باسمہ تعالیٰ
جونوں کو نصیحت
جوادتبریزی
شیطان ہمیشہ تاک میں رہتا ہے اس لئے انسان اس حد تک تہذیب نفس رکھتا ہو کہ شیطان کو دھوکہ دینے اور غلبہ حاصل کرنے کی اجازت نہ دے لہذا قبل اس کے کہ پشیمان ہوئیے ،شیطان کو اپنے پاس سے بھگائیے ۔اس لئے کہ خدا نخواستہ اگر وقت پر اپنی فکر نہ کی تو ممکن ہے کہ آئندہ شیطانی وسوسوں سے اپنے کو بچا نہ پائیے۔جب تک آپ جوان ہیں موقع ہے کہ اپنے کو آزاد کیجئے۔آپ کے لئے سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ ایک دیندار شخص کو اپنا رہنما بنائیے۔جو خود صاحب کمال ہے اس کی مدد سے آگے بڑھیے اور اپنا کچھ وقت اس کے ساتھ گزاریے۔
کوشش کیجیے کہ متدین افراد کے ساتھ ہی معاشرت اور نشست و برخاست کیجیے اور جن لوگوں کے افکار اور طور طریقہ آپ کو گناہ کی طرف کھینچیں ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے بچیے۔شیطانی افکار کو اپنے ذہن سے دور کیجیے۔معنویات کی طرف متوجہ ہوئیے اور وعظ و نصیحت کی مجلسوں میں شرکت کیجیے۔ذکر الہی زیادہ کیجیے اور اپنے ہر کام میں خدا سے مدد طلب کیجیے ۔تنہائی میں زیادہ نہ رہیے۔اگر کسی طرح کا گناہ آپ کے ذہن میں آئے تو اپنی جگہ سے نکل کر ٹہلنا شروع کیجیے اور اپنے کو کسی کام میں مشغول کردیجئے تاکہ بری اور غلط فکر آپ کے ذہن سے نکل جائے۔
اس بات پر غور کیجئے کہ آپ کے شہوانی جذبات بھڑکنے کا اصل سبب کیا تھا؟ تاکہ بعد میں اس کا علاج کیجیے اور اس سے دوری اختیار کیجیے اس کام سے انشاء اللہ آہستہ آہستہ گناہ کے مسئلہ کو بھول جائیے گا۔اگر آپ یہ کام کرسکیں کہ جس وقت شیطان آپ پر غالب آتا ہے اس وقت وضو کرکے نماز پڑھنا شروع کردیں تو یہ کام بہت ہی زیادہ اثر انداز ہے۔اس میں ایسی برکتیں ہیں جو آپ کی اس مشکل سے نجات پانے میں معاون ثابت ہوںگی۔
کوشش کریں کہ ایسے کام انجام دیں جس سے حضرت امام زمانہ (عج) آپ سے راضی ہوں اگر جدّیت اور توجہ کے ساتھ درس پڑھیں اور احکام الٰہی کو تہذیب نفس کے ساتھ انجام دیں تو انشاء اللہ امام زمانہ ( عج) کے دل کو خوشنود کریں گے اور تحصیل علم کے راستہ میں خداوند عالم پر توکل اور ائمہ معصومین ؑسے توسل کرتے ہوئے سعی و تلاش کریں تاکہ اچھی طرح درس پڑھیں اور تحصیل علم میں جلد بازی نہ کریں جب تک ایک کتاب ختم نہ کرلیں اور اچھی طرح سمجھ نہ لیں ،دوسری کتاب شروع نہ کریں ، کوشش کریں کہ ایک کتاب ختم کرنے کے بعد اسے پڑھائیں ، جوانی اور عمر کے سرمایہ سے فائدہ اٹھانے کے لئے بہت زیادہ مراقب رہیں اس لئے کہ جوانی زود گذر ہے اور فرصت بہت تیزی سے ہاتھ سے نکل جاتی ہے ، فرصت کو غنیمت سمجھیں اور خداوند عالم سے توفیق طلب کریں جو لوگ عمر کو برباد کرتے ہیں ان کے ساتھ دوستی سے بچیں ، شب نشینی اور لاحاصل وقت گزار نے سے پرہیز کریں ، کوشش کریں کہ دیندار ، مومن اور درس خوان افراد کے ساتھ نشست و برخاست کریں ، جوانی کے سرما یہ کو غنیمت جانیں اور ا س خدائی نعمت کو آسانی سے ہاتھ سے جانے نہ دیں۔
ہنسی مذاق ، کھانے میں نمک کی طرح ہے انسان کو چاہئے کہ بہت زیادہ ہنسی مذاق سے بچے ، بالخصوص جوان طلاب جو سازندگی کا دور گزار رہے ہیں ، خدا نخواستہ بہت زیادہ ہنسی مذاق دل کے مردہ ہونے کا سبب نہ بن جائے اس لئے کہ اگر ایسا ہوگیا تو اس حالت سے نکلنا بہت سخت ہے جوکام بھی کریں معقول ہونا چاہئے تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ یہ کیسا طالب علم ہے جو اپنا وقت ہنسی مذاق میں گزارتا ہے یہ کیوں طالب علم بنا ہے ؟!
بہت زیادہ ہنسنا آپ کی شخصیت کو دیندار افراد کے سامنے کمرنگ کردیتا ہے ، اپنے دیندار اور مومن دوستوں کے ساتھ معقول و مناسب بحث وگفتگو کریں لیکن خیال رکھیں کہ اس میں جھوٹ، تہمت ، افتراء و بہتان اور کسی کو اذیت شامل نہ ہو، بات کرنے اور معقول مذاق میں ، شرعی و اخلاقی تمام جوانب کو مدنظر رکھیں ، طلاب کا وظیفہ درس پڑھنا اور خداوند منان پر توکل ہے ، ایسا کام کیجئے جس میں امام زمانہ (عج) کی مرضی شامل ہو، آپ کی ظاہری شکل وصورت اور آپ کی رفتار و گفتار ایسی ہونا چاہئے کہ اگر کوئی آپ کو دیکھے توخوش ہو اور آپ بھی ’’ کونوا لنا زینا‘‘ کا مصداق ہوں ، خدا آپ کو توفیق عطا کرے ۔
{وابتغوا الیہ الوسیلۃ} کا ایک مصداق دعا ہے جس میں حدیث کساء بھی شامل ہے ، یہ بابرکت حدیث اہل بیت علیہم السلام سے توسل کا ایک واضح مصداق ہے ، اسے پڑھیں اس لئے کہ اس کے مضامین بہت ہی بلند ہیں بہت سے لوگوں نے مشکلات حل کرنے کے لئے اس کا تجربہ کیا اور نتیجہ حاصل کیا ہے ، انشاء اللہ امام زمانہ ( عج) کے لطف سے آپ کی مشکل بھی حل ہوگی ، خداوند عالم سے عبادت کی لذت طلب کریں۔(افق حوزہ)۔
انسان کاسب سے اہم لباس
مشکینیؒ
قرآن کریم و احادیث معصومین علیہم السلام سے استفادہ ہوتا ہے کہ خدا وند عالم نے انسان کے پانچ طرح کے لباس مہیاکئے اور بیان کئے ہیں جن میں سے چار قسمیں تو جسم کے لباس ہیں اور ایک روح کا لباس ہے البتہ ان میں سے ہر ایک کی اپنی جگہ پر اہمیت ہے۔
آیۂ کریمہ، ’’ يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۔۔۔‘‘ (’اے اولادِ آدم! ہم نے تمہارے لئے لباس نازل کیا ہے جس سے اپنی شرمگاہوں کا پردہ کرو اور زینت کا لباس بھی دیا ہے‘ ۔سورہ اعراف آیت ۲۶)میںدو لباس کی طرف اشارہ ہوا ہے ایک کام و روز مرّہ کا لباس اور دوسرے تجمل و زینت والا لباس ۔ تیسرا لباس تمہارا قیامت کا لباس ہے جسے اسی دن میں مہیا کرکے اپنے ساتھ لے جاؤ اور وہ کفن ہے۔ لہٰذا جس کا بھی کفن جتنا حلال ہوگا اتنا ہی اس کا آخرت کا لباس بہتر ہوگا۔
ایک روایت میںامام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے منقول ہے کہ : انّا اھل بیت مھور نسائنا و حجّ صرورتنا و اکفان موتانا من طہرۃ اموالنا ( مستدرک ۸/۲۵) یعنی ہم اہل بیت اپنے مالوںمیںسے تین چیزوںکو بہترین اموال سے مہیا کرتے ہیں: عورتوں کا مہر ، حج اور کفن۔
لہٰذا آ پ شیعیان اہل بیتؑ بھی کفن کو اہمیت دیجئے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میںایک بزرگوار کے تجہیز وتکفین میںشریک ہوا تو دیکھا کہ انہوں نے اپنے کفن کے اوپر سرخ قلم سے پورا قرآن لکھ رکھا ہے۔
دوسرا لباس وہ ہے جو انسان کو حساب و کتاب کے بعد پہنایا جائے گا اور وہ جنت والوں کےلئے خالص ریشم نرم و نازک لباس ہوگا : وَيَلْبَسُونَ ثِيَابًا خُضْرًا مِّن سُندُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ ۔ ( اور یہ باریک اور دبیز ریشم کے سبز لباس میں ملبوس ہونگے۔کہف آیت۳۱)
لیکن دوزخ والوںکے لباس کو قرآن نے اس طرح بیان کیا ہے : فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّن نَّارٍ ۔( پھر جو لوگ کافر ہیں ان کے واسطے آگ کے کپڑے قطع کئے جائیں گے۔حج آیت ۱۹) سَرَابِيلُهُم مِّن قَطِرَانٍ (ان کے لباس قطران کے ہوں گے۔ابراہیم آیت ۵۰)
پانچواں لباس، تقویٰ کا لباس ہےیہی سب سے اچھا اور سب سے بہترین لباس ہے۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے :وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ(لیکن تقوٰی کا لباس سب سے بہتر ہے)۔آپ کوشش کیجئے گناہ نہ کیجئے خیال کیجئے اور کوشش کیجئے کہ مہینے اور سال گزر جائیں اور آپ کے نامۂ اعمال میںکوئی گناہ نہ لکھا جائے۔ اگر اس طرح کی قدرت و طاقت آپ کے اندر ہے تو بہت ہی اچھا ہے (نعم المطلوب) اور متقین میں سے ہیں اور اگر نفس ے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تو خدا سے دعا کیجئے کہ آپ کو وہ نفس سے مقابلہ کرنےکی طاقت اور نفسانی خواہشات پر غالب آنے میںکامیابی عطا فرمائے۔ متقی انسان یعنی جس کے اختیار میںسب کچھ ہو ۔ اور جس کے پاس تقویٰ نہ ہو اس کا مطلب ہے اس کے پاس کچھ بھی نہیںہے۔
خدایا! جسے تونے تقویٰ عطا کردیا اسےکیا نہیں دیا اور جسے تقویٰ عطا نہیں کیا اسےکیا دیا ہے ؟!
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’کن مع الناس لا تکن معھم‘‘ یہ بات بظاہر متناقض ہے لیکن اس کے باطن میںسب کے لئے نکتہ اور اہم مطلب پوشیدہ ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ لوگ جو بھی نیک کام انجام دیں تم اس میں ان کےساتھ شریک رہو ۔ مثلاً اگر لوگ نماز جماعت میں حاضر ہوں تو تم بھی حاضر ہو اور اسی طرح کسی بھی غلط کام میں لوگوں کےساتھ شرکت نہ کرو۔ امیرالمومنینؑ کا یہ کلام در حقیقت ایک آئینہ ہے جو حضرتؑ نے ہمارے اختیار میںدیا ہے۔ گناہ کا مطلب ہے کلام خدا کو رد کرنا۔ اس نے حکم دیا ۔ اپنی کتاب میںلکھا لیکن پھر بھی تم نے انجام دیا۔ یہی بے تقوائی ہے۔ گناہ کا اثر صحراؤں دریاؤں پر بھی ہوتا ہے۔
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ۔ (روم آیت ۴۱)پیغمبر اسلامﷺ نے گناہ کے سلسلےمیں ایک جملہ فرمایا ہے : ’’تین گناہ ایسے ہیں جن کا اثر دوسرے گناہوں کےمقابلے بہت جلدی ظاہر ہوتا ہے :پہلے عاق والدین ہونا اور ماں باپ کو تکلیف پہنچانا ، لہٰذا اگر ماںباپ موجود ہوں تو ان کو راضی رکھئے عاق والدین کا اثر انسان پر بہت جلد ظاہر ہوتا ہے۔ بالخصوص اس کی عمر کو کم کرتا اور رزق و روزی کوکم کرتا ہے۔
دوسرا گناہ ظلم ہے ۔ کوشش کیجئے کسی پر بھی ظلم نہ کیجئے کسی کے حق کو ضائع نہ کیجئے۔ حضرت عیسیٰ بن مریمؑ سے نقل ہے :’’ سب سے سخت غضب خدا ہے ۔ پوچھا گیا تو کیا کریں کہ غضب خدا کاشکارنہ ہوں ؟ فرمایا : کوشش کرو کسی پر بھی ظلم نہ کرو۔
تیسرے کفران نعمت ہے ۔ اپنے وجود کی نعمت کا کفران نہ کیجئے ۔ اپنی آنکھوں کو حرام کاموںمیںاستعمال نہ کیجئے کہ یہ کفران نعمت ہے اپنی زبان اپنے اعضا و جوارح، اپنی دولت و پیسہ کو حرام کاموں میںمصرف نہ کیجئے کہ یہ کفران نعمت ہے۔ ہر ایک گناہ سے انسان کے تقویٰ کے لباس پر ایک دھبہ لگ جاتا ہے گناہگار انسان کی ذمہ داری ہےکہ اس دھبہ کو دھوئے و صاف کرے۔ امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے : ہمارے اس شیعہ کےلئے خوش نصیبی ہے کہ قیامت کے دن اس کے ہر گناہ کے ساتھ ایک توبہ ہو۔ توبہ سے گناہ کا دھبہ مٹ جاتا ہے لہٰذا خیال رکھئے کہ آپ کے تقوے کا لباس ہمیشہ پاک وپاکیزہ رہے ۔ خدایا ہم کو بخش دے ، ہماری مغفرت فرما۔ آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔خخخ
اصلاح نفس
بہجتؒ
ظاہری و باطنی طور پر ہم جن چیزوں کا شکار ہوجاتے ہیں اس کے لئے کیا کریں؟ اندرونی و بیرونی اعتبار سے مبتلا ہونے میں ہم کیا کریں؟ ہم نے کیا کیا کہ ان چیزوں کا شکار ہوجاتے ہیں؟ اس کی بھی فکر کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں بھی توجہ دینا چاہئے۔ آخر ہم نے ایسا کیا کیا کہ جس کی وجہ سے ہم بغیر سرپرست کے رہ گئے؟
اصلی بات یہ ہے کہ ہم اپنی اصلاح نہیں کرتے اور نہ کیا ہے اور نہ کریں گے ۔ اہم اپنی اصلاح کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ اگر ہم نے اپنی اصلاح کی ہوتی تو ان بلاؤںمیں مبتلا نہ ہوتے۔
پیغمبر اکرمﷺ نے فرمایا : ’’ الااخبرکم بدائکم و دوائکم ، داؤکم الذنوب و دواؤکم الاستغفار‘‘۔ ( کیا نہیں چاہتے کہ میں تمہیں تمہاری بیماریوں اور ان کے علاج کے بارے میں بتاؤں ۔ تمہاری بیماریاں و پریشانیاں تمہارے گناہ ہیں اور ان کا علاج استغفار و توبہ ہے )۔
ہم چاہتے ہیں کہ جو ہمارا دل چاہتا ہے وہی کریں لیکن دوسروں کو حق نہیں ہے کہ ہمارے ساتھ برائی کرے۔ہم اپنے ساتھ، اپنے اعزہ و رشتہ داروں کے ساتھ اور دوستوں کے ساتھ تو جو چاہیں کریں لیکن دوستوں کو اور دشمنوں کو حق نہیں ہے کہ ہمارے ساتھ غلط طریقہ اپنائیں اور ہمارے ساتھ برائی کریں۔ اگر ہم اپنے کو صحیح کرلیں تو خدا ہی ہمارے لئے کافی ہے۔ خدا ہی ہادی ہےلیکن ہم خود کو صحیح کرنا نہیں چاہتے۔ اور کسی دوسرے سے تکلیف برداشت کرنا بھی نہیں چاہتے۔ جن کی فطرت میں اذیت و آزار ہے وہ اپنا کام کرتے ہیں مگر یہ کہ ایک کفالت کرنے والا اور حفاظت کرنے والا بچالے۔ اگر ہم خود صحیح راستہ پر ہوتے، صحیح راستہ طے کرتے تو کون امیر المومنینؑ کو قتل کرتا۔ کون امام حسینؑ کو شہید کرتا۔ کون امام زمانہ ؑ کو جو ہزار سال سے زیادہ سے ہیں مغلول الیدین کرتا؟
ہم اپنی اصلاح اور تہذیب نفس پر تیار نہیں ہیں۔ اگر ہم اپنی اصلاح کرلیں تو تمام افراد کی بتدریج اصلاح ہوجائے سبھی آہستہ آہستہ راہ راست پر آجائیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اگر ہمارا دل چاہے تو جھوٹ بولیں لیکن کوئی دوسرا ہمارے ساتھ جھوٹ نہیں بول سکتا۔ ہم اپنوں کو، اپنے دوستوں کو اور اچھے لوگوں کو تو تکلیف پہنچائیں لیکن برے لوگوں کو حق نہ ہو کہ ہم کو اذیت دیں ۔دوستو! خدا کے ساتھ صلح و آشتی کرو وہ سارے کام حل کردے گا۔ کیوں خلوت و جلوت میں تنہائی و علی الاعلان جو بھی دل چاہتا ہے کرتے ہو؟ کیا خدا کا یہ ارشاد نہیں ہے کہ:
۔۔۔وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا ﴿٢﴾ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّـهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا ﴿٣﴾ (سورہ طلاق، ۲و۳)
’’اور جو بھی اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے نجات کی راہ پیدا کردیتا ہے۔اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جس کا خیال بھی نہیں ہوتا ہے اور جو خدا پر بھروسہ کرے گا خدا اس کے لئے کافی ہے بیشک خدا اپنے حکم کا پہنچانے والا ہے اس نے ہر شے کے لئے ایک مقدار معین کردی ہے‘‘۔
کیا یہ ممکن ہے کہ ہم خدا کے ساتھ نہ ہوں اور خدا ہر چھوٹی بڑی چیز میں، ظاہری و باطنی امور میں ہمارا ساتھ دے؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ لہٰذا دنیوی اور اخروی بلاؤں سے بچنے، داخلی و خارجی پریشانیوں سے نجات پانے کے لئے صرف یہی راستہ ہے کہ ہم خدائی ہوجائیں۔ خدا کےساتھ ہوں اور خدا والوں کی ہمراہی و پیروی کریں۔ اگر ہم انبیا و اوصیا سے دور ہوئے تو بلا فاصلہ ظاہر و باطن کے بھیڑیے ہم کو کھاجائیں گے۔
اگر ہم خدا ترس ہوتے تو دوسرے ہم سے ڈرتے۔ جو لوگ نہیں پہچانتے کہ ہم کون ہیں؟ کیا ہیں؟ وہ کوئی ایسا کام کرنے سے ڈرتے ہیں جس سے ہم ان پر غضبناک ہوجائیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ اب ہمارا غضب خدا کا غضب ہے، اگر ہم خدا کے ساتھ ہیں۔
سید الشہداءؑ سے جناتوں نے کہا : اگر آپ اجازت دیں تو ہم بغیر کچھ کئے دشمنوں کو ہلاک کردیں۔ حضرت نے فرمایا: خدا کی قسم میری طاقت تم سے زیادہ ہے ( یہ وہی ہیں جن کو اسم اعظم معلوم ہے ) لیکن اگر مارا نہ جاؤں تو یہ لوگ جو اس طرح کے ہیں کیسے ان کا امتحان ہوگا۔
یہاں امتحان گاہ ہے اپنی اصلاح کی فکر کیجئے۔ اپنے اور خدا کے درمیان کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہونے دیجئے۔ اگر آپ نے اصلاح و تہذیب نفس کرلیا اور اپنے و خدا کے درمیان اور اپنے و انبیاء اور اوصیا کے درمیان رکاوٹوں و موانع کو برطرف کرلیا تو خداوند عالم بھی آپ اور تمام مخلوقات کے درمیان اصلاح کردے گا۔ نوبت یہاں تک آئی کہ سقیفہ سے بلکہ اس سے قبل حجرہ سے آپس میں دشمنی پیدا ہوئی ان تمام کاموں کو ہم نے دیکھا ہے یہ ہمارا ہی کام ہے ورنہ کیوں مسلمان دشمن ہیں ایسا کیوں ہے؟۔
یہ سب ہم دیکھ رہے یہ ہمارا ہی کام ہے۔ ان کا موں سے ہمیں توبہ کرنا چاہئے یا نہیں؟
ہم تو بہ کریں، گریہ و زاری کریں، گڑگڑائیں، اس خدا کی بارگا ہ میں اسی کی طرف توجہ کریں تاکہ وہ ہمیں نجات عطا کرے پہلے ہم کو خود ہمارے شر سےاور ہمارے باطن سے پھر خارجی و ظاہری شر سے۔ اس لئے کہ ’’اعدی عدوک نفسک التی بین جنبیک ‘‘(تمہارا سب سے بڑا دشمن تو وہ تمہارا نفس ہے جو تمہارے دونوں پہلوؤں میں پایا جاتا ہے )
یہ بے جا شہوتیں ، بے جا غضب سب شیطانوں کے لشکر ہیں۔ یہ کفار کے لشکر ہیں یہ سب تو خود انسان کے اندر ہی ہیں۔ جب نوبت یہاں تک پہنچا دی تو یہ بھی معلوم ہے کہ اس کا علاج استغفار و توبہ ہے۔ کیا استغفار کرتے ہیں؟ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ خدا کی طرف پلٹیں۔ اگر خدا کی طرف نہ جائیں اور موانع و رکاوٹیں بھی برطرف ہوجائیں تو وہ وقتی ہیں دائمی رکاوٹیں دور نہیں ہوتی ہیں۔
ہم کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارا علاج تمام مراحل میں اپنے نفس کی اصلاح ہے۔ اس سے ہم بے نیاز نہیں ہوسکتے اور اس کے بغیر ہمارا کام پورا نہیں ہوسکتا۔ اس اعتراف کے ساتھ کہ جو بھی مصیبت آتی ہے جو بھی ہوتا ہے، اپنی ہی وجہ سے ہے تو جب تک ہم اپنی اصلاح نہ کرلیں خدا سے رابطہ بر قرار نہ کرلیں، خدا کے نمائندوں سے رابطہ برقرار نہ کرلیں اس وقت تک ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ ہم امام زمانہؑ سے اپنا رابطہ صحیح کریں۔ اپنی اصلاح کریں اپنے اوپر توجہ دیں اور یہ مسلّم ہے کہ جب تک ہم اپنی اصلاح نہ کریں اصلاح نفس نہ کرلیں اس وقت تک سماج و معاشرہ کی اصلاح بھی نہیں ہوسکتی۔ ززز
امام زمانہ ہمارے اعمال پر ناظر ہیں
امام خمینیؒ
آپ اس وقت خدا وند عالم اور امام زمانہ سلام اللہ علیہ و عجل اللہ فرجہ کی نگاہوں کے سامنے ہیںان کے زیر نظر ہیں، ملائکہ آپ کی نگرانی کررہے ہیں اور آپ کے نامۂ اعمال کو امام زمانہ عج تک پہنچاتے ہیں۔
اب غور کیجئے کہ آپ زیر نظر ہیں، آپ پر نگاہیں ہیں، روایت کے مطابق ہمارے نامۂ اعمال امام زمانہ عج کی خدمت میں ہفتہ میں دو دفعہ پیش ہوتے ہیں ۔ مجھے خوف ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک طرف ہمارا یہ دعوی کہ امام کے پیروکار ہیں، ان کے شیعہ ہیں، دوسری طرف اگر وہ ہمارے نامۂ اعمال کو دیکھیں اور دیکھیں کہ خدا کی نگاہوں کے سامنے ہوا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ امامؑ شرمندہ ہوجائیں۔ اگر آپ کا بیٹا غلط کام کرے تو آپ شرمندہ ہوتے ہیں ، اگر آپ کا نوکر غلط کرے تو آپ شرمندہ ہوتے ہیں ، سماج میں تو آدمی شرمندہ ہوتا ہے کہ بیٹے نے ایسا کام کردیا یا نوکر نے ایسا کام کردیا یا پیروکار نے ایسا کام کردیا ۔مجھے خطرہ ہے کہیں ایسا کام نہ ہو کہ امام زمانہؑ خدا کے سامنے شرمندہ ہوں، کہیں ایسا نہ ہو کہ خدانخواستہ ہم سے کوئی ایسا کام سرزد ہوجائے کہ جب لکھا ہوا پیش کیاجائے، وہ لکھا ہوا جس کیلئے ملائکۂ الہی ہمارے اوپر نگراں ہیں،ہمارے رقیب ہیں۔ ہر انسان کا رقیب ہے اور اس کی نگرانی ہوتی ہے، جو بات بھی دل میں آئے وہ زیر نظر ہے، ہماری آنکھوں کی نگرانی ہوتی ہے، کان زیر نظر ہیں، زبان کا رقیب ہے، ہمارے دل کی مراقبت و نگرانی ہوتی ہے۔ خدا نخواستہ ہم سے ، آپ سے اور امام کے چاہنے والوں سے کوئی ایسی بات سرزد ہوجائے جو امام زمانہؑ کی رنجیدگی و ناراضگی کا سبب ہو۔ اپنا خیال کیجئے، اپنی طرف توجہ دیجئے، اپنی مراقبت کیجئے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی یہ پاسداری و مراقبت اس دفتر میں ثبت ہوجائے جس میں صدر اسلام میں پاسداری کرنے والوں کی پاسداری و مراقبت ثبت ہے تو اسی طرح خیال کیجئے، اسی طرح مراقبت کیجئے جس طرح وہ لوگ اپنی پاسداری و مراقبت اور اپنا خیال کرتے تھے ۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ جب آپ کا نامہ عمل اور آپ کا کارنامہ امام زمانہؑ کی خدمت میں پیش کیا جائے اور ان سے کہا جائے کہ یہ آپ کے چاہنے والے اور آپ کے سپاہی کا اعمال نامہ ہے تو امامؑ دیکھ کر رنجیدہ ہوجائیں۔ دوستو! معاملہ اہم ہے۔ قتل و غارت گری کا معاملہ نہیں ہے۔ ہمارا قیام اور ہمارا نقلاب ، یک طاغوتی انقلاب نہیں ہے۔بلکہ ہمارا قیام و انقلاب ایک انسانی انقلاب ہے، ہم کتاب و سنت پر عمل کرنا چاہتے ہیںآپ بھی کتاب و سنت پر عمل کیجئے۔
جب ہمارا اعمال نامہ امام زمانہ ؑ کی خدمت میں پیش کیا جائے تو ہمارے اعمال ایسے ہوں جو ظاہر کررہے ہوں کہ ہم امام کے پیروکار اور ان کے تابع ہیں۔
خداوند عالم سے دعا کرتا ہوں کہ حضرت ولی ٔ عصر عج کے ظہور کو نزدیک فرمائے اور ہماری آنکھوں کو ان کے روئے مبارک کے ذریعہ روشن فرمائے۔ہم سب فرج کے منتظر ہیں ہم کو چاہئیے کہ اس انتظار میں خدمت کریں۔ انتظار فرج ، انتظار قدرت اسلام ہے ۔ ہم کو کوشش کرنا چاہئیے کہ دنیا میں اسلام کی قدرت عملی ہو اور انشاء اللہ ظہور کے مقدمات فراہم ہوں۔
خخخخ
طالب علم کا مقام و مرتبہ
مجتہدیؒ
احتضار کے وقت انسان سے قرآنی علوم کے علاوہ تمام علوم لے لئے جاتے ہیںلہذا اس علم کے پیچھے جائیے جو باقی رہنے والا ہے یعنی قرآن کو پڑھیے اور حفظ کیجئے اور یہ یادرکھئے کہ جنت کی لفٹ قرآن سے چلتی ہے ۔جتنا بھی پڑھیے گا اتنا ہی اوپر جائیے گا اور جہاں بھی نہیں پڑھا، لفٹ رک جائے گی اور اترنا پڑے گا ۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’حملۃ القرآن عرفاء اہل الجنۃ‘‘(کافی ج۲،ص۴۶) حاملین اور حافظین قرآن عرفاء اہل جنت ہیں۔ جب تک جوان ہیں قرآن حفظ کیجئے ، جوانی میں جو آیتیں میں نے حفظ کی تھیں ،وہ آج تک مجھے یاد ہیں، کوشش کیجئے روزانہ کچھ قرآن پڑھئے اور اس کے معنی میں غور و فکر کیجئے اور خداوند عالم سے چاہئے کہ وہ آپ کو عمل کی توفیق عطا کرے۔
امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے :’’ الا لاخیر فی قرائۃ لیس فیھا تدبر‘‘(کافی ج۱،ص۳۶)آگاہ ہوجاؤ کہ جس قرائت میں تدبر و غور وفکر نہ ہواس میں کوئی بھلائی نہیں ہے ۔خداوند عالم قرآن میں بندوں سے شکایت کرتا ہے کہ قرآنی آیات میں غور وفکر اور تدبر کیوں نہیںکرتے؟ ’’ افلا یتدبرون القرآن ‘‘(نساء؍ ۸۲) امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: ’’ آیات القرآن خزائن فکلما فتحت خزانۃ ینبغی لک ان تنظر ما فیھا ‘‘ (کافی ۲،ص۹۰۶)۔قرآنی آیات خزانہ ہیں، لہذاجب بھی خزانہ کھلے تو تمہیں دیکھنا چاہئے کہ اس میں کیا ہے ؟
مرجع تقلید آیۃ اللہ العظمیٰ سید احمد خوانساری ، زخم معدہ کی وجہ سے ہاسپٹل میں بھرتی ہوئے ، اس وقت ان کی عمر ۸۹ سال تھی، ضعیفی اور کمزوری کی وجہ سے بیہوشی کے بغیر آپریشن ممکن نہ تھا ۔ دوسری طرف وہ بیہوش کرنے کی اجازت بھی نہیں دے رہے تھے اس لئے کہ ان کی نظر تھی کہ بیہوشی کے وقت مقلدین کی تقلید میں اشکال پیدا ہو جائے گا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ رپورٹوں کے مطابق آپ کا آپریشن ضروری ہے ۔ آیت اللہ خوانساری نے کہا: کوئی بات نہیں ہے ، جب بھی چاہو آپریشن کرو لیکن اس سے پہلے مجھے بتا دو تاکہ تلاوت قرآن اور اس میں توجہ کی وجہ سے بے ہوش کرنے کی تمہاری مشکل حل ہو جائے۔ ڈاکٹر نے کہا ٹھیک ہے اور آپریشن کی تیاری کرنے کے بعد کہا ہم آپریشن کرنے کے لئے تیار ہیں۔ آیت اللہ خوانساری نے کہا : جب میں تلاوت کرناشروع کروں تو تم بھی اپنا کام شروع کر دینا۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ : جب انھوںنے سورۂ انعام کی تلاوت شروع کی تو میں نے پیٹ کا آپریشن شروع کیا ۔وہ اس طرح آرام سے لیٹے تھے جیسے مکمل بیہوشی میں یہ کام ہو رہا ہو۔ آپریشن مکمل ہونے کے بعد ان سے کہا گیا جناب! ہمارا کا م ختم ہو گیا تو انھوںنے قرآن کوبند کیا اور کہا : صدق اللہ العلی العظیم ۔
میں نے کہا : جنابعالی آپ کے درد نہیں ہوا؟ جواب دیا : قرآن میں مشغول تھا۔ آپریشن کا پتہ بھی نہیں چلا۔
عالم دین اور طالب علم، خدا و اہلبیت ؑ کے نزدیک بہت ہی اہمیت رکھتے ہیں۔ طالب علم کو چاہئے کہ خدا کے لئے درس پڑھے ،اس کا رزق بھی پہنچ جائے گا۔ اگر کوئی کہے کہ ہمارے ائمہ ؑ تو کام کرتے تھے مثلا ً حضرت علی ؑ کام کرتے تھے، تم کیوں نہیں کا م کرتے ؟ جواب دینا چاہئے کہ آنحضرت ؐ کا علم خدا کی جانب سے لدنی تھا، لیکن ہم کو چاہئے ک علم کسب کریں ۔اگر چوبیس گھنٹے بھی درس پڑھیں توکم ہے۔
امام جعفرصادق علیہ السلام نے طالب علم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ’’طالب العلم یستغفر لہ کل شیٔ حتی الحیتان فی البحار و الطیر فی جو السماء( بحار الانوار ج۱ ،ص۱۷۳)
طالب علم کے لئے ہر شئے استغفار کرتی ہے حتی کہ سمندروں میں مجھلیاں اور آسمانوں میں پرندے ۔
ایک طالب علم نے اپنے استاد اخلاق سے کہا : عوام ہمارا اس طرح احترام کیوں نہیں کرتی جس طرح احادیث میں آیا ہے بلکہ بسا اوقات ایسابھی ہوتا ہے کہ لوگ ہماری توہین کرتے ہیں ؟ استاد نے بات سمجھانے کے لئے اس کو ایک سونے کا سکہ دیا اور کہا جاؤ سبزی خرید لاؤ ، وہ گیا لیکن سبزی فروش نے سکہ نہیں لیا اور کہا پیسہ لاؤ تب سبزی دوں گا۔ واپس آگیا ۔استاد نے دوبارہ اس کو چاول، شکر اور روٹی وغیرہ کے لئے بھیجا لیکن ان لوگوںنے بھی سکہ نہیں لیا۔ وہ واپس استاد کے پاس آیا ۔ استاد نے کہا ۔ا ب سونا بیچنے والے کے پاس جاؤ اور یہ سکہ بیچ دو۔طالب علم گیا اور سکہ بیچ کر استاد کے واپس آیا ۔استاد نے کہا : جس طرح اس سکہ کی قدر و قیمت کو جوہر ی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اورکسی نے تم سے معاملہ نہیں کیا اسی طرح سمجھ لو کہ تمہاری قدر وقیمت کو بھی خداو ائمہؑ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔
ایک دن میںآیت اللہ العظمیٰ بروجردی ؒکے پاس تھا ۔وزراء اور قوم کے رؤسا ان کے پاس آئے لیکن وہ ان کے لئے کھڑے نہیں ہوئے صرف یا اللہ کہا، اسی درمیان ایک طالبعلم داخل ہوا۔ آقائے بروجردی ؒ اس کے لئے پورے قدسے کھڑے ہو گئے تاکہ علم اور طلاب کی اہمیت کو بتائیں۔اسی طرح کا قضیہ آیت اللہ کاشانی کے یہاں بھی پیش آیا ۔ جب پارلیمنٹ کے ممبران اور رؤسا انکے پاس آئے وہ ان کے سامنے کھڑے نہیں ہوئے ، اور صرف فرمایا: آؤ یہاں بیٹھو،جب وہ لوگ بیٹھ گئے ، تو اچانک ایک طالب علم داخل ہوا۔ آقائے کاشانی انتہائی زحمت کے ساتھ پورے قد سے اس کے لئے کھڑے ہو گئے۔ وہ طالب علم متحیر رہ گیا لیکن میں سمجھ گیا وہ اس کام سے ان لوگوں کو طالب علم اور علماء کی اہمیت بتانا چاہتے ہیں۔ غرض یہ ہے کہ آپ بھی بعض لوگوںکی باتوں سے ناراض نہ ہوں بلکہ یہ یاد رکھیں کہ اگرہم اچھے ہوں تو عوام بھی ہمارے ساتھ حسن سلوک رکھیں گے ۔ ہم کو شکر کرنا چاہئے کہ ہم ایسے لباس اور ایسے راستے میں ہیں جس سے گناہگار شرم کرتے ہیں۔ظظظ
درس اخلاق
اشتہاردیؒ
رفتار و گفتار میں تامل:مراقبت و مواظبت کے معنی یہ ہیں کہ انسان جو بات بھی کرے اس میں تأمّل کرے ،غور و فکر کرے، ہر شخص خود اپنا حساب و کتاب جانتا ہے ، ’’ بل الانسان علی نفسہ بصیرۃ‘‘ ماہ مبارک رمضان کے آثار میں سے ایک یہ ہے کہ دیکھے اس مہینے کے بعد بہتر ہوا یا نہیں؟ اگر وہ بری صفات جو ماہ رمضان سے پہلے تھیں اب وہ صفتیں اس مہینے کی برکت کی وجہ سے نہیں ہیں تو خدا کا شکر ہے کہ ماہ رمضان نے اس میں اثر کیا ہے ، امام خمینیؒ نے فرمایا ہے : بعض لوگ ائمہؑ یا امام زادوں کے حرم میں جاتے ہیں اور گریہ کرتے ہیں اگر حرم سے باہر آنے کے بعد اس میں بہتری پیدا ہوتو وہ گریہ کا اثر ہے یعنی گریہ اس لئے ہو کہ میں نے ایک عمر ترقی نہیں کی اگر ایسا نہ ہوتو یہ رونا دروغ و جھوٹ ہے۔
دنیاوی زندگی کی اہمیت: تمام نیکیوںاور برکتوں کا محور زندگی ہے اور اس صورت میں انسان اپنے کو کامل کرسکتاہے اور کمالات حاصل کرسکتا ہے لہذ زندہ رہنے کی توفیق کی وجہ سے ذات الہی کو فراموش نہیں کرنا چاہئے اگرچہ زندگی میں بہت سے خطرات ہیں اور سب سے بڑا خطرہ گذشتہ اعمال کا محو ہوجانا ہے ، یہ ایک اہم مطلب ہے کہ انسان خیال رکھے کہ کہیں گذشتہ میں انجام دیئے ہوئے نیک اعمال ضائع نہ ہوجائیں۔
عمل میں اخلاص: انسان کو متوجہ رہنا چاہئے اور اپنے اعمال و عبادات کو دوسروں کے لئے انجام نہ دے قصد قربت کا مسئلہ بہت ہی مشکل ہے اور اس کو باقی رکھنا مشکل تر ہے ، جن لوگوں نے تبلیغ دین کی ہے اگر کسی کی ہدایت کی ہے ، کوئی نیک کام انجام دیاہے ، مسجد و امام باڑہ بنایا ہے یا کچھ لوگوں کو دیندار اور نماز خوان بنایا ہے اور ۔۔۔ تو ضروری نہیں کہ ان باتوں کو دوسروں کے سامنے پیش کریں ، خد اکے تمام احکام و فرامین کو خلوص نیت کے ساتھ انجام دینا چاہئے اور درس پڑھنا و تبلیغ کرنا بھی اسی میں سے ہے ۔
طہارت کا استمرار:ابتدائے جوانی میں خدا کی طرف توجہ بہت زیادہ ہوتی ہے اس لئے کہ نہ کسی سے دشمنی ہوتی ہے ، نہ غرور و گھمنڈ ہوتا ہے اور نہ زیادہ آرزوئیں ، پاک و صاف ہوتا ہے لیکن جب لوگوں کے درمیان آتا ہے اس وقت بخل، کینہ ، حسد ، غیبت اور بہتان وغیرہ پیدا ہوتا ہے ، یہ تمام کا م شیطانی کام ہیں ،خودسازی کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہئے تعلیم کے وقت بھی اور دوسرے اوقات بھی، شیطان مولویوں اور علماء سے زیادہ سر وکار رکھتا ہے ، ناجائز راستوں کو جائز پیش کرتاہے ، خداوند عالم بھی ا ہل علم کو ہر اعتبار سے زیادہ مورد امتحان قرار دیتا ہے اور علماء زیادہ معرض امتحان الہی میں ہوتے ہیں امام خمینیؒ کہا کرتے تھے : بعض مولوی حضرات منبر پر جاتے ہیں اچھی تقریر کرتے ہیں لیکن قیامت میں ان کوکوئی بدلہ نہیں ملے گا ، تم لوگوں کے لئے منبر پر گئے ،تم نے لوگوں کے لئے مجلسیں پڑھیں ، انہوںنے تمہاری تعریف کی ، واہ واہ کی اب ہم سے کیا چاہتے ہو؟!لہذا توجہ رکھئے ایسا نہیں ہے کہ جو بھی دینی تعلیم کی طرف آتا ہے وہ خدا کے لئے درس پڑھتا ہے ۔
زندگی میں حضور :اس بات کی طرف توجہ رکھئے کہ کبھی بھی اپنے کو دوسروں سے بہتر نہ سمجھئے ، اگر تبلیغ کے لئے کسی گاؤں یا کسی بستی میں گئے تو اپنے کو تمام لوگوں سے نیچا تصور نہ کیجئے ، خدا وند عالم نے جناب موسیٰ سے خطاب کیا: اے موسیٰ! میری سب سے بری مخلوق کو میرے پاس لاؤ، جناب موسیٰ نے بہت زیادہ تلاش و جستجو کے بعد حتیٰ ایک مرا ہو ا کتا لانے سے بھی اجتناب کیا اور آخر میں خدا وند عالم کے سامنے عرض کیا : خدایا! میں نے اپنے سے برا کسی کو نہ پایا، میرزای شیرازی ؒ سے پوچھا گیا کہ آپ نے کیا کام کیا جس کی وجہ سے اس عظیم درجہ پر فائز ہوئے اور ایک دستخط کے ذریعہ استعمار کو شکست دیدی ؟ انہوںنے جواب دیا: میں نے کبھی بھی اپنے کو دوسروں سے برتر نہیں سمجھا۔
درس آموز نکات:پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا: کوے سے تین چیزیںسیکھو، ایک پوشیدگی جو کنایہ ہے غیرت و عفت کا ، دوسرے یہ کہ کوے طلوع آفتاب سے پہلے جگتے ہیں ، بہتر ہے کہ انسان جو کام بھی انجام دینا چاہئے صبح تڑکے شروع کرے ، نیند چھوڑ کردرس میں حاضر ہو ، پیغمبر نے تیسری چیز بیان کی جسے کوے سے سیکھنا چاہئے وہ حذرہ ہے یعنی کوا جیسے ہی دیکھتا ہے کہ کوئی جھکا وہ فورا ًفرار کرتا ہے کہ مبادا وہ پتھر اٹھائے اور ماردے ، حذر کرتا ہے یعنی احتیاط کرتاہے ضروری نہیں کہ انسان سو فیصدی یقین کرے کہ فلاں چیز حرام ہے ، دیندار وہ شخص ہے کہ جب بات کرنا چاہئے تو اگر خوف ہو کہ غیبت ہوگی ، نہ کہے اور کچھ اپنے نفس کو مہار کرے ۔
توبہ سے بہتر ہے گناہ نہ کرنا:اگر انسان گناہان کبیرہ کو ترک نہ کرے تو گناہان صغیرہ بھی لکھ لئے جاتے ہیں لیکن اگر کبائر کو ترک کرے تو صغائر کو بھی خداوند بخش دیتا ہے جس طرح سے سر پر ہتھوڑا مارناجائز نہیں ہے اسی طرح جھوٹ بولنا بھی جائز نہیں ہے بلکہ اس سے بھی بدتر ہے ، اس لئے کہ یہ علاج کے ذریعہ صحیح ہوجاتا ہے لیکن جھوٹ کے لئے توبہ کی ضرورت ہے اور توبہ کے بعد بھی عقب ماندگی ہے ، امام خمینیؒ اس سلسلے میں مثال دیتے ہوئے فرمایا کرتے تھے : دو نئے لباس تصور کیجئے ، ایک کو پہن کر دھو چکے ہیں اور دوسرا پہنا نہیں گیا ہے ، کوئی بھی گندا نہیں ہے پھر بھی آپس میںفرق ہے ، توبہ بھی دھونے کی طرح ہے انسان ممکن ہے کہ کام کرے کہ اس کا لباس زیادہ گندا نہ ہو، اگر زیادہ گندا ہوجائے تو اس کا دھونا اور صاف کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے ۔
درس اخلاق
بہجتؒ
اول وقت نماز کی اہمیت:(آقائے قاضی مرحوم فرمایا کرتے تھے:)’’اگر کوئی شخص اول وقت نماز کا پابند ہو اور مقامات عالیہ تک نہ پہنچے تو مجھ پر لعنت کرے‘‘۔اول وقت میں ایک خاص راز ہے ’’حافظوا علی الصلوات‘‘یعنی نماز کی بجاآوری میں کوشاں رہیے،اس جملہ میں خود ایک نکتہ ہے جو ’’اقیموا الصلوۃ‘‘نماز پڑھیے ،کے علاوہ ہے۔اور اگر نمازی خیال رکھتا ہو اور پابند ہوکہ نماز کو اول وقت پڑھے تو یہ خود بہت زیادہ آثار رکھتا ہے اگرچہ حضور قلب بھی نہ رکھتا ہو۔
تفکر ایک سال کی عبادت سے بہتر!:نجف کے ایک بزگ عالم نے سحر کے وقت نماز شب کے لیے اپنے بیٹے کو پکارا اور کہا:اٹھو اور چند رکعت نماز شب پڑھ لو۔لڑکے نے جواب دیا:اچھا،وہ عالم نماز میں مشغول ہوگئے کچھ دیر کے بعد پھر دیکھا تو دیکھا کہ بیٹا نہیں اٹھا ہے۔دوبارہ پکارا کہ اٹھو اور چند رکعت نماز پڑھ لو،لڑکے نے پھر جوابدیا کہ:اچھا۔وہ عالم دوبارہ نماز میں مشغول ہوگئے لیکن دیکھا کہ بیٹا بستر سے نہیں اٹھ رہا ہے۔تیسری مرتبہ پھر پکارا ،تو بیٹے نے جواب دیا کہ :بابا جان میں تفکر کررہا ہوں ، جس کے بارے میں امام صادقؑ نے فرمایا ہے کہ:تفکر ساعۃ خیر من عبادۃ سنۃ‘‘ وہ عالم سخت ناراض ہوئے اور کہا۔۔۔(آقای بہجتؒ نے وہ کلمات زبان پر جاری نہیں کیے لیکن ان کے شاگرد کے بقول کہ ہم لوگ سمجھ گئے کہ اس عالم نے کہا :)عبادت سے وہ تفکر ایک سال یا ساٹھ سال بہتر ہے جو انسان کو نماز شب پڑھنے کے لیے آمادہ کرے ،نہ یہ کہ نماز شب کے وقت انسان بستر پر پڑا رہے اور تفکر کرے اور اس بہانے نماز نہ پڑھے!؟۔
عمل صالح کی اہمیت:ایک دن نجف میں ایک عالم نے راستہ میں ایک فقیر کو ایک درہم صدقہ دیا۔رات میں خواب میں دیکھا کہ ان کو آراستہ باغ میں ایک عالیشان محل میں دعوت دی گئی ہے۔انھوں نے پوچھا کہ یہ باغ اور محل کس کا ہے؟ جواب ملا کہ تمہارا ہے۔انتہائی تعجب سے پوچھا کہ میں نے تو ایسا کوئی عمل انجام نہیں دیا کہ اس عظیم نعمت کا مستحق قرار پاؤں۔ کہا گیا:تعجب ہورہا ہے؟ کہا:ہاں!جواب ملا کہ تعجب نہ کرو، یہ تمہارے اس ایک درہم کی جزا ہے جسے تم نے خلوص نیت کے ساتھ فقیر کو دیا تھا!۔
نصائح: خ محبت اہل بیت علیہم السلام سے ہر گز دست بردار نہ ہوں اس لئے کہ اسی محبت میں تمام چیزیں ہیں ،اگر ہمارے پاس کوئی چیز ہے تو اسی محبت کی وجہ سے ہے۔
خشب عید غدیر اور اسی طرح کی دوسری راتوں میں ان راتوں اور ان دنوں کی فضیلت ،ان سے متعلق شخصیات کی عظمت و فضیلت،ان کے دشمنوں کے مطاعن،اور ولایت کے سلسلے میں وارد روایات کو دلیل و برہان کے ساتھ ذکر کرنا چاہیے تاکہ سامعین کے مذہبی عقائد کی تقویت کا سبب بنیں ۔نہ کہ اس طرح کی مجالس ہنسی مذاق اور لہو ولعب میں گزار دی جائیں۔
خ خدا ہی جانتا ہے کہ اہل بیت رسالت علیہم السلام کی رحمت کتنی وسیع ہے!ان کی رحمت ،خداوند عالم کی رحمت واسعہ کے تابع ہے۔
خ ائمہ اطہار علیہم السلام خوف جہنم بھی رکھتے تھے اور شوق جنت بھی لیکن عبادت کو خوف و شوق میں نہیں انجام دیتے تھے۔
خ اگر امام کی معرفت آگے بڑھے گی تو خدا کی معرفت میں بھی اضافہ ہوگا اس لئے کہ امام ؑ سے بڑھ کر کون آیت ہے۔
خ ائمہ علیہم السلام ہم سے غافل نہیں ہیں گرچہ ہم ان سے غافل ہوجائیں۔خزیارت کی توفیق کا پیسہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
خ جو مصیبت بھی ہم پر آتی ہے وہ اہل بیت علیہم السلام اور ان سے مروی احادیث سے دوری کی وجہ سے ہوتی ہے۔
خ نجات اس شخص کے لئے ہے جو اہل بیت علیہم السلام کو ہر جگہ اپنا مخاطب اور حاضر و ناظر سمجھے۔
خ ائمہ علیہم السلام کے نقش قدم پر چلیے نہ کہ دوسروں کے ،ہمیشہ علمائے دین سے رابطہ رکھیے ۔
خجوانوں کو چاہیے کہ اپنے عقائد و اعمال کو مستحکم کریں اس لئے کہ ایسی صورت میں دنیا کی کوئی بھی بری ثقافت (یا کوئی بھی نقصان پہنچانے والی چیز )اثر نہیں کرے گی اور ان کو چاہیے کہ خدا پر توکل کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کریں اور عمل کریں۔
خیہ بات واضح ہے کہ اگر انسان عقیدہ و عمل دونوں اعتبار سے گناہ اور معصیت کو ترک کرے یعنی تمام گناہوں کو چھوڑنے کا دل سے قصد کرے اور ا س پر عقیدہ بھی رکھے اور عملی طور سے تمام گناہوں کو ترک بھی کرے اور کسی گناہ کا مرتکب نہ ہو تو وہ دوسروں سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔دوسرے اس کے محتاج ہوتے ہیں لیکن وہ کسی کا محتاج نہیںہوتا۔اور اسکے ساتھ ہی ساتھ گناہوںسے بچنا ـــــ،حسنات ونیکیوں کے وجود میں آنے کاسبب بنتا ہے اور برائیاںوسیئات اس سے دور ہوتی ہیںیعنی اس کو توفیق حاصل ہوتی ہے کہ اچھائیوں کو انجام دے اور برائیوں سے بچے(وَماخلقتُ الجنّ والانس الالیعبدون)۔بندگی و عبادت یہ ہے کہ عقیدہ و عمل کے اعتبارسے بھی گناہوںکوترک کرے۔
خ بعض افرادیہ خیال کرتے ہیںکہ ہم ترک معصیت کی منزل سے گزرچکے ہیںہم سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا جبکہ اس بات سے غافل ہیںکہ گناہ صرف چندکبائرسے مخصوص نہیںہے یعنی ایسانہیںہے کہ صرف گناہانِ کبیرہ ہی گناہ ومعصیت ہوںاوران سے بچنے سے ترک معصیت انجام پارہاہے؛۔ایسانہیںبلکہ گناہان صغیرہ پراصراربھی گناہ کبیرہ ہے۔کوئی چھوٹایامعمولی گناہ ہے اگرہم اس کومستقل انجام دیںاوراس کی تکرارکریںتووہ بھی گناہ کبیرہ ہوجائے گا مثلااپنے نوکرکوڈرانے کے لئے اس کی طرف غضبناک نگاہوںسے دیکھنا بھی اذیت اورحرام ہے اسی طرح گنہ گارکی طرف مسکراکردیکھنابھی اس کی تشویق اورمعصیت میں مدد ہے لہذا اس طرح کے بظاہرچھوٹے اورمعمولی کام بھی معصیت اورگناہ ہیں۔
خ علماء وصلحاء سے دوری بھی انسان کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے۔جب انسان ایسے افرادسے دوررہتاہے توبسااوقات اس کاایمان ودین بھی بہت جلداس سے رخصت ہوجاتاہے۔
خ خداکرے ہم صرف زبانی دعوے کرنے والے نہ ہوں،ہمارے پاس فقط لقلقۂ لسانی نہ ہوبلکہ عملی میدان میںہم آگے ہوں،جوکچھ کہیںاس پرعمل پیرا بھی ہوںاورعمل بھی بغیرعلم کے نہ کریںبلکہ علم کے ساتھ کریںاورعلم کے ساتھ ثابت قدم رہیں،جتنی باتیںجانتے ہیںاس پرعمل کریں اورجس کے بارے میںنہیںجانتے اسمیںسکوت اختیار کریںاوراحتیاط سے کام لیںتاکہ یقین حاصل کرلیںکہ قطعًا یہ راستہ پشیمانی والانہیںہے۔دوسروںکے اعمال پرنظرنہ رہے بلکہ شریعت کودیکھیںکہ وہ ہم سے کیاچاہتی ہے،کن چیزوںکاہمیں حکم دے رہی ہے اورکن چیزوںسے ہمیں روک رہی ہے؛اسی کے مطابق عمل کریں۔
خاحکام الہی کی انجام دہی ،خاصکرنمازمیںخضوع وخشوع پیداکرنے کے لئے نمازکے شروع میںامام زمانہؑ سے واقعی توسل کریں۔
خغصے کے علاج کے لئے پورے اعتقادکے ساتھ زیادہ سے زیادہ صلواۃپڑھیں(اللھم صلِّ علی محمدوآل محمد)
خاہلبیت علیہم السلام؛خصوصًاامام زمانہؑ کی محبت اپنے دل میں پیداکرنے کے لئے اللہ کی معرفت حاصل کریںپھراس کی اطاعت کریںاوراس کی محبت اپنے دل میںپیداکریں،اس لئے کہ خداسے محبت کرنامحمدوآل محمدؐ کی محبت کاسبب بنتا ہے۔
خقرب الہی حاصل کرنے کے لئے اپنااستاداپنے علم کوبنایئے؛جتنی باتیںجانتے ہیںسب پرعمل کیجئے،اپنی معلومات کوپیروںتلے نہ روندئیے۔
خاگرانسان اپنی تمام عبادات،خاصکرنمازجوسرفہرست ہے، اسکی اصلاح کرلے تووہ کامیاب ہوگا۔
خہم شیعہ حضرات ہر روز امیر المومنین علیہ السلام،ائمہ معصومین علیہم السلام اور رسول اکرم ﷺکے سامنے زانوئے ادب کیوں نہیں تہہ کرتے اور ان کی حدیثوںمیں پوشیدہ بے شمار آداب و معارف اور حکمت پر کیوں نہیں توجہ دیتے۔
ختوسلات بہت ہی مفید ہے ،ان امام زادوں کی زیارت کے لئے زیادہ جائیے ،جس طرح ہر پھل ایک خاص وٹامن رکھتا ہے اسی طرح ان میں سے ہر شخصیت ایک خاص اثر اور خصوصیت رکھتی ہے۔
خشیعوں کا ایک امتیاز امام زادوں کی قبریں اور مزارات ہیں لہذا ان کی زیارت سے ہرگز غافل نہ ہوں اور اپنے کو اپنے ہی ہاتھوں محروم نہ کریں۔
خحقیرکی نظرمیںسب سے بہترین ذکر،ذکرعملی ہے؛عقیدہ وعمل میںمعصیت کوترک کرنا۔خ خ خ