منگل، 15 دسمبر، 2020

شیطان سے دوری کا فلسفہ

 باسمہ تعالیٰ

شیطان سے دوری کا فلسفہ

سید محمد حسنین باقری


حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے خطبہ فدک میں فرمایا:

’’وَأَطْلَعَ الشيْطانُ رَأْسَهُ مِنْ مَغْرِزِهِ، هاتفاً بِكُمْ، فَأَلْفاكُمْ لِدَعْوَتِهِ مُسْتَجيبينَ، وَلِلْغِرَّةِ فِيهِ مُلاحِظِينَ. ثُمَّ اسْتَنْهَضَكُمْ فَوَجَدَكُمْ خِفافاً، وَأَحْمَشَكُمْ فَأَلْفاكَمْ غِضاباً، فَوَسَمْـتُمْ غَيْرَ اِبِلِكُمْ، وَأَوْرَدْتُمْ غَيْرَ شِرْبِكُمْ،‘‘۔(خطبہ فدک)

’’اور شیطان نے کمین گاہ سے اپنا سرباہر نکالااور تمہیں اس نے اپنی طرف دعوت دی اور تم نے بغیر سوچے سمجھے اس کی دعوت قبول کرلی اور اس کا احترام کیا تمہیں اس نے ابھارا اور تم حرکت میں آگئے اس نے تمہیں غضبناک ہونے کا حکم دیا اور تم غضبناک ہوگئے۔ لوگو! وہ اونٹ جو تم میں سے نہیں تھا تم نے اسے با علامت بناکر اس جگہ بیٹھایا جو اس کی جگہ نہیں تھی۔‘‘

شیطان ہمارا دشمن ازلی ہے اس لیے اس کے بارے میں گفتگو ، دشمن کے بارے میں گفتگو ہے جیسا کہ قرآن کہتا ہے:

’’إنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ۔۔۔‘‘(سورہ فاطر، آیت۶)،’’ بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے تو اسے دشمن سمجھو‘‘۔

ایسا دشمن ہے جس کی دشمنی آشکار اور یقینی ہے:

’’۔۔۔ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ‘‘، (یس، آیت ۶۰)

 ’’خبردار شیطان کی عبادت نہ کرنا کہ وہ تمہارا کُھلا ہوا دشمن ہے‘‘۔

اور بہکانے و منحرف کرنے کی قدرت رکھتا ہے یعنی وہ انسانوں کو راہ حق سے راہ باطل کی طرف لےجاسکتا ہے:

’’ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ ‘‘، (سورہ اعراف، ۱۶)

’’میں انھیں گمراہ کرنے کے لیے تیرے سیدھے راستہ پر بیٹھ جاؤں گا‘‘۔

لہذا متوجہ رہنا چاہیے کہ شیطان انسان کے قلب وروح کو بصیرت و آگاہی سے روک سکتا ہے۔اس وقت انسان صحیح راستہ کو نہیں دیکھ سکتا نہ حق کو پہچان سکتا ہےاور صحیح قدم نہیں اٹھا سکتا۔ اور کبھی نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ اس کی آنکھیں شیطان کی آنکھیں، اس کی زبان شیطان کی زبان اور اس کا راستہ شیطان کا راستہ ہوجاتا ہے۔لہذا خیال رکھنا چاہیے کہ جس قلب میں شیطان تخم گزاری کرے وہ قلب ہی نہیں ہے اور ایسا دل بابصیرت نہیں ہوسکتا۔

حضرت علی علیہ السلام اس سلسلے میں آگاہ فرماتے ہیں:

’’اتَّخَذُوا الشَّيْطَانَ لأَمْرِهِمْ مِلَاكاً واتَّخَذَهُمْ لَه أَشْرَاكاً فَبَاضَ وفَرَّخَ فِي صُدُورِهِمْ ودَبَّ ودَرَجَ فِي حُجُورِهِمْ - فَنَظَرَ بِأَعْيُنِهِمْ ونَطَقَ بِأَلْسِنَتِهِمْ - فَرَكِبَ بِهِمُ الزَّلَلَ وزَيَّنَ لَهُمُ الْخَطَلَ فِعْلَ مَنْ قَدْ شَرِكَه الشَّيْطَانُ فِي سُلْطَانِه ونَطَقَ بِالْبَاطِلِ عَلَى لِسَانِه!‘‘۔ (نہج البلاغہ، خطبہ نمبر۷)

’’ان لوگوں نے شیطان کو اپنے امور کا مالک و مختار بنالیا ہے اور اس نے انہیں اپناآلہ کا ر قرار دے لیا ہے اور انہیں کی سینوں میں انڈے بچے د ئیے ہیں اور وہ انہیں کی آغوش میں پلے بڑھے ہیں۔اب شیطان انہیں کی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور انہیں کی زبان سے بولتا ہے۔انہیں لغزش کی راہ پر لگا دیا ہے اوران کے لئے غلط باتوں کو آراستہ کردیا ہے جیسے کہ اس نے انہیں اپنے کاروبارمیں شریک بنالیا ہو اور اپنے حرف باطل کو انہیں کی زبان سے ظاہر کرتا ہو۔‘‘

حضرت فاطمہ علیہاالسلام کی گفتگو میں شیطان کے اعمال کی تشریح

شیطان بھی دوسرے موجودات کی طرح وابستہ اور محدود مخلوق ہے اور بندوں پر مطلق طور پر تسلط و اقتدار ہرگز حاصل نہیںکرسکتا۔ اس کا کام ابتدا میں وسوسہ سے شروع ہوتا ہےلیکن جب انسان اس کی طرف توجہ کرتا اور اس کو قبول کرتا ہے تو شیطان اس کا ہمنشین ہوجاتا اور آہستہ آہستہ اس کو اپنے اختیار میں کرلیتا ہے۔ لہذا یہ خود انسان ہی ہے جو شیطان کو اپنے اوپر مسلط ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ حضرت زہرا علیہاالسلام کی تعبیر میں شیطان کو کچھوے سے تعبیر کیا گیا ہے جو اپنے ہی خول میں گھرا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن جب ماحول کو سازگار دیکھتا ہے تو اس خول سے اپنا سر نکالتا اور سرگرمی شروع کرتا ہے ۔ اسی وجہ سے شہزادیؑ فرماتی ہیں:

 ’’شیطان نے کمین گاہ سے اپنا سرباہر نکالااور تمہیں اس نے اپنی طرف دعوت دی‘‘، ’’وَأَطْلَعَ الشيْطانُ رَأْسَهُ مِنْ مَغْرِزِهِ، هاتفاً بِكُمْ‘‘ ، اور تم نے بغیر سوچے اس کی دعوت قبول کرلی اور اس کا احترام کیا ،’’فَأَلْفاكُمْ لِدَعْوَتِهِ مُسْتَجيبينَ‘‘، تمہیں اس نے ابھارا اور تم حرکت میں آگئے اس نے تمہیں غضبناک ہونے کا حکم دیا اور تم غضبناک ہوگئے۔ ’’وَلِلْغِرَّةِ فِيهِ مُلاحِظِينَ‘‘، جب اس نے تمہارے اندر یہ آمادگی دیکھی تو اس نے تم کو ورغلانے کا ارادہ کیا’’ ثُمَّ اسْتَنْهَضَكُمْ‘‘، اس نے تمہارے قیام اور آمادگی کو دیکھا کہ آسانی سے آمادۂ حرکت ہو ’’ فَوَجَدَكُمْ خِفافاً‘‘، حق کے خلاف تم کو بھڑکایا تاکہ دیکھے کہ تم کتنی جلدی جذبات اور احساسات کا شکار ہوجاتے ہو ’’ وَأَحْمَشَكُمْ فَأَلْفاكَمْ غِضاباً‘‘، نتیجہ یہ ہوا کہ شیطان کامیاب ہوگیا اور تم بجائے اس کے کہ اپنے اونٹ پر نشان و علامت لگاتے دوسروں کے اونٹ پر علامت لگا بیٹھے ’’ فَوَسَمْـتُمْ غَيْرَ اِبِلِكُمْ‘‘، اور ایسی جگہ سے پانی پلایا جو اس کی جگہ نہیں تھی ’’ وَأَوْرَدْتُمْ غَيْرَ شِرْبِكُمْ‘‘۔ 

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی بہترین تعبیریں محسوسات سے معقولات کی طرف جانے جیسی ہیں اور انسان کے بہکنے میں شیطان کے کردار و رول کو بیان کررہی ہیں اور یہ بتا رہی ہیں کہ کس طرح شیطان انسانی مَرکب کی لگام کو اپنے اختیار میں لیتا ہے۔ زندگی میں شیطان کے کردار اور اس کی موقعیت کے سلسلے میں بے توجہی اور بے بصیرتی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کی امامت و خلافت تک غاصب افراد پہنچتے ہیں جس کو دوسرے کے اونٹ پر علامت گزاری اور دوسروں کے گھاٹ سے پانی پلانے سے تعبیر کیا ہے۔

انسان پر شیطان کے مسلط ہونے کے مراحل

شیطان، ماہر و تجربہ کار دشمن ہے جو مہارت و مسلح ہونے کے علاوہ انسان کے بارے میں دقیق و مکمل معلومات رکھتا ہے۔ انسان کی طاقت، امکانات، خواہشات اور احساسات و عواطف کو بخوبی جانتا اور اس کے قوت و ضعف اور کمزوری و طاقت سے بھی آشنا ہے۔لہذا قلب و روح میں نفوذ کے راستوں کو ٹارگیٹ کرتا اور اسی کے مطابق و مناسب آمادگی و حربے استعمال کرتا ہے۔ اس کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ انسان غلط تمنائیں کرے یا دنیا میں غافل کرنے والے کسی کام سے دل لگا بیٹھے، یا حتی خیالات میں کمزوری اور اپنی رفتار میں غفلت کا شکار ہو۔ ایسی صورتوں میں وہ بھی اپنا کام شروع کردیتا ہے اور اپنی پوری طاقت و توانائی کے ساتھ غلط تمناؤں سے فریب کے جال ، وابستگی و دل لگی سے کمین ، ضعیف خیالات سے تاریک گڈھا اور رفتار میں غفلت سے گہرا گڑھا تیار کرکے نتیجہ میں انسان پر ولایت حاصل کرلیتا ہے۔

شیطان کے نفوذ حاصل کرنے کے مراحل جو قدم بقدم وجود میں آتے ہیں، جبتک ایک قدم کامیاب نہ ہو دوسرا قدم وجود میں نہیں ہوتا۔ یہ مراحل مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ وسوسہ پیدا کرنا:

شیطان سب سے پہلے شک و تردید وجود میں لاکر انسان کے باطن میں وسوسہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ جیسا جناب آدمؑ و حوّا کے قصے میں اس طرح کہا:

 ’’جو بھی اس درخت سے کھالے کبھی نہیں مرے گا‘‘۔ ’’فَوسْوَسَ لَھُمَا الشَّیطَان‘‘۔

اور چونکہ انسان جاودانگی چاہتا ہے اس لیے وسوسہ کارساز واقع ہوا۔ پھر اس نے کہا:

’’مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَـٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ‘‘(سورہ اعراف، آیت۲۰)

’’ تمہارے پروردگار نے تمہیں اس درخت سے صرف اس لئے روکا ہے کہ تم فرشتے ہوجاؤ گے یا تم ہمیشہ رہنے والو میں سے ہوجاؤ گے‘‘

۲۔ مرحلہ دعوت:

دوسرے مرحلے میں شیطان کا کام صرف دعوت دینا ہے، وہ انسان پر کسی طرح کا تسلط و اختیار نہیں رکھتا۔ جب وسوسہ ایجاد کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تب دعوت دیتا ہے تاکہ اپنے مقصد کو عملی جامہ پہنائے۔ قرآن کہتا ہے:

’’وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّـهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ مَّا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِيَّ ۖ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ ۗ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ‘‘(سورہ ابراہیم، آیت۲۲)

’’اور شیطان تمام امور کا فیصلہ ہوجانے کے بعد کہے گا کہ اللہ نے تم سے بالکل برحق وعدہ کیا تھا اور میں نے بھی ایک وعدہ کیا تھا پھر میں نے اپنے وعدہ کی مخالفت کی اور میرا تمہارے اوپر کوئی زور بھی نہیں تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں دعوت دی اور تم نے اسے قبول کرلیا تو اب تم میری ملامت نہ کرو بلکہ اپنے نفس کی ملامت کرو کہ نہ میں تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں نہ تم میری فریاد کو پہنچ سکتے ہو میں تو پہلے ہی سے اس بات سے بیزار ہوں کہ تم نے مجھے اس کا شریک بنا دیا اور بیشک ظالمین کے لئے بہت بڑا دردناک عذاب ہے‘‘۔

جب قیامت میں انسان شیطان کو خطاکار قرار دیگا، اس کو مقصر ٹھہرائے گا تو شیطان یہ جواب دے گا جو نقل ہوا۔

۳۔ مرحلہ رفاقت:

وسوسہ و دعوت کے بعد اب نوبت آتی ہے رفاقت کی۔ اس مرحلہ میں وہ کوشش کرتا ہے کہ انسان کو خدا سے دور کرکے اپنے کو خدا کی جگہ بٹھا لے اور انسان کا صمیمی و دائمی دوست بن جائے۔ قرآن کا اعلان ہے:

’’وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَـٰنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ ‘‘(سورہ زخرف، آیت۳۶)

’’اور جو شخص بھی اللہ کے ذکر کی طرف سے اندھا ہوجائے گا ہم اس کے لئے ایک شیطان مقرر کردیں گے جو اس کا ساتھی اور ہم نشین ہوگا‘‘۔

۴۔ مرحلہ شراکت:

اس مرحلہ میں شیطان اموال و اولاد میں انسان کا شریک ہوجاتا ہے اور اپنی چالوں و مقاصد کو اس ذریعہ انسان پر مسلط کرتا ہے اور غافل انسان شیطان کی شرکت سے شیطانی کاموں کو انجام دیتا ہے:

’’وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُم بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِم بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ ۚ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا ‘‘ (سورہ بنی اسرائیل، آیت ۶۴)

’’جا جس پر بھی بس چلے اپنی آواز سے گمراہ کر اور اپنے سوار اور پیادوں سے حملہ کردے اور ان کے اموال اور اولاد میں شریک ہوجا اور ان سے خوب وعدے کر کہ شیطان سوائے دھوکہ دینے کے اور کوئی سچا وعدہ نہیں کرسکتا ہے‘‘۔

۵۔ مرحلہ امر و نہی:

دلوں سے یاد خدا ختم ہوجانے اور شیطان سے قریب ہوجانے کی وجہ سے انسان پر شیطان مسلط ہوجاتا ہے اور اس کو امر و نہی کرنا شروع کرتا ہے:

’’اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنسَاهُمْ ذِكْرَ اللَّـهِ ۚ أُولَـٰئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ ‘‘ (سورہ مجادلہ، آیت۱۹)

’’ان پر شیطان غالب آگیا ہے اور اس نے انہیں ذکر خدا سے غافل کردیا ہے آگاہ ہوجاؤ کہ یہ شیطان کا گروہ ہیں اور شیطان کا گروہ بہرحال خسارہ میں رہنے والا ہے‘‘۔

۶۔ مرحلہ ولایت:

آخری مرحلہ انسانی ہدایت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینا ہے۔ اب وہ چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا ہمیشہ شیطان کا آلۂ کار رہتا ہے اس لیے نور ہدایت سے نکل کر تاریکی و ضلالت میں سیر کرتا ہے۔ جو انسان تاریکی و ضلالت میں سفر کرتا ہے وہ بصیرت و آگاہی کے راستے کو کھو دیتا ہے: 

’’۔۔۔وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ‘‘(سورہ بقرہ، آیت ۲۵۷)

’’اور کفارکے ولی طاغوت ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں میں لے جاتے ہیں یہی لوگ جہّنمی ہیں اور وہاں ہمیشہ رہنے والے ہیں‘‘۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں