حضرت فاطمہؑ ولایت کی فدائی
آیۃاللہ مصباح
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی سیرت کو اپنانا اس دور میں ان کے ماننے والوں کے لئے سب سے زیادہ ضروری اور اہمیت کا باعث ہے۔ سب سے پہلے ہم کو آپ کی سیرت کا مطالعہ کرنا چاہئے اس کے بعد اس کو اپنانا چاہئے تاکہ ہمارا شمار آپ کے حقیقی چاہنے والوں میں ہوں۔
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت میں اہم ترین چیز یہ ہیکہ آپ نے امامت اور ولایت کے دفاع کے لئے کسی بھی قسم کی کوئی بھی کمی نہیں کی، ان سخت حالات کے باوجود آپ نے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کو لوگوں کو اپنے خطبوں کے ذریعہ بتایا۔
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو ولایت کا فدائی کہا جاتا ہے کیونکہ آپ نے اپنی مختصر زندگی میں رسول خداﷺکی وفات کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا اس طرح دفاع کیا کہ تاریخ میں ہمیشہ کے لئے ثبت ہوگیا۔
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا، شمع امامت کا وہ پروانہ تھیں جس نے امامت اور ولایت کے عشق اور محبت میں اپنے آپ کو قربان کردیا اور ہم کو یہ بتادیا کہ دیکھو امامِ برحق کعبہ کی طرح ہے۔ لوگوں کو چاہئے کہ وہ کعبہ کا طواف کریں نہ کہ کعبہ لوگوں کا طواف کرتا ہے: مَثَلُ الاِمامِ مَثَلُ الْكَعْبَةِ اِذْ تُؤْتى وَ لا تَأْتى[بحار الأنوار، ج۳۶، ص۳۵۳] امام کعبہ کی طرح ہے اس کے پاس جاتے ہیں وہ تمھارے پاس نہیں آتا. یہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا تھیں جنھوں نے اپنے آپ کو قربان کرکے ولایت کو بچایا اور ایک لمحہ بھی ولیّ امر کی اطاعت سے روگردانی نہیں کی۔
جس وقت حضرت علی علیہ السلام کو مسجد کوفہ کی جانب لے جایا جارہا تھا، حالانکہ اس وقت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا شدید زخمی تھیں، اس زخمی حالت میں بھی آپ نے اپنے آپ کو حضرت علی علیہ السلام اور ان لوگوں کے درمیان پہنچایا اور فرمایا: خدا کی قسم میں ابوالحسن کو اس طرح ظلم سہتے ہوئے مسجد کی جانب جانے نہیں دونگی[ نوادر الاخبارفیما یتعلق باصول الدین، فیض کاشانی، ص ۱۸۳]. اس کے بعد بھی جب حضرت علی علیہ السلام کو مسجد کی جانب لے جایا گیا، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا مسجد میں داخل ہوئیں اور فرمایا:’’ابوالحسن کو چھوڑ دو! خدا کی قسم جس نے حضرت محمدﷺکو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، اگر تم لوگوں نے ابوالحسن کو نہیں چھوڑا تو میں اپنے بالوں کو بکھرادونگی اور رسول خداﷺکی قمیص کو اپنے سر پر رکھ کر خدا کی بارگاہ میں فریاد کرونگی‘‘۔[بحار الانوار، ج۲۸، ص۲۰۶]
جب حضرت علی علیہ السلام کے اشارہ پر جناب سلمان نے آپ کو نفرین کرنے سے منع کیا اور گھر واپس جانے کے لئے کہا، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نےفرمایا: وہ لوگ حضرت علی علیہ السلام کو قتل کرنا چاہ رہے ہیں اور میں علی علیہ السلام کے قتل پر صبر نہیں کرسکتی۔[بحار،ص۲۲۸]
تمام لوگ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے اس شدید دفاع کی وجہ سے ڈر گئے اور مجبور ہوکر امام علی علیہ السلام کو آزاد کردیا، جب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا تو فرمایا: «روُحی لِروُحِکَ الْفِداءُ وَ نَفْسی لِنَفْسِکَ الْوَقاءُ یا اَبَاالْحَسَنِ[نہج الحیاۃ، ص۱۵۹، ح ۷۵٫] اے ابوالحسن! میری روح آپ کی روح پر فدا ہوجائے، میری جان آپ پر قربان ہوجائے، میں ہمشہ آپ کے ساتھ رہونگی۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شخصیت وہ ہے کہ جس نے اپنے والد کی رسول خداﷺ اور اپنے شوہر حضرت علی علیہ السلام کی ولیّ خدا ہونے کے اعتبار سے اطاعت کی۔
اور اسلام کی خدمت کی، ایسی خدمت جو عالم اسلام میں کوئی پیش نہ کرسکا، اگر حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے وہ ہدایت سے بھرے ہوئے خطبے نہ ہوتے تو آج ہم کو بھی اس بات کا یقین نہ ہوتا کہ حق حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ ہے کیونکہ نفاق، کینہ، دنیا پرستی، سادہ لوحی، سیاست بازی، لالچ، جھوٹی تبلیغ، تحریف اس طرح رائج ہوگئے تھے اور امامت کو اس طرح کمزور کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ کوئی حضرت علی علیہ السلام کی حق پر مبتنی آواز کو سننے کے لئے بھی تیار نہیں تھا۔
نتیجہ: رسالت اور امامت، انسان کی خلقت کے ہدف کو تحقق بخشنے کا سبب ہیں، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی ذات تھی جس نے امامت کو ایک دوسری حیات بخشی اور رسالت اپنا پھل دینے کے لائق ہوئی اور انسان کو اس کی خلقت کے مقصد کے نزدیک کیا۔(جامی از زلال کوثر،ص۱۴۵)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں