باسمہ تعالیٰ
حکیم امت ڈاکٹر کلب صادق طاب ثراہ
سید محمد حسنین باقری
باسمہ تعالی
حکیم امت
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام :
و العُلَماءُ باقونَ ما بَقِيَ الدَّهرُ ، أعيانُهُم مَفقودَةٌ ، و أمثالُهُم فِي القُلوبِ مَوجودَةٌ
صاحبان علم زمانہ کی بقا کے ساتھ زندہ رہنے والے ہیں ، اگرچہ ان کے جسم نظروں سے اوجھل ہو گئے لیکن ان کی یادیں ، انکے آثار دلوں پر نقش ہیں ۔
(نہج البلاغہ، حکمت ۱۴۷)
حکیم اور ڈاکٹر کا کام مرض کی تشخیص اور اس کا مداوا ہے، محترم ڈاکٹر کلب صادق نقوی اس ذات کا نام ہے جس نے امت کے مرض کو سمجھا اور اس کے علاج کے لیے جو کرسکتے تھے اس میں دریغ نہیں کیا۔ اگر انھیں حکیم امت کہا گیا تو انھوں نے اس لقب کی لاج رکھی اور ملک و قوم کے مرض کو تشخیص دیتے پوری عمر اس کے علاج میں صرف کردی۔
یہ حقیقت ہے کہ جہالت و غربت فرد کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں اور ملک و قوم کو بھی، علم واقتصاد ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ فطرت انسانی والے الٰہی دین، اسلام نے جہالت و غربت کے خاتمے کے لیے تاکید بھی کی اور محمد و آل محمد علیہم السلام کی شکل میں عملی نمونے بھی پیش کیے۔ مرحوم کلب صادق صاحب کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ انھوں نے اسلام کے اس اساسی پیغام کو اپنا مشن بنا لیا اور ملک و قوم سے غربت و جہالت کے خاتمے کے لیے جو کر سکتے تھے انھوں نے کیا۔
علمی میدانوں میں ان کے بے لوث خدمات کے گواہ یونٹی ، مدینۃالعلوم اور ارا میڈکل کالج ہیںاور اقتصادی میدان میں توحید المسلمین ٹرسٹ ہے۔
قابل ذکر ہے کہ انھوں نے قوم کے لیے اپنے کو جوانی ہی سے وقف کردیا تھا، آج بھی بہت سے گواہ موجود ہیں کہ عالم جوانی ہی سے ان کے اندر کچھ کرنے کا نہ صرف جذبہ و حوصلہ تھا بلکہ عملی کوششیں شروع کردی تھیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے بہت سے خدمات اکثریت ناواقف ہے لیکن جو سامنے ہے وہی کم نہیں ہے۔
اگر انھوں نے اسلامی اصول پر عمل کرتے ہوئے وقت کی پابندی اپنی پہچان بنائی جو ہر انسان کے اندر ہونا چاہیے ۔اور ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ پہچان آسان تھی اس سلسلے میں ابتداء میں انتہائی سخت اور حساس مرحلے سے بھی گزرے، بعض ایسے بھی مواقع آئے کہ وقت کی پابندی ناممکن یا بہت دشوار تھی لیکن انھوں نے سب کچھ برداشت کرتے ہوئے اپنے اصول سے پیچھے ہٹنا گوارا نہیں، اور اتنی پابندی کی کہ ہر جگہ ہر پروگرام میں ہر شخص کو معلوم تھا کہ اگر کلب صادق صاحب کا نام ہے تو جس وقت کا اعلان ہے پروگرام اسی وقت شروع ہوگا۔
اسی طرح انھوں نے اتحاد بین المسلمین ہی نہیں بلکہ اتحاد بین المذاہب کی بھی کوشش کی اور اس سلسلے میں اپنے حساب سے ہر اقدام کیا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اختلاف و جھگڑے کسی کے حق میں نہیں ہوتے جبکہ اتحاد و بھائی چارہ فرد و گروہ ، ملک و قوم اور مذہب و ملت سب کے حق میں مثبت اثرات رکھتا ہے۔ اگر تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ہر دور میں طاغوت اور شیطان صفت افراد اپنے غیر انسانی مقاصد کے لیے اختلاف و جھگڑے کا سہارا لیتے ہیں ، ’’قوموں کو لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ یہ شیطانی حربہ ہمیشہ اور ہر جگہ استعمال ہوتا ہے، لیکن اس کے مقابل اسلام کا آفاقی پیغام اتحاد و بھائی چارہ اور میل جول کارہا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسلام تمام انسانوں کی بھلائی چاہتا اور تمام نوع بشر کو ہر طرح کے نقصانات سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے ، اس کے لیے تمام احکامات کے ساتھ اس نے اختلاف و جھگڑے سے روکتے ہوئے آپسی میل جول اور اتحاد و بھائی چارہ کو لازم قرار دیا ہے۔ مولانا ڈاکٹر کلب صادق صاحب نے اتحاد کے لیے ہر کوشش کی، اور ملک و قوم سے نفرتوں کو مٹانے کے لیے نہ صرف زبانی بلکہ عملی اقدامات کیے۔
مرحوم کا اہم کارنامہ قوم و ملت سے غربت و جہالت کے خاتمہ کو اپنا مشن بنالینا ہے۔ اقتصادی میدان میں بھی ابتدائے جوانی سے شہر میں مختلف امور انجام دیتے رہے، گھروں گھروں جاکر ضرورتوں کو سمجھنا اور حتی الامکان اس کے لیے کوشش کرنا، لوگوں کو کاروبار کرنے کے لیے سہارا دینا، سود جیسے حرام عمل سے بچانے اور لوگوں کو نقصان سے محفوظ رکھنے کے لیے سامان گروی رکھ کر قرض دینے کا سلسلہ شروع کرنا، پھر توحیدالمسلمین ٹرسٹ کی شکل میں ایک مضبوط ادارہ قائم کرکے مختلف شکلوں میں لوگوں کی مدد کرنا ایسے خدمات ہیں جنھیں برسوں یاد رکھا جائے گا۔تعلیمی میدان میں بھی ان کے عملی اقدام اظہر من الشمس ہیں ،۔
ضرورت یہی ہے کہ ان بنیادی مسائل کو سب ملکر اپنا مشن بنائیں ، اسلام کے آفاقی پیغام قوم کو ترقی یافتہ دیکھنا ، اس کے لیے علمی اور اقتصادی میدانوں میں جو کوشش کرسکتے ہیں وہ کوشش کریں ۔ بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اپنے درمیان سے جہالت اور غربت کے خاتمے کو اپنا مشن بنایا جائے ۔ اور شائد مرحوم کو صحیح خراج عقیدت یہی ہو کہ ان کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے جو بھی جتنا کرسکتا ہو وہ کرے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں