللہ نے صاحبانِ ایمان سے ان کے جان و مال کو جنّت کے عوض خریدلیا ہے کہ یہ لوگ راہ خدا میں جہاد کرتے ہیں اور دشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور پھر خود بھی قتل ہوجاتے ہیں یہ وعدۂ برحق توریت ,انجیل اور قرآن ہر جگہ ذکر ہوا ہے اور خدا سے زیادہ اپنے عہد کا پورا کرنے والا کون ہوگا تو اب تم لوگ اپنی اس تجارت پر خوشیاں مناؤ جو تم نے خدا سے کی ہے کہ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے‘‘ (سورہ توبہ ، ۱۱۱)۔

 معصومین علیہم السلام نے شہادت کی عظمت اور شہدا کے فضائل کو کثرت سے بیان کیا ہے: رسول اکرمﷺ:’’ہر نیکی کے اوپر نیکی ہے لیکن جب راہ خدا میں قتل ہوجائے تو اس سے اوپر کوئی نیکی نہیں ہے‘‘(وسائل الشیعہ، ج11، ص10، حدیث 21)۔ امیرالمومنینؑ: ’’اے لوگو! موت سے کسی کو فرار نہیں جو طبعی موت نہیں مرے گا قتل کیا جائے گا۔ اور بہترین موت راہ خدا میں قتل ہونا ہے، اور اس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تلوار کی ہزار ضربیں میرے لیے بستر پر مرنے سے انتہائی آسان ہیں‘‘۔(وسائل الشیعہ، ج11، ص8، حدیث12)۔ امام زین العابدینؑ:’’قتل ہونا تو ہماری عادت ہے اور ہماری کرامت و فضیلت شہادت ہے‘‘(بحار الانوار، ج45، حدیث118)۔ائمہ معصومینؑ نے تو خدا سے دعاؤں میں بھی شہادت کی موت ،حضرت پیغمبرؐ کے پرچم تلے شہادت ، بدترین لوگوں کے ہاتھوں مارا جانا اور شرافت مند ترین موت کی دعا کی ہے.بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ ’’شہید کا شمار قیامت کے دن شفاعت کرنے والوں میں ہوگا‘‘، ’’شہید بغیر حساب و کتاب کے بہشت میں جائے گا’’، ’’قیامت کے دن جو سب سے پہلے بہشت میں داخل ہو گا وہ شہید ہے‘‘۔  ایک حدیث میں رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’ جو اپنی ذات سے ظلم و ستم دفع کرنے کی راہ میں قتل کردیا جائے وہ شہید ہے‘‘۔ (میزان الحکمۃ)

اہل بیت علیہم السلام نے صرف فضیلت ہی بیان نہیں کی بلکہ راہ خدا میں جام شہادت نوش کرکے تمام حق پسندوں کو عملی راستہ بھی دکھا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام حق پسند و حق پرست افراد احقاق حق و ابطال باطل کے لیے، حق کی حفاظت اور باطل سے مقابلے میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں آجاتے ہیں اور امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے اس قول کی عملی تفسیر بن جاتے ہیں کہ ’’ لا أبالي سقطت على الموت أو سقط الموت علي‘‘دفاع حق و خوشنودیٔ خدا کے لیے ’’مجھے موت کی کوئی پرواہ نہیں کہ میں موت پر جا پڑوں یا موت مجھ پر آپڑے‘‘۔ یہ لوگ موت سے ڈرتے نہیں بلکہ موت ان سے ڈرتی ہے۔ ان افراد کی زندگی موت کی تمنا میں گزرتی ہے۔ راہ خدا میں موت کو گلے لگانے کے لیے ہر وقت آمادہ و تیار رہتے ہیں۔

مرد مجاہد سردار اسلام جنرل قاسم سلیمانی انھیں مردان خدا میں تھے جنھوں نے دفاع حق اور باطل سے مقابلہ کے لیے موت سے بے خوف ہوکر علی الاعلان دنیا کے بڑے بڑے دہشت گردوں، دشمنان انسانیت اورامریکہ و اسرائیل جیسی ہر ظالم و استعماری طاقت کے سامنے جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں سیسہ پلائی دیوار بن کر اورہر باطل منصوبے کو خاک میں ملاکر یہ ثابت کردیا کہ جسے شوق شہادت ہوتا ہے اور دل میں شہادت کی تمنا رکھتا ہے وہ کسی طاقت سے نہیں ڈرتا بلکہ اپنے کو سپر پاور کہنے والی طاقتیں اس کے آگے گھٹنے ٹیکتی ہیں۔ جنرل قاسم سلیمانی ان لوگوںمیں تھے جنھوں نے پوری زندگی خدمت خلق میں گزاری، اور اپنے ایمانی جذبہ اور کربلائی درس کو سامنے رکھ کر امریکہ و اسرائیل جیسی ظالم طاقتوں کے انسان مخالف منصوبوں پر پانی پھیرتے رہے۔ اپنی تدبیروں، صلاحیتوں اور ایمانی جذبے کی وجہ سے جنرل قاسم سلیمانی نے اپنی چالیس سالہ مجاہدانہ زندگی میں میدان جہاد میں عملی طور پر ہر استعماری طاقت کا مقابلہ کیا، ایران عراق کی آٹھ سالہ جنگ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے بعد افغانستان، لبنان، شام اور عراق وغیرہ میں دہشت گردوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ چاہے وہ اسرائیل کے خلاف ۳۳ روزہ جنگ میں حزب اللہ کی کامیابی ہو یا شام و عراق میں امریکہ و اسرائیل اور آل سعود کے پروردہ داعشی دہشت گرد وں کو شکست دینا ہو ، قاسم سلیمانی نے ان محاذوں پر باطل کو شکست فاش دیکر استعمار کو نہ صرف ذلیل و رسوا کیا بلکہ ان کے بہت سے ظالمانہ منصوبوں پر بھی پانی پھر دیا۔

 شہید قاسم سلیمانی ۱۱ مارچ ۱۹۵۷؁ء کو کرمان صوبہ کے رابر ضلع کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تربیت ابتداء ہی سے مذہبی ماحول میں ہوئی آپ نے تعلیم کے بعد ہی سے اپنے ملک اور اسلام کی خدمت کرنا شروع کردی تھی ،آپ نے سب سے پہلے ایران کے آبپاشی محکمہ سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا اور پھر اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد  ۱۹۸۰؁ء میں سپاہ پاسداران انقلاب کی قدس برگیڈ میں شمولیت اختیار کی ۔ ۲۲ ستمبر ۱۹۸۰ کو ایران عراق کی آٹھ برس تک چلنے والی جنگ شروع ہوئی ، جس میں آپ نے کرمان صوبہ  کے جوانوں کے سربراہ کے طور پر حصہ لیا اور اس ٹکڑی کے سبھی جوانوں کو آپ نے خود اپنے ہاتھوں سے ٹرینگ دی تھی۔ جنرل قاسم سلیمانی،کرمان صوبہ کی ۴۱ برگیڈ ’’ثار اللہ‘‘ کی سربراہی کرتے ہوئے ایران عراق جنگ کا حصہ بنے جس میں آپ کی خدمات کو دیکھتے ہوئے آپ کو ایران کی ۱۰ اہم شخصیات میں گنا جانے لگا ۔  ۱۹۹۸؁ میں آپ کو قدس برگیڈ کی سربراہی کا عہدہ ملا اور پھر ۲۶ جنوری ۲۰۱۱ کو آپ کے منصب میں ترقی ہوئی اور آپ کو میجر جنرل کا خطاب ملا ۔

شہید سلیمانی نے لبنان میں حزب اللہ کی عسکری قوت و تربیت، جنوبی لبنان سے اسرائیل کی پسپائی، بالخصوص اسرائیل سے ۳۳ روزہ جنگ، جنگ افغانستان، صدام کے بعد عراق میں سیاسی اور سفارتی فضا کی تشکیل نو، شام کی خانہ جنگی اور عراق و شام میں داعش سے مقابلے میں اہم کردار ادا کیا۔ داعش سے مقابلے سے پہلے وہ منظر عام پر آنے سے گریز کرتے تھے؛ لیکن ان کی عراق میں موجودگی اور داعش سے نبرد آزمائی کے دوران حکومت ایران نے متعدد بار ان کی عسکری کامیابیوں کی تصاویر کو شائع کیا جس سے ان کی شناخت لوگوں کو ہوئی اور لوگ نہ صرف یہ کہ ان سے متعارف ہوئے بلکہ انہیں چہرے سے پہچاننے لگے۔ یہیں سے ان کی ہردلعزیزی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ میڈیا میں وہ عموماً (Shadow commander) کے لقب سے مشہور تھے۔ سلیمانی واشنگٹن کی نظر میں ایسی شخصیت تھے جن سے امریکی افواج بھی خوف زدہ رہتے تھے۔ جبکہ ایران میں ان کی مقبولیت کی وجہ ان کا مجاہدانہ کردار، خدمت خلق، ایران کے خلاف امریکی پابندیوں اور دباؤ کے امریکا مخالف اقدامات تھے۔

آپ نے اپنی تدبیر اور دور اندیشی پر مشتمل فیصلوں کے سبب، ایران اور اس کے باہر بہت سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی ، صدام کی فوج کے قبضہ سے ایرانی زمینوں کو آزاد کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔اس وقت خود کرمان صوبہ کو آپ کی اشد ضرورت تھی چونکہ یہ صوبہ افغانستان سے ملتا ہے کہ جہاں بہت عرصہ سے منشیات کی کھیتی ہوتی ہے جس کے ایران میں آنے کے خطرہ بہت زیادہ تھے اور پھر اسی علاقہ سے منشیات کا یہ سامان بڑے بڑے دلالوں کے ہاتھوں سے گذرتا ہوا ترکی اور یورپ اسمگلنگ کیا جاتا تھا لیکن آپ نے اس غیر قانونی اسمگلنگ کو پوری طرح روکنے کے کامیاب اقدام کئے اور اس کام کے بعد لوگوں کی نگاہوں میں آپ کی عزت مزید بڑھ گئی۔

آپ کی شجاعت و بہادری اور دہشتگردوں کے مقابل سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ کر کھڑے رہنا اور دشمن کے بیچ جا کر ان کے منصوبوں کا ناکام کرنے کا ہنر اور راہ خدا میں شوق شہادت کو دیکھ کر آیت اللہ خامنہ ای نے آپ کو ’’ زندہ شہید ‘‘ کے اعزاز سے نوازا تھا ۔

موجودہ دور میں جنرل قاسم سلیمانی کو انکی بے پناہ صلاحیتوں اور دشمن کے مقابلے کامیابیوں کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کے سب سے تجربہ کار جنرل کے طور پر پہچانا جاتا تھا اور ایسا ہوتا بھی کیوں نہ، کیونکہ آپ کی بصیرت ، شجاعت ، بے باکی ، حق و انصاف کے لئے آواز اٹھانے کے ارادے اور مظلومان عالم کی مدد کرنے کے جذبہ نے داعش جیسی خونخوار دہشتگرد تنظیم کو اس خطہ سے نکال باہر کیا ۔ آپ لوگ جانتے ہیں کہ داعش پورے مشرق وسطیٰ پر قبضہ کرنے کے منصوبہ سے امریکہ، اسرائیل اور آل سعود کے ذریعہ بنائی گئی تھی اور جس کی حمایت مذکورہ ممالک کے علاوہ تمام سامراجی ممالک کھلے عام کررہے تھے۔ جنرل قاسم سلیمانی نے اپنی جان پر کھیل کر شام و عراق سے اس دہشت گرد گروہ کا خاتمہ کرکے نہ صرف اس علاقے بلکہ تمام انسانوں کو اس خونخوار گروہ سے نجات دلائی۔ 

یہ بات تو پوری طرح واضح ہوچکی ہے کہ داعش اور اس سے پہلے اس طرح کی سبھی تنظیموں کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل کا ہاتھ رہا ہے ، ان تنظیموں کے پاس سے امریکہ کے بنے ہتھیاروں کا برآمد ہونا بتاتا ہے کہ پوری دنیا میں دہشت کا ماحول اور لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کرنے کےپیچھے انہیں سامراجی طاقتوں کا ہاتھ ہے اور یہی وجہ ہے جب امریکہ نے خود کو اپنے ہی سازشی جال میں پھنستا ہوا پایا تو اس نے میجر جنرل قاسم سلیمانی جیسے مرد مجاہد ہی پر دہشتگردی کا الزام لگادیا اور آپ پر بہت ساری ناجائز پابندیاں عائد کردیں ۔

ان تمام امریکی بے بنیاد الزامات کے باوجود آپ نے انسانیت کی خدمت اور دنیا کے سامنے دہشتگردوں کا اصلی چہرہ جو امریکہ، اسرائیل اور سامراجی طاقتیں ہیں، انہیں بے نقاب کرنے کو اپنی سب سے اہم ذمہ داری سمجھا اور اسی راستہ پر چلتے رہے۔

آپ کی اسی لگن اور انسانیت کی خدمت اور اسلام و ولایت کی اطاعت اور نائب امام و رہبر معظم کی پیروی کو دیکھتے ہوئے آپ کو مالک اشتر زمانہ کہا جاتا تھا جس طرح مالک اشتر نے خود کو انسانیت  کے لئے وقف کردیا تھا جس طرح مالک نے اپنی پوری زندگی انسانیت کی خدمت اور دین کے دشمنوں کے ساتھ جنگ میں گذار دی تھی اسی طرح ان کی سیرت کا اتباع کرنے والے اس مجاہد نے اپنی زندگی  کا نصب العین  پرچم اسلام کی سربلندی اور انسانیت کی خدمت کو قرار دیا تھا۔شہید قاسم سلیمانی کی انسانی ہمدردی اور خدمت خلق کے گواہ ایران کے علاوہ عراق و شام اور افغانستان وغیرہ بھی ہیں جہاں وہ عوامی خدمت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے اور ہر ضرورت کے وقت عوام کی خدمت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ، صرف یہی نہیں بلکہ راہ حق اور حضرت زینبؑ کے روضے اور دیگر روضہ ہائے مقدسہ کی حفاظت میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء کے یتیم بچوں کے ساتھ بھی قاسم سلیمانی کا رویہ رحم دل باپ کی طرح تھا۔ ہر یتیم بچہ کو اپنی اولاد سے بڑھ کر پیار دیتے اور ایک جنرل ہوکر بھی انتہائی رحم دلی کا مظاہرہ کرتے اور یہ بچے بھی انکو باپ کی طرح سمجھتے تھے جس کے سیکڑوں واقعات زبان زد خاص و عام ہیں۔

شہید سلیمانی کی شجاعت و بہادری اور دشمن کی نگاہ میں رعب و دبدبہ کا عالم یہ تھا کہ بقول مسعود بارزانی جب اربیل (عراق) میں داعشی داخل ہوئے اور شہر ہاتھ سے جانے لگا اس وقت جب تمام ممالک نے مدد طلب کرنے کے باوجود انکار کردیا تو میں نے ایران سے رابطہ کیا ان سے مدد مانگنے پر جنرل سلیمانی اس شہر میں آئے انکے آتے ہی نقشہ بدل گیا۔ داعش پسپا ہوئے۔ جب داعش کے ایک گرفتار شدہ کمانڈر سے پوچھا گیا کہ تم لوگ تو کامیاب ہورہے تھے کیا ہوا کہ اچانک شکست سے دوچار ہوگئے؟ اس نے جواب دیا کہ جب ہم کو معلوم ہوا کہ جنرل سلیمانی یہاں آگئے ہیں تو ہمارے حوصلے پست ہوگئے ہم ان کے خوف کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے۔   

ان کی روحانیت و معنویت کی طرف توجہ کا ایک نمونہ اپنے بیٹے کے نام نصیحتیں ہیں۔ جو آج کے ہر نوجوان کے لیے بھی مشعل راہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں: 

’’مہدی جان! (۱): جتنے لوگ کمال کے درجے تک پہنچے ہیں بالخصوص معنوی کمالات جو خود دنیوی کمالات کی بنیاد اور سبب بھی ہوتا، ان تمام کامیابیوں اور کمالات کا سبب وقت ’’سحر‘‘ ہے۔ وقت سحر کو حاصل کرو۔ تمہاری عمر میں نماز شب کے عجیب و غریب اثرات ہیں۔ اگر چند دفعہ اس کا رغبت کے ساتھ تجربہ کرو تو اس کی لذت سبب بنے گی کہ اس سے تمسک کروگے۔(۲): تمام برائیوں و خرابیوں کی جڑ جھوٹ ہے۔ (۳): بڑوں بزرگوں بالخصوص ماں باپ کے احترام کی عادت ڈالو۔ بغیر شرم محسوس کیے ماں باپ کے ہاتھ چومو۔ یہ کام انکی خوشی کا سبب بھی ہوگا نیز اس کے وضعی اثرات تم پر مرتب ہونگے‘ ‘۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر میجرجنرل قاسم سلیمانی اور انجینئر ابو مہدی جیسے جیالے نہ ہوتے تو آج ہمارے سامنے کئی جنت البقیع ہوتیں ، اس لئے کہ کربلا و نجف میں روضوں سے داعش کی دوری صرف کچھ ہی کیلومٹر رہ گئی تھی۔جبکہ شام و سامرہ میں روضوں کو گھیر لیا تھا۔ یہ رہبر معظم انقلاب و آیۃاللہ سیستانی کی دور اندیشی، سیاسی بصیرت و راہنمائی اور قاسم سلیمانی جیسے مجاہد تھے جنھوں نے جان کی پرواہ کیے بغیر ان روضوں کو ناپاک ہاتھوں سے محفوط رکھا۔اس لئے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ میجر جنرل قاسم سلیمانی اور انجینئر ابو مہدی جیسوں کے بارے میں خود بھی معلومات حاصل کریں اور اپنے بچوں کو بھی بتلائیں تاکہ ہمارے اندر بھی انسانیت کی خدمت ، دین کی مدد اور ظلم و دہشتگردی کے خلاف شجاعت کے ساتھ کھڑے رہنے کا حوصلہ و جذبہ پیدا ہوسکے۔

ساتھ ہی یہ پہلو بھی مد نظر رہے کہ داعش کے خلاف عظیم کامیابی کے بعد جب شہید قاسم کی عظمت و منزلت دنیا کے سامنے ظاہر ہوئی تو ایک شخص نے ان کے والد حسن سلیمانی سے سوال کیا کہ آپ نے اپنے بیٹے کی کس طرح تربیت کی کہ آج یہ کارنامے انجام دے رہا ہے؟ انھوں نے جواب دیاکہ میں نے ابتدا ہی سے کوشش کی کہ بچوں کے شکم میں حرام غذا نہ جانے پائے۔ بقول ان کے یہ حلال غذا کا اثر بھی ہے جو آج سلیمانی یہاں تک پہنچے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ شہید سلیمانی وہ مرد مومن تھے کہ شام کو داعش کے چنگل سے آزاد کرانے کے بعد انھوں نے بعض اہل سنت کو خط لکھے کہ تم جب اپنے گھروں کو چھوڑ کر جاچکے تھے میں نے کارروائی کے دوران تمہارے گھروں میں بغیر تمہاری اجازت کے گھر میں قیام کا اور نمازیں پڑھی ہیں لہذا مجھے حلال کردو۔ کیا اس طرح کی نظیر اہل بیتؑ کے بعد انکے حقیقی چاہنے والوں کے علاوہ کہیں اور مل سکتی ہے؟۔

شہید قاسم سلیمانی کا جذبۂ ایمانی و جوش ولا تھا جو مسلسل اپنی شہادت کی تمنا اور ہر ملاقات میں اس کا اظہار کرتے تھے ۔ حتی انھیں آخری ایام میں اس بات کا افسوس بھی تھا کہ ابتک راہ خدا میں شہادت سے میں کیوں محروم ہوں۔ 

 دوسروں سے بھی یہی کہتے کہ میرے لیے شہادت کی دعا کرو۔ جناب زینبؑ کے روضہ کی حفاظت میں ایک شہید ہونے والے کی بیٹی نے جب ایک ملاقات میں بطور ہدیہ انگوٹھی کا مطالبہ کیا تو کہا کہ یہ انگوٹھی دے رہا ہوں لیکن اس شرط پر کہ جب مشہد میں امام رضاؑ کے روضے پر جاؤ تو میرے لیے شہادت کی دعا کرو، مجاہد عظیم حسن نصراللہ نے بھی ایک تقریر میں فرمایا کہ آخری دنوں میں کہتے تھے کہ نہ معلوم کیوں شہادت نہیں نصیب ہورہی ہے اب تو میرا دل بیٹھنے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ رہبر معظم انقلاب نے بھی شہادت سے کچھ عرصہ قبل شہید سلیمانی کی موجودگی میں انھیں زندہ شہید کا لقب بھی دیا تھا اور دعا کی تھی کہ خدا نھیں شہادت نصیب فرمائے ۔البتہ اس اضافہ کے ساتھ ابھی لوگوں کو ان کی ضرورت ہے لہذا ابھی نہیں۔

بالآخر یہ شہادت کی تمنا پوری ہوئی، وہ وقت بھی نزدیک آیا ، آخری دن کی سرگرمیوں کو  لشکر فاطمیون کے ایک کمانڈر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

’’۔۔۔(۲ جنوری ۲۰۲۰ء) صبح 7:45 پر میں (دمشق میں )میٹنگ کے مقام پر پہنچا ۔معمول کے مطابق تمام مقاومت کے رہنما وہاں موجود تھے ۔۸بجے ۔۔۔ اور مقاومت کے عظیم رہنما (جنرل سلیمانی ) وارد محفل ہوتے ہیں ۔۔۔اپنی گفتگو میں سب سے اصرار کررہے ہیں کہ انکی باتوں کو ضرور لکھا جائے۔ہم معمولا حاجی کی باتوں کو لکھا کرتے تھے لیکن اس مرتبہ حاجی کا اصرار تھا کہ ایک ایک نکتے کو لکھا جائے ۔اگلے پانچ سالوں کا منصوبہ بتا رہے تھے ۔ کہ اگلے پانچ سالوں میں ہر مقاومتی گروپ کو کیا کیا فرائض انجام دینے ہیں ۔ ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح کے روابط کو قائم رکھنا ہے ۔۔۔جو لوگ حاجی کے ساتھ رہے ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ میٹنگ کے وقت حاجی بہت سنجیدہ ہوتے تھے اور کسی کو قطع کلامی کی اجازت نہیں دیتے۔  لیکن اس جمعرات کو وہ کسی کو اس طرح روک نہیں رہے تھے فقط اتنا کہہ رہے تھے کہ " جلدی نہ کریں مجھے مکمل کرنے دیں ۔۔۔ظہر کا وقت ہوگیا ۔حاجی نے نماز پڑھی اور جلدی سے کھانا تناول کیا اور میٹنگ کو ادامہ دیا۔۳ بجے میٹنگ کا اختتام ہوتا ہے ۔معمول کے مطابق ہم سب انہیں گھیر لیتے ہیں اور گاڑی کے دروازے تک ان سے باتیں کرتے ہوئے جاتے ہیں اور انہیں وداع کرتے ہیں ۔یہ گاڑی انہیں بیروت لے جانے کیلئے آئی تھی جہاں ان کی سید المقاومہ سید حسن نصر اللہ کے ساتھ میٹنگ تھی ۔۔۔تقریبا ۹ بجے شب حاجی واپس دمشق آتے ہیں ۔انکا ساتھی بتاتا ہے کہ وہ سید حسن نصر اللہ کے ساتھ فقط ایک گھنٹہ بیٹھے ہیں ۔حاجی نے بتایا تھا کہ ہمارا آج عراق جانا طے پایا ہے۔خاموشی چھا جاتی ہے ۔کوئی کہتا ہے: حاجی عراق کے حالات ابھی ٹھیک نہیں ہیں، ابھی جانا مناسب نہیں ہے ۔حاجی مسکرا کر جواب دیتے ہیں: کیا تم مجھے شہادت سے ڈرا رہے ہو ؟شہادت فخر ہے ہمارے لئے۔ مگر آپکا ہم سے جدا ہونا کسی سانحہ سے کم نہیں ہوگا ابھی آپ کی سربراہی میں بہت کچھ انجام دینا ہے ۔ آرام اور کافی اطمینان سے جواب دیا:اگر ایک پھل پک جائے تو مالی کو چاہیے کہ اسے پیڑ سے جدا کرلے، اگر پھل تیار ہوجائے اور اسے توڑا نہ جائے تو خود ہی وہ خراب ہوکر نیچے گر جائے گا، پھر وہاں موجود افراد کی طرف نگاہ کرتے ہیں اور ایک ایک کی جانب اشارہ کر کے کہتے ہیں " دیکھو یہ پک گیا، دیکھو یہ پک گیا ۔ (وہ بغداد کے لیے روانہ ہوگئے)۔۔۔جمعہ کی صبح کا موقع آتا ہے ۔۔۔اور حاجی کی شہادت کی خبر آن پہنچتی ہے (سردار قاسم سلیمانی کو شہید کردیا گیا ہے) ہم دمشق میں موجود انکے استراحت کے کمرے کی جانب دوڑتے ہیں ۔۔۔ایک کاغذ کا ٹکڑا جس پر کچھ تحریر تھا آئینے کے سامنے رکھا ہوتا ہے ۔۔۔‘‘۔جسے بغداد روانگی سے قبل ہی لکھا تھا۔ الفاظ یہ تھے:’’“الهی لا تکلنی”۔اے خدا مجھے اپنا دیدار کرا دے۔اے خدا میں تجھ سے ملنے کیلئے بے تاب ہوں۔وہی دیدار کہ جس کیلئے حضرت موسی کے پاس تاب نظارہ نہ تھا ۔خداوندا مجھے پاک و پاکیزہ قبول فرما۔الحمدلله رب العالمین۔‘‘

جب شب جمعہ۳ جنوری کی رات کو حکومت عراق کی دعوت پر شام سے عراق کے بغداد ایر پورٹ پر اترے وہاں ان کے صمیمی دوست حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر مجاہد ابومہدی المہندس استقبال کے لیے موجود تھے، دونوں گاڑی میں سوار ہوئے دوسری گاڑی میں حفاظتی دستہ کے افراد تھے جنمیں قاسم سلیمانی کے ایرانی ساتھیوں میں حسین جعفری نیا، شھرود مظفری، ھادی طارمی اور وحید زمانیان تھے جبکہ حشد الشعبی کے جوانوں میں سامر عبداللہ، محمد رضا الجابری، حسن عبدالہادی اور محمد شیبانی تھے۔ جیسے ہی یہ لوگ ایرپورٹ سے باہر نکلے امریکہ نے جو عرصہ سے دونوں مجاہدین بالخصوص قاسم سلیمانی کی جان کے درپے تھا، اسرائیل کی پشت پناہی میں ٹرمپ کے ظالمانہ حکم سے رات کی تاریکی میں بزدلانہ حملہ کیا۔ نتیجہ میں قاسم سلیمانی اور ان کے تمام رفقاء موقع ہی پر شہید ہوگئے۔ انا للہ ۔۔۔۔۔

صبح جمعہ ۳ جنوری کو یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح دنیا میں پھیل گئی۔ ۴؍ جنوری کی صبح عراق میں امام موسی کاظم و امام محمد تقی علیہما السلام کی روضے کاظمین سے تشیع جنازہ کا ٓغاز ہوا۔ بغداد، کربلا اور نجف میں لاکھوں افراد کی موجودگی میں تشیع جنازہ ہوئی۔ حرم امیرالمومنینؑ میں آیۃاللہ العظمیٰ شیخ بشیر نجفی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ 

۵؍جنوری کو شہیدقاسم سلیمانی ، دیگر ایرانی شہدا اور شہید ابومہدی المہندس کے جنازے ایران پہنچے اسی دن اہواز خوزستان اور مشہد مقدس اور ۶ جنوری کو تہران، قم مقدسہ و جمکران میں دسیوں لاکھ افراد نے تشییع جنازہ میں شرکت کی۔ تہران میں ایک رپورٹ کے مطابق تقریبا ستر سے اسی لاکھ افراد نے رہبر معظم آیۃاللہ خامنہ ای کی اقتدا میں نماز جنازہ پڑھی۔ اور قاسم سلیمانی کی تمنائے شہادت کا اثر اس وقت بھی نظر آیا جب رہبر معظم نے گریہ کرتے ہوئے نماز جنازہ کی آخری تکبیر میں یہ الفاظ زبان پر جاری کیے::’’ اللهُم اِنک توفیتهُم مُتلطخین بِدمائهم فِی سَبیل رضاک مُستشَهدین بَینَ ایدیهِم مُخلصین فِی ذلک لوَجهکَ الکَریم [خداوندا تو نے اس حال میں ان کی روح قبض کی کہ تیری رضا کی راہ میں اپنے خون میں لت پت تھے اور تیرے سامنے شہید ہوئے تیری ذات کےلیے اے کریم پروردگار تیری راہ میں مخلص تھے.] اللهُم فاعلِ دَرجاتِهم و احشُرهُم مَعَ مُحمدِ و آله الطاهرینَ و الحقنا بِهم و ارزُقنا الشَهادة فی سَبیلک یا مولای[خداوندا پس ان کے درجات بلند فرما اور انہیں محمد و آل محمد کے ساتھ محشور فرما اور ہمیں بھی ان کے ساتھ ملحق فرما اور اے میرے مولی و آقا اپنی راہ میں شھادت کی موت کو ہمارے لیے بھی مقدر فرما.]الحَمدُ اللهِ الذی اکرم المُستشهدینَ فی سَبیله . اَلحمدُ لله الذی رزقنا الشهادة فی سَبیله. اَلحمدُ للهِ الذی رزقنا الجَهاد فی سَبیلِ الاِسلام. [حمد اس خدا کی جس نے اپنی راہ میں شہید ہونے والوں کو کرامت بخشی ۔حمد اس خدا کی جس نے اپنی راہ میں شھادت اور راہ اسلام میں جھاد کو ہماری روزی قرار دیا.]۔

جمکران کے بعد ۷ جنوری کو شہید ابو مہدی کا جنازہ ایران کے دیگر شہروں میں تشییع ہوتا ہوا عراق کے لیے روانہ ہوگیا اور شہید قاسم سلیمانی کی میت مرقد امامؒ و شاہ عبدالعظیمؑ ہوتے ہوئے آبائی وطن کرمان کے لیے روانہ ہوئی جہاں دسیوں لاکھ افراد نے جنازہ میں شرکت کی ۔ مجمع کی کثرت کی وجہ سے تقریبا ۵۶ افراد جاں بحق بھی ہوگئے۔ ۸؍ جنوری کو علی الصبح کرمان کے گلزار شہداء میں آسودۂ لحد ہوئے، جنازہ کے ساتھ جو چیزیں دفن ہوئیں:پرچم روضہ امام حسینؑ، تربت کربلا، انگوٹھی جس کے ساتھ نماز شب پڑھتے تھے اور رہبر انقلاب کی عبا جس پر انھوں نے ۱۴ سال نماز شب پڑھی تھی(اس سے قبل اسی طرح کی ایک عبا شہید احمد کاظمی کو بھی رہبر نے دی تھی)۔عاش سعیدا(و شھیدا) و مات سعیدا(و شھیدا)۔ اللہم ارزُقنی الشَهادة فی سَبیلک یا سیدی۔ وعجّل فی فرج مولانا صاحب الزمان یا مولای۔(ماہنامہ اصلاح۔لکھنؤ،  فروری ۲۰۲۰)

ظظظ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں