پیر، 19 ستمبر، 2016

حضرت زینب علیہاالسلام

حضرت  زینب علیہاالسلام 
سید محمد حسنین ابقری
۱۵؍ رجب المرجب کی شب یعنی ۱۴ و ۱۵ کی درمیانی شب ۶۲ یا  ۶۵ ہجری میں ثانیٔ زہرا  حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کی شہادت کی تاریخ ہے البتہ بعض دوسری تاریخیں بھی بیان ہوئی ہیں۔ آپؑ کی ولادت با سعادت مدینہ منورہ میں ہوئی ،تاریخ ولادت کے سلسلے میں بھی کتابوں میں مختلف تاریخیں بیان ہوئی ہیں۔مثلاً۵؍ جمادی الاولیٰ۶ھ؁ولادت کی تاریخ بھی بیان کی گئی ہے اس کے علاوہ یکم شعبان المعظم۶ھ؁، ماہ رمضان ۶ھ؁اور ربیع الثانی کا آخری عشرہ۵ یا ۶ یا ۷ ہجری۔(عقیلہ بنی ہاشمؑ، ص۵؛زینب الکبریٰؑ،ص۱۷؛منتخب التواریخ،ص۹۴ و ۹۵؛ریاحین الشریعہ،ج۳،ص۳۳ )
پدر بزرگوار امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام، مادر گرامی صدیقۂ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، نانا رسول اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم،بھائی حسن و حسین علیھما السلام یعنی پنجتن پاک کے عصمتی حصار میں پرورش پانے والی ذات گرامی حضرت زینب سلام اللہ علیہا ہیں۔ پھر یہ عظمت ہی ہے کہ دادا حضرت ابو طالبؑ ، دادی فاطمہ بنت اسدؑ، نانی حضرت خدیجۃ الکبریٰؑ تھیں اور شوہر نامدار جناب عبد اللہ ابن جعفر ابن ابو طالبؑ اور اولادوں میں علی، عون، عباس ، محمد اور ام کلثومؑ بیان کئے گئے جن میں سے عون اور محمد کربلا میں شہید ہوئے۔ 
کنیت:ام عبد اللہ ،ام کلثوم، ام الحسن ہے لیکن آپ کی خاص کنیتیں:ام المصائب،ام الرزایا اور ام النوائب ہیں۔
القاب: عقیلۂ بنی ہاشم، عقیلۃ الطالبین، صدیقۂ صغریٰ(اشارہ ہے ماں کی طرف کہ صدیقہ کبریٰ ہیں اور باپ صدیق اکبر ہیں) ، عصمت صغریٰ، ولیۃ اللہ ، الراضیۃ بالقدر و القضاء ( قضاء و قدر الٰہی پرراضی رہنے والی )،صابرۃ البلوی من غیر جزعٍ ولا شکوی ( بغیر بے تابی ، اور شکایت کے عظیم مصائب پر صبر کرنے والی) امینۃ اللہ، عالمۂ غیر معلمہ ، فھمہ غیر مفھّمہ ، محبوبۃ المصطفیؐ ، ثانیٔ زہرا، (ریاحین الشریفہ ۳/۴۸)
حضرت علیؑ کی نسل سے جناب زینبؑ کی اولادیں زینبی کے نام سے مشہور ہیں۔
رسول خداﷺ نے ولادت کے بعد آپ کا نام زینب رکھا۔ (چودہ ستارے صفحہ ۲۶۶از امام مبین صفحہ ۱۶۴) بروایتے ’زینب‘ عبرانی لفظ ہے جس کے معنی ’بہت زیادہ گریہ کرنے والی‘ کے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ یہ لفظ ’’زین‘‘ اور’’اب‘‘ سے مرکب ہے یعنی ’باپ کی زینت‘ پھر کثرت استعمال سے زینب ہوگیا۔ اس روایت کی روشنی میں اگر غور کیا جائے تو ثانیٔ زہراؑ کی عظمت و مرتبہ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایک طرف مولائے کائناتؑ کی ذات والا صفات جو تمام صفات و کمالات کا نمونہ اور مصداق کامل اور پھر جو ایسی ذات کے لئے زینت بنے !!؟
 ثانیٔ زہراؑ کا یہ کردار و عمل ہی تھا جس کی بنیاد پر علی علیہ السلام جیسے باپ کے لئے زینت قرار پائیں۔ اب ہر چاہنے والی کو سوچنا ہوگا کہ اس کا کردار اور اس کا عمل کیسا ہونا چاہئے!۔ ضروری ہے کہ ہر چاہنے والی کا کردار و عمل ایساہی ہو کہ وہ اپنے دین ، اپنے مذہب، اپنے خاندان، اپنے گھرانے کے لئے باعث زینت بنے باعث ذلت و رسوائی نہ بنے۔ 
حضرت زینب ؑکے سلسلے میں بعض کتابوں نے ایک جملہ لکھا ’’ان الحسینؑ کان اذا زارتہ زینب یقوم اجلالاً لھاوکان یجلسھا فی مکانہ ‘‘کہ جب شہزادی اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے تشریف لاتیں تو آپؑ ان کے احترام میں کھڑے ہوجاتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ جس طرح پیغمبراکرم ﷺ حضرت زہرا علیہا السلام کی عظمت کو بیان کرنے کے یہی عمل انجام دیتے تھے جیسا کہ سنن ابوداوود، حدیث ۵۲۱۲ و صحیح ترمذی حدیث ۳۸۷۲ میں ہے کہ جب بھی حضرت فاطمہؑ ،رسول کریمؐ کے پاس تشریف لاتی تھیں تو آنحضرتؐ کھڑے ہوجایاکرتے تھے اور اپنی جگہ پربٹھاتے تھے۔
شیخ جعفر نقدی نے اپنی کتاب ’’زینب الکبریٰ‘‘ میں یحییٰ مازنی سے نقل کیا ہے کہ میں ایک مدت تک مدینہ میں امیر المومنینؑ کا پڑوسی تھا۔ اسی گھر میں ان کی بیٹی جناب زینبؑ بھی تھیں لیکن خدا کی قسم میں نے کبھی نہ ان کے سائے کو دیکھا اور نہ کبھی ان کی آواز سنی۔ اور جب وہ اپنے نانا کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتیں تو رات کی تاریکی میں نکلتی تھیں۔ امام حسنؑ داہنی طرف ، امام حسینؑ بائیں طرف اور امیر المومنین ؑ آگے آگے ہوتے تھے۔ اور جب قبر مبارک کے نزدیک پہنچتیں تو امیر المومنینؑ آگے بڑھ کر چراغ کو گل فرمادیتے تھے۔ ایک دفعہ امام حسنؑ نے وجہ دریافت کی تو فرمایا: اخشی ان ینظر احد الی شخص اختک زینب  تاکہ تمہاری بہن کے قدو قامت اور پرچھائی پر کسی کی نگاہ نہ پڑ جائے ۔ حضرت زینبؑ نے اپنی چاہنے والیوں کے لئے جہاں ایک طرف حجاب و پردے کا پیغام دیا، وہیں سخت مصائب و مشکلات پر صبر اور اپنے فرائض و ذمہ داریوں کی سخت حالات میں بھی ادائیگی کا درس دیا ہے۔ ایسے سخت حالات اور مصائب و مشکلات میں گھر کر بھی حتیٰ کہ نماز شب کو بھی فراموش نہ کرکے عبادت الٰہی بالخصوص نماز کی اہمیت بتائی۔ پھر امیر المومنینؑ کی ظاہر ی خلافت کے دور میں کوفہ میں خواتین کو درس قرآن و احکام دے کر اگر طرف اس کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کیا تو دوسری طرف یہ بھی ثابت کردیا کہ اولاً عورتوں کے لئے بھی تعلیم ضروری ہے ثانیاً مکمل اسلامی حجاب میں رہتے ہوئے تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے۔ 
جناب زینبؑ نے کربلا اور اس کے بعد کے تمام مصائب وآلام کو برداشت کرنے کے بعد ۱۴؍ رجب کو شام کے ایک باغ میں سر پر ایک شقی کے بیلچہ مارنے کی وجہ سے انتقال کیا۔
کارواں شام کی سرحد میں جو پہنچا سرِ شام
متصل شہر سے تھا باغ، کیا اس میں قیام
دیکھ کر باغ کو رونے لگی ہمشیر امامؑ
واقعہ پہلی اسیری کا جو یاد آیا تمام
حال تغییر ہوا فاطمہؑ کی جائی کا
شام میں لٹکا ہوا دیکھا تھا سر بھائی کا
بنت حیدرؑ گئیں روتی ہوئی نزدیک شجر
ہاتھ اٹھا کر یہ کہا: اے شجرِ بارآور
تیرا احسان ہے یہ بنتِ علیؑ کے سر پر
تیری شاخوں سے بندھا تھا مِرے مانجائے کا سر
اے شجر تجھ کو خبر ہے کہ وہ سر کس کا تھا؟
مالکِ باغِ جناں تاجِ سرِ طوبیٰ تھا
رو رہی تھی یہ بیاں کرکے جو وہ دکھ پائی
باغباں باغ میں تھا ایک شقیٔ ازلی
بیلچہ لے کے چلا دشمنِ اولادِ نبیؐ
سر پہ اس زور سے مارا کہ زمیں کانپ گئی
سر کے ٹکڑے ہوئے، روئیں نہ پکاریں زینبؑ
خاک پر گر کے سوئے خلد سدھاریں زینبؑ
شہزادی زینب کبریٰ ؑ کا روضہ آج شام(دمشق) میں مرجع خلائق ہے،جوکچھ عرصہ سے دشمنان اہل بیت کے حملے کی زد پر ہے،ضروری ہے کہ ہم اس سلسلے میں بارگاہ الٰہی میں دعا کے علاوہ ہر طرح کی کوشش کو بروئے کارلائیں اور دنیا سے ظلم و ستم اور دہشتگردی کے خاتمہ کے لئے ایک ہوں اور مکمل طور پر ظلم و ناانصافی کے خاتمے اور دنیا میں واقعی طور عدل و انصاف قائم ہونے کے لئے نبیٔ رحمتؐ کے آخری جانشین کے ظہور میں تعجیل کیلئے دعا کریں۔
 ٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں