منگل، 29 دسمبر، 2020

بحث متعہ

 بحث متعہ!:
علامہ سید شرف الدین موسوی
حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ شخص جسے ذرا بھی مذہب اسلام کو سمجھنے کا موقعہ ملا ہے اور جس نے بھی دینی قوانین کے مطالعہ میں زندگی کے کچھ لمحے صرف کئے ہیں وہ اس حقیقت سے قطعاً انکار نہیں کرسکتا کہ متعہ کے معنی وہ عقد ہے جو ایک بندھے ہوئے وقت کے لئے ہو۔ 
 خود پیغمبر اکرمؐ نے اس قسم کے عقد کو رائج کیا، مباح فرمایا اور حیات رسولؐ میں بڑے بڑے صحابہ اس پر عمل پیرا ہوئے۔ نیز آنحضرتؐ کی وفات کے بعد بھی صحابۂ کرام قانون کی اس شق سے جی بھر کر متمتع ہوتے رہے۔ 
چنانچہ عبد اللہ بن عباس، جابر ابن عبد اللہ انصاری، عمر ابن الحصین ابن مسعود اور ابی ابن کعب وغیر ہم یہ تمام اعاظم و مشاہیر متعہ کے جواز کا فتویٰ دیتے تھے۔ اور آیت متعہ کو اس طرح پڑھتے تھے:فما استمعتم بہ منھن ا لیٰ اجل مسمیٰ۔(جامع البیان، طبری،ج۵،ص۹؛تفسیر ابن کثیر، ج۱،ص۴۷۴؛ تفسیر کشاف، زمخشری،ج۱،ص۵۱۹، الجامع لاحکام القرآن، قرطبی،ج۲،ص۱۴۷؛ السنن الکبری، بیہقی،ج۷،ص۲۰۵)
لیکن ہماری رائے میںیہ یقین کرنا درست نہ ہوگا کہ یہ حضرات اللہ کے کلام میں کسی نقص و تحریف کے قائل تھے ( معاذ اللہ) نہیں! بلکہ غالباً سخن شناس ہونے کی وجہ سے تفسیر کے طور پر اس جزو سے آیت کا منشاء بیان کرتے ہوں گے چونکہ عرصۂ دراز تک یہ بزرگ شمع نبوت کا طواف کرتے رہے، معارف قرآنی کو زبان رسالتؐ سے سننے اور سمجھنے کا موقع ملا لہٰذا جب لوگ ان سے دریافت کرتے ہوں گے تو اس آیت کے سلسلہ میں ختمی مرتبتؐ سے حاصل کردہ مفہوم کو ظاہر کردینے میں انہیں کوئی تامل نہ ہوتا ہوگا۔ 
 حالانکہ ابن جریر نے اپنی تفسیر کبیر میں جو روایتیں درج کی ہیں ان سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ الیٰ اجل مسمیٰ والا ٹکڑا جزو آیت ہے۔ چنانچہ موصوف ابو نضرہ کی زبانی نقل کرتے ہیں کہ میں نے اس آیت کو ابن عباس کے سامنے پڑھا تو آپ نے فرمایا : ’’ الیٰ اجلٍ مُّسمّیٰ‘‘ میں نے عرض کی کہ میں تو یوں نہیں پڑھتا ۔ اس پر ابن عباس نے تین مرتبہ فرمایا‘‘:’’ بخدا یہ آیت اسی طرح نازل ہوئی ہے‘‘(جامع البیان، طبری، ج۵ص۹)۔ لیکن یہاں بھی ہم عرض کریں گے کہ رئیس ملت حضرت ابن عباس کا مقام ان نقائص سے بہت بلند ہے۔ یہ روایت اگر صحیح ہے تو غالباً رسولؐ کے اس جلیل القدر صحابی کا مقصود یہ ہوگا کہ پروردگار عالم نے اس کی تفسیر یوں نازل فرمائی ہے۔ 
بہر حال اجماع و یقین متعہ کی صحت و مشروعیت کا بین ثبوت ہیں۔ اب رہا مخالف نظریہ رکھنےو الوں کا ادّعا تو اس میں وزن ہی کیا ۔ کیونکہ وہ فرماتے ہیں کہ یہ قانون نافذ ہوکر منسوخ ہوگیا۔ حالانکہ نقل کے طریقے میں جو اختلافات نمایاں ہیں وہ قطع و یقین تو درکنار ظن و تخمین کے لئے بھی ناکافی ہیں۔ دیکھئے بنیادی قاعدہ یہ ہے کہ حکم قطعی کی تنسیخ کے لئے دلیل قطعی کا ہونا ضروری ہے۔ اور ان حضرات کا ارشاد ہے کہ تنسیخ سنت کے طریقہ سے عمل میں آئی۔ سرکار رسالتؐ نے مباح فرما کر حرام قرار دے دیا(۱)۔ بعض فرماتے ہیں کہ نہیں کتاب خدا کے ذریعہ حرمت کے پہرے بیٹھ گئے۔ نیز اس منزل پر بھی اتحاد فکر عنقا ہے۔ کیونکہ ایک گروہ آیت طلاق(۲) کو ناسخ سمجھتا ہے(۳) اور دوسرا  آیۂ مواریث(۴)کو(۵) اب ان پریشان خیالیوں کی جو قیمت ہوسکتی ہے وہ ظاہر ہے۔ بنا بر ایں یہاں مزید خامہ فرسائی کی ضرورت نہیں۔ آگے چل کر قدرے توضیح کی جائے گی۔ 
ہاں۔ اور اکثر بزرگ اس آیت سے سے  متعہ پر خط نسخ پھیرتے ہیں(۶):
 ( الاعلیٰ ازواجھم او ما ملکت ایمانھم) (سورہ مومنون،۶؛ معارج۳۰)آیت میں حلیت کے دو سبب بتائے گئے ہیں:
(۱) زوجیت۔  (۲) ملکیت(ملک یمین)
چنانچہ اس موقع پر سیدآلوسی ترمیم فرماتے ہیںکہ ’’ شیعہ حضرات ممتوعہ کو مملوکہ ( کنیز) قرار نہیںدے سکتے۔ یہ تو ایک کھلی ہوئی بات ہے۔ اور زوجہ کہہ نہیں سکتے کیونکہ اس میں زوجیت کے شرائط یعنی میراث ، عدہ اور نفقہ و طلاق کا فقدان ہے‘‘۔(روح المعانی،ج۵،ص۷)
  غور فرمائیے ! دلیل میںکتنا زبردست مغالطہ ہے۔ اب ذرا تجزیہ کیجئے پہلی چیز میراث۔ اگر زوجیت کے لئے اس شرط کو عمومی انداز میں پیش کیا گیا ہے یعنی اکثر ایساہوتا ہے کہ زوجہ ورثہ پاتی ہے تب تو ٹھیک ہے۔ لیکن غالباً سید صاحب کا یہ منشاء نہیں اور اگر یہ مراد ہےکہ میراث شرط لازم و دائم ہے یعنی بہر صورت ورثہ ملنا چاہئے تو یہ قطعی طور پر خلاف آئین ہے۔ کیونکہ شریعت میں اکثر ایسے مواقع آتے ہیں جہاںمیراث ختم ہوجاتی ہے مثلاً زوجہ کا فرہ اور قاتلہ کو ورثہ نہیںملتا۔ نیز ایسی عورت جو کسی مریض کے عقد میں چلی جائے اوردخول سے پہلے اس کے شوہر کا انتقال ہوجائے تو وہ بھی محروم ہوجاتی ہے۔ نیز بر خلاف اس کے اگر کوئی شخص بیماری کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دے اور اسی مرض کے عالم میں اس کا انتقال ہوجائے تو عدہ کی مدت گزارنےکے باوجود دوران سال میںمطلقہ ورثہ کی حقدار ہوگی۔ غرضیکہ دونوں رخ سامنے ہیں اور صاف ظاہر ہے کہ ارث کو لازمۂ زوجیت نہیں قرار دیا جاسکتا۔ 
رہا عدت کا لزوم تو امامیہ مذہب میں بالاتفاق ثابت ہے بلکہ جو بھی مشروعیت متعہ کا قائل ہے وہ عدت کو واجب قرار دیتا ہے۔ تیسری چیز نفقہ ہے، اسے بھی شرط زوجیت نہیں بنایا جاسکتا۔ اطمینان کے لئے ’’ زن ناشزہ‘‘ کے احکام کو دیکھ  لیجئے کہ وہ زوجیت میں تو ہوتی ہے مگر بالاتفاق اس کے نفقہ کو کوئی واجب نہیںسمجھتا ۔ باقی، طلاق کا معاملہ، تو اس سلسلہ میںمدت کا بخش دینا کافی ہے۔ 
دوسری بات یہ کہ ازواج کی اہمیت سے متعہ کی منسوخی محال ہے۔ کیونکہ آیت متعہ سورۂ نساء میں ہے جو مدنی(۷) ہے اور آیۂ ازواج سورۂ مومنین و معارج میں ہے اور یہ دونوں مکی ہیں(۸)۔ بنا بر یں نسخ ثابت ہی نہیںہوسکتا ۔ کیونکہ منسوخ پر ناسخ کا تقدم غیر ممکن ہے۔ 
 تیسرے یہ کہ اکابر اہل سنت بیان فرماتے ہیں کہ آیت متعہ منسوخ نہیںہوئی ملاحظہ ہو ’’ کشاف‘‘ زمخشری ابن عباس سے نقل کرتے ہیںکہ متعہ کی آیت محکمات میں سے ہے(الکشاف، ۱؍۵۱۹)۔ دوسروں نے روایت کی ہے کہ حکم ابن عتیہ سے دریافت کیا گیا کہ آیت متعہ کیا منسوخ ہوگئی ہے ؟ جواب ملا: نہیں(الدرالمنثور،سیوطی، ج۲،ص۱۴۰)۔
غرض کہ پہلے تو جمہور اسلام نے اس کی مشروعیت کا اعتراف کیا ۔ لیکن بعد میں منسوخ ہونے کے دعوے کرنے لگے اور رطریق نسخ میںجو قیاس آرائیاں فرمائی ہیں وہ بھی قابل دید دشنید ہیں۔ کبھی تو آیت کو آیت کے ذریعہ منسوخ فرمانےکی کوششیں ہوئیں ( ضعف دلیل کی جانب اشارہ کیاجاچکا ہے) گاہے آیت کو حدیث سے ختم کرنے کی سعی فرمائی گئی۔ اس ضمن میں صحیح بخاری و مسلم کی اس روایت سے استشہاد کیا جاتا ہے کہ فتح مکہ ، فتح خیبر ، یاغزوۂ اوطاس(صحیح بخاری ۷؍۱۶؛ صحیح مسلم ۲؍۱۰۲۳؍۱۸ و ۱۰۲۷؍۲۹،۳۰۔ اس کی جانب اشارہ گزرچکا ہے۔) میںآنحضرتؐ نے اسے ممنوع قرار دے دیا تھا اور یہی وہ مقام ہے جہاںیہ معاملہ آماجگاہ اختلاف بنتا ہے۔ نہ جانے کتنے رنگ چڑھتے ہیں اور کیا کیا پینترے بدلے جاتے ہیں۔ 
 چنانچہ قاضی عیاض کی زبانی بیان کیاجاتا ہے ’’ بعض علماء کا ارشاد ہے، کہ نکاح متعہ دو دفعہ حرام، مباح اور منسوخ ہوا(شرح صحیح مسلم، نووی۹؍۱۸۱؛ التفسیر العظیم، ابن کثیر ۱؍۴۷۴ )۔ لیکن آنکھ بھر کر دیکھنے والے جانتے ہیں کہ ان حضرات نے اپنی علمی دنیا میں کیا کیا گل کھلائے ہیں۔ 
 بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ حجۃ الوداع ۱۰ھ؁ میں منسوخ کیا گیا(۹) ۔ دوسرے مصنفات سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہیں۔ غزوہ تبوک ۹ھ؁ میں تنسیخ ہوئی(۱۰)۔ کچھ قلم کاروں نے غزوہ اوطاس اور غزوہ حنین شوال ۸ھ؁ کا حوالہ دیا ہے(صحیح مسلم۲؍۱۰۲۳)۔ مگر ایک اور گرو ہ فتح مکہ رمضان ۸ھ؁ کا واقعہ بتاتا ہے(۱۱)۔ 
 نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آنحضرتؐ نے فتح مکہ کے موقع پر جائز قرار دیاتھا اور پھر چنددن کے بعد وہیں اس کی حرمت کا حکم صادر فرمادیا(۱۲)۔ البتہ شہرت اور غالب رائے یہ ہےکہ متعہ کی تنسیخ غزوہ خیبر ۷ھ؁یا عمرۃ القضاء ذی الحجہ  ۷ھ؁ میں عمل میں آئی۔(سنن ابن ماجہ ۱؍۶۳۰؍۱۹۶۱؛ صحیح مسلم ۲؍۱۰۲۷)
بہر کیف اس محشر خیال سے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دو یا تین دفعہ نہیں ( جیسا کہ نووی شارح مسلم  وغیرہ نے ترقیم فرمایا ہے ) بلکہ پانچ چھ مرتبہ حرام حلال ہوتا رہا۔۔۔۔(شرح صحیح مسلم نووی ۹؍۱۸۰) کیوں؟ علمائے اسلام ! بازی بازی با دین خدا ہم بازی؟ یہ کیا اندھیر ہے؟ سچ کہنا اس درجہ فکری انتشار کے ہوتے ہوئے تمہارے ادعائے نسخ میںکوئی جان باقی رہ جاتی ہے؟
 یہ ناقابل انکار حقائق ہیں کہ :۱: ۔ قرآنی احکام اخبار آحاد سے منسوخ نہیںہوسکتے۔ 
۲:۔ نسخ کی دلیلیں خود سوا د اعظم کی روایات عدم نسخ سے متصادم ہوتی ہیں۔ 
۳:۔ صحیح بخاری کی روایت: ابو رجاء عمران بن حصین سے ناقل ہیںکہ آیۂ متعہ قرآن میں موجود ہے۔ رسولؐ کے ہوتے ہوئے ہم نے اس پر عمل کیا ۔ 
 پھر نہ قرآن نے اس کی حرمت کا حکم دیا اور نہ آخر وقت تک آنحضرتﷺ نے ممانعت فرمائی۔ ہاں! ایک شخص نے من مانی کی جو چاہا کہہ دیا۔ محمد کا قول ہےکہ اس حرکت کو حضرت عمر کی جانب منسوب کیا گیا ہے‘‘(۱۳)۔
 نیز صحیح مسلم میں عطا کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’ ایک مرتبہ جابر ابن عبد اللہ انصاری عمرہ بجالانےکےلئے آئے تو ہم سب ان کی قیام گاہ پر پہنچ گئے لوگوں نے ان سے مختلف مسائل پوچھے ۔ چنانچہ متعہ کے متعلق بھی دریافت کیا ۔ جابر نے کہا ۔ ہاں ۔ عہد رسالت میں ہم نےمتعہ کیا اور ابو بکر و عمر کے زمانے میں بھی ‘‘۔(صحیح مسلم۲؍۱۰۲۳؍۱۵)
مسلم کی ایک اور روایت ہے اور حضرت جابر ہی کی زبانی ، فرماتے ہیں: دور نبوی میں تو ہم ایک مٹھی کھجور اور مٹھی بھرستّو دے کر متعہ کرلیا کرتے تھے۔ اور یہی طریقہ ابوبکر کے زمانے میں بھی جاری رہا پھر عمر نے عمرو بن حریث کے سلسلے میں اس سے منع کیا۔(صحیح مسلم۲؍۱۰۲۳؍۱۶)
علاوہ ازیں صحیح مسلم کے اوراق میںیہ بھی موجود ہے ۔’’ ابو نضرہ بیان کرتےہیںکہ میں جابر ابن عبد اللہ انصاری کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں ایک اور آدمی آگیا اور آتے ہی کہنے لگا۔ دونوں متعوں کے بارےمیں تو ابن عباس اور ابن زبیر کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا ہے؟ جابر نے فرمایا ۔ رسالت مآبؐ کی موجودگی میں تو ہم ان پر عمل پیرا تھے۔ لیکن بعد میںعمر نے دونوں متعوں سے ممانعت کردی۔ اس لئے پھر نہ کرسکے۔(صحیح مسلم۲؍۱۰۲۳؍۱۷) 
جی ہاں! اس لئے پھر نہ کرسکے کہ حضرت عمر متعہ کرنےوالوں کو سنگسار کروا دیتے تھے۔ 
واقعہ یہ کہ صحیح مسلم کے اس حصہ کو اگر غور سے دیکھا جائے تو تضاد بیانی کے ایسےایسے عجوبے نظر آتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ادھر مثبت حدیثیں ادھر منفی روایتیں ۔یہاں نسخ کے دعوے وہاں عدم نسخ کے ثبوت اور سنیے ۔ جہنی فرماتے ہیںکہ فتح مکہ کے موقع پر خود آنحضرتؐ نے ہمیںمتعہ کا حکم دیا تھا۔ لیکن ہم وہاں سے نکلنے بھی نہ پائے تھےکہ سرکار رسالت مآبؐ نے اس کی ممانعت فرمادی‘‘۔(صحیح مسلم۲؍۱۰۲۳؍۲۲)
 تنسیخ کی نسبت کبھی پیغمبر اکرمؐ کی طرف گاہ حضرت عمر کی جانب ۔ مزید بر ایں عہد نبوی اور پہلی خلافت کے زمانےمیں رائج تھا۔ اور یہ بھی کہ یہ حضرت علی علیہ السلام نے متعدد مواقع پر جناب ابن عباس کو متعہ کے بارےمیں گفتگو کرنےسے منع فرمایا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں انہوں نے اپنی رائے بدل دی۔ (المصنف، عبدالرزاق ۷؍۵۰۱؛ الکشاف، زمخشری۱؍۵۱۹)
 مگر اس کے ساتھ یہ روایت بھی ملتی ہے کہ ابن زبیر نے ایک مرتبہ مکہ میں اٹھ کر فرمایا تھا ’’ کچھ ایسے لوگ بھی ہیںکہ خداوند عالم نے جس طرح ان کی  بصارت چھینی اسی طرح ان کی بصیرت بھی سلب کرلی۔ وہ متعہ کا فتویٰ دیتے پھرتے ہیں۔ ‘‘۔ ( یہ اشارہ ابن عباس کی طرف تھا جو نا بینا ہوگئے تھے) اس پر ابن عباس نے آواز لگائی کیوں۔۔۔’’ قسم کھا کر کہتا ہوں کہ متعہ امام المتقین کے زمانے تک رائج تھا‘‘(۱۴)۔ اس سے صاف ظاہر ہےکہ عبد اللہ ابن عباس نے کبھی بھی اپنی رائے نہیں بدلی بلکہ وہ زندگی بھر تا دور خلافت ابن زبیر اپنے فتوے پر قائم رہے۔ 
 اور سب سےز یادہ پر لطف بات تو یہ ہےکہ امتناعی حکم کو جناب امیر علیہ السلام سے بھی منسوب کیا گیا ہے۔ حالانکہ عقد متعہ کو جائز قرار دینا اہل بیت علیہم السلام کا امتیازی مسلک ہے۔ پھر خصوصیت سے اس ضمن میں امیر المومنینؑ کا یہ ارشاد کہ’’لولا انّ عمر نھی الناس عن المتعۃ ما زنی الاشقی او شفا‘‘(معنی کے لئے دیکھئے: الصحاح ۶؍۲۳۹۳؛ لسان العرب ۱۴؍۴۳۷۔)۔ ’’ اگر عمر نےمتعہ کو ممنوع نہ کیا ہوتا تو بس گنتی کے ( یا گئے گزرے) کچھ لوگ زنا کے مرتکب ہوتے‘‘، ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے طبری نے اپنی تفسیر میں بھی اس روایت کو نقل کیا ہے(۱۵) اس سلسلہ میں باوثوق ذرائع سے امام جعفر صادق علیہ السلام کا یہ قول ملتا ہے کہ ’’ثلاث لا اتقی فیھن احدا: متعۃالحج و متعۃالنساء و المسح علی الخفین‘‘(۱۶)’’ تین مسئلوں میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔ متعۃ الحج، متعۃ النساء اور مسح بر کفش۔
بہرطور فنی قاعدوں اور اصول فقہ کے مقرر ضوابط کی رو سے یہ طے شدہ بات ہےکہ ادھر روایتوں میں تضاد پیدا ہوا اور ادھر وہ درجہ اعتبار سے ساقط ہوئیں۔ کیونکہ مشکوک روایتیں قابل انکار اور ان کےمقابلے میں محکم حدیثیں لائق عمل ہوتی ہیں۔ 
 نیز جبکہ علمائے اسلام کے متفقہ فیصلے اور فقہی تکنیک کےمطابق متعہ کی مشروعیت اور اس کا جواز ثابت ہوچکا ہے ۔ تو آج بھی اس کی اباحت کاا قرار کرنا پڑے گا۔ 
مسئلہ کا واحد حل!:
اب اگر ہم حقائق کی روشنی میں جائزہ لیں ۔ معاملہ کی پوری چھان بین کریں اور اس کی تمام کڑیوں کو ملا کر صحیح نتیجہ نکالنا چاہیں تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ حضرت عمر نے اپنےد ور حکومت میں کسی خاص مصلحت کے پیش نظر اپنی رائے سے متعہ کو ممنوع قرار دے دیا تھا۔ لیکن یہ ممانعت قطعی طور پر سماجی حالات اور وقتی تقاضوں پر مبنی تھی ۔ دین و مذہب کا اس سے کوئی سرورکار ممکن نہیں۔ چنانچہ تواتر کے ساتھ آپ کا یہ قول نقل ہوتا چلا آرہا ہے کہ’’متعتان کانتا علی عھد رسول اللہ أنا أحرمھما و أعاقب علیھما‘‘(دیکھئے: السنن الکبریٰ، بیہقی۷؍۲۰۶؛ زادالمعاد، ابن قیم جوزی۳؍۴۶۳؛ المبسوط، سرخسی ۴؍۲۷۔) ’’ رسول کے زمانےمیں دو متعہ جائز تھےمگر میں انہیں حرام قرار دیتا ہوں اور خلاف ورزی پر سزا دوں گا‘‘۔
 یہاں غور طلب چیز یہ ہے کہ خلیفۂ ثانی نے حرمت یا تنسیخ کے حکم کو سرکار رسالتؐ کی جانب نہیںمنسوب کیا۔ بلکہ خود اپنی ذات کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ نیز سزا کا تعلق بھی اپنے ہی سے رکھا ۔ خدا سے کوئی واسطہ نہیں ۔ یہی اس مسئلہ کا واحد حل ہے۔ ورنہ پھر ان خطوط پر سوچنا پڑے گا کہ حضرت عمر جیسی شخصیت اور دین الٰہی میں بے محابانہ کتربیونت ! لیکن مسلمانوں کی تاریخ میں آپ کے مقام کو دیکھتے ہوئے اس انداز فکر کا اختیار کرنا کس قدر مشکل ہے۔ 
 کیا حضرت عمر یہ نہیں جانتے تھے کہ حضرت محمدؐ کا حلال قیامت تک حلال، اور حضور ؐنے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے وہ تا حشر حرام رہیں گی۔ 
 خداوند عالم خود اپنے حبیب ؐ سے فرماتا ہے کہ : ’’وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ﴿٤٤﴾ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ﴿٤٥﴾ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ﴿٤٦﴾ فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ ﴿٤٧﴾‘‘( سورہ حاقہ ۴۴۔۴۷)
’’اگر رسولؐ ہمارے متعلق کچھ باتیں گھڑ لیتا تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے اور پھر گلا کاٹے بغیر نہ چھوڑتے اور پھر یہ بھی ممکن نہیں تھا ، کہ تم میں سے کوئی آکر بچا لیتا ‘‘
بہر طور بہتر یہی تھا کہ حضرت عمر کے امتناعی حکم کو مذہبی حیثیت دینےکے بجائے اسے سیاسی یا سماجی قدغن قرر دیا جاتا۔ مگر کیا کہا جائے کہ آپ کے بعض معاصرین نیز بعد کے کچھ سادہ لوح محدثوں نے اس باریک نکتہ پر غور نہیں کیا اور فرط عقیدت میں اپنے قائد کے اقدام کو صحیح ثابت کرنےکےلئے نسخ کی دلیل تراشی اور اسے آنحضرتؐ کی جانب منسوب کردیا۔ نتیجتاً ان کے دبستانِ فکر میں وہ خلفشار پیدا ہوا کہ پناہ بخدا!
فی الواقع یہ حضرات اگر وہ موقف اختیار کرتےجس کی ہم نےنشاندہی کی ہے تو اتنی الجھنوں میں نہ پڑتے۔ 
صحیح مسلم کے حوالے سے جابر ابن عبد اللہ انصاری کی روایت کاتذکرہ کیا جاچکا ہے ، کہ ’’ دور نبویؐ اور عہد ابوبکر میں تو ہم ایک مٹھی کھجور اور مٹھی بھر ستو دے کر متعہ کرلیا کرتےتھے۔ لیکن عمر و بن حریث کے سلسلہ میں عمر نے ممانعت کردی‘‘(اکمال المعلم شرح مسلم،وشتانی آبی)۔ یہ بڑا واضح ثبوت ہے کہ ایک خاص واقعہ کے سلسلہ میں حضرت عمر نے اپنی ذاتی ناپسندیدگی کے باعث اسے ممنوع قرار دے دیا تھا۔اور ممکن ہے کہ کوئی اس سے بھی زیادہ ناگوار معاملہ پیش ہوا اور آپ نےاپنی تیز مزاجی سے مجبور ہوکر ممانعت کا عام حکم صادر کردیا ہو۔ 
 ورنہ متعہ کے سلسلہ میں نص قرآنی، سنت رسولؐ عمل صحابہ نیز حضرت ابو بکر کے زمانہ کا تعامل اور خود حضرت عمر کے آغاز خلافت تک متعہ کا رواج یہ سب ایسے حقائق ہیں جو بحث و تمحیص سے بالاتر ہیں۔ تاریخ و حدیث کی کتابیں شاہد ہیں کہ عہد رسالت میںبڑے بڑے صحابی اور خاندان قریش کے مشہور افراد دھڑلے سے متعہ کیا کرتے تھے اور اس قسم کے عقد سے ان کی نسل چلی بڑھی ، اورپروان چڑھی۔ 
 چنانچہ سواد اعظم کے معتبر و مستند عالم راغب اصفہانی اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’ المحاضرات‘‘ میں ترقیم فرماتے ہیںکہ متعہ کو حلال کہنے کے سلسلہ میں ایک مرتبہ عبد اللہ ابن زبیر نے جناب عبد الہ ابن عباس کو طعنہ دیا ۔ اس پر ابن عباس نے فرمایا : ’’ اچھا ذرا  اپنی والدہ سے تو پوچھو کہ ان میں اور تمہارے والد بزرگوار میں جو برابر کی آگ لگی ہوئی تھی ‘‘ خیریت سے وہ لگی کیسے؟ عبد اللہ ابن زبیر نے جاکر ماں سے پوچھا بتائیے کہ کیا قصہ ہے؟ انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ ’’ بیٹا! تم متعہ سے پیدا ہوئے ہو‘‘۔ (محاضرات الادباء۳؍۲۱۴۔)
 آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ عبد اللہ کی والدہ جناب اسماء ذات النطاقین حضرت ابو بکر صدیق کی صاحب زادی اور ام المومنین جناب عائشہ کی بہن تھیں جنہیں صحابیٔ رسولؐ زبیر ابن العوام نےمتعہ کے ذریعہ اپنی جیون ساتھی بنایا تھا۔ 
انکار کرنے والے دیکھئے اب کیا فرماتے ہیں؟
 اس واقعہ کے بعد راغب اصفہانی نے ایک اور روایت لکھی ہے اور وہ یہ کہ بصرہ کے کسی بزرگ نے یحییٰ ابن اکثم سے دریافت کیا کہ جو از متعہ کے سلسلہ میں جناب کس کی پیروی فرماتے ہیں:؟ یحییٰ نے جواب دیا۔ عمر ابن خطاب کی ! سائل نے کہا ، یہ کیسے! وہ تو اس معاملہ میں بڑے ہی سخت گیر تھے۔ یحییٰ نے کہا ۔ ہاں! مگر یہ ثابت ہوچکا ہے کہ حضرت عمر نے ایک دفعہ برسرِ منبر اعلان فرمایا تھا کہ’’یا ایھاالناس، متعتان أحلھما اللہ و رسولہ لکم و أنا أحرمھما علیکم و أعاقب علیہما، فقبلنا شھادتہ و لم نقبل تحریمہ‘‘(محاضرات الادباء ۳؍۲۱۴) ’’ لوگو! اللہ اور اس کے رسولؐ نے دو متعہ حلال کئے تھے ، مگر میں انہیںحرام قرار دیتا ہوں۔ نیز خلاف ورزی کرنے والوں کو سزادوں گا‘‘۔ لہٰذا ہم ان کی گواہی کو تو قابل قبول سمجھتے ہیںلیکن موصوف کا حکم ہمارے نزدیک لائق تعمیل نہیں ‘‘۔
 عبد اللہ ابن عمر کے بیان کا بھی تقریباً یہی مفہوم ہے(سنن ترمذی ۳؍۱۸۵؍۸۲۴)۔ البتہ اس ضمن میں خلیفہ ثانی کا جو جملہ شہرت عام رکھتا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں : ’’ متعتان کانتا علیٰ عھد رسول اللہ وانا احرمھما‘‘’’عہد رسالت میںدو متعہ تھے اور میں انہیںحرام کرتا ہوں‘‘
یہاں مکرر عرض ہےکہ اگر حضرت عمر کی ممانعت اسی قسم کی تھی جس پر ہم روشنی ڈال چکے ہیں۔ تب تو معاملہ قدرے آسان ہے ورنہ سخت مشکل ۔ 
اس منزل پر ہمیں پانچویں صدی ہجری کے محقق کامل محمد ابن ادریس حلیؒ کا بھی ایک شہ پارہ یاد آگیا جسے مطابقت اور توضیح مزید کے خیال سے نقل کیا جاتا ہے علامہ ممدوح جنہیں ہمارے علمائے متقدمین میں بہت بڑا درجہ حاصل ہے اپنی بلند پایہ تصنیف ’’ السرائر‘‘ میں ارشا د فرماتے ہیں:
 ’’ نکاح موقت شریعت اسلامی میں جائز ہے۔ اور کتاب خدا، نیز مسلمانوں کے مسلسل اتفاق سے از روئے سنت بھی اس کی مشروعیت ثابت ہے۔ البتہ کچھ لوگوں نے منسوخ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ مگر اس کی درستی محتاج دلیل ہے۔ علاوہ ازیں صحیح دلائل سے یہ بات تسلیم کی جاچکی ہے کہ ہر سود مند کام جس سے حال و استقبال میں کسی نقصان کا اندیشہ نہ ہو، وہ عقلی طور پر مباح ہے اور نکاح متعہ میں یہ وصف موجود ہے۔ بنا بریں عقلاً اس کےجواز کا اقرارضروری ہے اب اگر کوئی صاحب فرمائیں کہ مستقبل میں اس کے ضرر رساں نہ ہونےکی کیا دلیل ہے۔۔ جبکہ اس بارے میں مخالف آرا بھی موجود ہیں۔ تو اس کا جواب یہ کہ بار ثبوت اس پر ہے جو امکان ضرر کا مدعی ہے علاوہ ازیں مسلمانوں کا اجماع بھی اس کا واضح ثبوت ہے اور یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں کہ عقد متعہ آنحضرتؐ کے زمانے میں مباح تھا۔ مگر بعد میں حرمت و تنسیخ کے دعوے ہونے لگےجو ثابت نہیںکئے جاسکے۔ اور اباحت متفقہ طور پر ناقابل انکار لہٰذا مدعیان نسخ و تحریم کی جانب سے کوئی تسلی بخش جواب ملنا چاہئے ۔ اب اگر وہ ان روایات کو دہراتے ہیں جن میں حکم امتناعی پیغمبر اکرمﷺ کی جانب منسوب ہے۔ تو پھر انہیںیہ سننا پڑے گا کہ اس قماش کی تمام حدیثیں ( بشرطیکہ صحیح بھی ہوں ) اخبار آحاد ہیں جو شریعت کی دنیا میں علم و عمل کا موجب نہیں قرار پاسکتیں اور نہ ایسی روایتوں کی بنیاد پر حقائق ثابتہ سے روگردانی جائز ہے۔ 
 محرمات کے تذکرے کے بعد خداوند عالم اپنی کتاب اقدس میں ارشار فرماتا ہےکہ :وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ ۔(ان عورتوں کےعلاوہ دوسری عورتیں تمہارے لئے جائز ہیں مگر شرط یہ کہ بدکاری نہیں بلکہ عفت اخلاق کی غرض سے زر مہردے کر نکاح کرنا چاہو۔ ہاں جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہو انہیں معینہ مہر ادا کر دو اور مہرکے بارےمیں اگر آپس میں مفاہمت کر لو تو کوئی حرج نہیں ( سورہ نساء،۲۴))
آیۂ وافی ھدایۃ میں بحث طلب لفظ’’ استمتعتم ‘‘ہے جس کے بس دو معنی ہیں: ( ۱) انتفاع (۲) التذاذ۔ دوسرامفہوم لغوی ہے اور پہلا اصطلاحی جس سے مراد وہ موقت اور مخصوص عقد ہے جو مقصود شرع ہے۔ 
اب یہاں لغو ی مفہوم تو قابل اعتناء ہونے سے رہا۔ کیونکہ اصول فقہ کےمطابق مسلمہ قاعدہ یہ ہے کہ اگر قرآن کے کسی لفظ سے دو مطلب نکلتے ہوں ایک لغوی اور دوسرا  وہ جسے شریعت نے رائج کیا ہو تو ایسی صورت میںلغت پر اعتبار نہیں کیا جائے گا ۔ شریعت کی بات ماننا پڑے گی اور یہی وجہ ہے کہ لفظ صلوٰۃ ، زکوٰۃ ، صیام اور حج کے سلسلہ میں کسی فرہنگ پر نہیں بلکہ عرف شرع پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ 
نیز اس سے پہلےصراحت ہوچکی ہے کہ صحابہ و تابعین کا ایک مشہور و معروف گروہ اباحت متعہ کا قائل تھا۔ جیسےامیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ ، عبد اللہ ابن عباس جو اس موضوع پر ابن زبیر سے مناظرے فرماتے رہے۔ اور ان مناظروں کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ نہ صرف زباں زد عام ہوئے بلکہ اس زمانے کے شعراء نے بھی طبع آزمائی کی چنانچہ ایک سخنور کہتا ہے :
اقول للشیخ لما طال مجلسہ یا شیخ ھل لک فی فتویٰ ابن عباس
نیز عبد اللہ ابن مسعود، مجاہد، عطا، جابر ابن عبد اللہ انصاری ، سلمہ ابن الاکوع ، ابو سعید خدری، مغیرہ ابن شعبہ، سعید ابن جبیر اور ابن جریح وغیرہم یہ سب کے سب جواز کا فتویٰ دیتے تھے۔ لہٰذا عقد منقطع کے خلاف جانے والوں کا ادعاء صحیح نہیں ہے۔ (السرائر ۲؍۶۱۸۔۶۲۰)
 ارباب بصیر ت ہی اندازہ لاسکتے ہیںکہ اس  بحث میںکتنی متانت پختگی ، اور قوت پائی جاتی ہے۔ خیر! یہاں تک تو اس موضوع پر صرف دینی اور تاریخی حیثیت سے روشنی ڈالی گئی۔ اب آئیے ذرا اخلاقی اور اجتماعی نقطہ نظر سے بھی جائزہ لیتے چلیں: 
 اسلام دنیا کےلئے بہت بڑی نعمت ثابت ہوا۔ توحید کے رسیلے نغمے امرت بن کر برسے جن سے غم نصیب انسانیت کو بے پایاں سکون حاصل ہوا جس طرح یہ مانی ہوئی بات ہے اسی طرح اس حقیقت کا اعتراف بھی لازم ہے کہ دین مبین ہر زمانے کا ساتھ دیتا ہے۔ ہر وقت کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ نیز عالم بشری کی جملہ ضروریات دنیوی و اخروی کا کفیل اور ہرگونہ فلاح و بہبود کا ضامن ہے۔ آئین رحمت میں زحمت کا سوال ہی نہیں۔ آنکھوں سکھ کلیجے ٹھنڈک ۔ ایک دنیا کیا تمام عالموں کےلئے برکت۔ اسی لئے تو یہ کامل ترین مذہب اور آخر شریعت بننے کا حقدار ٹھہرا۔ کون نہیں جانتا کہ قانون الٰہی نے انسانی معاشرہ کو ایسا سنوارا کہ کسی اور دستور کی حاجت نہ رہی۔ 
اتنا جاننےکے بعد اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا افراد انسانی کو کبھی سفر کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ نفی میں جواب ممکن نہیں کیونکہ مشاہدہ بتلاتا ہے کہ لوگ عموماً سفر کرتے ہیں بلکہ غائر نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ جب سے انسان نے ہوش سنبھالا اور اپنے شعور سے کام لینا شروع کیا ۔ اس وقت سے اس نے اپنی معاش کےلئے جو وسیلے اختیار کئے ان میں سفر کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ مختلف ضرورتیں آدمی کو راہ غربت طے کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ مثلاً تجارت ، ملازمت ، تحصیل علم، یا جنگ اور دفاع وغیرہ اور یہ بھی مسلم ہے کہ مذکورہ اغراض کے سلسلہ میں نوجوان یا کم از کم توانا افراد ہی دور دراز ملکوں کا عزم کرسکتےہیں۔ 
اور کسے نہیںمعلوم کہ اس حکیم مطلق نے بقائے نسل و حفظ نوع کےلئے ہیکل انسانی میںجنسی خواہش بھی ودیعت فرمائی ہے۔ اور یہ بھی ظاہرہے کہ ایک مسافر آدمی عقد دائم کے تقاضے پورے کرنےسے قاصر ہوتا ہے۔ نیز لونڈیوں، باندیوں کی فراہمی بھی آسان نہیں۔ ( آج کل تو ناممکن ہے ) لہٰذا ان حالات میں اس مدت کے بچھڑے ہوئے پردیسی کو کیاکرنا چاہئے جو اتفاق سے نو عمر بھی ہو اور مجبور بھی ؟ بس دو ہی صورتیں ممکن ہیں: ضبط نفس یا بدکاری۔ 
۱:۔ مگر ضبط نفس میں نہ صرف مہلک قسم کی مختلف بیماریاں پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے بلکہ نسل کا منقطع ہوجانا بھی کچھ بعید نہیں۔ا ور یہ منافی حکمت ہے۔ شریعت اسلامی بڑی آسان اور آرام دہ شریعت ہے۔ 
سہولت چاہئے ہے شدت نہیں مقصود(۱۷) دین میں کسی پہلو تکلیف نہیں(۱۸) (قرآن)
۲: جنسی بے راہ روی سے خدا محفوظ رکھے آج دنیا کے بیشتر حصے اس کا خمیازہ بھگت رہےہیں۔ 
 خداگواہ ہے اگر مسلمان صحیح طریقہ سے شرعی قوانین پر عامل پیرا ہوجائیں تو حسب وعدہ خداوندی یہ کائنات ان کےلئے سراپا رحمت بن جائے۔ اور اچھے دن پھرواپس آجائیں۔ 
 متعہ بھی دین اسلام کا ایک سود مند قانون ہے۔ اگر مسلمان اس کے شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے یعنی عقد عدہ اور محافظت نسل پر نظر رکھ کر عمل پیرا ہوتے تو بڑی حد تک بدکاریوں کا انسداد ہوجاتا۔ عزتیں محفوظ رہتیں۔ حلال نسلیں بڑھتیںدنیا ناجائز بچوں سے نجات پاتی اور اخلاقی قدروں کو فروغ حاصل ہوتا۔ ’’لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ‘‘، (اعراف ۹۶)
 رئیس ملت حضرت عبد اللہ ابن عباس کے اس جاودانی قول کی تعریف نہیں ہوسکتی ۔ فرماتے ہیں ’’ متعہ ایک رحمت تھا جس سے خداوند عالم نے امت محمدیہ کو نوازا تھا،ا ور اگر اس سے منع نہ کیاجاتا تو سوائے گئے گزرے لوگوںکے اور کوئی زنا کا مرتکب نہ ہوتا‘‘۔ ( ملاحظہ ہو نہایہ ابن اثیر، ج۲،ص۴۸۸ اور الفائق زمخشری،ج۲،ص۲۵۵)
 ابن عباس کے اس پر مغزبیان میں ان کے جلیل القدر استاد اور مربی کلیم الٰہی امیر المومنینؑ کی تعلیم کے اثرات جھلک رہے ہیں اور حقیقت یہ کہ عالم اسلامی نے اس کی نیکی سےمنہ موڑ کر اپنی بدنصیبی کا سامنا کیا ہے۔ ولا حول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم          

(اصل و اصول شیعہ)
حواشی:
(۱)اس سلسلے میں مختلف اقوال ہیں بعض قائل ہیں کہ یہ مباح تھا پھر خیبر کے دن اس سے روک دیا گیا؛ بعض کا نظریہ ہے کہ یہ مباح تھا فتح مکہ کے سال حرام ہوا؛ تیسرے گروہ کی رائے ہےکہ مباح تھا لیکن حجۃالوداع کے موقع پر حرام ہوا؛ چوتھا نظریہ ہے کہ سال اوطاس میں مباح تھا پھر حرام ہوا۔ اس کے علاوہ بھی نظریات ہیں۔ دیکھیے: صحیح مسلم باب نکاح المتعۃ، مجمع الزوائد،ج۴،ص۲۶۴؛ سنن ابی داؤد،ج۲،ص۲۲۷؛ طبقات ابن سعد، ج۴،ص۳۴۸؛ سنن بیہقی، ج۴،ص۳۴۸؛ مصنف ابن ابی شیبہ،ج۴،ص۲۹۲؛ فتح الباری، ج۱۱،ص۷۳؛ سنن دارمی،ج۲،ص۱۴۰؛ سنن ابن ماجہ،حدیث۱۹۶۲
(۲)۔۔۔۔ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ۔۔۔، سورہ طلاق، آیت۱
(۳) دیکھیے: الجامع لاحکام القرآن، قرطبی،ج۵،ص۱۳۰؛ التفسیر الکبیر، رازی، ج۱۰،ص۴۹؛ سنن البیہقی،ج۷،ص۲۰۷
(۴)وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُم۔۔۔؛ (سورہ نساء،آیت۱۲)۔(ترجمہ:)اور تمہیںاپنی بیویوں کے ترکے میں سے اگر ان کی اولاد نہ ہو نصف حصہ ملے گا اور اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے ترکے میں سے چوتھائی تمہارا ہو گا، یہ تقسیم میت کی وصیت پر عمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی اور تمہاری اولاد نہ ہو تو انہیں تمہارے ترکے میں سے چوتھائی ملے گااور اگر تمہاری اولاد ہو تو انہیں تمہارے ترکے میںسے آٹھواں حصہ ملے گا، یہ تقسیم تمہاری وصیت پر عمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی اور اگر کوئی مرد یا عورت بے اولادہو اور والدین بھی زندہ نہ ہوں اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو بھائی اور بہن میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا، پس اگر بہن بھائی ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی حصے میں شریک ہوں گے، یہ تقسیم وصیت پرعمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی، بشرطیکہ ضرر رساں نہ ہو، یہ نصیحت اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ بڑا دانا، بردبار ہے۔
(۵)دیکھیے: الجامع لاحکام القرآن، قرطبی،ج۵،ص۱۳۰؛ التفسیرالکبیر،ج۱۰،ص۵۰
(۶) دیکھیے: سنن ترمذی،۵؍۵۰؛ سنن بیہقی،ج۷،ص۲۰۶؛ الجامع لاحکام القرآن ،قرطبی،ج۵،ص۱۳۰؛ التفسیر الکبیر، رازی،ج۱۰،ص۵۰؛ المبسوط،سرخسی،۵؍۱۵۲
(۷) دیکھیے: الکشف عن وجوہ القراءات السبع، ج۱،ص۳۷۵؛ الجامع لاحکام القرآن، قرطبی،ج۵،ص۱؛ الکشاف زمخشری، ج۱،ص۴۹۲
(۸)دیکھیے: الکشاف،۲؍۱۲۵ و ۳۳۴؛ الجامع لاحکام ۱۲؍۱۰۲؛ و ۱۸؍۲۸۷؛ الکشاف زمخشری ۳؍۲۴ و ۴؍۴۵۶
(۹) سنن ابی داوود، ج۲،ص۲۲۷؛ سنن بیہقی، ج۴، ص۳۴۸؛ طبقات ابن سعد، ج۴،ص۳۴۸
(۱۰) الجامع لاحکام القرآن قرطبی ۵؍۱۳۰؛ سنن بیہقی ۷؍۲۰۲؛ مجمع الزوائد ۴؍۲۶۴؛ فتح الباری۱۱؍۷۳
(۱۱) صحیح مسلم ۲؍۱۰۲۵؛ سنن بیہقی ۷؍۲۰۲؛ سنن دارمی ۲؍۱۴۰؛ مجمع الزوائد ۴؍۲۶۴
(۱۲) صحیح مسلم ۲؍۱۰۲۵؛ سنن بیہقی ۷؍۲۰۲
 (۱۳)صحیح بخاری ۶؍۲۳؛ نیز دیکھئے: صحیح مسلم ۲؍۹۰۰؍۱۷۲؛ التفسیر الکبیر، رازی ۱۰؍۴۹؛ تفسیر البحر المحیط، ابن حیان ۳؍۲۱۸؛ سنن الکبریٰ، بیہقی ۵؍۲۰
(۱۴)صحیح مسلم۲؍۱۰۲۶؍۲۷؛ سنن بیہقی ۷؍۲۰۵۔
 (۱۵)جامع البیان، طبری ۵؍۹؛ نیز دیکھئے: التفسیر الکبیر، رازی ۱۰؍۵۰؛ تفسیرالبحر المحیط، ابن حیان ۳؍۲۱۸؛ الدرالمنثور ۲؍۱۴۰۔
(۱۶) دیکھئے وسائل الشیعہ، حر عاملی ۲۱؍۵۔۸۰،؛ نیز اس سے متعلق متعدد احادیث نقل کی ہیں مخلتف الفاظ کے ساتھ بھی احادیث ہیں، دیکھئے : الفقیہ ۱؍۴۸؍۹۶
(۱۷) ’’یُرِيدُ اللَّـهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ‘‘، سورہ بقرہ، آیت۱۸۵
(۱۸)’’وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ‘‘ ، سورہ حج، آیت۷۸

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں