منگل، 15 دسمبر، 2020

عظیم عالم و شفیق استاد (مولانا ابن حیدر صاحب قبلہ مرحوم)

 باسمہ تعالیٰ

عظیم عالم و شفیق استاذ

مولانا سید ابن حیدر صاحب قبلہ طاب ثراہ


سید محمد حسنین باقری


عالم دین کا دنیا سے رخصت ہونا حدیث معصومؑ کی روشنی بہت بڑا نقصان ہے جس کی بھرپائی ناممکن ہے :

’’إِذَا مَاتَ الْعَالِمُ ثُلِمَ فِی الْإِسْلَامِ ثُلْمَةٌ لَا یَسُدُّهَا شَیْءٌ إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ۔

’’جب کوئی عالم دنیا سے اٹھتا ہے تو اسلام میں ایسا خلا پیدا ہوتا ہے جسے قیامت تک کوئی دوسری چیز پُر نہیں کرسکتی‘‘۔

عالم کے دنیا سے اٹھنے سے پوری کائنات متاثر ہوتی ہے:موتُ العالِم موتُ العالَم، ’’عالِم کی موت پورے عالَم کی موت ہے‘‘۔

استاذ الاساتذہ استاذ معظم علامہ سید ابن حیدر صاحب قبلہ کی رحلت صرف انکے خانوادے کے لیے نہیں بلکہ ہم سب کے لیے عظیم سانحہ ہے ، مرحوم گوناگوں صفات کے حامل تھے، جامعہ ناظمیہ میں شرف تلمذ حاصل ہوا، اس وقت تو زیادہ استفادہ نہ کرسکا جس کا افسوس ہے ،لیکن ۲۰۰۹ء کے آخر میںحوزہ علمیہ قم سے واپسی پر جب مدرسہ سے وابستہ ہوا اس وقت سے مرحوم کے انتقال تک ان کی بہت سی خصوصیات و صفات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ خوش مزاجی، بذلہ سنجی، متانت، بردباری، تحمل،احساس مسئولیت، رأفت و مہربانی، محبت و شفقت، رواداری، وضعداری وغیرہ انکے خصوصیات تھے۔  

احساس مسئولیت کا یہ عالم تھا کہ رٹائرڈ ہونے کے بعد ، پیرانہ سالی، نقاہت و کمزوری،درد و تکلیف اور دشواری و پریشانی کے باوجود اکثر مدرسہ تشریف لاتے حالانکہ آخر عمر میں ان کے لیے انتہائی سخت تھا پھر کمر کی تکلیف کی وجہ سے بیٹھنا مزید دشوار تھا اس کے باجود تشریف لاتے اور اپنے پورے وقت بیٹھے رہتے ، متعدد مرتبہ جب تکلیف دیکھی تو کہا کہ تشریف لے جائیے آرام فرمائیے تو یہی جواب دیا طلاب کا وقت ہے ہوسکتا ہے کوئی پڑھنے آجائے ۔

صاحب علم اور گوناگوں صفات کے مالک ہوکر بھی نہ کبھی غرور و گھمنڈ، نہ نام و نمود کی فکر، نہ القاب کی تمنا ۔ بلکہ ہمیشہ تواضع و انکساری کادامن تھامے رہے جس کا نتیجہ تھا کہ مخالفین بھی علم و کردار کے معترف تھے۔ ذاکر حسینؑ تھے اللہ نے بھی نام امام حسینؑ پر جو شرف عطا کردیا بظاہر کسی اور کے لیے ناممکن ہے، ۱۳۷۱ھ سے ۱۴۴۱ھ تک ۷۱ سال مسلسل ایک ہی منبر پر عشرہ اولیٰ کو خطاب کرناایک ایسا کارنامہ ہے جو کسی کے لیے آسان نہیں ہے۔

مرحوم کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی اگر معلوم ہوجاتا کہ کہیں گھریلو رشتوںمیں نااتفاقی ،زن و شو میں اختلافات ہیں تو فورا مصالحت کے تیار ہوجاتے، اس پیرانہ سالی میں بھی متعدد واقعات سامنے کے ہیں کہ خود لوگوں کے گھروں تک گئے اور اپنے طور پر کوشش کی کہ مسئلہ حل ہوجائے، ایک واقعہ میرے ساتھ کا بھی ہےزوجین کے درمیان نااتفاقی ہوگئی ، مرحوم درمیان میں پڑے ، ایک دفعہ میرے گھر پر بھی تشریف لائے، اس مسئلہ میں مولانا منظر صادق صاحب قبلہ اور مولانا تقی رضا صاحب قبلہ بھی درمیان میں تھے ، اسی معاملہ میں دوبارہ جب بات بڑھی پھر مرحوم سے گزارش کی گئی آپ تیار ہوگئے اور مذکورہ علماء کے ساتھ ایک گھر پر سب جمع ہوئے ، مرحوم بھی کافی دیر تک بیٹھے رہے ، البتہ مصالحت کی کوشش کے باوجود ہنوز نااتفاقی ہے جو انتہائی قابل افسوس ہے۔ اس سلسلے میں صرف یہ گزارش کرنا ہے کہ اس سوشل میڈیا کے بظاہر ترقی یافتہ دور میں گھریلو نااتفاقیوں کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہے ، جس پر تمام موثر افراد کو سنجیدگی سے غور کرنے اور اس کے راہ حل کی کوشش کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ 

مرحوم نہ کسی کی عیب جوئی کرتے نہ غیبت ، علماء کے سلسلے میں بھی احترام کے قائل تھے، کسی نشست میں اور کسی مجلس میں نہ کسی عالم و ذاکر پر طنز کرتے نہ چھیٹا کشی، نہ کسی شخص کو موضوع بناکر مجلس کو خطاب کرتے ۔ اس لیے کہ ان کے سامنے ائمہ معصومین علیہم السلام کی روایات اور سیرت تھی کہ جب مرد مومن کا احترام لازم ہے تو عالم دین کا احترام بدرجہ اولیٰ لازم و ضروری ہے۔ انتہائی افسوس ہے کہ کوئی اپنے کو علی والا کہہ کر کسی شیعہ علی کی توہین کررہا ہو، اس سے بڑھ کر افسوس یہ ہے کہ علماء کی توہین کو اپنا مشغلہ بنا لیا جائے، اور المیہ تو یہ ہے کہ یہ توہین و اہانت، غیبت و الزام تراشی محبت اہل بیتؑ و ولایت امیرالمومنینؑ کو بہانہ بناکر ہورہی ہو۔ اور قابل تعجب یہ ہے کہ تمام احادیث نگاہوں میں ہونے کے باوجود یہ کام اپنے کو عالم کہنے والوں کی طرف سے ہو۔ جبکہ حدیث معصومؑ ہے: ’’من اہان فقیہا مسلِما لقی اللہ یوم القیامۃ وھوعلیہِ غضبان‘‘ جس نے ایک مسلمان فقیہ کی توہین کی وہ قیامت میں خدا سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ خدا اس کے اوپر غضبناک ہوگا ۔(عوالی اللئالی، ج ۱، ص ۳۵۹۔۱۹)

توہین علماء جہاں خدا کے غضب کا سبب ہے وہیں علما کو حقیر سمجھنے کے لئے بھی معصومین علیھم السلام نے سختی سے منع کیا ہے حتی علماء کو حقیر سمجھنے والے کو کافر کہا گیا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث میں ہے: ’’من احتقر صاحب العلم فقد احتقرنی و من احتقرنی فھو کافر‘‘ جس  نے کسی عالم کو حقیر سمجھا اس نے حقیقت میں مجھے حقیر جانا اور جس نے مجھے حقیر جانا وہ کافر ہے (ارشاد القلوب ؍ص؍۱۶۵۔)  

علماء کی عظمت و احترام کے سلسلے میں رسول اعظم ﷺ کا ارشاد گرامی :  اکرموا العلماء فانھم ورثۃ الانبیاء فمن اکرمھم فقد اکرم اللہ و رسولہ ‘‘ بیشک یہ لوگ انبیاء کے وارث ہیں جس نے ان کا احترام کیا اس نے خدا و رسول کا احترام کیا ( نہج الفصاحۃ ، حدیث ۴۵۹)

حتیٰ عالم کے چہرہ کو دیکھنا عبادت ہے، ’’النظر الی وجہ العالم عبادہ‘‘(بحارالانوار، ج ۱ص؍ ۱۹۵)؛ فرمایا: جس نے علماء کی زیارت کی اس نے میری زیارت کی ،’’من زار العلما فقد زارنی‘‘(کنزالعمال، ح؍ ۲۸۸۸) ؛نیز:جس نے علماء کے ساتھ ہم نشینی اختیار کی وہ میرے ساتھ بیٹھا اور جو میرے ساتھ ہم نشین ہوا گویا وہ خدا کے ساتھ ہمنشین ہوا، ’’من جالس العلما فقد جالسنی و من جالسنی فکانماجالس ربی‘‘( ایضا،ح ؍۵۸۹۳)

امیرالمومنینؑ کا رشاد گرامی ہے:۔ ’’اذا رایت عالما فکن لہ خادما;‘‘ جب کسی عالم کو دیکھو تو اس کے خادم بن جائو(بحارالانوار، ج ۱، ص؍۲۰۴)

جب علماء کا احترام لازم ہے تو اہانت و بے احترامی جائز نہیں ہے۔اس بڑھ کر تہمت و الزام تراشی، غیبت و بدگوئی تو یقینا حرام اہل بیتؑ کی ناراضگی کا سبب ہے۔ معاملہ تو اتنا اہم ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی عمل سے ایسا ظاہر ہو کہ انہیں حقیر سمجھا جا رہا ہے اس بات کے پیش نظر علماء کی خدمت میں تواضع و انکساری کے ساتھ جانے کا حکم دیا گیا ہے ۔حدیث میں ہے ’’تواضعوا لعالم وارفعوہ۔۔  عالم کے سامنے تواضع اور فروتنی کا اظہار کرو اور اس کے مرتبہ کو بلند رکھو ( الفردوس جلد ۲؍ص؍۴۵؍ح ۲۲۶۳)۔

علماء کی توہین کا ہمیں حق نہیں ہے ، اسی لیے حتی ان سے بےجا جرّ و بحث سے بھی منع کیا گیا ہےامام رضا علیہ السلام کا ارشاد ہے :’’لاتمارینّ العلماء ‘‘ علماء کے ساتھ مجادلہ اور بحث نہ کرو ،(الاختصاص ،ص ۲۴۵)

امام علی ؑ علماء کے حق کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ان من حق العالم ان لا تکثر علیہ بالسوال ولا تعنتہ فی الجواب و ان لا تلح اذا کسل۔۔۔۔‘‘عالم کا ایک حق یہ ہے کہ اسے اپنے سوالوں کے جال میں پھنسانے کی کوشش نہ کرو،اسے جواب دینے میں زحمت میں نہ ڈالو،جب وہ تھکا ہوا نڈھال ہو تو کسی بات پر اس سے اصرار نہ کرو ۔۔۔ آگے بھی حدیث میں ہے کہ اس کے راز فاش نہ کرو ، اسکی غلطیوں اور خطائوں کی ٹوہ میں نہ رہو ۔۔۔۔۔(جامع البیان ، العلم ، ۱۲۹)

حتی اگر کسی عالم نے ہماری کسی بات کا جواب دیا اور ہم اس سے مطمئن نہیں ہوئے تو اس عدم اطمینان کے اظہار کے لئے بھی شایستہ الفاظ کا انتخاب ضروری ہے یہ حق کسی کو نہیں ہے کہ ایک عالم جب کوئی بات کہے اور وہ ہمارے منشا کے مطابق نہ ہو یا ہمارے لئے اطمینان آور نہ ہو تو ہم اس کے سامنے دس دوسرے علماء کی بات رکھیں اور اسکا دوسروں سے تقابل کرتے ہوئے کہیں حضور آپ تو یہ کہتے ہیں فلاں عالم کا نظریہ اس بارے میں یہ ہے اور فلاں صاحب یہ فرماتے ہیں فلان دوسرے عالم تو آپ کے بالکل خلاف یوں کہتے ہیں! چنانچہ روایت میں ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : ’’کسی عالم کے سامنے بہت زیادہ یہ نہ ہو کہ ’’قال فلان و قال فلان خلافا لقولہ ‘‘ فلاں کا کہنا یہ ہے اور فلاں تو آپ کے برعکس یہ کہتے ہیں ( اصول کافی جلد ؍۱ص؍ ۷َ۳)

کریم پروردگار کی بحق اہل بیتؑ دعا ہے کہ مرحوم کو جوار معصومینؑ عطا فرمائے، ہم سب کو علوم آل محمدؐ سے آراستہ ہونے، علماء کا احترام کرنے، صحیح ولایت کو پہچان کر اس کے تقاضوں کا پورا کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں