منگل، 29 دسمبر، 2020

بحث متعہ

 بحث متعہ!:
علامہ سید شرف الدین موسوی
حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ شخص جسے ذرا بھی مذہب اسلام کو سمجھنے کا موقعہ ملا ہے اور جس نے بھی دینی قوانین کے مطالعہ میں زندگی کے کچھ لمحے صرف کئے ہیں وہ اس حقیقت سے قطعاً انکار نہیں کرسکتا کہ متعہ کے معنی وہ عقد ہے جو ایک بندھے ہوئے وقت کے لئے ہو۔ 
 خود پیغمبر اکرمؐ نے اس قسم کے عقد کو رائج کیا، مباح فرمایا اور حیات رسولؐ میں بڑے بڑے صحابہ اس پر عمل پیرا ہوئے۔ نیز آنحضرتؐ کی وفات کے بعد بھی صحابۂ کرام قانون کی اس شق سے جی بھر کر متمتع ہوتے رہے۔ 
چنانچہ عبد اللہ بن عباس، جابر ابن عبد اللہ انصاری، عمر ابن الحصین ابن مسعود اور ابی ابن کعب وغیر ہم یہ تمام اعاظم و مشاہیر متعہ کے جواز کا فتویٰ دیتے تھے۔ اور آیت متعہ کو اس طرح پڑھتے تھے:فما استمعتم بہ منھن ا لیٰ اجل مسمیٰ۔(جامع البیان، طبری،ج۵،ص۹؛تفسیر ابن کثیر، ج۱،ص۴۷۴؛ تفسیر کشاف، زمخشری،ج۱،ص۵۱۹، الجامع لاحکام القرآن، قرطبی،ج۲،ص۱۴۷؛ السنن الکبری، بیہقی،ج۷،ص۲۰۵)
لیکن ہماری رائے میںیہ یقین کرنا درست نہ ہوگا کہ یہ حضرات اللہ کے کلام میں کسی نقص و تحریف کے قائل تھے ( معاذ اللہ) نہیں! بلکہ غالباً سخن شناس ہونے کی وجہ سے تفسیر کے طور پر اس جزو سے آیت کا منشاء بیان کرتے ہوں گے چونکہ عرصۂ دراز تک یہ بزرگ شمع نبوت کا طواف کرتے رہے، معارف قرآنی کو زبان رسالتؐ سے سننے اور سمجھنے کا موقع ملا لہٰذا جب لوگ ان سے دریافت کرتے ہوں گے تو اس آیت کے سلسلہ میں ختمی مرتبتؐ سے حاصل کردہ مفہوم کو ظاہر کردینے میں انہیں کوئی تامل نہ ہوتا ہوگا۔ 
 حالانکہ ابن جریر نے اپنی تفسیر کبیر میں جو روایتیں درج کی ہیں ان سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ الیٰ اجل مسمیٰ والا ٹکڑا جزو آیت ہے۔ چنانچہ موصوف ابو نضرہ کی زبانی نقل کرتے ہیں کہ میں نے اس آیت کو ابن عباس کے سامنے پڑھا تو آپ نے فرمایا : ’’ الیٰ اجلٍ مُّسمّیٰ‘‘ میں نے عرض کی کہ میں تو یوں نہیں پڑھتا ۔ اس پر ابن عباس نے تین مرتبہ فرمایا‘‘:’’ بخدا یہ آیت اسی طرح نازل ہوئی ہے‘‘(جامع البیان، طبری، ج۵ص۹)۔ لیکن یہاں بھی ہم عرض کریں گے کہ رئیس ملت حضرت ابن عباس کا مقام ان نقائص سے بہت بلند ہے۔ یہ روایت اگر صحیح ہے تو غالباً رسولؐ کے اس جلیل القدر صحابی کا مقصود یہ ہوگا کہ پروردگار عالم نے اس کی تفسیر یوں نازل فرمائی ہے۔ 
بہر حال اجماع و یقین متعہ کی صحت و مشروعیت کا بین ثبوت ہیں۔ اب رہا مخالف نظریہ رکھنےو الوں کا ادّعا تو اس میں وزن ہی کیا ۔ کیونکہ وہ فرماتے ہیں کہ یہ قانون نافذ ہوکر منسوخ ہوگیا۔ حالانکہ نقل کے طریقے میں جو اختلافات نمایاں ہیں وہ قطع و یقین تو درکنار ظن و تخمین کے لئے بھی ناکافی ہیں۔ دیکھئے بنیادی قاعدہ یہ ہے کہ حکم قطعی کی تنسیخ کے لئے دلیل قطعی کا ہونا ضروری ہے۔ اور ان حضرات کا ارشاد ہے کہ تنسیخ سنت کے طریقہ سے عمل میں آئی۔ سرکار رسالتؐ نے مباح فرما کر حرام قرار دے دیا(۱)۔ بعض فرماتے ہیں کہ نہیں کتاب خدا کے ذریعہ حرمت کے پہرے بیٹھ گئے۔ نیز اس منزل پر بھی اتحاد فکر عنقا ہے۔ کیونکہ ایک گروہ آیت طلاق(۲) کو ناسخ سمجھتا ہے(۳) اور دوسرا  آیۂ مواریث(۴)کو(۵) اب ان پریشان خیالیوں کی جو قیمت ہوسکتی ہے وہ ظاہر ہے۔ بنا بر ایں یہاں مزید خامہ فرسائی کی ضرورت نہیں۔ آگے چل کر قدرے توضیح کی جائے گی۔ 
ہاں۔ اور اکثر بزرگ اس آیت سے سے  متعہ پر خط نسخ پھیرتے ہیں(۶):
 ( الاعلیٰ ازواجھم او ما ملکت ایمانھم) (سورہ مومنون،۶؛ معارج۳۰)آیت میں حلیت کے دو سبب بتائے گئے ہیں:
(۱) زوجیت۔  (۲) ملکیت(ملک یمین)
چنانچہ اس موقع پر سیدآلوسی ترمیم فرماتے ہیںکہ ’’ شیعہ حضرات ممتوعہ کو مملوکہ ( کنیز) قرار نہیںدے سکتے۔ یہ تو ایک کھلی ہوئی بات ہے۔ اور زوجہ کہہ نہیں سکتے کیونکہ اس میں زوجیت کے شرائط یعنی میراث ، عدہ اور نفقہ و طلاق کا فقدان ہے‘‘۔(روح المعانی،ج۵،ص۷)
  غور فرمائیے ! دلیل میںکتنا زبردست مغالطہ ہے۔ اب ذرا تجزیہ کیجئے پہلی چیز میراث۔ اگر زوجیت کے لئے اس شرط کو عمومی انداز میں پیش کیا گیا ہے یعنی اکثر ایساہوتا ہے کہ زوجہ ورثہ پاتی ہے تب تو ٹھیک ہے۔ لیکن غالباً سید صاحب کا یہ منشاء نہیں اور اگر یہ مراد ہےکہ میراث شرط لازم و دائم ہے یعنی بہر صورت ورثہ ملنا چاہئے تو یہ قطعی طور پر خلاف آئین ہے۔ کیونکہ شریعت میں اکثر ایسے مواقع آتے ہیں جہاںمیراث ختم ہوجاتی ہے مثلاً زوجہ کا فرہ اور قاتلہ کو ورثہ نہیںملتا۔ نیز ایسی عورت جو کسی مریض کے عقد میں چلی جائے اوردخول سے پہلے اس کے شوہر کا انتقال ہوجائے تو وہ بھی محروم ہوجاتی ہے۔ نیز بر خلاف اس کے اگر کوئی شخص بیماری کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دے اور اسی مرض کے عالم میں اس کا انتقال ہوجائے تو عدہ کی مدت گزارنےکے باوجود دوران سال میںمطلقہ ورثہ کی حقدار ہوگی۔ غرضیکہ دونوں رخ سامنے ہیں اور صاف ظاہر ہے کہ ارث کو لازمۂ زوجیت نہیں قرار دیا جاسکتا۔ 
رہا عدت کا لزوم تو امامیہ مذہب میں بالاتفاق ثابت ہے بلکہ جو بھی مشروعیت متعہ کا قائل ہے وہ عدت کو واجب قرار دیتا ہے۔ تیسری چیز نفقہ ہے، اسے بھی شرط زوجیت نہیں بنایا جاسکتا۔ اطمینان کے لئے ’’ زن ناشزہ‘‘ کے احکام کو دیکھ  لیجئے کہ وہ زوجیت میں تو ہوتی ہے مگر بالاتفاق اس کے نفقہ کو کوئی واجب نہیںسمجھتا ۔ باقی، طلاق کا معاملہ، تو اس سلسلہ میںمدت کا بخش دینا کافی ہے۔ 
دوسری بات یہ کہ ازواج کی اہمیت سے متعہ کی منسوخی محال ہے۔ کیونکہ آیت متعہ سورۂ نساء میں ہے جو مدنی(۷) ہے اور آیۂ ازواج سورۂ مومنین و معارج میں ہے اور یہ دونوں مکی ہیں(۸)۔ بنا بر یں نسخ ثابت ہی نہیںہوسکتا ۔ کیونکہ منسوخ پر ناسخ کا تقدم غیر ممکن ہے۔ 
 تیسرے یہ کہ اکابر اہل سنت بیان فرماتے ہیں کہ آیت متعہ منسوخ نہیںہوئی ملاحظہ ہو ’’ کشاف‘‘ زمخشری ابن عباس سے نقل کرتے ہیںکہ متعہ کی آیت محکمات میں سے ہے(الکشاف، ۱؍۵۱۹)۔ دوسروں نے روایت کی ہے کہ حکم ابن عتیہ سے دریافت کیا گیا کہ آیت متعہ کیا منسوخ ہوگئی ہے ؟ جواب ملا: نہیں(الدرالمنثور،سیوطی، ج۲،ص۱۴۰)۔
غرض کہ پہلے تو جمہور اسلام نے اس کی مشروعیت کا اعتراف کیا ۔ لیکن بعد میں منسوخ ہونے کے دعوے کرنے لگے اور رطریق نسخ میںجو قیاس آرائیاں فرمائی ہیں وہ بھی قابل دید دشنید ہیں۔ کبھی تو آیت کو آیت کے ذریعہ منسوخ فرمانےکی کوششیں ہوئیں ( ضعف دلیل کی جانب اشارہ کیاجاچکا ہے) گاہے آیت کو حدیث سے ختم کرنے کی سعی فرمائی گئی۔ اس ضمن میں صحیح بخاری و مسلم کی اس روایت سے استشہاد کیا جاتا ہے کہ فتح مکہ ، فتح خیبر ، یاغزوۂ اوطاس(صحیح بخاری ۷؍۱۶؛ صحیح مسلم ۲؍۱۰۲۳؍۱۸ و ۱۰۲۷؍۲۹،۳۰۔ اس کی جانب اشارہ گزرچکا ہے۔) میںآنحضرتؐ نے اسے ممنوع قرار دے دیا تھا اور یہی وہ مقام ہے جہاںیہ معاملہ آماجگاہ اختلاف بنتا ہے۔ نہ جانے کتنے رنگ چڑھتے ہیں اور کیا کیا پینترے بدلے جاتے ہیں۔ 
 چنانچہ قاضی عیاض کی زبانی بیان کیاجاتا ہے ’’ بعض علماء کا ارشاد ہے، کہ نکاح متعہ دو دفعہ حرام، مباح اور منسوخ ہوا(شرح صحیح مسلم، نووی۹؍۱۸۱؛ التفسیر العظیم، ابن کثیر ۱؍۴۷۴ )۔ لیکن آنکھ بھر کر دیکھنے والے جانتے ہیں کہ ان حضرات نے اپنی علمی دنیا میں کیا کیا گل کھلائے ہیں۔ 
 بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ حجۃ الوداع ۱۰ھ؁ میں منسوخ کیا گیا(۹) ۔ دوسرے مصنفات سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہیں۔ غزوہ تبوک ۹ھ؁ میں تنسیخ ہوئی(۱۰)۔ کچھ قلم کاروں نے غزوہ اوطاس اور غزوہ حنین شوال ۸ھ؁ کا حوالہ دیا ہے(صحیح مسلم۲؍۱۰۲۳)۔ مگر ایک اور گرو ہ فتح مکہ رمضان ۸ھ؁ کا واقعہ بتاتا ہے(۱۱)۔ 
 نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آنحضرتؐ نے فتح مکہ کے موقع پر جائز قرار دیاتھا اور پھر چنددن کے بعد وہیں اس کی حرمت کا حکم صادر فرمادیا(۱۲)۔ البتہ شہرت اور غالب رائے یہ ہےکہ متعہ کی تنسیخ غزوہ خیبر ۷ھ؁یا عمرۃ القضاء ذی الحجہ  ۷ھ؁ میں عمل میں آئی۔(سنن ابن ماجہ ۱؍۶۳۰؍۱۹۶۱؛ صحیح مسلم ۲؍۱۰۲۷)
بہر کیف اس محشر خیال سے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دو یا تین دفعہ نہیں ( جیسا کہ نووی شارح مسلم  وغیرہ نے ترقیم فرمایا ہے ) بلکہ پانچ چھ مرتبہ حرام حلال ہوتا رہا۔۔۔۔(شرح صحیح مسلم نووی ۹؍۱۸۰) کیوں؟ علمائے اسلام ! بازی بازی با دین خدا ہم بازی؟ یہ کیا اندھیر ہے؟ سچ کہنا اس درجہ فکری انتشار کے ہوتے ہوئے تمہارے ادعائے نسخ میںکوئی جان باقی رہ جاتی ہے؟
 یہ ناقابل انکار حقائق ہیں کہ :۱: ۔ قرآنی احکام اخبار آحاد سے منسوخ نہیںہوسکتے۔ 
۲:۔ نسخ کی دلیلیں خود سوا د اعظم کی روایات عدم نسخ سے متصادم ہوتی ہیں۔ 
۳:۔ صحیح بخاری کی روایت: ابو رجاء عمران بن حصین سے ناقل ہیںکہ آیۂ متعہ قرآن میں موجود ہے۔ رسولؐ کے ہوتے ہوئے ہم نے اس پر عمل کیا ۔ 
 پھر نہ قرآن نے اس کی حرمت کا حکم دیا اور نہ آخر وقت تک آنحضرتﷺ نے ممانعت فرمائی۔ ہاں! ایک شخص نے من مانی کی جو چاہا کہہ دیا۔ محمد کا قول ہےکہ اس حرکت کو حضرت عمر کی جانب منسوب کیا گیا ہے‘‘(۱۳)۔
 نیز صحیح مسلم میں عطا کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’ ایک مرتبہ جابر ابن عبد اللہ انصاری عمرہ بجالانےکےلئے آئے تو ہم سب ان کی قیام گاہ پر پہنچ گئے لوگوں نے ان سے مختلف مسائل پوچھے ۔ چنانچہ متعہ کے متعلق بھی دریافت کیا ۔ جابر نے کہا ۔ ہاں ۔ عہد رسالت میں ہم نےمتعہ کیا اور ابو بکر و عمر کے زمانے میں بھی ‘‘۔(صحیح مسلم۲؍۱۰۲۳؍۱۵)
مسلم کی ایک اور روایت ہے اور حضرت جابر ہی کی زبانی ، فرماتے ہیں: دور نبوی میں تو ہم ایک مٹھی کھجور اور مٹھی بھرستّو دے کر متعہ کرلیا کرتے تھے۔ اور یہی طریقہ ابوبکر کے زمانے میں بھی جاری رہا پھر عمر نے عمرو بن حریث کے سلسلے میں اس سے منع کیا۔(صحیح مسلم۲؍۱۰۲۳؍۱۶)
علاوہ ازیں صحیح مسلم کے اوراق میںیہ بھی موجود ہے ۔’’ ابو نضرہ بیان کرتےہیںکہ میں جابر ابن عبد اللہ انصاری کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں ایک اور آدمی آگیا اور آتے ہی کہنے لگا۔ دونوں متعوں کے بارےمیں تو ابن عباس اور ابن زبیر کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا ہے؟ جابر نے فرمایا ۔ رسالت مآبؐ کی موجودگی میں تو ہم ان پر عمل پیرا تھے۔ لیکن بعد میںعمر نے دونوں متعوں سے ممانعت کردی۔ اس لئے پھر نہ کرسکے۔(صحیح مسلم۲؍۱۰۲۳؍۱۷) 
جی ہاں! اس لئے پھر نہ کرسکے کہ حضرت عمر متعہ کرنےوالوں کو سنگسار کروا دیتے تھے۔ 
واقعہ یہ کہ صحیح مسلم کے اس حصہ کو اگر غور سے دیکھا جائے تو تضاد بیانی کے ایسےایسے عجوبے نظر آتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ادھر مثبت حدیثیں ادھر منفی روایتیں ۔یہاں نسخ کے دعوے وہاں عدم نسخ کے ثبوت اور سنیے ۔ جہنی فرماتے ہیںکہ فتح مکہ کے موقع پر خود آنحضرتؐ نے ہمیںمتعہ کا حکم دیا تھا۔ لیکن ہم وہاں سے نکلنے بھی نہ پائے تھےکہ سرکار رسالت مآبؐ نے اس کی ممانعت فرمادی‘‘۔(صحیح مسلم۲؍۱۰۲۳؍۲۲)
 تنسیخ کی نسبت کبھی پیغمبر اکرمؐ کی طرف گاہ حضرت عمر کی جانب ۔ مزید بر ایں عہد نبوی اور پہلی خلافت کے زمانےمیں رائج تھا۔ اور یہ بھی کہ یہ حضرت علی علیہ السلام نے متعدد مواقع پر جناب ابن عباس کو متعہ کے بارےمیں گفتگو کرنےسے منع فرمایا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں انہوں نے اپنی رائے بدل دی۔ (المصنف، عبدالرزاق ۷؍۵۰۱؛ الکشاف، زمخشری۱؍۵۱۹)
 مگر اس کے ساتھ یہ روایت بھی ملتی ہے کہ ابن زبیر نے ایک مرتبہ مکہ میں اٹھ کر فرمایا تھا ’’ کچھ ایسے لوگ بھی ہیںکہ خداوند عالم نے جس طرح ان کی  بصارت چھینی اسی طرح ان کی بصیرت بھی سلب کرلی۔ وہ متعہ کا فتویٰ دیتے پھرتے ہیں۔ ‘‘۔ ( یہ اشارہ ابن عباس کی طرف تھا جو نا بینا ہوگئے تھے) اس پر ابن عباس نے آواز لگائی کیوں۔۔۔’’ قسم کھا کر کہتا ہوں کہ متعہ امام المتقین کے زمانے تک رائج تھا‘‘(۱۴)۔ اس سے صاف ظاہر ہےکہ عبد اللہ ابن عباس نے کبھی بھی اپنی رائے نہیں بدلی بلکہ وہ زندگی بھر تا دور خلافت ابن زبیر اپنے فتوے پر قائم رہے۔ 
 اور سب سےز یادہ پر لطف بات تو یہ ہےکہ امتناعی حکم کو جناب امیر علیہ السلام سے بھی منسوب کیا گیا ہے۔ حالانکہ عقد متعہ کو جائز قرار دینا اہل بیت علیہم السلام کا امتیازی مسلک ہے۔ پھر خصوصیت سے اس ضمن میں امیر المومنینؑ کا یہ ارشاد کہ’’لولا انّ عمر نھی الناس عن المتعۃ ما زنی الاشقی او شفا‘‘(معنی کے لئے دیکھئے: الصحاح ۶؍۲۳۹۳؛ لسان العرب ۱۴؍۴۳۷۔)۔ ’’ اگر عمر نےمتعہ کو ممنوع نہ کیا ہوتا تو بس گنتی کے ( یا گئے گزرے) کچھ لوگ زنا کے مرتکب ہوتے‘‘، ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے طبری نے اپنی تفسیر میں بھی اس روایت کو نقل کیا ہے(۱۵) اس سلسلہ میں باوثوق ذرائع سے امام جعفر صادق علیہ السلام کا یہ قول ملتا ہے کہ ’’ثلاث لا اتقی فیھن احدا: متعۃالحج و متعۃالنساء و المسح علی الخفین‘‘(۱۶)’’ تین مسئلوں میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔ متعۃ الحج، متعۃ النساء اور مسح بر کفش۔
بہرطور فنی قاعدوں اور اصول فقہ کے مقرر ضوابط کی رو سے یہ طے شدہ بات ہےکہ ادھر روایتوں میں تضاد پیدا ہوا اور ادھر وہ درجہ اعتبار سے ساقط ہوئیں۔ کیونکہ مشکوک روایتیں قابل انکار اور ان کےمقابلے میں محکم حدیثیں لائق عمل ہوتی ہیں۔ 
 نیز جبکہ علمائے اسلام کے متفقہ فیصلے اور فقہی تکنیک کےمطابق متعہ کی مشروعیت اور اس کا جواز ثابت ہوچکا ہے ۔ تو آج بھی اس کی اباحت کاا قرار کرنا پڑے گا۔ 
مسئلہ کا واحد حل!:
اب اگر ہم حقائق کی روشنی میں جائزہ لیں ۔ معاملہ کی پوری چھان بین کریں اور اس کی تمام کڑیوں کو ملا کر صحیح نتیجہ نکالنا چاہیں تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ حضرت عمر نے اپنےد ور حکومت میں کسی خاص مصلحت کے پیش نظر اپنی رائے سے متعہ کو ممنوع قرار دے دیا تھا۔ لیکن یہ ممانعت قطعی طور پر سماجی حالات اور وقتی تقاضوں پر مبنی تھی ۔ دین و مذہب کا اس سے کوئی سرورکار ممکن نہیں۔ چنانچہ تواتر کے ساتھ آپ کا یہ قول نقل ہوتا چلا آرہا ہے کہ’’متعتان کانتا علی عھد رسول اللہ أنا أحرمھما و أعاقب علیھما‘‘(دیکھئے: السنن الکبریٰ، بیہقی۷؍۲۰۶؛ زادالمعاد، ابن قیم جوزی۳؍۴۶۳؛ المبسوط، سرخسی ۴؍۲۷۔) ’’ رسول کے زمانےمیں دو متعہ جائز تھےمگر میں انہیں حرام قرار دیتا ہوں اور خلاف ورزی پر سزا دوں گا‘‘۔
 یہاں غور طلب چیز یہ ہے کہ خلیفۂ ثانی نے حرمت یا تنسیخ کے حکم کو سرکار رسالتؐ کی جانب نہیںمنسوب کیا۔ بلکہ خود اپنی ذات کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ نیز سزا کا تعلق بھی اپنے ہی سے رکھا ۔ خدا سے کوئی واسطہ نہیں ۔ یہی اس مسئلہ کا واحد حل ہے۔ ورنہ پھر ان خطوط پر سوچنا پڑے گا کہ حضرت عمر جیسی شخصیت اور دین الٰہی میں بے محابانہ کتربیونت ! لیکن مسلمانوں کی تاریخ میں آپ کے مقام کو دیکھتے ہوئے اس انداز فکر کا اختیار کرنا کس قدر مشکل ہے۔ 
 کیا حضرت عمر یہ نہیں جانتے تھے کہ حضرت محمدؐ کا حلال قیامت تک حلال، اور حضور ؐنے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے وہ تا حشر حرام رہیں گی۔ 
 خداوند عالم خود اپنے حبیب ؐ سے فرماتا ہے کہ : ’’وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ﴿٤٤﴾ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ﴿٤٥﴾ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ﴿٤٦﴾ فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ ﴿٤٧﴾‘‘( سورہ حاقہ ۴۴۔۴۷)
’’اگر رسولؐ ہمارے متعلق کچھ باتیں گھڑ لیتا تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے اور پھر گلا کاٹے بغیر نہ چھوڑتے اور پھر یہ بھی ممکن نہیں تھا ، کہ تم میں سے کوئی آکر بچا لیتا ‘‘
بہر طور بہتر یہی تھا کہ حضرت عمر کے امتناعی حکم کو مذہبی حیثیت دینےکے بجائے اسے سیاسی یا سماجی قدغن قرر دیا جاتا۔ مگر کیا کہا جائے کہ آپ کے بعض معاصرین نیز بعد کے کچھ سادہ لوح محدثوں نے اس باریک نکتہ پر غور نہیں کیا اور فرط عقیدت میں اپنے قائد کے اقدام کو صحیح ثابت کرنےکےلئے نسخ کی دلیل تراشی اور اسے آنحضرتؐ کی جانب منسوب کردیا۔ نتیجتاً ان کے دبستانِ فکر میں وہ خلفشار پیدا ہوا کہ پناہ بخدا!
فی الواقع یہ حضرات اگر وہ موقف اختیار کرتےجس کی ہم نےنشاندہی کی ہے تو اتنی الجھنوں میں نہ پڑتے۔ 
صحیح مسلم کے حوالے سے جابر ابن عبد اللہ انصاری کی روایت کاتذکرہ کیا جاچکا ہے ، کہ ’’ دور نبویؐ اور عہد ابوبکر میں تو ہم ایک مٹھی کھجور اور مٹھی بھر ستو دے کر متعہ کرلیا کرتےتھے۔ لیکن عمر و بن حریث کے سلسلہ میں عمر نے ممانعت کردی‘‘(اکمال المعلم شرح مسلم،وشتانی آبی)۔ یہ بڑا واضح ثبوت ہے کہ ایک خاص واقعہ کے سلسلہ میں حضرت عمر نے اپنی ذاتی ناپسندیدگی کے باعث اسے ممنوع قرار دے دیا تھا۔اور ممکن ہے کہ کوئی اس سے بھی زیادہ ناگوار معاملہ پیش ہوا اور آپ نےاپنی تیز مزاجی سے مجبور ہوکر ممانعت کا عام حکم صادر کردیا ہو۔ 
 ورنہ متعہ کے سلسلہ میں نص قرآنی، سنت رسولؐ عمل صحابہ نیز حضرت ابو بکر کے زمانہ کا تعامل اور خود حضرت عمر کے آغاز خلافت تک متعہ کا رواج یہ سب ایسے حقائق ہیں جو بحث و تمحیص سے بالاتر ہیں۔ تاریخ و حدیث کی کتابیں شاہد ہیں کہ عہد رسالت میںبڑے بڑے صحابی اور خاندان قریش کے مشہور افراد دھڑلے سے متعہ کیا کرتے تھے اور اس قسم کے عقد سے ان کی نسل چلی بڑھی ، اورپروان چڑھی۔ 
 چنانچہ سواد اعظم کے معتبر و مستند عالم راغب اصفہانی اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’ المحاضرات‘‘ میں ترقیم فرماتے ہیںکہ متعہ کو حلال کہنے کے سلسلہ میں ایک مرتبہ عبد اللہ ابن زبیر نے جناب عبد الہ ابن عباس کو طعنہ دیا ۔ اس پر ابن عباس نے فرمایا : ’’ اچھا ذرا  اپنی والدہ سے تو پوچھو کہ ان میں اور تمہارے والد بزرگوار میں جو برابر کی آگ لگی ہوئی تھی ‘‘ خیریت سے وہ لگی کیسے؟ عبد اللہ ابن زبیر نے جاکر ماں سے پوچھا بتائیے کہ کیا قصہ ہے؟ انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ ’’ بیٹا! تم متعہ سے پیدا ہوئے ہو‘‘۔ (محاضرات الادباء۳؍۲۱۴۔)
 آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ عبد اللہ کی والدہ جناب اسماء ذات النطاقین حضرت ابو بکر صدیق کی صاحب زادی اور ام المومنین جناب عائشہ کی بہن تھیں جنہیں صحابیٔ رسولؐ زبیر ابن العوام نےمتعہ کے ذریعہ اپنی جیون ساتھی بنایا تھا۔ 
انکار کرنے والے دیکھئے اب کیا فرماتے ہیں؟
 اس واقعہ کے بعد راغب اصفہانی نے ایک اور روایت لکھی ہے اور وہ یہ کہ بصرہ کے کسی بزرگ نے یحییٰ ابن اکثم سے دریافت کیا کہ جو از متعہ کے سلسلہ میں جناب کس کی پیروی فرماتے ہیں:؟ یحییٰ نے جواب دیا۔ عمر ابن خطاب کی ! سائل نے کہا ، یہ کیسے! وہ تو اس معاملہ میں بڑے ہی سخت گیر تھے۔ یحییٰ نے کہا ۔ ہاں! مگر یہ ثابت ہوچکا ہے کہ حضرت عمر نے ایک دفعہ برسرِ منبر اعلان فرمایا تھا کہ’’یا ایھاالناس، متعتان أحلھما اللہ و رسولہ لکم و أنا أحرمھما علیکم و أعاقب علیہما، فقبلنا شھادتہ و لم نقبل تحریمہ‘‘(محاضرات الادباء ۳؍۲۱۴) ’’ لوگو! اللہ اور اس کے رسولؐ نے دو متعہ حلال کئے تھے ، مگر میں انہیںحرام قرار دیتا ہوں۔ نیز خلاف ورزی کرنے والوں کو سزادوں گا‘‘۔ لہٰذا ہم ان کی گواہی کو تو قابل قبول سمجھتے ہیںلیکن موصوف کا حکم ہمارے نزدیک لائق تعمیل نہیں ‘‘۔
 عبد اللہ ابن عمر کے بیان کا بھی تقریباً یہی مفہوم ہے(سنن ترمذی ۳؍۱۸۵؍۸۲۴)۔ البتہ اس ضمن میں خلیفہ ثانی کا جو جملہ شہرت عام رکھتا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں : ’’ متعتان کانتا علیٰ عھد رسول اللہ وانا احرمھما‘‘’’عہد رسالت میںدو متعہ تھے اور میں انہیںحرام کرتا ہوں‘‘
یہاں مکرر عرض ہےکہ اگر حضرت عمر کی ممانعت اسی قسم کی تھی جس پر ہم روشنی ڈال چکے ہیں۔ تب تو معاملہ قدرے آسان ہے ورنہ سخت مشکل ۔ 
اس منزل پر ہمیں پانچویں صدی ہجری کے محقق کامل محمد ابن ادریس حلیؒ کا بھی ایک شہ پارہ یاد آگیا جسے مطابقت اور توضیح مزید کے خیال سے نقل کیا جاتا ہے علامہ ممدوح جنہیں ہمارے علمائے متقدمین میں بہت بڑا درجہ حاصل ہے اپنی بلند پایہ تصنیف ’’ السرائر‘‘ میں ارشا د فرماتے ہیں:
 ’’ نکاح موقت شریعت اسلامی میں جائز ہے۔ اور کتاب خدا، نیز مسلمانوں کے مسلسل اتفاق سے از روئے سنت بھی اس کی مشروعیت ثابت ہے۔ البتہ کچھ لوگوں نے منسوخ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ مگر اس کی درستی محتاج دلیل ہے۔ علاوہ ازیں صحیح دلائل سے یہ بات تسلیم کی جاچکی ہے کہ ہر سود مند کام جس سے حال و استقبال میں کسی نقصان کا اندیشہ نہ ہو، وہ عقلی طور پر مباح ہے اور نکاح متعہ میں یہ وصف موجود ہے۔ بنا بریں عقلاً اس کےجواز کا اقرارضروری ہے اب اگر کوئی صاحب فرمائیں کہ مستقبل میں اس کے ضرر رساں نہ ہونےکی کیا دلیل ہے۔۔ جبکہ اس بارے میں مخالف آرا بھی موجود ہیں۔ تو اس کا جواب یہ کہ بار ثبوت اس پر ہے جو امکان ضرر کا مدعی ہے علاوہ ازیں مسلمانوں کا اجماع بھی اس کا واضح ثبوت ہے اور یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں کہ عقد متعہ آنحضرتؐ کے زمانے میں مباح تھا۔ مگر بعد میں حرمت و تنسیخ کے دعوے ہونے لگےجو ثابت نہیںکئے جاسکے۔ اور اباحت متفقہ طور پر ناقابل انکار لہٰذا مدعیان نسخ و تحریم کی جانب سے کوئی تسلی بخش جواب ملنا چاہئے ۔ اب اگر وہ ان روایات کو دہراتے ہیں جن میں حکم امتناعی پیغمبر اکرمﷺ کی جانب منسوب ہے۔ تو پھر انہیںیہ سننا پڑے گا کہ اس قماش کی تمام حدیثیں ( بشرطیکہ صحیح بھی ہوں ) اخبار آحاد ہیں جو شریعت کی دنیا میں علم و عمل کا موجب نہیں قرار پاسکتیں اور نہ ایسی روایتوں کی بنیاد پر حقائق ثابتہ سے روگردانی جائز ہے۔ 
 محرمات کے تذکرے کے بعد خداوند عالم اپنی کتاب اقدس میں ارشار فرماتا ہےکہ :وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ ۔(ان عورتوں کےعلاوہ دوسری عورتیں تمہارے لئے جائز ہیں مگر شرط یہ کہ بدکاری نہیں بلکہ عفت اخلاق کی غرض سے زر مہردے کر نکاح کرنا چاہو۔ ہاں جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہو انہیں معینہ مہر ادا کر دو اور مہرکے بارےمیں اگر آپس میں مفاہمت کر لو تو کوئی حرج نہیں ( سورہ نساء،۲۴))
آیۂ وافی ھدایۃ میں بحث طلب لفظ’’ استمتعتم ‘‘ہے جس کے بس دو معنی ہیں: ( ۱) انتفاع (۲) التذاذ۔ دوسرامفہوم لغوی ہے اور پہلا اصطلاحی جس سے مراد وہ موقت اور مخصوص عقد ہے جو مقصود شرع ہے۔ 
اب یہاں لغو ی مفہوم تو قابل اعتناء ہونے سے رہا۔ کیونکہ اصول فقہ کےمطابق مسلمہ قاعدہ یہ ہے کہ اگر قرآن کے کسی لفظ سے دو مطلب نکلتے ہوں ایک لغوی اور دوسرا  وہ جسے شریعت نے رائج کیا ہو تو ایسی صورت میںلغت پر اعتبار نہیں کیا جائے گا ۔ شریعت کی بات ماننا پڑے گی اور یہی وجہ ہے کہ لفظ صلوٰۃ ، زکوٰۃ ، صیام اور حج کے سلسلہ میں کسی فرہنگ پر نہیں بلکہ عرف شرع پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ 
نیز اس سے پہلےصراحت ہوچکی ہے کہ صحابہ و تابعین کا ایک مشہور و معروف گروہ اباحت متعہ کا قائل تھا۔ جیسےامیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ ، عبد اللہ ابن عباس جو اس موضوع پر ابن زبیر سے مناظرے فرماتے رہے۔ اور ان مناظروں کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ نہ صرف زباں زد عام ہوئے بلکہ اس زمانے کے شعراء نے بھی طبع آزمائی کی چنانچہ ایک سخنور کہتا ہے :
اقول للشیخ لما طال مجلسہ یا شیخ ھل لک فی فتویٰ ابن عباس
نیز عبد اللہ ابن مسعود، مجاہد، عطا، جابر ابن عبد اللہ انصاری ، سلمہ ابن الاکوع ، ابو سعید خدری، مغیرہ ابن شعبہ، سعید ابن جبیر اور ابن جریح وغیرہم یہ سب کے سب جواز کا فتویٰ دیتے تھے۔ لہٰذا عقد منقطع کے خلاف جانے والوں کا ادعاء صحیح نہیں ہے۔ (السرائر ۲؍۶۱۸۔۶۲۰)
 ارباب بصیر ت ہی اندازہ لاسکتے ہیںکہ اس  بحث میںکتنی متانت پختگی ، اور قوت پائی جاتی ہے۔ خیر! یہاں تک تو اس موضوع پر صرف دینی اور تاریخی حیثیت سے روشنی ڈالی گئی۔ اب آئیے ذرا اخلاقی اور اجتماعی نقطہ نظر سے بھی جائزہ لیتے چلیں: 
 اسلام دنیا کےلئے بہت بڑی نعمت ثابت ہوا۔ توحید کے رسیلے نغمے امرت بن کر برسے جن سے غم نصیب انسانیت کو بے پایاں سکون حاصل ہوا جس طرح یہ مانی ہوئی بات ہے اسی طرح اس حقیقت کا اعتراف بھی لازم ہے کہ دین مبین ہر زمانے کا ساتھ دیتا ہے۔ ہر وقت کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ نیز عالم بشری کی جملہ ضروریات دنیوی و اخروی کا کفیل اور ہرگونہ فلاح و بہبود کا ضامن ہے۔ آئین رحمت میں زحمت کا سوال ہی نہیں۔ آنکھوں سکھ کلیجے ٹھنڈک ۔ ایک دنیا کیا تمام عالموں کےلئے برکت۔ اسی لئے تو یہ کامل ترین مذہب اور آخر شریعت بننے کا حقدار ٹھہرا۔ کون نہیں جانتا کہ قانون الٰہی نے انسانی معاشرہ کو ایسا سنوارا کہ کسی اور دستور کی حاجت نہ رہی۔ 
اتنا جاننےکے بعد اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا افراد انسانی کو کبھی سفر کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ نفی میں جواب ممکن نہیں کیونکہ مشاہدہ بتلاتا ہے کہ لوگ عموماً سفر کرتے ہیں بلکہ غائر نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ جب سے انسان نے ہوش سنبھالا اور اپنے شعور سے کام لینا شروع کیا ۔ اس وقت سے اس نے اپنی معاش کےلئے جو وسیلے اختیار کئے ان میں سفر کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ مختلف ضرورتیں آدمی کو راہ غربت طے کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ مثلاً تجارت ، ملازمت ، تحصیل علم، یا جنگ اور دفاع وغیرہ اور یہ بھی مسلم ہے کہ مذکورہ اغراض کے سلسلہ میں نوجوان یا کم از کم توانا افراد ہی دور دراز ملکوں کا عزم کرسکتےہیں۔ 
اور کسے نہیںمعلوم کہ اس حکیم مطلق نے بقائے نسل و حفظ نوع کےلئے ہیکل انسانی میںجنسی خواہش بھی ودیعت فرمائی ہے۔ اور یہ بھی ظاہرہے کہ ایک مسافر آدمی عقد دائم کے تقاضے پورے کرنےسے قاصر ہوتا ہے۔ نیز لونڈیوں، باندیوں کی فراہمی بھی آسان نہیں۔ ( آج کل تو ناممکن ہے ) لہٰذا ان حالات میں اس مدت کے بچھڑے ہوئے پردیسی کو کیاکرنا چاہئے جو اتفاق سے نو عمر بھی ہو اور مجبور بھی ؟ بس دو ہی صورتیں ممکن ہیں: ضبط نفس یا بدکاری۔ 
۱:۔ مگر ضبط نفس میں نہ صرف مہلک قسم کی مختلف بیماریاں پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے بلکہ نسل کا منقطع ہوجانا بھی کچھ بعید نہیں۔ا ور یہ منافی حکمت ہے۔ شریعت اسلامی بڑی آسان اور آرام دہ شریعت ہے۔ 
سہولت چاہئے ہے شدت نہیں مقصود(۱۷) دین میں کسی پہلو تکلیف نہیں(۱۸) (قرآن)
۲: جنسی بے راہ روی سے خدا محفوظ رکھے آج دنیا کے بیشتر حصے اس کا خمیازہ بھگت رہےہیں۔ 
 خداگواہ ہے اگر مسلمان صحیح طریقہ سے شرعی قوانین پر عامل پیرا ہوجائیں تو حسب وعدہ خداوندی یہ کائنات ان کےلئے سراپا رحمت بن جائے۔ اور اچھے دن پھرواپس آجائیں۔ 
 متعہ بھی دین اسلام کا ایک سود مند قانون ہے۔ اگر مسلمان اس کے شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے یعنی عقد عدہ اور محافظت نسل پر نظر رکھ کر عمل پیرا ہوتے تو بڑی حد تک بدکاریوں کا انسداد ہوجاتا۔ عزتیں محفوظ رہتیں۔ حلال نسلیں بڑھتیںدنیا ناجائز بچوں سے نجات پاتی اور اخلاقی قدروں کو فروغ حاصل ہوتا۔ ’’لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ‘‘، (اعراف ۹۶)
 رئیس ملت حضرت عبد اللہ ابن عباس کے اس جاودانی قول کی تعریف نہیں ہوسکتی ۔ فرماتے ہیں ’’ متعہ ایک رحمت تھا جس سے خداوند عالم نے امت محمدیہ کو نوازا تھا،ا ور اگر اس سے منع نہ کیاجاتا تو سوائے گئے گزرے لوگوںکے اور کوئی زنا کا مرتکب نہ ہوتا‘‘۔ ( ملاحظہ ہو نہایہ ابن اثیر، ج۲،ص۴۸۸ اور الفائق زمخشری،ج۲،ص۲۵۵)
 ابن عباس کے اس پر مغزبیان میں ان کے جلیل القدر استاد اور مربی کلیم الٰہی امیر المومنینؑ کی تعلیم کے اثرات جھلک رہے ہیں اور حقیقت یہ کہ عالم اسلامی نے اس کی نیکی سےمنہ موڑ کر اپنی بدنصیبی کا سامنا کیا ہے۔ ولا حول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم          

(اصل و اصول شیعہ)
حواشی:
(۱)اس سلسلے میں مختلف اقوال ہیں بعض قائل ہیں کہ یہ مباح تھا پھر خیبر کے دن اس سے روک دیا گیا؛ بعض کا نظریہ ہے کہ یہ مباح تھا فتح مکہ کے سال حرام ہوا؛ تیسرے گروہ کی رائے ہےکہ مباح تھا لیکن حجۃالوداع کے موقع پر حرام ہوا؛ چوتھا نظریہ ہے کہ سال اوطاس میں مباح تھا پھر حرام ہوا۔ اس کے علاوہ بھی نظریات ہیں۔ دیکھیے: صحیح مسلم باب نکاح المتعۃ، مجمع الزوائد،ج۴،ص۲۶۴؛ سنن ابی داؤد،ج۲،ص۲۲۷؛ طبقات ابن سعد، ج۴،ص۳۴۸؛ سنن بیہقی، ج۴،ص۳۴۸؛ مصنف ابن ابی شیبہ،ج۴،ص۲۹۲؛ فتح الباری، ج۱۱،ص۷۳؛ سنن دارمی،ج۲،ص۱۴۰؛ سنن ابن ماجہ،حدیث۱۹۶۲
(۲)۔۔۔۔ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ۔۔۔، سورہ طلاق، آیت۱
(۳) دیکھیے: الجامع لاحکام القرآن، قرطبی،ج۵،ص۱۳۰؛ التفسیر الکبیر، رازی، ج۱۰،ص۴۹؛ سنن البیہقی،ج۷،ص۲۰۷
(۴)وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُم۔۔۔؛ (سورہ نساء،آیت۱۲)۔(ترجمہ:)اور تمہیںاپنی بیویوں کے ترکے میں سے اگر ان کی اولاد نہ ہو نصف حصہ ملے گا اور اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے ترکے میں سے چوتھائی تمہارا ہو گا، یہ تقسیم میت کی وصیت پر عمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی اور تمہاری اولاد نہ ہو تو انہیں تمہارے ترکے میں سے چوتھائی ملے گااور اگر تمہاری اولاد ہو تو انہیں تمہارے ترکے میںسے آٹھواں حصہ ملے گا، یہ تقسیم تمہاری وصیت پر عمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی اور اگر کوئی مرد یا عورت بے اولادہو اور والدین بھی زندہ نہ ہوں اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو بھائی اور بہن میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا، پس اگر بہن بھائی ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی حصے میں شریک ہوں گے، یہ تقسیم وصیت پرعمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی، بشرطیکہ ضرر رساں نہ ہو، یہ نصیحت اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ بڑا دانا، بردبار ہے۔
(۵)دیکھیے: الجامع لاحکام القرآن، قرطبی،ج۵،ص۱۳۰؛ التفسیرالکبیر،ج۱۰،ص۵۰
(۶) دیکھیے: سنن ترمذی،۵؍۵۰؛ سنن بیہقی،ج۷،ص۲۰۶؛ الجامع لاحکام القرآن ،قرطبی،ج۵،ص۱۳۰؛ التفسیر الکبیر، رازی،ج۱۰،ص۵۰؛ المبسوط،سرخسی،۵؍۱۵۲
(۷) دیکھیے: الکشف عن وجوہ القراءات السبع، ج۱،ص۳۷۵؛ الجامع لاحکام القرآن، قرطبی،ج۵،ص۱؛ الکشاف زمخشری، ج۱،ص۴۹۲
(۸)دیکھیے: الکشاف،۲؍۱۲۵ و ۳۳۴؛ الجامع لاحکام ۱۲؍۱۰۲؛ و ۱۸؍۲۸۷؛ الکشاف زمخشری ۳؍۲۴ و ۴؍۴۵۶
(۹) سنن ابی داوود، ج۲،ص۲۲۷؛ سنن بیہقی، ج۴، ص۳۴۸؛ طبقات ابن سعد، ج۴،ص۳۴۸
(۱۰) الجامع لاحکام القرآن قرطبی ۵؍۱۳۰؛ سنن بیہقی ۷؍۲۰۲؛ مجمع الزوائد ۴؍۲۶۴؛ فتح الباری۱۱؍۷۳
(۱۱) صحیح مسلم ۲؍۱۰۲۵؛ سنن بیہقی ۷؍۲۰۲؛ سنن دارمی ۲؍۱۴۰؛ مجمع الزوائد ۴؍۲۶۴
(۱۲) صحیح مسلم ۲؍۱۰۲۵؛ سنن بیہقی ۷؍۲۰۲
 (۱۳)صحیح بخاری ۶؍۲۳؛ نیز دیکھئے: صحیح مسلم ۲؍۹۰۰؍۱۷۲؛ التفسیر الکبیر، رازی ۱۰؍۴۹؛ تفسیر البحر المحیط، ابن حیان ۳؍۲۱۸؛ سنن الکبریٰ، بیہقی ۵؍۲۰
(۱۴)صحیح مسلم۲؍۱۰۲۶؍۲۷؛ سنن بیہقی ۷؍۲۰۵۔
 (۱۵)جامع البیان، طبری ۵؍۹؛ نیز دیکھئے: التفسیر الکبیر، رازی ۱۰؍۵۰؛ تفسیرالبحر المحیط، ابن حیان ۳؍۲۱۸؛ الدرالمنثور ۲؍۱۴۰۔
(۱۶) دیکھئے وسائل الشیعہ، حر عاملی ۲۱؍۵۔۸۰،؛ نیز اس سے متعلق متعدد احادیث نقل کی ہیں مخلتف الفاظ کے ساتھ بھی احادیث ہیں، دیکھئے : الفقیہ ۱؍۴۸؍۹۶
(۱۷) ’’یُرِيدُ اللَّـهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ‘‘، سورہ بقرہ، آیت۱۸۵
(۱۸)’’وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ‘‘ ، سورہ حج، آیت۷۸

منگل، 15 دسمبر، 2020

عظیم عالم و شفیق استاد (مولانا ابن حیدر صاحب قبلہ مرحوم)

 باسمہ تعالیٰ

عظیم عالم و شفیق استاذ

مولانا سید ابن حیدر صاحب قبلہ طاب ثراہ


سید محمد حسنین باقری


عالم دین کا دنیا سے رخصت ہونا حدیث معصومؑ کی روشنی بہت بڑا نقصان ہے جس کی بھرپائی ناممکن ہے :

’’إِذَا مَاتَ الْعَالِمُ ثُلِمَ فِی الْإِسْلَامِ ثُلْمَةٌ لَا یَسُدُّهَا شَیْءٌ إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ۔

’’جب کوئی عالم دنیا سے اٹھتا ہے تو اسلام میں ایسا خلا پیدا ہوتا ہے جسے قیامت تک کوئی دوسری چیز پُر نہیں کرسکتی‘‘۔

عالم کے دنیا سے اٹھنے سے پوری کائنات متاثر ہوتی ہے:موتُ العالِم موتُ العالَم، ’’عالِم کی موت پورے عالَم کی موت ہے‘‘۔

استاذ الاساتذہ استاذ معظم علامہ سید ابن حیدر صاحب قبلہ کی رحلت صرف انکے خانوادے کے لیے نہیں بلکہ ہم سب کے لیے عظیم سانحہ ہے ، مرحوم گوناگوں صفات کے حامل تھے، جامعہ ناظمیہ میں شرف تلمذ حاصل ہوا، اس وقت تو زیادہ استفادہ نہ کرسکا جس کا افسوس ہے ،لیکن ۲۰۰۹ء کے آخر میںحوزہ علمیہ قم سے واپسی پر جب مدرسہ سے وابستہ ہوا اس وقت سے مرحوم کے انتقال تک ان کی بہت سی خصوصیات و صفات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ خوش مزاجی، بذلہ سنجی، متانت، بردباری، تحمل،احساس مسئولیت، رأفت و مہربانی، محبت و شفقت، رواداری، وضعداری وغیرہ انکے خصوصیات تھے۔  

احساس مسئولیت کا یہ عالم تھا کہ رٹائرڈ ہونے کے بعد ، پیرانہ سالی، نقاہت و کمزوری،درد و تکلیف اور دشواری و پریشانی کے باوجود اکثر مدرسہ تشریف لاتے حالانکہ آخر عمر میں ان کے لیے انتہائی سخت تھا پھر کمر کی تکلیف کی وجہ سے بیٹھنا مزید دشوار تھا اس کے باجود تشریف لاتے اور اپنے پورے وقت بیٹھے رہتے ، متعدد مرتبہ جب تکلیف دیکھی تو کہا کہ تشریف لے جائیے آرام فرمائیے تو یہی جواب دیا طلاب کا وقت ہے ہوسکتا ہے کوئی پڑھنے آجائے ۔

صاحب علم اور گوناگوں صفات کے مالک ہوکر بھی نہ کبھی غرور و گھمنڈ، نہ نام و نمود کی فکر، نہ القاب کی تمنا ۔ بلکہ ہمیشہ تواضع و انکساری کادامن تھامے رہے جس کا نتیجہ تھا کہ مخالفین بھی علم و کردار کے معترف تھے۔ ذاکر حسینؑ تھے اللہ نے بھی نام امام حسینؑ پر جو شرف عطا کردیا بظاہر کسی اور کے لیے ناممکن ہے، ۱۳۷۱ھ سے ۱۴۴۱ھ تک ۷۱ سال مسلسل ایک ہی منبر پر عشرہ اولیٰ کو خطاب کرناایک ایسا کارنامہ ہے جو کسی کے لیے آسان نہیں ہے۔

مرحوم کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی اگر معلوم ہوجاتا کہ کہیں گھریلو رشتوںمیں نااتفاقی ،زن و شو میں اختلافات ہیں تو فورا مصالحت کے تیار ہوجاتے، اس پیرانہ سالی میں بھی متعدد واقعات سامنے کے ہیں کہ خود لوگوں کے گھروں تک گئے اور اپنے طور پر کوشش کی کہ مسئلہ حل ہوجائے، ایک واقعہ میرے ساتھ کا بھی ہےزوجین کے درمیان نااتفاقی ہوگئی ، مرحوم درمیان میں پڑے ، ایک دفعہ میرے گھر پر بھی تشریف لائے، اس مسئلہ میں مولانا منظر صادق صاحب قبلہ اور مولانا تقی رضا صاحب قبلہ بھی درمیان میں تھے ، اسی معاملہ میں دوبارہ جب بات بڑھی پھر مرحوم سے گزارش کی گئی آپ تیار ہوگئے اور مذکورہ علماء کے ساتھ ایک گھر پر سب جمع ہوئے ، مرحوم بھی کافی دیر تک بیٹھے رہے ، البتہ مصالحت کی کوشش کے باوجود ہنوز نااتفاقی ہے جو انتہائی قابل افسوس ہے۔ اس سلسلے میں صرف یہ گزارش کرنا ہے کہ اس سوشل میڈیا کے بظاہر ترقی یافتہ دور میں گھریلو نااتفاقیوں کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہے ، جس پر تمام موثر افراد کو سنجیدگی سے غور کرنے اور اس کے راہ حل کی کوشش کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ 

مرحوم نہ کسی کی عیب جوئی کرتے نہ غیبت ، علماء کے سلسلے میں بھی احترام کے قائل تھے، کسی نشست میں اور کسی مجلس میں نہ کسی عالم و ذاکر پر طنز کرتے نہ چھیٹا کشی، نہ کسی شخص کو موضوع بناکر مجلس کو خطاب کرتے ۔ اس لیے کہ ان کے سامنے ائمہ معصومین علیہم السلام کی روایات اور سیرت تھی کہ جب مرد مومن کا احترام لازم ہے تو عالم دین کا احترام بدرجہ اولیٰ لازم و ضروری ہے۔ انتہائی افسوس ہے کہ کوئی اپنے کو علی والا کہہ کر کسی شیعہ علی کی توہین کررہا ہو، اس سے بڑھ کر افسوس یہ ہے کہ علماء کی توہین کو اپنا مشغلہ بنا لیا جائے، اور المیہ تو یہ ہے کہ یہ توہین و اہانت، غیبت و الزام تراشی محبت اہل بیتؑ و ولایت امیرالمومنینؑ کو بہانہ بناکر ہورہی ہو۔ اور قابل تعجب یہ ہے کہ تمام احادیث نگاہوں میں ہونے کے باوجود یہ کام اپنے کو عالم کہنے والوں کی طرف سے ہو۔ جبکہ حدیث معصومؑ ہے: ’’من اہان فقیہا مسلِما لقی اللہ یوم القیامۃ وھوعلیہِ غضبان‘‘ جس نے ایک مسلمان فقیہ کی توہین کی وہ قیامت میں خدا سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ خدا اس کے اوپر غضبناک ہوگا ۔(عوالی اللئالی، ج ۱، ص ۳۵۹۔۱۹)

توہین علماء جہاں خدا کے غضب کا سبب ہے وہیں علما کو حقیر سمجھنے کے لئے بھی معصومین علیھم السلام نے سختی سے منع کیا ہے حتی علماء کو حقیر سمجھنے والے کو کافر کہا گیا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث میں ہے: ’’من احتقر صاحب العلم فقد احتقرنی و من احتقرنی فھو کافر‘‘ جس  نے کسی عالم کو حقیر سمجھا اس نے حقیقت میں مجھے حقیر جانا اور جس نے مجھے حقیر جانا وہ کافر ہے (ارشاد القلوب ؍ص؍۱۶۵۔)  

علماء کی عظمت و احترام کے سلسلے میں رسول اعظم ﷺ کا ارشاد گرامی :  اکرموا العلماء فانھم ورثۃ الانبیاء فمن اکرمھم فقد اکرم اللہ و رسولہ ‘‘ بیشک یہ لوگ انبیاء کے وارث ہیں جس نے ان کا احترام کیا اس نے خدا و رسول کا احترام کیا ( نہج الفصاحۃ ، حدیث ۴۵۹)

حتیٰ عالم کے چہرہ کو دیکھنا عبادت ہے، ’’النظر الی وجہ العالم عبادہ‘‘(بحارالانوار، ج ۱ص؍ ۱۹۵)؛ فرمایا: جس نے علماء کی زیارت کی اس نے میری زیارت کی ،’’من زار العلما فقد زارنی‘‘(کنزالعمال، ح؍ ۲۸۸۸) ؛نیز:جس نے علماء کے ساتھ ہم نشینی اختیار کی وہ میرے ساتھ بیٹھا اور جو میرے ساتھ ہم نشین ہوا گویا وہ خدا کے ساتھ ہمنشین ہوا، ’’من جالس العلما فقد جالسنی و من جالسنی فکانماجالس ربی‘‘( ایضا،ح ؍۵۸۹۳)

امیرالمومنینؑ کا رشاد گرامی ہے:۔ ’’اذا رایت عالما فکن لہ خادما;‘‘ جب کسی عالم کو دیکھو تو اس کے خادم بن جائو(بحارالانوار، ج ۱، ص؍۲۰۴)

جب علماء کا احترام لازم ہے تو اہانت و بے احترامی جائز نہیں ہے۔اس بڑھ کر تہمت و الزام تراشی، غیبت و بدگوئی تو یقینا حرام اہل بیتؑ کی ناراضگی کا سبب ہے۔ معاملہ تو اتنا اہم ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی عمل سے ایسا ظاہر ہو کہ انہیں حقیر سمجھا جا رہا ہے اس بات کے پیش نظر علماء کی خدمت میں تواضع و انکساری کے ساتھ جانے کا حکم دیا گیا ہے ۔حدیث میں ہے ’’تواضعوا لعالم وارفعوہ۔۔  عالم کے سامنے تواضع اور فروتنی کا اظہار کرو اور اس کے مرتبہ کو بلند رکھو ( الفردوس جلد ۲؍ص؍۴۵؍ح ۲۲۶۳)۔

علماء کی توہین کا ہمیں حق نہیں ہے ، اسی لیے حتی ان سے بےجا جرّ و بحث سے بھی منع کیا گیا ہےامام رضا علیہ السلام کا ارشاد ہے :’’لاتمارینّ العلماء ‘‘ علماء کے ساتھ مجادلہ اور بحث نہ کرو ،(الاختصاص ،ص ۲۴۵)

امام علی ؑ علماء کے حق کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ان من حق العالم ان لا تکثر علیہ بالسوال ولا تعنتہ فی الجواب و ان لا تلح اذا کسل۔۔۔۔‘‘عالم کا ایک حق یہ ہے کہ اسے اپنے سوالوں کے جال میں پھنسانے کی کوشش نہ کرو،اسے جواب دینے میں زحمت میں نہ ڈالو،جب وہ تھکا ہوا نڈھال ہو تو کسی بات پر اس سے اصرار نہ کرو ۔۔۔ آگے بھی حدیث میں ہے کہ اس کے راز فاش نہ کرو ، اسکی غلطیوں اور خطائوں کی ٹوہ میں نہ رہو ۔۔۔۔۔(جامع البیان ، العلم ، ۱۲۹)

حتی اگر کسی عالم نے ہماری کسی بات کا جواب دیا اور ہم اس سے مطمئن نہیں ہوئے تو اس عدم اطمینان کے اظہار کے لئے بھی شایستہ الفاظ کا انتخاب ضروری ہے یہ حق کسی کو نہیں ہے کہ ایک عالم جب کوئی بات کہے اور وہ ہمارے منشا کے مطابق نہ ہو یا ہمارے لئے اطمینان آور نہ ہو تو ہم اس کے سامنے دس دوسرے علماء کی بات رکھیں اور اسکا دوسروں سے تقابل کرتے ہوئے کہیں حضور آپ تو یہ کہتے ہیں فلاں عالم کا نظریہ اس بارے میں یہ ہے اور فلاں صاحب یہ فرماتے ہیں فلان دوسرے عالم تو آپ کے بالکل خلاف یوں کہتے ہیں! چنانچہ روایت میں ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : ’’کسی عالم کے سامنے بہت زیادہ یہ نہ ہو کہ ’’قال فلان و قال فلان خلافا لقولہ ‘‘ فلاں کا کہنا یہ ہے اور فلاں تو آپ کے برعکس یہ کہتے ہیں ( اصول کافی جلد ؍۱ص؍ ۷َ۳)

کریم پروردگار کی بحق اہل بیتؑ دعا ہے کہ مرحوم کو جوار معصومینؑ عطا فرمائے، ہم سب کو علوم آل محمدؐ سے آراستہ ہونے، علماء کا احترام کرنے، صحیح ولایت کو پہچان کر اس کے تقاضوں کا پورا کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ 


حکیم امت ڈاکٹر کلب صادق طاب ثراہ

باسمہ تعالیٰ

حکیم امت ڈاکٹر کلب صادق طاب ثراہ

سید محمد حسنین باقری

باسمہ تعالی

حکیم امت 

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام :
و العُلَماءُ باقونَ ما بَقِيَ الدَّهرُ ، أعيانُهُم مَفقودَةٌ ، و أمثالُهُم فِي القُلوبِ مَوجودَةٌ 
 صاحبان علم زمانہ کی بقا کے ساتھ زندہ رہنے والے ہیں ، اگرچہ ان کے جسم نظروں سے اوجھل ہو گئے لیکن ان کی یادیں ، انکے آثار دلوں پر نقش ہیں ۔ 
(نہج البلاغہ، حکمت ۱۴۷)
حکیم اور ڈاکٹر کا کام مرض کی تشخیص اور اس کا مداوا ہے، محترم ڈاکٹر کلب صادق نقوی اس ذات کا نام ہے جس نے امت کے مرض کو سمجھا اور اس کے علاج کے لیے جو کرسکتے تھے اس میں دریغ نہیں کیا۔ اگر انھیں حکیم امت کہا گیا تو انھوں نے اس لقب کی لاج رکھی اور ملک و قوم کے مرض کو تشخیص دیتے پوری عمر اس کے علاج میں صرف کردی۔ 
یہ حقیقت ہے کہ جہالت و غربت فرد کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں اور ملک و قوم کو بھی، علم واقتصاد ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ فطرت انسانی والے الٰہی دین، اسلام نے جہالت و غربت کے خاتمے کے لیے تاکید بھی کی اور محمد و آل محمد علیہم السلام کی شکل میں عملی نمونے بھی پیش کیے۔ مرحوم کلب صادق صاحب کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ انھوں نے اسلام کے اس اساسی پیغام کو اپنا مشن بنا لیا اور ملک و قوم سے غربت و جہالت کے خاتمے کے لیے جو کر سکتے تھے انھوں نے کیا۔
علمی میدانوں میں ان کے بے لوث خدمات کے گواہ یونٹی ، مدینۃالعلوم اور ارا میڈکل کالج ہیںاور اقتصادی میدان میں توحید المسلمین ٹرسٹ ہے۔
قابل ذکر ہے کہ انھوں نے قوم کے لیے اپنے کو جوانی ہی سے وقف کردیا تھا، آج بھی بہت سے گواہ موجود ہیں کہ عالم جوانی ہی سے ان کے اندر کچھ کرنے کا نہ صرف جذبہ و حوصلہ تھا بلکہ عملی کوششیں شروع کردی تھیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے بہت سے خدمات اکثریت ناواقف ہے لیکن جو سامنے ہے وہی کم نہیں ہے۔
 اگر انھوں نے اسلامی اصول پر عمل کرتے ہوئے وقت کی پابندی اپنی پہچان بنائی جو ہر انسان کے اندر ہونا چاہیے ۔اور ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ پہچان آسان تھی  اس سلسلے میں ابتداء میں انتہائی سخت اور حساس مرحلے سے بھی گزرے، بعض ایسے بھی مواقع آئے کہ وقت کی پابندی ناممکن یا بہت دشوار تھی لیکن انھوں نے سب کچھ برداشت کرتے ہوئے اپنے اصول سے پیچھے ہٹنا گوارا نہیں، اور اتنی پابندی کی کہ ہر جگہ ہر پروگرام میں ہر شخص کو معلوم تھا کہ اگر کلب صادق صاحب کا نام ہے تو جس وقت کا اعلان ہے پروگرام اسی وقت شروع ہوگا۔
اسی طرح انھوں نے اتحاد بین المسلمین ہی نہیں بلکہ اتحاد بین المذاہب کی بھی کوشش کی اور اس سلسلے میں اپنے حساب سے ہر اقدام کیا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اختلاف و جھگڑے کسی کے حق میں نہیں ہوتے جبکہ اتحاد و بھائی چارہ فرد و گروہ ، ملک و قوم اور مذہب و ملت سب کے حق میں مثبت اثرات رکھتا ہے۔ اگر تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ہر دور میں طاغوت اور شیطان صفت افراد اپنے غیر انسانی مقاصد کے لیے اختلاف و جھگڑے کا سہارا لیتے ہیں ، ’’قوموں کو لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ یہ شیطانی حربہ ہمیشہ اور ہر جگہ استعمال ہوتا ہے، لیکن اس کے مقابل اسلام کا آفاقی پیغام اتحاد و بھائی چارہ اور میل جول کارہا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسلام تمام انسانوں کی بھلائی چاہتا اور تمام نوع بشر کو ہر طرح کے نقصانات سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے ، اس کے لیے تمام احکامات کے ساتھ اس نے اختلاف و جھگڑے سے روکتے ہوئے آپسی میل جول اور اتحاد و بھائی چارہ کو لازم قرار دیا ہے۔ مولانا ڈاکٹر کلب صادق صاحب نے اتحاد کے لیے ہر کوشش کی، اور ملک و قوم سے نفرتوں کو مٹانے کے لیے نہ صرف زبانی بلکہ عملی اقدامات کیے۔
مرحوم کا اہم کارنامہ قوم و ملت سے غربت و جہالت کے خاتمہ کو اپنا مشن بنالینا ہے۔ اقتصادی میدان میں بھی ابتدائے جوانی سے شہر میں مختلف امور انجام دیتے رہے، گھروں گھروں جاکر ضرورتوں کو سمجھنا اور حتی الامکان اس کے لیے کوشش کرنا، لوگوں کو کاروبار کرنے کے لیے سہارا دینا، سود جیسے حرام عمل سے بچانے اور لوگوں کو نقصان سے محفوظ رکھنے کے لیے سامان گروی رکھ کر قرض دینے کا سلسلہ شروع کرنا، پھر توحیدالمسلمین ٹرسٹ کی شکل میں ایک مضبوط ادارہ قائم کرکے مختلف شکلوں میں لوگوں کی مدد کرنا ایسے خدمات ہیں جنھیں برسوں یاد رکھا جائے گا۔تعلیمی میدان میں بھی ان کے عملی اقدام اظہر من الشمس ہیں ،۔
ضرورت یہی ہے کہ ان بنیادی مسائل کو سب ملکر اپنا مشن بنائیں ، اسلام کے آفاقی پیغام قوم کو ترقی یافتہ دیکھنا ، اس کے لیے علمی اور اقتصادی میدانوں میں جو کوشش کرسکتے ہیں وہ کوشش کریں ۔ بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اپنے درمیان سے جہالت اور غربت کے خاتمے کو اپنا مشن بنایا جائے ۔ اور شائد مرحوم کو صحیح خراج عقیدت یہی ہو کہ ان کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے جو بھی جتنا کرسکتا ہو وہ کرے۔

حضرت فاطمہ زہرا علیہاالسلام کی فضلیت و برتری جناب مریم سلام اللہ علیہا پر

 باسمہ تعالیٰ

حضرت فاطمہ زہرا علیہاالسلام کی فضلیت و برتری جناب مریم سلام اللہ علیہا پر

 آیت کی روشنی میں 

سید محمد حسنین باقری


آیت(وَ إِذْ قالَتِ الْمَلائِكَةُ يا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفاكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفاكِ عَلي‏ نِساءِ الْعالَمِينَ) (آل عمران، آیت۴۲)کے سلسلے میں وضاحت:

۱۔ اس آیت میں عالمین سے مراد تمام زمانے نہیں ہیں بلکہ خاص زمانہ ہے،جس کی دلیل مندرجہ ذیل روایات ہیں ۔

الف: سیوطی نے اپنی تفسیر میں عبدالرزاق اور عبد بن حمید کے ذریعہ قتادہ سے نقل کیا ہے کہ : ہر زمانہ کے لیے ایک عالَم ہے۔(الدر المنثور فی تفسیر المأثور،جلال الدین سیوطی، جلد ۱، صفحہ ۶۸، کتابخانہ آیت الله مرعشی نجفی، قم، ۱۴۰۴ھ)

ب: فخر رازی نے اس آیت ’’انی فضلتکم علی العالمین‘‘ (میں نے تم کو عالمین پر فضیلت عطا کی ہے ) یہ آیت پیغمبر کو شامل نہیں ہے، کہا ہے: بنی اسرائیل کو اپنے زمانے کے  لوگوں پر فضیلت و برتری حاصل ہےلیکن پیغمبرؐ اس زمانے میں نہیں تھے اور جس زمانے میں موجود نہیں تھے لہذا آپؐ کا شمار عالمین میں نہیں ہوگا اس لیے کہ معدوم شیٔ کا شمار عالمین میں نہیں ہوتا۔( مفاتیح الغیب،فخرالدین رازی ابوعبدالله محمد بن عمر، ج۲، ص۴۴۴، دار احیاء التراث العربی، طبع سوم، بیروت،۱۴۲۰ھ)(لہذا یہ آیت حضرت فاطمہ کو بھی شامل نہیں ہوگی یعنی حضرت فاطمہ پر جناب مریم کی فضیلت اس آیت سے ثابت نہیں ہوگی)

ج: اسحاق بن بشر اور ابن عساکر نے ابن عباس سے اس آیت’’ و  اصطفاک علی نساء العالمین‘‘ کے سلسلے میں نقل کیا ہے کہ اس آیت کا مطلب ہے: ’’تم کو چنا ہے تمہارے اپنے زمانے کےلوگوں پر۔(تفسیر در منثور، ج۲،ص۲۴)

  ۲۔ اہل سنت کی روایات میں آیت کی تخصیص:(کہ جناب مریم صرف اپنے زمانے پر فضیلت رکھتی ہیں اور حضرت فاطمہ تمام زمانوں پر)

الف: اس آیت کے ضمن میں ’’ وَ أَنِّی فَضَّلْتُکُمْ عَلَى الْعالَمِینَ» [سورہ بقرہ، آیت ۴۷ و ۱۲۲] کہ خداوند عالم بنی اسرائیل سے فرمایاتا ہے:ہم نے تم کو عالمین پر برتری عطا کی کسی مسلمان کو اس میں شک نہیں کہ یہ آیت پیغمبر کو شامل نہیں ہے جبکہ بظاہر یہ آیت عام ہے۔جب پیغمبر کو شامل نہیں ہے تو اس کی عمومیت ختم ہوگئی۔

سیوطی نے اپنی تفسیر میں عبدالرزاق اور عبد بن حمید کے ذریعہ قتادہ سے و انی فضلتکم علی العالمین کے سلسلے میں نقل کیا ہے کہ وہ اپنے زمانے کے لوگوںپر فضیلت ہیں۔ (در منثور،ج۱،ص۶۸)

 فخر رازی نے اس آیت کے سلسلے میں کہا کہ اپنےزمانے کے لوگوں پر فضیلت رکھتی ہیں۔(مفاتیح الغیب، ج۳، ص۴۸۴)

ب. وَ اصْطَفاکِ عَلى‏ نِساءِ الْعالَمِینَ» [سورہ آل عمران، آیت ۴۲]  کے سلسلے میں اہل سنت کے نظریات:

سیوطی نے اپنی تفسیر میں اس آیت  «عَلى‏ نِساءِ الْعالَمِینَ»  کے سلسلے میں لکھا کہ اپنے زمانے کی امت پر [تفسیر در منثور،ج۲،ص۲۴]

ایک اور اہل سنت مفسر نے لکھا کہ : خدا وند عالم نے جناب عیسی کی ماں(مریم ) کو منتخب کیا اور انھیں پاک قرار دیا اور انھیں اپنے زمانے کی عورتوں پر فضیلت عطا کی(تفسیر وسیط، سید محمد طنطاوی،ج۲،ص۱۰۱)

۳۔عالمین کی عورتوں پر فضیلت جناب مریم سے مخصوص نہیں ہے یہ برتری تو دیگر خواتین کو بھی حاصل ہے جیسا کہ پیغمبر کی مشہور حدیث ہے جسے انس ابن مالک نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ نے فرمایا: دنیا کی عورتوں میں فضلیت رکھنے والی چار خواتین ہیں: مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزحم زوجہ فرعون، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت رسول اللہ۔ (فتح القدیر،  محمد بن علی شوکانی، ج۱، ص۳۹۰، دار ابن کثیر، دار الکلم الطیب، طبع اول، دمشق، بیروت،۱۴۱۴ھ؛ تفسیر ابن کثیر دمشقی، تحقیق: محمد حسین شمس الدین، ج۲، ص۳۴، دار الکتب العلمیہ، منشورات محمد علی بیضون،طبع اول، بیروت،۱۴۱۹ھ ؛مستدرک الصحیحین ج 3 باب مناقب فاطِمَہ ص 171/ سیر أعلام النبلاء ج 2 ص 126/ البدایہ والنھایہ ج 2 ص 59/ مناقب الإمام علی لابن المغازلی ص 363.)

جبکہ آیت تطہیر اور آیہ مباہلہ و دیگر آیات کی روشنی میں حضرت فاطمہ زہراؑ کو تمام کائنات پر فضیلت حاصل ہے۔

اس کے علاوہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی جناب مریم علیہا السلام پر برتری و فضلیت کے لیے دیگر امور میں بطور اشارہ:

۱۔ خاندانی شرافت۔ ۲۔ پیغمبرؐ جیسا باپ۔ ۳۔ علیؑ جیسا شوہر۔ ۴۔ حسنینؑ جیسے بیٹے۔ ۵۔ ولادت کے وقت خواتین کا حاضر ہونا

۶۔ آسمانی نام(جناب مریم کا نام ماں نے رکھا ’’انی سمیتھا مریم‘‘ جبکہ حضرت فاطمہ نام خدا نے رکھا)۔ ۷۔ پیغمبرؐ جیسا کفیل و سرپرست 

۸۔ جائے تربیت۔ (حضرت مریم کے لیے؛ ’’کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَکَرِیَّا المِحْرَابَ‘‘ اور حضرت فاطمہؑ کے لیے:’’فِی بُیُوتٍ اَذِنَ اللّه ُ أنْ تُرفَعَ وَ یُذکَرَ فِیهَا اسْمُهُ...‘‘) ۹۔ مقام ولایت الٰہی ۔ ۱۰۔ حضرت فاطمہؑ کی نسل میں امامت کا ہونا۔ ۱۱۔ کوثر کے ذریعہ خطاب۔ ۱۲۔ میدان محشر کے سلسلے میں پیغمبر کی روایات

۱۳۔ نبیؑ جیسی ذات کا کھڑے ہونا(صحیح ترمذی وغیرہ)

۱۴۔ حضرت فاطمہ کی خوشی کو رسولؐ و خدا کی خوشی قرار دینا اور حضرت زہرا کی ناراضگی کو رسولؐ و خدا کی ناراضگی قرار دینا(پیغمبرؐ کی متفق علیہ روایات )

۱۵۔یہ حدیث حضرت فاطمہ ؑ کے سلسلے میں : ’’فاطمة سيدة نساء أهل الجنة‘‘(کنز العمّال ج13 ص94/ صحیح البخاری، کتاب الفضائل، باب مناقب فاطمہ/ البدایہ والنھایہ ج 2 ص61)

۱۶۔ متفق علیہ حدیث ’’فاطمۃ بضعۃ منی‘‘۔ ۱۷۔ إنّما سمّیت فاطمة لأنّ الله عزّوجلّ فطم من أحبّها من النّار»(مجمع الزوائد : 9/201)

مریم از یک نسبت عیسی عزیز از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز

نور چشم رحمة للعالمین آن امام اولین و آخرین

بانوی آن تاجدار ’’ہل اتے‘‘ مرتضی مشکل گشا شیر خدا

مادر آن مرکز پرگار عشق مادر آن کاروان سالار عشق

مزرع تسلیم را حاصل بتول مادران را اسوۂ کامل بتول

رشتۂ آئین حق زنجیر پاست پاس فرمان جناب مصطفی است

ورنہ گرد تربتش گردیدمی سجدہ ہا بر خاک او پاشیدمی (علامہ اقبال)

ترجمہ:حضرت مریمؑ تو حضرت عیسٰیؑ سے نسبت کی بنا پر عزیز ہیں جبکہ حضرت فاطمہ الزاھرہؑ ایسی تین نسبتوں سے عزیز ہیں۔ پہلی نسبت یہ کہ آپؓ رحمتہ للعالمینﷺ کی نورِنظر ھیں، جو پہلوں اور آخروں کے امام ہیں۔ دوسری نسبت یہ کہ آپؓ " ہل اتی " کے تاجدار کی حرم ھیں۔ جو اللہ کے شیر ہیں اور مشکلیں آسان کر دیتے ہیں۔ تیسری نسبت یہ کہ آپؓ اُن کی ماں ہیں جن میں سے ایک عشقِ حق کی پرکار کے مرکز بنے اور دوسرے عشقِ حق کے قافلے کے سالار بنے۔ حضرت فاطمہؓ تسلیم کی کھیتی کا حاصل تھیں اور آپ مسلمان ماوں کے لئے اسوہ کامل بن گئیں۔ اللہ تعالٰی کی قانون کی ڈوری نے میرے پاوں باندھ رکھے ہیں۔ رسول اللہﷺ کے فرمان کا پاس مجھے روک رہا ہے، ورنہ میں حضرت فاطمہؓ کے مزار کا طواف کرتا اور اس مقام پر سجدہ ریز ہوتا۔

مَہر فاطمی

باسمہ تعالیٰ


مَہر فاطمی

سید محمد حسنین باقری


شادی کے واجبات میں مَہر ہے جس کی ادائیگی شوہر کے لیے لازم ہے۔ ہر وہ چیز جو ملکیت کے قابل ہو اسے مہر قرار دیا جا سکتا ہے چاہے وہ پیسہ ہو یا زمین، مکان و غیرہ ہو یا منفعت، یا کسی چیز کی تعلیم دینا ہو جیسے کسی فن کی تعلیم یا قرآن کی تعلیم وغیرہ ... یہ سب مہر قرار پا سکتے ہیں ۔ مہر کی مقدار کا تعین طرفین کی رضایت پر منحصر ہے ، اس کے لئے کوئی خاص مقدار معین نہیں کی گئی ہے جس پر دونوں راضی ہوں وہ مہر ہوسکتا ہے۔البتہ مستحب یہ ہے کہ اس کی مقدار مہر فاطمی سے زیادہ نہ ہو ۔(تحریر الوسیلہ، امام خمینیؒ، فصل فی المھر، م 1؛ استفتاءات،امام خمینیؒ، ج‌3، ص 177، ؛ منھاج، آیت الله سیستانی، ج 3، م 286؛ منھاج آیۃ اللہ خوئیؒ و آیۃاللہ وحید، م 1352؛ جامع المسائل، آیت الله بہجتؒ، ج 4، ص 50، م 1 ؛ الاحکام الواضحہ، آیت الله فاضلؒ، م 1728.)

امیرالمومنین علیہ السلام نے حضرت فاطمہ سلام اللہ سے شادی کے وقت جو مہر ادا فرمایا تھا اُسے ’’مہر فاطمی‘‘ کہا جاتاہے۔ حضرت امیرؑ نے عقد نکاح سے پہلے ہی اپنی زرہ بیچ کر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مہر ادا فرمایا جو کہ روایات کے مطابق چار سو سے پانچ سو درہم کے درمیان تھا ، لیکن پانچ سو درہم والی روایت مشہور اور قوی تر ہے ۔ (الھدایۃ الکبری، ، حسین بن حمدان خصیبی، ص 115۔ مناقب ابن شہر آشوب، ج۳، ص۳۵۰، ۳۵۱، کنزالعمال، ج۱۳، ص۶۸۰)۔

امام علی رضاؑ کی حدیث کے مطابق حق مہر کی سنت، کہ جو مہرالسنہ کے نام سے مشہور ہے، وہ ۵۰۰  درہم معین ہوا تھا۔ ( بحار الانوار، ج۹۳، ص۱۷۰، روایت ۱۰) 

۵۰۰  درہم ۱۲۵۰  سے ۱۵۰۰  گرام چاندی بیان کی گئی ہے۔(یعنی کم از کم ایک کلو ڈھائی سو گرام چاندی یا اس کی قیمت مہر فاطمی قرار پائے گا) اور اس زمانے میں ہر دس درہم چاندی ایک دینار سونے کے برابر تھی، اور مہرالسنہ(حق مہر) تقریباً ۱۷۰تا ۲۲۳ گرام سونا بنتا ہے۔ یہ مقداربھی درہم اور دینار کے وزن مختلف ہونے کی وجہ سے، مختلف ہے۔ ( جواہر الکلام، ج۱۵، ص۱۷۴-۱۷۹۔ توضیح المسائل مراجع، ج۲، ص۱۲۹)  امام علیؑ نے حق مہر کی ادائیگی کے لئے زرہ، بھیڑ کا چمڑا، یمنی کرتا یا اونٹ ان میں سے کوئی ایک چیز فروخت کی تھی(مشہور زرہ ہے)۔ جب رقم پیغمبرؐ کو دی تو آپؐ نے اس رقم کو گنے بغیر کچھ رقم بلال کو دی اور فرمایا: اس رقم سے میری بیٹی کے لئے اچھی خوشبو خرید کر لے آؤ! اور باقی بچی رقم ابوبکر کو دی اور فرمایا: اس سے کچھ گھر کی اشیاء جن کی ضرورت میری بیٹی کو ہو گی وہ تیار کرو۔ پیغمبرؐ نے عمار یاسر اور کچھ اور صحابہ کو بھی ابوبکر کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ حضرت زہراءؑ کے جہیز کے لئے کچھ اشیاء تیار کریں۔(ویکی شیعہ)

( مشہور یہ ہے کہ مہر میں سے ساٹھ درہم کا جہیز دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اولاً جہیز دینا غلط نہیں ہے،ہاں جہیز کا مطالبہ یا اس کی تمنا غلط بھی ہے اور شرافت انسانی کے خلاف بھی۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جب پیغمبر ﷺ نے پانچ سو درہم مہر میں سے ۶۰ درہم(یعنی مہر کا ۱۲ فیصد) کا جہیز دیا تو اب اگر کوئی جہیز کی تمنا رکھتا ہو تو اتنا مہر دے کہ اس کے ۱۲ فیصد کا جہیز لے!)    

ایک حدیث میں یہ بھی وارد ہے کہ: حضرت فاطمہ نے اپنے پدربزگوار سے چاہا کہ ان کا مہر قیامت کے دن امت کے گنہ گاروں کی شفاعت قرار دیںاور جبرئیل امین نے اس کا حکم آسمان سے پیغمبر ﷺ تک پہنچایا۔( احقاق الحق،قاضی نور الله شوشتری، ج۱۹، ص۱۳۱۔ الاسرار الفاطمیہ، محمد فاضل مسعودی، ج۱، ص۱۷۸)

کتاب ’’معانی الاخبار‘‘ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک حدیث کے مطابق: ’’ مَا تَزَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ ص شَیْئاً مِنْ نِسَائِهِ وَ لَا زَوَّجَ شَیْئاً مِنْ بَنَاتِهِ عَلَى أَکْثَرَ مِنِ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ أُوقِیَّةً وَ نَشٍّ وَ الْأُوقِیَّةُ أَرْبَعُونَ دِرْهَماً وَ النَّشُّ عِشْرُونَ دِرْهَماً‘‘ پیغمبر اکرم ﷺ نے اپنی تمام ازواج اور اپنی بیٹیوں کا مہر بارہ اَوقیہ اور نشّ سے زیادہ معین نہیں فرمایا۔ اوقیہ چالیس درہم کا اور نشّ بیس درہم کا ہوتا ہے۔ (بارہ اوقیہ اور ایک نش ، پانچ سو درہم کا ہوگا)۔

ایک شرعی درہم چاندی کی مقدار 12.6  چنے کے برابر ہے اور پانچ چنے ایک گرام کے بتائے گئے ہیں اس اعتبار سے ہر شرعی درہم کی قیمت 5.2 گرام چاندی ہوگی( استفتائات،آقای بہجت، ج۴، ص۳۶. ادب حضور،ابن طاووس، ص۱۴۳) ، ناپ تول کے اعتبار سے ہر شرعی درہم چھ دانق کے برابر اور ہر دانق آٹھ متوسط جَو کے برابر ہے( الأوزان والمقادیر،عاملی بیاضی، ص۲۲)۔ اس حساب سے ہر شرعی درہم اس درہم کے برابر ہے جس کا وزن ۴۸ دانہ جَو کے برابر ہو( الأوزان والمقادیر، عاملی بیاضی، ص۲۲)۔ شرعی درہم کو آدھا مثقال چاندی کے برابر بیان کیا گیا ہے( موسوعہ کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم،تھانوی، ج۱، ص۷۸۴)۔ 

اسلام میں شرعی درہم چاندی کے سکہ والے درہم کے علاوہ ہے( موسوعہ کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم، ج۱، ص۷۸۴)۔ اس لیے کہ چاندی کے سکے کا ممکن ہے کوئی بھی وزن ہو، لیکن شرعی درہم کا وزن معین ہوتا ہے(دیکھیے: موسوعہ کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم،تھانوی، ج۱، ص۷۸۴)۔ جیساکہ شرعی دینار کا وزن بھی معین ہے جو زمانہ جاہلیت سے چودھویں صدی تک ایک ہی رہا ہے(دیکھیے: الأوزان والمقادیر، عاملی بیاضی، ص۵۱)۔ اور محققین نے اس کو   265.4 گرام وزن سونے کے سکے کے برابر قرار دیا ہے۔( فرھنگ فقہ،ہاشمی شاہرودی، ج۳، ص۶۸۶)( ویکی شیعہ)۔ 

حضرت فاطمہ زہراؑ کے اسماء و القاب

باسمہ تعالیٰ

حضرت فاطمہ زہراؑ کے اسماء و القاب

سید محمد حسنین باقری


پیغمبر اکرمﷺ کی عظیم الشان بیٹی کے لیے اسم گرامی ’’فاطمہ‘‘ کا انتخاب اس لئے ہوا کہ خداوند عالم نے آپ کواور آپ سے محبت کرنے والوں کو آتش دوزخ سے دور رکھا ہے،جیسا کہ ختمی مرتبت ﷺ نے فرمایا: إنَّما سُمِّيَت ابنَتي فاطِمَةُ لأنَّ اللّه َ عزّ و جلّ فَطَمَها وفَطَمَ مَن أحَبَّها مِنَ النَّارِ.(أمالی شیخ طوسی، ص ۳۰۰ )یا اس لئے کہ آپ کی حقیقی معرفت تک کسی عام انسان کی رسائی ناممکن ہے:قال الصادقؑ: اِنَّما سُمّیتْ فاطمۃ لانّ الخَلْق فُطِمُوا عَن مَعْرِفَتِھا۔ (تفسیر فرات کوفی،ص۵۸۱؛ بحار۴۳؍۶۵)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنی جدہ ماجدہ کے ناموں کے سلسلے میںفرمایا:’’ لِفاطمۃَ تِسعۃُ اَسمائٍ عندَ اللہِ عزّوجلّ : فاطمۃ، والصدیقۃ والمبارکۃ  والطاہرۃ والزکیۃ والرضیۃ والمرضیۃ والمحدثۃ والزہرائ‘‘ (بحار الانوار ، جلد ۴۳ ، صفحہ ۱۰، از املی شیخ صدوق و علل والشرائع)

’’حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے خداوند عالم کے نزدیک ۹ نام ہیں: فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ، زکیہ، راضیہ، مرضیہ، محدثہ، زہرا‘‘۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نام و القاب اور کنتیں کثرت سے کتابوں میں بیان ہوئی ہیں۔ اختصار کے پیش نظر بعض کو فہرست وار بیان کیا جارہا ہے:  

(۱)ام الائمہ(اماموں کی ماں)؛(۲)ام ابیہا(اپنے باپ کے لیے ماں جیسی محبت کرنے والی اور ماں جیسا خیال رکھنے والی)؛(۳) امینہ(امانت دار الٰہی) ؛(۴) انسیہ(تمام نوع انسانی کے لیے نمونہ عمل اور تمام انسانی کمالات و نیک صفات کی حامل ذات)؛ (۵) بتول(ماہانہ عادت سے پاک )؛ (۶) تقیہ(تقویٰ و پرہیزگاری میں جس کی نظیر نہ ہو)؛(۷)جلیلہ(جلالت و عظمت والی)؛(۸)جمیلہ(خوبصورت)؛(۹)حانیہ(بہت زیادہ مہربان)؛ (۱۰)حبیبہ(حبیب خدا کی چہیتی)؛(۱۱) حُرّہ(آزاد خاتون)؛(۱۲)حَصانہ(عفیف و پاکدامن)؛(۱۳)حکیمہ(صاحب حکمت)؛ (۱۴)حنانہ(مہربانی و بخشش کرنے والی)؛(۱۵) حوراء(حوروں کی طرح خوبصورت)؛(۱۶) حوراء انسیہ(انسانی کی شکل میں حور)؛(۱۷)حوریہ(جنتی حوروں کی صفات کی حامل)؛ (۱۸)دُرَہ(ایک موتی)؛ (۱۹)راکعہ(بارگاہ الہی میں کثرت سے رکوع کرنے والی)؛ (۲۰)راوفہ(مہربان)؛ (۲۱)رحیمہ(رحم کرنے والی)؛ (۲۲)رشیدہ(خداوند عالم کی طرف سے ہدایت شدہ،راہ حق و صداقت میں ثابت قدم رہنے والی اور دوسروں کی ہدایت کرنے والی)؛ (۲۳تا ۲۵) راضیہ،رضیہ، مرضیہ(تقدیر الہی پر راضی رہنے والی ، خدا جس سے راضی ہو، جس کی مرضی خدا کی مرضی ہو )؛(۲۶) ریحانہ(جس سے جنت کی خوشبو آتی ہو)؛(۲۷)زاہدہ(پرہیزگار)؛(۲۸)زکیہ(پاکدامن، بابرکت وجود)؛(۲۹)زہرا(نورانی، درخشندہ)(۳۰)زُہرہ(بہت زیادہ نورانی اور روشن)؛ (۳۱)ساجدہ(بارگاہ خدا میں کثرت سے سجدہ کرنے والی)؛(۳۲)سعیدہ( خوش بخت اور سعادت مند)؛(۳۳)سلیلہ(بیٹی)؛(۳۴)سماویہ(قیمتی آسمانی گوہر)؛ (۳۵)سیدہ(سردار)؛(۳۶)سیدۃ نساءالعالمین(تمام کائنات کی عورتوں کی سردار)؛ (۳۷)شریفہ(صاحب فضل و شرافت)؛ (۳۸)شفیقہ(مہربان)؛ (۳۹)شہیدہ(راہ خدا میں، ولایت کے دفاع میں شہید کی جانے والی)؛ (۴۰)صابرہ(راہ خدا میں ڈھائے جانے والے مصائب پر صبر کرنے والی)؛ (۴۱ تا ۴۳) صادقہ،صدوقہ، صدّیقہ(جس کی صداقت کی گواہی خدا نے دی ہو، بہت زیادہ سچی)؛(۴۴)صفیہ(برگزیدہ)؛(۴۵)صوامہ؛(۴۶)طاہرہ(پاکیزہ، بےعیب، معصوم)؛ (۴۷) طیبہ(پاک و پاکیزہ)؛(۴۸)عابدہ(عبادت گزار)؛ (۴۹)عارفہ(معرفت خدا رکھنے والی)؛ (۵۰)عالمہ؛(۵۱)عالیہ(بلند و اعلیٰ درجہ کی حامل)؛ (۵۲) عدیلہ(طہارت و پاکیزگی میں جناب مریم کی عدیل و ہم پلہ)؛ (۵۳) عذرا(ہمیشہ پاک و کنواری)؛ (۵۴) عزیزہ(عزت نفس کو محفوظ رکھنے والی، خدا کے نزدیک صاحب عزت)؛(۵۵)عطوفہ(مہربان)؛ (۵۶)عفیفہ(پاکدامن)؛ (۵۷)عقیلہ(معیار عقل)؛ (۵۸) علیمہ(بہت زیادہ علم و دانش رکھنے والی)؛ (۵۹)فاضلہ(تمام فضائل و کمالات کی حامل)؛ (۶۰) فریدہ(گوہر کی طرح بے نظیر، پیغمبرؐ کے بعد بے یاور و مددگار)؛ (۶۱)فہیمہ(سمجھدار و ہوشیار)؛ (۶۲)قانتہ(مطیع و فرمانبردار )؛ (۶۳)قانعہ(قناعت کرنے والی)؛ (۶۴)قوامہ؛ (۶۵) کریمہ(کرم اور جود و سخا کرنے والی)؛ (۶۶) کوثر(خیر کثیر)؛(۶۷)کوکب(روشن ستارہ کی طرح )؛ (۶۸)مبارکہ(بابرکت وجود)(۶۹)مبشّرہ( اولیائے الٰہی کو خوشخبری دینے والی)؛(۷۰)مجتہدہ؛(۷۱)محترمہ؛ (۷۲)محتشمہ؛(۷۳)محدثہ(فرشتے جس سے گفتگو کریں) (۷۴) محمودہ(لائق تعریف)؛ (۷۵)مریم کبریٰ(مریم سے برتر)؛ (۷۶) مطہرہ(ظاہری اور باطنی طور پر پاک و طاہر)؛(۷۷) معصومہ(گناہوں سے پاک)؛(۷۸)معظمہ؛ (۷۹)مکرمہ؛ (۸۰) ملہمہ(جس پر خدا کی طرف سے الہام ہوتا ہو )؛ (۸۱)ممتجبہ؛ (۸۲)ممتحنہ(جس کا امتحان لیا گیا ہو اور وہ اس میں کامیاب رہے)؛ (۸۳) منصورہ(قیامت کے دن اپنے محبوں کی مدد کرنے والی، خدا کی جانب سے جس کی مدد ہو)؛ (۸۴)منیرہ؛(۸۵) موفقہ(جسے توفیق الٰہی حاصل ہو)؛ (۸۶)مہدیہ(خدا کی طرف سے ہدایت یافتہ)؛(۸۷) مومنہ(خدا و روز قیامت پر ایمان رکھنے والی)؛ (۸۸) ناعمہ(خوش و خرم، قیامت کے دن خوشحال چہرے کے ساتھ اپنے محبوں کے ہمراہ جنت کی طرف جانے والی)؛ (۸۹) نقیہ(پاک دامن اور باعفت خاتون )؛(۹۰)نوریہ(نور کا وجود)۔ (۹۱) والہہ(شدت رنج و غم سے حیران ہوجانے والی)؛ (۹۲) وحیدہ(وفات پیغمبرؐ کے بعد تنہا اور بے یاور مددگار ہوجانے والی)۔

 حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے دیگر القاب ابن شہر آشوب کے نزدیک:

 ’’ الصدیقۃ بالاقوال؛ والمبارکۃ بالاحوال؛ والطاھرۃ بالافعال؛ والزکیۃ بالعدالۃ؛ الرضیۃ بالمقالۃ؛ المرضیۃ بالدلالۃ؛ والمحدثہ باشفقۃ؛ والحرۃ بالنفقۃ؛ والسیدۃ بالصداقۃ؛ و الحصان بالمکان؛والبتول فی الزمان؛والزھرا بالاحسان؛مریم الکبریٰ فی الستر؛ و فاطم باسر و فاطمۃ بالبر والنوریۃ بالشہادۃ؛ والسماویۃ بالعبادۃ؛ والحانیۃ باالزھادۃ والعذراء بالولادۃ؛ الزاھدۃ الصفیۃ العابدۃ الرضیۃ المرضیۃ الراضیۃ؛ المجتھدۃ الشریفۃ؛ القانتۃ العفیفۃ؛ سیدۃ النسوان؛ والحبیبۃ حبیب الرحمن؛ والمحتجبۃ عن خزان الجنان ابنۃ خیر المرسلین و قرۃ عین سیدہ الخلایق اجمعین؛ وواسطۃ العقدین سیدات النساء العالمین؛ و المتظلمۃ بین ذی العرش یوم الدین؛ ثمرۃ النبوۃ، و ام الائمۃ؛ والزھرۃ فوائد شفیع الامۃ الزھراء المحترمۃ والغراء المحتشمۃ المکرمۃ تحت القبۃ الخضراء؛و الانسیۃ الحوراء و البتول العذراء؛سیدۃ النساء ( ای سیدتھن)؛ وارثۃ سید الانبیاء و قرینۃ سید الاوصیاء، الصدیقۃ الکبریٰ؛راحۃ روح المصطفی، حاملۃ البلویٰ من غیر فزعٍ ولا شکوی؛وصاحبۃ شجرۃ طوبیٰ؛ و من انزل فی شانھا و شان زوجھا و اولادھا سورۃ ھل اتیٰ؛ ابنۃ النبی؛ و صاحبۃ الوصی؛ ام السبطین؛ وجدۃ الائمۃ؛و سیدۃ نساء الدنیا و الآخرۃ؛زوجۃ المرتضیٰ؛ ووالدۃ المجتبی؛ و ابنۃ المصطفی؛ السیدۃ المفقودۃ الکریمۃ المظلومۃ من کل شر؛ المعلومۃ بکل خیرالمنعونۃ فی الانجیل؛الموصولۃ بالبر و التبجیل؛ درۃ صاحب الوحی والتنزیل؛ جدھا الخلیل؛ و مادحھا الجلیل؛ و خاطبھا المرتضیٰ بامر المولیٰ جبرئیل۔ (فاطمہ زہرا بہجت قلب مصطفیٰ ، ج ۱، ص ۲۳، از المناقب ، ج ۳، ص ۳۵۷، و ۳۵۸)

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے مزید القاب علامہ حلیؒ کے نزدیک:

 سلسلۃ النبوۃ؛ رضیعۃ در الکرم الابوۃ؛ و درۃ صدف الفخار؛ و غرۃ شمس النھار؛ و ذبالۃ مشکوٰۃ الانوار؛ و صفوۃ الشرف والجود ؛وواسطۃ قلادۃ الوجود؛نقطۃ دائرۃ المفاخر؛قمر ھالۃ المآثر؛ الزھرۃ الزھرا؛والغرۃ الغراء العالیۃ المحل ؛ الحالۃ فی رتبۃ العلاء السامیۃ ؛ المکانۃ المکینۃ فی عالم السماء المضیئۃ النور؛المنیرۃ الضیاء المستغینیۃ باسمھا عن حدھا ووسمھا؛قرۃ عین ابیھا؛ قرار قلب امھا؛ الحالیۃ بجواہر علاھا؛العاطلۃ من زخرف دنیاھا؛امۃ اللہ و سید النساء جمال الآباء؛ و شرف الابناء یفخر آدم بمکانھا؛ و یبوح نوح بشدۃ شانھا ؛و یسمو ابراہیم بکونھا من نسلہ ؛ و ینجح اسماعیل علی اخوتہ ؛ اذ ھی فی مفخرا لا مغلب ؛ ولا یباریھا فی مجد الا مونب ؛ ولا یجحدحقھا الا مافون؛ولا یصرف عنہ وجہ اخلاصہ الا مغبون۔ (کشف الغمہ ، ج۱، ص ۴۴۸)

 

شیطان سے دوری کا فلسفہ

 باسمہ تعالیٰ

شیطان سے دوری کا فلسفہ

سید محمد حسنین باقری


حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے خطبہ فدک میں فرمایا:

’’وَأَطْلَعَ الشيْطانُ رَأْسَهُ مِنْ مَغْرِزِهِ، هاتفاً بِكُمْ، فَأَلْفاكُمْ لِدَعْوَتِهِ مُسْتَجيبينَ، وَلِلْغِرَّةِ فِيهِ مُلاحِظِينَ. ثُمَّ اسْتَنْهَضَكُمْ فَوَجَدَكُمْ خِفافاً، وَأَحْمَشَكُمْ فَأَلْفاكَمْ غِضاباً، فَوَسَمْـتُمْ غَيْرَ اِبِلِكُمْ، وَأَوْرَدْتُمْ غَيْرَ شِرْبِكُمْ،‘‘۔(خطبہ فدک)

’’اور شیطان نے کمین گاہ سے اپنا سرباہر نکالااور تمہیں اس نے اپنی طرف دعوت دی اور تم نے بغیر سوچے سمجھے اس کی دعوت قبول کرلی اور اس کا احترام کیا تمہیں اس نے ابھارا اور تم حرکت میں آگئے اس نے تمہیں غضبناک ہونے کا حکم دیا اور تم غضبناک ہوگئے۔ لوگو! وہ اونٹ جو تم میں سے نہیں تھا تم نے اسے با علامت بناکر اس جگہ بیٹھایا جو اس کی جگہ نہیں تھی۔‘‘

شیطان ہمارا دشمن ازلی ہے اس لیے اس کے بارے میں گفتگو ، دشمن کے بارے میں گفتگو ہے جیسا کہ قرآن کہتا ہے:

’’إنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ۔۔۔‘‘(سورہ فاطر، آیت۶)،’’ بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے تو اسے دشمن سمجھو‘‘۔

ایسا دشمن ہے جس کی دشمنی آشکار اور یقینی ہے:

’’۔۔۔ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ‘‘، (یس، آیت ۶۰)

 ’’خبردار شیطان کی عبادت نہ کرنا کہ وہ تمہارا کُھلا ہوا دشمن ہے‘‘۔

اور بہکانے و منحرف کرنے کی قدرت رکھتا ہے یعنی وہ انسانوں کو راہ حق سے راہ باطل کی طرف لےجاسکتا ہے:

’’ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ ‘‘، (سورہ اعراف، ۱۶)

’’میں انھیں گمراہ کرنے کے لیے تیرے سیدھے راستہ پر بیٹھ جاؤں گا‘‘۔

لہذا متوجہ رہنا چاہیے کہ شیطان انسان کے قلب وروح کو بصیرت و آگاہی سے روک سکتا ہے۔اس وقت انسان صحیح راستہ کو نہیں دیکھ سکتا نہ حق کو پہچان سکتا ہےاور صحیح قدم نہیں اٹھا سکتا۔ اور کبھی نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ اس کی آنکھیں شیطان کی آنکھیں، اس کی زبان شیطان کی زبان اور اس کا راستہ شیطان کا راستہ ہوجاتا ہے۔لہذا خیال رکھنا چاہیے کہ جس قلب میں شیطان تخم گزاری کرے وہ قلب ہی نہیں ہے اور ایسا دل بابصیرت نہیں ہوسکتا۔

حضرت علی علیہ السلام اس سلسلے میں آگاہ فرماتے ہیں:

’’اتَّخَذُوا الشَّيْطَانَ لأَمْرِهِمْ مِلَاكاً واتَّخَذَهُمْ لَه أَشْرَاكاً فَبَاضَ وفَرَّخَ فِي صُدُورِهِمْ ودَبَّ ودَرَجَ فِي حُجُورِهِمْ - فَنَظَرَ بِأَعْيُنِهِمْ ونَطَقَ بِأَلْسِنَتِهِمْ - فَرَكِبَ بِهِمُ الزَّلَلَ وزَيَّنَ لَهُمُ الْخَطَلَ فِعْلَ مَنْ قَدْ شَرِكَه الشَّيْطَانُ فِي سُلْطَانِه ونَطَقَ بِالْبَاطِلِ عَلَى لِسَانِه!‘‘۔ (نہج البلاغہ، خطبہ نمبر۷)

’’ان لوگوں نے شیطان کو اپنے امور کا مالک و مختار بنالیا ہے اور اس نے انہیں اپناآلہ کا ر قرار دے لیا ہے اور انہیں کی سینوں میں انڈے بچے د ئیے ہیں اور وہ انہیں کی آغوش میں پلے بڑھے ہیں۔اب شیطان انہیں کی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور انہیں کی زبان سے بولتا ہے۔انہیں لغزش کی راہ پر لگا دیا ہے اوران کے لئے غلط باتوں کو آراستہ کردیا ہے جیسے کہ اس نے انہیں اپنے کاروبارمیں شریک بنالیا ہو اور اپنے حرف باطل کو انہیں کی زبان سے ظاہر کرتا ہو۔‘‘

حضرت فاطمہ علیہاالسلام کی گفتگو میں شیطان کے اعمال کی تشریح

شیطان بھی دوسرے موجودات کی طرح وابستہ اور محدود مخلوق ہے اور بندوں پر مطلق طور پر تسلط و اقتدار ہرگز حاصل نہیںکرسکتا۔ اس کا کام ابتدا میں وسوسہ سے شروع ہوتا ہےلیکن جب انسان اس کی طرف توجہ کرتا اور اس کو قبول کرتا ہے تو شیطان اس کا ہمنشین ہوجاتا اور آہستہ آہستہ اس کو اپنے اختیار میں کرلیتا ہے۔ لہذا یہ خود انسان ہی ہے جو شیطان کو اپنے اوپر مسلط ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ حضرت زہرا علیہاالسلام کی تعبیر میں شیطان کو کچھوے سے تعبیر کیا گیا ہے جو اپنے ہی خول میں گھرا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن جب ماحول کو سازگار دیکھتا ہے تو اس خول سے اپنا سر نکالتا اور سرگرمی شروع کرتا ہے ۔ اسی وجہ سے شہزادیؑ فرماتی ہیں:

 ’’شیطان نے کمین گاہ سے اپنا سرباہر نکالااور تمہیں اس نے اپنی طرف دعوت دی‘‘، ’’وَأَطْلَعَ الشيْطانُ رَأْسَهُ مِنْ مَغْرِزِهِ، هاتفاً بِكُمْ‘‘ ، اور تم نے بغیر سوچے اس کی دعوت قبول کرلی اور اس کا احترام کیا ،’’فَأَلْفاكُمْ لِدَعْوَتِهِ مُسْتَجيبينَ‘‘، تمہیں اس نے ابھارا اور تم حرکت میں آگئے اس نے تمہیں غضبناک ہونے کا حکم دیا اور تم غضبناک ہوگئے۔ ’’وَلِلْغِرَّةِ فِيهِ مُلاحِظِينَ‘‘، جب اس نے تمہارے اندر یہ آمادگی دیکھی تو اس نے تم کو ورغلانے کا ارادہ کیا’’ ثُمَّ اسْتَنْهَضَكُمْ‘‘، اس نے تمہارے قیام اور آمادگی کو دیکھا کہ آسانی سے آمادۂ حرکت ہو ’’ فَوَجَدَكُمْ خِفافاً‘‘، حق کے خلاف تم کو بھڑکایا تاکہ دیکھے کہ تم کتنی جلدی جذبات اور احساسات کا شکار ہوجاتے ہو ’’ وَأَحْمَشَكُمْ فَأَلْفاكَمْ غِضاباً‘‘، نتیجہ یہ ہوا کہ شیطان کامیاب ہوگیا اور تم بجائے اس کے کہ اپنے اونٹ پر نشان و علامت لگاتے دوسروں کے اونٹ پر علامت لگا بیٹھے ’’ فَوَسَمْـتُمْ غَيْرَ اِبِلِكُمْ‘‘، اور ایسی جگہ سے پانی پلایا جو اس کی جگہ نہیں تھی ’’ وَأَوْرَدْتُمْ غَيْرَ شِرْبِكُمْ‘‘۔ 

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی بہترین تعبیریں محسوسات سے معقولات کی طرف جانے جیسی ہیں اور انسان کے بہکنے میں شیطان کے کردار و رول کو بیان کررہی ہیں اور یہ بتا رہی ہیں کہ کس طرح شیطان انسانی مَرکب کی لگام کو اپنے اختیار میں لیتا ہے۔ زندگی میں شیطان کے کردار اور اس کی موقعیت کے سلسلے میں بے توجہی اور بے بصیرتی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کی امامت و خلافت تک غاصب افراد پہنچتے ہیں جس کو دوسرے کے اونٹ پر علامت گزاری اور دوسروں کے گھاٹ سے پانی پلانے سے تعبیر کیا ہے۔

انسان پر شیطان کے مسلط ہونے کے مراحل

شیطان، ماہر و تجربہ کار دشمن ہے جو مہارت و مسلح ہونے کے علاوہ انسان کے بارے میں دقیق و مکمل معلومات رکھتا ہے۔ انسان کی طاقت، امکانات، خواہشات اور احساسات و عواطف کو بخوبی جانتا اور اس کے قوت و ضعف اور کمزوری و طاقت سے بھی آشنا ہے۔لہذا قلب و روح میں نفوذ کے راستوں کو ٹارگیٹ کرتا اور اسی کے مطابق و مناسب آمادگی و حربے استعمال کرتا ہے۔ اس کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ انسان غلط تمنائیں کرے یا دنیا میں غافل کرنے والے کسی کام سے دل لگا بیٹھے، یا حتی خیالات میں کمزوری اور اپنی رفتار میں غفلت کا شکار ہو۔ ایسی صورتوں میں وہ بھی اپنا کام شروع کردیتا ہے اور اپنی پوری طاقت و توانائی کے ساتھ غلط تمناؤں سے فریب کے جال ، وابستگی و دل لگی سے کمین ، ضعیف خیالات سے تاریک گڈھا اور رفتار میں غفلت سے گہرا گڑھا تیار کرکے نتیجہ میں انسان پر ولایت حاصل کرلیتا ہے۔

شیطان کے نفوذ حاصل کرنے کے مراحل جو قدم بقدم وجود میں آتے ہیں، جبتک ایک قدم کامیاب نہ ہو دوسرا قدم وجود میں نہیں ہوتا۔ یہ مراحل مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ وسوسہ پیدا کرنا:

شیطان سب سے پہلے شک و تردید وجود میں لاکر انسان کے باطن میں وسوسہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ جیسا جناب آدمؑ و حوّا کے قصے میں اس طرح کہا:

 ’’جو بھی اس درخت سے کھالے کبھی نہیں مرے گا‘‘۔ ’’فَوسْوَسَ لَھُمَا الشَّیطَان‘‘۔

اور چونکہ انسان جاودانگی چاہتا ہے اس لیے وسوسہ کارساز واقع ہوا۔ پھر اس نے کہا:

’’مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَـٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ‘‘(سورہ اعراف، آیت۲۰)

’’ تمہارے پروردگار نے تمہیں اس درخت سے صرف اس لئے روکا ہے کہ تم فرشتے ہوجاؤ گے یا تم ہمیشہ رہنے والو میں سے ہوجاؤ گے‘‘

۲۔ مرحلہ دعوت:

دوسرے مرحلے میں شیطان کا کام صرف دعوت دینا ہے، وہ انسان پر کسی طرح کا تسلط و اختیار نہیں رکھتا۔ جب وسوسہ ایجاد کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تب دعوت دیتا ہے تاکہ اپنے مقصد کو عملی جامہ پہنائے۔ قرآن کہتا ہے:

’’وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّـهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ مَّا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِيَّ ۖ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ ۗ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ‘‘(سورہ ابراہیم، آیت۲۲)

’’اور شیطان تمام امور کا فیصلہ ہوجانے کے بعد کہے گا کہ اللہ نے تم سے بالکل برحق وعدہ کیا تھا اور میں نے بھی ایک وعدہ کیا تھا پھر میں نے اپنے وعدہ کی مخالفت کی اور میرا تمہارے اوپر کوئی زور بھی نہیں تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں دعوت دی اور تم نے اسے قبول کرلیا تو اب تم میری ملامت نہ کرو بلکہ اپنے نفس کی ملامت کرو کہ نہ میں تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں نہ تم میری فریاد کو پہنچ سکتے ہو میں تو پہلے ہی سے اس بات سے بیزار ہوں کہ تم نے مجھے اس کا شریک بنا دیا اور بیشک ظالمین کے لئے بہت بڑا دردناک عذاب ہے‘‘۔

جب قیامت میں انسان شیطان کو خطاکار قرار دیگا، اس کو مقصر ٹھہرائے گا تو شیطان یہ جواب دے گا جو نقل ہوا۔

۳۔ مرحلہ رفاقت:

وسوسہ و دعوت کے بعد اب نوبت آتی ہے رفاقت کی۔ اس مرحلہ میں وہ کوشش کرتا ہے کہ انسان کو خدا سے دور کرکے اپنے کو خدا کی جگہ بٹھا لے اور انسان کا صمیمی و دائمی دوست بن جائے۔ قرآن کا اعلان ہے:

’’وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَـٰنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ ‘‘(سورہ زخرف، آیت۳۶)

’’اور جو شخص بھی اللہ کے ذکر کی طرف سے اندھا ہوجائے گا ہم اس کے لئے ایک شیطان مقرر کردیں گے جو اس کا ساتھی اور ہم نشین ہوگا‘‘۔

۴۔ مرحلہ شراکت:

اس مرحلہ میں شیطان اموال و اولاد میں انسان کا شریک ہوجاتا ہے اور اپنی چالوں و مقاصد کو اس ذریعہ انسان پر مسلط کرتا ہے اور غافل انسان شیطان کی شرکت سے شیطانی کاموں کو انجام دیتا ہے:

’’وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُم بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِم بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ ۚ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا ‘‘ (سورہ بنی اسرائیل، آیت ۶۴)

’’جا جس پر بھی بس چلے اپنی آواز سے گمراہ کر اور اپنے سوار اور پیادوں سے حملہ کردے اور ان کے اموال اور اولاد میں شریک ہوجا اور ان سے خوب وعدے کر کہ شیطان سوائے دھوکہ دینے کے اور کوئی سچا وعدہ نہیں کرسکتا ہے‘‘۔

۵۔ مرحلہ امر و نہی:

دلوں سے یاد خدا ختم ہوجانے اور شیطان سے قریب ہوجانے کی وجہ سے انسان پر شیطان مسلط ہوجاتا ہے اور اس کو امر و نہی کرنا شروع کرتا ہے:

’’اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنسَاهُمْ ذِكْرَ اللَّـهِ ۚ أُولَـٰئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ ‘‘ (سورہ مجادلہ، آیت۱۹)

’’ان پر شیطان غالب آگیا ہے اور اس نے انہیں ذکر خدا سے غافل کردیا ہے آگاہ ہوجاؤ کہ یہ شیطان کا گروہ ہیں اور شیطان کا گروہ بہرحال خسارہ میں رہنے والا ہے‘‘۔

۶۔ مرحلہ ولایت:

آخری مرحلہ انسانی ہدایت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینا ہے۔ اب وہ چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا ہمیشہ شیطان کا آلۂ کار رہتا ہے اس لیے نور ہدایت سے نکل کر تاریکی و ضلالت میں سیر کرتا ہے۔ جو انسان تاریکی و ضلالت میں سفر کرتا ہے وہ بصیرت و آگاہی کے راستے کو کھو دیتا ہے: 

’’۔۔۔وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ‘‘(سورہ بقرہ، آیت ۲۵۷)

’’اور کفارکے ولی طاغوت ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں میں لے جاتے ہیں یہی لوگ جہّنمی ہیں اور وہاں ہمیشہ رہنے والے ہیں‘‘۔



شہداء زندہ ہیں

 بسم رب الشھداء


شہداء زندہ ہیں

(شہید قاسم سلیمانی و شہید ابومہدی المہندس)

سید محمد حسنین باقری


راہ خدا میں ،حق کے لیے، باطل کے مقابلہ میں ، انسانیت و حق کی حفا ظت اور باطل کو اس کے مشن میں ناکام کرنے کے لیے قربانی کو شہادت کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے شہید کو زندہ کہہ کر نہ صرف اس کی حیات کی گواہی دی ہے بلکہ شہید کو مردہ گمان کرنے یا مردہ کہنے سے بھی منع کیا ہے جس سے شہادت کی عظمت و اہمیت اور شہید کے عظیم درجہ کا اندازہ ہوتا ہے۔ارشاد ہوتا ہے:

’’وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ﴿١٦٩﴾‘‘

’’اور خبردار راہِ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہیں‘‘(سورہ آل عمران، آیت۱۶۹)۔

 دوسری جگہ حکم دیا ہے:’’وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ ﴿١٥٤﴾

 ’’اور جو لوگ راہ خدا میں قتل ہوجاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے۔(سورہ بقرہ، آیت۱۵۴)۔

 ایک جگہ راہ خدا میں جان دینے کو مغفرت و رحمت خدا کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ:

 ’’وَلَئِن قُتِلْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّـهِ وَرَحْمَةٌ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ ﴿١٥٧﴾‘‘۔

 ’’ اگر تم راہِ خدا میں مرگئے یا قتل ہوگئے تو خدا کی طرف سے مغفرت اور رحمت ان چیزوں سے کہیں زیادہ بہتر ہے جنہیں یہ جمع کررہے ہیں (سورہ آل عمران، آیت۱۵۷)۔

 سورہ توبہ میں راہ خدا میں جان دینے کو جنت کی ضمانت اور عظیم کامیابی بتاتے ہوئے ارشاد ہوا ہے:

’’إِنَّ اللَّـهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّـهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿١١١﴾‘‘۔

 ’’بیشک اللہ نے صاحبانِ ایمان سے ان کے جان و مال کو جنّت کے عوض خریدلیا ہے کہ یہ لوگ راہ خدا میں جہاد کرتے ہیں اور دشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور پھر خود بھی قتل ہوجاتے ہیں یہ وعدۂ برحق توریت ,انجیل اور قرآن ہر جگہ ذکر ہوا ہے اور خدا سے زیادہ اپنے عہد کا پورا کرنے والا کون ہوگا تو اب تم لوگ اپنی اس تجارت پر خوشیاں مناؤ جو تم نے خدا سے کی ہے کہ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے‘‘ (سورہ توبہ ، ۱۱۱)۔

 معصومین علیہم السلام نے شہادت کی عظمت اور شہدا کے فضائل کو کثرت سے بیان کیا ہے:

 رسول اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’فَوقُ كُلِّ ذِی‌بِرّ‍ٍ بِرٌّ حتّی یُقتلَ الرّجُلُ شهیداً فی سبیلِ الله‘‘۔

’’ہر نیکی کے اوپر نیکی ہے لیکن جب راہ خدا میں قتل ہوجائے تو اس سے اوپر کوئی نیکی نہیں ہے‘‘(وسائل الشیعہ، ج11، ص10، حدیث 21)۔ 

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: ’’لَیسَ عَنِ الـمَوْتِ مَحیدٌ وَ لا مَحیصٌ. مَن لَم یُقتَلْ ماتَ، إنّ اَفضَلَ الموتِ اَلقَتلُ.و الذی نفس ابن ابی ابیطالب بیده لالف ضربه بالسیف اهون علی من میته علی الفراش.‘‘۔

 ’’اے لوگو! موت سے کسی کو فرار نہیں جو طبعی موت نہیں مرے گا قتل کیا جائے گا۔ اور بہترین موت راہ خدا میں قتل ہونا ہے، اور اس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تلوار کی ہزار ضربیں میرے لیے بستر پر مرنے سے انتہائی آسان ہیں‘‘۔(وسائل الشیعہ، ج11، ص8، حدیث12)۔

ائمہ معصومینؑ نے تو خدا سے دعاؤں میں بھی شہادت کی موت ،حضرت پیغمبرؐ کے پرچم تلے شہادت ، بدترین لوگوں کے ہاتھوں مارا جانا اور شرافت مند ترین موت کی دعا کی ہے.بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ ’’شہید کا شمار قیامت کے دن شفاعت کرنے والوں میں ہوگا‘‘، ’’شہید بغیر حساب و کتاب کے بہشت میں جائے گا’’، ’’قیامت کے دن جو سب سے پہلے بہشت میں داخل ہو گا وہ شہید ہے‘‘۔  ایک حدیث میں رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’ جو اپنی ذات سے ظلم و ستم دفع کرنے کی راہ میں قتل کردیا جائے وہ شہید ہے‘‘۔ (میزان الحکمۃ)

اہل بیت علیہم السلام نے صرف فضیلت ہی بیان نہیں کی بلکہ راہ خدا میں جام شہادت نوش کرکے تمام حق پسندوں کو عملی راستہ بھی دکھا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام حق پسند و حق پرست افراد احقاق حق و ابطال باطل کے لیے، حق کی حفاظت اور باطل سے مقابلے میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں آجاتے ہیں اور امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے اس قول کی عملی تفسیر بن جاتے ہیں کہ ’’ لا أبالي سقطت على الموت أو سقط الموت علي‘‘دفاع حق و خوشنودیٔ خدا کے لیے ’’مجھے موت کی کوئی پرواہ نہیں کہ میں موت پر جا پڑوں یا موت مجھ پر آپڑے‘‘۔ یہ لوگ موت سے ڈرتے نہیں بلکہ موت ان سے ڈرتی ہے۔ ان افراد کی زندگی موت کی تمنا میں گزرتی ہے۔ راہ خدا میں موت کو گلے لگانے کے لیے ہر وقت آمادہ و تیار رہتے ہیں۔

مرد مجاہد، سردار اسلام جنرل شہید قاسم سلیمانی اور مجاہد اسلام شہید ابو مہدی المہندس انھیں مردان خدا میں تھے جنھوں نے دفاع حق اور باطل سے مقابلہ کے لیے موت سے بے خوف ہوکر علی الاعلان دنیا کے بڑے بڑے دہشت گردوں، دشمنان انسانیت اورامریکہ و اسرائیل جیسی ہر ظالم و استعماری طاقت کے سامنے جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں سیسہ پلائی دیوار بن کر اورہر باطل منصوبے کو خاک میں ملاکر یہ ثابت کردیا کہ جس کے دل میں انسانیت کا درد ہوتا ہے ، جو ظلم و بربریت اور ناانصافی سے نفرت کرتا اور راہ حق میں شوق شہادت رکھتا ہے وہ کسی طاقت سے نہیں ڈرتا بلکہ اپنے کو سپر پاور کہنے والی طاقتیں اس کے آگے گھٹنے ٹیکتی ہیں۔

 ۱۹۵۷ء میں کرمان(ایران) میں دنیا میں قدم رکھنے والےجنرل قاسم سلیمانی ان لوگوںمیں تھے جنھوں نے پوری زندگی خدمت خلق میں گزاری، اور اپنے ایمانی جذبہ اور کربلائی درس کو سامنے رکھ کر امریکہ و اسرائیل جیسی ظالم طاقتوں کے انسان مخالف منصوبوں پر پانی پھیرتے رہے۔ اپنی تدبیروں، صلاحیتوں اور ایمانی جذبے کی وجہ سے جنرل قاسم سلیمانی نے اپنی چالیس سالہ مجاہدانہ زندگی میں میدان جہاد میں عملی طور پر ہر استعماری طاقت کا مقابلہ کیا، ایران عراق کی آٹھ سالہ جنگ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے بعد افغانستان، لبنان، شام اور عراق وغیرہ میں دہشت گردوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ چاہے وہ اسرائیل کے خلاف ۳۳ روزہ جنگ میں حزب اللہ کی کامیابی ہو یا شام و عراق میں امریکہ و اسرائیل اور آل سعود کے پروردہ داعشی دہشت گرد وں کو شکست دینا ہو ، قاسم سلیمانی نے ان محاذوں پر باطل کو شکست فاش دیکر استعمار کو نہ صرف ذلیل و رسوا کیا بلکہ ان کے بہت سے ظالمانہ منصوبوں پر بھی پانی پھر دیا۔

 اسی طرح ۱۹۵۴ء میں بصرہ (عراق) میں آنکھ کھولنے والے جمال جعفر ابراہیم جو ابومہدی المہندس کے نام سے مشہور ہوئے انھوں نے بھی اپنی پوری زندگی قوم و ملت کے لئے اور ظالم و باطل سے مقابلے میں وقف کردی۔ صدام سے لیکر ٹرمپ و نتن یاہو تک ہر ظالم و جابر سے برسرپیکار رہے ۔ ایران، کویت اور عراق میں پوری عمر راہ خدا میں جہاد میں گزاردی۔ صدام کے بعد عراق میں ملک و قوم کی حفاظت و ترقی اور دہشت گردوں سے مقابلے کے لیے میدان عمل میں قدم رکھا۔ 

شہید سلیمانی نے لبنان میں حزب اللہ کی عسکری قوت و تربیت، جنوبی لبنان سے اسرائیل کی پسپائی، بالخصوص اسرائیل سے ۳۳ روزہ جنگ، جنگ افغانستان، صدام کے بعد عراق میں سیاسی اور سفارتی فضا کی تشکیل نو، شام کی خانہ جنگی اور عراق و شام میں امریکہ و اسرائیل کے پروردہ داعش سے مقابلے میں اہم کردار ادا کیا۔ داعش سے مقابلے سے پہلے وہ منظر عام پر آنے سے گریز کرتے تھے؛ لیکن ان کی عراق میں موجودگی اور داعش سے نبرد آزمائی کے دوران حکومت ایران نے متعدد بار ان کی عسکری کامیابیوں کی تصاویر کو شائع کیا جس سے ان کی شناخت لوگوں کو ہوئی اور لوگ نہ صرف یہ کہ ان سے متعارف ہوئے بلکہ انہیں چہرے سے پہچاننے لگے۔ یہیں سے ان کی ہردلعزیزی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ میڈیا میں وہ عموماً (Shadow commander) کے لقب سے مشہور تھے۔ شہید سلیمانی واشنگٹن کی نظر میں ایسی شخصیت تھے جن سے امریکی افواج بھی خوف زدہ رہتے تھے۔ جبکہ ایران میں ان کی مقبولیت کی وجہ ان کا مجاہدانہ کردار، خدمت خلق، ایران کے خلاف امریکی پابندیوں اور دباؤ کے امریکا مخالف اقدامات تھے۔

آپ نے اپنی تدبیر اور دور اندیشی پر مشتمل فیصلوں کے سبب، ایران اور اس کے باہر بہت سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی ، صدام کی فوج کے قبضہ سے ایرانی زمینوں کو آزاد کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔اس وقت خود کرمان صوبہ کو آپ کی اشد ضرورت تھی چونکہ یہ صوبہ افغانستان سے ملتا ہے کہ جہاں بہت عرصہ سے منشیات کی کھیتی ہوتی ہے جس کے ایران میں آنے کے خطرات بہت زیادہ تھے اور پھر اسی علاقہ سے منشیات کا یہ سامان بڑے بڑے دلالوں کے ہاتھوں سے گذرتا ہوا ترکی اور یورپ اسمگلنگ کیا جاتا تھا لیکن آپ نے اس غیر قانونی اسمگلنگ کو پوری طرح روکنے کے کامیاب اقدامات کئے اور اس کام کے بعد لوگوں کی نگاہوں میں آپ کی عزت مزید بڑھ گئی۔

آپ کی شجاعت و بہادری اور دہشتگردوں کے مقابل سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ کر کھڑے رہنا اور دشمن کے بیچ جا کر ان کے منصوبوں کا ناکام کرنے کا ہنر اور راہ خدا میں شوق شہادت کو دیکھ کر رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای نے آپ کو ’’ زندہ شہید ‘‘ کے اعزاز سے نوازا تھا ۔اسی طرح عراق میں جنرل سلیمانی کے شانہ بشانہ جہاد میں شریک رہنے والے مجاہد شہید ابو مہدی مہندس سے ایک ملاقات فرمایا تھا کہ میں ہر شب تمہارا نام لیکر دعا کرتا ہوں۔ 

جنرل قاسم سلیمانی کو انکی بے پناہ صلاحیتوں اور دشمن کے مقابلے کامیابیوں کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کے سب سے تجربہ کار جنرل کے طور پر پہچانا جاتا تھا اور ایسا ہوتا بھی کیوں نہ، کیونکہ آپ کی بصیرت ، شجاعت ، بے باکی ، حق و انصاف کے لئے آواز اٹھانے کے ارادے اور مظلومان عالم کی مدد کرنے کے جذبہ نے داعش جیسی خونخوار دہشتگرد تنظیم کو اس خطہ سے نکال باہر کیا ۔ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ داعش(ISI) پورے مشرق وسطیٰ پر قبضہ کرنے کے منصوبہ سے امریکہ، اسرائیل اور آل سعود کے ذریعہ بنائی گئی تھی اور جس کی حمایت مذکورہ ممالک کے علاوہ تمام سامراجی ممالک کھلے عام کررہے تھے۔ جنرل قاسم سلیمانی نے اپنی جان پر کھیل کر شام و عراق سے اس دہشت گرد گروہ کا خاتمہ کرکے نہ صرف اس علاقے بلکہ تمام انسانوں اور تمام ممالک کو اس خونخوار دہشت گروہ سے نجات دلائی۔ اس راہ میں شہید انجینئر ابومہدی کی جانفشانیاں بھی ناقابل فراموش ہیں۔ 

یہ بات تو پوری طرح واضح ہوچکی ہے کہ داعش اور اس سے پہلے اس طرح کی تمام دہشت گرد تنظیموں کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل کا ہاتھ رہا ہے ، ان تنظیموں کے پاس سے امریکہ کے بنے ہتھیاروں کا برآمد ہونا بتاتا ہے کہ پوری دنیا میں دہشت کا ماحول اور لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کرنے کےپیچھے انہیں سامراجی طاقتوں کا ہاتھ ہے اور یہی وجہ ہے جب امریکہ نے خود کو اپنے ہی سازشی جال میں پھنستا ہوا پایا تو اس نے میجر جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس جیسے مجاہدان راہ حق پر ہی دہشتگردی کا الزام لگادیا اور ان پر بہت ساری ناجائز پابندیاں عائد کردیں ۔

ان تمام امریکی بے بنیاد الزامات کے باوجود دونوں نے انسانیت کی خدمت اور دنیا کے سامنے دہشتگردوں کا اصلی چہرہ جو امریکہ، اسرائیل اور سامراجی طاقتیں ہیں، انہیں بے نقاب کرنے کو اپنی سب سے اہم ذمہ داری سمجھا اور اسی راستہ پر چلتے رہے۔

شہید قاسم سلیمانی کی اسی لگن اور انسانیت کی خدمت اور اسلام و ولایت کی اطاعت اور نائب امام و رہبر معظم کی پیروی کو دیکھتے ہوئے آپ کو ’’عصر حاضر کا مالک اشتر‘‘ کہا جاتا تھا جس طرح مالک اشترؓ نے خود کو انسانیت  کے لئے وقف کردیا تھا جس طرح مالک نے اپنی پوری زندگی حق کے دفاع، انسانیت کی خدمت اور دین کے دشمنوں کے ساتھ جنگ میں گذار دی تھی اسی طرح ان کی سیرت کا اتباع کرنے والے اس مجاہد نے اپنی زندگی کا نصب العین  پرچم اسلام کی سربلندی اور انسانیت کی خدمت کو قرار دیا تھا۔شہید قاسم سلیمانی کی انسانی ہمدردی اور خدمت خلق کے گواہ ایران کے علاوہ عراق و شام اور افغانستان وغیرہ بھی ہیں جہاں وہ عوامی خدمت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے اور ہر ضرورت کے وقت عوام کی خدمت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ، صرف یہی نہیں بلکہ راہ حق اور حضرت زینبؑ کے روضے اور دیگر روضہ ہائے مقدسہ کی حفاظت میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء کے یتیم بچوں کے ساتھ بھی قاسم سلیمانی کا رویہ رحم دل باپ کی طرح تھا۔ ہر یتیم بچہ کو اپنی اولاد سے بڑھ کر پیار دیتے اور ایک جنرل ہوکر بھی انتہائی رحم دلی کا مظاہرہ کرتے اور یہ بچے بھی انکو باپ کی طرح سمجھتے تھے جس کے سیکڑوں واقعات زبان زد خاص و عام ہیں۔

شہید سلیمانی کی شجاعت و بہادری اور دشمن کی نگاہ میں رعب و دبدبہ کا عالم یہ تھا کہ بقول مسعود بارزانی جب اربیل (عراق) میں داعشی داخل ہوئے اور شہر ہاتھ سے جانے لگا اس وقت جب تمام ممالک نے مدد طلب کرنے کے باوجود انکار کردیا تو میں نے ایران سے رابطہ کیا ان سے مدد مانگنے پر جنرل سلیمانی اس شہر میں آئے انکے آتے ہی نقشہ بدل گیا۔ داعش پسپا ہوئے۔ جب داعش کے ایک گرفتار شدہ کمانڈر سے پوچھا گیا کہ تم لوگ تو کامیاب ہورہے تھے کیا ہوا کہ اچانک شکست سے دوچار ہوگئے؟ اس نے جواب دیا کہ جب ہم کو معلوم ہوا کہ جنرل سلیمانی یہاں آگئے ہیں تو ہمارے حوصلے پست ہوگئے ہم ان کے خوف کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے۔   

ان کی روحانیت و معنویت کی طرف توجہ کا ایک نمونہ اپنے بیٹے کے نام نصیحتیں ہیں۔ جو آج کے ہر نوجوان کے لیے بھی مشعل راہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں: 

’’مہدی جان! (۱): جتنے لوگ کمال کے درجے تک پہنچے ہیں بالخصوص معنوی کمالات جو خود دنیوی کمالات کی بنیاد اور سبب بھی ہوتا، ان تمام کامیابیوں اور کمالات کا سبب وقت ’’سحر‘‘ ہے۔ وقت سحر کو حاصل کرو۔ تمہاری عمر میں نماز شب کے عجیب و غریب اثرات ہیں۔ اگر چند دفعہ اس کا رغبت کے ساتھ تجربہ کرو تو اس کی لذت سبب بنے گی کہ اس سے تمسک کروگے۔(۲): تمام برائیوں و خرابیوں کی جڑ جھوٹ ہے۔ (۳): بڑوں بزرگوں بالخصوص ماں باپ کے احترام کی عادت ڈالو۔ بغیر شرم محسوس کیے ماں باپ کے ہاتھ چومو۔ یہ کام انکی خوشی کا سبب بھی ہوگا نیز اس کے وضعی اثرات تم پر مرتب ہونگے‘ ‘۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر میجرجنرل قاسم سلیمانی اور انجینئر ابو مہدی جیسے جیالے نہ ہوتے تو آج ہمارے سامنے کئی جنت البقیع ہوتیں ، اس لئے کہ کربلا و نجف میں روضوں سے داعش کی دوری صرف کچھ ہی کیلومٹر رہ گئی تھی۔جبکہ شام و سامرہ میں روضوں کو گھیر لیا تھا۔ یہ رہبر معظم انقلاب اور آیۃاللہ سیستانی کی دور اندیشی، سیاسی بصیرت و راہنمائی اور قاسم سلیمانی اور ابو مہدی جیسے مجاہد تھے جنھوں نے جان کی پرواہ کیے بغیر ان روضوں کو ناپاک ہاتھوں سے محفوط رکھا۔اس لئے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ میجر جنرل قاسم سلیمانی اور انجینئر ابو مہدی جیسوں کے بارے میں خود بھی معلومات حاصل کریں اور اپنے بچوں کو بھی بتائیں تاکہ ہمارے اندر بھی انسانیت کی خدمت ، دین کی مدد اور ظلم و دہشتگردی کے خلاف شجاعت کے ساتھ کھڑے رہنے کا حوصلہ و جذبہ پیدا ہوسکے۔

ساتھ ہی یہ پہلو بھی مد نظر رہے کہ داعش کے خلاف عظیم کامیابی کے بعد جب شہید سلیمانی کی عظمت و منزلت دنیا کے سامنے ظاہر ہوئی تو ایک شخص نے ان کے والد حسن سلیمانی سے سوال کیا کہ آپ نے اپنے بیٹے کی کس طرح تربیت کی کہ آج یہ کارنامے انجام دے رہا ہے؟ انھوں نے جواب دیاکہ میں نے ابتدا ہی سے کوشش کی کہ بچوں کے شکم میں حرام غذا نہ جانے پائے۔ بقول ان کے یہ حلال غذا کا اثر بھی ہے جو آج سلیمانی یہاں تک پہنچے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ شہید سلیمانی وہ مرد مومن تھے کہ شام کو داعش کے چنگل سے آزاد کرانے کے بعد انھوں نے بعض اہل سنت کو خطوط لکھے کہ تم جب اپنے گھروں کو چھوڑ کر جاچکے تھے میں نے کارروائی کے دوران تمہارے گھروں میں بغیر تمہاری اجازت کے قیام کیا اور نمازیں پڑھی ہیں لہذا مجھے حلال کردو۔ کیا اس طرح کی نظیر اہل بیتؑ کے بعد انکے حقیقی چاہنے والوں کے علاوہ کہیں اور مل سکتی ہے؟۔

ایسے مردان خدا اور مجاہدان فی سبیل اللہ ، دنیا کے خونخوار دہشت گردوں کو انکی حیثیت پہچنواکر، ٹرمپ کے حکم سے امریکی فوجوں کے ہاتھوں شب جمعہ ۳ جنوری ۲۰۲۰ء کو بغداد ایرپورٹ سے نکلتے ہی اپنے ساتھیوں  حسین جعفری نیا، شھرود مظفری، ھادی طارمی ،وحید زمانیان، سامر عبداللہ، محمد رضا الجابری، حسن عبدالہادی اور محمد شیبانی کے ہمراہ بزدلانہ حملے میں شہید کردئے گئے۔شنبہ  ۴؍ جنوری کی صبح عراق میں امام موسی کاظم و امام محمد تقی علیہما السلام کی روضے کاظمین سے تاریخی تشییع جنازہ کا ٓغاز ہوا۔ بغداد، کربلا اور نجف میں لاکھوں افراد کی موجودگی میں تشییع جنازہ ہوئی۔۵؍جنوری کو شہیدقاسم سلیمانی ، دیگر ایرانی شہدا اور شہید ابومہدی المہندس کے جنازے ایران پہنچے اسی دن اہواز خوزستان اور مشہد مقدس اور ۶ جنوری کو تہران، قم مقدسہ و جمکران میں دسیوں لاکھ افراد نے تشییع جنازہ میں شرکت کی۔ تہران میں ایک رپورٹ کے مطابق تقریبا ستر سے اسی لاکھ افراد نے رہبر معظم آیۃاللہ خامنہ ای کی اقتدا میں نماز جنازہ پڑھی۔ ۷ جنوری کو شہید ابو مہدی کا جنازہ ایران کے دیگر شہروں میں تشییع ہوتا ہوا عراق کے لیے روانہ ہوگیا جہاں ۸ جنوری کو نجف اشرف میں جوار امیرالمومنینؑ وادی السلام میں سپرد خاک ہوئے۔ اور شہید قاسم سلیمانی کی میت مرقد امامؒ و شاہ عبدالعظیمؑ ہوتے ہوئے آبائی وطن کرمان کے لیے روانہ ہوئی جہاں دسیوں لاکھ افراد نے جنازہ میں شرکت کی ۔ مجمع کی کثرت کی وجہ سے تقریبا ۵۶ افراد جاں بحق بھی ہوگئے۔ ۸؍ جنوری کو علی الصبح کرمان کے گلزار شہداء میں آسودۂ لحد ہوئے۔عاشا سعیدا و ماتا سعیدا۔ 


شہید قاسم سلیمانی اور تمنائے شہادت

 بسم رب الشھداء

شہید قاسم سلیمانی

 اور تمنائے شہادت


سید محمد حسنین باقری


اسلام کی نگاہ میں جان کی حفاظت واجب ہے۔ قرآن کریم نے ’’وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيْكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ‘‘(سورہ بقرہ ۱۹۵) [’’ اور اپنے نفس کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘] کہہ کر اپنے کو نقصان پہنچانے اور خودکشی کرنے سے سختی سے روکتے ہوئے اسے حرام قرار دیا ہے۔ کسی بھی فرد کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنی جان ہلاکت میں ڈالے ۔ حتی اسلام کی نگاہ میں بغیر کسی شرعی سبب کے کسی کو قتل کردینا پوری انسانیت کے قتل کے برابر جرم قرار دیا گیا ہے، اسی لیے ایک انسان کی جان بچانا یا اسے حیات دینا پوری انسانیت کو بچانے اور حیات کے مترادف ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:’’مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ۔۔۔۔‘‘(سورہ مائدہ، ۳۲)[’’جو شخص کسی نفس کو .... کسی نفس کے بدلے یا روئے زمین میں فساد کی سزا کے علاوہ قتل کرڈالے گا اس نے گویا سارے انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے ایک نفس کو زندگی دے دی اس نے گویا سارے انسانوں کو زندگی دے دی‘‘]۔ لیکن اسی اسلام نے نیک مقصد کے لیے، دین اور حق کی حفاظت کے لیے جان دینے کو نہ صرف قابل تعریف گردانا ہے بلکہ اس راہ میں جان دینے کی تاکید اور بعض مواقع پر جان دینے کو واجب و لازم قرار دیا ہے۔ اور راہ حق میں جان دینے کو شہادت کا نام دیکر حیات و زندگی سے تعبر کیا ہے۔ دو آیات میں شہید کو زندہ کہہ کر اس کی حیات کی گواہی دی ہے یہاں تک کہ شہید کو مردہ گمان کرنے یا مردہ کہنے سے بھی منع کیا ہے۔ارشاد ہوتا ہے:’’اور خبردار راہِ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہیں‘‘(سورہ آل عمران، آیت۱۶۹)۔ اور۔ ’’اور جو لوگ راہ خدا میں قتل ہوجاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے۔(سورہ بقرہ، آیت۱۵۴)۔ ایک جگہ راہ خدا میں جان دینے کو مغفرت و رحمت خدا کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ ’’ اگر تم راہِ خدا میں مرگئے یا قتل ہوگئے تو خدا کی طرف سے مغفرت اور رحمت ان چیزوں سے کہیں زیادہ بہتر ہے جنہیں یہ جمع کررہے ہیں (سورہ آل عمران، آیت۱۵۷)۔ سورہ توبہ میں راہ خدا میں جان دینے کو جنت کی ضمانت اور عظیم کامیابی بتاتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: ’’بیشک اللہ نے صاحبانِ ایمان سے ان کے جان و مال کو جنّت کے عوض خریدلیا ہے کہ یہ لوگ راہ خدا میں جہاد کرتے ہیں اور دشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور پھر خود بھی قتل ہوجاتے ہیں یہ وعدۂ برحق توریت ,انجیل اور قرآن ہر جگہ ذکر ہوا ہے اور خدا سے زیادہ اپنے عہد کا پورا کرنے والا کون ہوگا تو اب تم لوگ اپنی اس تجارت پر خوشیاں مناؤ جو تم نے خدا سے کی ہے کہ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے‘‘ (سورہ توبہ ، ۱۱۱)۔

 معصومین علیہم السلام نے شہادت کی عظمت اور شہدا کے فضائل کو کثرت سے بیان کیا ہے: رسول اکرمﷺ:’’ہر نیکی کے اوپر نیکی ہے لیکن جب راہ خدا میں قتل ہوجائے تو اس سے اوپر کوئی نیکی نہیں ہے‘‘(وسائل الشیعہ، ج11، ص10، حدیث 21)۔ امیرالمومنینؑ: ’’اے لوگو! موت سے کسی کو فرار نہیں جو طبعی موت نہیں مرے گا قتل کیا جائے گا۔ اور بہترین موت راہ خدا میں قتل ہونا ہے، اور اس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تلوار کی ہزار ضربیں میرے لیے بستر پر مرنے سے انتہائی آسان ہیں‘‘۔(وسائل الشیعہ، ج11، ص8، حدیث12)۔ امام زین العابدینؑ:’’قتل ہونا تو ہماری عادت ہے اور ہماری کرامت و فضیلت شہادت ہے‘‘(بحار الانوار، ج45، حدیث118)۔ائمہ معصومینؑ نے تو خدا سے دعاؤں میں بھی شہادت کی موت ،حضرت پیغمبرؐ کے پرچم تلے شہادت ، بدترین لوگوں کے ہاتھوں مارا جانا اور شرافت مند ترین موت کی دعا کی ہے.بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ ’’شہید کا شمار قیامت کے دن شفاعت کرنے والوں میں ہوگا‘‘، ’’شہید بغیر حساب و کتاب کے بہشت میں جائے گا’’، ’’قیامت کے دن جو سب سے پہلے بہشت میں داخل ہو گا وہ شہید ہے‘‘۔  ایک حدیث میں رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’ جو اپنی ذات سے ظلم و ستم دفع کرنے کی راہ میں قتل کردیا جائے وہ شہید ہے‘‘۔ (میزان الحکمۃ)

اہل بیت علیہم السلام نے صرف فضیلت ہی بیان نہیں کی بلکہ راہ خدا میں جام شہادت نوش کرکے تمام حق پسندوں کو عملی راستہ بھی دکھا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام حق پسند و حق پرست افراد احقاق حق و ابطال باطل کے لیے، حق کی حفاظت اور باطل سے مقابلے میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں آجاتے ہیں اور امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے اس قول کی عملی تفسیر بن جاتے ہیں کہ ’’ لا أبالي سقطت على الموت أو سقط الموت علي‘‘دفاع حق و خوشنودیٔ خدا کے لیے ’’مجھے موت کی کوئی پرواہ نہیں کہ میں موت پر جا پڑوں یا موت مجھ پر آپڑے‘‘۔ یہ لوگ موت سے ڈرتے نہیں بلکہ موت ان سے ڈرتی ہے۔ ان افراد کی زندگی موت کی تمنا میں گزرتی ہے۔ راہ خدا میں موت کو گلے لگانے کے لیے ہر وقت آمادہ و تیار رہتے ہیں۔

مرد مجاہد سردار اسلام جنرل قاسم سلیمانی انھیں مردان خدا میں تھے جنھوں نے دفاع حق اور باطل سے مقابلہ کے لیے موت سے بے خوف ہوکر علی الاعلان دنیا کے بڑے بڑے دہشت گردوں، دشمنان انسانیت اورامریکہ و اسرائیل جیسی ہر ظالم و استعماری طاقت کے سامنے جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں سیسہ پلائی دیوار بن کر اورہر باطل منصوبے کو خاک میں ملاکر یہ ثابت کردیا کہ جسے شوق شہادت ہوتا ہے اور دل میں شہادت کی تمنا رکھتا ہے وہ کسی طاقت سے نہیں ڈرتا بلکہ اپنے کو سپر پاور کہنے والی طاقتیں اس کے آگے گھٹنے ٹیکتی ہیں۔ جنرل قاسم سلیمانی ان لوگوںمیں تھے جنھوں نے پوری زندگی خدمت خلق میں گزاری، اور اپنے ایمانی جذبہ اور کربلائی درس کو سامنے رکھ کر امریکہ و اسرائیل جیسی ظالم طاقتوں کے انسان مخالف منصوبوں پر پانی پھیرتے رہے۔ اپنی تدبیروں، صلاحیتوں اور ایمانی جذبے کی وجہ سے جنرل قاسم سلیمانی نے اپنی چالیس سالہ مجاہدانہ زندگی میں میدان جہاد میں عملی طور پر ہر استعماری طاقت کا مقابلہ کیا، ایران عراق کی آٹھ سالہ جنگ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے بعد افغانستان، لبنان، شام اور عراق وغیرہ میں دہشت گردوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ چاہے وہ اسرائیل کے خلاف ۳۳ روزہ جنگ میں حزب اللہ کی کامیابی ہو یا شام و عراق میں امریکہ و اسرائیل اور آل سعود کے پروردہ داعشی دہشت گرد وں کو شکست دینا ہو ، قاسم سلیمانی نے ان محاذوں پر باطل کو شکست فاش دیکر استعمار کو نہ صرف ذلیل و رسوا کیا بلکہ ان کے بہت سے ظالمانہ منصوبوں پر بھی پانی پھر دیا۔

 شہید قاسم سلیمانی ۱۱ مارچ ۱۹۵۷؁ء کو کرمان صوبہ کے رابر ضلع کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تربیت ابتداء ہی سے مذہبی ماحول میں ہوئی آپ نے تعلیم کے بعد ہی سے اپنے ملک اور اسلام کی خدمت کرنا شروع کردی تھی ،آپ نے سب سے پہلے ایران کے آبپاشی محکمہ سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا اور پھر اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد  ۱۹۸۰؁ء میں سپاہ پاسداران انقلاب کی قدس برگیڈ میں شمولیت اختیار کی ۔ ۲۲ ستمبر ۱۹۸۰ کو ایران عراق کی آٹھ برس تک چلنے والی جنگ شروع ہوئی ، جس میں آپ نے کرمان صوبہ  کے جوانوں کے سربراہ کے طور پر حصہ لیا اور اس ٹکڑی کے سبھی جوانوں کو آپ نے خود اپنے ہاتھوں سے ٹرینگ دی تھی۔ جنرل قاسم سلیمانی،کرمان صوبہ کی ۴۱ برگیڈ ’’ثار اللہ‘‘ کی سربراہی کرتے ہوئے ایران عراق جنگ کا حصہ بنے جس میں آپ کی خدمات کو دیکھتے ہوئے آپ کو ایران کی ۱۰ اہم شخصیات میں گنا جانے لگا ۔  ۱۹۹۸؁ میں آپ کو قدس برگیڈ کی سربراہی کا عہدہ ملا اور پھر ۲۶ جنوری ۲۰۱۱ کو آپ کے منصب میں ترقی ہوئی اور آپ کو میجر جنرل کا خطاب ملا ۔

شہید سلیمانی نے لبنان میں حزب اللہ کی عسکری قوت و تربیت، جنوبی لبنان سے اسرائیل کی پسپائی، بالخصوص اسرائیل سے ۳۳ روزہ جنگ، جنگ افغانستان، صدام کے بعد عراق میں سیاسی اور سفارتی فضا کی تشکیل نو، شام کی خانہ جنگی اور عراق و شام میں داعش سے مقابلے میں اہم کردار ادا کیا۔ داعش سے مقابلے سے پہلے وہ منظر عام پر آنے سے گریز کرتے تھے؛ لیکن ان کی عراق میں موجودگی اور داعش سے نبرد آزمائی کے دوران حکومت ایران نے متعدد بار ان کی عسکری کامیابیوں کی تصاویر کو شائع کیا جس سے ان کی شناخت لوگوں کو ہوئی اور لوگ نہ صرف یہ کہ ان سے متعارف ہوئے بلکہ انہیں چہرے سے پہچاننے لگے۔ یہیں سے ان کی ہردلعزیزی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ میڈیا میں وہ عموماً (Shadow commander) کے لقب سے مشہور تھے۔ سلیمانی واشنگٹن کی نظر میں ایسی شخصیت تھے جن سے امریکی افواج بھی خوف زدہ رہتے تھے۔ جبکہ ایران میں ان کی مقبولیت کی وجہ ان کا مجاہدانہ کردار، خدمت خلق، ایران کے خلاف امریکی پابندیوں اور دباؤ کے امریکا مخالف اقدامات تھے۔

آپ نے اپنی تدبیر اور دور اندیشی پر مشتمل فیصلوں کے سبب، ایران اور اس کے باہر بہت سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی ، صدام کی فوج کے قبضہ سے ایرانی زمینوں کو آزاد کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔اس وقت خود کرمان صوبہ کو آپ کی اشد ضرورت تھی چونکہ یہ صوبہ افغانستان سے ملتا ہے کہ جہاں بہت عرصہ سے منشیات کی کھیتی ہوتی ہے جس کے ایران میں آنے کے خطرہ بہت زیادہ تھے اور پھر اسی علاقہ سے منشیات کا یہ سامان بڑے بڑے دلالوں کے ہاتھوں سے گذرتا ہوا ترکی اور یورپ اسمگلنگ کیا جاتا تھا لیکن آپ نے اس غیر قانونی اسمگلنگ کو پوری طرح روکنے کے کامیاب اقدام کئے اور اس کام کے بعد لوگوں کی نگاہوں میں آپ کی عزت مزید بڑھ گئی۔

آپ کی شجاعت و بہادری اور دہشتگردوں کے مقابل سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ کر کھڑے رہنا اور دشمن کے بیچ جا کر ان کے منصوبوں کا ناکام کرنے کا ہنر اور راہ خدا میں شوق شہادت کو دیکھ کر آیت اللہ خامنہ ای نے آپ کو ’’ زندہ شہید ‘‘ کے اعزاز سے نوازا تھا ۔

موجودہ دور میں جنرل قاسم سلیمانی کو انکی بے پناہ صلاحیتوں اور دشمن کے مقابلے کامیابیوں کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کے سب سے تجربہ کار جنرل کے طور پر پہچانا جاتا تھا اور ایسا ہوتا بھی کیوں نہ، کیونکہ آپ کی بصیرت ، شجاعت ، بے باکی ، حق و انصاف کے لئے آواز اٹھانے کے ارادے اور مظلومان عالم کی مدد کرنے کے جذبہ نے داعش جیسی خونخوار دہشتگرد تنظیم کو اس خطہ سے نکال باہر کیا ۔ آپ لوگ جانتے ہیں کہ داعش پورے مشرق وسطیٰ پر قبضہ کرنے کے منصوبہ سے امریکہ، اسرائیل اور آل سعود کے ذریعہ بنائی گئی تھی اور جس کی حمایت مذکورہ ممالک کے علاوہ تمام سامراجی ممالک کھلے عام کررہے تھے۔ جنرل قاسم سلیمانی نے اپنی جان پر کھیل کر شام و عراق سے اس دہشت گرد گروہ کا خاتمہ کرکے نہ صرف اس علاقے بلکہ تمام انسانوں کو اس خونخوار گروہ سے نجات دلائی۔ 

یہ بات تو پوری طرح واضح ہوچکی ہے کہ داعش اور اس سے پہلے اس طرح کی سبھی تنظیموں کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل کا ہاتھ رہا ہے ، ان تنظیموں کے پاس سے امریکہ کے بنے ہتھیاروں کا برآمد ہونا بتاتا ہے کہ پوری دنیا میں دہشت کا ماحول اور لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کرنے کےپیچھے انہیں سامراجی طاقتوں کا ہاتھ ہے اور یہی وجہ ہے جب امریکہ نے خود کو اپنے ہی سازشی جال میں پھنستا ہوا پایا تو اس نے میجر جنرل قاسم سلیمانی جیسے مرد مجاہد ہی پر دہشتگردی کا الزام لگادیا اور آپ پر بہت ساری ناجائز پابندیاں عائد کردیں ۔

ان تمام امریکی بے بنیاد الزامات کے باوجود آپ نے انسانیت کی خدمت اور دنیا کے سامنے دہشتگردوں کا اصلی چہرہ جو امریکہ، اسرائیل اور سامراجی طاقتیں ہیں، انہیں بے نقاب کرنے کو اپنی سب سے اہم ذمہ داری سمجھا اور اسی راستہ پر چلتے رہے۔

آپ کی اسی لگن اور انسانیت کی خدمت اور اسلام و ولایت کی اطاعت اور نائب امام و رہبر معظم کی پیروی کو دیکھتے ہوئے آپ کو مالک اشتر زمانہ کہا جاتا تھا جس طرح مالک اشتر نے خود کو انسانیت  کے لئے وقف کردیا تھا جس طرح مالک نے اپنی پوری زندگی انسانیت کی خدمت اور دین کے دشمنوں کے ساتھ جنگ میں گذار دی تھی اسی طرح ان کی سیرت کا اتباع کرنے والے اس مجاہد نے اپنی زندگی  کا نصب العین  پرچم اسلام کی سربلندی اور انسانیت کی خدمت کو قرار دیا تھا۔شہید قاسم سلیمانی کی انسانی ہمدردی اور خدمت خلق کے گواہ ایران کے علاوہ عراق و شام اور افغانستان وغیرہ بھی ہیں جہاں وہ عوامی خدمت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے اور ہر ضرورت کے وقت عوام کی خدمت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ، صرف یہی نہیں بلکہ راہ حق اور حضرت زینبؑ کے روضے اور دیگر روضہ ہائے مقدسہ کی حفاظت میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء کے یتیم بچوں کے ساتھ بھی قاسم سلیمانی کا رویہ رحم دل باپ کی طرح تھا۔ ہر یتیم بچہ کو اپنی اولاد سے بڑھ کر پیار دیتے اور ایک جنرل ہوکر بھی انتہائی رحم دلی کا مظاہرہ کرتے اور یہ بچے بھی انکو باپ کی طرح سمجھتے تھے جس کے سیکڑوں واقعات زبان زد خاص و عام ہیں۔

شہید سلیمانی کی شجاعت و بہادری اور دشمن کی نگاہ میں رعب و دبدبہ کا عالم یہ تھا کہ بقول مسعود بارزانی جب اربیل (عراق) میں داعشی داخل ہوئے اور شہر ہاتھ سے جانے لگا اس وقت جب تمام ممالک نے مدد طلب کرنے کے باوجود انکار کردیا تو میں نے ایران سے رابطہ کیا ان سے مدد مانگنے پر جنرل سلیمانی اس شہر میں آئے انکے آتے ہی نقشہ بدل گیا۔ داعش پسپا ہوئے۔ جب داعش کے ایک گرفتار شدہ کمانڈر سے پوچھا گیا کہ تم لوگ تو کامیاب ہورہے تھے کیا ہوا کہ اچانک شکست سے دوچار ہوگئے؟ اس نے جواب دیا کہ جب ہم کو معلوم ہوا کہ جنرل سلیمانی یہاں آگئے ہیں تو ہمارے حوصلے پست ہوگئے ہم ان کے خوف کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے۔   

ان کی روحانیت و معنویت کی طرف توجہ کا ایک نمونہ اپنے بیٹے کے نام نصیحتیں ہیں۔ جو آج کے ہر نوجوان کے لیے بھی مشعل راہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں: 

’’مہدی جان! (۱): جتنے لوگ کمال کے درجے تک پہنچے ہیں بالخصوص معنوی کمالات جو خود دنیوی کمالات کی بنیاد اور سبب بھی ہوتا، ان تمام کامیابیوں اور کمالات کا سبب وقت ’’سحر‘‘ ہے۔ وقت سحر کو حاصل کرو۔ تمہاری عمر میں نماز شب کے عجیب و غریب اثرات ہیں۔ اگر چند دفعہ اس کا رغبت کے ساتھ تجربہ کرو تو اس کی لذت سبب بنے گی کہ اس سے تمسک کروگے۔(۲): تمام برائیوں و خرابیوں کی جڑ جھوٹ ہے۔ (۳): بڑوں بزرگوں بالخصوص ماں باپ کے احترام کی عادت ڈالو۔ بغیر شرم محسوس کیے ماں باپ کے ہاتھ چومو۔ یہ کام انکی خوشی کا سبب بھی ہوگا نیز اس کے وضعی اثرات تم پر مرتب ہونگے‘ ‘۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر میجرجنرل قاسم سلیمانی اور انجینئر ابو مہدی جیسے جیالے نہ ہوتے تو آج ہمارے سامنے کئی جنت البقیع ہوتیں ، اس لئے کہ کربلا و نجف میں روضوں سے داعش کی دوری صرف کچھ ہی کیلومٹر رہ گئی تھی۔جبکہ شام و سامرہ میں روضوں کو گھیر لیا تھا۔ یہ رہبر معظم انقلاب و آیۃاللہ سیستانی کی دور اندیشی، سیاسی بصیرت و راہنمائی اور قاسم سلیمانی جیسے مجاہد تھے جنھوں نے جان کی پرواہ کیے بغیر ان روضوں کو ناپاک ہاتھوں سے محفوط رکھا۔اس لئے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ میجر جنرل قاسم سلیمانی اور انجینئر ابو مہدی جیسوں کے بارے میں خود بھی معلومات حاصل کریں اور اپنے بچوں کو بھی بتلائیں تاکہ ہمارے اندر بھی انسانیت کی خدمت ، دین کی مدد اور ظلم و دہشتگردی کے خلاف شجاعت کے ساتھ کھڑے رہنے کا حوصلہ و جذبہ پیدا ہوسکے۔

ساتھ ہی یہ پہلو بھی مد نظر رہے کہ داعش کے خلاف عظیم کامیابی کے بعد جب شہید قاسم کی عظمت و منزلت دنیا کے سامنے ظاہر ہوئی تو ایک شخص نے ان کے والد حسن سلیمانی سے سوال کیا کہ آپ نے اپنے بیٹے کی کس طرح تربیت کی کہ آج یہ کارنامے انجام دے رہا ہے؟ انھوں نے جواب دیاکہ میں نے ابتدا ہی سے کوشش کی کہ بچوں کے شکم میں حرام غذا نہ جانے پائے۔ بقول ان کے یہ حلال غذا کا اثر بھی ہے جو آج سلیمانی یہاں تک پہنچے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ شہید سلیمانی وہ مرد مومن تھے کہ شام کو داعش کے چنگل سے آزاد کرانے کے بعد انھوں نے بعض اہل سنت کو خط لکھے کہ تم جب اپنے گھروں کو چھوڑ کر جاچکے تھے میں نے کارروائی کے دوران تمہارے گھروں میں بغیر تمہاری اجازت کے گھر میں قیام کا اور نمازیں پڑھی ہیں لہذا مجھے حلال کردو۔ کیا اس طرح کی نظیر اہل بیتؑ کے بعد انکے حقیقی چاہنے والوں کے علاوہ کہیں اور مل سکتی ہے؟۔

شہید قاسم سلیمانی کا جذبۂ ایمانی و جوش ولا تھا جو مسلسل اپنی شہادت کی تمنا اور ہر ملاقات میں اس کا اظہار کرتے تھے ۔ حتی انھیں آخری ایام میں اس بات کا افسوس بھی تھا کہ ابتک راہ خدا میں شہادت سے میں کیوں محروم ہوں۔ 

 دوسروں سے بھی یہی کہتے کہ میرے لیے شہادت کی دعا کرو۔ جناب زینبؑ کے روضہ کی حفاظت میں ایک شہید ہونے والے کی بیٹی نے جب ایک ملاقات میں بطور ہدیہ انگوٹھی کا مطالبہ کیا تو کہا کہ یہ انگوٹھی دے رہا ہوں لیکن اس شرط پر کہ جب مشہد میں امام رضاؑ کے روضے پر جاؤ تو میرے لیے شہادت کی دعا کرو، مجاہد عظیم حسن نصراللہ نے بھی ایک تقریر میں فرمایا کہ آخری دنوں میں کہتے تھے کہ نہ معلوم کیوں شہادت نہیں نصیب ہورہی ہے اب تو میرا دل بیٹھنے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ رہبر معظم انقلاب نے بھی شہادت سے کچھ عرصہ قبل شہید سلیمانی کی موجودگی میں انھیں زندہ شہید کا لقب بھی دیا تھا اور دعا کی تھی کہ خدا نھیں شہادت نصیب فرمائے ۔البتہ اس اضافہ کے ساتھ ابھی لوگوں کو ان کی ضرورت ہے لہذا ابھی نہیں۔

بالآخر یہ شہادت کی تمنا پوری ہوئی، وہ وقت بھی نزدیک آیا ، آخری دن کی سرگرمیوں کو  لشکر فاطمیون کے ایک کمانڈر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

’’۔۔۔(۲ جنوری ۲۰۲۰ء) صبح 7:45 پر میں (دمشق میں )میٹنگ کے مقام پر پہنچا ۔معمول کے مطابق تمام مقاومت کے رہنما وہاں موجود تھے ۔۸بجے ۔۔۔ اور مقاومت کے عظیم رہنما (جنرل سلیمانی ) وارد محفل ہوتے ہیں ۔۔۔اپنی گفتگو میں سب سے اصرار کررہے ہیں کہ انکی باتوں کو ضرور لکھا جائے۔ہم معمولا حاجی کی باتوں کو لکھا کرتے تھے لیکن اس مرتبہ حاجی کا اصرار تھا کہ ایک ایک نکتے کو لکھا جائے ۔اگلے پانچ سالوں کا منصوبہ بتا رہے تھے ۔ کہ اگلے پانچ سالوں میں ہر مقاومتی گروپ کو کیا کیا فرائض انجام دینے ہیں ۔ ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح کے روابط کو قائم رکھنا ہے ۔۔۔جو لوگ حاجی کے ساتھ رہے ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ میٹنگ کے وقت حاجی بہت سنجیدہ ہوتے تھے اور کسی کو قطع کلامی کی اجازت نہیں دیتے۔  لیکن اس جمعرات کو وہ کسی کو اس طرح روک نہیں رہے تھے فقط اتنا کہہ رہے تھے کہ " جلدی نہ کریں مجھے مکمل کرنے دیں ۔۔۔ظہر کا وقت ہوگیا ۔حاجی نے نماز پڑھی اور جلدی سے کھانا تناول کیا اور میٹنگ کو ادامہ دیا۔۳ بجے میٹنگ کا اختتام ہوتا ہے ۔معمول کے مطابق ہم سب انہیں گھیر لیتے ہیں اور گاڑی کے دروازے تک ان سے باتیں کرتے ہوئے جاتے ہیں اور انہیں وداع کرتے ہیں ۔یہ گاڑی انہیں بیروت لے جانے کیلئے آئی تھی جہاں ان کی سید المقاومہ سید حسن نصر اللہ کے ساتھ میٹنگ تھی ۔۔۔تقریبا ۹ بجے شب حاجی واپس دمشق آتے ہیں ۔انکا ساتھی بتاتا ہے کہ وہ سید حسن نصر اللہ کے ساتھ فقط ایک گھنٹہ بیٹھے ہیں ۔حاجی نے بتایا تھا کہ ہمارا آج عراق جانا طے پایا ہے۔خاموشی چھا جاتی ہے ۔کوئی کہتا ہے: حاجی عراق کے حالات ابھی ٹھیک نہیں ہیں، ابھی جانا مناسب نہیں ہے ۔حاجی مسکرا کر جواب دیتے ہیں: کیا تم مجھے شہادت سے ڈرا رہے ہو ؟شہادت فخر ہے ہمارے لئے۔ مگر آپکا ہم سے جدا ہونا کسی سانحہ سے کم نہیں ہوگا ابھی آپ کی سربراہی میں بہت کچھ انجام دینا ہے ۔ آرام اور کافی اطمینان سے جواب دیا:اگر ایک پھل پک جائے تو مالی کو چاہیے کہ اسے پیڑ سے جدا کرلے، اگر پھل تیار ہوجائے اور اسے توڑا نہ جائے تو خود ہی وہ خراب ہوکر نیچے گر جائے گا، پھر وہاں موجود افراد کی طرف نگاہ کرتے ہیں اور ایک ایک کی جانب اشارہ کر کے کہتے ہیں " دیکھو یہ پک گیا، دیکھو یہ پک گیا ۔ (وہ بغداد کے لیے روانہ ہوگئے)۔۔۔جمعہ کی صبح کا موقع آتا ہے ۔۔۔اور حاجی کی شہادت کی خبر آن پہنچتی ہے (سردار قاسم سلیمانی کو شہید کردیا گیا ہے) ہم دمشق میں موجود انکے استراحت کے کمرے کی جانب دوڑتے ہیں ۔۔۔ایک کاغذ کا ٹکڑا جس پر کچھ تحریر تھا آئینے کے سامنے رکھا ہوتا ہے ۔۔۔‘‘۔جسے بغداد روانگی سے قبل ہی لکھا تھا۔ الفاظ یہ تھے:’’“الهی لا تکلنی”۔اے خدا مجھے اپنا دیدار کرا دے۔اے خدا میں تجھ سے ملنے کیلئے بے تاب ہوں۔وہی دیدار کہ جس کیلئے حضرت موسی کے پاس تاب نظارہ نہ تھا ۔خداوندا مجھے پاک و پاکیزہ قبول فرما۔الحمدلله رب العالمین۔‘‘

جب شب جمعہ۳ جنوری کی رات کو حکومت عراق کی دعوت پر شام سے عراق کے بغداد ایر پورٹ پر اترے وہاں ان کے صمیمی دوست حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر مجاہد ابومہدی المہندس استقبال کے لیے موجود تھے، دونوں گاڑی میں سوار ہوئے دوسری گاڑی میں حفاظتی دستہ کے افراد تھے جنمیں قاسم سلیمانی کے ایرانی ساتھیوں میں حسین جعفری نیا، شھرود مظفری، ھادی طارمی اور وحید زمانیان تھے جبکہ حشد الشعبی کے جوانوں میں سامر عبداللہ، محمد رضا الجابری، حسن عبدالہادی اور محمد شیبانی تھے۔ جیسے ہی یہ لوگ ایرپورٹ سے باہر نکلے امریکہ نے جو عرصہ سے دونوں مجاہدین بالخصوص قاسم سلیمانی کی جان کے درپے تھا، اسرائیل کی پشت پناہی میں ٹرمپ کے ظالمانہ حکم سے رات کی تاریکی میں بزدلانہ حملہ کیا۔ نتیجہ میں قاسم سلیمانی اور ان کے تمام رفقاء موقع ہی پر شہید ہوگئے۔ انا للہ ۔۔۔۔۔

صبح جمعہ ۳ جنوری کو یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح دنیا میں پھیل گئی۔ ۴؍ جنوری کی صبح عراق میں امام موسی کاظم و امام محمد تقی علیہما السلام کی روضے کاظمین سے تشیع جنازہ کا ٓغاز ہوا۔ بغداد، کربلا اور نجف میں لاکھوں افراد کی موجودگی میں تشیع جنازہ ہوئی۔ حرم امیرالمومنینؑ میں آیۃاللہ العظمیٰ شیخ بشیر نجفی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ 

۵؍جنوری کو شہیدقاسم سلیمانی ، دیگر ایرانی شہدا اور شہید ابومہدی المہندس کے جنازے ایران پہنچے اسی دن اہواز خوزستان اور مشہد مقدس اور ۶ جنوری کو تہران، قم مقدسہ و جمکران میں دسیوں لاکھ افراد نے تشییع جنازہ میں شرکت کی۔ تہران میں ایک رپورٹ کے مطابق تقریبا ستر سے اسی لاکھ افراد نے رہبر معظم آیۃاللہ خامنہ ای کی اقتدا میں نماز جنازہ پڑھی۔ اور قاسم سلیمانی کی تمنائے شہادت کا اثر اس وقت بھی نظر آیا جب رہبر معظم نے گریہ کرتے ہوئے نماز جنازہ کی آخری تکبیر میں یہ الفاظ زبان پر جاری کیے::’’ اللهُم اِنک توفیتهُم مُتلطخین بِدمائهم فِی سَبیل رضاک مُستشَهدین بَینَ ایدیهِم مُخلصین فِی ذلک لوَجهکَ الکَریم [خداوندا تو نے اس حال میں ان کی روح قبض کی کہ تیری رضا کی راہ میں اپنے خون میں لت پت تھے اور تیرے سامنے شہید ہوئے تیری ذات کےلیے اے کریم پروردگار تیری راہ میں مخلص تھے.] اللهُم فاعلِ دَرجاتِهم و احشُرهُم مَعَ مُحمدِ و آله الطاهرینَ و الحقنا بِهم و ارزُقنا الشَهادة فی سَبیلک یا مولای[خداوندا پس ان کے درجات بلند فرما اور انہیں محمد و آل محمد کے ساتھ محشور فرما اور ہمیں بھی ان کے ساتھ ملحق فرما اور اے میرے مولی و آقا اپنی راہ میں شھادت کی موت کو ہمارے لیے بھی مقدر فرما.]الحَمدُ اللهِ الذی اکرم المُستشهدینَ فی سَبیله . اَلحمدُ لله الذی رزقنا الشهادة فی سَبیله. اَلحمدُ للهِ الذی رزقنا الجَهاد فی سَبیلِ الاِسلام. [حمد اس خدا کی جس نے اپنی راہ میں شہید ہونے والوں کو کرامت بخشی ۔حمد اس خدا کی جس نے اپنی راہ میں شھادت اور راہ اسلام میں جھاد کو ہماری روزی قرار دیا.]۔

جمکران کے بعد ۷ جنوری کو شہید ابو مہدی کا جنازہ ایران کے دیگر شہروں میں تشییع ہوتا ہوا عراق کے لیے روانہ ہوگیا اور شہید قاسم سلیمانی کی میت مرقد امامؒ و شاہ عبدالعظیمؑ ہوتے ہوئے آبائی وطن کرمان کے لیے روانہ ہوئی جہاں دسیوں لاکھ افراد نے جنازہ میں شرکت کی ۔ مجمع کی کثرت کی وجہ سے تقریبا ۵۶ افراد جاں بحق بھی ہوگئے۔ ۸؍ جنوری کو علی الصبح کرمان کے گلزار شہداء میں آسودۂ لحد ہوئے، جنازہ کے ساتھ جو چیزیں دفن ہوئیں:پرچم روضہ امام حسینؑ، تربت کربلا، انگوٹھی جس کے ساتھ نماز شب پڑھتے تھے اور رہبر انقلاب کی عبا جس پر انھوں نے ۱۴ سال نماز شب پڑھی تھی(اس سے قبل اسی طرح کی ایک عبا شہید احمد کاظمی کو بھی رہبر نے دی تھی)۔عاش سعیدا(و شھیدا) و مات سعیدا(و شھیدا)۔ اللہم ارزُقنی الشَهادة فی سَبیلک یا سیدی۔ وعجّل فی فرج مولانا صاحب الزمان یا مولای۔(ماہنامہ اصلاح۔لکھنؤ،  فروری ۲۰۲۰)

ظظظ