پیر، 19 ستمبر، 2016

درس اخلاق

باسمہ تعالیٰ
جونوں کو نصیحت
جوادتبریزی
شیطان ہمیشہ تاک میں رہتا ہے اس لئے انسان اس حد تک تہذیب نفس رکھتا ہو کہ شیطان کو دھوکہ دینے اور غلبہ حاصل کرنے کی اجازت نہ دے لہذا قبل اس کے کہ پشیمان ہوئیے ،شیطان کو اپنے پاس سے بھگائیے ۔اس لئے کہ خدا نخواستہ اگر وقت پر اپنی فکر نہ کی تو ممکن ہے کہ آئندہ شیطانی وسوسوں سے اپنے کو بچا نہ پائیے۔جب تک آپ جوان ہیں موقع ہے کہ اپنے کو آزاد کیجئے۔آپ کے لئے سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ ایک دیندار شخص کو اپنا رہنما بنائیے۔جو خود صاحب کمال ہے اس کی مدد سے آگے بڑھیے اور اپنا کچھ وقت اس کے ساتھ گزاریے۔
کوشش کیجیے کہ متدین افراد کے ساتھ ہی معاشرت اور نشست و برخاست کیجیے اور جن لوگوں کے افکار اور طور طریقہ آپ کو گناہ کی طرف کھینچیں ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے بچیے۔شیطانی افکار کو اپنے ذہن سے دور کیجیے۔معنویات کی طرف متوجہ ہوئیے اور وعظ و نصیحت کی مجلسوں میں شرکت کیجیے۔ذکر الہی زیادہ کیجیے اور اپنے ہر کام میں خدا سے مدد طلب کیجیے ۔تنہائی میں زیادہ نہ رہیے۔اگر کسی طرح کا گناہ آپ کے ذہن میں آئے تو اپنی جگہ سے نکل کر ٹہلنا شروع کیجیے اور اپنے کو کسی کام میں مشغول کردیجئے تاکہ بری اور غلط فکر آپ کے ذہن سے نکل جائے۔
اس بات پر غور کیجئے کہ آپ کے شہوانی جذبات بھڑکنے کا اصل سبب کیا تھا؟ تاکہ بعد میں اس کا علاج کیجیے اور اس سے دوری اختیار کیجیے اس کام سے انشاء اللہ آہستہ آہستہ گناہ کے مسئلہ کو بھول جائیے گا۔اگر آپ یہ کام کرسکیں کہ جس وقت شیطان آپ پر غالب آتا ہے اس وقت وضو کرکے نماز پڑھنا شروع کردیں تو یہ کام بہت ہی زیادہ اثر انداز ہے۔اس میں ایسی برکتیں ہیں جو آپ کی اس مشکل سے نجات پانے میں معاون ثابت ہوںگی۔ 
کوشش کریں کہ ایسے کام انجام دیں جس سے حضرت امام زمانہ (عج) آپ سے راضی ہوں اگر جدّیت اور توجہ کے ساتھ درس پڑھیں اور احکام الٰہی کو تہذیب نفس کے ساتھ انجام دیں تو انشاء اللہ امام زمانہ ( عج) کے دل کو خوشنود کریں گے اور تحصیل علم کے راستہ میں خداوند عالم پر توکل اور ائمہ معصومین ؑسے توسل کرتے ہوئے سعی و تلاش کریں تاکہ اچھی طرح درس پڑھیں اور تحصیل علم میں جلد بازی نہ کریں جب تک ایک کتاب ختم نہ کرلیں اور اچھی طرح سمجھ نہ لیں ،دوسری کتاب شروع نہ کریں ، کوشش کریں کہ ایک کتاب ختم کرنے کے بعد اسے پڑھائیں ، جوانی اور عمر کے سرمایہ سے فائدہ اٹھانے کے لئے بہت زیادہ مراقب رہیں اس لئے کہ جوانی زود گذر ہے اور فرصت بہت تیزی سے ہاتھ سے نکل جاتی ہے ، فرصت کو غنیمت سمجھیں اور خداوند عالم سے توفیق طلب کریں جو لوگ عمر کو برباد کرتے ہیں ان کے ساتھ دوستی سے بچیں ، شب نشینی اور لاحاصل وقت گزار نے سے پرہیز کریں ، کوشش کریں کہ دیندار ، مومن اور درس خوان افراد کے ساتھ نشست و برخاست کریں ، جوانی کے سرما یہ کو غنیمت جانیں اور ا س خدائی نعمت کو آسانی سے ہاتھ سے جانے نہ دیں۔
ہنسی مذاق ، کھانے میں نمک کی طرح ہے انسان کو چاہئے کہ بہت زیادہ ہنسی مذاق سے بچے ، بالخصوص جوان طلاب جو سازندگی کا دور گزار رہے ہیں ، خدا نخواستہ بہت زیادہ ہنسی مذاق دل کے مردہ ہونے کا سبب نہ بن جائے اس لئے کہ اگر ایسا ہوگیا تو اس حالت سے نکلنا بہت سخت ہے جوکام بھی کریں معقول ہونا چاہئے تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ یہ کیسا طالب علم ہے جو اپنا وقت ہنسی مذاق میں گزارتا ہے یہ کیوں طالب علم بنا ہے ؟!
بہت زیادہ ہنسنا آپ کی شخصیت کو دیندار افراد کے سامنے کمرنگ کردیتا ہے ، اپنے دیندار اور مومن دوستوں کے ساتھ معقول و مناسب بحث وگفتگو کریں لیکن خیال رکھیں کہ اس میں جھوٹ، تہمت ، افتراء و بہتان اور کسی کو اذیت شامل نہ ہو، بات کرنے اور معقول مذاق میں ، شرعی و اخلاقی تمام جوانب کو مدنظر رکھیں ، طلاب کا وظیفہ درس پڑھنا اور خداوند منان پر توکل ہے ، ایسا کام کیجئے جس میں امام زمانہ (عج) کی مرضی شامل ہو، آپ کی ظاہری شکل وصورت اور آپ کی رفتار و گفتار ایسی ہونا چاہئے کہ اگر کوئی آپ کو دیکھے توخوش ہو اور آپ بھی ’’ کونوا لنا زینا‘‘ کا مصداق ہوں ، خدا آپ کو توفیق عطا کرے ۔
{وابتغوا الیہ الوسیلۃ} کا ایک مصداق دعا ہے جس میں حدیث کساء بھی شامل  ہے ، یہ بابرکت حدیث اہل بیت علیہم السلام سے توسل کا ایک واضح مصداق ہے ، اسے پڑھیں اس لئے کہ اس کے مضامین بہت ہی بلند ہیں بہت سے لوگوں نے مشکلات حل کرنے کے لئے اس کا تجربہ کیا اور نتیجہ حاصل کیا ہے ، انشاء اللہ امام زمانہ ( عج) کے لطف سے آپ کی مشکل بھی حل ہوگی ، خداوند عالم سے عبادت کی لذت طلب کریں۔(افق حوزہ)۔

انسان کاسب سے اہم لباس
مشکینیؒ
قرآن کریم و احادیث معصومین علیہم السلام سے استفادہ ہوتا ہے کہ خدا وند عالم نے انسان کے پانچ طرح کے لباس مہیاکئے اور بیان کئے ہیں جن میں سے چار قسمیں تو جسم کے لباس ہیں اور ایک روح کا لباس ہے البتہ ان میں سے ہر ایک کی اپنی جگہ پر اہمیت ہے۔ 
 آیۂ کریمہ، ’’ يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۔۔۔‘‘ (’اے اولادِ آدم! ہم نے تمہارے لئے لباس نازل کیا ہے جس سے اپنی شرمگاہوں کا پردہ کرو اور زینت کا لباس بھی دیا ہے‘ ۔سورہ اعراف آیت ۲۶)میںدو لباس کی طرف اشارہ ہوا ہے ایک کام و روز مرّہ کا لباس اور دوسرے تجمل و زینت والا لباس ۔ تیسرا لباس تمہارا قیامت کا لباس ہے جسے اسی دن میں مہیا کرکے اپنے ساتھ لے جاؤ اور وہ کفن ہے۔ لہٰذا جس کا بھی کفن جتنا حلال ہوگا اتنا ہی اس کا آخرت کا لباس بہتر ہوگا۔
 ایک روایت میںامام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے منقول ہے کہ : انّا اھل بیت مھور نسائنا و حجّ صرورتنا و اکفان موتانا من طہرۃ اموالنا ( مستدرک ۸/۲۵) یعنی ہم اہل بیت اپنے مالوںمیںسے تین چیزوںکو بہترین اموال سے مہیا کرتے ہیں: عورتوں کا مہر ، حج اور کفن۔
 لہٰذا آ پ شیعیان اہل بیتؑ بھی کفن کو اہمیت دیجئے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میںایک بزرگوار کے تجہیز وتکفین میںشریک ہوا تو دیکھا کہ انہوں نے اپنے کفن کے اوپر سرخ قلم سے پورا قرآن لکھ رکھا ہے۔ 
دوسرا لباس وہ ہے جو انسان کو حساب و کتاب کے بعد پہنایا جائے گا اور وہ جنت والوں کےلئے خالص ریشم نرم و نازک لباس ہوگا : وَيَلْبَسُونَ ثِيَابًا خُضْرًا مِّن سُندُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ ۔ ( اور یہ باریک اور دبیز ریشم کے سبز لباس میں ملبوس ہونگے۔کہف آیت۳۱)
لیکن دوزخ والوںکے لباس کو قرآن نے اس طرح بیان کیا ہے :  فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّن نَّارٍ ۔( پھر جو لوگ کافر ہیں ان کے واسطے آگ کے کپڑے قطع کئے جائیں گے۔حج آیت ۱۹) سَرَابِيلُهُم مِّن قَطِرَانٍ  (ان کے لباس قطران کے ہوں گے۔ابراہیم آیت ۵۰)
پانچواں لباس، تقویٰ کا لباس ہےیہی سب سے اچھا اور سب سے بہترین لباس ہے۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے :وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ(لیکن تقوٰی کا لباس سب سے بہتر ہے)۔آپ کوشش کیجئے گناہ نہ کیجئے خیال کیجئے اور کوشش کیجئے کہ مہینے اور سال گزر جائیں اور آپ کے نامۂ اعمال میںکوئی گناہ نہ لکھا جائے۔ اگر اس طرح کی قدرت و طاقت آپ کے اندر ہے تو بہت ہی اچھا ہے (نعم المطلوب) اور متقین میں سے ہیں اور اگر نفس ے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تو خدا سے دعا کیجئے کہ آپ کو وہ نفس سے مقابلہ کرنےکی طاقت اور نفسانی خواہشات پر غالب آنے میںکامیابی عطا فرمائے۔ متقی انسان یعنی جس کے اختیار میںسب کچھ ہو ۔ اور جس کے پاس تقویٰ نہ ہو اس کا مطلب ہے اس کے پاس کچھ بھی نہیںہے۔ 
خدایا! جسے تونے تقویٰ عطا کردیا اسےکیا نہیں دیا اور جسے تقویٰ عطا نہیں کیا اسےکیا دیا ہے ؟!
 حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’کن مع الناس لا تکن معھم‘‘ یہ بات بظاہر متناقض ہے لیکن اس کے باطن میںسب کے لئے نکتہ اور اہم مطلب پوشیدہ ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ لوگ جو بھی نیک کام انجام دیں تم اس میں ان کےساتھ شریک رہو ۔ مثلاً اگر لوگ نماز جماعت میں حاضر ہوں تو تم بھی حاضر ہو اور اسی طرح کسی بھی غلط کام میں لوگوں کےساتھ شرکت نہ کرو۔ امیرالمومنینؑ کا یہ کلام در حقیقت ایک آئینہ ہے جو حضرتؑ نے ہمارے اختیار میںدیا ہے۔ گناہ کا مطلب ہے کلام خدا کو رد کرنا۔ اس نے حکم دیا ۔ اپنی کتاب میںلکھا لیکن پھر بھی تم نے انجام دیا۔ یہی بے تقوائی ہے۔ گناہ کا اثر صحراؤں دریاؤں پر بھی ہوتا ہے۔ 
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ۔ (روم آیت ۴۱)پیغمبر اسلامﷺ نے گناہ کے سلسلےمیں ایک جملہ فرمایا ہے : ’’تین گناہ ایسے ہیں جن کا اثر دوسرے گناہوں کےمقابلے بہت جلدی ظاہر ہوتا ہے :پہلے عاق والدین ہونا اور ماں باپ کو تکلیف پہنچانا ، لہٰذا اگر ماںباپ موجود ہوں تو ان کو راضی رکھئے عاق والدین کا اثر انسان پر بہت جلد ظاہر ہوتا ہے۔ بالخصوص اس کی عمر کو کم کرتا اور رزق و روزی کوکم کرتا ہے۔ 
دوسرا گناہ ظلم ہے ۔ کوشش کیجئے کسی پر بھی ظلم نہ کیجئے کسی کے حق کو ضائع نہ کیجئے۔ حضرت عیسیٰ بن مریمؑ سے نقل ہے :’’ سب سے سخت غضب خدا ہے ۔ پوچھا گیا تو کیا کریں کہ غضب خدا کاشکارنہ ہوں ؟ فرمایا : کوشش کرو کسی پر بھی ظلم نہ کرو۔ 
تیسرے کفران نعمت ہے ۔ اپنے وجود کی نعمت کا کفران نہ کیجئے ۔ اپنی آنکھوں کو حرام کاموںمیںاستعمال نہ کیجئے کہ یہ کفران نعمت ہے اپنی زبان اپنے اعضا و جوارح، اپنی دولت و پیسہ کو حرام کاموں میںمصرف نہ کیجئے کہ یہ کفران نعمت ہے۔ ہر ایک گناہ سے انسان کے تقویٰ کے لباس پر ایک دھبہ لگ  جاتا ہے گناہگار انسان کی ذمہ داری ہےکہ اس دھبہ کو دھوئے و صاف کرے۔ امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے : ہمارے اس شیعہ کےلئے خوش نصیبی ہے کہ قیامت کے دن اس کے ہر گناہ کے ساتھ ایک توبہ ہو۔ توبہ سے گناہ کا دھبہ مٹ جاتا ہے لہٰذا خیال رکھئے کہ آپ کے تقوے کا لباس ہمیشہ پاک وپاکیزہ رہے ۔ خدایا ہم کو بخش دے ، ہماری مغفرت فرما۔ آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔خخخ
 اصلاح نفس
بہجتؒ
ظاہری و باطنی طور پر ہم جن چیزوں کا شکار ہوجاتے ہیں اس کے لئے کیا کریں؟ اندرونی و بیرونی اعتبار سے مبتلا ہونے میں ہم کیا کریں؟ ہم نے کیا کیا کہ ان چیزوں کا شکار ہوجاتے ہیں؟ اس کی بھی فکر کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں بھی توجہ دینا چاہئے۔ آخر ہم نے ایسا کیا کیا کہ جس کی وجہ سے ہم بغیر سرپرست کے رہ گئے؟
اصلی بات یہ ہے کہ ہم اپنی اصلاح نہیں کرتے اور نہ کیا ہے اور نہ کریں گے ۔ اہم اپنی اصلاح کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ اگر ہم نے اپنی اصلاح کی ہوتی تو ان بلاؤںمیں مبتلا نہ ہوتے۔ 
پیغمبر اکرمﷺ نے فرمایا : ’’ الااخبرکم بدائکم و دوائکم ، داؤکم الذنوب و دواؤکم الاستغفار‘‘۔ ( کیا نہیں چاہتے کہ میں تمہیں تمہاری بیماریوں اور ان کے علاج کے بارے میں بتاؤں ۔ تمہاری بیماریاں و پریشانیاں تمہارے گناہ ہیں اور ان کا علاج استغفار و توبہ ہے )۔
 ہم چاہتے ہیں کہ جو ہمارا دل چاہتا ہے وہی کریں لیکن دوسروں کو حق نہیں ہے کہ ہمارے ساتھ برائی کرے۔ہم اپنے ساتھ، اپنے اعزہ و رشتہ داروں کے ساتھ اور دوستوں کے ساتھ تو جو چاہیں کریں لیکن دوستوں کو اور دشمنوں کو حق نہیں ہے کہ ہمارے ساتھ غلط طریقہ اپنائیں اور ہمارے ساتھ برائی کریں۔ اگر ہم اپنے کو صحیح کرلیں تو خدا ہی ہمارے لئے کافی ہے۔ خدا ہی ہادی ہےلیکن ہم خود کو صحیح کرنا نہیں چاہتے۔ اور کسی دوسرے سے تکلیف برداشت کرنا بھی نہیں چاہتے۔ جن کی فطرت میں اذیت و آزار ہے وہ اپنا کام کرتے ہیں مگر یہ کہ ایک کفالت کرنے والا اور حفاظت کرنے والا بچالے۔ اگر ہم خود صحیح راستہ پر ہوتے، صحیح راستہ طے کرتے تو کون امیر المومنینؑ کو قتل کرتا۔ کون امام حسینؑ کو شہید کرتا۔ کون امام زمانہ ؑ کو جو ہزار سال سے زیادہ سے ہیں مغلول الیدین کرتا؟
ہم اپنی اصلاح اور تہذیب نفس پر تیار نہیں ہیں۔ اگر ہم اپنی اصلاح کرلیں تو تمام افراد کی بتدریج اصلاح ہوجائے سبھی آہستہ آہستہ راہ راست پر آجائیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اگر ہمارا دل چاہے تو جھوٹ بولیں لیکن کوئی دوسرا ہمارے ساتھ جھوٹ نہیں بول سکتا۔ ہم اپنوں کو، اپنے دوستوں کو اور اچھے لوگوں کو تو تکلیف پہنچائیں لیکن برے لوگوں کو حق نہ ہو کہ ہم کو اذیت دیں ۔دوستو! خدا کے ساتھ صلح و آشتی کرو وہ سارے کام حل کردے گا۔ کیوں خلوت و جلوت میں تنہائی و علی الاعلان جو بھی دل چاہتا ہے کرتے ہو؟ کیا خدا کا یہ ارشاد نہیں ہے کہ:
۔۔۔وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا ﴿٢﴾ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّـهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا ﴿٣﴾ (سورہ طلاق، ۲و۳)
 ’’اور جو بھی اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے نجات کی راہ پیدا کردیتا ہے۔اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جس کا خیال بھی نہیں ہوتا ہے اور جو خدا پر بھروسہ کرے گا خدا اس کے لئے کافی ہے بیشک خدا اپنے حکم کا پہنچانے والا ہے اس نے ہر شے کے لئے ایک مقدار معین کردی ہے‘‘۔
کیا یہ ممکن ہے کہ ہم خدا کے ساتھ نہ ہوں اور خدا ہر چھوٹی بڑی چیز میں، ظاہری و باطنی امور میں ہمارا ساتھ دے؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ لہٰذا دنیوی اور اخروی بلاؤں سے بچنے، داخلی و خارجی پریشانیوں سے نجات پانے کے لئے صرف یہی راستہ ہے کہ ہم خدائی ہوجائیں۔ خدا کےساتھ ہوں اور خدا والوں کی ہمراہی و پیروی کریں۔ اگر ہم انبیا و اوصیا سے دور ہوئے تو بلا فاصلہ ظاہر و باطن کے بھیڑیے ہم کو کھاجائیں گے۔ 
 اگر ہم خدا ترس ہوتے تو دوسرے ہم سے ڈرتے۔ جو لوگ نہیں پہچانتے کہ ہم کون ہیں؟ کیا ہیں؟ وہ کوئی ایسا کام کرنے سے ڈرتے ہیں جس سے ہم ان پر غضبناک ہوجائیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ اب ہمارا غضب خدا کا غضب ہے، اگر ہم خدا کے ساتھ ہیں۔ 
 سید الشہداءؑ سے جناتوں نے کہا : اگر آپ اجازت دیں تو ہم بغیر کچھ کئے دشمنوں کو ہلاک کردیں۔ حضرت نے فرمایا: خدا کی قسم میری طاقت تم سے زیادہ ہے ( یہ وہی ہیں جن کو اسم اعظم معلوم ہے ) لیکن اگر مارا نہ جاؤں تو یہ لوگ جو اس طرح کے ہیں کیسے ان کا امتحان ہوگا۔ 
یہاں امتحان گاہ ہے اپنی اصلاح کی فکر کیجئے۔ اپنے اور خدا کے درمیان کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہونے دیجئے۔ اگر آپ نے اصلاح و تہذیب نفس کرلیا اور اپنے و خدا کے درمیان اور اپنے و انبیاء اور اوصیا کے درمیان رکاوٹوں و موانع کو برطرف کرلیا تو خداوند عالم بھی آپ اور تمام مخلوقات کے درمیان اصلاح کردے گا۔ نوبت یہاں تک آئی کہ سقیفہ سے بلکہ اس سے قبل حجرہ سے آپس میں دشمنی پیدا ہوئی ان تمام کاموں کو ہم نے دیکھا ہے یہ ہمارا ہی کام ہے ورنہ کیوں مسلمان دشمن ہیں ایسا کیوں ہے؟۔ 
 یہ سب ہم دیکھ رہے یہ ہمارا ہی کام ہے۔ ان کا موں سے ہمیں توبہ کرنا چاہئے یا نہیں؟
 ہم تو بہ کریں، گریہ و زاری کریں، گڑگڑائیں، اس خدا کی بارگا ہ میں اسی کی طرف توجہ کریں تاکہ وہ ہمیں نجات عطا کرے پہلے ہم کو خود ہمارے شر سےاور ہمارے باطن سے پھر خارجی و ظاہری شر سے۔ اس لئے کہ ’’اعدی عدوک نفسک التی بین جنبیک ‘‘(تمہارا سب سے بڑا دشمن تو وہ تمہارا نفس ہے جو تمہارے دونوں پہلوؤں میں پایا جاتا ہے )
 یہ بے جا شہوتیں ، بے جا غضب سب شیطانوں کے لشکر ہیں۔ یہ کفار کے لشکر ہیں یہ سب تو خود انسان کے اندر ہی ہیں۔ جب نوبت یہاں تک پہنچا دی تو یہ بھی معلوم ہے کہ اس کا علاج استغفار و توبہ ہے۔ کیا استغفار کرتے ہیں؟ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ خدا کی طرف پلٹیں۔ اگر خدا کی طرف نہ جائیں اور موانع و رکاوٹیں بھی برطرف ہوجائیں تو وہ وقتی ہیں دائمی رکاوٹیں دور نہیں ہوتی ہیں۔ 
 ہم کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارا علاج تمام مراحل میں اپنے نفس کی اصلاح ہے۔ اس سے ہم بے نیاز نہیں ہوسکتے اور اس کے بغیر ہمارا کام پورا نہیں ہوسکتا۔ اس اعتراف کے ساتھ کہ جو بھی مصیبت آتی ہے جو بھی ہوتا ہے، اپنی ہی وجہ سے ہے تو جب تک ہم اپنی اصلاح نہ کرلیں خدا سے رابطہ بر قرار نہ کرلیں، خدا کے نمائندوں سے رابطہ برقرار نہ کرلیں اس وقت تک ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ ہم امام زمانہؑ سے اپنا رابطہ صحیح کریں۔ اپنی اصلاح کریں اپنے اوپر توجہ دیں اور یہ مسلّم ہے کہ جب تک ہم اپنی اصلاح نہ کریں اصلاح نفس نہ کرلیں اس وقت تک سماج و معاشرہ کی اصلاح بھی نہیں ہوسکتی۔ ززز
امام زمانہ ہمارے اعمال پر ناظر ہیں
امام خمینیؒ
آپ اس وقت خدا وند عالم اور امام زمانہ سلام اللہ علیہ و عجل اللہ فرجہ کی نگاہوں کے سامنے ہیںان کے زیر نظر ہیں، ملائکہ آپ کی نگرانی کررہے ہیں اور آپ کے نامۂ اعمال کو امام زمانہ عج تک پہنچاتے ہیں۔
اب غور کیجئے کہ آپ زیر نظر ہیں، آپ پر نگاہیں ہیں، روایت کے مطابق ہمارے نامۂ اعمال امام زمانہ عج کی خدمت میں ہفتہ میں دو دفعہ پیش ہوتے ہیں ۔ مجھے خوف ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک طرف ہمارا یہ دعوی کہ امام کے پیروکار ہیں، ان کے شیعہ ہیں، دوسری طرف اگر وہ ہمارے نامۂ اعمال کو دیکھیں اور دیکھیں کہ خدا کی نگاہوں کے سامنے ہوا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ امامؑ شرمندہ ہوجائیں۔ اگر آپ کا بیٹا غلط کام کرے تو آپ شرمندہ ہوتے ہیں ، اگر آپ کا نوکر غلط کرے تو آپ شرمندہ ہوتے ہیں ، سماج میں تو آدمی شرمندہ ہوتا ہے کہ بیٹے نے ایسا کام کردیا یا نوکر نے ایسا کام کردیا یا پیروکار نے ایسا کام کردیا ۔مجھے خطرہ ہے کہیں ایسا کام نہ ہو کہ امام زمانہؑ خدا کے سامنے شرمندہ ہوں، کہیں ایسا نہ ہو کہ خدانخواستہ ہم سے کوئی ایسا کام سرزد ہوجائے کہ جب لکھا ہوا پیش کیاجائے، وہ لکھا ہوا جس کیلئے ملائکۂ الہی ہمارے اوپر نگراں ہیں،ہمارے رقیب ہیں۔ ہر انسان کا رقیب ہے اور اس کی نگرانی ہوتی ہے، جو بات بھی دل میں آئے وہ زیر نظر ہے، ہماری آنکھوں کی نگرانی ہوتی ہے، کان زیر نظر ہیں، زبان کا رقیب ہے، ہمارے دل کی مراقبت و نگرانی ہوتی ہے۔ خدا نخواستہ ہم سے ، آپ سے اور امام کے چاہنے والوں سے کوئی ایسی بات سرزد ہوجائے جو امام زمانہؑ کی رنجیدگی و ناراضگی کا سبب ہو۔ اپنا خیال کیجئے، اپنی طرف توجہ دیجئے، اپنی مراقبت کیجئے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی یہ پاسداری و مراقبت اس دفتر میں ثبت ہوجائے جس میں صدر اسلام میں پاسداری کرنے والوں کی پاسداری و مراقبت ثبت ہے تو اسی طرح خیال کیجئے، اسی طرح مراقبت کیجئے جس طرح وہ لوگ اپنی پاسداری و مراقبت اور اپنا خیال کرتے تھے ۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ جب آپ کا نامہ عمل اور آپ کا کارنامہ امام زمانہؑ کی خدمت میں پیش کیا جائے اور ان سے کہا جائے کہ یہ آپ کے چاہنے والے اور آپ کے سپاہی کا اعمال نامہ ہے تو امامؑ دیکھ کر رنجیدہ ہوجائیں۔ دوستو! معاملہ اہم ہے۔ قتل و غارت گری کا معاملہ نہیں ہے۔ ہمارا قیام اور ہمارا نقلاب ، یک طاغوتی انقلاب نہیں ہے۔بلکہ ہمارا قیام و انقلاب ایک انسانی انقلاب ہے، ہم کتاب و سنت پر عمل کرنا چاہتے ہیںآپ بھی کتاب و سنت پر عمل کیجئے۔
جب ہمارا اعمال نامہ امام زمانہ ؑ  کی خدمت میں پیش کیا جائے تو ہمارے اعمال ایسے ہوں جو ظاہر کررہے ہوں کہ ہم امام کے پیروکار اور ان کے تابع ہیں۔
خداوند عالم سے دعا کرتا ہوں کہ حضرت ولی ٔ عصر عج کے ظہور کو نزدیک فرمائے اور ہماری آنکھوں کو ان کے روئے مبارک کے ذریعہ روشن فرمائے۔ہم سب فرج کے منتظر ہیں ہم کو چاہئیے کہ اس انتظار میں خدمت کریں۔ انتظار فرج ، انتظار قدرت اسلام ہے ۔ ہم کو کوشش کرنا چاہئیے کہ دنیا میں اسلام کی قدرت عملی ہو اور انشاء اللہ ظہور کے مقدمات فراہم ہوں۔
خخخخ
طالب علم کا مقام و مرتبہ
مجتہدیؒ
احتضار کے وقت انسان سے قرآنی علوم کے علاوہ تمام علوم لے لئے جاتے ہیںلہذا اس علم کے پیچھے جائیے جو باقی رہنے والا ہے یعنی قرآن کو پڑھیے اور حفظ کیجئے اور یہ یادرکھئے کہ جنت کی لفٹ قرآن سے چلتی ہے ۔جتنا بھی پڑھیے گا اتنا ہی اوپر جائیے گا اور جہاں بھی نہیں پڑھا، لفٹ رک جائے گی اور اترنا پڑے گا ۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’حملۃ القرآن عرفاء اہل الجنۃ‘‘(کافی ج۲،ص۴۶) حاملین اور حافظین قرآن عرفاء اہل جنت ہیں۔ جب تک جوان ہیں قرآن حفظ کیجئے ، جوانی میں جو آیتیں میں نے حفظ کی تھیں ،وہ آج تک مجھے یاد ہیں، کوشش کیجئے روزانہ کچھ قرآن پڑھئے اور اس کے معنی میں غور و فکر کیجئے اور خداوند عالم سے چاہئے کہ وہ آپ کو عمل کی توفیق عطا کرے۔
امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے :’’ الا لاخیر فی قرائۃ لیس فیھا تدبر‘‘(کافی ج۱،ص۳۶)آگاہ ہوجاؤ کہ جس قرائت میں تدبر و غور وفکر نہ ہواس میں کوئی بھلائی نہیں ہے ۔خداوند عالم قرآن میں بندوں سے شکایت کرتا ہے کہ قرآنی آیات میں غور وفکر اور تدبر کیوں نہیںکرتے؟ ’’ افلا یتدبرون القرآن ‘‘(نساء؍ ۸۲) امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: ’’ آیات القرآن خزائن فکلما فتحت خزانۃ ینبغی لک ان تنظر ما فیھا ‘‘ (کافی ۲،ص۹۰۶)۔قرآنی آیات خزانہ ہیں، لہذاجب بھی خزانہ کھلے تو تمہیں دیکھنا چاہئے کہ اس میں کیا ہے ؟
مرجع تقلید آیۃ اللہ العظمیٰ سید احمد خوانساری ، زخم معدہ کی وجہ سے ہاسپٹل میں بھرتی ہوئے ، اس وقت ان کی عمر ۸۹ سال تھی، ضعیفی اور کمزوری کی وجہ سے بیہوشی کے بغیر آپریشن ممکن نہ تھا ۔ دوسری طرف وہ بیہوش کرنے کی اجازت بھی نہیں دے رہے تھے اس لئے کہ ان کی نظر تھی کہ بیہوشی کے وقت مقلدین کی تقلید میں اشکال پیدا ہو جائے گا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ رپورٹوں کے مطابق آپ کا آپریشن ضروری ہے ۔ آیت اللہ خوانساری نے کہا: کوئی بات نہیں ہے ، جب بھی چاہو آپریشن کرو لیکن اس سے پہلے مجھے بتا دو تاکہ تلاوت قرآن اور اس میں توجہ کی وجہ سے بے ہوش کرنے کی تمہاری مشکل حل ہو جائے۔ ڈاکٹر نے کہا ٹھیک ہے اور آپریشن کی تیاری کرنے کے بعد کہا ہم آپریشن کرنے کے لئے تیار ہیں۔ آیت اللہ خوانساری نے کہا : جب میں تلاوت کرناشروع کروں تو تم بھی اپنا کام شروع کر دینا۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ : جب انھوںنے سورۂ انعام کی تلاوت شروع کی تو میں نے پیٹ کا آپریشن شروع کیا ۔وہ اس طرح آرام سے لیٹے تھے جیسے مکمل بیہوشی میں یہ کام ہو رہا ہو۔ آپریشن مکمل ہونے کے بعد ان سے کہا گیا جناب! ہمارا کا م ختم ہو گیا تو انھوںنے قرآن کوبند کیا اور کہا : صدق اللہ العلی العظیم ۔ 
میں نے کہا : جنابعالی آپ کے درد نہیں ہوا؟ جواب دیا : قرآن میں مشغول تھا۔ آپریشن کا پتہ بھی نہیں چلا۔ 
 عالم دین اور طالب علم، خدا و اہلبیت ؑ کے نزدیک بہت ہی اہمیت رکھتے ہیں۔ طالب علم کو چاہئے کہ خدا کے لئے درس پڑھے ،اس کا رزق بھی پہنچ جائے گا۔ اگر کوئی کہے کہ ہمارے ائمہ  ؑ تو کام کرتے تھے مثلا ً حضرت علی ؑ کام کرتے تھے، تم کیوں نہیں کا م کرتے ؟ جواب دینا چاہئے کہ آنحضرت ؐ کا علم خدا کی جانب سے لدنی تھا، لیکن ہم کو چاہئے ک علم کسب کریں ۔اگر چوبیس گھنٹے بھی درس پڑھیں توکم ہے۔ 
امام جعفرصادق علیہ السلام نے طالب علم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ’’طالب العلم یستغفر لہ کل شیٔ حتی الحیتان فی البحار و الطیر فی جو السماء( بحار الانوار ج۱ ،ص۱۷۳) 
طالب علم کے لئے ہر شئے استغفار کرتی ہے حتی کہ سمندروں میں مجھلیاں اور آسمانوں میں پرندے ۔ 
ایک طالب علم نے اپنے استاد اخلاق سے کہا : عوام ہمارا اس طرح احترام کیوں نہیں کرتی جس طرح احادیث میں آیا ہے بلکہ بسا اوقات ایسابھی ہوتا ہے کہ لوگ ہماری توہین کرتے ہیں ؟ استاد نے بات سمجھانے کے لئے اس کو ایک سونے کا سکہ دیا اور کہا جاؤ سبزی خرید لاؤ ، وہ گیا لیکن سبزی فروش نے سکہ نہیں لیا اور کہا پیسہ لاؤ تب سبزی دوں گا۔ واپس آگیا ۔استاد نے دوبارہ اس کو چاول، شکر اور روٹی وغیرہ کے لئے بھیجا لیکن ان لوگوںنے بھی سکہ نہیں لیا۔ وہ واپس استاد کے پاس آیا ۔ استاد نے کہا ۔ا ب سونا بیچنے والے کے پاس جاؤ اور یہ سکہ بیچ دو۔طالب علم گیا اور سکہ بیچ کر استاد کے واپس آیا ۔استاد نے کہا : جس طرح اس سکہ کی قدر و قیمت کو جوہر ی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اورکسی نے تم سے معاملہ نہیں کیا اسی طرح سمجھ لو کہ تمہاری قدر وقیمت کو بھی خداو ائمہؑ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔
ایک دن میںآیت اللہ العظمیٰ بروجردی ؒکے پاس تھا ۔وزراء اور قوم کے رؤسا ان کے پاس آئے لیکن وہ ان کے لئے کھڑے نہیں ہوئے صرف یا اللہ کہا، اسی درمیان ایک طالبعلم داخل ہوا۔ آقائے بروجردی ؒ اس کے لئے پورے قدسے کھڑے ہو گئے تاکہ علم اور طلاب کی اہمیت کو بتائیں۔اسی طرح کا قضیہ آیت اللہ کاشانی کے یہاں بھی پیش آیا ۔ جب پارلیمنٹ کے ممبران اور رؤسا انکے پاس آئے وہ ان کے سامنے کھڑے نہیں ہوئے ، اور صرف فرمایا: آؤ یہاں بیٹھو،جب وہ لوگ بیٹھ گئے ، تو اچانک ایک طالب علم داخل ہوا۔ آقائے کاشانی انتہائی زحمت کے ساتھ پورے قد سے اس کے لئے کھڑے ہو گئے۔ وہ طالب علم متحیر رہ گیا لیکن میں سمجھ گیا وہ اس کام سے ان لوگوں کو طالب علم اور علماء کی اہمیت بتانا چاہتے ہیں۔ غرض یہ ہے کہ آپ بھی بعض لوگوںکی باتوں سے ناراض نہ ہوں بلکہ یہ یاد رکھیں کہ اگرہم اچھے ہوں تو عوام بھی ہمارے ساتھ حسن سلوک رکھیں گے ۔ ہم کو شکر کرنا چاہئے کہ ہم ایسے لباس اور ایسے راستے میں ہیں جس سے گناہگار شرم کرتے ہیں۔ظظظ
درس اخلاق
اشتہاردیؒ
رفتار و گفتار میں تامل:مراقبت و مواظبت کے معنی یہ ہیں کہ انسان جو بات بھی کرے اس میں تأمّل کرے ،غور و فکر کرے، ہر شخص خود اپنا حساب و کتاب جانتا ہے ، ’’ بل الانسان علی نفسہ بصیرۃ‘‘ ماہ مبارک رمضان کے آثار میں سے ایک یہ ہے کہ دیکھے اس مہینے کے بعد بہتر ہوا یا نہیں؟ اگر وہ بری صفات جو ماہ رمضان سے پہلے تھیں اب وہ صفتیں اس مہینے کی برکت کی وجہ سے نہیں ہیں تو خدا کا شکر ہے کہ ماہ رمضان نے اس میں اثر کیا ہے ، امام خمینیؒ نے فرمایا ہے : بعض لوگ ائمہؑ یا امام زادوں کے حرم میں جاتے ہیں اور گریہ کرتے ہیں اگر حرم سے باہر آنے کے بعد اس میں بہتری پیدا ہوتو وہ گریہ کا اثر ہے یعنی گریہ اس لئے ہو کہ میں نے ایک عمر ترقی نہیں کی اگر ایسا نہ ہوتو یہ رونا دروغ و جھوٹ ہے۔
دنیاوی زندگی کی اہمیت: تمام نیکیوںاور برکتوں کا محور زندگی ہے اور اس صورت میں انسان اپنے کو کامل کرسکتاہے اور کمالات حاصل کرسکتا ہے لہذ زندہ رہنے کی توفیق کی وجہ سے ذات الہی کو فراموش نہیں کرنا چاہئے اگرچہ زندگی میں بہت سے خطرات ہیں اور سب سے بڑا خطرہ گذشتہ اعمال کا محو ہوجانا ہے ، یہ ایک اہم مطلب ہے کہ انسان خیال رکھے کہ کہیں گذشتہ میں انجام دیئے ہوئے نیک اعمال ضائع نہ ہوجائیں۔
عمل میں اخلاص: انسان کو متوجہ رہنا چاہئے اور اپنے اعمال و عبادات کو دوسروں کے لئے انجام نہ دے قصد قربت کا مسئلہ بہت ہی مشکل ہے اور اس کو باقی رکھنا مشکل تر ہے ، جن لوگوں نے تبلیغ دین کی ہے اگر کسی کی ہدایت کی ہے ، کوئی نیک کام انجام دیاہے ، مسجد و امام باڑہ بنایا ہے یا کچھ لوگوں کو دیندار اور نماز خوان بنایا ہے اور ۔۔۔ تو ضروری نہیں کہ ان باتوں کو دوسروں کے سامنے پیش کریں ، خد اکے تمام احکام و فرامین کو خلوص نیت کے ساتھ انجام دینا چاہئے اور درس پڑھنا و تبلیغ کرنا بھی اسی میں سے ہے ۔
طہارت کا استمرار:ابتدائے جوانی میں خدا کی طرف توجہ بہت زیادہ ہوتی ہے اس لئے کہ نہ کسی سے دشمنی ہوتی ہے ، نہ غرور و گھمنڈ ہوتا ہے اور نہ زیادہ آرزوئیں ، پاک و صاف ہوتا ہے لیکن جب لوگوں کے درمیان آتا ہے اس وقت بخل، کینہ ، حسد ، غیبت اور بہتان وغیرہ  پیدا ہوتا ہے ، یہ تمام کا م شیطانی کام ہیں ،خودسازی کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہئے تعلیم کے وقت بھی اور دوسرے اوقات بھی، شیطان مولویوں اور علماء سے زیادہ سر وکار رکھتا ہے ، ناجائز راستوں کو جائز پیش کرتاہے ، خداوند عالم بھی ا ہل علم کو ہر اعتبار سے زیادہ مورد امتحان قرار دیتا ہے اور علماء زیادہ معرض امتحان الہی میں ہوتے ہیں امام خمینیؒ کہا کرتے تھے : بعض مولوی حضرات منبر پر جاتے ہیں اچھی تقریر کرتے ہیں لیکن قیامت میں ان کوکوئی بدلہ نہیں ملے گا ، تم لوگوں کے لئے منبر پر گئے ،تم نے لوگوں کے لئے مجلسیں پڑھیں ، انہوںنے تمہاری تعریف کی ، واہ واہ کی اب ہم سے کیا چاہتے ہو؟!لہذا توجہ رکھئے ایسا نہیں ہے کہ جو بھی دینی تعلیم کی طرف آتا ہے وہ خدا کے لئے درس پڑھتا ہے ۔
زندگی میں حضور :اس بات کی طرف توجہ رکھئے کہ کبھی بھی اپنے کو دوسروں سے بہتر نہ سمجھئے ، اگر تبلیغ کے لئے کسی گاؤں یا کسی بستی میں گئے تو اپنے کو تمام لوگوں سے نیچا تصور نہ کیجئے ، خدا وند عالم نے جناب موسیٰ سے خطاب کیا: اے موسیٰ! میری سب سے بری مخلوق کو میرے پاس لاؤ، جناب موسیٰ نے بہت زیادہ تلاش و جستجو کے بعد حتیٰ ایک مرا ہو ا کتا لانے سے بھی اجتناب کیا اور آخر میں خدا وند عالم کے سامنے عرض کیا : خدایا! میں نے اپنے سے برا کسی کو نہ پایا، میرزای شیرازی ؒ سے پوچھا گیا کہ آپ نے کیا کام کیا جس کی وجہ سے اس عظیم درجہ پر فائز ہوئے اور ایک دستخط کے ذریعہ استعمار کو شکست دیدی ؟ انہوںنے جواب دیا: میں نے کبھی بھی اپنے کو دوسروں سے برتر نہیں سمجھا۔
درس آموز نکات:پیغمبر اکرم  ﷺ نے فرمایا: کوے سے تین چیزیںسیکھو، ایک پوشیدگی جو کنایہ ہے غیرت و عفت کا ، دوسرے یہ کہ کوے طلوع آفتاب سے پہلے جگتے ہیں ، بہتر ہے کہ انسان جو کام بھی انجام دینا چاہئے صبح تڑکے شروع کرے ، نیند چھوڑ کردرس میں حاضر ہو ، پیغمبر نے تیسری چیز بیان کی جسے کوے سے سیکھنا چاہئے وہ حذرہ ہے یعنی کوا جیسے ہی دیکھتا ہے کہ کوئی جھکا وہ فورا ًفرار کرتا ہے کہ مبادا وہ پتھر اٹھائے اور ماردے ، حذر کرتا ہے یعنی احتیاط کرتاہے ضروری نہیں کہ انسان سو فیصدی یقین کرے کہ فلاں چیز حرام ہے ، دیندار وہ شخص ہے کہ جب بات کرنا چاہئے تو اگر خوف ہو کہ غیبت ہوگی ، نہ کہے اور کچھ اپنے نفس کو مہار کرے ۔
توبہ سے بہتر ہے گناہ نہ کرنا:اگر انسان گناہان کبیرہ کو ترک نہ کرے تو گناہان صغیرہ بھی لکھ لئے جاتے ہیں لیکن اگر کبائر کو ترک کرے تو صغائر کو بھی خداوند بخش دیتا ہے جس طرح سے سر پر ہتھوڑا مارناجائز نہیں ہے اسی طرح جھوٹ بولنا بھی جائز نہیں ہے بلکہ اس سے بھی بدتر ہے ، اس لئے کہ یہ علاج کے ذریعہ صحیح ہوجاتا ہے لیکن جھوٹ کے لئے توبہ کی ضرورت ہے اور توبہ کے بعد بھی عقب ماندگی ہے ، امام خمینیؒ اس سلسلے میں مثال دیتے ہوئے فرمایا کرتے تھے : دو نئے لباس تصور کیجئے ، ایک کو پہن کر دھو چکے ہیں اور دوسرا پہنا نہیں گیا ہے ، کوئی بھی گندا نہیں ہے پھر بھی آپس میںفرق ہے ، توبہ بھی دھونے کی طرح ہے انسان ممکن ہے کہ کام کرے کہ اس کا لباس زیادہ گندا نہ ہو، اگر زیادہ گندا ہوجائے تو اس کا دھونا اور صاف کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے ۔ 
 درس اخلاق
بہجتؒ
اول وقت نماز کی اہمیت:(آقائے قاضی مرحوم فرمایا کرتے تھے:)’’اگر کوئی شخص اول وقت نماز کا پابند ہو اور مقامات عالیہ تک نہ پہنچے تو مجھ پر لعنت کرے‘‘۔اول وقت میں ایک خاص راز ہے ’’حافظوا علی الصلوات‘‘یعنی نماز کی بجاآوری میں کوشاں رہیے،اس جملہ میں خود ایک نکتہ ہے جو ’’اقیموا الصلوۃ‘‘نماز پڑھیے ،کے علاوہ ہے۔اور اگر نمازی خیال رکھتا ہو اور پابند ہوکہ نماز کو اول وقت پڑھے تو یہ خود بہت زیادہ آثار رکھتا ہے اگرچہ حضور قلب بھی نہ رکھتا ہو۔
تفکر ایک سال کی عبادت سے بہتر!:نجف کے ایک بزگ عالم نے سحر کے وقت نماز شب کے لیے اپنے بیٹے کو پکارا اور کہا:اٹھو اور چند رکعت نماز شب پڑھ لو۔لڑکے نے جواب دیا:اچھا،وہ عالم نماز میں مشغول ہوگئے کچھ دیر کے بعد پھر دیکھا تو دیکھا کہ بیٹا نہیں اٹھا ہے۔دوبارہ پکارا کہ اٹھو اور چند رکعت نماز پڑھ لو،لڑکے نے پھر جوابدیا کہ:اچھا۔وہ عالم دوبارہ نماز میں مشغول ہوگئے لیکن دیکھا کہ بیٹا بستر سے نہیں اٹھ رہا ہے۔تیسری مرتبہ پھر پکارا ،تو بیٹے نے جواب دیا کہ :بابا جان میں تفکر کررہا ہوں ، جس کے بارے میں امام صادقؑ نے فرمایا ہے کہ:تفکر ساعۃ خیر من عبادۃ سنۃ‘‘ وہ عالم سخت ناراض ہوئے اور کہا۔۔۔(آقای بہجتؒ نے وہ کلمات زبان پر جاری نہیں کیے لیکن ان کے شاگرد کے بقول کہ ہم لوگ سمجھ گئے کہ اس عالم نے کہا :)عبادت سے وہ تفکر ایک سال یا ساٹھ سال بہتر ہے جو انسان کو نماز شب پڑھنے کے لیے آمادہ کرے ،نہ یہ کہ نماز شب کے وقت انسان بستر پر پڑا رہے اور تفکر کرے اور اس بہانے نماز نہ پڑھے!؟۔
عمل صالح کی اہمیت:ایک دن نجف میں ایک عالم نے راستہ میں ایک فقیر کو ایک درہم صدقہ دیا۔رات میں خواب میں دیکھا کہ ان کو آراستہ باغ میں ایک عالیشان محل میں دعوت دی گئی ہے۔انھوں نے پوچھا کہ یہ باغ اور محل کس کا ہے؟ جواب ملا کہ تمہارا ہے۔انتہائی تعجب سے پوچھا کہ میں نے تو ایسا کوئی عمل انجام نہیں دیا کہ اس عظیم نعمت کا مستحق قرار پاؤں۔ کہا گیا:تعجب ہورہا ہے؟ کہا:ہاں!جواب ملا کہ تعجب نہ کرو، یہ تمہارے اس ایک درہم کی جزا ہے جسے تم نے خلوص نیت کے ساتھ فقیر کو دیا تھا!۔
نصائح: خ محبت اہل بیت علیہم السلام سے ہر گز دست بردار نہ ہوں اس لئے کہ اسی محبت میں تمام چیزیں ہیں ،اگر ہمارے پاس کوئی چیز ہے تو اسی محبت کی وجہ سے ہے۔
خشب عید غدیر اور اسی طرح کی دوسری راتوں میں ان راتوں اور ان دنوں کی فضیلت ،ان سے متعلق شخصیات کی عظمت و فضیلت،ان کے دشمنوں کے مطاعن،اور ولایت کے سلسلے میں وارد روایات کو دلیل و برہان کے ساتھ ذکر کرنا چاہیے تاکہ سامعین کے مذہبی عقائد کی تقویت کا سبب بنیں ۔نہ کہ اس طرح کی مجالس ہنسی مذاق اور لہو ولعب میں گزار دی جائیں۔
خ خدا ہی جانتا ہے کہ اہل بیت رسالت علیہم السلام کی رحمت کتنی وسیع ہے!ان کی رحمت ،خداوند عالم کی رحمت واسعہ کے تابع ہے۔
خ ائمہ اطہار علیہم السلام خوف جہنم بھی رکھتے تھے اور شوق جنت بھی لیکن عبادت کو خوف و شوق میں نہیں انجام دیتے تھے۔
خ اگر امام کی معرفت آگے بڑھے گی تو خدا کی معرفت میں بھی اضافہ ہوگا اس لئے کہ امام ؑ سے بڑھ کر کون آیت ہے۔
خ ائمہ علیہم السلام ہم سے غافل نہیں ہیں گرچہ ہم ان سے غافل ہوجائیں۔خزیارت کی توفیق کا پیسہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
خ جو مصیبت بھی ہم پر آتی ہے وہ اہل بیت علیہم السلام اور ان سے مروی احادیث سے دوری کی وجہ سے ہوتی ہے۔
خ نجات اس شخص کے لئے ہے جو اہل بیت علیہم السلام کو ہر جگہ اپنا مخاطب اور حاضر و ناظر سمجھے۔
خ ائمہ علیہم السلام کے نقش قدم پر چلیے نہ کہ دوسروں کے ،ہمیشہ علمائے دین سے رابطہ رکھیے ۔  
خجوانوں کو چاہیے کہ اپنے عقائد و اعمال کو مستحکم کریں اس لئے کہ ایسی صورت میں دنیا کی کوئی بھی بری ثقافت (یا کوئی بھی نقصان پہنچانے والی چیز )اثر نہیں کرے گی اور ان کو چاہیے کہ خدا پر توکل کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کریں اور عمل کریں۔
خیہ بات واضح ہے کہ اگر انسان عقیدہ و عمل دونوں اعتبار سے گناہ اور معصیت کو ترک کرے یعنی تمام گناہوں کو چھوڑنے کا دل سے قصد کرے اور ا س پر عقیدہ بھی رکھے اور عملی طور سے تمام گناہوں کو ترک بھی کرے اور کسی گناہ کا مرتکب نہ ہو تو وہ دوسروں سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔دوسرے اس کے محتاج ہوتے ہیں لیکن وہ کسی کا محتاج نہیںہوتا۔اور اسکے ساتھ ہی ساتھ گناہوںسے بچنا ـــــ،حسنات ونیکیوں کے وجود میں آنے کاسبب بنتا ہے اور برائیاںوسیئات اس سے دور ہوتی ہیںیعنی اس کو توفیق حاصل ہوتی ہے کہ اچھائیوں کو انجام دے اور برائیوں سے بچے(وَماخلقتُ الجنّ والانس الالیعبدون)۔بندگی و عبادت یہ ہے کہ عقیدہ و عمل کے اعتبارسے بھی گناہوںکوترک کرے۔
خ  بعض افرادیہ خیال کرتے ہیںکہ ہم ترک معصیت کی منزل سے گزرچکے ہیںہم سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا جبکہ اس بات سے غافل ہیںکہ گناہ صرف چندکبائرسے مخصوص نہیںہے یعنی ایسانہیںہے کہ صرف گناہانِ کبیرہ ہی گناہ ومعصیت ہوںاوران سے بچنے سے ترک معصیت انجام پارہاہے؛۔ایسانہیںبلکہ گناہان صغیرہ پراصراربھی گناہ کبیرہ ہے۔کوئی چھوٹایامعمولی گناہ ہے اگرہم اس کومستقل انجام دیںاوراس کی تکرارکریںتووہ بھی گناہ کبیرہ ہوجائے گا مثلااپنے نوکرکوڈرانے کے لئے اس کی طرف غضبناک نگاہوںسے دیکھنا بھی اذیت اورحرام ہے اسی طرح گنہ گارکی طرف مسکراکردیکھنابھی اس کی تشویق اورمعصیت میں مدد ہے لہذا اس طرح کے بظاہرچھوٹے اورمعمولی کام بھی معصیت اورگناہ ہیں۔
خ  علماء وصلحاء سے دوری بھی انسان کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے۔جب انسان ایسے افرادسے دوررہتاہے توبسااوقات اس کاایمان ودین بھی بہت جلداس سے رخصت ہوجاتاہے۔
خ  خداکرے ہم صرف زبانی دعوے کرنے والے نہ ہوں،ہمارے پاس فقط لقلقۂ لسانی نہ ہوبلکہ عملی میدان میںہم آگے ہوں،جوکچھ کہیںاس پرعمل پیرا بھی ہوںاورعمل بھی بغیرعلم کے نہ کریںبلکہ علم کے ساتھ کریںاورعلم کے ساتھ ثابت قدم رہیں،جتنی باتیںجانتے ہیںاس پرعمل کریں اورجس کے بارے میںنہیںجانتے اسمیںسکوت اختیار کریںاوراحتیاط سے کام لیںتاکہ یقین حاصل کرلیںکہ قطعًا یہ راستہ پشیمانی والانہیںہے۔دوسروںکے اعمال پرنظرنہ رہے بلکہ شریعت کودیکھیںکہ وہ ہم سے کیاچاہتی ہے،کن چیزوںکاہمیں حکم دے رہی ہے اورکن چیزوںسے ہمیں روک رہی ہے؛اسی کے مطابق عمل کریں۔
خاحکام الہی کی انجام دہی ،خاصکرنمازمیںخضوع وخشوع پیداکرنے کے لئے نمازکے شروع میںامام زمانہؑ سے واقعی توسل کریں۔
خغصے کے علاج کے لئے پورے اعتقادکے ساتھ زیادہ سے زیادہ صلواۃپڑھیں(اللھم صلِّ علی محمدوآل محمد)
خاہلبیت علیہم السلام؛خصوصًاامام زمانہؑ کی محبت اپنے دل میں پیداکرنے کے لئے اللہ کی معرفت حاصل کریںپھراس کی اطاعت کریںاوراس کی محبت اپنے دل میںپیداکریں،اس لئے کہ خداسے محبت کرنامحمدوآل محمدؐ کی محبت کاسبب بنتا ہے۔
خقرب الہی حاصل کرنے کے لئے اپنااستاداپنے علم کوبنایئے؛جتنی باتیںجانتے ہیںسب پرعمل کیجئے،اپنی معلومات کوپیروںتلے نہ روندئیے۔
خاگرانسان اپنی تمام عبادات،خاصکرنمازجوسرفہرست ہے، اسکی اصلاح کرلے تووہ کامیاب ہوگا۔  
خہم شیعہ حضرات ہر روز امیر المومنین علیہ السلام،ائمہ معصومین علیہم السلام اور رسول اکرم ﷺکے سامنے زانوئے ادب کیوں نہیں تہہ کرتے اور ان کی حدیثوںمیں پوشیدہ بے شمار آداب و معارف اور حکمت پر کیوں نہیں توجہ دیتے۔
ختوسلات بہت ہی مفید ہے ،ان امام زادوں کی زیارت کے لئے زیادہ جائیے ،جس طرح ہر پھل ایک خاص وٹامن رکھتا ہے اسی طرح ان میں سے ہر شخصیت ایک خاص اثر اور خصوصیت رکھتی ہے۔
خشیعوں کا ایک امتیاز امام زادوں کی قبریں اور مزارات ہیں لہذا ان کی زیارت سے ہرگز غافل نہ ہوں اور اپنے کو اپنے ہی ہاتھوں محروم نہ کریں۔
خحقیرکی نظرمیںسب سے بہترین ذکر،ذکرعملی ہے؛عقیدہ وعمل میںمعصیت کوترک کرنا۔خ خ خ 

حضرت زینب علیہاالسلام

حضرت  زینب علیہاالسلام 
سید محمد حسنین ابقری
۱۵؍ رجب المرجب کی شب یعنی ۱۴ و ۱۵ کی درمیانی شب ۶۲ یا  ۶۵ ہجری میں ثانیٔ زہرا  حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کی شہادت کی تاریخ ہے البتہ بعض دوسری تاریخیں بھی بیان ہوئی ہیں۔ آپؑ کی ولادت با سعادت مدینہ منورہ میں ہوئی ،تاریخ ولادت کے سلسلے میں بھی کتابوں میں مختلف تاریخیں بیان ہوئی ہیں۔مثلاً۵؍ جمادی الاولیٰ۶ھ؁ولادت کی تاریخ بھی بیان کی گئی ہے اس کے علاوہ یکم شعبان المعظم۶ھ؁، ماہ رمضان ۶ھ؁اور ربیع الثانی کا آخری عشرہ۵ یا ۶ یا ۷ ہجری۔(عقیلہ بنی ہاشمؑ، ص۵؛زینب الکبریٰؑ،ص۱۷؛منتخب التواریخ،ص۹۴ و ۹۵؛ریاحین الشریعہ،ج۳،ص۳۳ )
پدر بزرگوار امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام، مادر گرامی صدیقۂ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، نانا رسول اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم،بھائی حسن و حسین علیھما السلام یعنی پنجتن پاک کے عصمتی حصار میں پرورش پانے والی ذات گرامی حضرت زینب سلام اللہ علیہا ہیں۔ پھر یہ عظمت ہی ہے کہ دادا حضرت ابو طالبؑ ، دادی فاطمہ بنت اسدؑ، نانی حضرت خدیجۃ الکبریٰؑ تھیں اور شوہر نامدار جناب عبد اللہ ابن جعفر ابن ابو طالبؑ اور اولادوں میں علی، عون، عباس ، محمد اور ام کلثومؑ بیان کئے گئے جن میں سے عون اور محمد کربلا میں شہید ہوئے۔ 
کنیت:ام عبد اللہ ،ام کلثوم، ام الحسن ہے لیکن آپ کی خاص کنیتیں:ام المصائب،ام الرزایا اور ام النوائب ہیں۔
القاب: عقیلۂ بنی ہاشم، عقیلۃ الطالبین، صدیقۂ صغریٰ(اشارہ ہے ماں کی طرف کہ صدیقہ کبریٰ ہیں اور باپ صدیق اکبر ہیں) ، عصمت صغریٰ، ولیۃ اللہ ، الراضیۃ بالقدر و القضاء ( قضاء و قدر الٰہی پرراضی رہنے والی )،صابرۃ البلوی من غیر جزعٍ ولا شکوی ( بغیر بے تابی ، اور شکایت کے عظیم مصائب پر صبر کرنے والی) امینۃ اللہ، عالمۂ غیر معلمہ ، فھمہ غیر مفھّمہ ، محبوبۃ المصطفیؐ ، ثانیٔ زہرا، (ریاحین الشریفہ ۳/۴۸)
حضرت علیؑ کی نسل سے جناب زینبؑ کی اولادیں زینبی کے نام سے مشہور ہیں۔
رسول خداﷺ نے ولادت کے بعد آپ کا نام زینب رکھا۔ (چودہ ستارے صفحہ ۲۶۶از امام مبین صفحہ ۱۶۴) بروایتے ’زینب‘ عبرانی لفظ ہے جس کے معنی ’بہت زیادہ گریہ کرنے والی‘ کے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ یہ لفظ ’’زین‘‘ اور’’اب‘‘ سے مرکب ہے یعنی ’باپ کی زینت‘ پھر کثرت استعمال سے زینب ہوگیا۔ اس روایت کی روشنی میں اگر غور کیا جائے تو ثانیٔ زہراؑ کی عظمت و مرتبہ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایک طرف مولائے کائناتؑ کی ذات والا صفات جو تمام صفات و کمالات کا نمونہ اور مصداق کامل اور پھر جو ایسی ذات کے لئے زینت بنے !!؟
 ثانیٔ زہراؑ کا یہ کردار و عمل ہی تھا جس کی بنیاد پر علی علیہ السلام جیسے باپ کے لئے زینت قرار پائیں۔ اب ہر چاہنے والی کو سوچنا ہوگا کہ اس کا کردار اور اس کا عمل کیسا ہونا چاہئے!۔ ضروری ہے کہ ہر چاہنے والی کا کردار و عمل ایساہی ہو کہ وہ اپنے دین ، اپنے مذہب، اپنے خاندان، اپنے گھرانے کے لئے باعث زینت بنے باعث ذلت و رسوائی نہ بنے۔ 
حضرت زینب ؑکے سلسلے میں بعض کتابوں نے ایک جملہ لکھا ’’ان الحسینؑ کان اذا زارتہ زینب یقوم اجلالاً لھاوکان یجلسھا فی مکانہ ‘‘کہ جب شہزادی اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے تشریف لاتیں تو آپؑ ان کے احترام میں کھڑے ہوجاتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ جس طرح پیغمبراکرم ﷺ حضرت زہرا علیہا السلام کی عظمت کو بیان کرنے کے یہی عمل انجام دیتے تھے جیسا کہ سنن ابوداوود، حدیث ۵۲۱۲ و صحیح ترمذی حدیث ۳۸۷۲ میں ہے کہ جب بھی حضرت فاطمہؑ ،رسول کریمؐ کے پاس تشریف لاتی تھیں تو آنحضرتؐ کھڑے ہوجایاکرتے تھے اور اپنی جگہ پربٹھاتے تھے۔
شیخ جعفر نقدی نے اپنی کتاب ’’زینب الکبریٰ‘‘ میں یحییٰ مازنی سے نقل کیا ہے کہ میں ایک مدت تک مدینہ میں امیر المومنینؑ کا پڑوسی تھا۔ اسی گھر میں ان کی بیٹی جناب زینبؑ بھی تھیں لیکن خدا کی قسم میں نے کبھی نہ ان کے سائے کو دیکھا اور نہ کبھی ان کی آواز سنی۔ اور جب وہ اپنے نانا کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتیں تو رات کی تاریکی میں نکلتی تھیں۔ امام حسنؑ داہنی طرف ، امام حسینؑ بائیں طرف اور امیر المومنین ؑ آگے آگے ہوتے تھے۔ اور جب قبر مبارک کے نزدیک پہنچتیں تو امیر المومنینؑ آگے بڑھ کر چراغ کو گل فرمادیتے تھے۔ ایک دفعہ امام حسنؑ نے وجہ دریافت کی تو فرمایا: اخشی ان ینظر احد الی شخص اختک زینب  تاکہ تمہاری بہن کے قدو قامت اور پرچھائی پر کسی کی نگاہ نہ پڑ جائے ۔ حضرت زینبؑ نے اپنی چاہنے والیوں کے لئے جہاں ایک طرف حجاب و پردے کا پیغام دیا، وہیں سخت مصائب و مشکلات پر صبر اور اپنے فرائض و ذمہ داریوں کی سخت حالات میں بھی ادائیگی کا درس دیا ہے۔ ایسے سخت حالات اور مصائب و مشکلات میں گھر کر بھی حتیٰ کہ نماز شب کو بھی فراموش نہ کرکے عبادت الٰہی بالخصوص نماز کی اہمیت بتائی۔ پھر امیر المومنینؑ کی ظاہر ی خلافت کے دور میں کوفہ میں خواتین کو درس قرآن و احکام دے کر اگر طرف اس کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کیا تو دوسری طرف یہ بھی ثابت کردیا کہ اولاً عورتوں کے لئے بھی تعلیم ضروری ہے ثانیاً مکمل اسلامی حجاب میں رہتے ہوئے تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے۔ 
جناب زینبؑ نے کربلا اور اس کے بعد کے تمام مصائب وآلام کو برداشت کرنے کے بعد ۱۴؍ رجب کو شام کے ایک باغ میں سر پر ایک شقی کے بیلچہ مارنے کی وجہ سے انتقال کیا۔
کارواں شام کی سرحد میں جو پہنچا سرِ شام
متصل شہر سے تھا باغ، کیا اس میں قیام
دیکھ کر باغ کو رونے لگی ہمشیر امامؑ
واقعہ پہلی اسیری کا جو یاد آیا تمام
حال تغییر ہوا فاطمہؑ کی جائی کا
شام میں لٹکا ہوا دیکھا تھا سر بھائی کا
بنت حیدرؑ گئیں روتی ہوئی نزدیک شجر
ہاتھ اٹھا کر یہ کہا: اے شجرِ بارآور
تیرا احسان ہے یہ بنتِ علیؑ کے سر پر
تیری شاخوں سے بندھا تھا مِرے مانجائے کا سر
اے شجر تجھ کو خبر ہے کہ وہ سر کس کا تھا؟
مالکِ باغِ جناں تاجِ سرِ طوبیٰ تھا
رو رہی تھی یہ بیاں کرکے جو وہ دکھ پائی
باغباں باغ میں تھا ایک شقیٔ ازلی
بیلچہ لے کے چلا دشمنِ اولادِ نبیؐ
سر پہ اس زور سے مارا کہ زمیں کانپ گئی
سر کے ٹکڑے ہوئے، روئیں نہ پکاریں زینبؑ
خاک پر گر کے سوئے خلد سدھاریں زینبؑ
شہزادی زینب کبریٰ ؑ کا روضہ آج شام(دمشق) میں مرجع خلائق ہے،جوکچھ عرصہ سے دشمنان اہل بیت کے حملے کی زد پر ہے،ضروری ہے کہ ہم اس سلسلے میں بارگاہ الٰہی میں دعا کے علاوہ ہر طرح کی کوشش کو بروئے کارلائیں اور دنیا سے ظلم و ستم اور دہشتگردی کے خاتمہ کے لئے ایک ہوں اور مکمل طور پر ظلم و ناانصافی کے خاتمے اور دنیا میں واقعی طور عدل و انصاف قائم ہونے کے لئے نبیٔ رحمتؐ کے آخری جانشین کے ظہور میں تعجیل کیلئے دعا کریں۔
 ٭٭٭٭٭

اخباری کے سوالات اور شیعہ علی علیہ السلام کے جوابات

اخباری کے سوالات اور شیعہ علی علیہ السلام کے جوابات
سوال: 
i: میرے پیارے پیارے تقلیدی بھائیو ۔۔ !! 
کچھ سوال ھیں ۔۔۔ اگر ھوسکے تو جواب تو دو ؟
1 - رسول اللہ ﷺ کے دنیاوی خلفاء کو کیوں نہیں مانتے ؟؟ جبکہ امام کا نائب ایک غیر معصُوم کو مان کر " ولی الامر المسلمین بھی مانتے ھو ؟؟ یہ کیا تضاد ھے ؟ رسول کا نائب غیر معصُوم نہیں ھوسکتا تو امام کا نائب غیر معصُوم کیسے ھوسکتا ھے ؟؟ " 
جواب:
باسمہ تعالیٰ
سلام مسنون
میرے نادان اخباری بھائیو۔۔!!
تمہارے جوابات حاضر ہیں :
(1)رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نائب وہی ہوسکتا ہے جس کو خدا معین کرے لہذا ہم رسولؐ کے بعد انکو مانتے ہیں جن کو خدا نے معین کیا اور جن کا اعلان رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا۔ امامؑ آج بھی ہیں ، لیکن اس غیبت کے دور میں دین اور امام کے احکام تک رسائی ضروری ہے اس کے دوہی راستے ہیں: یا اتنا علم و صلاحیت ہو کہ مرضیٔ خدا و رسولؐ و امامؑتک خود پہنچ جائیں (جس کو اصطلاح میں کہتے ہیں کہ خود مجتہد ہوں)ورنہ دوسرا راستہ یہ ہے کہ جامع الشرائط عالم کو ذریعہ بنائیں جسے اصطلاح میں تقلید کہتے ہیں(یعنی اپنی نادانی و لاعلمی کی وجہ سے امامؑ کی مرضی تک پہنچنے کے لئے عالم کو ذریعہ بنانا)۔ اولاً عقل کہتی ہے کوئی ذریعہ ہو پھر امامؑ کی نص موجود ہے ۔ رسولؐ کی نیابت قیامت تک ہے وہ صرف خدا کی طرف سے ہوگی لیکن غیبت کے زمانہ میں لوگ حقیقی دین سے جڑے رہیں اور ان تک امام ہی کا پیغام پہنچے وہ صحیح دین پر ہی عمل پیرا ہوں دشمن ان کو بہکانے نہ پائیں، حقیقی دین سے دور نہ کرنے پائیں؛ اس کے لئے ائمہ علیہم السلام نے ایک ذریعہ بتایا جسے مرجعیت کہتے ہیں ، امامؑ کی عدم موجودگی میں یہ امامؑ کے نائب ہونگے۔ انھیں امام نے خود نائب بنایا ہے اپنی زندگی میں بھی نائب بنایا مسجدوں میں بٹھایا یہ کہہ کر جاؤ مسجد میں بیٹھو فتویٰ دو، مختلف جگہوں پر نائب بناکر بھیجا ، امام زمانہؑ نے غیبت صغریٰ میں اپنے چار خاص نائب معین کئے اور غیبت کبریٰ کے لئے ائمہ علیہم السلام ہی نے نیابت کا سلسلہ قائم فرمایا۔ یہ نیابت حکم امام سے ہے اور اس میں تائید امام شامل ہے جس کے گواہ احادیث و واقعات ہیں۔ اگر اس نیابت پر اعتراض ہے پہلے امام پر اعتراض ہوگا جو نہیں ہوسکتا۔
سوال:
2 - جو لوگ رسول اللہ ﷺ کو " اپنے جیسا " کہتے ھیں انکو بُرا کیوں سمجھتے اور کہتے ھو ؟ جبکہ تمہارے مجتہد بھی خود کو " آئیت اللہ ، حجّت الاسلام ، ولی الامر ، اھل الذکر ، انبیاء کے وارث کہتے ھیں ؟؟ یعنی یہ کہتے ھیں کہ " ھم ان جیسے ھیں ؟ " تو پھر انکو اچھا اور انکو برا کیوں ؟؟ یہ کیا تضاد ھے ؟؟ 
جواب:
(2)۔ کوئی بھی اپنے کو امامؑ جیسا نہ کہتا ہے اور نہ کہہ سکتا ہے ۔ الفاظ مشترک ہوتے ہیں ایک ہی لفظ کسی دوسرے کے لئے ساتھ استعمال ہونے سے وہ اس جیسا نہیں ہوجاتا۔ امام انسان بھی تھے، تو کیا اپنے کو انسان کہنے سے ہم امام جیسے ہوجائیں گے؟۔ امام مومن بھی تھے، کیا ہم اپنے کو مومن کہیں تو امام جیسے ہوجائیں گے؟ ہرگز نہیں۔تو کسی کو آیۃ اللہ یا حجۃالاسلام کہنے سے وہ امام جیسا ہرگز نہیں ہوجائے گا۔
سوال:
3 - اغیّار کہتے ھیں " سب صحابی ستارے ھیں کسی کی بھی پیروی کرو فلاح پاؤ گے " تو نہیں مانتے لیکن اپنے مجتہدوں کے اختلاف کے باوجود انکے فتوؤں پر یہ سوچ کر عمل کرتے ھو کہ " کسی بھی مجتہد کی پیروی کرو گے تو فلاح پاؤ گے ؟؟ کیا فرق ھے ان میں اور تم میں ؟؟ 
جواب:
()۳۔ پہلے مجتہد ہونا ثابت ہو (جس کے راستے و شرائط ہیں)، پھر غلطی کا یقین نہ ہو۔ اگر مجتہد ہونا ثابت نہ ہو اور شرائط نہ پائے جاتے ہوں تو تقلید نہیں کرسکتے اسی طرح اگر غلطی کا علم ہو تب بھی تقلید نہیں کرسکتے۔ وہاں حدیث میں ہے ہر صحابی کی پیروی سے نجات پاؤ گے یہ غلط ہے ۔اس لئے کہ اصحاب ظالم، منافق، گنہ گار، زناکار(مثلا خالد بن ولید) اور قاتل وغیرہ بھی تھے اس لئے ہر صحابی کی پیروی نہیں ہوسکتی۔  دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔یہاں قید لگائی گئی ہے :در اہل بیتؑ کا فقیہ ہونا ثابت ہو،نفس کی حفاظت کرنےوالا ہو، دین کا محافظ ہو،اپنے مولیٰ کے احکام کا پابند و پیروکار ہو،نفسانی خواہشات کی مخالفت کرتا ہو(حدیث)۔   
سوال:
4 - وہ کہتے ھیں " رسول اللہ ﷺ نہیں رھے اس لیئے اب ھماری ذمّہ داری ھے تبلیغ کرنا اور امت کو لیکر چلنا " تمہارے مجتہد کہتے ھیں " امام غیبت میں ھیں اس لیئے ھماری ذمّہ داری ھے امّت کو لیکر چلنا ؟؟ " فرق کیا ھے ؟؟ 
جواب:
۴۔ پہلے جواب میں فرق بیان ہوچکا ، وہاں حکم رسول و خدا سے عدولی ہے یہاں حکم رسول و خدا و امام پر عمل ہے۔
سوال:
5 - جب نماز پڑھنا اور اوّل وقت مین پڑھنا اتنا ھی ضروری ھے اور ثواب بھی بہت زیادہ ھے تو دن میں پانچ اذانیں دے کر پانچ نمازیں کیوں نہیں پڑھتے ؟؟ 
جواب:
۵۔ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور پڑھنا بھی چاہئیے لیکن جب وقت آجاتا ہے اور رسولؐ نے بھی مختلف مواقع پر ساتھ پڑھی ہے جیسا کہ صحاح ستہ وغیرہ میں موجود ہے اور آج بھی تمام مسلمان حج میں ایک دن ظہر عصر کی ایک ساتھ اور ایک دن مغرب عشا کی ایک ساتھ پڑھتے ہیں جس سے ثابت ہے کہ وقت آجاتا ہے پھر کیا حرج ہے، بہت زیادہ یہ ہے زیادہ بہتر کا ترک ہے جیسے جماعت سے نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے تو کیا فرادیٰ غلط ہے؟ ہرگز نہیں۔ پھر شریعت میں آسانی ہے اور یہ شریعت سہلہ ہے اور آج آسانی ایک ساتھ میں ہے لہذا کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال:
6 - اذان و اقامت میں بقول تمہارے " علیُُ ولی اللہ " پڑھنا صرف " مُستحب " ھے تو پھر اسکو اپنی اذان سے ھٹا کر باقی مسلمانوں سے کیوں نہیں مل جاتے ؟؟ آخر اتحاد بین المسلمین کیلیئے اتنا بھی نہیں کرسکتے ؟؟
جواب:
۶۔اتحاد کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے اپنے عقائد و مسلمات کو چھوڑ دیا جائے ورنہ اگر تمام اہل سنت حضرت علیؑ کو جانشین بلافصل مان لیں تو سارا اختلاف ختم ہوجائے گا اور اتحاد قائم ہوجائے گا۔ ہم شریعت میں حکم خدا و رسول کے پابند ہیں جو امام یا رسول ہی بتائیں گے ، اذان میں ’علی ولی اللہ‘ کی اجازت امام کی طرف سے لہذا ہم کہتے ہیں۔
سوال:
7 - تقلید بقول تمہارے واجب ھے تو پھر مردے کو دفن کرتے وقت جس بیچارے نے زندگی بھر جس مجتہد کی توضیح المسائل پر عمل کیا اسکای یاد دھانی " تلقین میں کیوں نہیں کرواتے کہ آخر کو وہ ذمّہ دار ھے اسکے اعمال کا جو مرنے والے نے اسکے فتوؤں کے مطابق سرانجام دیئے ؟؟ " 
جواب:
۷۔جہالت اور لاعلمی میں زندگی گزارنا غلط ہے ۔ شریعت الہی پر عمل ضروری ہے۔ یا اتنا علم ہو کہ خدا کے احکام کو جان سکو اگر اتنا علم نہ ہو تو عالم کو ذریعہ بناؤ۔ تلقین میں کیا کہنا ہے یہ ہم اور تم طے نہیں کریں گے بلکہ امام بتائیں گے جس بات کے اقرار کے لئے امامؑ نے فرمایا ہے اس کا اقرار کیا جاتا ہے ۔ اگر امام نے فرمایا ہوتا کہ تلقین میں اپنے مجتہد کا نام لو ہم ضرور لیتے۔
سوال:
8 - کیا تمہارا مجتہد تم کو جانتا اور پہچانتا ھے کیونکہ جب محشر میں اسکی ضرورت پڑے گی تو " اگر اس نے قسم کھا لی کہ تمہیں اس نے زندگی میں کبھی دیکھا ھی نہیں تو کیا کرو گے ؟؟ " 
جواب:
۸ ۔ وہ صرف ذریعہ ہے جاننا پہچاننا ضروری نہیں ۔ اصل ہے دین خدا پر عمل ۔ ہرگز اس سے پوچھا نہیں جائے گا۔ اور یہ تقلید حکم امام سے ہم نے کی ہے۔پھر مجتہد سے پہلے تو باپ کا مرحلہ ہے کیا تم نے اپنے باپ سے لکھوا لیا ہے کہ تم اسی کی اولاد ہو ، اگر اس نے انکار کردیا تو!!!!
سوال:
9 - اپنے مجتہد سے کوئ پروانہ لکھوایا ھے کہ جس پر تحریر ھو کہ ۔۔ 
 میں فلاں مجتہد تصدیق کرتا ھوں کہ یہ شخص میرا مقلّد ھے اور جو یہ اعمال میرے فتوے کے مطابق کرے گا اسکا ذمّہ دار ھوں ؟؟ " نہیں لکھوایا تو کیوں ؟؟ آخر زمانہ خراب ھے بھئ ۔۔ لکھ پڑھ اچھی چیز ھوتی ھے نا ؟ 
جواب:
۹۔ یہ اعتراض پہلے امام پر کرو۔ ثانیا کیا تم نے اپنے بنائے ہوئے خلیفہ سے لکھوالیا ہے کہ رسولؐ کے بعد تم اس کو مانتے ہیں؟اپنے پیر صاحب سے لکھوا لیا ہے کہ تم اس کے چیلے ہو؟؟اس لئے کہ ہم کو اپنے ائمہؑ پر پورا بھروسہ ہے ۔ خلیفہ و پیر کا کوئی بھروسہ نہیں ہے لہذا اپنی فکر کرو۔
سوال:
10 - تقلید واجب ھے تو بتاؤ قبر یا حشر میں کسی معصُوم علیہ السّلام نے بتایا کہ " قبر یا حشر میں ایک سوال یہ بھی ھوگا کہ " من مُجتہدوک ؟؟ " تمہارا مجتہد کون ھے ؟؟ 
جواب:
۱۰۔ اس کا جواب پہلے جوابات سے واضح ہے۔ وہاں کیا پوچھا جائے گا یہ تم نہیں معین کروگے امامؑ نے معین فرمایا ہے۔ شریعت میں واجبات کی تعداد تو تم بھی نہیں بتاسکتے اور قبر میں ہر واجب کا نام نہیں پوچھاجائے گا۔
سوال:
11 - اپنے مجتہد سے کوئ ثبوت مانگا کہ وہ واقعی " نائب امام ھے بھی یا نہیں ؟ " اگر مانگا تو کیا ملا ثبوت ؟؟ اور اگر نہیں مانگا تو کیوں نہیں مانگا ؟؟ 
جواب:
۱۱۔ ہم نے امام علیہ السلام سے ثبوت مانگا ۔ امامؑ کا ثبوت ہمارے لئے کافی ہے۔ ہمارے یہاں شخص نہیں شخصیت ہے ۔ یہ چونکہ تمہارے یہاں ہے کہ خود معین کرتے ہو لہذا تم کو ثبوت کی ضرورت ہے ۔ ہم اُدھر کے معین کئے ہوئے مانتے ہیں اس لئے ہم کو ثبوت کی ضرورت نہیں۔ امامؑ نے معیار بیان فرمایا ہے ہم اس معیار پر پرکھتے ہیں پھر مانتے ہیں۔ 
سوال:
12 - جب تم یہ کہتے ھو کہ تقلید واجب ھے اپنے سے " اعلم " کی کیونکہ اسکا علم زیادہ ھے تو پھر تمہارے چھوٹے مجتہد اس بڑے " ولی الامر المسلمین " کی تقلید کیوں نہیں کرتے ؟؟ یہ کیا بات ھوئ کہ اگر آپ خود علم حاصل کرسکتے ھیں تو آپ پر تقلید واجب نہیں ؟؟ جبکہ جو زیادہ علم والا ھے وہ " ولی الامر المسلمین " سب نے مان لیا ؟؟ 
یہ کیسا " ولی الامر " ھے کہ جسکی اطاعت باقی مولویوں پر واجب نہیں ھے ؟؟ 
جواب:
۱۲۔ دین خدا اور مرضی خدا تک پہنچنے کے دو راستے ہیں ۔ خود اتنا جانتا ہو تو اس پر تقلید نہیں ہے، تقلید اس پر ہے جو مرضیٔ خدا و رسول تک نہ پہنچ سکتا ہے۔ اور تقلید کے صحیح ہونے کی یہ بہت ہی اہم دلیل ہے کہ تقلید واجب نہیں بلکہ دین سے بے بہرہ اور جاہل رہنا غلط ہے۔ یا عالم بنو تب تم پر تقلید نہیں ہے ورنہ عالم کے ذریعہ دین کو حاصل کرو۔ تاکہ غلط اور خود ساختہ ادیان سے محفوظ رہو۔
سوال:
13 - قرآن میں آیۃ اولی الامر کی تفسیر اغیّار نے کرتے ھوۓ کہا " جو صاحب حکومت ھو وہ اولی الامر ھوتا ھے " ۔۔ تمہارے مجتہدوں میں سے جسکے پاس حکومت ھے وہ باقی سب کا " ولی الامر المسلمین " ھوگیا ؟؟ کیا فرق ھے تم میں اور ان میں ؟؟ وہ غلط اور تم صحیح کیسے ؟؟ 
جواب:
۱۳۔ ہمارے یہاں اس آیت میں اولی الامر ائمہ معصومین علیہم السلام ہیں جن کی اطاعت واجب ہے ۔ آج مجتہد طول میں ولی ہے نہ عرض میں یعنی امام کے برابر نہیں ہے بلکہ امام کے بعد ہے اور امام کی عدم موجودگی میں ۔ جس طرح امام کی ولایت خدا کی ولایت کے طول میں ہے عرض میں نہیں یعنی خدا کے برابر نہیں بلکہ خدا کے بعد اور خدا کے حکم سے ہے ۔ اسی طرح خدا کی طرف سے معین کئے ہوئے اولی الامر کی اطاعت مطلقا اور ہر حال میں واجب ہے اور یہ ان اولی الامر کی اطاعت ہی ہے کہ غیبت کے زمانے میں مجتہد کی پیروی کریں۔
سوال:
14 - جو تقلیدی ھیں وہ اپنے بچے کی پیدائش کے وقت اپنے مجتہد کی گواھی کیوں نہیں دیتے اسکے کان میں ؟؟ آخر کو اس نے بڑا ھوکر مقلّد تو بننا ھی ھے نا ؟؟ اور جسکی تقلید تم نے کی ھے اسے سب سے پہتر سمجھ کر ھی کی ھوگی ؟؟ 
چودہ پاک و پاکیزہ ، طاھر و مطاھر ، معصُوم و منصُوص من اللہ ، ھادیان برحق ، اصلی آیات اللہ و حجّۃ الاسلام محمّد و آل محمّد علیہ السّلام کے صدقے میں یہ چودہ سوال ھیں ۔۔ 
کوئ پیارا پیارا تقلیدی بھائ جواب دے گا ؟؟ 
میں منتظر ھوں ۔۔ !! :) 
بندہؑ علی ابن ابیطالب علیہم السّلام
جواب:
۱۴۔ اس سوال تک آتے آتے یہ ثابت ہوگیا کہ یہ اعتراضات کسی وہابی کے ہیں جسے کسی اخباری نے اپنے مزاج کے مطابق پاکر اِدھر گھمادیا۔ ہم اُس معنی میں تقلیدی نہیں ہیں جو اہل سنت کے یہاں ہے ، گزشتہ کے جوابات سے ہمارے یہاں تقلید کا مطلب واضح ہوچکا ہے۔ پیدائش کے وقت جن چیزوں کی گواہی کے لئے امامؑ نے فرمایا ہے ہم اس کی گواہی دیتے ہیں۔ کیا کوئی پیدائش کے بعد بچے سے یہ گواہی دلواتا ہے کہ تمہارا باپ فلاں ہے؟؟!!
خداوند عالم کی توفیق اور چودہ طیب و طاہر ، عالم علم لدنّی ،معصُوم، منصُوص من اللہ ، ہادیان برحق ،مظہر صفات خداوندعالم یعنی محمّد و آل محمّد علیہم السّلام کے صدقے میں یہ چودہ سوالوں کے جوابات اپنے نادان اخباری بھائیوں کی خدمت میں حاضر ہیں، مزید جتنے سوالات ہوں جب بھی چاہو کرسکتے ہو ،باب العلم کے صدقے میں جوابات دئے جائیں گے اس لئے کہ ہم تو چودہ سوسال سے زیادہ تر اعتراضات کے جوابات ہی دے رہے ہیں کاش لوگ حق کو پہچان لیں اور در اہل بیتؑ سے وابستہ ہوجائیں تاکہ ان کی دنیا و آخرت سنور جائے۔ 
الحمد للہ الذی جعلنا من المتمسکین بولایۃ علی ابن ابی طالب والائمۃ علیھم السلام و ذریتھم 
 ہم کو آج ناز ہے کہ شیعہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں ۔ ہم نے رسول و آل رسول علیہم السلام ہی کے ذریعہ خدا کو پہچانااور انھیں کے ذریعہ خدا کے دین و احکام اور شریعت کو لیا۔ غیبت کے زمانے میں اسی الہی دین و شریعت کو علی علیہ السلام اور ان کی معصوم اولاد کے بتائے ہوئے افراد سے لیا ہے ۔ خدا کا شکر اور محمد و آل محمد علیہم السلام کا احسان و کرم ہے کہ ہم نے اپنی مرضی والے دین کو نہیں مانا ہے ،اور نہ دین میں اپنی مرضی کو داخل کرنے کی کوشش کی۔ خدایا ہم کو علی و اولاد علی علیہم السلام کی ولایت پر آخری دم تک باقی رکھنا اور اس سلسلے سے جوڑے رکھنا جس نے غیبت کے زمانے میں ہم کو دین علیؑ سے ہٹنے نہ دیا ہم کو علیؑ کی مرضی پر باقی رکھا اور وہ ہمارے مجتہدین ہیں۔ خدایا علی علیہ السلام کی صدقے میں ان علمائے حقہ و مجتہدین کرام کو ان کی زحمتوں و قربانیوں کا اجر عطا فرما۔آمین۔خدایا! ہم کو آپس میں اختلاف و انتشار سے بچنے کی توفیق عطا فرماجس سے دشمنان اہل بیتؑ خوش ہوتے ہیں،اتحاد و بھائی چارگی کی توفیق عطا فرما جس سے اہل بیتؑ خوش ہوتے ہیں۔آمین ۔   فقط: بندۂ خدائے علی علیہ السلام

شب براءت

شب براءت
علامہ سید علی حیدر نقوی طاب ثراہ(متوفی ۱۳۸۰ہجری)
مدیر اول:ماہنامہ اصلاح،کجھوہ
الحمد للہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی سیدنا محمدو آلہ الطیبین الطاہرین۔
خداوندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
’’ یُرِیدُونَ لِیُطْفِئُوا نُورَ اﷲِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَاﷲُ مُتِمُّ نُورِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ ‘‘
یعنی (یہ لوگ )چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منھ سے پھونک مار کر بجھادیں اور اللہ تو اپنے نور کو (کامل طورپر) پھیلاکر رہے گا۔ گوکافروں کو (براہی کیوں نہ) لگے۔ (پ؍۲۸، ع؍۹، ترجمہ ڈپٹی نذیر احمد صاحب دہلوی)
اسی مضمون کو خدا دوسری جگہ اس طرح بھی فرماتا ہے:
’’ یُرِیدُونَ أَنْ یُطْفِئُوا نُورَ اﷲِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَیَأْبَی اﷲُ إِلاَّ أَنْ یُتِمَّ نُورَہُ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ ‘‘یعنی چاہتے ہیں کہ خدا کے نور (اسلام) کو منھ سے (پھونک مار کر) بجھادیں اور خدا کو منظور ہے کہ ہر طرح پر اپنے نور کی روشنی کو پورا کرکے رہے اگرچہ کافروں کو برا(ہی کیوں نہ لگے)( پارہ۔۱۰، رکوع؍۱۱، ترجمہ ڈپٹی نذیر احمد صاحب دہلوی)
دونوں آیتوں میں خدا دوباتوں کا اعلان فرماتا ہے: ایک یہ کہ لوگ خد اکے نور کو بجھانے کی کوشش کریںگے۔ دوسرے یہ کہ خدا اپنے نور کو پھیلاکررہے گا اور اس کے بجھانے والوں کی کوشش بے کار جائے گی۔ اب ان دونوں آیتوں میں تین باتیں خاص طور پر دیکھنے کی ہیں۔ اول یہ کہ یریدون سے کن لوگوں کی طرف اشارہ ہے۔ دوسرے یہ کہ نور سے کیا چیز مراد ہے۔ تیسرے یہ کہ خدا اپنے نور کو کس طرح پھیلا کررہتا ہے:
یریدون سے کون مراد ہیں؟:
پہلی بات یہ کہ یریدون سے کون لوگ مراد ہیں؟۔ کوئی شک نہیں کہ دونوں مقاموں میں ان آیتوں سے قبل یہود ونصاریٰ کا ذکر ہے مگر دونوں جگہ خدا نے یریدون فعل کا استعمال کیا اور فاعل کو حذف کیا ہے جس سے ہم عام مخالفین حق کو بھی مراد لے سکتے ہیں۔ یعنی وہ لوگ جو خدا کے مقابلہ میں دین حق کے خلاف کوششیں اور ارادہ کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا نے دونوں آیتوں کے آخر میں ’’ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ ‘‘  لکھا ہے جو یقینا یہودونصاریٰ سے عام ہے۔ اور اس میں وہ کفار بھی داخل ہیں جو یہودونصاریٰ نہیں ہیں۔ پس جب خدا نے آخر میں لفظ کافروں سے ہرکافر کا ذکر کیا اور یہودو نصاریٰ کی خصوصیت باقی نہیں رکھی اور سیاق وسباق کی حیثیت اٹھادی تو یریدون میں بھی ماننا پڑے گا کہ خدا نے کسی خاص جماعت یا امت کو مراد نہیں لیا ہے بلکہ ہر اس فرقہ کی طرف اشارہ کیا ہے جو خدا کے مقابلہ میں اس کے کسی امر کو دبانے، مٹانے اور کمزور کرنے کی کوشش یا تمنا کرتے یا ارادہ رکھتے ہیں خواہ وہ فرقہ کفار کو ہو (مثلاً یہود ونصاریٰ یا بت پرست) خواہ اسلام ہی کے گمراہ فرقوں سے کوئی جماعت ہو۔ اس لئے کہ خدا نے یہ نہیں فرمایا کہ ’’ھٰوُلآءِ یُرِیدُونَ‘‘یعنی یہ لوگ ارادہ کرتے ہیں یا ’’ان الکفار یُرِیدُونَ‘‘یعنی کافر ارادہ کرتے ہیں بلکہ عام لفظ یریدون استعمال کیا ہے جس سے صرف یہی معلوم ہوا کہ لوگ ارادہ کرتے ہیں جو جس جس فرقہ کو ہم خدا کے مقابلہ میں ارادہ یا کوشش کرتے پائیں ہم اس کو یریدون کے فاعلوں کی فہرست میں درج کرسکتے ہیں۔
لفظ ’نورہ‘ سے کیا مراد ہے؟
اب یہ امر قابل غور ہے کہ نورہ   (خدا کے نور) سے کیا مراد ہے۔ جب اس آیۃ کے لفظ الکافرون کو ہم نے یہودونصاریٰ سے بھی عام مانا اور یریدون کی ضمیر فاعل کو الکافرون سے بھی عام تسلیم کیا جس میں کفار کی ہر جماعت داخل ہے اور وہ جماعت بھی داخل ہے جو اسلام میں رہ کر گمراہ ہو، تو ماننا پڑے گا کہ خدا کے نور سے بھی مراد صرف اسلام نہیں ہے کیونکہ اس میں بھی بہت سے لوگ خدا کے خلاف ارادہ کرنے والے ہیں بلکہ اس سے مراد ہر امر حق اور صراط مستقیم ہے خواہ وہ یہود ونصاریٰ وبت پرست کے مقابلہ میں اسلام ہو یا اسلام ہی کے ۷۲ گمراہ فرقوں کے مقابلہ میں (ایمان ) ہو۔ ورنہ قول خدا مہمل قرار پائے گا کہ اس نے ارادہ کرنے والوں کو توعام رکھا اور نورہ سے مقصود خاص اسلام کو قرار دیا اور خدا کا کوئی قول یا قرآن مجید کی کوئی آیت مہمل یا کسی طرح قابل اعتراض نہیں ہوسکتی۔
قرآن مجید کی دوسری آیت سے بھی پتہ چلتا ہے کہ خدا نے نور سے خاص ایمان کو مراد لیا ہے جیسے فرمایا:
’’ اﷲُ وَلِیُّ الَّذِینَ آمَنُوا یُخْرِجُہُمْ مِنْ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا أَوْلِیَاؤُہُمْ الطَّاغُوتُ یُخْرِجُونَہُمْ مِنْ النُّورِ إِلَی الظُّلُمَات‘‘  یعنی اللہ ایمان والوں کا حامی ومددگار ہے کہ ان کو (گمراہی کی) تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی میں لاتا ہے اور جو دین حق سے منکر ہیں ان کے حمایتی شیطان ہیں کہ ان کو ایمان کی روشنی سے نکال کر (گمراہی کی) تاریکیوں میں لاتا ہے۔ (پارہ ۳ رکوع۲)
یا دوسرے مقام پر فرمایا: ’’ھوالذی یصلی علیکم وملائکتہ لیخرجکم من الظلمات الی النور و کان بالمومنین رحیما‘‘ یعنی وہی خدا ہے جو تم پردرود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ خدا تم کو (گمراہی کی) تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی میں لے جائے اور خدا ایمان والوں کے حال پر مہربان ہے۔ (پارہ ۲۲، رکوع؍۳) معلوم ہوا کہ نور سے مراد ایمان ہے نہ اسلام۔ ورنہ خدا بجائے کان بالمومنین رحیما کے کان بالمسلمین رحیما فرماتا۔
ایک اور مقام پر فرماتا ہے: یھدی اللہ لنورہ من یشاء یعنی اللہ اپنے نور کی طرف جس کو چاہتا ہے ہدایت فرماتا ہے۔ (پارہ ۱۸ رکوع ۱۱) اس سے بھی ایمان ہی کی طرف اشارہ ہے نہ عام اسلام کی طرف کیونکہ اسلام میں بھی تو گمراہ فرقے ہیں اور معلوم ہے کہ خدا جس چیز کی طرف ہدایت کرے گا اس میں گمراہی نہیں ہوسکتی ہے۔ ایک اور مقام پر فرمایا ہے ماکنت تدری ماالکتاب ولا الایمان ولکن جعلنہ نور انھدی بہ من نشاء من عبادنا۔ یعنی تم نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا چیز ہے اور نہ یہ جانتے تھے کہ ایمان کس کو کہتے ہیں مگر ہم نے اس کو ایک نور بنادیا ہے کہ اپنے بندوں سے جس کو چاہتے ہیں ہدایت کرتے ہیں۔ (پارہ ۲۵؍ر کوع ) یہاں بھی نور سے مراد اسلام نہیں ہے کیونکہ خدا نے اس کا نام تک نہیں لیا بلکہ ایمان کا ذکر کیا ہے۔ ایک اور مقام پر فرمایا یوم یقول المنافقون والمنافقات للذین آمنوا انظرونا نقتبس من نورکم۔ یعنی قیامت کے منافق مرد اور عورتیں ایمان والوں سے کہیںگی کہ تم ہمارا انتظار کرو کہ تمہاری اس روشنی (ایمان) سے ہم بھی فائدہ اٹھالیں۔ (پارہ ۲۷، رکوع ۱۸) یہاں بھی اسلام کا کوئی ذکر نہیں۔ لہٰذا خاص ایمان ماننا پڑے گا۔
خدا اپنا نور کس طرح پھیلاتا ہے؟
تیسری بات یہ دیکھنے کی ہے کہ خدا اپنا نور کس طرح پھیلاتا ہے وہ اس طرح ہوتا ہے کہ جو لوگ اس پر ایمان لانے والے اور اس کے (احکام کے پیرو ہوتے ہیں وہ تو اس کا پھیلنا پسند کرتے ہی ہیں مگر خدا ایسا انتظام کرتا ہے کہ جو لوگ اس کو بجھانا چاہتے ہیں ان کے ہاتھوں سے بھی اس نور کو پھیلاتا ہے اور ان کو کچھ خبر نہیں ہوتی کہ کس طرح ان کی دلی خواہش اور پوری کوشش کے بالکل خلاف وہ امر حق پھیلتا جارہا ہے۔ جیسے حضرت موسیٰؑ اور فرعون کا واقعہ ہوا کہ جب فرعون کو معلوم ہوا کہ اسی کی رعایا سے ایک پیغمبر مبعوث ہوکر اس کو تباہ وبرباد کرے گا اور اس نے اس نور خدا کے بجھانے (یعنی اس پیغمبر کے روکنے) کی یہ تدبیر کی کہ بنی اسرائیل میں جو فرزند نرینہ پیدا ہوتا تھا اس کو قتل کرادیتا تھا تو خدا نے اسی فرعون کے ذریعہ سے اپنے نور (حضرت موسیٰ کی پیغمبری) کو پھیلایا اس طرح کہ جب حضرت موسیٰ پیدا ہوئے تو ان کی ماں نے ایک صندوق میں بند کرکے ان کو دریائے نیل میں بہادیا وہ صندوق بہتا ہوا محل فرعون میں پہنچا۔ فرعون کی زوجہ آسیہ نے اس صندوق کو نکلوا کر کھولا تو اس میں ایک بچے کو دیکھا (جو حضرت موسیٰ تھے) اس بچہ کی محبت آسیہ کے دل میں پیدا ہوگئی۔ اس نے فرعون کی بہت کچھ خوشامد کرکے اس صاحبزادے کی پرورش کی اجازت حاصل کرلی اور اس طرح حضرت موسیٰ نے فرعون ہی کے محل میں پرورش پائی جس سے خدا نے دکھایا کہ فرعون جس نور خدا کو بجھانا چاہتا تھا اس کو اس نے اسی کے ذریعہ سے دنیامیں پھیلادیا۔
حضرات اہلسنت کے ذریعہ سے شیعہ مذہب کی اشاعت:
بالکل اسی طرح خدا نے یہ انتظام فرمایا کہ حضرات اہلسنت جو مذہب شیعہ کا دنیامیں باقی رہنا کسی طرح پسند نہیں کرتے اور اس نور خدا کے بجھادینے کی ہرممکن کوشش شروع سے کرتے آرہے ہیں۔ مذہب حق شیعہ اثنا عشری کو اس طرح پھیلاتے رہتے ہیں کہ ان کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ کس طرح خدا ان ہی کے ذریعہ سے اس دین حق کی اشاعت فرمارہا ہے جس سے خدا کی قدرت کو ماننا پڑتا ہے کہ واقعاً وہ جو چاہتا ہے وہ ہوکر رہتا ہے اور دنیا بھر مل کر بھی اس کے کسی ارادہ کو روک نہیں سکتی۔
مثلاً عزاداری حضرت سید الشہداء علیہ السلام جو مذہب حق شیعہ کی اشاعت کا بہترین ذریعہ ہے خدا اس کو زیادہ تر حضرات اہلسنت ہی کے ذریعہ سے پھیلاتا رہا ہے جس قدر عزادار حضرت امام حسین علیہ السلام آج تک دنیا میں گزرے ان کا دسواں حصہ بھی شیعہ نہیں ہوںگے۔بلکہ زیادہ حضرات اہل سنت ہی تھے جنہوںنے تعزیہ بنایا بھی۔ اٹھایا بھی، گشت بھی کیا پھر سپر، اکھاڑے وغیرہ کل اسباب ولوازم عزاداری کی آبادی بھی زیادہ تر وہی حضرات کرتے رہے۔ اس وقت بھی دنیا میں جس قدر عزادار ہیں ان میں غالب حصہ حضرات اہلسنت ہی کا ہے بلکہ شیعہ ان کے مقابلہ میں پانچواں حصہ بھی نہیں نکلیںگے۔ کیا قدرت خدا ہے کہ اس کے روکنے کے لئے ان کے علماء فتویٰ دیتے ہیں۔ اشتہارات شائع کرتے ہیں۔ وعظ بیان کیے جاتے ہیں مگر خدا اپنا نور ان حضرات سے پھیلاتا جارہا ہے۔ حضرات ہنود سے جنگ ہوتی ہے مقدمہ بازی کی نوبت آتی ہے مگر یہ حضرات اس کو اسلام کی عظیم الشان خدمت سمجھ کر پورے استقلال سے انجام دیتے جاتے ہیں۔
شب براءت:
منجملہ ان امور کے جو مذہب شیعہ کی حقیقت کے ادلہ ہیں اور جنکو خدا نے حضرات اہلسنت کے ذریعہ سے پھیلادیا ہے اس ماہ کی شب برأت بھی ہے جو ایسی تقریب ہے جس کو کل مسلمان پورے دھوم دھام سے انجام دیتے ہیں۔ اس میں ہزاروں روپیہ خرچ کرتے ہیں۔ بوڑھے، جوان، عورت مرد اور بچے تک کو حد درجہ کی خوشی ہوتی ہے۔ سب اس میں عمدہ لباسوں کا بنوانا اور اس روز پہننا اپنا ضروری فعل سمجھتے ہیں گھر گھر حلوے بننا لوازم اسلام سے خیال کیاجاتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اس رات اس قدر خوشی اور جشن کا سامان ہوتا ہے اور سنی وشیعہ، جاہل، عالم، عورت، مرد، بوڑھے، جوان سب ہی اس میں حصہ لیتے ہیں اور سب ہی اس کو اپنی مذہبی شادمانی کی رات تسلیم کرتے ہیں جو احترام اس رات کا کیاجاتا ہے اس کا دسواں حصہ بھی شب قدر کا نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس میں کچھ لوگ عبادت کرتے ہیں اس کے علاوہ نہ کوئی خوشی کا اظہار ہوتا ہے۔ نہ فرحت کا اہتمام۔ نہ کسی تقریب کا عنوان قرارپاتا ہے۔ نہ کسی جشن کا سامان۔ نہ اس کے لئے جدید لباس بنوائے جاتے ہیں نہ کسی گھر میں کوئی چہل پہل کی جاتی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کے لئے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کی رات اور معراج کی رات بھی خوشی کی راتیں ہیں مگر کوئی سامان کہیں نہیں ہوتا اور جو ہوتا بھی ہے وہ گویا عدم کے برابر ہے لیکن شب برأت کی عظمت اسلام میں کسی طرح عید بقر عید سے کم نہیں ہوتی ۔توکیا یہ اہتمام خود بخود پھیل گیا؟ یا کسی غیبی طاقت نے اس کو پھیلا رکھا ہے؟ کیا اس رات کے جشن وشادمانی کا سامان کسی انسانی قوت کا نتیجہ کہا جاسکتا ہے؟ یا کسی بالائی قدرت کا کرشمہ ہے؟
شب براءت کی لفظی تحقیق:
عام طور پر یہ لفظ شب برأت بولا جاتا ہے تو اس کی تحقیق کیجئے کہ یہ ہے کیا؟۔ شب فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے رات۔ اب برأت کیا ہے؟ اس میں تین احتمال ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اصل میں بارات ہو اور کثرت استعمال سے برات ہوگیا۔ یا برات ہی ہو یا برأت ہو اور بہت زیادہ مستعمل ہونے سے اب برات رہ گیا ہو۔
پہلا احتمال کہ بارات ہوتو ہونہیں سکتا کہ یہ لفظ نہ عربی زبان کا ہے نہ فارسی زبان کا اور شب یقینا فارسی زبان کا لفظ ہے اور فارسی کے علم نحوکا قاعدہ ہے کہ اس زبان کا لفظ یا فارسی زبان کے کسی لفظ کی طرف مضاف ہوگا۔ یا عربی زبان کے کسی لفظ کی طرف۔ جیسے شب جشن، شب شادمانی۔ شب پنجشنبہ، شب یکشنبہ وغیرہ جس میں کل مضاف الیہ فارسی ہی زبان کے الفاظ ہیں۔
یا جیسے شب جمعہ، شب عید، شب معراج، شب عافیت وغیرہ جس میں سب مضاف الیہ عربی زبان کے الفاظ ہیں۔ برخلاف اس کے ہندی یا سنسکرت لفظ کی طرف فارسی کا کوئی لفظ مضاف نہیں ہوتا۔ جیسے شنبہ کو ہندی زبان میں سنیچر کہتے ہیں۔ اس شب کو سنیچر کی طرف مضاف کریںگے تو غلط ہوگا اور کوئی باخبر شخص شب سنیچر نہیں بولے گا۔ اسی طرح بیاہ ہندی زبان کا لفظ ہے۔ کوئی شخص اس کی طرف شب کا مضاف شب بیاہ بولے گا تو جاہل سمجھاجائے گا۔ اس وجہ سے ماننا پڑے گا کہ شب برات میں برات در اصل بارات نہیں تھا نہ ہوسکتا ہے۔ کیونکہ یہ ترکیب صحیح ہی نہیں ہے۔ اب دوسرے احتمال کو ملاحظہ فرمائیے کہ یہ لفظ برات ہی ہو اور اس میں کوئی تغیر نہ ہوا ہو تو برات کا لفظ فارسی زبان میں موجود ہے اس کا معنی یہ لکھا ہے ’’برات فارسی میں حصہ اور وہ کاغذ جس کے ذریعہ سے کسی کا روزینہ خزانہ سے ملتا ہو۔ (مولف۔)
سب کو پہنچاتا ہے وہ روزی رساں
تازہ روزی روز اور تازہ برات
(جامع الغات مطبوعہ لکھنؤ جلد اول ص؍۱۷۶)  اور دوسری کتاب میں یہ ہے ’’برات لفظ فارسی است کاغذ نوشتہ کہ بموجب آں از خزانہ زردبدست آید‘‘ یعنی برات فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی وہ کاغذ ہے جس کی وجہ سے خزانہ سے روپیہ ملتا ہو۔ (غیاث اللغات ص؍۷۰)
اس اعتبار سے یہ مرکب نام ’’شب برات‘‘ مہمل قرار پاتا ہے کیونکہ اب اس کا معنی ہوگا کاغذکی رات۔ یا اس کاغذ کی رات جس کی وجہ سے خزانہ سے روپیہ ملتا ہو۔ تو اس کاکیا مطلب ہوگا؟ اور رات کو اس سے کیا تعلق ہوا جس کی وجہ سے برات اس کا مضاف الیہ ہوا۔ خزانہ کے کاروبار زیادہ تر دن کو ہوتے ہیں رات کو نہیں اور خزانہ سے روپیہ بھی عموماً دن ہی کو برآمد ہوتا ہے۔ پس اگر یہ لفظ واقعاً فارسی زبان کا برات ہی ہوتا تو شب برات نہیں بولا جاتا۔ نہ اس طرح ہرشخص کے زبان زد ہی ہوتا بلکہ ’’روز برات‘‘ مشہور ہوتا۔ اور پھر سال بھر کا صرف ایک ہی دن یا ایک ہی رات ’’روز برات‘‘ یا شب برات کیوں ہوگی۔ کیا خزانہ سے روپیہ برآمد کرنے کا کاغذ سال بھر میں صرف ایک ہی دن یا ایک ہی رات کو ملتا ہے کسی ملک کا یہ قاعدہ نہ سنا گیا ہے کہ اس کے خزانے سے روپیہ ایک ہی دن یا ایک ہی رات کو ملتا ہے۔ ان دنوں میں بھی جب تک اور چک جاری ہیں۔ کیا کسی بینک کے متعلق یہ سناگیا کہ اس سے روپیہ سال بھر میں ایک ہی دفعہ اور کسی خاص روز یا رات ہی میں برآمد کیاجاتا ہے غرض یقینا ماننا پڑے گاکہ شب برات اصلی صور ت میں نہیں ہے اور نہ اس کے لفظ برات کا معنی وہ ہے جو فارسی زبان میں مستعمل ہے۔
البتہ فارسی زبان کی لغت کی کتابوں میں ’’شب برات‘‘ کا معنی ایسا لکھا ہوا ہے جس سے قرینہ قائم ہوتا ہے کہ اس میں برات فارسی ہی زبان کا لفظ ہے ایک کتاب میں ہے ’’شب برات‘‘ شعبان مہینہ کی پندرہویں رات کو جس میں ملائکہ حکم ربانی سے انسان کی عمر حساب اور رزق کے تقسیم کی فرد ایک سال کے واسطے لوح محفوظ سے نقل کرلیتے ہیں اور اسی کے مطابق تمام سال ملتا رہتا ہے۔ رباعی از مولف۔
شب برات اے دوستوکیا رات پیاری رات ہے
سربسر عشرت کا دن فرحت کی ساری رات ہے
وصل کی حاصل اگر اس ماہ روسے ہو برات
عید کے دن سے مبارک یہ ہماری رات ہے
( جامع الغات مطبوعہ لکھنؤ ج؍۶، ص؍۸۹)
اور دوسری کتاب میں ہے ’’شب برات‘‘ باضافت،شب پانزدھم ماہ شعبان کہ درایں شب ملائکہ بحکم الٰہی حساب عمر وتقسیم رزق می کنند۔
یعنی شب برات میں لفظ برات مضاف الیہ ہے لفظ شب کا اور یہ ماہ شعبان کی پندرہویں رات ہے جس میں فرشتے خدا کے حکم سے زندگی کا حساب اور روزی کی تقسیم کرتے ہیں۔ ‘‘(غیاث اللغات ص؍۲۷۳) مگر احادیث اہلسنت سے اس امر کی تائید نہیں ہوتی کہ اس شب کو زندگی کے حساب اور روزی کی تقسیم سے کچھ خصوصیت ہے۔ اس وجہ سے مذکورہ بالابیان نہیں مانا جاسکتا ہے۔
شب ۱۵ شعبان کے فضائل:
چنانچہ حضرات اہل سنت کے احادیث کی جامع کتاب میں ہے:
(۱) ان اللہ تعالیٰ لیطلع فی لیلۃ النصف من شعبان فیغفر لجمیع خلقہ الاالمشرک اومشاعن۔ یعنی شب ۱۵؍شعبان کو خدا طلوع کرتا ہے تو اپنی سب مخلوق کو بخش دیتا ہے سوا اس کے جو مشرک ہو یا لوگوں سے دشمنی کرتا ہو۔
(۲) فی لیلۃ النصف من شعبان یوحی اللہ الی ملک الموت یقبض کل نفس یرید قبضھا فی تلک السنۃ ۔ یعنی شب ۱۵؍شعبان میں اللہ ملک الموت کو ہر اس روح کو قبض کرنے کی وحی کردیتا ہے جس کو وہ اس سال بھر میں قبض کرنا چاہتا ہے۔
(۳) (ترجمہ) یعنی جب ۱۵؍شعبان آئے تو تم لوگ اس میں رات بھر عبادت کرو اور اس کے دن کو روزہ رکھو کیونکہ اس رات میں اللہ آفتاب غروب ہوتے ہی دنیا کے آسمان پر اترآتا ہے اور کہنے لگتا ہے کہ کوئی مغفرت چاہنے والا ہے تاکہ میں اس کو بخش دوں؟ کوئی روزی چاہنے والا ہے تاکہ میں اس کو رزق دوں؟ کوئی مصیبت زدہ ہے تاکہ میں اس کو آرام دوں؟ کوئی سوال کرنے والا ہے تاکہ میں اس کو عطا کروں؟ ایسی ہی باتیں صبح تک کرتارہتا ہے۔
(۴) اذاکان لیلۃ النصف من شعبان نادی مناد ھل من مستغفر فاغفر لہ ھل من سائل فاعطیہ فلایسائل احد شیئا الا اعطاہ الا زانیۃ بفرجھا اور مشرک۔
یعنی جب ۱۵؍شعبان کی رات آتی ہے تو ایک منادی پکارتا ہے کہ کوئی مغفرت چاہنے والا ہے تاکہ میں اس کو بخش دوں؟ کوئی سوال کرنے والا ہے تاکہ میں اس کو عطا کروں؟ تو جو شخص جس بات کی دعا مانگتا ہے خدا اسے وہ دیدیتا ہے سوائے زنا کرنے والی عورت اور مشرک کے کہ ان دونوں کی دعائیں مقبول نہیں ہوتی ہیں۔
(۵) ولوکان لیلۃ النصف من شعبان یغفر اللہ من الذنوب اکثر من عدد شعر غنم۔ یعنی جب ۱۵؍شعبان کی رات آتی ہے تو جس قدر بھیڑ اور بکری کے بدن پر بال ہوتے ہیں اس سے بھی زیادہ گناہوں کو خدا بخش دیتا ہے۔
(۶) ان اللہ تعالیٰ یغفر لیلۃ النصف من شعبان للمسلمین ویملی للکافرین ویرع اھل الحقد بحقدھم۔یعنی ۱۵؍شعبان کی رات کو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بخش دیتا اور کافروں کو مہلت دیدیتا اور کینہ والوں کو ان کے کینوں کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہے۔
یہ کل حدیثیں کنزالعمال میں موجود ہیں۔ (مطبوعہ حیدر آباد دکن ج؍۶، ص؍۲۶۷) 
اس میں کوئی حدیث ایسی نہیں ہے جس سے حساب عمر یا تقسیم رزق کی خصوصیت ظاہر ہو۔ بلکہ زیادہ تر فضائل گناہوں کی مغفرت اور جہنم سے برأت ہی کے ملتے ہیں اور لفظ استغفار کی بار بار تاکید بھی بتاتی ہے کہ اس رات کو زیادہ خصوصیت گناہوں کے بار سے نکلنے اور عذاب جہنم سے بچنے ہی سے متعلق ہے اور فارسی زبان کے لفظ برات کو گناہوں کی مغفرت یا حاجات کے برآنے سے کوئی ربط نہیں ہے اور نہ کسی تاویل بعید سے یہ معنی اس سے نکل سکتا۔
اس لئے کہ برات کا معنی خاص وہ کاغذ ہے جس کے بموجب خزانہ سے روپیہ ملتا ہے۔ تو ان احادیث میں کون سی حدیث ایسی ہے جس کا کوئی اشارہ بھی ایسے کاغذ یا ایسے خزانہ کی طرف ہو۔
ان وجوہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شب برات میں مضاف الیہ فارسی لفظ برات نہیں ہے بلکہ عربی لفظ براءت ہے جس کا معنی بچنا۔ محفوظ رہنا، بخشاجانا۔ معاف کیاجانا ہے اور کنزالعمال کی مذکورہ بالا احادیث سب کی سب اسی تحقیق کی تائید وتصدیق کرتی ہیں۔ دوسری کتابوں کی حدیثیں بھی اس کی مؤید ہیں۔ چنانچہ شیخ عبدالحق صاحب محدث دہلوی تحریر فرماتے ہیں:
(ترجمہ) یعنی نوفل بکالی سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک دفعہ پندرہویں شعبان کی رات کو گھر سے نکلے اور کثرت سے اس رات حضرت باہر نکلتے رہے۔ دنیا کے آسمان کی طرف حضرت نظر فرماتے اور ارشاد کرتے تھے کہ حضرت دائود علیہ السلام ایک رات کو ایسے ہی وقت میں نکلے تھے اور آسمان کی طرف نظر کی تو کہا یقینا یہ وہ ساعت ہے جس میں جو شخص خدا سے جو دعا مانگے گا وہ ضرور قبول کی جائے گی اور اس ساعت میں جو شخص خدا سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہے گا اس کے گناہ ضرور بخش دیئے جائیںگے بشرطیکہ وہ لوگوں کے مال کا دسواں حصہ لینے والا اور ساحر اور کاہن اور نجومی اور ظالم بادشاہوں کا سپاہی اور تحصیلدار اور طبلہ والا نہ ہو۔ اے اللہ اے حضرت دائود کے پروردگار جو شخص آج کی رات تجھ سے دعا کرے یا تجھ سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہے اس کو بخش دے۔(ماثبت بالسنۃ مطبوعہ لاہور ص؍۸۱)
اس روایت سے معلوم ہواکہ پندرہویں شعبان کی رات ایسی جلیل القدر ہے کہ حضرت دائود پیغمبر علیہ السلام کے زمانہ میں بھی بافیوض وبرکات سمجھی جاتی اور حضرت بھی اس رات کو گھر سے باہر نکلتے اور خدا سے دعا فرماتے تھے بلکہ حضرت رسول خداؐ بھی اس رات کو نکلتے اور دعا فرماتے تھے۔ چنانچہ علامہ ممدوح تحریر فرماتے ہیں:
(ترجمہ) یعنی حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ ایک رات کو میں نے حضرت رسول خداؐ کو اپنے فرش پر سے غائب پایا تو آپ کو ڈھونڈھنے کے لئے اپنے گھر سے نکلی تلاش کرتے کرتے جنۃ البقیع تک پہنچ گئی۔ دیکھا کہ حضرت وہیں تشریف رکھتے ہیں اور اپنا سر آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے دعا کررہے ہیں۔ حضرت نے مجھے دیکھ کر فرمایا کیوں عائشہ کیا تو ڈری کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کریںگے۔؟ میں نے عرض کی یا رسول اللہ یہ تو میں نے نہیں خیال کیا بلکہ مجھے گمان ہوا کہ آپ کسی دوسری بیوی کے پاس چل دئیے(حاشیہ:جناب عائشہ کو حضرت رسول خداؐ کے متعلق یہ شبہ اکثر ہوتا تھا کہ حضرت ان کی باری میں ان کو چھوڑ کر کسی دوسری بیوی کے پاس پہنچ گئے اور آپ فوراً اٹھ کر حضرت کو تلاش کرنے لگتی تھیں۔ بلکہ جب حضرت مرض سے نڈھال ہوگئے اور کل قوتیں ختم ہورہی تھیں اور وفات کا وقت قریب آگیا جب بھی حضرت عائشہ کو آنحضرت کے متعلق وہ شک اسی قوۃ شباب کے ساتھ باقی رہا۔ چنانچہ ۲؍ربیع الاول ۱۱ہجری؁ کو آنحضرتؐ نے انتقال فرمایا اور اس سے دو تین روز پہلے ہی کا واقعہ جناب شیخ عبدالحق صاحب محدث دہلوی تحریر فرماتے ہیں: ’’اسی سال (۱۱ہجری؁) کے ماہ صفر کی آخری تاریخ میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا کا حکم ہوا کہ قبرستان جنت البقیع کے مردوں کے لئے حضرت استغفار فرمائیں۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہے کہ ایک رات آنحضرت میرے گھر میں تشریف رکھتے تھے۔اور میں سورہی تھی۔ جب جاگی تو میں نے آنحضرتؐ کو خواب کے کپڑوں (فرش پر چادر کے نیچے) نہیں پایا تو حضرت کے پیچھے میں بھی نکل پڑی کیا دیکھتی ہوں کہ حضرت جنت البقیع میں تشریف لے گئے ہیں اور فرمارہے السلام علیکم اے قوم مومنین۔ جس بات کا تم لوگوں سے وعدہ کیا گیا تھا وہ تم لوگوں تک آگئی اور میں بھی انشاء اللہ تم لوگوں سے ملا ہی چاہتا ہوں۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت نے فرمایا تم لوگ میرے پیش رو ہو اور میں تم لوگوں سے اب ملنے والا ہوں۔ اے اللہ توہم لوگوں کو ان لوگوں کے اجر سے محروم نہ رکھنا اور ان کے بعد ہم لوگوں کو نہ چھوڑنا اے اللہ بقیع غرقد والوں کو بخش دینا اور دوسری روایت میں بھی حضرت عائشہ سے یہ مضمون آیا ہے کہ انہوںنے بیان کیا کہ حضرت رسول خداؐ میرے گھر سے کہیں باہر تشریف لے گئے تو میں بھی آنحضرت کے پیچھے نکلی اس غیرت سے کہ کہیں حضرت کسی اور بیوی کے گھر نہ چلے جائیں۔ یہاں تک کہ حضرت جنت البقیع میں پہنچے اور وہاں بہت دیر تک کھڑے رہے اور تین مرتبہ اپنے ہاتھوں کو اوپر اٹھایا اور دعا کی۔ پھر پلٹ آئے تو میں بھی پلٹی اور اس سے پہلے کہ آنحضرت گھر میں پہنچیں میں پہنچ گئی اور سونے کے لئے لیٹ گئی۔ میرے پیچھے ہی آنحضرت بھی پہنچ گئے۔ جب حضرت نے میرے اضطراب کا اثر اور سانس پھولنے کی کیفیت ملاحظہ فرمائی تو ارشاد فرمایا کہ اے عائشہ تیرا کیا حال ہورہا ہے۔ اور تجھ کو کیا ہوگیا ہے جو اس قدر گھبرائی ہوئی نظر آتی ہے؟۔ تب میں نے اصلی بات حضرت سے عرض کردی۔ حضرت نے فرمایا کہ وہ سیاہی جس کو میںنے اپنے آگے دیکھا تھا تو ہی تھی؟ میں نے کہا ہاں یا حضرت۔ تب حضرت نے میرے سینے پر ایک مکا مارا اور فرمایا تجھ کو یہ گمان ہوا کہ خدا اور اس کا رسول تیرے حق میں ظلم کریںگے؟ میں نے عرض کی یا رسول اللہ خدا سے تو کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی واقعاً ایسا ہی ہے جیسا آپ نے ارشاد فرمایا ہے (کہ مجھے آپ کے بارے میں اس ظلم کا گمان ہوا) لیکن یا حضرت مجھے معذور سمجھیں، کیاکروں یہ میری بشری جبلت ہے جس نے مجھے آپ کے متعلق اس بدگمانی پر آمادہ کررکھا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ آنحضرتؐ نے عائشہ سے فرمایا کہ تیرے شیطان نے تجھ کو اس بات پر برانگیختہ کیا تھا۔ (مدارج النبوۃ ج؍۲، ص؍۴۹۲) ہم نے یہاں صرف ایک ہی روایت کتاب مذکورہ سے نقل کی۔ صحیح بخاری، صحیح مسلم۔ کنز العمال، درمنثور، مسند احمد بن حنبل میں اس قسم کی بہت سی روایتیں موجود ہیں اور ایک ہی وقت کی نہیں بلکہ مختلف زمانوں کی ہیں)
تب حضرت نے فرمایا کہ اللہ پندرہویں شعبان کی رات میں دنیا کے آسمان کی طرف اترتا ہے تو قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ آدمیوں کو بخش دیتا ہے۔(ماثبت بالسنۃ ص؍۸۱)
شب ۱۵؍شعبان شب براءت کیوں قرار پائی؟
جب یہ ثابت ہوگیا کہ شب برات حقیقت میں شب براءت ہے جو کثرت استعمال سے اب شب برات بولی جاتی ہے اور یہ کہ اس رات میں خدا کثرت سے گناہوں کو بخشتا اور لوگوں کی دعاقبول کرتا ہے۔ تو قابل غور امر یہ ہے کہ اس رات کو یہ خصوصیت کیوں حاصل ہوئی۔ اسلام میں جس قدر دن یا راتیں قابل احترام قرار پائیں سب کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہے جیسے روز عید کہ خدا کے تیس دن کے عظیم الشان عبادت صوم (روزہ) انجام پانے کی خوشی میں باعث سرور قرار پایا۔ مفتی غلام سرور صاحب لاہوری لکھتے ہیں ’’عید خوشی کا دن جو مسلمانوں میں تمام سال میں دو عیدیں ہوتی ہیں۔ ایک یکم شوال کو بعد گزرنے ماہ صیام کے۔ دوسری دسویں ذی الحجہ کو بعد حج کے کہ نویں ذی الحجہ کو ہوتا ہے۔ شیعہ امامیہ کے ہاں عید خم غدیر ونوروز کی بھی ہوتی ہے۔
شدشام وندیدم رخ او آہ نہ دیدم
فردا نہ کنم عید کہ شب ماہ نہ دیدم
(جامع اللغات مطبوعہ لکھنو ج؍۲، ص؍۱۸۸)
یا لیلۃ القدر جس میں خدا نے قرآن مجید کو اتارا۔اس وجہ سے یہ رات بھی خاص عظمت واحترام کی قرار پائی۔ تو اب ۱۵؍شعبان کی رات کیوں اس درجہ عزت والی سمجھ لی گئی۔ اس کی وجہ بھی کوئی ایسی ہی عظیم الشان ہونی چاہیے۔ آپ کتنی ہی تحقیق کریں مگر ا سکے سوا کوئی وجہ نکل ہی نہیں سکتی کہ اس تاریخ کو حضرت رسول خداؐ کے وہ خلیفہ پیدا ہونے والے تھے جو قیامت تک باقی رہیںگے جن کی وجہ سے دنیا ٹھہری رہے گی۔ حجۃ خدا ہوںگے۔ اور جو دنیا کو عدل وانصاف سے بھردیںگے۔ اسی سبب سے خدا نے اس رات کو اتنی برکت والا بنایا اور حضرت رسول خداؐ کے زمانے سے بھی پہلے سے اس کو محترم قرار دیا۔ چنانچہ حضرت دائود کے زمانہ میں بھی یہ برکت والی رات تھی جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا۔(جاری)
شب براءت۔۔۔(۲)
پیغمبر اکرم   (ص)کے بارہ خلفاء
علامہ سید علی حیدر نقوی طاب ثراہ(متوفی ۱۳۸۰ہجری)
مدیر اول ماہنامہ اصلاح،کجھوہ
بارہ خلفاء کی حدیثیں:
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت رسول خداؐ نے متعدد مرتبہ فرمایا تھا کہ دین اسلام اس وقت تک قائم اور باقی رہے گا جب تک اس میں بارہ خلیفہ یا بارہ امیر نہ ہوجائیںگے۔ 
حضرات اہل سنت کے امام بخاری لکھتے ہیں:
جابر بن سمرۃ قال سمعت النبی یقول یکون اثنا عشر اامیرا فقال کلمتہ لم سمعھا فقال ابی قال کلھم من قریش۔ 
یعنی حضرت رسول خداؐ نے ارشاد فرمایا کہ (میرے بعد اسلام کے) بارہ سردار اور حاکم ہوںگے اور وہ سب قریش ہی سے ہوںگے۔ (صحیح بخاری کتاب الفتن باب استخلاف پارہ ۲۹، مطبوعہ دہلی ص؍۶۲۸)
اور علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
لایزال امرالناس ماضیاماولیھم اثنا عشر رجلا ۔ یعنی جب تک ان مسلمانوں کے مولا اور پیشوا بارہ رہیںگے اس وقت تک ان لوگوں کا ایمان قائم رہے گا۔ لایزال ھٰذا الدین عزیز الی اثنا عشر خلیفۃ۔ یعنی جب تک اس میں بارہ خلیفہ رہیںگے اس وقت تک یہ مذہب معزز اور غالب ہی رہے گا۔
ان ھٰذا الامر لاینقضی حتی یمضی فیھم اثنا عشر خلیفۃ۔ یعنی جب تک اس دین اسلام میں بارہ بارہ خلیفہ رہیںگے اس وقت تک یہ مذہب اسلام مٹ نہیں سکتا۔
لایزال الاسلام عزیز الیٰ اثنا عشر خلیفۃ۔ یعنی جب تک اسلام میں بارہ خلیفہ رہیںگے اس وقت تک اسلام غالب ہی رہے گا۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری پارہ ۲۹، ص؍۶۲۹) مذکورہ بالا حدیثیں ارشاد الساری مطبوعہ لکھنو ج؍۱۰، ص؍۲۲۲، اور عمدۃ القاری مطبوعہ مصر ج؍۱۱، ص؍۴۳۴ میں بھی ہیں۔
پھر یہ حدیث بھی ہے:
(ترجمہ) مسلمانوں کے امام بارہ شخص ہوںگے جو سب کے سب ہدایت یافتہ ہوںگے۔ اسی وقت روح اللہ نازل ہوںگے تو دجال قتل کیاجائے گا۔ اور بعض محدثین نے کہا ہے کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی پوری مدت میں قیامت تک بارہ خلیفہ ہوںگے جو حق کے مطابق عمل کریںگے۔ اگرچہ ان کے زمانے یکے بعد دیگرے آتے رہیںگے۔ اور اس مطلب کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کو مسدد نے اپنی مسند کبیر میں ابوبحر کے طریقے سے درج کی ہے وہ یہ ہے کہ ابوالجلد نے ان سے حدیث بیان کی کہ جب تک اس امت اسلام میں بارہ خلیفہ رہیںگے جو سب ہدایت اور دین حق کے مطابق عمل کریںگے اس وقت تک یہ امت ہلاک نہیں ہوسکتی ہے۔ (عمدۃ القاری مطبوعہ مصر ج؍۱۱، ص؍۴۳۵) 
اور امام مسلم نے لکھا ہے:
’’عن جابر بن سمرہ قال دخلت مع ابی علی النبی فسمعتہ یقول ان ھٰذا الامر لا ینقضی حتی یمضی فیھم اثنا عشر خلیفۃ کلھم من قریش۔‘‘ یعنی جابر بن سمرہ روایت کرتے ہیں کہ میں اپنے باپ کے ساتھ حضرت رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا تو سنا کہ حضرت فرمارہے ہیں کہ اس دین اسلام میں جب تک بارہ خلیفہ رہیںگے یہ مٹ نہیں سکتا ہے۔ وہ سب کے سب قریش ہی سے ہوںگے۔ (صحیح مسلم مطبوعہ دہلی ج؍۲، ص؍۱۱۹) اس کتاب میں بھی اس مضمون کی سات حدیثیں لکھتی ہوئی ہیں۔
اور امام ترمذی نے لکھا ہے :’’قال رسول اللہ یکون من بعدی اثنا عشرامیرا کلھم من قریش‘‘ یعنی حضرت رسول خداؐ نے فرمایا کہ میرے بعد بارہ سردار اور پیشوا ہوںگے وہ سب قریش ہی سے ہوںگے۔ (جامع ترمذی مطبوعہ لکھنو ص؍۲۶۹)
صحاح ستہ کی چوتھی کتاب سنن ابودائو میں ہے:
رسول اللہ یقول لایزال ھٰذا الدین قائما حتی یکون علیکم اثنا عشر خلیفۃ۔ یعنی حضرت رسول خداؐ فرماتے تھے کہ جب تک تم لوگوں کے بارہ خلیفہ رہیںگے اس وقت تک یہ دین قائم ہی رہے گا۔ (سنن ابودائو دمطبوعہ کانپور ص؍۵۸۸) 
اور مشکوٰۃ شریف میں ہے: ’’عن جابربن سمرہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول لایزال الاسلام عزیزا الی اثنا عشر خلیفۃ کلھم من قریش وفی روایۃ لایزال الدین قائما حتی یقوم الساعۃ اویکون علیھم اثنا عشر خلیفۃ کلھم من قریش متفق علیہ۔‘‘ یعنی جابر بن سمرہ بیان کرتے تھے کہ حضرت رسول خداؐ ارشاد فرماتے تھے کہ جب تک اس دین اسلام میں بارہ خلیفہ رہیںگے اس وقت تک یہ عزیز اور غالب ہی رہے گا۔ وہ بارہ خلیفہ سب کے سب قریش ہی سے ہوںگے اور ایک روایت میں ہے کہ ہمیشہ لوگوں کا یہ امر (دین اسلام) چلتا رہے گا جب تک ان کے پیشوا اور سردار بارہ شخص ہوتے رہیںگے جوسب کے سب قریش سے ہوںگے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ہمیشہ یہ دین قائم رہے گا۔ جب تک قیامت نہ آجائے یا جب تک اس میں بارہ خلیفہ نہ گزر جائیں جو سب کے سب قریش ہی سے ہوںگے۔ اس حدیث پر سب محدثین کا اتفاق ہے۔ (مشکوٰۃ شریف مطبوعہ لاہور۔ مناقب قریش ج؍۸، ص؍۹۳)
کتاب کنزالعمال میں ہے۔ لایزال ھٰذا الدین عزیزا منیعا الی اثنا عشر خلیفۃ کلھم من قریش۔ یعنی آنحضرت نے فرمایا کہ جب تک اس دین اسلام میں بارہ خلیفہ رہیںگے یہ دین غالب اور مستحکم رہے گا اور وہ سب قریش سے ہوںگے۔ لایزال الاسلام عزیزا الی اثنا عشر خلیفۃ۔ یعنی جب تک بارہ خلیفہ رہیںگے اس وقت تک اسلام غالب ہی رہے گا۔ یملک وھٰذا الامۃ اثناعشر خلیفہ کعدۃ من نقباء بنی اسرائیل۔ امت کے سردار بارہ خلیفہ ہوںگے جس طرح بنی اسرائیل کے نقیب بھی بارہ ہوئے تھے۔ یکون لھٰذا الامۃ اثنا عشر خلیفۃ قیمالایضرھم من خذلھم کلھم من قریش۔ یعنی آنحضرتؐ نے فرمایا کہ اس امت کے بارہ خلیفہ سردار اور رہبر ہوںگے جو شخص ان کا ساتھ چھوڑے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا ہے۔ وہ بارہ خلیفہ سب کے سب قریش ہی سے ہوں۔ یکون بعد من الخلفاء عدۃ نقباء موسیٰؑ۔ میرے بعد میرے خلفاء اسی عدد کے مطابق ۱۲ ہوںگے جو حضرت موسیٰ کے نقیبوں کا عدد ہے۔ لن یزال ھٰذا الدین قائما الیٰ اثنا عشر خلیفۃ من قریش فاذاھلکوا ماحیت الارض باھلھا۔ یعنی ہمیشہ دین اسلام قائم ہی رہے گا جب تک اس میں بارہ خلیفہ ہوتے رہیںگے جو سب قریش ہی سے ہوں۔ پھر جب سب ہلاک ہوجائیںگے تو زمین میں زلزلہ پیدا ہوجائے گا۔ یعنی قیامت آجائے گی۔ (کنزالعمال م؍حیدرآباد دکن ج؍۶، ص؍۱۹۸)
بارہ خلیفہ کی خصوصیت کیوں ہے؟
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرتؐ نے جن کے بارے میں خدا کا ارشاد ہے کہ ماینطق عن الھویٰ ان ھوالا وحی یوحیٰ یعنی یہ رسول اپنے دل سے کوئی بات کرتے ہی نہیں بلکہ جو کچھ فرماتے ہیں وہ خدا کی وحی ہوتی ہے جو آپ پر پہلے نازل کردی جاتی ہے۔ (پارہ ۲۷، رکوع؍۵)
پیغمبرؐ نے اپنے خلفاء کی تعداد بارہ کیوں فرمائی؟ اور کیا وجہ ہوئی کہ ان کے عدد کو اس میں منحصر فرمادیا۔ یہ نہ فرمایا کہ میرے خلیفہ کم ہوںگے نہ یہ کہ میرے خلیفہ زیادہ ہوںگے پس اگر خدا سچا ہے اور اس کے بیان میں کوئی خطا نہیں ہوسکتی اگر وہ عالم الغیب ہے اور اس کی خبر واقعہ کے مخالف نہیں ہوسکتی۔ اگر اس کے ارشاد میں اختلاف کا ہونا محال ہے اور اگر اس کی بات کو کوئی شخص یا گروہ بدل نہیں سکتا ہے اور اگر حضرت رسول خداؐ صحیح بات بولتے تھے۔ اگر حضرت کا ارشاد غلط نہیں ہوتا تھا۔ا گر حضرت جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ اگر حضرت پر باطل وحی نازل نہیں ہوتی تھی تو ہر مسلمان کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ حضرت کے خلفاء کی تعداد پوری بارہ ہوگی۔ اس سے نہ ایک کم ہوگا نہ ایک زیادہ۔ نہ چار ہوںگے نہ آٹھ نہ دس۔ نہ بیس نہ پچاس۔ بلکہ قیامت تک حضرت کے خلفاء بارہ ہی ہوسکتے ہیں اور جو لوگ حضرت کے بعد بارہ خلفاء کو مانتے ہیں وہی خدا کے قول کے سچے پیرو اور حضرت رسول خداؐ کی اصلی امت ہیں اور جو حضرات حضرت کے بعد بارہ سے کم یا زیادہ خلفاء کو مانتے ہیں وہ خدا ورسول کو جھوٹا جانتے ہیں ان کا ایمان خدا ورسولؐ پر نہیں ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔
بارہ خلفاء کون ہیں؟
اب بارہ خلفاء کون ہیں حضرت نے کسی حدیث میں یہ نہیں فرمایا کہ ان میں سے کچھ راشدین ہوںگے اور کچھ غیر راشدین۔ کچھ بنی امیہ سے ہوںگے اور کچھ بنی عباس سے اور کچھ غیر قریش سے۔ تو اسلام میں جو لوگ ان حضرات کو جن کی تعداد کسی طرح بارہ نہیں ہوتی خلفاء رسول مانتے ہیں وہ حقیقت میں خلفاء حق کے ماننے والے نہیں ہیں۔ جس آیت سے ہم نے اس مقالہ کو شروع کیا ہے اس کو پھر یاد فرمائیے کہ لوگ خدا کے نور کو بجھادینے کی کوشش کریںگے مگر خدا اپنا نور پھیلا کررہے گا تو لوگوں نے حضرت رسول خداؐ کی خلافت کے نور کو بجھادینے کی کوشش کی مگر خدا نے خلفاء کی تعداد کو بارہ ہی پر منحصر کرکے ان لوگوں کی کوشش کو بیکار کردیا اور انصاف پسند طبقہ کے لئے آسان کردیا کہ وہ انہیں حضرات کو جو پورے ہوئے خلفاء رسول مان کر صراط مستقیم اور سندنجاۃ حاصل کرلیں اور باطل خلفاء سے اپنے کو بچالیں۔ اسی سبب سے خدا نے یہ غیبی انتظام کیا کہ جو لوگ اس کے نور کو بجھادینا چاہتے ہیں ان کے خلفاء کے کسی سلسلہ میں بارہ خلیفہ نہیں ہونے دئیے ان کے خلفاء کا پہلا سلسلہ خلفاء راشدین کا مانا جاتا ہے۔ جس میں کچھ لوگ حضرت ابوبکر۔ حضرت عمر۔ حضرت عثمان اور حضرت علیؑ کو اور بہت سے لوگ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور معاویہ کو خلیفہ مانتے ہیں۔ اس کو چار سے بڑھنے نہیں دیا۔ جس سے حق پسند لوگ سمجھ جائیں کہ یہ حقیقت میں خلفاء رسولؐ نہیں ہیں ورنہ ان کی تعداد بارہ سے کسی طرح کم نہیں ہوتی۔
دوسرا سلسلہ خلفاء بنی امیہ کا سمجھاجاتا ہے اس کو خدا نے بارہ سے زیادہ کردیا تاکہ دل سے ایمان تلاش کرنے والے سمجھ لیں کہ یہ سبھی درحقیقت خلفاء رسول نہیں ہیں۔ ور نہ ان کی تعداد بارہ سے زیادہ نہیں ہوتی۔حالانکہ تاریخ پکار پکار کرکہہ رہی ہے کہ وہ بارہ سے زیادہ ہوئے یعنی (۱) معاویہ (۲) یزید بن معاویہ۔(۳) معاویہ بن یزید۔ (۴) مروان بن حکم۔ (۵) عبدالملک بن مروان۔ (۶) ولید بن عبدالملک۔ (۷) سلیمان بن عبدالملک ۔ (۸) عمر بن عبدالعزیز بن مروان۔ (۹) یزید بن عبدالملک۔ (۱۰) ہشام بن عبدالملک۔ (۱۱) ولید بن یزید بن عبدالملک۔(۱۲) یزید بن ولید بن عبدالملک۔ (۱۳) ابراہیم بن ولید بن عبدالملک۔ (۱۴) مروان بن محمد بن مروان) اگر خلفاء راشدین اور خلفاء بنی امیہ کو جوڑ لیاجائے تو ان کی تعداد مل کر بھی ۱۲ نہیں ہوسکتی بلکہ ۱۸؍ہوجاتی ہے اور شام کے خلفاء بنی امیہ کے ساتھ اندلس کے خلفاء بنی امیہ جوڑ لئے جائیں جن کی تعداد بھی ۱۲ سے زیادہ ۱۶ تھی تو کل خلفاء بنی امیہ کی تعداد ۲۸ ہوجاتی ہے۔
تیسرا سلسلہ خلفاء بنی عباس کا سمجھا جاتا ہے۔ اس کی تعداد بھی خدا نے ۱۲ نہیں ہونے دی۔ بلکہ وہ ۳۷ ہوئے۔ 
اس طرح: (۱) سفاح۔(۲) منصور۔(۳) مہدی۔(۴) ہادی۔ (۵) ہارون۔ (۶) امین۔ (۷)مامون۔(۸) معتصم۔ (۹) واثق۔ (۱۰) متوکل۔(۱۱) منتصر۔(۱۲) مستعین۔ (۱۳) معتز۔(۱۴) مہتدی۔ (۱۵) معتمد۔ (۱۶) معتضد۔ (۱۷) مکتفی۔(۱۸) مقتدر۔(۱۹) قاہر۔ (۲۰) راضی۔ (۲۱) متقی۔ (۲۲) مستکفی۔ (۲۳) مطیع۔ (۲۴) طارئع۔ (۲۵) قادر۔ (۲۶) قائم۔ (۲۷) مقتدی۔ (۲۸) مستظہر۔ (۲۹) مسترشد۔ (۳۰) راشد۔ (۳۱) مقتفی۔ (۳۲) مستنجد۔ (۳۳) مستضی۔ (۳۴) ناصر۔(۳۵) ظاہر۔( ۳۶) مستنصر۔ (۳۷) مستعصم۔
لہٰذا یہ بھی آنحضرت کے حقیقی خلفاء نہیں مانے جاسکتے ہیں اور تینوں سلسلوں کو ملا دیاجائے تو خلفاء راشدین وبنی امیہ وبنی عباس ۵۵ ہوجاتے ہیں۔
چوتھا سلسلہ مصر کے خلفاء بنی عباس کا ہوا یعنی جب ہلاکو خان نے بغداد کے خلفاء بنی عباس کا خاتمہ کردیا تو مصر کے بادشاہوں نے خاندان بنی عباس کے ایک شہزادے کو خلیفہ بنالیا۔ ان کی تعداد بھی بارہ سے زیادہ اٹھارہ ہوئی۔ لہٰذا وہ بھی آنحضرت کے حقیقی خلفاء نہیں ہوسکتے۔ پھر ۹۲۲؁ ہجری مطابق ۱۵۱۷ء؁ میں سلطان سلیم بادشاہ روم نے مصر کو فتح کرکے خاندان مملوک کا خاتمہ کیا تو بنی عباس کے آخری خلیفہ نے لقب خلافت اور تبرکات رسول خداؐ جو اس کے قبضے میں چلے آئے تھے سلطان روم کے حوالے کردیے جس سے اب سلطان روم خلیفہ ہونے لگے جو پانچواں سلسلہ تھا۔ اس کے بھی تیس سے زیادہ خلفاء ہوئے لہٰذا یہ بھی حقیقی خلفاء رسول نہیں مانے جاسکتے۔
غرض یہ خدائی قدرت ہدایت وارشاد کا عجب کرشمہ ہے کہ حقیقی خلفاء رسولؐ کے مقابلہ میں جس قدر خلفاء بنائے گئے ان کا کوئی سلسلہ بارہ کی تعیین کے مطابق نہیں ہے۔ کوئی کم ہے تو کوئی زیادہ۔ جو اہل بصیرت کے لئے فرمان الٰہی ہے کہ مسلمانو میرے رسول نے بار بار تم لوگوں سے کہہ دیا ہے کہ اس کے خلفاء بارہ ہوںگے اس سے نہ کم نہ زیادہ تو جس طرف تم کو وہ خلفاء ملیں جو بارہ نہ ہوں ان کو تسلیم نہ کرنا بلکہ اس فرقہ حقہ کی تلاش کرنا جس کے خلفاء رسول حضرت رسول خداؐ کی وفات سے قیامت تک پورے پورے بارہ ہوںگے۔ خدا نے اپنے نور کو تمام کرنے کے لئے اعلیٰ انتظام کیا ہے کہ ایک طرف خلفاء کے پانچ سلسلے ہوئے مگر حضرت رسول خداؐ نے کسی حدیث میں کسی سلسلہ کے خلفاء کی تعداد نہیں بیان فرمائی۔ نہ یہ کسی حدیث میں بیان فرمایا کہ میرے خلفاء چار ہوںگے جن سے خلفاء راشدین کی طرف اشارہ ہوسکتا۔ نہ کسی حدیث میں یہ فرمایا کہ میرے خلفاء چودہ ہوںگے جن سے شام کے خلفاء بنی امیہ مراد ہوسکتے۔ نہ کسی حدیث میں یہ فرمایاکہ میرے خلفاء ۳۷ ہوں گے جن سے بغداد کے خلفاء بنی عباس مقصود ہوسکتے۔ نہ کسی حدیث میں یہ فرمایا کہ میرے خلفاء ۱۸؍ ہوںگے جن کے مصداق مصر کے خلفاء بنی عباس ہوسکتے اور دوسری طرف خلفاء رسول کا صرف ایک سلسلہ ہوا جس میں بارہ خلفاء ہوئے۔ اس بارہ کے لئے حضرت رسول خداؐ کی اس کثرت سے حدیثیں خود حضرات اہلسنت کے یہاں موجود ہیں کہ ان کی صحاح ستہ میں بھی ہیں اور کنزالعمال، مشکوٰۃ شریف، تفسیر درمنثور وغیرہ میں بھی بھری ہیں تو کیا اب بھی خدا کے اس قول میں کسی کو شک باقی رہ سکتا ہے کہ یریدون لیطفئوا نوراللہ بافواھھم واللہ متم نورہ ولوکرہ الکافرون۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منھ سے پھونک مار کر بجھادیں مگر اللہ تو اپنانور پھیلا کررہے گا اگرچہ کافروں کو براہی کیوں نہ لگے۔
وہ خلیفہ کس طرح مقرر ہوںگے؟
جب خدا کے حکم سے آنحضرت نے بار بار یہ ارشاد فرمایا کہ میرے خلیفہ ۱۲ ہوںگے (نہ کم نہ زیادہ) تو یہ بھی قابل غور امر ہے کہ ان کو کون مقررکرے گا؟۔ خود امت رسول معین کرے گی؟۔ یا خدا ورسول کی نص سے تیار ہوںگے؟ اس کے لئے ضرورت ہے کہ دیکھا جائے کہ پہلے خلفاء وائمہ کو اس وقت کی امت نے خلیفہ اور امام بنایا یا خدا ورسول نے؟۔  پہلے قرآن میں تلاش فرمائیے: 
خدا حضرت آدمؑ کے بارے میں فرماتا ہے۔ ’’انی جاعل فی الارض خلیفۃ۔‘‘ یعنی یہ یقینی بات ہے کہ زمین میں خلیفہ مقرر کرنے والا میں ہوں۔ (پارہ ۱، رکوع ۴) یادائود انا جعلناک خلیفۃ فی الارض۔یعنی اے دائود یہ یقینی بات ہے کہ تم کو زمین میں خلیفہ میںنے بنایا ہے۔ (پارہ ۲۳، رکوع ۱۱) انی جاعلک للناس اماما۔ یعنی اے ابراہیم یقینا تم کو آدمیوں کا امام بنانے والا میں ہوں۔ (پارہ ۱، رکوع ۱۵) واجعلنا للمتقین اماما۔ یعنی اے خدا تو ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔(پارہ ۱۹۔ رکوع ۴) وجعلنا ھم ائمۃ یھدون بامرنا ۔یعنی ہم نے ان لوگوں کو امام بنایاکہ وہ ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے (پارہ ۱۷، رکوع ۵) ونجعلھم ائمۃ۔ یعنی ہم ان لوگوں کو امام بنائیںگے۔ (پارہ ۲۰، رکوع؍۴،) وجعلنا منھم ائمۃ یھدون بامرنا لما صبروا۔ یعنی ہم نے ان (بنی اسرائیل) میں سے (دین کے) امام بنائے تھے جو ہمارے حکم سے لوگوں کی ہدایت کرتے تھے اور ہم نے ان کو اس وجہ سے امام بنایا کہ انہوںنے صبر کیا تھا۔ (پارہ ۲۱، رکوع ۱۶)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ خلیفہ یا امام بنانا خدا ہی کا کام ہے امت کا نہیں۔
سابق انبیاء کے خلفاء کس طرح مقرر ہوتے رہے؟
اور تاریخ سے بھی ثابت ہے کہ ہر نبی کے خلیفہ اور وصی خدا کے حکم کے مطابق اسی نبی کے مقرر کرنے سے ہوتے رہے کسی نبی کی امت نے خود کسی شخص کو خلیفہ اور امام نہیں بنایا۔ مثلاً:
(۱) جب حضرت آدم کی وفات کا وقت پہنچا تو اپنے فرزند شیث کو اپنا وصی اور خلیفہ خود مقرر کردیا۔ (تاریخ  طبری مطبوعہ مصر ج؍۱، ص؍۷۶)
(۲) جب حضرت شیث بیمار ہوئے تو اپنے فرزند انوش کو اپنا خلیفہ خود مقرر کرکے مرے۔(تاریخ طبری ج؍۱، ص؍۸۱)
(۳) انوش نے اپنے فرزند قینان کو اپنا وصی خود مقرر کیا۔ (تاریخ طبری ج؍۱، ص؍۸۲)
(۴) قینان نے اپنے فرزند مہلائیل کو اپنا وصی خود مقرر کیا۔ (تاریخ طبری ج؍۱، ص؍۸۳)
(۵) مہلائیل کے ہاں یردیارد۔ اور دوسرے لڑکے پیداہوئے تو مہلائیل نے یردیارد کو اپنا وصی خود مقرر کیا۔ (تاریخ طبری ج؍۱، ص؍۸۲)
(۶) یزد نے اپنے فرزند خنوخ عرف حضرت ادریس کو اپنا وصی خود مقرر کیا۔ (تاریخ طبری ج؍۱، ص؍۸۲)
(۷) حضرت ادریس نے اپنے فرزند متوشلخ کو اپنا وصی خود مقرر کیا۔ (تاریخ طبری ج؍۱، ص؍۸۲)
(۸) مہلائیل کے فرزند یزد ان کے وصی اور خلیفہ ہوئے ان امور میں جنہیں مہلائیل کے والد نے ان کو وصی مقرر کیا تھا اور ان کو اپنی وفات کے بعد خلیفہ بنایا۔ (تاریخ طبری ج؍۱، ص؍۸۵)
(۹) حضرت ادریس کے فرزند متوشلخ ہوئے ان کو حضرت ادریس نے احکام خدا پر اپنا خلیفہ خود مقرر کیا۔ اور وصی بنایا۔ (تاریخ طبری ج؍۱، ص؍۸۶)
(۱۰) جب متوشلخ کی وفات قریب ہوئی تو اپنے دین پر لمک کو اپنا خلیفہ خود بنایا اور انہیں کو وصی کیا جس طرح آپ کے آبائو اجداد وصی مقررکرتے رہے تھے۔ (تاریخ طبری ج؍۱، ص؍۸۷)
(۱۱) جب حضرت نوح کی وفات کا وقت قریب پہنچا تو اپنے فرزند سام کو اپنا وصی خود مقرر کیا۔ (تاریخ کامل ج؍۱، ص؍۲۶)
(۱۲) حضرت ابراہیم نے حضرت اسحاق کو اپنا ولیعہد اور خلیفہ خود مقرر کیا۔ (تاریخ روضۃ الصفا مطبوعہ لکھنو ج؍۱، ص؍۴۲)
(۱۳) حضرت اسماعیل کی وفات کا وقت قریب پہنچا تو اپنے بھائی، حضرت اسحاق کو اپنا وصی اور خلیفہ خود مقرر کیا۔(روضۃ الصفاج؍۱، ص؍۴۵)
(۱۴) حضرت یعقوب نے حضرت یوسف کو اپنا وصی اور خلیفہ خود مقرر کیا۔ (روضۃ الصفاج؍۱، ص؍۴۵)
(۱۵) حضرت یوسف نے اپنے بھائی یہودا کو اپنا وصی خود مقرر کیا۔ (طبری ج؍۱، ص؍۱۷۲)
(۱۶) حضرت ایوب نے اپنے مرتے وقت اپنے فرزند حومل کو اپنا وصی خود مقرر کیا۔ (طبری ج؍۱، ص؍۱۶۷)
(۱۷) حضر ت موسیٰ خدا کی طرف گئے تو حضرت ہارون کو اپنا خلیفہ خود مقرر کرگئے تھے۔(طبری ج؍۱، ص؍۲۱۸)
(۱۸) اور چونکہ حضرت ہارون حضرت موسیٰ کی زندگی ہی میں دنیا سے انتقال فرماگئے تھے لہٰذا حضرت موسیٰ نے ان کے بعد یوشع بن نون کو بھی اپنا وصی اور ولیعہد خود مقرر کیا۔ (روضۃ الصفا ج؍۱، ص؍۹۳)
(۱۹) پھر کالب بن یوقنا نے اپنے فرزند بوساموس کو اپنا خلیفہ خود مقرر کیا ۔(روضۃ الصفا ج؍۱، ص؍۹۷)
(۲۰) اور حضرت الیاس نے الیسع کو اپنا وصی اور خلیفہ خود مقرر کیا۔ (روضۃ الصفا ج؍۱، ص؍۱۰۰)
(۲۱) اور الیسع نے ذوالکفل کو اپنا خلیفہ اور وصی خود مقرر کیا۔ (روضۃ الصفا ج؍۱، ص؍۱۰۱)
(۲۲) اور حضرت دائود نے اپنے فرزند سلیمان کو اپنا وصی خود مقرر کیا۔ (طبری ج؍۱، ص؍۲۵۲)
(۲۳) اور خدا کے حکم سے سعیا نے بھی اپنا خلیفہ اور وصی خود مقرر کیا۔ (طبری ج؍۱، ص؍۲۷۸)
(۲۴) اور حضرت عیسیٰ نے شمعون کو اپنا خلیفہ اور ولیعہد خود مقرر کیا۔ (روضۃ الصفا ج؍۱، ص؍۱۳۶)
آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ حضرات اہل سنت ہی کی معتمد ترین کتب تاریخ سے ثابت ہوگیا کہ حضرت آدم سے حضرت عیسیٰ تک جس قدر نبی اور رسول گزرے سب خدا کے حکم سے اپنا وصی، خلیفہ اور ولیعہد خود مقرر کرتے رہے۔ اور ایک لاکھ تئیس ہزار نوسو ننانوے انبیاء ومرسلین سے کسی ایک نبی کے خلیفہ یا وصی کو بھی کسی امت نے مقر ر نہیں کیا۔ پھر حضرت رسول خداؐ آخری نبی ورسول کے بارے میں یہ قاعدہ کیوں توڑدیا جاتا ہے؟ کوئی بھی اس کی وجہ ہوسکتی ہے اور کسی عقل میں بھی یہ بات آسکتی ہے کہ آنحضرتؐ کے متعلق خدا اپنا یہ قانون بھول گیا اور اس نے اس امت کو گمراہی میں چھوڑ دیا!؟۔
خدا کا اصول بدلتا نہیں ہے:
خدا نے یہ بھی کئی جگہ فرمادیا ہے کہ اس کا کوئی اصول بدلانہیں کرتا ہے۔ اور اس کے کسی دستور میں تغیر نہیں ہوتا ہے۔ 
چنانچہ ارشاد فرمایا ہے:
الف۔ سنۃ اللہ فی الدین خلومن قبل ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا۔ یعنی خدا کا یہی طریقہ ان لوگوں کے بارے میں بھی رہا ہے جو تم سے پہلے گزرگئے ہیں اور تم کو خدا کے کسی طریقے میں کسی قسم کا تغیر وتبدل نہیں مل سکتا۔ (پارہ ۲۲، رکوع ۸)
ب۔ فھل ینظرون الاسنۃ الاولین فلن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا ولن تجد لسنۃ اللہ تحویلا۔ یعنی یہ لوگ کیا اگلوں کے دستور اور طریقہ کا انتظار کررہے ہیں؟ تو تمہیں خدا کے دستور اورطریقہ میں کبھی کوئی تغیر نہیں مل سکتا اور نہ اس کے دستور اور طریقہ کو تم کبھی ٹلتا ہو اپائوگے۔ (پارہ ۲۲، سورہ فاطر، رکوع ۵)
ج۔ سنۃ اللہ التی قدخلت من قبل ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا۔ یعنی یہ خدا کا وہ طریقہ اور دستور ہے جو ہمیشہ سے چلا آتا ہے اور تم خدا کے دستور وطریقہ میں کبھی کوئی تغیر وبدیلی نہیں پاسکتے۔ (پارہ ۲۶، سورہ الفتح رکوع ۳)
جب ان آیات سے ہم پر اچھی طرح واضح ہوگیا کہ خدا کے اصول میں اختلاف نہیں ہوتا۔ اور خدا کے انتظام میں فرق نہیں پڑتا اور پہلے بیانات سے یہ معلوم ہوگیا کہ خدا نے اپنے انبیاء ومرسلین سے خود ہی ان کے اوصیاء اور خلفاء کو بھی مقرر کرایا تو حضرت خاتم الانبیاء والمرسلینؐ سے خود ہی ان کے اوصیاء اور خلفاء کو مقرر کرانا بھی خدا ہی کا کام تھا یا اس دفعہ خدا نے اپنے طریقہ کو بدل دیا؟ کسی انصاف پسند اور قرآن وحدیث سے باخبر شخص سے اس کی امید نہیں ہوسکتی ہے کہ وہ کہے کہ خدا نے حضرت رسول خداؐ کے خلفاء کو خود نہیں مقرر کرایا بلکہ امت کے ہاتھ چھوڑ کر اپنے ہزاروں برس کے دستور کو بدل دیا اور قدیم قاعدہ کو توڑ دیا اور امت اسلام کی پریشانی کا سامان خود مہیا فرمایا۔
آنحضرتؐ کے خلفاء کس طرح مقرر ہوئے؟
خدا نے آنحضرتؐ کے خلفاء کے بارے میں بھی فرمایا کہ ان کو میں ہی خلیفہ بنائوںگا(امت پر نہیں چھوڑوںگا) اور ویسا ہی کربھی دیا۔ اب امت کو جو کرنا ہو کرے خدا کے اس قول وفعل کو مانے یا نہ مانے مگر اس نے اپنا کام ختم کردیا اور ہدایت کی راہ واضح کرکے حجت تمام کردی۔ چنانچہ فرمایا تو یہ وعدہ اللہ الذین آمنو منکم وعملوا لصالحات لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم۔
یعنی اے مسلمانو! تم میں سے جن لوگوںنے ایمان قبول کیا اور کل نیک عمل کرتے رہے ان کے بارے میں خدا کا یہ وعدہ ہے کہ وہ ان کو اسی طرح (حضرت رسول خداؐ کا )خلیفہ بنائے گا جیسے ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔(قرآن کریم)
اور کیا یہ کہ جب حضرت کو مبعوث ہوئے چار سال گزرگئے تو خدا نے حضرت رسول خداؐ پر آیۂ وانذرعشیرتک الاقربین نازل فرمائی جس سلسلہ میں حضرت کو یہ بھی حکم دیا کہ تم اپنا خلیفہ اور وصی بھی اس موقع پر خود مقرر کردو۔ چنانچہ حضرت نے ان لوگوں کی دعوت کی۔ سب کو جمع کیا۔ دین اسلام بھی پیش کیا اور فرمایا تم میں سے کون ایسا ہے جو پہلے میری بیعت کرے اور اس کام میں میرا ہاتھ بٹائے تاکہ میں اسی کو اپنا وصی۔ وزیر اور خلیفہ بنائوں۔یہ سن کر سب چپ رہے۔ کسی نے جواب نہ دیا البتہ حضرت علیؑ آمادہ ہوگئے اور فرمایا کہ میں ان خدمات کے لئے حاضرہوں۔ حضرت نے فرمایا ابھی بیٹھو پھر لوگوں سے پوچھا۔ اب بھی سب خاموش رہے اور حضرت علیؑ ہی بولے۔ حضرتؐ نے پھر آپ کو بٹھادیا ۔اور تیسری مرتبہ بھی سب سے دریافت کرلیا۔سب اسی طرح خاموش رہے اور حضرت علیؑ ہی اس دفعہ بھی بولے۔ تب آنحضرتؐ نے حضرت علیؑ کو اپنے پاس بلایا۔ بیعت لی، گلے سے لگایا اور حاضرین سے فرمایا کہ دیکھو یہ میرے بھائی ہی میرے وزیر، میرے وصی اور میرے خلیفہ ہیں۔ تم سب ان کے حکم کو ماننا اور ان کی اطاعت کرتے رہنا۔ (تاریخ طبری مطبوعہ مصر ج؍۲، ص؍۲۱۷، وتاریخ کامل ج؍۲، ص؍۲۲، ابوالفداء ج؍۱، ص؍۱۱۶، وکنزالعمال ج؍۶، ص؍۳۹۷ وغیرہ)
پھر آخر وقت تک حضرت نے اپنے اس حکم کو منسوخ نہیں فرمایا یعنی یہ نہ کہا کہ اب علیؑ میرے خلیفہ نہیں ہیں۔ نہ یہ فرمایا کہ اب میرا خلیفہ فلاں شخص ہوگا۔ نہ یہ ارشاد کیا کہ اے مسلمانو! تم کو اختیار ہے میرے بعد جس کو چاہنا خلیفہ بنالینا۔ غرض کوئی ایسی بات نہیں کہ جس سے پتہ چلتا کہ وہ حکم بدل گیا تو ماننا پڑے گا کہ حضرت علیؑ آنحضرتؐ ہی کے مقرر کرنے سے آنحضرتؐ کے بعد آپ کے خلیفہ اول بلافصل ہوئے اور رہے۔
بارہ خلفاء کے ناموں کی تصریح:
حضرت رسول خداؐ نے اپنے بارہ خلفاء کے نام بھی صاف صاف مختلف طریقہ سے بتادئیے تھے جیسے:
(۱) علامہ سید علی ہمدانی نے لکھا ہے:
عن سلمان قال دخلت علی النبی فاذا الحسین علی فخذیہ وھویقبل علیہ ویقبل فاہ ویقول انت السید ابن السید وانت امام ابن الامام وانت حجۃ بن حجۃ ابوحجج تسعۃ تاسعھم قائمھم۔
یعنی جناب سلمان فارسی حضرت رسول خداؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ امام حسینؑ آنحضرت کی گود میں ہیں۔ حضرت ان کی طرف بڑھ بڑھ کر ان کا منھ چومتے ہیں اور ان سے فرماتے ہیں کہ تم سردار ہو۔ تمہارے باپ بھی سردار ہیں اور تم امام ہو تمہارے باپ بھی امام ہیں۔ تم حجت خدا ہو، اور تمہارے باپ بھی حجۃ خدا ہیں اور تمہاری اولاد سے بھی نوحجۃ خدا ہوںگے جن کے نویں بزرگ قائم ہوںگے۔(مودۃ القربیٰ مطبوعہ بمبئی ص؍۳۴، ارجح المطالب مطبوعہ لاہور ص؍۴۰۳)
(۲) علامہ شیخ سلیمان قندوزی نے لکھا ہے:
قال رسول اللہ انا سید النبیین وعلی سید الوصیین وان اوصیائی بعدی اثناعشر اولھم علی  وآخرھم القائم المھدی۔
یعنی حضرت رسول خداؐ نے فرمایا کہ میں کل نبیوں کا سردار ہوں اور علیؑ کل وصیوں کے سردار ہیں اور میرے کل وصی میرے بعد بارہ ہوںگے جن کے پہلے حضرت علیؑ اور جن کے آخری قائم مہدی ہوںگے۔ (ینابیع المودۃ مطبوعہ اسلامبول ص؍۴۴۵)
(۳) اور علامہ محدث جمال الدین لکھتے ہیں:
’’وازجابر بن یزید الجعفی مروی است کہ گفت شنیدم از جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ می گفت چون ایزد تعالیٰ نازل گردانید بر پیغمبر خود ایں آیہ راکہ یا ایھا الذین آمنوا اطیعوااللہ واطیعواالرسول واولی الامر منکم۔گفتم یا رسول اللہ من شناسم خدا ورسول اورا پس۔ کیستند اصحاب امر کہ خدائے تعالیٰ اطاعت ایشان رافرض ساختہ است بطاعۃ تو پس گفت رسول اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اے جابر این اسرار مکنونہ الٰہی است پس پنہاں دار آنرا مگراز کسیکہ اہل نہ باشد۔
(ترجمہ) پس کہا پیغمبر نے وہ اولوالامر خلفاء میرے ہیں۔ بعد میرے پہلے خلیفہ ان میں سے علی بن ابی طالبؑ ہیں۔ پھر حسنؑ ہیں پھر حسینؑ ہیں، پھر علی بن الحسینؑ ہیں، پھر محمد بن علیؑ ہیں، جو توریت میں مشہور ساتھ باقر کے ہیں۔ قریب ہے کہ تم ان کو پائوگے اے جابر پس جس وقت ان سے ملاقات کرنا تو میراسلام ان سے کہنا۔ پھر صادق جعفر بیٹے محمد کے ہیں۔ پھر موسیٰ بن جعفرؑ ہیں۔ پھر علی بن موسیٰ ہیں۔ پھر محمد بن علیؑ ہیں۔ پھر علی بن محمدؑ ہیں۔ پھر حسنؑ بن علیؑ ہیں۔ پھر حجۃ خدا کے اس کی زمین پر اور بقیہ حجۃ اس کے بندوں میں محمد بن حسنؑ بن علیؑ ہیں۔ یہ محمدؑ وہ ہیں کہ فتح کرے گا۔، اللہ غالب اور بزرگ ان کے ہاتھوں پر مشارق اور مغارب زمین کو، اور یہ محمد وہ ہیں کہ غائب ہوںگے اپنے شیعوں سے اور دوستوں سے ایسی غیبت سے کہ قائم رہے گا ان کی غیبت میں اوپر اقرار امامت کے ان کی مگر وہ شخص کہ جس کے قلب کی آزمائش کی ہے۔ اللہ نے ساتھ ایمان کے جابر کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا یا رسول اللہ غیبت میں امام کی شیعہ فائدہ پائیںگے؟ پس فرمایا یہ پیغمبر ؐ نے ہاں۔ قسم ہے اس کی جس نے مجھ کو مبعوث نبوت پر کیا ہے۔ بتحقیق شیعہ نور حاصل کریںگے نور سے امام غائب کے اور نفع حاصل کریںگے۔ ساتھ ولایت امام غائب کے۔ جیسے لوگ آفتاب سے نفع پاتے ہیں۔ اگرچہ آفتاب پر بدلی آجائے۔ (تاریخ روضۃ الاحباب ج؍۳، ص؍۲۷، نسخۂ قلمیہ)
 علامہ شیخ سلیمان قندوزی نے جو قسطنطنیہ کے شیخ الاسلام تھے جناب ابن عباس ایسے جلیل القدر صحابی کی روایت سے لکھا ہے کہ ’’ایک یہودی حضرت رسول خداؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ مجھے چند باتیں بتائیے تو میں اسلام قبول کروں۔ حضرت جواب دینے لگے۔آخر میں اس نے کہا:
(ترجمہ) یا حضرت آپ نے سب باتوں کا جواب ٹھیک ٹھیک دیا۔ اب یہ ارشاد فرمائیں کہ آپ کا وصی کون ہے۔ کیونکہ کوئی نبی ایسا نہیں ہوا جس نے اپنا وصی کسی کو مقررنہ کیاہو۔ ہمارے پیغمبر حضرت موسیٰ بن عمران نے بھی اپنا وصی جناب یوشع بن نون کو مقررکیا تھا۔ حضرتؐ نے فرمایامیرے وصی علی بن ابی طالبؑ اور ان کے بعد میرے دونوں نواسے حسنؑ وحسینؑ اور ان کے بعد نو امام حسینؑ کی نسل سے ہوںگے۔ اس یہودی نے کہا اے محمد ؐ آپ مجھے ان سب کے نام بھی بتادیں تو حضرت نے فرمایا کہ جب حسینؑ گزرجائیںگے تو ان کے بیٹے علیؑ ہوںگے ان کے بعد ان کے فرزند محمدؑ ہوںگے۔ ان کے بعد ان کے صاحبزادے جعفر ہوںگے۔ جب ان کا زمانہ ختم ہوجائے گا تو ان کے بیٹے موسیٰ ہوںگے۔ ان کے بعد ان کے فرزند علیؑ ہوںگے۔ ان کے بعد ان کے صاحبزادے محمدؑہوںگے جب وہ اٹھ جائیںگے تو ان کے فرزند علیؑ ہوںگے۔ جب وہ گزر جائیںگے تو ان کے فرزن حسنؑ ہوںگے۔ اور ان کے بعد ان کے فرزند محمدؑ مہدی ہوںگے جو حجۃ خدا رہیںگے۔ پس یہی بارہ امام میرے اوصیاء ہیں۔ اس یہودی نے کہا یہ بھی فرمائیے کہ علیؑ اور حسنؑ وحسینؑ کس طرح مریںگے؟ حضرتؐ نے فرمایا علیؑ کے سر پر تو تلوار کا ایک وارپڑے گا جس سے وہ قتل ہوجائیںگے اور حسنؑ زہر دے کر قتل کئے جائیںگے اور حسینؑ ذبح کئے جائیںگے۔ اس یہودی نے پوچھا یہ لوگ مرکر کہاں رہیںگے؟ حضرتؑ نے فرمایا بہشت میں۔ اور وہاں بھی خاص میرے درجہ میں۔ تب اس یہودی نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ سوا اللہ کے کوئی خدا نہیں ہے اور یہ کہ یقینا آپ اللہ کے رسول ہیں اور یہ بھی کہ یہی حضرات جن کے آپ نے نام بتائے آپ کے بعد آپ کے اوصیاء ہوںگے۔ ہم نے سابق کی کتابوں میں اور جن باتوں کا عہد ہم سے حضرت موسیٰ نے لیا تھا یہ انہیں لکھا ہوا پایا ہے کہ جب آخر زمانہ ہوگا تو ایک نبی مبعوث ہوںگے جن کا نام احمدؐ اور محمدؐ ہوگا۔ وہ خاتم الانبیاء ہوںگے کہ ان کے بعد پھر کوئی نبی نہیں ہوگا۔ ان پیغمبر کے اوصیاء ان کے بعد بارہ ہوںگے۔ ان کے اول تو اس نبی کے چچازاد بھائی اور داماد ہوںگے اور دوسرے اور تیسرے وصی انہیں امام اول کے فرزند ہوںگے جو دونوں آپس میں بھائی ہوںگے اور اس نبی کی امت ہی اس پہلے وصی کو تلوار سے اور دوسرے کو زہر سے اور تیسرے کو ان کے اہلبیت کے ساتھ تلوار اور پیاس کی مصیبت سے عالم غربت میں قتل کرے گی۔ وہ اس طرح ذبح کئے جائیںگے جس طرح بھیڑ بکری کے بچے ذبح کئے جاتے ہیں اور وہ بزرگ اور مصیبت قتل پر صبر کریںگے جس سے ان کے اور ان کے اہلبیت او ران کی ذریت کے درجے بلند ہوںگے اور اس ذریعہ سے وہ اپنے دوستوں اور پیرئوں کو جہنم سے بچالیںگے اور اس نبی کے باقی نواوصیاء اسی تیسرے وصی کی اولاد سے ہوںگے تو یہ بارہ وصی بھی اسباط کی طرح ہوںگے جو بارہ تھے۔ (ینابیع المودۃ ص؍۳۶۹)
علامہ ممدوح پھر لکھتے ہیں:
(ترجمہ) یعنی بعض محققین کی تحقیق ہے کہ یہ حدیثیں جوبتاتی ہیں کہ آنحضرتؐ کے بعد آپ کے خلفاء بارہ ہوںگے بہت سے طریقوں سے مشہور ہیں اور زمانے کے سمجھانے اور عالم کے بتانے سے معلوم ہوگیا کہ حضرت رسول خداؐ کا مقصود ان حدیثوں سے وہی بارہ امام ہیں جو حضرت کے اہلبیت اور ذریت سے ہوئے۔ اس لئے کہ یہ ممکن نہیں کہ ان حدیثوں سے وہ خلفاء (حضرات ابوبکر وعمر وعثمان) سمجھے جائیںجو حضرت کے صحابہ سے آپ کے بعد ہوئے کیونکہ ان کی تعداد بارہ سے کم تھی اور یہ بھی ممکن نہیں کہ ان حدیثوں سے خلفاء بنی امیہ مراد ہوںگے اس لئے کہ وہ بارہ سے زیادہ ہوئے اور سوائے عمر بن عبدالعزیز کے وہ سب حددرجہ ظالم بھی تھے اور پھر وہ بنی ہاشم سے بھی نہ تھے۔ حالانکہ آنحضرتؐ نے فرمادیا ہے کہ وہ خلفاء سب کے سب بنی ہاشم ہی سے ہوںگے اور یہ قول کو جو آنحضرتؐ نے آہستہ سے فرمایا اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت نے یہی فرمایا تھا کہ وہ سب بنی ہاشم سے ہوںگے اور آنحضرتؐ نے اس کو آہستہ اس وجہ سے فرمایا کہ اس وقت کے مسلمان بنی ہاشم کی خلافت کو پسند نہیں کرتے اور یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ ان حدیثوں سے خلفاء بنی عباس مراد ہوںکیونکہ ان کی تعداد بھی بارہ سے بہت زیادہ تھی۔ ان لوگوںنے حکم خدا ’’قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربیٰ۔ اے رسول ان مسلمانوں سے کہہ دو کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت پر اس کے سواکوئی اجر نہیں چاہتا کہ تم لوگ میرے اہلبیتؑ سے محبت اختیار کرو) اور حدیث کساء کا بہت کم خیال کیا تو اب اس کے سوا چارہ نہیں کہ اس حدیث کے مقصود وہی بارہ امام ہوں جو حضرت کے اہلبیت اور عترت سے تھے اور اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہی حضرات اپنے زمانوں میں خدا کے نزدیک سب سے زیادہ علم، جلالت قدر، ورع، تقویٰ، اعلیٰ نسب، افضل حسب اور شرف وکرم والے تھے اور ان حضرات کو ان کے علوم وکمالات ان کے جد بزرگوار حضرت رسول خدا سے وراثۃ اور لدنیہ کے ذریعہ سے پہنچے تھے۔ اسی طرح صاحبان علم وتحقیق اور ارباب کشف وتوفیق نے ان حضرات کی تعریف کی ہے۔ (ینابیع المودۃ ص۳۷۳)
بارہویں امام پیدا ہوچکے ہیں:
 معلوم رہے کہ بارہویں امام پیدا ہوکر نظروں سے غائب ہوگئے۔ اس لئے کہ اس زمانہ میں ظاہر بہ ظاہر کوئی حجۃ خدا نظر نہیں آتا۔ حالانکہ زمین کبھی حجۃ خدا سے خالی نہیں رہ سکتی۔ حضرات اہلسنت کی مشہور کتاب میں ہے ’’لاتخلوا الارض من قائم اللہ بحجۃ اما ھومشہور واما خائف معمور لئلا تبطل حجج اللہ وبیناتہ۔‘‘
یعنی زمین کبھی خدا کی حجۃ سے خالی نہیں ہوسکتی۔ وہ حجۃ خدا خواہ مشہور ومعروف ہوکہ لوگ اس کو پہچانتے ہو، خواہ خوفزدہ اور لوگوں کی نظروں سے چھپا ہو۔ غرض اس کا وجود ہر زمانہ کے لئے ضروری ہے تاکہ اللہ کی حجتیں اور اس کی نشانیاں مٹنے نہ پائیں۔ (منتخب کنزالعمال مطبوعہ مصر ج؍۴، ص؍۴۰)
اب وہ کب پیداہوئے؟
 علامہ ابن حجر مکی لکھتے ہیں:
’’ابی القاسم محمد الحجۃ وعمرہ عند وفاۃ ابیہ خمس سنین لکن اتاہ اللہ فیھا الحکمۃ ویسمی القائم المنتظر۔یعنی حضرت ابوالقاسم محمدؑ حجۃ العصر کی عمر آپ کے پدر بزرگوار کی وفات کے وقت پانچ سال کی تھی مگر خدا نے اسی عمر میں آپ کو حکمت عطا فرمائی تھی اور آپ کو لوگ قائم منتظر کہتے ہیں۔ (صواعق محرقہ مطبوعہ مصر ص؍۱۲۴)
اور علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں:
محمد بن الحسن العسکری کانت ولادتہ یوم الجمعۃ منتصف شعبان سنۃ خمس وخمسین وماتین۔
یعنی امام مہدیؑابن امام حسن عسکریؑ کی ولادت روزجمعہ ۱۵؍شعبان ۲۵۵ھ؁ کو ہوئی۔ (وفات الاعیان ج؍۲، ص؍۲۴)
اور علامہ ابوالفداء نے لکھا ہے:
’’یقال لنا القائم والمہدی والحجۃ وولد المنتظر المذکور فی سنۃ خمس وخمسین وماتین۔
یعنی حضرت قائم اور مہدی اور حجۃ کہتے ہیں۔ یہ امام منتظر ۲۵۵ھ؁ میں پیدا ہوئے (تاریخ ابوالفداء ج؍۲، ص؍۴۵)
اور علامہ شیخ عبدالوہاب شعرانی نے لکھا ہے:
یترقب خروج المھدیؑ وھومن اولاد الامام الحسن العسکریؑ ومولدہ لیلۃ النصف من شعبان ۲۵۵ ہجری وھوباق الی ان یجتمع بعیسی بن مریم فیکون عمرہ الیٰ وقتنا ھٰذا وھو ۹۵۸ سبعماۃ سنۃ وست سنین۔۔۔۔۔۔لابد من خروج المھدیؑ۔۔۔۔وھومن عترۃ رسول اللہؐ من ولد فاطمۃ جدہ الحسین بن علی ووالدہ حسن العسکری ابن الامام علی النقی بن محمد التقی بن الامام علی الرضاالباقربن الامام زین العابدین علی بن الامام حسین بن الامام علی۔ یعنی حضرت مہدی کے ظہور کا برابر انتظار رہتا ہے۔ آپ شب ۱۵؍شعبان ۲۵۵؁ ہجری میں پیدا ہوئے اور اس وقت تک باقی رہیںگے کہ حضرت عیسیٰ کے ساتھ جمع ہوں۔ اس حساب سے آپ کی عمر اس وقت ۹۵۸ھ؁ میں ۷۰۶ سال کی ہوئی۔ آپ ظاہر ہوکر رہیںگے۔ آپ حضرت رسول خداؐ کی عترت اور جناب فاطمہ زہراؑ کی اولاد سے ہیں۔ آپ کے والد امام حسن عسکریؑ فرزند امام علی نقیؑ، فرزند امام محمد تقی، فرزند امام علی رضاؑ، فرزند امام موسیٰ کاظمؑ، فرزند امام جعفر صادقؑ، فرزند امام محمدؑ باقر، فرزند امام زین العابدینؑ فرزند امام حسینؑ، فرزندحضرت علیؑ تھے۔ (الیواقیت والجواہر ، مطبوعہ مصر ج؍۲، ص؍۲۸۸)
شب برأت کی آتش بازی:
بھی دنیا کی عجیب وغریب باتوں سے ہے۔ کسی طرح پتہ نہیں چلتا کہ اس کو کس نے کب اور کیوں ایجاد کیا؟۔
دوسرے اسلامی ممالک میں بھی مختلف صورتوں سے اس کا رواج ہے اور باوجودیکہ علمائے اہل سنت اس کے روکنے کی شدید ترین کوشش کرتے رہتے ہیں حد ہوگئی کہ جناب خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے چند سال قبل اس کا جنازہ نکال کراس کو ختم کردینے کا اعلان کیا۔
مگر حضرات اہل سنت اب بھی اسی اسلامی جوش سے اس کو مناتے اور اس میں لاکھوں روپیہ خرچ کرتے ہیں تو باوجود ان حضرات کی اس سخت کوشش کے یہ نور خدا کیوں نہیں بجھتا؟ اسی لئے تو کہ خدا اس کو قائم رکھنا چاہتا ہے اور غالباً اسی غیبی طاقت نے اس کو پھیلا رکھا ہے۔تاکہ دنیا سمجھے کہ آج چونکہ وہ حجت خدا پیدا ہوگیا ہے جو قیامت تک قائم رہے گا اور اس کے وجود مسعود کی وجہ سے دنیا قائم ہے۔
اور جب دنیا ظلم وجور سے بھر جائے گی تو بھی حجۃ خدا ظاہر ہوکر اس کو عدل وانصاف سے بھردے گا۔ لہٰذا ہر مسلمان میں غیب سے برآمادگی پیدا ہوجاتی ہے کہ اس رات میں آتش بازی کے ذریعہ سے خوشی کا ڈھنڈورا پیٹے۔
اللھم صل علی محمد وآل محمد و عجل فرجھم