اتوار، 26 دسمبر، 2021

طلاق و حلالہ کیا ہے؟ talaq w halala kia hai?

طلاق و حلالہ کیا ہے؟

سید محمد حسنین باقری

 مقدمہ:اللہ تبارک و تعالیٰ ہی سب کا خالق و معبود ہے۔ مختلف زبانوں میں اللہ، خدا،God،بھگوان، ۔۔۔نام الگ الگ ہیں لیکن ذات ایک ہی ہے۔ اس خالق یکتا کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ اس میں کسی طرح کا عیب و نقص ہرگز نہیں ہے۔ وہ ہر عیب سے مبرّا ہے لہذا اس کی طرف سے آنے والی ہر چیز کا بے عیب ہونا اور ہر طرح کی کمی و نقص سے پاک ہونا بھی ضروری ہے۔ قرآن کریم کو اس خدائے واحد نے نازل کیا ہے (سورہ حجر،۹؛ سورہ انسان ۲۳ )، رسول اکرمﷺ کو اسی خد نے رسول بناکر بھیجا ہے(سورہ آل عمران،۱۴۴ و ۱۶۴؛نساء ۱۷۰؛  )، دین اسلام بھی اسی خدا کا بنایا ہوا دین ہے(سورہ آل عمران، ۱۹ و ۸۵)۔ لہذا جس طرح خدا بے عیب ہے اسی طرح قرآن کریم، نبی اعظم ﷺ اور اسلام و اُس کے احکامات کا بھی بے عیب ہونا ضروری ہے۔ ان میں کسی طرح کی نہ کوئی کمی ہوسکتی ہے اور نہ کسی طرح کا نقص۔ اگر قرآن و پیغمبر اکرمؐ اور دین اسلام میں کوئی کمی و عیب ہو تو وہ خدا کی طرف نسبت دی جائے گی جو ناممکن ہے۔

لہذا ماننا پڑے گا کہ اسلام کے تمام قوانین و احکام چونکہ عادل و حکیم خداوندعالم کے بنائے ہوئے ہیںلہذا ان میں کسی طرح کی کمی نہیں ہوسکتی۔

اور چونکہ خداوند عزوجل نے اپنی مخلوق کے لیے وہی قوانین بنائے ہیں جنمیں انسانوں کے فوائد پوشیدہ ہیں۔ شادی بھی خداوند عالم کا بنایا ہوا قانون ہے اس لیے کہا جاسکتاہے کہ شادی انسانی ضرورت کا نام ہے۔ تزویج کی حقیقت وہ خاص ربط ہے جو شرائط کے ساتھ مرد اور عورت کے درمیان قائم ہوتا ہے اور دو مختلف افراد کو ایک دوسرے کا قرین اور کفو بنا دیتا ہے۔ عائلی نظام میں زن و شوہر کے توافق و اشتراک کو دونوں آنکھوں اور ہاتھوں سے تشبیہ دینا چاہئے جو ایک دوسرے کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں۔ سورۂ روم آیت ۲۱ میں شریک حیات کو خدا کی نشانی سے تعبیر کرتے ہوئے اعلان ہے: ’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تم ہی میں سے پیدا کیاہے تاکہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو اورپھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے کہ اس میں صاحبانِ فکر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں‘‘۔ 

نیز یہ بات کس قدر لائق توجہ اور قابل غور ہے کہ وہ دو ہستیاں جو آپس میں بالکل غیر ہوتی ہیں ’’ رشتۂ ازدواج‘‘ انہیں اس مضبوطی سے ملا دیتاہے، اس شدت سے ان میں اتحاد پیدا کرتا ہے کہ اس سے زیادہ مستحکم علاقہ یگانگت کا تصور ناممکن ہے بلکہ اس خصوصی وابستگی اور اس کے گہرے اثرات کو ظاہر کرنے کے لئے کلام الٰہی کی اس آیت کے علاوہ اور کوئی مناسب و موزوں عبارت سمجھ میںنہیں آتی: ھُنّ لِباسٌ لَّکُم و انتم لباسٌ لھُنّ(بقرہ،۱۸۷) ’’وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو‘‘۔ واقعہ یہ ہے کہ اس آیہ ٔ وافی ہدایہ میں اس قدر معجزانہ محاسن اور محیر العقول نکات پنہاں ہیں جن کے اعتراف سے قلم قاصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام شادی کے سلسلے میں سخت تاکید کرتا اور اس کو انتہائی آسان بناکر پیش کرتا ہے تاکہ ہر انسان بآسانی اس ضرورت کو پورا کرسکے۔ اور نتیجہ میں قافلۂ انسانی آگے بڑھتا رہے۔ اب ہم سب کا فریضہ یہ بھی ہے کہ شادی کے سلسلے میں اسلامی دستورات کو نگاہوں میں رکھتے ہوئے اس مقدس عمل میں پائی جانے والی بے جا رکاوٹوں کو ختم کریں۔ اور اسے وقت پر انجام دیں تاکہ ہماری نوجوان نسل بے راہ روی سے محفوظ رہے اور سماج برائیوں کا شکار نہ ہو۔ نیز وہ مرد و خواتین جو کسی وجہ سے اکیلے ہوگئے ہیں انکی بھی دوبارہ شادی کے بارے میں توجہ دیں۔ 

ظاہر ہے کہ اس رشتہ کا قدرتی تقاضہ یہ ہونا چاہئے کہ مرتے دم تک نہ ٹوٹے بلکہ مرنے کے بعد قائم رہے مگر یہ کہ کوئی ایسی شکل نکل آئے جس کے باعث مشترکہ زندگی بسر کرنے کا مذکورہ معاہدہ ختم ہوجائے۔ بسااوقات کچھ ایسے ناگزیر حالات، واقعات اور ضرورتیں پیش آجاتی ہیں جن کی وجہ سےا س گرہ کا کھولنا لازم ہوجاتا ہے۔‘‘ چونکہ دین اسلام، الٰہی دین اور دین فطرت ہے اس لیے اس میں ہر مشکل کا حل موجود ہے ، کبھی اس آپسی رشتے کی جدائی اگر ناگزیر ہوجائے تو دین نے اس راستہ کو ’’طلاق‘‘ کی صورت میں پیش کیا ہے۔

البتہ اسلام ایک اجتماعی دین ہے اور اس کی عمارت و حدت و یکتائی کی بنیادوں پر کھڑی کی گئی ہے۔ اس مذہب کا سب سے بڑا مقصد محبت و اتفاق ہے اس لئے اس کی حدوں میں انتشار اور تفرقہ کو انتہائی مذموم سمجھا جاتا ہے۔ بنابریں اسلام نے طلاق کو ناپسند قرار دیتے ہوئے اسے مکروہ قرار دیا ہے۔  لیکن عادل و خبیر خدا نے اپنی مخلوق کے لیے اگر یہ قانون بنایا ہے تو یقیناً اس میں مصلحتیں بھی ضرور ہیں۔ ممکن ہے یہ بھی ایک مصلحت ہو کہ جہاں پر ایک مرد و عورت کے لیے ساتھ رہنا کسی پر ظلم کا سبب ہو یا ساتھ نبھانا حد سے زیادہ دشوار ہو وہاں پر اسلام نے طلاق کے ذریعہ دونوں کو ایک بہتر زندگی کا موقع فراہم کیا ہے۔ یا بعض جگہوں پر طلاق اس لیے بھی ہے کہ آپسی رشتوں کا تقدس باقی رہے اور شادی کے بندھن کے بہانے کوئی اپنے شریک زندگی پر ناروا ظلم جاری نہ رکھ سکے۔ 

طلا ق قرآن میں: طلاق کے نام سے قرآن میں ایک سورہ بھی ہے اور لفظ طلاق ۱۴ دفعہ قرآن میں استعمال ہوا ہے اور ان میں سے اکثر ان موارد کی طرف اشاہ ہے جن میں طلاق کا صیغہ جاری ہوا ہو اور عورت عدّت گزار رہی ہو اور مستقیم یا غیر مستقیم طور پر انہیں مشترک زندگی کی طرف لوٹ آنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر سورہ بقرہ میں 12 دفعہ "معروف" کا لفظ تکرار ہوا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں دوسروں کے حقوق کا احترام کرنا اور ان کے حقوق سے سوء استفادہ نہ کرنا اور ایک محترمانہ اور اچھا طریقہ اختیار کرنے کی کتنی اہمیت ہے۔

قرآن سورہ نساء میں مردوں کو اپنی بیویوں کو طلاق نہ دینے کی سفارش کرتا ہے۔ اس حوالے سے آیت ۱۹ میں ایک ددسرے سے صلح صفائی کو اچھا اقدام قرار دیتے ہوئے اعلان ہے کہ بعض اوقات تمہاری بھلائی ان بیویوں یا شوہروں میں رکھی ہوتی ہے جنہیں تم پسند نہیں کرتے ہو۔ اعلان ہوتا ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا ۖ وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّـهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا ﴿١٩﴾

اے ایمان والو تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ جبرا عورتوں کے وارث بن جاؤ اور خبردار انہیں منع بھی نہ کرو کہ جو کچھ ان کو دے دیا ہے اس کا کچھ حصہّ لے لو مگر یہ کہ واضح طور پر بدکاری کریں اور ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرو اب اگر تم انہیں ناپسند بھی کرتے ہو تو ہوسکتا ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور خدا اسی میں خیر کثیر قرار دے دے۔

نیز آیت ۳۵ میں میاں بیوی کے درمیان جھگڑے و فساد کی صورت میں یہ تجویز پیش کی ہے کہ میاں اور بیوی کے خاندان سے ایک ایک فیصلہ کرانے والے مل بیٹھ کر مشورت کریں اور مشترک زندگی کو جاری رکھنے کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔تاکہ جدائی کی نوبت نہ آنے پائے۔

وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّـهُ بَيْنَهُمَا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا ﴿٣٥﴾ ۔

’’اور اگر دونوں کے درمیان اختلاف کا اندیشہ ہے تو ایک حَکُم مرد کی طرف سے اور ایک عورت والوں میں سے بھیجو- پھر وہ دونوں اصلاح چاہیں گے تو خدا ان کے درمیان ہم آہنگی پیدا کردے گا بیشک اللہ علیم بھی ہے اور خبیر بھی۔

آخر میں خداوندعالم میاں بیوی دونوں کو طلاق کے بعد بھی اپنے غیبی خزانوں سے بے نیاز کرنے کا وعدہ دیتے ہوئے آیت ۱۳۰ میں فرماتا ہے:

وَإِن يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّـهُ كُلًّا مِّن سَعَتِهِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ وَاسِعًا حَكِيمًا ﴿١٣٠﴾ ۔’’اور اگر دونوں الگ ہی ہونا چاہیں تو خدا دونوں کو اپنے خزانے کی وسعت سے غنی اور بے نیاز بنادے گا کہ اللہ صاحبِ وسعت بھی ہے اور صاحبِ حکمت بھی ہے‘‘۔

مذکورہ آیات میں غور کرنے سے ایک یہ نتیجہ بھی سامنے آتا ہے کہ زوجین اور متعلقہ دوسرے تمام افراد کا فریضہ ہے کہ جدائی کی نوبت نہ آنے دیں۔ ہر ایک پوری کوشش کرے کہ طلاق کی نوبت نہ آئے ہاں واقعا جب اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو۔ اور اس سے بڑی مصلحت سامنے ہو تو اس عمل سے متمسک ہوں۔

طلاق حدیث میں: بعض روایات میں طلاق کو منفورترین حلال کا نام دیا گیا ہے،رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ما أحَلَّ اللّہ ُ شیئا أبغَضَ إلَیہ مِن الطَّلاقِ ‘‘ ( کنزالعمال ۲۷۸۷۱)؛ ’’خداوندعالم نے طلاق سے زیادہ منفور شیٔ کو حلال نہیں فرمایا ہے‘‘۔ دوسری حدیث میں آیا ہے:ما من حلالٍ أبغض الی اللہ من الطلاق‘‘ (کافی،ج۶،ص۵۴،ح۲ و ۳)حلال خدا میںطلاق سے زیادہ کوئی ناپسندیدہ چیز نہیں ‘‘۔إنَّ اللّه َ يُبغِضُ الطلاقَ و يُحِبُّ العَتاقَ .خداوند عالم طلاق کو ناپسند کرتا ہے اور بندہ کو آزاد کرنے کو پسند کرتا ہے۔(کنز العمّال : ۲۷۸۷۰) ۔ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جب روئے زمین پر طلاق واقع ہوتی ہے تو اس سے عرش الہی کو زلزلہ آتا ہے۔[روض الجنان ج۴ ص۷۸]۔

طلاق کی تعریف: ’’لغت میں طلاق کے معنی علیحدگی، آزاد کرنا، ترک کرنا، مفارقت اور جدائی ہیں[فرہنگ معاصر عربی فارسی،ص۴۰۲] اور شریعت کی نظر میں خاص شرائط کی رعایت کرتے ہوئے مخصوص صیغہ کے ساتھ زوجین کا ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرنے کو طلاق کہا جاتا ہے[جواہر الکلام،ج۳۲، ص۲]۔ طلاق ایقاعات میں سے ہے عقود میں نہیں ہے بنابراین ایک شخص (مرد) کی جانب سے انجام پاتا ہے اور عورت کی جانب سے قبول کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

طلاق کے اقسام:طلاق کی ، رجوع کر سکنے اور رجوع نہ کر سکنے کے لحاظ سےدو قسمیں ہیں: بائن اور رجعی۔

طلاق رجعی: طلاق رِجعی، اس طلاق کو کہا جاتا ہے جس میں مرد عدّت کے دوران دوبارہ نکاح کئے بغیر مطلقہ عورت (سابقہ بیوی) کو اپنی زوجیت میں لانے کا حق رکھتا ہے۔

طلاق بائن: طلاقِ بائن سے مراد وہ طلاق ہے جس کے بعد زوجہ اور شوہر کے درمیان ازدواجی رشتہ کاملًا ختم ہو جاتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے لیے مکمل طور پر بیگانے بن جاتے ہیں۔ اگر دونوں دوبارہ ازدواجی تعلق کو قائم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں دوبارہ نیا عقدِ نکاح کرنا ہو گا۔

طلاق بائن میں مرد عدّت کے دوران اپنی بیوی سے رجوع نہیں کر سکتا اس کی  چھ صورتیں فقہاء کرام نے ذکر کی ہیں جوکہ درج ذیل ہیں:

۱) وہ خاتون جو یائسہ ہو اس کو دی گئی طلاق۔ ۲) وہ بچی جس کی عمر ۹ سال سے کم ہے اس کو دی گئی طلاق۔ ۳) اس خاتون کو دی گئی طلاق جس کے شوہر نے نکاح کے بعد اس سے قربت و نزدیکی اختیار نہیں کی۔ ۴) دو طلاقوں کے بعد خاتون کو دی جانے والی تیسری طلاق طلاقِ بائن کہلائے گی۔ ۵) طلاق خلع اور طلاق مبارات، یہ دونوں طلاقیں طلاقِ بائن کا حکم رکھتی ہیں۔۶) حاکمِ شرع کا اس خاتون کے لیے طلاق جاری کرنا جس کا شوہر اسے نان نفقہ نہیں دیتا اور طلاق بھی نہیں دیتا۔(نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج ۳۲، ص ۱۱۹۔ ، رسالہ توضیح المسائل مراجع، ج ۲، ص ۵۳۰۔ )

طلاق کے شرائط اور احکام

طلاق کے چار ارکان ہیں: ۱- طلاق دینے والا ۲- طلاق لینے والی ۳- طلاق کا صیغہ ۴- گواہ [ لمعۃ الدمشقیہ، ج ۲، ص۳۸۷.]

طلاق دینے والے کے لیے چار شرائط کا حامل ہونا ضروری ہے:ےبالغ ہو؛ےعاقل ہو؛ ےاپنے اختیار سے طلاق دے کسی نے مجبور نہ کیا ہو؛ ےکسی کو وکالت دیتے وقت یا خود صیغہ طلاق جاری کرتے وقت، حقیقتا طلاق دینے کا قصد و ارادہ رکھتا ہو[ لمعۃ الدمشقیہ، ج ۲، ص۳۸۷.]۔

مطلَّقہ (وہ عورت جسے طلاق دی جا رہی ہو) میں بھی تین شرائط ضروری ہیں:ےطلاق دیتے وقت عورت حیض اور نفاس سے پاک ہو وگرنہ طلاق باطل ہے۔ یہ شرط یائسہ اور حاملہ اسی طرح وہ لڑکی جو ابھی حیض دیکھنے کی عمر میں نہیں پہنچی ہو، میں ساقط ہے۔

ےحیض اور نفاس سے پاکی (طُہر) کے وہ ایام جس میں طلاق دی جا رہی ہو، اسمیں شوہر نے بیوی کے ساتھ ہمبستری نہ کی ہو۔

ےاگر طلاق دینے والا کئی بیویاں رکھتا ہو تو جسے طلاق دی جارہی ہے اسے معین کرنا ضرروی ہے[ جواہر الکلام، ج ۳۲، ص۴ و ۵۶.]

صیغہ طلاق اور گواہ رکھنے میں بھی کئی شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:

ےطلاق مخصوص صیغہ ہی سے ہوتی ہے: "هی طالِقٌ یا فُلانَة طالِقٌ یا  اَنتِ طالِقٌ"۔ے عربی میں پڑھنا ضروری ہے مگر یہ کہ کوئی بات نہ کر سکتا ہو تو اس سے یہ شرط ساقط ہو جاتی ہے۔[ جواہر الکلام، ج ۳۲، ص۴ و ۵۶.]۔

گواہ کے شرائط:ےطلاق کے وقت دو یا دو سے زیادہ عادل مرد کا بطور گواہ ہونا ضروری ہے[ جواہر الکلام، ج ۳۲، ص۴ و ۵۶۔ تحریر الوسیلہ، ج ۲، ص۴۴۱.]۔ ےگواہ میں عدالت شرط ہے ، غیر عادل گواہ نہیں بن سکتا۔قرآن میں ہے:’’وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ‘‘(سورہ طلاق،۲)( اور طلاق کے لئے اپنے میں سے دو عادل افراد کو گواہ بناؤ)۔ اگر دو عادل گواہوں کے بغیر طلاق دی جائے گی تو وہ باطل متصور ہوگی۔یہ دونوں گواہ مرد ہوں، دو سے زیادہ بھی گواہ ہوسکتے ہیں۔

گواہ کی شرط باہمی نفرت کو ختم کرنےکا بہترین وسیلہ ہے۔ کیونکہ نیک اور عادل نفوس کو معاشرہ میں ایک ممتاز حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اور ان کی شخصیت عام دلوں پر خاصہ اثر کرتی ہے۔ نیز گواہ جب اچھے صفات کے حامل ہوں گے تو وعظ و نصیحت اور صلح و صفائی کی جانب توجہ دینا اپنا فرض سمجھیں گے۔ ہاں! یہ ضروری نہیں کہ ہر موقع پر ان کی کوششیں بار آور ہوجائیں ۔لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ اس طریقہ سے جدائی و طلاق کے واقعات میں کافی کمی واقع ہوسکتی ہے۔ لہذاطلاق پڑھنے والوں کے ساتھ گواہوں کو بھی پہلے صلح و صفائی کی پوری کوشش کرنا چاہیے۔جب جدائی کے سوا کوئی چارہ نہ ہو تب ہی گواہی دیں۔ ممکن ہے گواہوں کے عادل ہونے کی شرط اس لیے ہو کہ دونوں افراد گواہی دینے میں بھی عدالت برتیں یعنی یہ فیصلہ کرلیں کہ آیا یہاں دونوں کا جدا ہونا عدالت کا تقاضا ہے یا دونوں کا ایک رہنا عدالت کا تقاضا ہے۔ ہماری عدالت و انصاف کیا کہتی ہے، دونوں ایک رہیں یا ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں؟

یہ بات طلاق پڑھوانے والوں کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہےکہ دین و شریعت کے مسائل سے آشنائی رکھنے والے متقی و پرہیزگار افراد ہی سے طلاق پڑھوائیں اور گواہوں میں انکے عادل ہونے کا اطمینان حاصل کریں، ورنہ معمولی سی غفلت کے نتیجے میں گھر کی بربادی کا سبب بنیں گے اور خدا کے سامنے جوابدہ بھی ہونا پڑے گا۔مذکورہ شرائط سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ طلاق کھیل اور معمولی کام نہیں ہے بہت ہی سے زیادہ سوچ سمجھ کر اور سنجیدگی اور غور و فکر کے بعد اٹھانے والا قدم ہے۔ 

نیز یہ بھی واضح ہے کہ غیر اسلامی ملکوں میں صرف کورٹ سے طلاق لے لینے سے شرعی طلاق نہیں ہوتی بلکہ مذکورہ تمام شرائط کے ساتھ طلاق ہونا ضروری ہے۔

طلاق خلع: طلاق خُلع سے مراد یہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے نفرت کرتی ہو اور اس کے ساتھ زندگی گزارنے پر راضی نہ ہو یوں شوہر سے علیحدگی اختیار کرنے کیلئے شوہر کو کچھ مقدار میں مال دے دیتی ہے تاکہ شوہر اس کے بدلے اسے طلاق دے دے۔

طلاق خلع انجام پانے کیلئے درج ذیل شرائط کا ہونا ضروری ہے:

ےبیوی کو شوہر سے نفرت ہو؛ےکچھ مقدار میں مال بعنوان فدیہ دیا جائے، ممکن ہے فدیہ کی مقدار بیوی کے مہر کے برابر ہو یا اس سے کمتر یا بیشتر۔

ےطلاق اگرچہ ایقاع ہے اور اس کے واقع ہونے کیلئے بیوی کا قبول کرنا شرط نہیں ہے لیکن جب بھی طلاق، خلع کی صورت میں واقع ہو تو چونکہ اس میں طلاق عورت کی طرف سے کچھ مقدرا میں مال کے عوض واقع ہوتی ہے، عقد کی طرح ایجاب و قبول کی ضرورت پڑتی ہے یعنی میاں اور بیوی دونوں کے توافق سے طلاق خلغ متحقق ہوتی ہے۔

اس قسم کی طلاق میں اگر بیوی پشیمان ہو جائے تو فدیہ کی رقم واپس لے سکتی ہے یوں طلاق بائن، طلاق رجعی میں تبدیل ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں شوہر کو بھی عدّت کے دوران دوباہ رجوع کرنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ طلاق واقع ہونے کے بعد شوہر "فدیہ" کا مالک بن جاتا ہے اور اس میں جس طرح چاہے تصرف کر سکتا ہے، عورت صرف عدّت کے دوران "فدیہ" کو واپس لینے کا حق رکھتی ہے اس صورت میں بھی عورت کو فورا رجوع کرنا ضروری ہے تاکہ مرد طلاق رجعی میں رجوع کرنے کے اپنے حق سے استفادہ کر سکے۔

طلاق مبارات: طلاق مُبارات میں نفرت دونوں طرف سے ہو یعنی میاں بیوی دونوں کو ایک دوسرے سے نفرت ہو اس صورت میں فدیہ کی مقدار مہر سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔طلاق مبارات بھی طلاق خلع کی طرح دو طرفہ ہے یعنی صرف مرد طلاق مبارات جاری کرے تو کافی نہیں ہے بلکہ بیوی کی طرف سے بھی اس پر رضایت کا اظہار کرنا ضروری ہے۔

عِدّۂ طلاق: طلاق کا صیغہ جاری ہونے کے بعد عورت ایک مدت تک دوسری شادی نہیں کر سکتی اس مدت کو عدّت کہا جاتا ہے۔ یہ مدت مختلف حالات میں مختلف ہو سکتی ہے۔ نیز طلاق رجعی میں مرد عدّت تمام ہونے تک اپنی بیوی کو گھر سے نہیں نکال سکتا اور اس دوران مرد نکاح کے بغیر دوبارہ بیوی کی طرف رجوع کرکے اسے اپنی زوجیت میں لا سکتا ہے۔

طلاق کا اختیار: خداوندعالم نے طلاق دینے کا اختیار صرف مرد کے ہاتھ میں رکھا ہے۔عورت طلاق نہیں دےسکتی۔ جیسا کہ بیان ہوا کہ طلاق خلع بھی عورت نہیں دیتی ہے بلکہ وہ مرد سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے۔ اگرچہ بعض مواقع پر یہ قانون مردوں کی راجداری کا باعث بنتا ہے اور مرد مشترک زندگی میں اس کے ذریعے عورت پر سختیاں ایجاد کرتا ہے۔ لہذا عقد کے دوران اگر بیوی چاہے تو شوہر کو اس بات پر راضی کر سکتی ہے کہ خاص شرائط کے ساتھ عورت شوہر سے اپنے آپ کو طلاق دینے کا مطالبہ کرے اگر شوہر عقد کے ضمن میں اسے قبول کر لے تو معین شرائط کے ساتھ عورت شوہر سے طلاق کا تقاضا کر سکتی ہے۔ وہ شرائط درج ذیل ہیں:

ے شوہر چھ مہینے تک بیوی کا نفقہ (خرچہ) اور دیگر واجب حقوق ادا نہ کرے۔ے شوہر کی بیوی بچوں کے ساتھ غیر قابل تحمل بد سلوکی۔ے  شوہر کسی ایسی لاعلاج بیماری میں مبتلا ہو جائے جس سے بیوی کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہو۔ے  شوہر ایسے وقت میں دیوانہ ہو جائے جس میں نکاح فسخ کرنا ممکن نہ ہو۔ ےشوہر کا کسی ایسے کام میں مشغول ہونا جو بیوی یا اس کے خاندان کی آبرو ریزی کا باعث ہو۔ے شوہر کو پانج سال سے زیادہ قید کی سزا سے محکوم ہونا۔ے شوہر کسی ایسی چیز کا عادی ہو جائے جس سے خاندانی بنیادوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو مثلا یہ کہ عادت کی وجہ سے بیکار ہو جائے اور گھریلو سامان وغیرہ بیچنے پر مجبور ہ جائے۔ ے شوہر کا بغیر کسی وجہ کے بیوی بچوں کو ترک کرنا یا چھ ماہ سے زیادہ کسی عذر موجہ کے غائب رہنا۔ے شوہر کا کسی ایسی سزا کا مستحق ہونا جس سے بیوی کی آبرو خطرہ میں پڑے۔ ے پانچ سال کے بعد بھی شوہر بچہ دار نہ ہو سکتا ہو۔ے  شوہر کا طولانی مدت تک غائب رہنا یا اصلا اس کا کوئی پتہ نہ ملے۔ے  شوہر کا بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرنا۔ چنانچہ مرد نے عقد کے وقت طلاق کا حق بیوی کو دیا ہو تو بیوی بغیر کسی شرط کے بھی طلاق اور مہر کا تقاضا کر سکتی ہے۔

تین طلاق:تین طلاق، سے مراد یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کو تین بار طلاق دے۔ شیعہ اور اہل سنت فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو تین بار طلاق دے تو اس کے بعد اس عورت سے شادی کرنا اس مرد پر حرام ہو جاتا ہے؛ مگر یہ کہ وہ عورت کسی اور شخص سے شادی کرے اور دوسرا شوہر اسے طلاق دے یا وہ مر جائے تو عدت ختم ہونے کے بعد پہلا شوہر دوبارہ اس عورت سے شادی کر سکتا ہے۔نیز یہی عمل نو بار جاری رہے تو نویں مرتبہ کے بعد بیوی ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائیگی۔ تین طلاق طلاق بائن کے اقسام میں سے ہے اس بنا پر شوہر رجوع نہیں کر سکتا ہے۔

شیعہ فقہاء کے مطابق تین طلاق اس وقت واقع ہو گی جب مرد اپنی بیوی کو دو دفعہ طلاق دے اور ہر دفعہ اس سے رجوع کرے یا عدت ختم ہونے کے بعد دوبارہ شادی کرے اس طرح جب تیسری بار طلاق دے تو تین طلاق صدق آتی ہے، دوسرے لفظوں میں ایک ہی مجلس میں تین دفعہ طلاق طلاق طلاق کہنے سے تین طلاق واقع نہیں ہوتی۔

سواد اعظم کے بیشتر علماء نے ’’ طلاق ثلاث‘‘ کے ضمن میں اختلاف کیا ہے ان حضرات کے نقطہ نظر سے کسی شوہر کا اپنی زوجہ سے یہ کہہ دینا کہ ’’ میں نے تجھ کو تین مرتبہ طلاق دی ‘‘ طلاق بائن ہے۔ جس میں بغیر محلل کے دوبارہ حلال ہونا ممکن نہیں۔ حالانکہ ان کے صحاح میں یہ صراحت موجود ہے کہ ’’ طلاق ثلاث‘‘ طلاق واحد ہی کے مانند ہے۔ جیسا کہ جناب ابن عباس کی سند سے مذکور ہے۔آپ فرماتے ہیںکہ ’’ عہد رسالت‘‘ دور ابو بکر اور حضرت عمر کی خلافت کےد و سال تک طلاق ثلاث طلاق واحد شمار ہوتی تھی۔ مگر حضرت عمر نے کہا کہ جس معاملہ میںانتظار چاہئے تھا۔ لوگوں نے اس میں جلد بازی شروع کردی۔ پس اگر ہم اسے نافذ کردیں، چنانچہ یہ رواج پاگیا‘‘۔( روایت صحیح مسلم جلد ۹ صفحہ ۱۰۹۹، جلد ۱۰ اور مسند احمد جلد ۱ ص ۳۱۴  )

خود قرآن مجید واشگاف لفظوں میںاعلان کررہا ہے :الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ

’’طلاق ( رجعی) دو مرتبہ ہے۔ اس کے بعد یا تو قاعدہ کےمطابق روک لینا چاہئے اور یا پھر اچھے برتاؤ کے ساتھ رخصت کردیا جائے ‘‘۔

 اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے :فان طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ(سورہ بقرہ ۲۲۹۔۲۳۰)۔‘‘

 نیز طلاق ایک ہی نکاح کو توڑتاہے چاہے جتنی دفعہ طلاق طلاق کہیں۔ جب دوسرا نکاح متحقق ہوجائیگا تب ہی دوسری طلاق کے ذریعہ دوسرے نکاح کے ٹوٹنے کا تصور ہوسکتا ہے۔ پھر جب تیسرے نکاح کے بعد اگر طلاق ہو تو یہ طلاق تیسرے نکاح کے ختم ہونے کا سبب ہوگی جسے طلاق بائن کہا گیا ہے۔

مُحَلِّل(حلالہ):تین طلاق کا فقہی حکم یہ ہے کہ اس کے بعد وہ عورت مرد پر حرام ہوجاتی ہے یعنی شوہر اپنی مطلقہ بیوی سے نہ رجوع کر سکتا ہے اور نہ اس سے دوبارہ شادی کر سکتا ہے، مگر یہ کہ مذکورہ عورت عدت پوری ہونے کے بعد تمام شرائط کے ساتھ کسی اور شخص سے شادی کرے اور وہ اسے طلاق دے یا وہ مر جائے۔[ امام خمینی، تحریر الوسیلہ، ج۳، ص۵۹۱؛ محقق حلی، شرایع الاسلام، ج۳، ص۱۷۔] اس کے بعد پہلا شخص اس عورت سے شادی کرسکتا ہے۔اس حکم پر فقہا کا اجماع ہے۔[ سبحانی، نظام الطلاق في الشريعۃ الإسلاميۃ الغراء، ص۱۶۷۔] مذکورہ عورت کا کسی اور شخص سے شادی کرنا تحلیل (یا حلالہ ) کہلاتا ہے اور دوسرے شوہر کو مُحَلِّل (حلال‌ کرنے والا) کہا جاتا ہے۔[ مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ج۲، ص۳۷۷۔و ۳۷۹]

اگرکوئی شخص اپنی بیوی کودودفعہ طلاق دے کراس کی طرف رجوع کرلے یا اسے دو دفعہ طلاق دے اور ہر طلاق کے بعداس سے نکاح کرے یا ایک طلاق کے بعد رجوع کرے اوردوسری طلاق کے بعد نکاح کرے توتیسری طلاق کے بعدوہ اس مرد پرحرام ہوجائے گی۔لیکن اگرعورت تیسری طلاق کے بعدکسی دوسرے مرد سے نکاح کرے تووہ پانچ شرطوں کے ساتھ پہلے مردپرحلال ہوگی یعنی وہ اس عورت سے دوبارہ نکاح کرسکے گا:

۱:) دوسرے شوہرکانکاح دائمی ہو۔پس اگر اس عورت سے متعہ کرلے تواس مرد کے اس سے علیٰحدگی کے بعدپہلا شوہر اس سے نکاح نہیں کرسکتا۔  ۲:)دوسراشوہرجماع کرے اوراحتیاط واجب یہ ہے کہ جماع فرج(آگے کی شرم گاہ) میں کرے دُبر (پیچھے کی شرم گاہ )میں نہ ہو۔ ۳:)دوسراشوہراسے طلاق دے یامرجائے۔ ۴:)دوسرے شوہر کی طلاق کی عدت یاوفات کی عدت ختم ہوجائے۔ ۵:)احتیاط واجب کی بناپردوسراشوہرجماع کرتے وقت بالغ ہو۔(توضیح السائل آیۃاللہ سیستانی، مسئلہ نمبر۲۵۴۵)

حلالہ کے سلسلے میں سورہ بقرہ کی آیت ۲۳۰  میں حلالہ کے مسئلے کی جانب اشارہ ہے:(فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ‎﴿٢٣٠﴾‏۔پھر اگر تیسری مرتبہ طلاق دے دی تو عورت مرد کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ دوسرا شوہر نکاح کرے پھر اگر وہ طلاق دے دے تو دونوں کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ آپس میں میل کرلیں اگر یہ خیال ہے کہ حدود الہٰیہ کو قائم رکھ سکیں گے. یہ حدود الہٰیہ ہیں جنہیں خدا صاحبانِ علم واطلاع کے لئے واضح طور سے بیان کررہا ہے۔ ) ۔ اور اس سلسلے میں وارد روایات میں شرائط وغیرہ کو بیان کیا گیا ہے(وسائل الشیعہ میں ۴۶ روایات بیان ہوئی ہیں)۔

منابع: توضیح المسائل، اصل و اصول شیعہ؛ ویکی شیعہ، ویکی فقہ و دیگر ویب سائٹس۔


حضرت فاطمہؑ ولایت کی فدائی

  حضرت فاطمہؑ ولایت کی فدائی

آیۃاللہ مصباح

  حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی سیرت کو اپنانا اس دور میں ان کے ماننے والوں کے لئے سب سے زیادہ ضروری اور اہمیت کا باعث ہے۔ سب سے پہلے ہم کو آپ کی سیرت کا مطالعہ کرنا چاہئے اس کے بعد اس کو اپنانا چاہئے تاکہ ہمارا شمار آپ کے حقیقی چاہنے والوں میں ہوں۔   

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت میں اہم ترین چیز یہ ہیکہ آپ نے امامت اور ولایت کے دفاع کے لئے کسی بھی قسم کی کوئی بھی کمی نہیں کی، ان سخت حالات کے باوجود آپ نے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کو لوگوں کو اپنے خطبوں کے ذریعہ بتایا۔ 

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو ولایت کا فدائی کہا جاتا ہے کیونکہ آپ نے اپنی مختصر زندگی میں رسول خداﷺکی وفات کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا اس طرح دفاع کیا کہ تاریخ میں ہمیشہ کے لئے ثبت ہوگیا۔

   حضرت زہرا سلام اللہ علیہا، شمع امامت کا وہ پروانہ تھیں جس نے امامت اور ولایت کے عشق اور محبت میں اپنے آپ کو قربان کردیا اور ہم کو یہ بتادیا کہ دیکھو امامِ برحق کعبہ کی طرح ہے۔ لوگوں کو چاہئے کہ وہ کعبہ کا طواف کریں نہ کہ کعبہ لوگوں کا طواف کرتا ہے: مَثَلُ الاِمامِ مَثَلُ الْكَعْبَةِ اِذْ تُؤْتى وَ لا تَأْتى[بحار الأنوار، ج۳۶، ص۳۵۳] امام کعبہ کی طرح ہے اس کے پاس جاتے ہیں وہ تمھارے پاس نہیں آتا. یہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا تھیں جنھوں نے اپنے آپ کو قربان کرکے ولایت کو بچایا اور ایک لمحہ بھی ولیّ امر کی اطاعت سے روگردانی نہیں کی۔

  جس وقت حضرت علی علیہ السلام کو مسجد کوفہ کی جانب لے جایا جارہا تھا، حالانکہ اس وقت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا شدید زخمی تھیں، اس زخمی حالت میں بھی آپ نے اپنے آپ کو حضرت علی علیہ السلام اور ان لوگوں کے درمیان پہنچایا اور فرمایا: خدا کی قسم میں ابوالحسن کو اس طرح ظلم سہتے ہوئے مسجد کی جانب جانے نہیں دونگی[ نوادر الاخبارفیما یتعلق باصول الدین، فیض کاشانی، ص ۱۸۳]. اس کے بعد بھی جب حضرت علی علیہ السلام کو مسجد کی جانب لے جایا گیا، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا مسجد میں داخل ہوئیں اور فرمایا:’’ابوالحسن کو چھوڑ دو! خدا کی قسم جس نے حضرت محمدﷺکو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، اگر تم لوگوں نے ابوالحسن کو نہیں چھوڑا تو میں اپنے بالوں کو بکھرادونگی اور رسول خداﷺکی قمیص کو اپنے سر پر رکھ کر خدا کی بارگاہ میں فریاد کرونگی‘‘۔[بحار الانوار، ج۲۸، ص۲۰۶] 

     جب حضرت علی علیہ السلام کے اشارہ پر جناب سلمان نے آپ کو نفرین کرنے سے منع کیا اور گھر واپس جانے کے لئے کہا، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نےفرمایا: وہ لوگ حضرت علی علیہ السلام کو قتل کرنا چاہ رہے ہیں اور میں علی علیہ السلام کے قتل پر صبر نہیں کرسکتی۔[بحار،ص۲۲۸]

     تمام لوگ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے اس شدید دفاع کی وجہ سے ڈر گئے اور مجبور ہوکر امام علی علیہ السلام کو آزاد کردیا، جب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا تو فرمایا: «روُحی لِروُحِکَ الْفِداءُ وَ نَفْسی لِنَفْسِکَ الْوَقاءُ یا اَبَاالْحَسَنِ[نہج الحیاۃ، ص۱۵۹، ح ۷۵٫] اے ابوالحسن! میری روح آپ کی روح پر فدا ہوجائے، میری جان آپ پر قربان ہوجائے، میں ہمشہ آپ کے ساتھ رہونگی۔

     حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شخصیت وہ ہے کہ جس نے اپنے والد کی رسول خداﷺ اور اپنے شوہر حضرت علی علیہ السلام کی ولیّ خدا ہونے کے اعتبار سے اطاعت کی۔

 اور اسلام کی خدمت کی، ایسی خدمت جو عالم اسلام میں کوئی پیش نہ کرسکا، اگر حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے وہ ہدایت سے بھرے ہوئے خطبے نہ ہوتے تو آج ہم کو بھی اس بات کا یقین نہ ہوتا کہ حق حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ ہے کیونکہ نفاق، کینہ، دنیا پرستی، سادہ لوحی، سیاست بازی، لالچ، جھوٹی تبلیغ، تحریف اس طرح رائج ہوگئے تھے اور امامت کو اس طرح کمزور کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ کوئی حضرت علی علیہ السلام کی حق پر مبتنی آواز کو سننے کے لئے بھی تیار نہیں تھا۔

نتیجہ:  رسالت اور امامت، انسان کی خلقت کے ہدف کو تحقق بخشنے کا سبب ہیں، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی ذات تھی جس نے امامت کو ایک دوسری حیات بخشی اور رسالت اپنا پھل دینے کے لائق ہوئی اور انسان کو اس کی خلقت کے مقصد کے نزدیک کیا۔(جامی از زلال کوثر،ص۱۴۵)


اتوار، 28 فروری، 2021

مناجات شعبانیہ munajat e shabaniya

 باسمہ تعالیٰ


مناجات شعبانیہ

سید محمد حسنین باقری


مولی الموحدین امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے مروی یہ مناجات جس کے لیے منقول ہے کہ آپؑ کے بعد تمام ائمہ ہدیٰ ؑ ماہ شعبان میں اسکی قرائت فرماتے تھے، جو اس کی عظمت کی دلیل ہے۔اس مناجات کو ابن خالویہ سے نقل کیا گیا ہے اور انہوں نے اسے مرسل طور پر امیرالمومنین حضرت علیؑ سے نقل کیا ہے۔[ ابن طاووس، اقبال الاعمال، ص۱۹۷؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۹۱، ص۹۷؛ مجلسی، زادالمعاد، ص۴۷؛ سماہیجی، الصحیفۃ العلویۃ و التحفۃ المرتضویۃ، ص۸۵] محدث عصر شیخ عباس قمیؒ نے اپنی کتاب مفاتیح الجنان میں بھی اس مناجات کو نقل کیا ہے۔اس کے مفاہیم و مطالب ہمیں سلیقہ بندگی بھی بتاتے ہیں اور عبد و معبود کے رشتوں کو پہچاننے کے ساتھ عظمت پروردگار کا احساس دلاتے ہیں۔ یہ عظیم مناجات آل محمد علیہم السلام کے تحفوں میں سے ایک تحفہ ہے، اس کی عظمت کو وہی سمجھ سکتا ہے جو صحت مند دل اور سننے والا کان رکھتا ہو اور غافل لوگ اس کے فائدوں اور انوار سے بے نصیب ہیں۔ 

امام خمینیؒ نے اپنے سیاسی الہی وصیتنامہ میں مناجات شعبانیہ جیسی مناجات کو شیعوں کے افتخارات میں سے شمار کیا ہے۔فرماتے ہیں:

’’مناجات شعبانیہ جیسی مناجات کم پائی جاتی ہیں، جیسے دعائے ابوحمزہ جو حضرت سجادؑ سے نقل ہوئی ہے، اُس جیسی بھی کم پائی جاتی ہیں اور اِس جیسی بھی کم پائی جاتی ہیں۔ دعائے کمیل شعبان میں وارد ہوئی ہے اور ان دعاؤں میں سے ایک ہے جو پندرہ شعبان، پندرہ شعبان کی رات کو پڑھی جاتی ہے، وہ ایسے اسرار پر مشتمل ہے جس تک ہماری رسائی نہیں ہے۔ ائمہ ہدیؑ سے ایسی دعائیں نقل ہوئی ہیں جن کے مطلب میں غور کرنا چاہیے اور جو صاحب نظر ہیں، صاحب معرفت ہیں، ان کی تشریح کریں، لوگوں کو پیش کریں، اگرچہ کوئی شخص واقعیت کے مطابق تشریح نہیں کرسکتا، لیکن ہمیں اس بات سے گزرجانا چاہیے اور اسی پر اکتفاء کرنا چاہیے کہ ہم تابعدار ہیں اور ہم اس بات کے قائل ہیں کہ نور نبوت اور نور امامت، ابتدائے خلقت سے تھا اور آخر تک رہے گا۔

رہبر معظم انقلاب مد ظلہ اس مناجات کی تعریف کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے: مناجات شعبانیہ تحفہ ہے جو ہمیں دیا گیا ہے، دعائیں بہت ساری پائی جاتی ہیں، یہ سب دعائیں بلند معانی سے لبریز ہیں، لیکن بعض دعائیں خاص بلندی کی حامل ہیں، میں نے امام خمینی رضوان اللہ علیہ سے دریافت کیا کہ ائمہ علیہم السلام سے نقل ہونے والی دعاؤں میں سے، آپ کو کون سی دعا زیادہ پسند ہے اور اس سے آپ نے دل لگایا ہوا ہے؟ فرمایا: دعائے کمیل اور مناجات شعبانیہ۔ آیت اللہ خامنہ ای فرماتے ہیں: جب انسان ان دو دعاؤں کی طرف مراجعہ کرتا ہے، غور کرتا ہے تو دیکھتا ہے کہ یہ دو دعائیں کتنی ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔ دعا یہ ہے:

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ اسْمَعْ دُعَائِي إِذَا دَعَوْتُكَ وَ اسْمَعْ نِدَائِي إِذَا نَادَيْتُكَ وَ أَقْبِلْ عَلَيَّ إِذَا نَاجَيْتُكَ فَقَدْ هَرَبْتُ إِلَيْكَ وَ وَقَفْتُ بَيْنَ يَدَيْكَ مُسْتَكِيناً لَكَ مُتَضَرِّعاً إِلَيْكَ رَاجِياً لِمَا لَدَيْكَ ثَوَابِي وَ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَ تَخْبُرُ حَاجَتِي وَ تَعْرِفُ ضَمِيرِي وَ لا يَخْفَى عَلَيْكَ أَمْرُ مُنْقَلَبِي وَ مَثْوَايَ وَ مَا أُرِيدُ أَنْ أُبْدِئَ بِهِ مِنْ مَنْطِقِي وَ أَتَفَوَّهَ بِهِ مِنْ طَلِبَتِي وَ أَرْجُوهُ لِعَاقِبَتِي وَ قَدْ جَرَتْ مَقَادِيرُكَ عَلَيَّ يَا سَيِّدِي فِيمَا يَكُونُ مِنِّي إِلَى آخِرِ عُمْرِي مِنْ سَرِيرَتِي وَ عَلانِيَتِي وَ بِيَدِكَ لا بِيَدِ غَيْرِكَ زِيَادَتِي وَ نَقْصِي وَ نَفْعِي وَ ضَرِّي۔ 

 إِلَهِي إِنْ حَرَمْتَنِي فَمَنْ ذَا الَّذِي يَرْزُقُنِي وَ إِنْ خَذَلْتَنِي فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُنِي۔ إِلَهِي أَعُوذُ بِكَ مِنْ غَضَبِكَ وَ حُلُولِ سَخَطِكَ إِلَهِي إِنْ كُنْتُ غَيْرَ مُسْتَأْهِلٍ لِرَحْمَتِكَ فَأَنْتَ أَهْلٌ أَنْ تَجُودَ عَلَيَّ بِفَضْلِ سَعَتِكَ إِلَهِي كَأَنِّي بِنَفْسِي وَاقِفَةٌ بَيْنَ يَدَيْكَ وَ قَدْ أَظَلَّهَا حُسْنُ تَوَكُّلِي عَلَيْكَ فَقُلْتَ [فَفَعَلْتَ ] مَا أَنْتَ أَهْلُهُ وَ تَغَمَّدْتَنِي بِعَفْوِكَ إِلَهِي إِنْ عَفَوْتَ فَمَنْ أَوْلَى مِنْكَ بِذَلِكَ وَ إِنْ كَانَ قَدْ دَنَا أَجَلِي وَ لَمْ يُدْنِنِي [يَدْنُ ] مِنْكَ عَمَلِي فَقَدْ جَعَلْتُ الْإِقْرَارَ بِالذَّنْبِ إِلَيْكَ وَسِيلَتِي إِلَهِي قَدْ جُرْتُ عَلَى نَفْسِي فِي النَّظَرِ لَهَا فَلَهَا الْوَيْلُ إِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَهَا إِلَهِي لَمْ يَزَلْ بِرُّكَ عَلَيَّ أَيَّامَ حَيَاتِي فَلا تَقْطَعْ بِرَّكَ عَنِّي فِي مَمَاتِي إِلَهِي كَيْفَ آيَسُ مِنْ حُسْنِ نَظَرِكَ لِي بَعْدَ مَمَاتِي وَ أَنْتَ لَمْ تُوَلِّنِي [تُولِنِي ] إِلّا الْجَمِيلَ فِي حَيَاتِي. 

إِلَهِي تَوَلَّ مِنْ أَمْرِي مَا أَنْتَ أَهْلُهُ وَ عُدْ عَلَيَّ بِفَضْلِكَ عَلَى مُذْنِبٍ قَدْ غَمَرَهُ جَهْلُهُ إِلَهِي قَدْ سَتَرْتَ عَلَيَّ ذُنُوبا فِي الدُّنْيَا وَ أَنَا أَحْوَجُ إِلَى سَتْرِهَا عَلَيَّ مِنْكَ فِي الْأُخْرَى [إِلَهِي قَدْ أَحْسَنْتَ إِلَيَ ] إِذْ لَمْ تُظْهِرْهَا لِأَحَدٍ مِنْ عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ فَلا تَفْضَحْنِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رُءُوسِ الْأَشْهَادِ إِلَهِي جُودُكَ بَسَطَ أَمَلِي وَ عَفْوُكَ أَفْضَلُ مِنْ عَمَلِي إِلَهِي فَسُرَّنِي بِلِقَائِكَ يَوْمَ تَقْضِي فِيهِ بَيْنَ عِبَادِكَ إِلَهِي اعْتِذَارِي إِلَيْكَ اعْتِذَارُ مَنْ لَمْ يَسْتَغْنِ عَنْ قَبُولِ عُذْرِهِ فَاقْبَلْ عُذْرِي يَا أَكْرَمَ مَنِ اعْتَذَرَ إِلَيْهِ الْمُسِيئُونَ . 

إِلَهِي لا تَرُدَّ حَاجَتِي وَ لا تُخَيِّبْ طَمَعِي وَ لا تَقْطَعْ مِنْكَ رَجَائِي وَ أَمَلِي إِلَهِي لَوْ أَرَدْتَ هَوَانِي لَمْ تَهْدِنِي وَ لَوْ أَرَدْتَ فَضِيحَتِي لَمْ تُعَافِنِي إِلَهِي مَا أَظُنُّكَ تَرُدُّنِي فِي حَاجَةٍ قَدْ أَفْنَيْتُ عُمُرِي فِي طَلَبِهَا مِنْكَ إِلَهِي فَلَكَ الْحَمْدُ أَبَداً أَبَداً دَائِماً سَرْمَداً يَزِيدُ وَ لا يَبِيدُ كَمَا تُحِبُّ وَ تَرْضَى إِلَهِي إِنْ أَخَذْتَنِي بِجُرْمِي أَخَذْتُكَ بِعَفْوِكَ وَ إِنْ أَخَذْتَنِي بِذُنُوبِي أَخَذْتُكَ بِمَغْفِرَتِكَ وَ إِنْ أَدْخَلْتَنِي النَّارَ أَعْلَمْتُ أَهْلَهَا أَنِّي أُحِبُّكَ إِلَهِي إِنْ كَانَ صَغُرَ فِي جَنْبِ طَاعَتِكَ عَمَلِي فَقَدْ كَبُرَ فِي جَنْبِ رَجَائِكَ أَمَلِي إِلَهِي كَيْفَ أَنْقَلِبُ مِنْ عِنْدِكَ بِالْخَيْبَةِ مَحْرُوماً وَ قَدْ كَانَ حُسْنُ ظَنِّي بِجُودِكَ أَنْ تَقْلِبَنِي بِالنَّجَاةِ مَرْحُوما إِلَهِي وَ قَدْ أَفْنَيْتُ عُمُرِي فِي شِرَّةِ السَّهْوِ عَنْكَ وَ أَبْلَيْتُ شَبَابِي فِي سَكْرَةِ التَّبَاعُدِ مِنْكَ إِلَهِي فَلَمْ أَسْتَيْقِظْ أَيَّامَ اغْتِرَارِي بِكَ وَ رُكُونِي إِلَى سَبِيلِ سَخَطِكَ. 

إِلَهِي وَ أَنَا عَبْدُكَ وَ ابْنُ عَبْدِكَ قَائِمٌ بَيْنَ يَدَيْكَ مُتَوَسِّلٌ بِكَرَمِكَ إِلَيْكَ إِلَهِي أَنَا عَبْدٌ أَتَنَصَّلُ إِلَيْكَ مِمَّا كُنْتُ أُوَاجِهُكَ بِهِ مِنْ قِلَّةِ اسْتِحْيَائِي مِنْ نَظَرِكَ وَ أَطْلُبُ الْعَفْوَ مِنْكَ إِذِ الْعَفْوُ نَعْتٌ لِكَرَمِكَ إِلَهِي لَمْ يَكُنْ لِي حَوْلٌ فَأَنْتَقِلَ بِهِ عَنْ مَعْصِيَتِكَ إِلا فِي وَقْتٍ أَيْقَظْتَنِي لِمَحَبَّتِكَ وَ كَمَا أَرَدْتَ أَنْ أَكُونَ كُنْتُ فَشَكَرْتُكَ بِإِدْخَالِي فِي كَرَمِكَ وَ لِتَطْهِيرِ قَلْبِي مِنْ أَوْسَاخِ الْغَفْلَةِ عَنْكَ إِلَهِي انْظُرْ إِلَيَّ نَظَرَ مَنْ نَادَيْتَهُ فَأَجَابَكَ وَ اسْتَعْمَلْتَهُ بِمَعُونَتِكَ فَأَطَاعَكَ يَا قَرِيباً لا يَبْعُدُ عَنِ الْمُغْتَرِّ بِهِ وَ يَا جَوَاداً لا يَبْخَلُ عَمَّنْ رَجَا ثَوَابَهُ إِلَهِي هَبْ لِي قَلْباً يُدْنِيهِ مِنْكَ شَوْقُهُ وَ لِسَاناً يُرْفَعُ إِلَيْكَ صِدْقُهُ وَ نَظَراً يُقَرِّبُهُ مِنْكَ حَقُّهُ إِلَهِي إِنَّ مَنْ تَعَرَّفَ بِكَ غَيْرُ مَجْهُولٍ وَ مَنْ لاذَ بِكَ غَيْرُ مَخْذُولٍ وَ مَنْ أَقْبَلْتَ عَلَيْهِ غَيْرُ مَمْلُوكٍ [مَمْلُولٍ ] ، 

إِلَهِي إِنَّ مَنِ انْتَهَجَ بِكَ لَمُسْتَنِيرٌ وَ إِنَّ مَنِ اعْتَصَمَ بِكَ لَمُسْتَجِيرٌ وَ قَدْ لُذْتُ بِكَ يَا إِلَهِي فَلا تُخَيِّبْ ظَنِّي مِنْ رَحْمَتِكَ وَ لا تَحْجُبْنِي عَنْ رَأْفَتِكَ إِلَهِي أَقِمْنِي فِي أَهْلِ وَلايَتِكَ مُقَامَ مَنْ رَجَا الزِّيَادَةَ مِنْ مَحَبَّتِكَ إِلَهِي وَ أَلْهِمْنِي وَلَهاً بِذِكْرِكَ إِلَى ذِكْرِكَ وَ هِمَّتِي فِي رَوْحِ نَجَاحِ أَسْمَائِكَ وَ مَحَلِّ قُدْسِكَ إِلَهِي بِكَ عَلَيْكَ إِلا أَلْحَقْتَنِي بِمَحَلِّ أَهْلِ طَاعَتِكَ وَ الْمَثْوَى الصَّالِحِ مِنْ مَرْضَاتِكَ فَإِنِّي لا أَقْدِرُ لِنَفْسِي دَفْعاً وَ لا أَمْلِكُ لَهَا نَفْعاً إِلَهِي أَنَا عَبْدُكَ الضَّعِيفُ الْمُذْنِبُ وَ مَمْلُوكُكَ الْمُنِيبُ [الْمَعِيبُ ] فَلا تَجْعَلْنِي مِمَّنْ صَرَفْتَ عَنْهُ وَجْهَكَ وَ حَجَبَهُ سَهْوُهُ عَنْ عَفْوِكَ إِلَهِي هَبْ لِي كَمَالَ الأِنْقِطَاعِ إِلَيْكَ وَ أَنِرْ أَبْصَارَ قُلُوبِنَا بِضِيَاءِ نَظَرِهَا إِلَيْكَ حَتَّى تَخْرِقَ أَبْصَارُ الْقُلُوبِ حُجُبَ النُّورِ فَتَصِلَ إِلَى مَعْدِنِ الْعَظَمَةِ وَ تَصِيرَ أَرْوَاحُنَا مُعَلَّقَةً بِعِزِّ قُدْسِكَ إِلَهِي وَ اجْعَلْنِي مِمَّنْ نَادَيْتَهُ فَأَجَابَكَ وَ لاحَظْتَهُ فَصَعِقَ لِجَلالِكَ فَنَاجَيْتَهُ سِرّا وَ عَمِلَ لَكَ جَهْرا. 

إِلَهِي لَمْ أُسَلِّطْ عَلَى حُسْنِ ظَنِّي قُنُوطَ الْإِيَاسِ وَ لا انْقَطَعَ رَجَائِي مِنْ جَمِيلِ كَرَمِكَ إِلَهِي إِنْ كَانَتِ الْخَطَايَا قَدْ أَسْقَطَتْنِي لَدَيْكَ فَاصْفَحْ عَنِّي بِحُسْنِ تَوَكُّلِي عَلَيْكَ إِلَهِي إِنْ حَطَّتْنِي الذُّنُوبُ مِنْ مَكَارِمِ لُطْفِكَ فَقَدْ نَبَّهَنِي الْيَقِينُ إِلَى كَرَمِ عَطْفِكَ إِلَهِي إِنْ أَنَامَتْنِي الْغَفْلَةُ عَنِ الاسْتِعْدَادِ لِلِقَائِكَ فَقَدْ نَبَّهَتْنِي الْمَعْرِفَةُ بِكَرَمِ آلائِكَ۔

 إِلَهِي إِنْ دَعَانِي إِلَى النَّارِ عَظِيمُ عِقَابِكَ فَقَدْ دَعَانِي إِلَى الْجَنَّةِ جَزِيلُ ثَوَابِكَ إِلَهِي فَلَكَ أَسْأَلُ وَ إِلَيْكَ أَبْتَهِلُ وَ أَرْغَبُ وَ أَسْأَلُكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ أَنْ تَجْعَلَنِي مِمَّنْ يُدِيمُ ذِكْرَكَ وَ لا يَنْقُضُ عَهْدَكَ وَ لا يَغْفُلُ عَنْ شُكْرِكَ وَ لا يَسْتَخِفُّ بِأَمْرِكَ إِلَهِي وَ أَلْحِقْنِي بِنُورِ عِزِّكَ الْأَبْهَجِ فَأَكُونَ لَكَ عَارِفا وَ عَنْ سِوَاكَ مُنْحَرِفاً وَ مِنْكَ خَائِفاً مُرَاقِباً يَا ذَا الْجَلالِ وَ الْإِكْرَامِ وَ صَلَّى اللَّهُ عَلَى مُحَمَّدٍ رَسُولِهِ وَ آلِهِ الطَّاهِرِينَ وَ سَلَّمَ تَسْلِيما كَثِيرا. 

(ترجمہ:)خدایا رحمت نازل فرما محمدؐ و آل محمدؐ پر اور جب میںدعا کروں تو میری دعا کو قبول کرلے اور جب میں پکاروں تو میری آواز کو سن لے۔ جب میں مناجات کروں تو میری طرف توجہ فرما کہ میں تیری ہی طرف بھاگ آیا ہوں اور تیرے ہی سامنے کھڑا ہوں۔ فقیر و مسکین ہوں فریادی ہوں اور تیرے ثواب کا امیدوار ہوں۔ تو میرے دل کا حال جانتا ہے، میری حاجت سے باخبر ہے۔ میرے ضمیر کو پہچانتا ہے اور تجھ سے میرا انجام مخفی نہیںہے اور جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ بھی تجھے معلوم ہے اور جو بیان کررہا ہوں وہ بھی تو جانتا ہے اور عاقبت کے لئے جس چیز کا امید وارہوں وہ بھی تیرے علم میںہے۔ اور اس کا فیصلہ ہوچکا ہے آخر عمر تک کے لئے۔ میرے ظاہر و باطن سب کےلئے زیادتی و کمی اور نفع و نقصان تیرے علاوہ کسی کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ 

خدایا اگر تو محروم کردے گا تو مجھے کون عطا کرے گا اور اگر تو چھوڑ دے گا تو کون مدد کرے گا۔ خدایا میں تیرے غضب سے اورتیری ناراضگی کے نازل ہونے سے تیری ہی پناہ چاہتا ہوں۔ مالک اگر میں تیری رحمت کا اہل نہیںہوں تو تو اس بات کا اہل ہےکہ اپنی مہربانی سے مجھ پر کرم کرے۔خدایا جیسے کہ میںتیرے سامنے کھڑا ہوں اور میرےنفس پر حسن توکل کا سایہ ہے۔ تو نے اپنی بات کہہ دی ہے اور مجھے اپنی معافی سے ڈھانپ لیا ہے ۔ خدایا اگر تو معاف کردے تو تیرے علاوہ اس کا اہل کون ہوگا۔ اور اگر میری موت قریب آگئی اور میرے اعمال نے تجھ سے قریب نہیں بنایا تو میں گناہوں کے اقرار ہی کو اپنا وسیلہ بنا رہا ہوں۔ خدایا میں نے اپنے نفس کو مہلت دے کر ہلاک کردیا ہے۔ اب اگر تو معاف نہ کرے گا تو وائے برحال ما۔ خدایا زندگی بھر تو تو احسان کرتا رہا تو اب مرنےکے بعد اس احسان کو قطع نہ کرنا بھلا میںمرنےکےبعد تیری نگاہ کرم سے کیسے مایوس ہوسکتا ہوں جبکہ زندگی بھر تجھ سے سوائے نیکیوںکے کچھ نہیں دیکھا ہے۔ خدایا میرے ساتھ وہی برتاؤ کرنا جس کا تو اہل ہے اور اپنے فضل سے اس بندہ پر مہربانی کرنا جو گنہگار ہے اور جس کو جہالتوں نے ڈھانپ لیا ہے۔ مالک تونے دنیا میں میرے گناہوں کو چھپایا ہے تو میں آخرت میں ان کی پردہ پوشی کا اس سے زیادہ محتاج ہوں۔ جب تونے اپنے نیک بندوں پر ظاہر نہیں کیا ہے تو اب قیامت کے دن منظر عام پر مجھے رسوا نہ کرنا۔ خدایا تیرے کرم نےمیری امیدوں کو پھیلا دیا ہے اور تیری معافی میرے عمل سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ لہٰذا میرے مالک جس دن بندوں کے درمیان فیصلہ کرنا ہمیں اپنی ملاقات کے شرف سے محروم نہ کرنا۔ خدایا یہ میری معذرت اس بندے کی ہے جو قبولیت سےبے نیاز نہیں ہے لہٰذا میرے عذر کو قبول کرلے۔اے وہ کریم ترین مالک جس سے ہر خطا کار معذرت کرتا ہے۔ خدایا میری حاجتوں کو پلٹانا نہیں۔ میری امید کو نا امید نہ کرنا اور میری آرزؤں کو قطع نہ کرنا۔ مالک اگر تو مجھے ذلیل کرنا چاہتا تو ہدایت نہ دیتا اور اگر رسوا کرنا چاہتا تو عافیت نہ دیتا۔ میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا ہوں کہ تو میری اس حاجت کو رد کردےگا جس کو مانگنےمیںساری زندگی گزاری ہے۔ میرے مالک تیرے لئے دائمی ، ابدی، سرمدی حمد ہے جس میں اضافہ ہوتا ہے کمی نہیںہوتی ہے۔ جیسے تو چاہتا ہے۔

 خدایا اگر تو میرے جرم کا مواخذہ کرے گا تو میں تیری معافی کا سوال کروں گا اور اگر تو میرے گناہوں کی گرفت کرے گا تو میں تیری مغفرت کے بارے میں پوچھوں گا۔ اور اگر تو مجھے جہنم میں داخل کر دے گا تو میں اہل جہنم سے کہوں گا کہ میں تیرا چاہنےوالا تھا۔ خدایا اگر تیری اطاعت کے سامنےمیرا عمل چھوٹا ہے تو تیری کرامت کے سامنے میری امید بہت بڑی ہے۔ خدایا میں تیری بارگاہ سے ناکام اور محروم کس طرح جاسکتا ہوں جب کہ میرا حسن ظن تیرےکرم سے یہی تھا کہ تو مجھے نجات دے کر رحمت کےساتھ مخصوص کرے گا ۔ خدایا میں نے غفلتوں کے عالم میں اپنی زندگی کو گزار دیا ہے اور تجھ سے دوری کے نشہ میں اپنی جوانی کو برباد کردیا ہے اور ایک دن جب میںتیری ناراضگی کے راستے پر جارہا تھا مجھے ہوش نہیں آیا مگر بہرحال میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندہ کا فرزند ہوں، تیرے سامنے کھڑا ہوں اور تیرے ہی کرم کو وسیلہ بنائے ہوئے ہوں۔ خدایا میں وہ بندہ ہوں جو تیری مہلت سے فائدہ اٹھا کر بے حیائی کے ذریعہ تیرا سامنا کرتا تھا مگر اب میں ہر برائی سے نکل آیا ہوں اور تجھ سے معافی کا طلب گار ہوں اس لئے کہ معافی ہی تیرے کرم کی ضمانت ہے۔ خدایا میرے پاس کوئی ایسی طاقت نہیںہے جس کے ذریعہ میں معصیت سے نکل آؤں مگر اسی وقت جب تو مجھے اپنی محبت کے لئے بیدار کردے ۔ جیسا تونے چاہا میں ہوگیا۔ اب تیرا شکر ہے کہ تونے اپنے کرم میں داخل کرلیا ہے اور میرے دل کو غفلت کی کثافت سے پاک کردیا ہے۔ مالک میری طرف اس بندہ کی طرح نظر فرما جس کو تونے پکارا تو اس نے سن لیا اور اسے اپنی راہ میں لگانا چاہا تو اس نے اختیار کرلیا۔ اے وہ قریب جو فریب خوردہ سے بھی دور نہیں ہوتا ہےا ور اے وہ سخی جو کسی امید وار کے ثواب میں بخل نہیںکرتا ہے۔ 

میرے مالک مجھے وہ دل دیدے جس کا شوق تجھ سےقریب تر کردے اور وہ زبان دیدے جس کی صداقت تیری بارگاہ تک پہنچادے۔ وہ نگاہ دیدے جو تجھ سے قریب تر بنا دے۔ خدایا جو تیرے ذریعہ معروف ہوتا ہے وہ مجہول نہیں ہوتا ہے اور جو تیری پناہ لے لیتا ہے وہ لاوارث نہیں ہوتا ہے۔ جس کی طرف تو متوجہ ہوجائے وہ رنجیدہ نہیں ہوتا ہے۔ مالک جو تیرے سہارے چلے اسے روشنی مل جاتی ہے اور جو تیری پناہ لے لے اسے پناہ مل جاتی ہے۔ اب میںتیری پناہ میں آیا ہوں لہٰذا پنی رحمت سے نا امید نہ کرنا اور اپنی رافت میں کسی چیز کو حائل نہ کرنا ۔ خدایا مجھے اپنے چاہنےو الوں میں ان کی منزل پر کھڑا کردے جو محبت میں اضافہ کے امید وار ہیں۔ خدایا مجھے مسلسل اپنے ذکر کا شوق عنایت فرما اور میری ہمت کو اپنے اسمائے گرامی اور محل قدس میں کامیابی کے نشاط میں قرار دیدے۔ خدایا تجھے میری قسم کہ مجھے اہل اطاعت کی منزل سے اور اپنی رضا کے نیک ترین مقام سے ملادے کہ میں نہ اپنے نفس سے کسی بلا کو ٹال سکتا ہوں اور نہ اسے کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہوں۔ خدایا میں تیرا بندہ ضعیف و گنہگار ہوں اور تیر اغلام عیب دار ہوں لہٰذا مجھے ان لوگوں میں قرار نہ دینا جن سے تو اپنا منہ موڑلے اور جن کی غفلت تیری معافی کی راہ میں حائل ہوجائے خدایا مجھے اپنی طرف مکمل توجہ عنایت فرما اور میرے دل کی نگاہوں کو اپنی طرف دیکھنےکی روشنی سے نورانی بنادے تاکہ دل کی نگاہیں حجاب نور کو چاک کرکے اس محل و معدن عظمت تک پہنچ جائیں اور ہماری روحیں تیرے مقامِ عزت و قدس سے وابستہ ہوجائیں ۔ خدایا مجھے ان لوگوں میں قرار دیدے جن کوتونے پکارا تو انہوں نے لبیک کہی اور جن کو دیکھ لیا تو تیرے جلال سے بے ہوش ہوگئے۔ تونے ان سے خاموشی سے باتیں کیں اور انہوں نے علی الاعلان تیرے لئے عمل کیا۔ خدایا ہم نے اپنے حٗسن ظن پر مایوسی کو مسلط نہیں کیا اور نہ میری امیدیں تیرے کرم سے قطع ہوئیں۔ خدایا اگر خطاؤں نے تیری بارگاہ میں گرا دیا ہے تو اب حسن توکل کی بنا پر مجھ سے در گزر فرما۔ مالک اگر میرے گناہوں نے تیرے مقام لطف سے گرادیا ہے تو تیری مہربانی و کرم نے مجھے ہوشیار کردیا ہے۔ مالک اگر مجھے غفلت نے تیری ملاقات کی تیاری سے سلا دیا ہے تو تیرے احسانات کی معرفت نے مجھے بیدار کردیا ہے مالک اگر تیرے عظیم عقاب نے مجھے جہنم کی طرف بلایا ہے تو تیرے عظیم ثواب نے جنت کی دعوت دی ہے۔

 اب میں تجھ ہی سے امید وار ہوں اور تجھ ہی سے دعا کرتا ہوں اور تیری ہی طرف رغبت کرتا ہوں ور میرا مطالبہ یہی ہے کہ محمدؐ و آل محمدؐ پر رحمت نازل فرما اور ان لوگوں میں قرار دیدے جو ہمیشہ تیرا ذکر کریں۔ تیرے عہد کو نہ توڑیں ، تیرے شکر سے غافل نہ ہوں اور تیرے حکم کا استخفاف نہ کریں۔ خدایا مجھے اپنے روشن ترین نور عزت و جلالت سے ملحق کردے تاکہ میں تیرا عارف ہوجاؤں اور تیرے غیر سے منحرف ہوجاؤں صرف تجھ سے ڈرتا رہوں اور لرزتا رہوں اے صاحب جلال و اکرام۔ خدا رحمت نازل کرے محمدؐ رسول اللہ اور ان کے آل طیبین ؑ پر اور بے شمار سلام ان پر۔(مفاتیح الجنان، مترجمہ علامہ جوادیؒ)

اس عظیم مہینے میں دوسری مناسبتوں کے ساتھ شہید راہ حق امام حسینؑ اور منجی بشریت حضرت حجت عج کی ولادت باسعادت ہے ہم کوشش کریں زیادہ سے زیادہ اس مناجات کی قرائت کریںاور بارگاہ معبود میں منتقم خون حسینؑ حضرت امام عصر عج کے ظہور پُر نور کی دعا کریں۔


منگل، 29 دسمبر، 2020

بحث متعہ

 بحث متعہ!:
علامہ سید شرف الدین موسوی
حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ شخص جسے ذرا بھی مذہب اسلام کو سمجھنے کا موقعہ ملا ہے اور جس نے بھی دینی قوانین کے مطالعہ میں زندگی کے کچھ لمحے صرف کئے ہیں وہ اس حقیقت سے قطعاً انکار نہیں کرسکتا کہ متعہ کے معنی وہ عقد ہے جو ایک بندھے ہوئے وقت کے لئے ہو۔ 
 خود پیغمبر اکرمؐ نے اس قسم کے عقد کو رائج کیا، مباح فرمایا اور حیات رسولؐ میں بڑے بڑے صحابہ اس پر عمل پیرا ہوئے۔ نیز آنحضرتؐ کی وفات کے بعد بھی صحابۂ کرام قانون کی اس شق سے جی بھر کر متمتع ہوتے رہے۔ 
چنانچہ عبد اللہ بن عباس، جابر ابن عبد اللہ انصاری، عمر ابن الحصین ابن مسعود اور ابی ابن کعب وغیر ہم یہ تمام اعاظم و مشاہیر متعہ کے جواز کا فتویٰ دیتے تھے۔ اور آیت متعہ کو اس طرح پڑھتے تھے:فما استمعتم بہ منھن ا لیٰ اجل مسمیٰ۔(جامع البیان، طبری،ج۵،ص۹؛تفسیر ابن کثیر، ج۱،ص۴۷۴؛ تفسیر کشاف، زمخشری،ج۱،ص۵۱۹، الجامع لاحکام القرآن، قرطبی،ج۲،ص۱۴۷؛ السنن الکبری، بیہقی،ج۷،ص۲۰۵)
لیکن ہماری رائے میںیہ یقین کرنا درست نہ ہوگا کہ یہ حضرات اللہ کے کلام میں کسی نقص و تحریف کے قائل تھے ( معاذ اللہ) نہیں! بلکہ غالباً سخن شناس ہونے کی وجہ سے تفسیر کے طور پر اس جزو سے آیت کا منشاء بیان کرتے ہوں گے چونکہ عرصۂ دراز تک یہ بزرگ شمع نبوت کا طواف کرتے رہے، معارف قرآنی کو زبان رسالتؐ سے سننے اور سمجھنے کا موقع ملا لہٰذا جب لوگ ان سے دریافت کرتے ہوں گے تو اس آیت کے سلسلہ میں ختمی مرتبتؐ سے حاصل کردہ مفہوم کو ظاہر کردینے میں انہیں کوئی تامل نہ ہوتا ہوگا۔ 
 حالانکہ ابن جریر نے اپنی تفسیر کبیر میں جو روایتیں درج کی ہیں ان سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ الیٰ اجل مسمیٰ والا ٹکڑا جزو آیت ہے۔ چنانچہ موصوف ابو نضرہ کی زبانی نقل کرتے ہیں کہ میں نے اس آیت کو ابن عباس کے سامنے پڑھا تو آپ نے فرمایا : ’’ الیٰ اجلٍ مُّسمّیٰ‘‘ میں نے عرض کی کہ میں تو یوں نہیں پڑھتا ۔ اس پر ابن عباس نے تین مرتبہ فرمایا‘‘:’’ بخدا یہ آیت اسی طرح نازل ہوئی ہے‘‘(جامع البیان، طبری، ج۵ص۹)۔ لیکن یہاں بھی ہم عرض کریں گے کہ رئیس ملت حضرت ابن عباس کا مقام ان نقائص سے بہت بلند ہے۔ یہ روایت اگر صحیح ہے تو غالباً رسولؐ کے اس جلیل القدر صحابی کا مقصود یہ ہوگا کہ پروردگار عالم نے اس کی تفسیر یوں نازل فرمائی ہے۔ 
بہر حال اجماع و یقین متعہ کی صحت و مشروعیت کا بین ثبوت ہیں۔ اب رہا مخالف نظریہ رکھنےو الوں کا ادّعا تو اس میں وزن ہی کیا ۔ کیونکہ وہ فرماتے ہیں کہ یہ قانون نافذ ہوکر منسوخ ہوگیا۔ حالانکہ نقل کے طریقے میں جو اختلافات نمایاں ہیں وہ قطع و یقین تو درکنار ظن و تخمین کے لئے بھی ناکافی ہیں۔ دیکھئے بنیادی قاعدہ یہ ہے کہ حکم قطعی کی تنسیخ کے لئے دلیل قطعی کا ہونا ضروری ہے۔ اور ان حضرات کا ارشاد ہے کہ تنسیخ سنت کے طریقہ سے عمل میں آئی۔ سرکار رسالتؐ نے مباح فرما کر حرام قرار دے دیا(۱)۔ بعض فرماتے ہیں کہ نہیں کتاب خدا کے ذریعہ حرمت کے پہرے بیٹھ گئے۔ نیز اس منزل پر بھی اتحاد فکر عنقا ہے۔ کیونکہ ایک گروہ آیت طلاق(۲) کو ناسخ سمجھتا ہے(۳) اور دوسرا  آیۂ مواریث(۴)کو(۵) اب ان پریشان خیالیوں کی جو قیمت ہوسکتی ہے وہ ظاہر ہے۔ بنا بر ایں یہاں مزید خامہ فرسائی کی ضرورت نہیں۔ آگے چل کر قدرے توضیح کی جائے گی۔ 
ہاں۔ اور اکثر بزرگ اس آیت سے سے  متعہ پر خط نسخ پھیرتے ہیں(۶):
 ( الاعلیٰ ازواجھم او ما ملکت ایمانھم) (سورہ مومنون،۶؛ معارج۳۰)آیت میں حلیت کے دو سبب بتائے گئے ہیں:
(۱) زوجیت۔  (۲) ملکیت(ملک یمین)
چنانچہ اس موقع پر سیدآلوسی ترمیم فرماتے ہیںکہ ’’ شیعہ حضرات ممتوعہ کو مملوکہ ( کنیز) قرار نہیںدے سکتے۔ یہ تو ایک کھلی ہوئی بات ہے۔ اور زوجہ کہہ نہیں سکتے کیونکہ اس میں زوجیت کے شرائط یعنی میراث ، عدہ اور نفقہ و طلاق کا فقدان ہے‘‘۔(روح المعانی،ج۵،ص۷)
  غور فرمائیے ! دلیل میںکتنا زبردست مغالطہ ہے۔ اب ذرا تجزیہ کیجئے پہلی چیز میراث۔ اگر زوجیت کے لئے اس شرط کو عمومی انداز میں پیش کیا گیا ہے یعنی اکثر ایساہوتا ہے کہ زوجہ ورثہ پاتی ہے تب تو ٹھیک ہے۔ لیکن غالباً سید صاحب کا یہ منشاء نہیں اور اگر یہ مراد ہےکہ میراث شرط لازم و دائم ہے یعنی بہر صورت ورثہ ملنا چاہئے تو یہ قطعی طور پر خلاف آئین ہے۔ کیونکہ شریعت میں اکثر ایسے مواقع آتے ہیں جہاںمیراث ختم ہوجاتی ہے مثلاً زوجہ کا فرہ اور قاتلہ کو ورثہ نہیںملتا۔ نیز ایسی عورت جو کسی مریض کے عقد میں چلی جائے اوردخول سے پہلے اس کے شوہر کا انتقال ہوجائے تو وہ بھی محروم ہوجاتی ہے۔ نیز بر خلاف اس کے اگر کوئی شخص بیماری کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دے اور اسی مرض کے عالم میں اس کا انتقال ہوجائے تو عدہ کی مدت گزارنےکے باوجود دوران سال میںمطلقہ ورثہ کی حقدار ہوگی۔ غرضیکہ دونوں رخ سامنے ہیں اور صاف ظاہر ہے کہ ارث کو لازمۂ زوجیت نہیں قرار دیا جاسکتا۔ 
رہا عدت کا لزوم تو امامیہ مذہب میں بالاتفاق ثابت ہے بلکہ جو بھی مشروعیت متعہ کا قائل ہے وہ عدت کو واجب قرار دیتا ہے۔ تیسری چیز نفقہ ہے، اسے بھی شرط زوجیت نہیں بنایا جاسکتا۔ اطمینان کے لئے ’’ زن ناشزہ‘‘ کے احکام کو دیکھ  لیجئے کہ وہ زوجیت میں تو ہوتی ہے مگر بالاتفاق اس کے نفقہ کو کوئی واجب نہیںسمجھتا ۔ باقی، طلاق کا معاملہ، تو اس سلسلہ میںمدت کا بخش دینا کافی ہے۔ 
دوسری بات یہ کہ ازواج کی اہمیت سے متعہ کی منسوخی محال ہے۔ کیونکہ آیت متعہ سورۂ نساء میں ہے جو مدنی(۷) ہے اور آیۂ ازواج سورۂ مومنین و معارج میں ہے اور یہ دونوں مکی ہیں(۸)۔ بنا بر یں نسخ ثابت ہی نہیںہوسکتا ۔ کیونکہ منسوخ پر ناسخ کا تقدم غیر ممکن ہے۔ 
 تیسرے یہ کہ اکابر اہل سنت بیان فرماتے ہیں کہ آیت متعہ منسوخ نہیںہوئی ملاحظہ ہو ’’ کشاف‘‘ زمخشری ابن عباس سے نقل کرتے ہیںکہ متعہ کی آیت محکمات میں سے ہے(الکشاف، ۱؍۵۱۹)۔ دوسروں نے روایت کی ہے کہ حکم ابن عتیہ سے دریافت کیا گیا کہ آیت متعہ کیا منسوخ ہوگئی ہے ؟ جواب ملا: نہیں(الدرالمنثور،سیوطی، ج۲،ص۱۴۰)۔
غرض کہ پہلے تو جمہور اسلام نے اس کی مشروعیت کا اعتراف کیا ۔ لیکن بعد میں منسوخ ہونے کے دعوے کرنے لگے اور رطریق نسخ میںجو قیاس آرائیاں فرمائی ہیں وہ بھی قابل دید دشنید ہیں۔ کبھی تو آیت کو آیت کے ذریعہ منسوخ فرمانےکی کوششیں ہوئیں ( ضعف دلیل کی جانب اشارہ کیاجاچکا ہے) گاہے آیت کو حدیث سے ختم کرنے کی سعی فرمائی گئی۔ اس ضمن میں صحیح بخاری و مسلم کی اس روایت سے استشہاد کیا جاتا ہے کہ فتح مکہ ، فتح خیبر ، یاغزوۂ اوطاس(صحیح بخاری ۷؍۱۶؛ صحیح مسلم ۲؍۱۰۲۳؍۱۸ و ۱۰۲۷؍۲۹،۳۰۔ اس کی جانب اشارہ گزرچکا ہے۔) میںآنحضرتؐ نے اسے ممنوع قرار دے دیا تھا اور یہی وہ مقام ہے جہاںیہ معاملہ آماجگاہ اختلاف بنتا ہے۔ نہ جانے کتنے رنگ چڑھتے ہیں اور کیا کیا پینترے بدلے جاتے ہیں۔ 
 چنانچہ قاضی عیاض کی زبانی بیان کیاجاتا ہے ’’ بعض علماء کا ارشاد ہے، کہ نکاح متعہ دو دفعہ حرام، مباح اور منسوخ ہوا(شرح صحیح مسلم، نووی۹؍۱۸۱؛ التفسیر العظیم، ابن کثیر ۱؍۴۷۴ )۔ لیکن آنکھ بھر کر دیکھنے والے جانتے ہیں کہ ان حضرات نے اپنی علمی دنیا میں کیا کیا گل کھلائے ہیں۔ 
 بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ حجۃ الوداع ۱۰ھ؁ میں منسوخ کیا گیا(۹) ۔ دوسرے مصنفات سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہیں۔ غزوہ تبوک ۹ھ؁ میں تنسیخ ہوئی(۱۰)۔ کچھ قلم کاروں نے غزوہ اوطاس اور غزوہ حنین شوال ۸ھ؁ کا حوالہ دیا ہے(صحیح مسلم۲؍۱۰۲۳)۔ مگر ایک اور گرو ہ فتح مکہ رمضان ۸ھ؁ کا واقعہ بتاتا ہے(۱۱)۔ 
 نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آنحضرتؐ نے فتح مکہ کے موقع پر جائز قرار دیاتھا اور پھر چنددن کے بعد وہیں اس کی حرمت کا حکم صادر فرمادیا(۱۲)۔ البتہ شہرت اور غالب رائے یہ ہےکہ متعہ کی تنسیخ غزوہ خیبر ۷ھ؁یا عمرۃ القضاء ذی الحجہ  ۷ھ؁ میں عمل میں آئی۔(سنن ابن ماجہ ۱؍۶۳۰؍۱۹۶۱؛ صحیح مسلم ۲؍۱۰۲۷)
بہر کیف اس محشر خیال سے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دو یا تین دفعہ نہیں ( جیسا کہ نووی شارح مسلم  وغیرہ نے ترقیم فرمایا ہے ) بلکہ پانچ چھ مرتبہ حرام حلال ہوتا رہا۔۔۔۔(شرح صحیح مسلم نووی ۹؍۱۸۰) کیوں؟ علمائے اسلام ! بازی بازی با دین خدا ہم بازی؟ یہ کیا اندھیر ہے؟ سچ کہنا اس درجہ فکری انتشار کے ہوتے ہوئے تمہارے ادعائے نسخ میںکوئی جان باقی رہ جاتی ہے؟
 یہ ناقابل انکار حقائق ہیں کہ :۱: ۔ قرآنی احکام اخبار آحاد سے منسوخ نہیںہوسکتے۔ 
۲:۔ نسخ کی دلیلیں خود سوا د اعظم کی روایات عدم نسخ سے متصادم ہوتی ہیں۔ 
۳:۔ صحیح بخاری کی روایت: ابو رجاء عمران بن حصین سے ناقل ہیںکہ آیۂ متعہ قرآن میں موجود ہے۔ رسولؐ کے ہوتے ہوئے ہم نے اس پر عمل کیا ۔ 
 پھر نہ قرآن نے اس کی حرمت کا حکم دیا اور نہ آخر وقت تک آنحضرتﷺ نے ممانعت فرمائی۔ ہاں! ایک شخص نے من مانی کی جو چاہا کہہ دیا۔ محمد کا قول ہےکہ اس حرکت کو حضرت عمر کی جانب منسوب کیا گیا ہے‘‘(۱۳)۔
 نیز صحیح مسلم میں عطا کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’ ایک مرتبہ جابر ابن عبد اللہ انصاری عمرہ بجالانےکےلئے آئے تو ہم سب ان کی قیام گاہ پر پہنچ گئے لوگوں نے ان سے مختلف مسائل پوچھے ۔ چنانچہ متعہ کے متعلق بھی دریافت کیا ۔ جابر نے کہا ۔ ہاں ۔ عہد رسالت میں ہم نےمتعہ کیا اور ابو بکر و عمر کے زمانے میں بھی ‘‘۔(صحیح مسلم۲؍۱۰۲۳؍۱۵)
مسلم کی ایک اور روایت ہے اور حضرت جابر ہی کی زبانی ، فرماتے ہیں: دور نبوی میں تو ہم ایک مٹھی کھجور اور مٹھی بھرستّو دے کر متعہ کرلیا کرتے تھے۔ اور یہی طریقہ ابوبکر کے زمانے میں بھی جاری رہا پھر عمر نے عمرو بن حریث کے سلسلے میں اس سے منع کیا۔(صحیح مسلم۲؍۱۰۲۳؍۱۶)
علاوہ ازیں صحیح مسلم کے اوراق میںیہ بھی موجود ہے ۔’’ ابو نضرہ بیان کرتےہیںکہ میں جابر ابن عبد اللہ انصاری کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں ایک اور آدمی آگیا اور آتے ہی کہنے لگا۔ دونوں متعوں کے بارےمیں تو ابن عباس اور ابن زبیر کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا ہے؟ جابر نے فرمایا ۔ رسالت مآبؐ کی موجودگی میں تو ہم ان پر عمل پیرا تھے۔ لیکن بعد میںعمر نے دونوں متعوں سے ممانعت کردی۔ اس لئے پھر نہ کرسکے۔(صحیح مسلم۲؍۱۰۲۳؍۱۷) 
جی ہاں! اس لئے پھر نہ کرسکے کہ حضرت عمر متعہ کرنےوالوں کو سنگسار کروا دیتے تھے۔ 
واقعہ یہ کہ صحیح مسلم کے اس حصہ کو اگر غور سے دیکھا جائے تو تضاد بیانی کے ایسےایسے عجوبے نظر آتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ادھر مثبت حدیثیں ادھر منفی روایتیں ۔یہاں نسخ کے دعوے وہاں عدم نسخ کے ثبوت اور سنیے ۔ جہنی فرماتے ہیںکہ فتح مکہ کے موقع پر خود آنحضرتؐ نے ہمیںمتعہ کا حکم دیا تھا۔ لیکن ہم وہاں سے نکلنے بھی نہ پائے تھےکہ سرکار رسالت مآبؐ نے اس کی ممانعت فرمادی‘‘۔(صحیح مسلم۲؍۱۰۲۳؍۲۲)
 تنسیخ کی نسبت کبھی پیغمبر اکرمؐ کی طرف گاہ حضرت عمر کی جانب ۔ مزید بر ایں عہد نبوی اور پہلی خلافت کے زمانےمیں رائج تھا۔ اور یہ بھی کہ یہ حضرت علی علیہ السلام نے متعدد مواقع پر جناب ابن عباس کو متعہ کے بارےمیں گفتگو کرنےسے منع فرمایا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں انہوں نے اپنی رائے بدل دی۔ (المصنف، عبدالرزاق ۷؍۵۰۱؛ الکشاف، زمخشری۱؍۵۱۹)
 مگر اس کے ساتھ یہ روایت بھی ملتی ہے کہ ابن زبیر نے ایک مرتبہ مکہ میں اٹھ کر فرمایا تھا ’’ کچھ ایسے لوگ بھی ہیںکہ خداوند عالم نے جس طرح ان کی  بصارت چھینی اسی طرح ان کی بصیرت بھی سلب کرلی۔ وہ متعہ کا فتویٰ دیتے پھرتے ہیں۔ ‘‘۔ ( یہ اشارہ ابن عباس کی طرف تھا جو نا بینا ہوگئے تھے) اس پر ابن عباس نے آواز لگائی کیوں۔۔۔’’ قسم کھا کر کہتا ہوں کہ متعہ امام المتقین کے زمانے تک رائج تھا‘‘(۱۴)۔ اس سے صاف ظاہر ہےکہ عبد اللہ ابن عباس نے کبھی بھی اپنی رائے نہیں بدلی بلکہ وہ زندگی بھر تا دور خلافت ابن زبیر اپنے فتوے پر قائم رہے۔ 
 اور سب سےز یادہ پر لطف بات تو یہ ہےکہ امتناعی حکم کو جناب امیر علیہ السلام سے بھی منسوب کیا گیا ہے۔ حالانکہ عقد متعہ کو جائز قرار دینا اہل بیت علیہم السلام کا امتیازی مسلک ہے۔ پھر خصوصیت سے اس ضمن میں امیر المومنینؑ کا یہ ارشاد کہ’’لولا انّ عمر نھی الناس عن المتعۃ ما زنی الاشقی او شفا‘‘(معنی کے لئے دیکھئے: الصحاح ۶؍۲۳۹۳؛ لسان العرب ۱۴؍۴۳۷۔)۔ ’’ اگر عمر نےمتعہ کو ممنوع نہ کیا ہوتا تو بس گنتی کے ( یا گئے گزرے) کچھ لوگ زنا کے مرتکب ہوتے‘‘، ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے طبری نے اپنی تفسیر میں بھی اس روایت کو نقل کیا ہے(۱۵) اس سلسلہ میں باوثوق ذرائع سے امام جعفر صادق علیہ السلام کا یہ قول ملتا ہے کہ ’’ثلاث لا اتقی فیھن احدا: متعۃالحج و متعۃالنساء و المسح علی الخفین‘‘(۱۶)’’ تین مسئلوں میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔ متعۃ الحج، متعۃ النساء اور مسح بر کفش۔
بہرطور فنی قاعدوں اور اصول فقہ کے مقرر ضوابط کی رو سے یہ طے شدہ بات ہےکہ ادھر روایتوں میں تضاد پیدا ہوا اور ادھر وہ درجہ اعتبار سے ساقط ہوئیں۔ کیونکہ مشکوک روایتیں قابل انکار اور ان کےمقابلے میں محکم حدیثیں لائق عمل ہوتی ہیں۔ 
 نیز جبکہ علمائے اسلام کے متفقہ فیصلے اور فقہی تکنیک کےمطابق متعہ کی مشروعیت اور اس کا جواز ثابت ہوچکا ہے ۔ تو آج بھی اس کی اباحت کاا قرار کرنا پڑے گا۔ 
مسئلہ کا واحد حل!:
اب اگر ہم حقائق کی روشنی میں جائزہ لیں ۔ معاملہ کی پوری چھان بین کریں اور اس کی تمام کڑیوں کو ملا کر صحیح نتیجہ نکالنا چاہیں تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ حضرت عمر نے اپنےد ور حکومت میں کسی خاص مصلحت کے پیش نظر اپنی رائے سے متعہ کو ممنوع قرار دے دیا تھا۔ لیکن یہ ممانعت قطعی طور پر سماجی حالات اور وقتی تقاضوں پر مبنی تھی ۔ دین و مذہب کا اس سے کوئی سرورکار ممکن نہیں۔ چنانچہ تواتر کے ساتھ آپ کا یہ قول نقل ہوتا چلا آرہا ہے کہ’’متعتان کانتا علی عھد رسول اللہ أنا أحرمھما و أعاقب علیھما‘‘(دیکھئے: السنن الکبریٰ، بیہقی۷؍۲۰۶؛ زادالمعاد، ابن قیم جوزی۳؍۴۶۳؛ المبسوط، سرخسی ۴؍۲۷۔) ’’ رسول کے زمانےمیں دو متعہ جائز تھےمگر میں انہیں حرام قرار دیتا ہوں اور خلاف ورزی پر سزا دوں گا‘‘۔
 یہاں غور طلب چیز یہ ہے کہ خلیفۂ ثانی نے حرمت یا تنسیخ کے حکم کو سرکار رسالتؐ کی جانب نہیںمنسوب کیا۔ بلکہ خود اپنی ذات کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ نیز سزا کا تعلق بھی اپنے ہی سے رکھا ۔ خدا سے کوئی واسطہ نہیں ۔ یہی اس مسئلہ کا واحد حل ہے۔ ورنہ پھر ان خطوط پر سوچنا پڑے گا کہ حضرت عمر جیسی شخصیت اور دین الٰہی میں بے محابانہ کتربیونت ! لیکن مسلمانوں کی تاریخ میں آپ کے مقام کو دیکھتے ہوئے اس انداز فکر کا اختیار کرنا کس قدر مشکل ہے۔ 
 کیا حضرت عمر یہ نہیں جانتے تھے کہ حضرت محمدؐ کا حلال قیامت تک حلال، اور حضور ؐنے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے وہ تا حشر حرام رہیں گی۔ 
 خداوند عالم خود اپنے حبیب ؐ سے فرماتا ہے کہ : ’’وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ﴿٤٤﴾ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ﴿٤٥﴾ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ﴿٤٦﴾ فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ ﴿٤٧﴾‘‘( سورہ حاقہ ۴۴۔۴۷)
’’اگر رسولؐ ہمارے متعلق کچھ باتیں گھڑ لیتا تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے اور پھر گلا کاٹے بغیر نہ چھوڑتے اور پھر یہ بھی ممکن نہیں تھا ، کہ تم میں سے کوئی آکر بچا لیتا ‘‘
بہر طور بہتر یہی تھا کہ حضرت عمر کے امتناعی حکم کو مذہبی حیثیت دینےکے بجائے اسے سیاسی یا سماجی قدغن قرر دیا جاتا۔ مگر کیا کہا جائے کہ آپ کے بعض معاصرین نیز بعد کے کچھ سادہ لوح محدثوں نے اس باریک نکتہ پر غور نہیں کیا اور فرط عقیدت میں اپنے قائد کے اقدام کو صحیح ثابت کرنےکےلئے نسخ کی دلیل تراشی اور اسے آنحضرتؐ کی جانب منسوب کردیا۔ نتیجتاً ان کے دبستانِ فکر میں وہ خلفشار پیدا ہوا کہ پناہ بخدا!
فی الواقع یہ حضرات اگر وہ موقف اختیار کرتےجس کی ہم نےنشاندہی کی ہے تو اتنی الجھنوں میں نہ پڑتے۔ 
صحیح مسلم کے حوالے سے جابر ابن عبد اللہ انصاری کی روایت کاتذکرہ کیا جاچکا ہے ، کہ ’’ دور نبویؐ اور عہد ابوبکر میں تو ہم ایک مٹھی کھجور اور مٹھی بھر ستو دے کر متعہ کرلیا کرتےتھے۔ لیکن عمر و بن حریث کے سلسلہ میں عمر نے ممانعت کردی‘‘(اکمال المعلم شرح مسلم،وشتانی آبی)۔ یہ بڑا واضح ثبوت ہے کہ ایک خاص واقعہ کے سلسلہ میں حضرت عمر نے اپنی ذاتی ناپسندیدگی کے باعث اسے ممنوع قرار دے دیا تھا۔اور ممکن ہے کہ کوئی اس سے بھی زیادہ ناگوار معاملہ پیش ہوا اور آپ نےاپنی تیز مزاجی سے مجبور ہوکر ممانعت کا عام حکم صادر کردیا ہو۔ 
 ورنہ متعہ کے سلسلہ میں نص قرآنی، سنت رسولؐ عمل صحابہ نیز حضرت ابو بکر کے زمانہ کا تعامل اور خود حضرت عمر کے آغاز خلافت تک متعہ کا رواج یہ سب ایسے حقائق ہیں جو بحث و تمحیص سے بالاتر ہیں۔ تاریخ و حدیث کی کتابیں شاہد ہیں کہ عہد رسالت میںبڑے بڑے صحابی اور خاندان قریش کے مشہور افراد دھڑلے سے متعہ کیا کرتے تھے اور اس قسم کے عقد سے ان کی نسل چلی بڑھی ، اورپروان چڑھی۔ 
 چنانچہ سواد اعظم کے معتبر و مستند عالم راغب اصفہانی اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’ المحاضرات‘‘ میں ترقیم فرماتے ہیںکہ متعہ کو حلال کہنے کے سلسلہ میں ایک مرتبہ عبد اللہ ابن زبیر نے جناب عبد الہ ابن عباس کو طعنہ دیا ۔ اس پر ابن عباس نے فرمایا : ’’ اچھا ذرا  اپنی والدہ سے تو پوچھو کہ ان میں اور تمہارے والد بزرگوار میں جو برابر کی آگ لگی ہوئی تھی ‘‘ خیریت سے وہ لگی کیسے؟ عبد اللہ ابن زبیر نے جاکر ماں سے پوچھا بتائیے کہ کیا قصہ ہے؟ انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ ’’ بیٹا! تم متعہ سے پیدا ہوئے ہو‘‘۔ (محاضرات الادباء۳؍۲۱۴۔)
 آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ عبد اللہ کی والدہ جناب اسماء ذات النطاقین حضرت ابو بکر صدیق کی صاحب زادی اور ام المومنین جناب عائشہ کی بہن تھیں جنہیں صحابیٔ رسولؐ زبیر ابن العوام نےمتعہ کے ذریعہ اپنی جیون ساتھی بنایا تھا۔ 
انکار کرنے والے دیکھئے اب کیا فرماتے ہیں؟
 اس واقعہ کے بعد راغب اصفہانی نے ایک اور روایت لکھی ہے اور وہ یہ کہ بصرہ کے کسی بزرگ نے یحییٰ ابن اکثم سے دریافت کیا کہ جو از متعہ کے سلسلہ میں جناب کس کی پیروی فرماتے ہیں:؟ یحییٰ نے جواب دیا۔ عمر ابن خطاب کی ! سائل نے کہا ، یہ کیسے! وہ تو اس معاملہ میں بڑے ہی سخت گیر تھے۔ یحییٰ نے کہا ۔ ہاں! مگر یہ ثابت ہوچکا ہے کہ حضرت عمر نے ایک دفعہ برسرِ منبر اعلان فرمایا تھا کہ’’یا ایھاالناس، متعتان أحلھما اللہ و رسولہ لکم و أنا أحرمھما علیکم و أعاقب علیہما، فقبلنا شھادتہ و لم نقبل تحریمہ‘‘(محاضرات الادباء ۳؍۲۱۴) ’’ لوگو! اللہ اور اس کے رسولؐ نے دو متعہ حلال کئے تھے ، مگر میں انہیںحرام قرار دیتا ہوں۔ نیز خلاف ورزی کرنے والوں کو سزادوں گا‘‘۔ لہٰذا ہم ان کی گواہی کو تو قابل قبول سمجھتے ہیںلیکن موصوف کا حکم ہمارے نزدیک لائق تعمیل نہیں ‘‘۔
 عبد اللہ ابن عمر کے بیان کا بھی تقریباً یہی مفہوم ہے(سنن ترمذی ۳؍۱۸۵؍۸۲۴)۔ البتہ اس ضمن میں خلیفہ ثانی کا جو جملہ شہرت عام رکھتا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں : ’’ متعتان کانتا علیٰ عھد رسول اللہ وانا احرمھما‘‘’’عہد رسالت میںدو متعہ تھے اور میں انہیںحرام کرتا ہوں‘‘
یہاں مکرر عرض ہےکہ اگر حضرت عمر کی ممانعت اسی قسم کی تھی جس پر ہم روشنی ڈال چکے ہیں۔ تب تو معاملہ قدرے آسان ہے ورنہ سخت مشکل ۔ 
اس منزل پر ہمیں پانچویں صدی ہجری کے محقق کامل محمد ابن ادریس حلیؒ کا بھی ایک شہ پارہ یاد آگیا جسے مطابقت اور توضیح مزید کے خیال سے نقل کیا جاتا ہے علامہ ممدوح جنہیں ہمارے علمائے متقدمین میں بہت بڑا درجہ حاصل ہے اپنی بلند پایہ تصنیف ’’ السرائر‘‘ میں ارشا د فرماتے ہیں:
 ’’ نکاح موقت شریعت اسلامی میں جائز ہے۔ اور کتاب خدا، نیز مسلمانوں کے مسلسل اتفاق سے از روئے سنت بھی اس کی مشروعیت ثابت ہے۔ البتہ کچھ لوگوں نے منسوخ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ مگر اس کی درستی محتاج دلیل ہے۔ علاوہ ازیں صحیح دلائل سے یہ بات تسلیم کی جاچکی ہے کہ ہر سود مند کام جس سے حال و استقبال میں کسی نقصان کا اندیشہ نہ ہو، وہ عقلی طور پر مباح ہے اور نکاح متعہ میں یہ وصف موجود ہے۔ بنا بریں عقلاً اس کےجواز کا اقرارضروری ہے اب اگر کوئی صاحب فرمائیں کہ مستقبل میں اس کے ضرر رساں نہ ہونےکی کیا دلیل ہے۔۔ جبکہ اس بارے میں مخالف آرا بھی موجود ہیں۔ تو اس کا جواب یہ کہ بار ثبوت اس پر ہے جو امکان ضرر کا مدعی ہے علاوہ ازیں مسلمانوں کا اجماع بھی اس کا واضح ثبوت ہے اور یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں کہ عقد متعہ آنحضرتؐ کے زمانے میں مباح تھا۔ مگر بعد میں حرمت و تنسیخ کے دعوے ہونے لگےجو ثابت نہیںکئے جاسکے۔ اور اباحت متفقہ طور پر ناقابل انکار لہٰذا مدعیان نسخ و تحریم کی جانب سے کوئی تسلی بخش جواب ملنا چاہئے ۔ اب اگر وہ ان روایات کو دہراتے ہیں جن میں حکم امتناعی پیغمبر اکرمﷺ کی جانب منسوب ہے۔ تو پھر انہیںیہ سننا پڑے گا کہ اس قماش کی تمام حدیثیں ( بشرطیکہ صحیح بھی ہوں ) اخبار آحاد ہیں جو شریعت کی دنیا میں علم و عمل کا موجب نہیں قرار پاسکتیں اور نہ ایسی روایتوں کی بنیاد پر حقائق ثابتہ سے روگردانی جائز ہے۔ 
 محرمات کے تذکرے کے بعد خداوند عالم اپنی کتاب اقدس میں ارشار فرماتا ہےکہ :وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ ۔(ان عورتوں کےعلاوہ دوسری عورتیں تمہارے لئے جائز ہیں مگر شرط یہ کہ بدکاری نہیں بلکہ عفت اخلاق کی غرض سے زر مہردے کر نکاح کرنا چاہو۔ ہاں جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہو انہیں معینہ مہر ادا کر دو اور مہرکے بارےمیں اگر آپس میں مفاہمت کر لو تو کوئی حرج نہیں ( سورہ نساء،۲۴))
آیۂ وافی ھدایۃ میں بحث طلب لفظ’’ استمتعتم ‘‘ہے جس کے بس دو معنی ہیں: ( ۱) انتفاع (۲) التذاذ۔ دوسرامفہوم لغوی ہے اور پہلا اصطلاحی جس سے مراد وہ موقت اور مخصوص عقد ہے جو مقصود شرع ہے۔ 
اب یہاں لغو ی مفہوم تو قابل اعتناء ہونے سے رہا۔ کیونکہ اصول فقہ کےمطابق مسلمہ قاعدہ یہ ہے کہ اگر قرآن کے کسی لفظ سے دو مطلب نکلتے ہوں ایک لغوی اور دوسرا  وہ جسے شریعت نے رائج کیا ہو تو ایسی صورت میںلغت پر اعتبار نہیں کیا جائے گا ۔ شریعت کی بات ماننا پڑے گی اور یہی وجہ ہے کہ لفظ صلوٰۃ ، زکوٰۃ ، صیام اور حج کے سلسلہ میں کسی فرہنگ پر نہیں بلکہ عرف شرع پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ 
نیز اس سے پہلےصراحت ہوچکی ہے کہ صحابہ و تابعین کا ایک مشہور و معروف گروہ اباحت متعہ کا قائل تھا۔ جیسےامیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ ، عبد اللہ ابن عباس جو اس موضوع پر ابن زبیر سے مناظرے فرماتے رہے۔ اور ان مناظروں کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ نہ صرف زباں زد عام ہوئے بلکہ اس زمانے کے شعراء نے بھی طبع آزمائی کی چنانچہ ایک سخنور کہتا ہے :
اقول للشیخ لما طال مجلسہ یا شیخ ھل لک فی فتویٰ ابن عباس
نیز عبد اللہ ابن مسعود، مجاہد، عطا، جابر ابن عبد اللہ انصاری ، سلمہ ابن الاکوع ، ابو سعید خدری، مغیرہ ابن شعبہ، سعید ابن جبیر اور ابن جریح وغیرہم یہ سب کے سب جواز کا فتویٰ دیتے تھے۔ لہٰذا عقد منقطع کے خلاف جانے والوں کا ادعاء صحیح نہیں ہے۔ (السرائر ۲؍۶۱۸۔۶۲۰)
 ارباب بصیر ت ہی اندازہ لاسکتے ہیںکہ اس  بحث میںکتنی متانت پختگی ، اور قوت پائی جاتی ہے۔ خیر! یہاں تک تو اس موضوع پر صرف دینی اور تاریخی حیثیت سے روشنی ڈالی گئی۔ اب آئیے ذرا اخلاقی اور اجتماعی نقطہ نظر سے بھی جائزہ لیتے چلیں: 
 اسلام دنیا کےلئے بہت بڑی نعمت ثابت ہوا۔ توحید کے رسیلے نغمے امرت بن کر برسے جن سے غم نصیب انسانیت کو بے پایاں سکون حاصل ہوا جس طرح یہ مانی ہوئی بات ہے اسی طرح اس حقیقت کا اعتراف بھی لازم ہے کہ دین مبین ہر زمانے کا ساتھ دیتا ہے۔ ہر وقت کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ نیز عالم بشری کی جملہ ضروریات دنیوی و اخروی کا کفیل اور ہرگونہ فلاح و بہبود کا ضامن ہے۔ آئین رحمت میں زحمت کا سوال ہی نہیں۔ آنکھوں سکھ کلیجے ٹھنڈک ۔ ایک دنیا کیا تمام عالموں کےلئے برکت۔ اسی لئے تو یہ کامل ترین مذہب اور آخر شریعت بننے کا حقدار ٹھہرا۔ کون نہیں جانتا کہ قانون الٰہی نے انسانی معاشرہ کو ایسا سنوارا کہ کسی اور دستور کی حاجت نہ رہی۔ 
اتنا جاننےکے بعد اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا افراد انسانی کو کبھی سفر کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ نفی میں جواب ممکن نہیں کیونکہ مشاہدہ بتلاتا ہے کہ لوگ عموماً سفر کرتے ہیں بلکہ غائر نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ جب سے انسان نے ہوش سنبھالا اور اپنے شعور سے کام لینا شروع کیا ۔ اس وقت سے اس نے اپنی معاش کےلئے جو وسیلے اختیار کئے ان میں سفر کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ مختلف ضرورتیں آدمی کو راہ غربت طے کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ مثلاً تجارت ، ملازمت ، تحصیل علم، یا جنگ اور دفاع وغیرہ اور یہ بھی مسلم ہے کہ مذکورہ اغراض کے سلسلہ میں نوجوان یا کم از کم توانا افراد ہی دور دراز ملکوں کا عزم کرسکتےہیں۔ 
اور کسے نہیںمعلوم کہ اس حکیم مطلق نے بقائے نسل و حفظ نوع کےلئے ہیکل انسانی میںجنسی خواہش بھی ودیعت فرمائی ہے۔ اور یہ بھی ظاہرہے کہ ایک مسافر آدمی عقد دائم کے تقاضے پورے کرنےسے قاصر ہوتا ہے۔ نیز لونڈیوں، باندیوں کی فراہمی بھی آسان نہیں۔ ( آج کل تو ناممکن ہے ) لہٰذا ان حالات میں اس مدت کے بچھڑے ہوئے پردیسی کو کیاکرنا چاہئے جو اتفاق سے نو عمر بھی ہو اور مجبور بھی ؟ بس دو ہی صورتیں ممکن ہیں: ضبط نفس یا بدکاری۔ 
۱:۔ مگر ضبط نفس میں نہ صرف مہلک قسم کی مختلف بیماریاں پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے بلکہ نسل کا منقطع ہوجانا بھی کچھ بعید نہیں۔ا ور یہ منافی حکمت ہے۔ شریعت اسلامی بڑی آسان اور آرام دہ شریعت ہے۔ 
سہولت چاہئے ہے شدت نہیں مقصود(۱۷) دین میں کسی پہلو تکلیف نہیں(۱۸) (قرآن)
۲: جنسی بے راہ روی سے خدا محفوظ رکھے آج دنیا کے بیشتر حصے اس کا خمیازہ بھگت رہےہیں۔ 
 خداگواہ ہے اگر مسلمان صحیح طریقہ سے شرعی قوانین پر عامل پیرا ہوجائیں تو حسب وعدہ خداوندی یہ کائنات ان کےلئے سراپا رحمت بن جائے۔ اور اچھے دن پھرواپس آجائیں۔ 
 متعہ بھی دین اسلام کا ایک سود مند قانون ہے۔ اگر مسلمان اس کے شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے یعنی عقد عدہ اور محافظت نسل پر نظر رکھ کر عمل پیرا ہوتے تو بڑی حد تک بدکاریوں کا انسداد ہوجاتا۔ عزتیں محفوظ رہتیں۔ حلال نسلیں بڑھتیںدنیا ناجائز بچوں سے نجات پاتی اور اخلاقی قدروں کو فروغ حاصل ہوتا۔ ’’لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ‘‘، (اعراف ۹۶)
 رئیس ملت حضرت عبد اللہ ابن عباس کے اس جاودانی قول کی تعریف نہیں ہوسکتی ۔ فرماتے ہیں ’’ متعہ ایک رحمت تھا جس سے خداوند عالم نے امت محمدیہ کو نوازا تھا،ا ور اگر اس سے منع نہ کیاجاتا تو سوائے گئے گزرے لوگوںکے اور کوئی زنا کا مرتکب نہ ہوتا‘‘۔ ( ملاحظہ ہو نہایہ ابن اثیر، ج۲،ص۴۸۸ اور الفائق زمخشری،ج۲،ص۲۵۵)
 ابن عباس کے اس پر مغزبیان میں ان کے جلیل القدر استاد اور مربی کلیم الٰہی امیر المومنینؑ کی تعلیم کے اثرات جھلک رہے ہیں اور حقیقت یہ کہ عالم اسلامی نے اس کی نیکی سےمنہ موڑ کر اپنی بدنصیبی کا سامنا کیا ہے۔ ولا حول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم          

(اصل و اصول شیعہ)
حواشی:
(۱)اس سلسلے میں مختلف اقوال ہیں بعض قائل ہیں کہ یہ مباح تھا پھر خیبر کے دن اس سے روک دیا گیا؛ بعض کا نظریہ ہے کہ یہ مباح تھا فتح مکہ کے سال حرام ہوا؛ تیسرے گروہ کی رائے ہےکہ مباح تھا لیکن حجۃالوداع کے موقع پر حرام ہوا؛ چوتھا نظریہ ہے کہ سال اوطاس میں مباح تھا پھر حرام ہوا۔ اس کے علاوہ بھی نظریات ہیں۔ دیکھیے: صحیح مسلم باب نکاح المتعۃ، مجمع الزوائد،ج۴،ص۲۶۴؛ سنن ابی داؤد،ج۲،ص۲۲۷؛ طبقات ابن سعد، ج۴،ص۳۴۸؛ سنن بیہقی، ج۴،ص۳۴۸؛ مصنف ابن ابی شیبہ،ج۴،ص۲۹۲؛ فتح الباری، ج۱۱،ص۷۳؛ سنن دارمی،ج۲،ص۱۴۰؛ سنن ابن ماجہ،حدیث۱۹۶۲
(۲)۔۔۔۔ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ۔۔۔، سورہ طلاق، آیت۱
(۳) دیکھیے: الجامع لاحکام القرآن، قرطبی،ج۵،ص۱۳۰؛ التفسیر الکبیر، رازی، ج۱۰،ص۴۹؛ سنن البیہقی،ج۷،ص۲۰۷
(۴)وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُم۔۔۔؛ (سورہ نساء،آیت۱۲)۔(ترجمہ:)اور تمہیںاپنی بیویوں کے ترکے میں سے اگر ان کی اولاد نہ ہو نصف حصہ ملے گا اور اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے ترکے میں سے چوتھائی تمہارا ہو گا، یہ تقسیم میت کی وصیت پر عمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی اور تمہاری اولاد نہ ہو تو انہیں تمہارے ترکے میں سے چوتھائی ملے گااور اگر تمہاری اولاد ہو تو انہیں تمہارے ترکے میںسے آٹھواں حصہ ملے گا، یہ تقسیم تمہاری وصیت پر عمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی اور اگر کوئی مرد یا عورت بے اولادہو اور والدین بھی زندہ نہ ہوں اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو بھائی اور بہن میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا، پس اگر بہن بھائی ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی حصے میں شریک ہوں گے، یہ تقسیم وصیت پرعمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی، بشرطیکہ ضرر رساں نہ ہو، یہ نصیحت اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ بڑا دانا، بردبار ہے۔
(۵)دیکھیے: الجامع لاحکام القرآن، قرطبی،ج۵،ص۱۳۰؛ التفسیرالکبیر،ج۱۰،ص۵۰
(۶) دیکھیے: سنن ترمذی،۵؍۵۰؛ سنن بیہقی،ج۷،ص۲۰۶؛ الجامع لاحکام القرآن ،قرطبی،ج۵،ص۱۳۰؛ التفسیر الکبیر، رازی،ج۱۰،ص۵۰؛ المبسوط،سرخسی،۵؍۱۵۲
(۷) دیکھیے: الکشف عن وجوہ القراءات السبع، ج۱،ص۳۷۵؛ الجامع لاحکام القرآن، قرطبی،ج۵،ص۱؛ الکشاف زمخشری، ج۱،ص۴۹۲
(۸)دیکھیے: الکشاف،۲؍۱۲۵ و ۳۳۴؛ الجامع لاحکام ۱۲؍۱۰۲؛ و ۱۸؍۲۸۷؛ الکشاف زمخشری ۳؍۲۴ و ۴؍۴۵۶
(۹) سنن ابی داوود، ج۲،ص۲۲۷؛ سنن بیہقی، ج۴، ص۳۴۸؛ طبقات ابن سعد، ج۴،ص۳۴۸
(۱۰) الجامع لاحکام القرآن قرطبی ۵؍۱۳۰؛ سنن بیہقی ۷؍۲۰۲؛ مجمع الزوائد ۴؍۲۶۴؛ فتح الباری۱۱؍۷۳
(۱۱) صحیح مسلم ۲؍۱۰۲۵؛ سنن بیہقی ۷؍۲۰۲؛ سنن دارمی ۲؍۱۴۰؛ مجمع الزوائد ۴؍۲۶۴
(۱۲) صحیح مسلم ۲؍۱۰۲۵؛ سنن بیہقی ۷؍۲۰۲
 (۱۳)صحیح بخاری ۶؍۲۳؛ نیز دیکھئے: صحیح مسلم ۲؍۹۰۰؍۱۷۲؛ التفسیر الکبیر، رازی ۱۰؍۴۹؛ تفسیر البحر المحیط، ابن حیان ۳؍۲۱۸؛ سنن الکبریٰ، بیہقی ۵؍۲۰
(۱۴)صحیح مسلم۲؍۱۰۲۶؍۲۷؛ سنن بیہقی ۷؍۲۰۵۔
 (۱۵)جامع البیان، طبری ۵؍۹؛ نیز دیکھئے: التفسیر الکبیر، رازی ۱۰؍۵۰؛ تفسیرالبحر المحیط، ابن حیان ۳؍۲۱۸؛ الدرالمنثور ۲؍۱۴۰۔
(۱۶) دیکھئے وسائل الشیعہ، حر عاملی ۲۱؍۵۔۸۰،؛ نیز اس سے متعلق متعدد احادیث نقل کی ہیں مخلتف الفاظ کے ساتھ بھی احادیث ہیں، دیکھئے : الفقیہ ۱؍۴۸؍۹۶
(۱۷) ’’یُرِيدُ اللَّـهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ‘‘، سورہ بقرہ، آیت۱۸۵
(۱۸)’’وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ‘‘ ، سورہ حج، آیت۷۸

منگل، 15 دسمبر، 2020

عظیم عالم و شفیق استاد (مولانا ابن حیدر صاحب قبلہ مرحوم)

 باسمہ تعالیٰ

عظیم عالم و شفیق استاذ

مولانا سید ابن حیدر صاحب قبلہ طاب ثراہ


سید محمد حسنین باقری


عالم دین کا دنیا سے رخصت ہونا حدیث معصومؑ کی روشنی بہت بڑا نقصان ہے جس کی بھرپائی ناممکن ہے :

’’إِذَا مَاتَ الْعَالِمُ ثُلِمَ فِی الْإِسْلَامِ ثُلْمَةٌ لَا یَسُدُّهَا شَیْءٌ إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ۔

’’جب کوئی عالم دنیا سے اٹھتا ہے تو اسلام میں ایسا خلا پیدا ہوتا ہے جسے قیامت تک کوئی دوسری چیز پُر نہیں کرسکتی‘‘۔

عالم کے دنیا سے اٹھنے سے پوری کائنات متاثر ہوتی ہے:موتُ العالِم موتُ العالَم، ’’عالِم کی موت پورے عالَم کی موت ہے‘‘۔

استاذ الاساتذہ استاذ معظم علامہ سید ابن حیدر صاحب قبلہ کی رحلت صرف انکے خانوادے کے لیے نہیں بلکہ ہم سب کے لیے عظیم سانحہ ہے ، مرحوم گوناگوں صفات کے حامل تھے، جامعہ ناظمیہ میں شرف تلمذ حاصل ہوا، اس وقت تو زیادہ استفادہ نہ کرسکا جس کا افسوس ہے ،لیکن ۲۰۰۹ء کے آخر میںحوزہ علمیہ قم سے واپسی پر جب مدرسہ سے وابستہ ہوا اس وقت سے مرحوم کے انتقال تک ان کی بہت سی خصوصیات و صفات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ خوش مزاجی، بذلہ سنجی، متانت، بردباری، تحمل،احساس مسئولیت، رأفت و مہربانی، محبت و شفقت، رواداری، وضعداری وغیرہ انکے خصوصیات تھے۔  

احساس مسئولیت کا یہ عالم تھا کہ رٹائرڈ ہونے کے بعد ، پیرانہ سالی، نقاہت و کمزوری،درد و تکلیف اور دشواری و پریشانی کے باوجود اکثر مدرسہ تشریف لاتے حالانکہ آخر عمر میں ان کے لیے انتہائی سخت تھا پھر کمر کی تکلیف کی وجہ سے بیٹھنا مزید دشوار تھا اس کے باجود تشریف لاتے اور اپنے پورے وقت بیٹھے رہتے ، متعدد مرتبہ جب تکلیف دیکھی تو کہا کہ تشریف لے جائیے آرام فرمائیے تو یہی جواب دیا طلاب کا وقت ہے ہوسکتا ہے کوئی پڑھنے آجائے ۔

صاحب علم اور گوناگوں صفات کے مالک ہوکر بھی نہ کبھی غرور و گھمنڈ، نہ نام و نمود کی فکر، نہ القاب کی تمنا ۔ بلکہ ہمیشہ تواضع و انکساری کادامن تھامے رہے جس کا نتیجہ تھا کہ مخالفین بھی علم و کردار کے معترف تھے۔ ذاکر حسینؑ تھے اللہ نے بھی نام امام حسینؑ پر جو شرف عطا کردیا بظاہر کسی اور کے لیے ناممکن ہے، ۱۳۷۱ھ سے ۱۴۴۱ھ تک ۷۱ سال مسلسل ایک ہی منبر پر عشرہ اولیٰ کو خطاب کرناایک ایسا کارنامہ ہے جو کسی کے لیے آسان نہیں ہے۔

مرحوم کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی اگر معلوم ہوجاتا کہ کہیں گھریلو رشتوںمیں نااتفاقی ،زن و شو میں اختلافات ہیں تو فورا مصالحت کے تیار ہوجاتے، اس پیرانہ سالی میں بھی متعدد واقعات سامنے کے ہیں کہ خود لوگوں کے گھروں تک گئے اور اپنے طور پر کوشش کی کہ مسئلہ حل ہوجائے، ایک واقعہ میرے ساتھ کا بھی ہےزوجین کے درمیان نااتفاقی ہوگئی ، مرحوم درمیان میں پڑے ، ایک دفعہ میرے گھر پر بھی تشریف لائے، اس مسئلہ میں مولانا منظر صادق صاحب قبلہ اور مولانا تقی رضا صاحب قبلہ بھی درمیان میں تھے ، اسی معاملہ میں دوبارہ جب بات بڑھی پھر مرحوم سے گزارش کی گئی آپ تیار ہوگئے اور مذکورہ علماء کے ساتھ ایک گھر پر سب جمع ہوئے ، مرحوم بھی کافی دیر تک بیٹھے رہے ، البتہ مصالحت کی کوشش کے باوجود ہنوز نااتفاقی ہے جو انتہائی قابل افسوس ہے۔ اس سلسلے میں صرف یہ گزارش کرنا ہے کہ اس سوشل میڈیا کے بظاہر ترقی یافتہ دور میں گھریلو نااتفاقیوں کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہے ، جس پر تمام موثر افراد کو سنجیدگی سے غور کرنے اور اس کے راہ حل کی کوشش کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ 

مرحوم نہ کسی کی عیب جوئی کرتے نہ غیبت ، علماء کے سلسلے میں بھی احترام کے قائل تھے، کسی نشست میں اور کسی مجلس میں نہ کسی عالم و ذاکر پر طنز کرتے نہ چھیٹا کشی، نہ کسی شخص کو موضوع بناکر مجلس کو خطاب کرتے ۔ اس لیے کہ ان کے سامنے ائمہ معصومین علیہم السلام کی روایات اور سیرت تھی کہ جب مرد مومن کا احترام لازم ہے تو عالم دین کا احترام بدرجہ اولیٰ لازم و ضروری ہے۔ انتہائی افسوس ہے کہ کوئی اپنے کو علی والا کہہ کر کسی شیعہ علی کی توہین کررہا ہو، اس سے بڑھ کر افسوس یہ ہے کہ علماء کی توہین کو اپنا مشغلہ بنا لیا جائے، اور المیہ تو یہ ہے کہ یہ توہین و اہانت، غیبت و الزام تراشی محبت اہل بیتؑ و ولایت امیرالمومنینؑ کو بہانہ بناکر ہورہی ہو۔ اور قابل تعجب یہ ہے کہ تمام احادیث نگاہوں میں ہونے کے باوجود یہ کام اپنے کو عالم کہنے والوں کی طرف سے ہو۔ جبکہ حدیث معصومؑ ہے: ’’من اہان فقیہا مسلِما لقی اللہ یوم القیامۃ وھوعلیہِ غضبان‘‘ جس نے ایک مسلمان فقیہ کی توہین کی وہ قیامت میں خدا سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ خدا اس کے اوپر غضبناک ہوگا ۔(عوالی اللئالی، ج ۱، ص ۳۵۹۔۱۹)

توہین علماء جہاں خدا کے غضب کا سبب ہے وہیں علما کو حقیر سمجھنے کے لئے بھی معصومین علیھم السلام نے سختی سے منع کیا ہے حتی علماء کو حقیر سمجھنے والے کو کافر کہا گیا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث میں ہے: ’’من احتقر صاحب العلم فقد احتقرنی و من احتقرنی فھو کافر‘‘ جس  نے کسی عالم کو حقیر سمجھا اس نے حقیقت میں مجھے حقیر جانا اور جس نے مجھے حقیر جانا وہ کافر ہے (ارشاد القلوب ؍ص؍۱۶۵۔)  

علماء کی عظمت و احترام کے سلسلے میں رسول اعظم ﷺ کا ارشاد گرامی :  اکرموا العلماء فانھم ورثۃ الانبیاء فمن اکرمھم فقد اکرم اللہ و رسولہ ‘‘ بیشک یہ لوگ انبیاء کے وارث ہیں جس نے ان کا احترام کیا اس نے خدا و رسول کا احترام کیا ( نہج الفصاحۃ ، حدیث ۴۵۹)

حتیٰ عالم کے چہرہ کو دیکھنا عبادت ہے، ’’النظر الی وجہ العالم عبادہ‘‘(بحارالانوار، ج ۱ص؍ ۱۹۵)؛ فرمایا: جس نے علماء کی زیارت کی اس نے میری زیارت کی ،’’من زار العلما فقد زارنی‘‘(کنزالعمال، ح؍ ۲۸۸۸) ؛نیز:جس نے علماء کے ساتھ ہم نشینی اختیار کی وہ میرے ساتھ بیٹھا اور جو میرے ساتھ ہم نشین ہوا گویا وہ خدا کے ساتھ ہمنشین ہوا، ’’من جالس العلما فقد جالسنی و من جالسنی فکانماجالس ربی‘‘( ایضا،ح ؍۵۸۹۳)

امیرالمومنینؑ کا رشاد گرامی ہے:۔ ’’اذا رایت عالما فکن لہ خادما;‘‘ جب کسی عالم کو دیکھو تو اس کے خادم بن جائو(بحارالانوار، ج ۱، ص؍۲۰۴)

جب علماء کا احترام لازم ہے تو اہانت و بے احترامی جائز نہیں ہے۔اس بڑھ کر تہمت و الزام تراشی، غیبت و بدگوئی تو یقینا حرام اہل بیتؑ کی ناراضگی کا سبب ہے۔ معاملہ تو اتنا اہم ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی عمل سے ایسا ظاہر ہو کہ انہیں حقیر سمجھا جا رہا ہے اس بات کے پیش نظر علماء کی خدمت میں تواضع و انکساری کے ساتھ جانے کا حکم دیا گیا ہے ۔حدیث میں ہے ’’تواضعوا لعالم وارفعوہ۔۔  عالم کے سامنے تواضع اور فروتنی کا اظہار کرو اور اس کے مرتبہ کو بلند رکھو ( الفردوس جلد ۲؍ص؍۴۵؍ح ۲۲۶۳)۔

علماء کی توہین کا ہمیں حق نہیں ہے ، اسی لیے حتی ان سے بےجا جرّ و بحث سے بھی منع کیا گیا ہےامام رضا علیہ السلام کا ارشاد ہے :’’لاتمارینّ العلماء ‘‘ علماء کے ساتھ مجادلہ اور بحث نہ کرو ،(الاختصاص ،ص ۲۴۵)

امام علی ؑ علماء کے حق کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ان من حق العالم ان لا تکثر علیہ بالسوال ولا تعنتہ فی الجواب و ان لا تلح اذا کسل۔۔۔۔‘‘عالم کا ایک حق یہ ہے کہ اسے اپنے سوالوں کے جال میں پھنسانے کی کوشش نہ کرو،اسے جواب دینے میں زحمت میں نہ ڈالو،جب وہ تھکا ہوا نڈھال ہو تو کسی بات پر اس سے اصرار نہ کرو ۔۔۔ آگے بھی حدیث میں ہے کہ اس کے راز فاش نہ کرو ، اسکی غلطیوں اور خطائوں کی ٹوہ میں نہ رہو ۔۔۔۔۔(جامع البیان ، العلم ، ۱۲۹)

حتی اگر کسی عالم نے ہماری کسی بات کا جواب دیا اور ہم اس سے مطمئن نہیں ہوئے تو اس عدم اطمینان کے اظہار کے لئے بھی شایستہ الفاظ کا انتخاب ضروری ہے یہ حق کسی کو نہیں ہے کہ ایک عالم جب کوئی بات کہے اور وہ ہمارے منشا کے مطابق نہ ہو یا ہمارے لئے اطمینان آور نہ ہو تو ہم اس کے سامنے دس دوسرے علماء کی بات رکھیں اور اسکا دوسروں سے تقابل کرتے ہوئے کہیں حضور آپ تو یہ کہتے ہیں فلاں عالم کا نظریہ اس بارے میں یہ ہے اور فلاں صاحب یہ فرماتے ہیں فلان دوسرے عالم تو آپ کے بالکل خلاف یوں کہتے ہیں! چنانچہ روایت میں ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : ’’کسی عالم کے سامنے بہت زیادہ یہ نہ ہو کہ ’’قال فلان و قال فلان خلافا لقولہ ‘‘ فلاں کا کہنا یہ ہے اور فلاں تو آپ کے برعکس یہ کہتے ہیں ( اصول کافی جلد ؍۱ص؍ ۷َ۳)

کریم پروردگار کی بحق اہل بیتؑ دعا ہے کہ مرحوم کو جوار معصومینؑ عطا فرمائے، ہم سب کو علوم آل محمدؐ سے آراستہ ہونے، علماء کا احترام کرنے، صحیح ولایت کو پہچان کر اس کے تقاضوں کا پورا کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ 


حکیم امت ڈاکٹر کلب صادق طاب ثراہ

باسمہ تعالیٰ

حکیم امت ڈاکٹر کلب صادق طاب ثراہ

سید محمد حسنین باقری

باسمہ تعالی

حکیم امت 

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام :
و العُلَماءُ باقونَ ما بَقِيَ الدَّهرُ ، أعيانُهُم مَفقودَةٌ ، و أمثالُهُم فِي القُلوبِ مَوجودَةٌ 
 صاحبان علم زمانہ کی بقا کے ساتھ زندہ رہنے والے ہیں ، اگرچہ ان کے جسم نظروں سے اوجھل ہو گئے لیکن ان کی یادیں ، انکے آثار دلوں پر نقش ہیں ۔ 
(نہج البلاغہ، حکمت ۱۴۷)
حکیم اور ڈاکٹر کا کام مرض کی تشخیص اور اس کا مداوا ہے، محترم ڈاکٹر کلب صادق نقوی اس ذات کا نام ہے جس نے امت کے مرض کو سمجھا اور اس کے علاج کے لیے جو کرسکتے تھے اس میں دریغ نہیں کیا۔ اگر انھیں حکیم امت کہا گیا تو انھوں نے اس لقب کی لاج رکھی اور ملک و قوم کے مرض کو تشخیص دیتے پوری عمر اس کے علاج میں صرف کردی۔ 
یہ حقیقت ہے کہ جہالت و غربت فرد کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں اور ملک و قوم کو بھی، علم واقتصاد ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ فطرت انسانی والے الٰہی دین، اسلام نے جہالت و غربت کے خاتمے کے لیے تاکید بھی کی اور محمد و آل محمد علیہم السلام کی شکل میں عملی نمونے بھی پیش کیے۔ مرحوم کلب صادق صاحب کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ انھوں نے اسلام کے اس اساسی پیغام کو اپنا مشن بنا لیا اور ملک و قوم سے غربت و جہالت کے خاتمے کے لیے جو کر سکتے تھے انھوں نے کیا۔
علمی میدانوں میں ان کے بے لوث خدمات کے گواہ یونٹی ، مدینۃالعلوم اور ارا میڈکل کالج ہیںاور اقتصادی میدان میں توحید المسلمین ٹرسٹ ہے۔
قابل ذکر ہے کہ انھوں نے قوم کے لیے اپنے کو جوانی ہی سے وقف کردیا تھا، آج بھی بہت سے گواہ موجود ہیں کہ عالم جوانی ہی سے ان کے اندر کچھ کرنے کا نہ صرف جذبہ و حوصلہ تھا بلکہ عملی کوششیں شروع کردی تھیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے بہت سے خدمات اکثریت ناواقف ہے لیکن جو سامنے ہے وہی کم نہیں ہے۔
 اگر انھوں نے اسلامی اصول پر عمل کرتے ہوئے وقت کی پابندی اپنی پہچان بنائی جو ہر انسان کے اندر ہونا چاہیے ۔اور ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ پہچان آسان تھی  اس سلسلے میں ابتداء میں انتہائی سخت اور حساس مرحلے سے بھی گزرے، بعض ایسے بھی مواقع آئے کہ وقت کی پابندی ناممکن یا بہت دشوار تھی لیکن انھوں نے سب کچھ برداشت کرتے ہوئے اپنے اصول سے پیچھے ہٹنا گوارا نہیں، اور اتنی پابندی کی کہ ہر جگہ ہر پروگرام میں ہر شخص کو معلوم تھا کہ اگر کلب صادق صاحب کا نام ہے تو جس وقت کا اعلان ہے پروگرام اسی وقت شروع ہوگا۔
اسی طرح انھوں نے اتحاد بین المسلمین ہی نہیں بلکہ اتحاد بین المذاہب کی بھی کوشش کی اور اس سلسلے میں اپنے حساب سے ہر اقدام کیا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اختلاف و جھگڑے کسی کے حق میں نہیں ہوتے جبکہ اتحاد و بھائی چارہ فرد و گروہ ، ملک و قوم اور مذہب و ملت سب کے حق میں مثبت اثرات رکھتا ہے۔ اگر تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ہر دور میں طاغوت اور شیطان صفت افراد اپنے غیر انسانی مقاصد کے لیے اختلاف و جھگڑے کا سہارا لیتے ہیں ، ’’قوموں کو لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ یہ شیطانی حربہ ہمیشہ اور ہر جگہ استعمال ہوتا ہے، لیکن اس کے مقابل اسلام کا آفاقی پیغام اتحاد و بھائی چارہ اور میل جول کارہا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسلام تمام انسانوں کی بھلائی چاہتا اور تمام نوع بشر کو ہر طرح کے نقصانات سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے ، اس کے لیے تمام احکامات کے ساتھ اس نے اختلاف و جھگڑے سے روکتے ہوئے آپسی میل جول اور اتحاد و بھائی چارہ کو لازم قرار دیا ہے۔ مولانا ڈاکٹر کلب صادق صاحب نے اتحاد کے لیے ہر کوشش کی، اور ملک و قوم سے نفرتوں کو مٹانے کے لیے نہ صرف زبانی بلکہ عملی اقدامات کیے۔
مرحوم کا اہم کارنامہ قوم و ملت سے غربت و جہالت کے خاتمہ کو اپنا مشن بنالینا ہے۔ اقتصادی میدان میں بھی ابتدائے جوانی سے شہر میں مختلف امور انجام دیتے رہے، گھروں گھروں جاکر ضرورتوں کو سمجھنا اور حتی الامکان اس کے لیے کوشش کرنا، لوگوں کو کاروبار کرنے کے لیے سہارا دینا، سود جیسے حرام عمل سے بچانے اور لوگوں کو نقصان سے محفوظ رکھنے کے لیے سامان گروی رکھ کر قرض دینے کا سلسلہ شروع کرنا، پھر توحیدالمسلمین ٹرسٹ کی شکل میں ایک مضبوط ادارہ قائم کرکے مختلف شکلوں میں لوگوں کی مدد کرنا ایسے خدمات ہیں جنھیں برسوں یاد رکھا جائے گا۔تعلیمی میدان میں بھی ان کے عملی اقدام اظہر من الشمس ہیں ،۔
ضرورت یہی ہے کہ ان بنیادی مسائل کو سب ملکر اپنا مشن بنائیں ، اسلام کے آفاقی پیغام قوم کو ترقی یافتہ دیکھنا ، اس کے لیے علمی اور اقتصادی میدانوں میں جو کوشش کرسکتے ہیں وہ کوشش کریں ۔ بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اپنے درمیان سے جہالت اور غربت کے خاتمے کو اپنا مشن بنایا جائے ۔ اور شائد مرحوم کو صحیح خراج عقیدت یہی ہو کہ ان کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے جو بھی جتنا کرسکتا ہو وہ کرے۔

حضرت فاطمہ زہرا علیہاالسلام کی فضلیت و برتری جناب مریم سلام اللہ علیہا پر

 باسمہ تعالیٰ

حضرت فاطمہ زہرا علیہاالسلام کی فضلیت و برتری جناب مریم سلام اللہ علیہا پر

 آیت کی روشنی میں 

سید محمد حسنین باقری


آیت(وَ إِذْ قالَتِ الْمَلائِكَةُ يا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفاكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفاكِ عَلي‏ نِساءِ الْعالَمِينَ) (آل عمران، آیت۴۲)کے سلسلے میں وضاحت:

۱۔ اس آیت میں عالمین سے مراد تمام زمانے نہیں ہیں بلکہ خاص زمانہ ہے،جس کی دلیل مندرجہ ذیل روایات ہیں ۔

الف: سیوطی نے اپنی تفسیر میں عبدالرزاق اور عبد بن حمید کے ذریعہ قتادہ سے نقل کیا ہے کہ : ہر زمانہ کے لیے ایک عالَم ہے۔(الدر المنثور فی تفسیر المأثور،جلال الدین سیوطی، جلد ۱، صفحہ ۶۸، کتابخانہ آیت الله مرعشی نجفی، قم، ۱۴۰۴ھ)

ب: فخر رازی نے اس آیت ’’انی فضلتکم علی العالمین‘‘ (میں نے تم کو عالمین پر فضیلت عطا کی ہے ) یہ آیت پیغمبر کو شامل نہیں ہے، کہا ہے: بنی اسرائیل کو اپنے زمانے کے  لوگوں پر فضیلت و برتری حاصل ہےلیکن پیغمبرؐ اس زمانے میں نہیں تھے اور جس زمانے میں موجود نہیں تھے لہذا آپؐ کا شمار عالمین میں نہیں ہوگا اس لیے کہ معدوم شیٔ کا شمار عالمین میں نہیں ہوتا۔( مفاتیح الغیب،فخرالدین رازی ابوعبدالله محمد بن عمر، ج۲، ص۴۴۴، دار احیاء التراث العربی، طبع سوم، بیروت،۱۴۲۰ھ)(لہذا یہ آیت حضرت فاطمہ کو بھی شامل نہیں ہوگی یعنی حضرت فاطمہ پر جناب مریم کی فضیلت اس آیت سے ثابت نہیں ہوگی)

ج: اسحاق بن بشر اور ابن عساکر نے ابن عباس سے اس آیت’’ و  اصطفاک علی نساء العالمین‘‘ کے سلسلے میں نقل کیا ہے کہ اس آیت کا مطلب ہے: ’’تم کو چنا ہے تمہارے اپنے زمانے کےلوگوں پر۔(تفسیر در منثور، ج۲،ص۲۴)

  ۲۔ اہل سنت کی روایات میں آیت کی تخصیص:(کہ جناب مریم صرف اپنے زمانے پر فضیلت رکھتی ہیں اور حضرت فاطمہ تمام زمانوں پر)

الف: اس آیت کے ضمن میں ’’ وَ أَنِّی فَضَّلْتُکُمْ عَلَى الْعالَمِینَ» [سورہ بقرہ، آیت ۴۷ و ۱۲۲] کہ خداوند عالم بنی اسرائیل سے فرمایاتا ہے:ہم نے تم کو عالمین پر برتری عطا کی کسی مسلمان کو اس میں شک نہیں کہ یہ آیت پیغمبر کو شامل نہیں ہے جبکہ بظاہر یہ آیت عام ہے۔جب پیغمبر کو شامل نہیں ہے تو اس کی عمومیت ختم ہوگئی۔

سیوطی نے اپنی تفسیر میں عبدالرزاق اور عبد بن حمید کے ذریعہ قتادہ سے و انی فضلتکم علی العالمین کے سلسلے میں نقل کیا ہے کہ وہ اپنے زمانے کے لوگوںپر فضیلت ہیں۔ (در منثور،ج۱،ص۶۸)

 فخر رازی نے اس آیت کے سلسلے میں کہا کہ اپنےزمانے کے لوگوں پر فضیلت رکھتی ہیں۔(مفاتیح الغیب، ج۳، ص۴۸۴)

ب. وَ اصْطَفاکِ عَلى‏ نِساءِ الْعالَمِینَ» [سورہ آل عمران، آیت ۴۲]  کے سلسلے میں اہل سنت کے نظریات:

سیوطی نے اپنی تفسیر میں اس آیت  «عَلى‏ نِساءِ الْعالَمِینَ»  کے سلسلے میں لکھا کہ اپنے زمانے کی امت پر [تفسیر در منثور،ج۲،ص۲۴]

ایک اور اہل سنت مفسر نے لکھا کہ : خدا وند عالم نے جناب عیسی کی ماں(مریم ) کو منتخب کیا اور انھیں پاک قرار دیا اور انھیں اپنے زمانے کی عورتوں پر فضیلت عطا کی(تفسیر وسیط، سید محمد طنطاوی،ج۲،ص۱۰۱)

۳۔عالمین کی عورتوں پر فضیلت جناب مریم سے مخصوص نہیں ہے یہ برتری تو دیگر خواتین کو بھی حاصل ہے جیسا کہ پیغمبر کی مشہور حدیث ہے جسے انس ابن مالک نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ نے فرمایا: دنیا کی عورتوں میں فضلیت رکھنے والی چار خواتین ہیں: مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزحم زوجہ فرعون، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت رسول اللہ۔ (فتح القدیر،  محمد بن علی شوکانی، ج۱، ص۳۹۰، دار ابن کثیر، دار الکلم الطیب، طبع اول، دمشق، بیروت،۱۴۱۴ھ؛ تفسیر ابن کثیر دمشقی، تحقیق: محمد حسین شمس الدین، ج۲، ص۳۴، دار الکتب العلمیہ، منشورات محمد علی بیضون،طبع اول، بیروت،۱۴۱۹ھ ؛مستدرک الصحیحین ج 3 باب مناقب فاطِمَہ ص 171/ سیر أعلام النبلاء ج 2 ص 126/ البدایہ والنھایہ ج 2 ص 59/ مناقب الإمام علی لابن المغازلی ص 363.)

جبکہ آیت تطہیر اور آیہ مباہلہ و دیگر آیات کی روشنی میں حضرت فاطمہ زہراؑ کو تمام کائنات پر فضیلت حاصل ہے۔

اس کے علاوہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی جناب مریم علیہا السلام پر برتری و فضلیت کے لیے دیگر امور میں بطور اشارہ:

۱۔ خاندانی شرافت۔ ۲۔ پیغمبرؐ جیسا باپ۔ ۳۔ علیؑ جیسا شوہر۔ ۴۔ حسنینؑ جیسے بیٹے۔ ۵۔ ولادت کے وقت خواتین کا حاضر ہونا

۶۔ آسمانی نام(جناب مریم کا نام ماں نے رکھا ’’انی سمیتھا مریم‘‘ جبکہ حضرت فاطمہ نام خدا نے رکھا)۔ ۷۔ پیغمبرؐ جیسا کفیل و سرپرست 

۸۔ جائے تربیت۔ (حضرت مریم کے لیے؛ ’’کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَکَرِیَّا المِحْرَابَ‘‘ اور حضرت فاطمہؑ کے لیے:’’فِی بُیُوتٍ اَذِنَ اللّه ُ أنْ تُرفَعَ وَ یُذکَرَ فِیهَا اسْمُهُ...‘‘) ۹۔ مقام ولایت الٰہی ۔ ۱۰۔ حضرت فاطمہؑ کی نسل میں امامت کا ہونا۔ ۱۱۔ کوثر کے ذریعہ خطاب۔ ۱۲۔ میدان محشر کے سلسلے میں پیغمبر کی روایات

۱۳۔ نبیؑ جیسی ذات کا کھڑے ہونا(صحیح ترمذی وغیرہ)

۱۴۔ حضرت فاطمہ کی خوشی کو رسولؐ و خدا کی خوشی قرار دینا اور حضرت زہرا کی ناراضگی کو رسولؐ و خدا کی ناراضگی قرار دینا(پیغمبرؐ کی متفق علیہ روایات )

۱۵۔یہ حدیث حضرت فاطمہ ؑ کے سلسلے میں : ’’فاطمة سيدة نساء أهل الجنة‘‘(کنز العمّال ج13 ص94/ صحیح البخاری، کتاب الفضائل، باب مناقب فاطمہ/ البدایہ والنھایہ ج 2 ص61)

۱۶۔ متفق علیہ حدیث ’’فاطمۃ بضعۃ منی‘‘۔ ۱۷۔ إنّما سمّیت فاطمة لأنّ الله عزّوجلّ فطم من أحبّها من النّار»(مجمع الزوائد : 9/201)

مریم از یک نسبت عیسی عزیز از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز

نور چشم رحمة للعالمین آن امام اولین و آخرین

بانوی آن تاجدار ’’ہل اتے‘‘ مرتضی مشکل گشا شیر خدا

مادر آن مرکز پرگار عشق مادر آن کاروان سالار عشق

مزرع تسلیم را حاصل بتول مادران را اسوۂ کامل بتول

رشتۂ آئین حق زنجیر پاست پاس فرمان جناب مصطفی است

ورنہ گرد تربتش گردیدمی سجدہ ہا بر خاک او پاشیدمی (علامہ اقبال)

ترجمہ:حضرت مریمؑ تو حضرت عیسٰیؑ سے نسبت کی بنا پر عزیز ہیں جبکہ حضرت فاطمہ الزاھرہؑ ایسی تین نسبتوں سے عزیز ہیں۔ پہلی نسبت یہ کہ آپؓ رحمتہ للعالمینﷺ کی نورِنظر ھیں، جو پہلوں اور آخروں کے امام ہیں۔ دوسری نسبت یہ کہ آپؓ " ہل اتی " کے تاجدار کی حرم ھیں۔ جو اللہ کے شیر ہیں اور مشکلیں آسان کر دیتے ہیں۔ تیسری نسبت یہ کہ آپؓ اُن کی ماں ہیں جن میں سے ایک عشقِ حق کی پرکار کے مرکز بنے اور دوسرے عشقِ حق کے قافلے کے سالار بنے۔ حضرت فاطمہؓ تسلیم کی کھیتی کا حاصل تھیں اور آپ مسلمان ماوں کے لئے اسوہ کامل بن گئیں۔ اللہ تعالٰی کی قانون کی ڈوری نے میرے پاوں باندھ رکھے ہیں۔ رسول اللہﷺ کے فرمان کا پاس مجھے روک رہا ہے، ورنہ میں حضرت فاطمہؓ کے مزار کا طواف کرتا اور اس مقام پر سجدہ ریز ہوتا۔