پیر، 19 ستمبر، 2016

تعزیہ اور تعزیہ داری کا جواز

تعزیہ اور تعزیہ داری کا جواز
علامہ سید علی حیدر نقوی طاب ثراہ

تعزیہ بنانا جائز ہے یا نہیں؟مَن جدّد قبراً کا مطلب:
مولوی صاحب:رافضی ایک بت بناکر اس کو تمام گھماتے اور اس کے ساتھ نوحہ و ماتم کو چیخ چیخ کر پڑھتے ہیں اور لوگوں کو سناتے ہیں اس کو تو ہر شخص بت پرستی اور شرک کہے گا!
حسینی بیگم:رافضی بت کیسا اور کب بناتے ہیں؟
مولوی صاحب:کیا تم نہیں جانتیں!یہ جو محرم میں کاغذ اور بانس کی تیلیوں سے بناتے ہیں،کیا ہے؟
حسینی بیگم:وہ تو تعزیہ ہوتا ہے۔حضرت امام حسین علیہ السلام کے روضۂ مبارکہ کی شبیہ!
مولوی صاحب: یہی تو بت ہے،قبر کی شبیہ بنانا اور گھمانا بت پرستی نہیں تو اور کیا ہے؟اور لطف یہ کہ خود ان کی کتابوں میں اس کو منع کیا ہے ان کی بڑی معتبر کتاب ’’من لا یحضرہ الفقیہ‘‘میں خود سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے کہ :’’من جدّد قبرا او مثالا فقد خرج عن الاسلام‘‘ !
حسینی بیگم: تو اس سے تعزیہ بت کیسے ہوجائے گا؟دیکھو ہمارے اور تمہارے  پیشوائے اعظم مولانا وحید الزماں خان صاحب حیدر آبادی نے تحریر فرمایا ہے: ’’من جدّد قبراً ومثالاً فقد خرج عن الاسلام ‘‘جس نے قبر کو نیا کیا اس کی مرمت کی، اس پر گلا وہ یا چونہ کاری کی یا قبر کھود کر اس میں سے لاش نکالی یا مورت جاندار کی بنائی یا بدعت نکالی وہ اسلام سے باہر ہوگیا۔ (انوار اللغۃ پارہ ۵ ص۱۸) 
اس حدیث کا مطلب واضح ہے کہ: (۱) جوشخص تجدید قبر کرے یعنی قبر کھود کر اس میں کسی اور کو دفن کرے۔ (۲) جو شخص کوئی مورت بنائے وہ اسلام سے خارج ہوگیا۔ اور اس پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ قبر کی تجدید کرنی یعنی ایک پرانی قبر میں دوسرے مردے کودفن کرکے اس کو نئی قبر بنانا حرام ہے نہ یہ کہ کسی قبر پر مٹی ڈالنا یا اس کی مرمت کرنا حرام ہو۔ چنانچہ مولانا نے بھی یہی لکھا ہے کہ’’ قبر کو کھود کر اس میں سے لاش نکالے‘‘ پس یہی تجدید قبر کا معنی ہے۔ اور اگر کوئی مطلب ہوتا تو من جدد قبراً نہیں فرماتے بلکہ من اصلح قبراً جو شخص کسی قبر کو درست کرے یا مرمت کرے) فرماتے، رہا دوسرا جملہ تو وہ بھی ٹھیک ہے کہ کسی جاندار کی تصویر بنانا منع کیا گیا ہے۔ لیکن بے جان چیزوں کی تصویر بنانا تو ممنوع نہیں ہوا  ۔ اگر بے جان چیزوں کی تصویر منع ہوتی تو ایک مسجد کی نقل دوسری مسجد بنائی جاتی ہے وہ بھی منع ہوتی ۔ ایک قرآن کی مثال دوسرا قرآن لکھا اور چھاپا جاتا ہے وہ بھی منع ہوتا تم نے ایک اچھی انگوٹھی کسی کے ہاتھ میں دیکھی ویسی ہی خود بھی بنوائی جو اس کی مثال کہی جائے گی۔ تویہ کیا حرام ہوجائے گی؟ ایک عمدہ مکان نظر آیا۔ اس کی نقل میں نے بھی ایک مکان بنوایا۔ تو کیا اس مکان کے ایسا دوسرا مکان بنوانے سے کوئی اسلام سے خارج ہوجائے گا پس تعزیہ بھی کسی جاندار چیز کی مثال نہیں ہے بلکہ بے جان چیز روضۂ حضرت امام حسینؑ کی مثال ہے۔ اس کا بنانا اسی طرح جائز ہے جس طرح ایک مسجد کی مثال دوسری مسجد بنوانی یا ایک قرآن کے مثل دوسرا قرآن لکھنایا چھاپنا۔ 
مولانا ممدوح نے اس کو بھی صاف صاف لکھ دیا ہے: فرماتے ہیں ’’ من مثل مثالا خرج عن الاسلام ‘‘ جو شخص جاندار کی مورت بنائے وہ اسلام سے نکل گیا۔ مجسم مورت جاندار کی بنانا تو بالاتفاق حرام ہے اس کو توڑ ڈالنا شیوہ اسلام ہے لیکن نقشی تصویر میں فوٹو گراف کی تصویر میں اختلاف ہے۔ غیر جاندار کی تو بالاتفاق درست ہے ۔ اور جاندار کی بعضوں نے جائز رکھی ہے۔ ‘ دیکھو (انوار الغۃ پ ۴۴ص ۱۶) اس عبارت پر غور کرنے کے بعد بتاؤ کہ قبر امام حسینؑ تو غیر جاندار ہی چیز ہے۔ پھر اس کی تصویر یا مثال بھی (جو تعزیہ ہوتا ہے) بالاتفاق درست ہوئی اب صحیح بخاری شریف کی اس عبارت کو بھی دیکھو : قال النووی قال اصحابنا و غیر ھم من العلماء تصویر صورۃ الحیوان حرام شدید التحریم لان فیہ مضاھاۃ لخلق اللہ تعالی… واما تصویر صورۃ الشجر و رحال الابل و غیر ذالک مما لیس فیہ صورۃ حیوان فلیس بحرام ھکذاحکم نفس التصویر یعنی علامہ نووی بیان کرتے تھے کہ ہمارے اصحاب اور نیز دیگر علماء کا قول ہے کہ حیوان کی تصویر بنانا شدید حرام ہے کیوں کہ اس میں خلق خدا سے مشابہت ہوتی ہے لیکن درخت پالان شتر یا کسی غیر ذی روح چیز کی تصویر بنانا حرام نہیں ہے یہی حکم بنی ہوئی تصویر کا ہے یعنی تصویر ذی روح خواہ کسی چیز پر بنی ہوئی ہو اس کا رکھنا حرام اور ناجائز ہے لیکن غیر ذی روح کی تصویر کا بنانا جس طرح جائز ہے اس کا رکھنا بھی جائز ہے (حاشیہ بخاری شریف جلد ۲ پارہ ۲۸ ص ۸۸۰ مطبوعہ نظامی کانپور) 
اب تو صاف ہوگیا کہ تعزیہ کا بنانا اور رکھنا جائز ہے کیوں کہ یہ ایک غیر ذی روح چیز ( روضہ امام حسینؑ) کی تصویر ہے۔اگر چہ بعض روایت صحاح سے ثابت ہوتا ہے کہ ذی روح کی تصویر بنانا اور رکھنا بھی جائز ہے چنانچہ ترمذی شریف میں ہے : عن عائشہ ان جبرئیل جاء بصورتھا فی خرقۃ حریر خضراء الی النبیؐ فقال ھذہ زوجتک فی الدنیا والآخرۃ ۔ یعنی حضرت عائشہ فرماتی تھیں کہ جناب جبرئیل میری تصویر ایک ریشمی کپڑے کے ٹکڑے پر حضرت رسول ؐ کے پاس لائے اور کہا دنیا و آخرت میں یہ آپ کی بیوی ہیں (جامع ترمذی جلد ۲ ص ۲۲۸) 
اس سے معلوم ہوا کہ خود خدا نے حضرت عائشہ کی تصویر بنوائی اور سنو عن عائشہ قالت کنت العب بالبنات عند رسول اللہ وکان لی صواحب یلعبن معی وکان رسول اللہ اذا دخل  ینقمعن منہ فیسربھن الی فیلعبن معی یعنی حضرت عائشہ فرماتی تھیں کہ میں حضرت رسول خدا صلعم کے پاس ہی گڑیاں کھیلا کرتی تھی اور میری ہمجولیاں بھی میرے ساتھ گڑیاں کھیلا کرتیں اور حضرت رسول خدا صلعم جب میرے پاس آتے تو میری ہمجولیاں سرک جایا کرتی تھیں مگر حضرت رسول خدا صلعم ان سب کو میرے پاس بھیج دیتے تھے تو وہ میرے پاس آکر کھیلنے لگتی تھیں۔( صحیح بخاری جلد ۲ پارہ ۲۵ ص ۹۰۵)
 یہ حدیث صحیح مسلم جلد ۲ ص ۲۸۵ وغیرہ میں بھی  ہے: عن عائشہ قالت کنت العب بالبنات وانا عند رسول اللہ ؐ فکان یسرب الی صواحباتی یلاعبنی  یعنی حضرت عائشہ فرماتی تھیں کہ حضرت رسول خدا صلعم کے پاس میںگڑیاں کھیلا کرتی تھی اور حضرت میری ہمجولیوں کو بھی میرے پاس بلا بھیجتے تھے جو آکر میرے پاس کھیلنے لگتی تھیں(سنن ابن ماجہ جلد ۱ ص ۱۴۳) عن عائشہ قالت کنت العب بالبنات فربما دخل علی رسول اللہ و عندی الجواری فاذا دخل خرجن واذاخرج دخلنی یعنی حضرت عائشہ کہتی تھیں کہ میں برابر گڑیاں کھیلا کرتی تھی اسی حالت میں اکثر حضرت رسول خدا صلعم میرے پاس پہنچ جاتے تھے اور وہ ہمجولیاں بیٹھی رہتی تھی۔ پس جب حضرت میرے پاس آجاتے تو وہ سب ہٹ جاتیں اور جب حضرت چلے جاتے تو پھر چلی آتی تھیں( سنن ابو داؤد جلد۴ص ۳۱۹) 
یہ روایت بھی سن رکھو: عن عائشہ قالت قدم رسول اللہ ؐ من غزوۃ تبوک او خیبر و فی سہوتھا سترفھبت الریح فکشفت نامیۃ الستر عن بنات العائشۃ لعب فقال ما ھذا یا عائشۃ ؟۔ قالت بناتی ورای بینھن فرسالۃ جناحان من رقاع فقال ما ھذا الذی اری وسطھن؟ قالت فرس ، قال وما ھذا الذی علیہ؟  قلت جناحان ۔ قال فرس لہ جناحان؟۔ قالت اما سمعت ان لسلیمان خیلا لہ اجنحۃ قالت فضحک رسول اللہ ؐ حتیٰ رایت نواجذہ یعنی حضرت عائشہ بیان فرماتی تھیں کہ حضرت رسول خدا صلعم غزوہ تبوک یا غزوہ خیبر سے واپس تشریف لائے تو میرے گھر میں طاقچہ پر پردہ پڑا ہو اتھا  اتنے میں ہوا چلی جس نے اس پردے کو ہٹا دیا جو میری گڑیوں پر پڑا ہوا تھا۔ آنحضرتؐ نے فوراً پوچھا :عائشہ یہ کیا ہے؟ میں نے جواب دیا میرے کھیلنے کی گڑیاں ہیں۔ ان گڑیوں کے درمیان ایک گھوڑا بھی تھا جس کے دونوں طرف پر لگائے ہوئے تھے۔ حضرت ؐ نے اس کی طرف اشارہ کرکے پوچھا اور یہ کیا چیز ہے؟ میں نے کہا کہ گھوڑا۔حضرت نے پوچھا اور یہ (دونوں طرف) کیا ہے؟۔ میں نے کہا گھوڑے کے پر ہیں۔ آنحضرتؐ نے پوچھا کیا گھوڑے کے بھی دونوں طرف پر ہوتے ہیں؟ میں نے کہا کیا آپ نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان پیغمبر کے گھوڑا تھا جس کے پر بھی تھے۔ یہ سن کرحضرت اس قدر ہنسے کہ آپ کے دانت دکھائی دینے لگے۔ (سنن ابو داؤد جلد ۴ ص ۲۹۴)
 ان صحیح حدیثوں سے ثابت ہوا کہ ذی روح کی تصویر بنانا اور رکھنا بھی جائز اور حلال بلکہ ایسا ہے جو خود حضرت رسول خدا ؐ کے گھر میں ہوتا اور حضرتؐ اس کو پسند فرماتے ۔ اگر یہ ذرہ برابر بھی برایا مکروہ ہوتا تو آںحضرت صلعم ضرور اس سے نفرت ظاہر کرتے ان گڑیوں میں آگ لگا دیتے۔ یا کم از کم ان سب کو پھینک دیتے اور حضرت عائشہ کو منع فرماتے کہ خبردار آئندہ اس قسم کی چیزیں نہ بنانا نہ رکھنا ۔اس کے عوض حضرتؐ ان گڑیوں اور ان  کے کھیل کو اس درجہ پسند فرماتے اور ا س قدر خوش ہوتے تھے کہ حضرت عائشہ کی ہمجولیوں کو بھی بلا بھیجتے تھے کہ جاؤ کھیلو پس جب ذی روح کی سایہ دار تصویر بنانا اور رکھنا جائز ہ اور سنت رسولؐ ہے تو تعزیہ بنانا، رکھنا، سڑکوں پر گھمانا بدرجہ اولی جائز اور حلال ہے جس پر کوئی اعتراض ہو ہی نہیں سکتا۔
تعزیہ کی ضرورت کیا ہے؟ اس کی ایجاد کب ہوئی؟ اس کی تاریخ:
مولوی صاحب: مگر اس کی ضرورت ہی کیا ہے؟کیا صرف حسینؓ کے مصائب سننے سے رونا نہیں آتا جو خواہ مخواہ حضرتؑ کے روضۂ اقدس کی نقل بنا کر اور اسے دیکھ کر رونے کی کوشش کی جاتی ہے؟
حسینی بیگم:جو ضرورت حضرت رسول خداؐ کے لیے تھی کہ خدا نے حضرتؐ کو صرف امام حسینؑ کے مصائب سے خبر نہیں دی بلکہ حضرتؐ کے پاس گویا تعزیہ بھی بنواکر بھیجا تاکہ حضرتؐ کو اسے دیکھ کر زیادہ رونا آئے ،بہت بیتاب ہوں، شدت سے روئیں!
مولوی صاحب: معاذاللہ یہ کیا کفر بکنے لگیں! خدا نے کب اور کیوں حضرتؐ کے پاس تعزیہ بنواکر بھیجا؟
حسینی بیگم: میں پہلے کئی دفعہ یہ روایت بیان کر چکی ہوں کہ ام الفضل بیان کرتی تھیں کہ حضرت رسول خدا صلعم سے عرض کی کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ آپ کے جسم کاٹکڑا میری گود میں رکھ دیا گیا۔ حضرت ؐ نے فرمایا فاطمہؐ کا بیٹا تمہاری گود میں رہے گا۔ واقعاً ایسا ہی ہوا۔ پھر ایک روز میں نے حضرتؐ کی گود میں دیا تو حضرتؐ رونے گلے۔ میں نے وجہ پوچھی توفرمایا: میری امت اسے قتل کرے گی اور جبرئیل نے ان کے قتل گاہ کی سرخ مٹی بھی دی ہے(مشکوٰۃ شریف جلد ۸ صفحہ ۱۴۵) 
اس جملہ پر غور کرو کہ خدا نے جناب جبرئیل کے ذریعہ آنحضرتؐ کے پاس امام حسینؑ کے قتل گاہ کی سرخ مٹی بھیجی۔ یہ معلوم ہے کہ کربلا کی مٹی پہلے سے سرخ نہیں تھی بلکہ جو رنگ ہمیشہ وہاں کی مٹی کا تھا ویسی ہی تھی۔ مگر خدانے اس مٹی کو وہاں سے نکلوا کر سرخ کرایا تب حضرتؐ کے پاس بھیجا یعنی امام حسینؑ کے قتل گاہ کی مٹی حضرتؑ کی شہادت اور آپ کا خون بہنے کے بعد جیسی سرخ ہونے والی تھی ویسی ہی سرخ خدا نے اس مٹی کو بنوایا غرض اس مٹی کی شبیہ تیاری کرائی اور حضرت رسول خدا صلعم کے پاس بھیجی تاکہ حضرت اس کو دیکھ کر سمجھیں کہ امام حسینؑ کے قتل ہونے سے وہاں کی مٹی ایسی ہی سرخ ہوجائے گی اور اس وجہ سے آپ اس زمین کا تصور کریں اور ان مصائب کاتذکرہ کرکے خوب روئیں اور اپنی آنکھوں سے آنسو کے دریا بہائیں۔ 
اگر خدا امام حسین ؑ کے قتل گاہ کی زمین کی شبیہ نہیں بنواتا تو وہ مٹی اپنے معمولی رنگ پر رہتی سرخ نہیں ہوجاتی مگر خدا نے شہادت کے وقت کی مٹی کی شبیہ بناکر اس مٹی کو سرخ کردیا تب بھیجا ۔ پس جب خدانے امام حسینؑ کے قتل گاہ کی شبیہ بناکر وہ سرخ مٹی بھیجی تو معلوم ہوا کہ حضرتؑ کے قتل گاہ یا روضہ کی شبیہ بنانا خدا کی عملی تعلیم ہے۔ اب وہ شبیہ خواہ مٹی کی صورت میں بنائی جائے خواہ تعزیہ کی صورت میں خواہ دلد ل ، علم ، تابوت کی صورت میں سب خداہی کی تعلیم کی پیروی کہی جائے گی۔ البتہ بعد کو ان باتوں میں ترقی ہوگئی اور بہت کچھ اضافہ بھی ہوا مگر یہ اضافہ ویسا ہی ہے جیسا حضرت رسول خدا صلعم کی مسجد مدینہ کے اضافے ہوئے۔ جناب عبد السلام صاحب ندوی نے مسجد مدینہ کے حالات میں لکھا ہے ’’مسجد بن کر تیار ہوئی تو اسلام کی سادگی کا بہترین نمونہ تھی۔ لکڑیوں کے ستون تھے، کھجور کی شاخوں کی چھت اور پتھر کی چوکھٹ تھی۔ حضرت عمر نے مسجد نبوی میں صرف اضافہ کیا تھا مگر اس کی اصلی ہیئت قائم رکھی تھی۔ لیکن حضرت عثمان نے مسجد کا پورا نقشہ ہی بدلنا چاہا… نہایت شان و شوکت کے ساتھ مسجد نبوی کو تعمیر کرایا… ولید نے ان سب کا کفارہ کردیا ارد گرد کے مکانات کیساتھ ازواج مطہرات کے حجرے بھی تھے جو رسول اللہ ؐ  کے زہد و تقویٰ کی یادگار تھے ۔ یہ بجبر مسجد میں شامل کرلئے … آس پاس کے مکانات کو ڈھا کر زمین ہموار کی گئی اور ۸۸ھ؁ یا ۹۱ھ؁ میں نہایت وسیع پیمانہ پر تعمیر کا کام شروع ہواـــ۔۔۔۔۔۔ ولید نے جب گھوم پھر کے اچھی طرح مسجد کی سیر کرلی تو حضرت ابان بن عثمان کی طرف مخاطب ہو کر فخریہ لہجہ میں کہا کہ ہماری عمارت کہاں اورتمھاری عمارت کہاں؟!۔ ابان نے جواب دیا کہ ہم نے مسجد بنوائی تھی اور تم نے گرجا بنوایا ہے۔ (رسالہ معارف اعظم گڑھ جلد ۱ ص۲۳)۔
 غرض جس طرح اس کثرت سے اضافہ ہونے کے بعد بھی مدینہ کی مسجد کو سب لوگ مسجد رسولؐ ہی کہتے ہیں بالکل اسی طرح کچھ اضافہ ہونے کے بعد بھی موجودہ تعزیہ وہی ہے جس کو خدا نے ۴ھ؁ میں ایجاد کیا اور جناب رسول خداؐ کے پاس بھیجا اور حضرت نے اس تعزیہ کو جناب ام سلمہ کے پاس بغرض حفاظت رکھوا یا۔ اگر یہ کسی آدمی کا فعل ہوتا تو یہ لوگ حضرت رسول خدا صلعم ، حضرت فاطمہ ؑ ، حضرت علیؑ، حضرت حسنؑ کی قبروں کی شبیہ کیوں نہیں بناتے۔ کسی نے حضرت سیدہ ؑ یا حضرت علیؑ یا حضرت حسنؑ کا تعزیہ سنا ہے؟ پھر صرف امام حسینؑ کا تعزیہ کیوں رائج ہوگیا۔ انصاف سے غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر انسان آسانی سے پہنچ سکتا ہے کہ چونکہ امام حسینؑ کا تعزیہ (یعنی حضرت کے روضہ کی شبیہ ) خدا نے بنایا اور رسولؐ کے پاس بھیجا اس وجہ سے آج تک مسلمان بھی صرف امام حسینؑ ہی کا تعزیہ یعنی حضرتؑ کے روضہ کی شبیہ بناتے ہیں اور چونکہ خدا نے حضرت کے سوا اور کسی پیغمبر یا امام کے روضہ کی شبیہ نہیں بنائی اس وجہ سے مسلمان بھی کسی اور بزرگ کے روضہ کی شبیہ یعنی تعزیہ نہیں بناتے۔ اگر یہ فعل مسلمانوں کا ہوتا تو یہ لوگ پہلے حضرت رسول خداؐ یا حضرت علیؑ یا حضرت سیدہ ؑ یا حضرت امام حسنؑ کے روضہ کا تعزیہ بناتے اس کے بعد امام حسینؑ کے روضہ کا تعزیہ تجویز کرتے مگر ایسا نہیں ہے لہٰذا ماننا پڑے گا صرف امام حسینؑ کے روضہ کا تعزیہ اس وجہ سے بنتا ہے کہ خدا نے اسی کو بنوایا تھا۔ 
قرآن مجید سے تعزیہ کا ثبوت:
مولوی صاحب:تم نے یہ بھی سنا کہ ایک دفعہ آگرہ میں ایک بڑا سائن بورڈ لگایا گیا جس پر لکھا تھا:’’پچاس روپیے انعام پہلے اس مسلمان کو دیا جائے گا جو قرآن کی کسی آیت سے تعزیہ بنانا ثابت کردے‘‘!
حسینی بیگم:پھر کسی نے ثابت کیا یا نہیں؟
مولوی صاحب: تم بھی کیا باتیں کرتی ہو ،کون ثابت کرسکتا ہے،کیا کھیل ہے؟
حسینی بیگم: آسان تو ضرور ہے مگر ان اشتہار دینے والوں کی عقل کے قربان ہوں کہ کیا سوجھی تھی ! قرآن مجید تو حضرت رسول خدا ؐ کی زندگی ہی میں ۱۱ ۔؁ ہجری تک نازل ہوتا رہا اس کے بعد کوئی آیت نہیں آئی۔ اور امام حسین علیہ السلام ۶۱ھ؁ میں شہید کیے گئے جس کے بہت دنوں کے بعد حضرتؑ کا روضہ بنا ۔اسی روضہ کی نقل اور شبیہ تعزیہ ہوتا ہے!پھر قرآن مجید سے تعزیہ کا ثبوت طلب کرنا ایسا ہی تو ہے جیسے کوئی کہے کہ قرآن مجید سے ثابت کرو کہ حضرت رسول خدا صلعم کے روضہ کی زیارت جائز ہے؟!
مولوی صاحب:مگر تم نے اس کو آسان کیونکر کہہ دیا؟
حسینی بیگم:بہت سی آیتوں سے تعزیہ کاجواز ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً یہ آیہ یعملون لہ ما یشاء من محاریب و تماثیل و جفان کالجواب و قد ور راسیات ان آیات کا ترجمہ مولانا نزیر احمد صاحب دہلوی نے اس طرح کیا ہے: سلیمان کو جو کچھ (بنوانا) منظور ہوتا (یہ جنات) ان کے لئے بناتے (جیسے مسجد بیت المقدس کی بڑی) اونچی شاندار عمارتیں اور (ڈھلی ہوئی) مورتیں اور ایسے بڑے لگن جیسے حوض اور بڑی بھاری بھاری دیگیں جو ایک ہی جگہ جمی رہیں۔(حمائل پ۲۲ ع ۸ ص ۶۸۶)
 اس آیت سے صاف معلوم ہوا کہ:(۱) خدا نے جنات کو حضرت سلیمان کا تابع کردیا تھا۔ (۲) جنات جو کچھ حضرت سلیمان کے لئے کرتے پروردگار کے حکم ہی سے ہوتا (۳) وہ جنات حضرت سلیمان کیلئے مورتیں بھی بناتے تھے۔ یہ مورتیں تماثیل کا ترجمہ ہے۔ اس کے متعلق مفسرین کی تحقیق بھی سنو۔ علامہ بیضاوی نے لکھا ہے کہ : وتماثیل و صور او تما ثیل للملائکۃ والانبیاء علی ما اعتاد وا من العبادات لیراھا الناس فیعبدوا نحو عبادتھم  یعنی ثماثیل کا معنی تصویریں اور شبیہیں ہیں جو ان کی عادت کے مطابق فرشتوں اور انبیاء کی تصویریں تھیں تاکہ ان کو دیکھ کر دوسرے لو گ بھی انہیں کی طرح عبادت کریں( تفسیر بیضاوی جلد ۲ص ۱۷۳) 
اور علامہ بغوی کی عبارت کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ جنات فرشتوں اور نبیوں اور نیکوکاروں کی تصویریں مسجد میں بناتے تھے تاکہ لوگ ان کو دیکھیں اور اس سے زیادہ عبادت کرنے لگیں(معالم التنزیل ص۷۳۷) یہی مضمون کشاف جلد ۲ ص۴۴۵ تفسیر درمنثور جلد ۵ ص۲۲۸ وغیرہ میںبھی ہے۔
 ان عبارتوں سے واضح ہوا کہ خدا کے حکم سے جنات حضرت سلیمان کیلئے مختلف چیزوں کی تصویریں اور شبیہیں بنایا کرتے اور اس کی غرض صرف یہ تھی کہ ان شبیہوں کو دیکھ کر لوگ زیادہ عبادت کریں۔ اب تم ہی فیصلہ کرو کہ تعزیہ بھی روضہ امام حسینؑ کی شبیہ ہے اور اسی لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کو دیکھ کر لوگ زیادہ گریہ و بکا کریں اور اس کا عبادت ہونامیںپہلے بیان کرچکی ہوں۔ اس سے واضح تر دلیل تعزیہ بنانے کے جائز ہونے کی اور کیا چاہئے کہ وہ عمل ہے جس کے کرنے کا حکم خدا نے جنات کو دیا تھا اور یہ عمل حضرت سلیمانؑ کے لئے کیا جاتاتھا جب حضرت سلیمان کیلئے اس کا بنانا جائز تھا تو ہم لوگوں کیلئے بھی جائز ہے کیونکہ خدا نے فرمادیا ہے: اولٰئک الذین ھدی اللہ فبھداھم اقتدہ یعنی یہ اگلے پیغمبر وہ تھے جن کی خدانے ہدایت کی پس تم بھی ان کی ہدایت کی پیروی کرو(پ۷ سورہ انعام آیت ۹۱) پس اس زمانہ کے مسلمان بھی انہیں حضرت سلیمان کی پیروی میں گریہ وبکاکی عبادت زیادہ انجام دینے کیلئے شبیہ (تعزیہ) بناتے اوراس کو دیکھ کر اس طرح روتے ہیں جس طرح حضر ت رسول خداؐ روتے تھے تو حضرت سلیمان ہی کی پیر وی نہیںہوئی بلکہ خدا کی پیروی ہوئی کیونکہ خدا ہی نے تو جنات کو حکم دیا تھا کہ سلیمان کیلئے شبیہ بناؤ۔(تصویر عزا)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں