جمعہ، 3 اگست، 2018

ولایت الٰہی ، ولایت اہلبیتؑ سے جدا نہیں ہوسکتی

ولایت الٰہی ، ولایت اہلبیتؑ سے جدا نہیں ہوسکتی
آیۃاللہ مصباح یزدی مد ظلہ
ترجمہ: سید محمد حسنین باقری
قرآن کی نظر میں حزب اللہ (الہی گروہ ) کی اہم خصوصیت’ تسلیم ولایت‘
قرآن کریم نے دو آیات میں ’’حزب اللہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ایک سورہ  مائدہ آیت ۵۵ و ۵۶ میں:
إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ. وَ مَنْ يَتَوَلَّ اللّهَ وَ رَسُولَهُ وَ الَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْغالِبُونَ؛
(ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔اور جو بھی اللہ ,رسول اور صاحبانِ ایمان کو اپنا سرپرست بنائے گا تو ’’اللہ کی ہی جماعت‘‘ غالب آنے والی ہے)
یہ آیۂ کریمہ نماز میں رکوع کی حالت میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے مشہور انفاق کے سلسلے میں ہے۔شیعہ و سنّی مفسرین و محدثین نے اس آیت کے شان نزول کے سلسلے میں بیان کیا ہے کہ ایک سائل مسجد میں آیا دست سوال دراز کیا لیکن کسی نے اس کو کچھ نہیں دیا۔ امیرالمومنین علیہ السلام جو اس وقت نماز میں مشغول تھے اور رکوع کی حالت میں تھے، سائل کی طرف اشارہ فرمایا اور اپنی انگوٹھی اسے دے دی۔اس واقعہ کے بعد مذکورہ آیت امام علی علیہ السلام کی عظمت و منزلت کے سلسلے میں نازل ہوئی۔ اس آیت میں جو لفظ زکات استعمال ہوا ہے وہ قرآن کی اصطلاح میں واجبی زکات سے مخصوص نہیں ہےبلکہ واجبی و مستحبی دونوں طرح کی زکات کو شامل ہے ۔
بہر صورت آیت آگے بیان کرتی ہے: جو لوگ خدا، رسول اور ذکر شدہ اوصاف کے حامل مومنین کی ولایت کو تسلیم کریں وہی ’’حزب اللہ‘‘ ہیں۔
لہذا خداوند عالم نے ’’صاحبان ولایت ‘‘ اور ’’حزب اللہ‘‘ کو ایک قرار دیا ہے۔
دوسری آیت جس میں حزب اللہ کی تعبیر بیان ہوئی ہے، سورہ مجادلہ کی آیت ۲۲ ہے:
لا تَجِدُ قَوْماً يُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ يُوادُّونَ مَنْ حَادَّ اللّهَ وَ رَسُولَهُ وَ لَوْ كانُوا آباءَهُمْ أَوْ أَبْناءَهُمْ أَوْ إِخْوانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمانَ وَ أَيَّدَهُمْ بِرُوح مِنْهُ وَ يُدْخِلُهُمْ جَنّات تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ خالِدِينَ فِيها رَضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ أُولئِكَ حِزْبُ اللّهِ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ؛
خداوند عالم نے اس آیت میں بھی ’’اہل ولایت‘‘ اور ’’حزب اللہ‘‘ کے اوصاف بیان کئے ہیںاور ارشاد فرمایا ہے:
’’آپ کبھی نہ دیکھیں گے کہ جو قوم اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھنے والی ہے وہ ان لوگوں سے دوستی کررہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی کرنے والے ہیں چاہے وہ ان کے باپ دادا یا اولاد یا برادران یا عشیرہ اور قبیلہ والے ہی کیوں نہ ہوں ‘‘- 
خدا کے اوپر ایمان اور دشمنان خدا کے ساتھ دوستی ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتی۔ پھر ارشاد ہوتا ہے:ان کی جزا یہ ہے کہ’’ اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان لکھ دیا ہے‘‘ ( كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمانَ)۔ ان کی دوسری جزا یہ ہے کہ ’’اپنی خاص روح کے ذریعہ تائید کی ہے ‘‘ ( وَ أَيَّدَهُمْ بِرُوح مِنْه) روح الٰہی یہ بارگاہ الٰہی کا ایک عظیم و مقرب فرشتہ ہے۔ یہ دو جزائیں دنیا سے متعلق ہیں۔ان کی اخروی جزا جنت میں داخلہ ہے(: وَ يُدْخِلُهُمْ جَنّات تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ خالِدِينَ فِيها)رضوان خدا اور خوشنودیٔ خدا ان سے ہے:( رَضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْه)اور خدا کی خوشنودی عظیم ہے۔اور یہی عظیم کامیابی ہے۔وہ انہیں ان جنّتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ ا ن ہی میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے - خدا ان سے راضی ہوگا اور وہ خدا سے راضی ہوں گے یہی لوگ اللہ کا گروہ ہیں اور آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ کا گروہ ہی نجات پانے والا ہے‘‘۔
البتہ یہ بات کہ خدا کی خوشنودی کیا ہے؟ اس کا ثر کیسے ظاہر ہوتا ہے؟اور بنیادی طور پر یہ نعمت تمام بہشتی نعمتوں سے افضل ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ہماری اس وقت کی بحث سے خارج ہیں۔
بہر حال خداوند عالم نے اپنے بندوں و اپنے اولیاء کے لئے سب سے بڑا اجر و انعام اپنی رضا و خوشنودی کو قرار دیا ہے۔ اور اہل ولایت اس اجر سے بہرہ مند ہیں اور یہ رضایت دو طرفہ یعنی خدا اور اہل ولایت کے درمیان ہے ۔ خدا بھی ان سے راضی ہے اور وہ بھی خدا سے راضی ہیں: ’’ رَضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ‘‘۔پھر فرماتا ہے:یہ خدا کے گروہ ہیں اور فلاح و کامیابی ان کے لئے ہے:’’أُولئِكَ حِزْبُ اللّهِ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.‘‘۔
مذکورہ دونوں آیات(مائدہ ۵۶ اور مجادلہ ۲۲) کے مطالعہ اور دونوں کو آپس میں ربط دینے سے بخوبی یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام ہی ’’حزب اللہ‘‘ (الٰہی گروہ) کے واقعی و حقیقی اور مکمل مصداق ہیں۔ برترین کامیابی انہیں کے شایان شان ہے۔ اس کے علاوہ اس دنیا میں ہمیشہ خداکی جانب سے تائید یافتہ ہیں: ’’و ایّدھم بروح منہ‘‘ اگر ہم یہ دعوی کریں کہ اس طرح کی تائید ( روح منہ کے ذریعہ) اس دنیا میں سب سے عظیم الٰہی نعمت ہے، تو یہ غلط دعوی نہیں ہے اس دنیا میں بہت سی نعمتیں ہیں جن سے مومن کافر سب بہرہ مند ہوتے ہیں مثلاً زندگی، عقل، صحت و سلامتی، لباس و غذا و مکان۔۔۔لیکن اس دنیا میں کچھ نعمتیں ایسی بھی ہیں جو ان افراد سے مخصوص ہیں جو اپنی عقل سے بہتر طریقہ سے استفادہ کریں۔ اگر انسان اپنی عقل سے صحیح طور پر استفادہ کرےتو خداوندعالم اس کی عقل کو مزید نورانی بنادیتا ہے۔ ہدایت کی نعمت ابتدا میں تو تمام لوگوں کے اختیار میں ہے لیکن اس نعمت سے استفادہ وہی لوگ کرتے ہیں جو اہل تقوی ہوں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ خدا کی جانب سے غیبی تائید اور مدد سے بہرہ مند ہونے کے حقدار ہوجاتے ہیں۔ یہاں پر خدا کی جانب سے غیبی تائید سے بہرہ مند ہونے کا سب سے بڑا مرتبہ یہ ہے کہ خداوندعالم انتہائی عظیم فرشتے کے ذریعہ کسی کی تائید کرے۔ یہ فرشتہ انسان کو شیطان اور دوسرے انحرافی عوامل سے محفوظ رکھتا ہے اور شیطان کے مقابل مغلوب نہیں ہونے دیتا۔ بہر صورت جو لوگ اپنے مختلف مراتب کے ساتھ الٰہی تائید حاصل کرنے کے مستحق ہوجاتے ہیں وہی ’’حزب اللہ‘‘ (الٰہی گروہ) کہے جاتے ہیں۔
حزب اللہ کے مقابل دوسرا گروہ ہے جسے قرآن نے ’’حزب الشیطان‘‘ کہا ہے۔ حزب الشیطان کی تعبیر قرآن میں صرف ایک جگہ سورہ مجادلہ آیت ۱۹ میں آئی ہے اور قرآن نے اسی سورہ (آیت ۲۲) میں قبل اس کے کہ حزب اللہ اور اس کے اوصاف کے بارے میں گفتگو کرے، آیات ۱۴ تا ۱۹ میں شیطانی گروہ اور اس کی خصوصیات کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ الٰہی گروہ (حزب اللہ) وہ لوگ ہیں جنھوں نے خدا کی ولایت کو تسلیم کیا اور اس کو اپنا ولی مانا ہے اور ولایت الٰہی کو قبول کرنے کے بعد جب ان کے سامنے نبیؐ کو پیش کیا گیا تو نبیؐ کی ولایت کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ لوگ پیغمبرؐ کی ولایت کے بعد ان کے جانشینوں یعنی ائمہ معصومینؑ کی ولایت کو بھی قبول کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں اپنے آخری وظیفہ کو بھی پورا کیا ہے تو خدا بھی اپنا عظیم انعام انہیں عطا کرتا ہے۔ اس کے مقابل شیطانی گروہ خدا کی ولایت، رسولؐ کی ولایت اور ائمہؑ کی ولایت سے محروم ہے اور اپنے کو شیطان کی ولایت کا تابع قرار دیا ہے اس کی پیروی کرتا ہے۔
صاحب ولایت بننے  کیلئے دو عوامل کی ضرورت ہے:
توجہ رکھنا چاہئے کہ خدا کی ولایت ، رسولؐ کی ولایت، امیرالمومنینؑ کی ولایت اور ائمہ معصومینؑ کی ولایت کے مختلف مراتب ہیں اور وہ تمام لوگ جو اس ولایت سے بہرہ مند ہیں وہ سب ایک درجہ میں نہیں ہیں۔ اس ولایت کے بالاترین درجہ پر پہنچنے کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہے: ۱)معرفت و شناخت۔ ۲) مضبوط ارادہ رکھنا و عمل کرنا۔
اسلامی تاریخ میں بہت سے افراد نے پیغمبر اکرمﷺؑ کوپہچانا، آپؐ پر ایمان لائے اور جو کچھ ان کے اختیار میں تھا اسے اسلام کی تقویت کے راستے میں بروئے کار لائے اور اس سلسلے میں اپنی طرف سے کسی کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کیا لیکن ان کی کوتاہی و کمی پیغمبر ﷺ کے جانشین کو پہچاننے میں ہے۔ البتہ ایسا نہیں ہے کہ ہمیشہ اس سلسلے میں ان کی جانب سے کوتاہی تھی بلکہ ان میں سے بہت سوں کو شناخت و معرفت کی توفیق نصیب نہیں ہوئی اگر اہل بیتؑ کی ولایت ان کے لئے ثابت ہوجاتی تو تسلیم کرنے میں تامّل نہ کرتے یہ لوگ ولایت ائمہ معصومین علیہم السلام کے اعتبار سے کمزوری و معرفت میں کمی میں مبتلا ہیں۔
بعض لوگ پہلے عامل (شناخت) میں کوئی دشواری نہیں رکھتے ان کا معاملہ دوسرے عامل میں ہے ان لوگوں نے اپنے عمل میں کوتاہی و کمی کا مظاہرہ کیا اور اپنے عمل و وظیفہ کو بجا نہ لائے۔
دوسری طرف جو لوگ معرفت کے تمام مراحل کو حاصل کرلیں یعنی خدا کی معرفت، رسول خداؐ کی معرفت، پیغمبرؐ کے جانشینوں کی معرفت میں کامیاب ہوجائیں اور مقام عمل میں بھی ان کےاحکامات و فرامین پر عمل پیرا ہوں اور امتحان کے مرحلے سے کامیابی سے گزرجائیں یہی لوگ ’’حزب اللہ‘‘ کا مصداق ہیں اور مکمل و مطلق کامیابی انہیں افراد کے لئے ہے: ’’ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ‘‘(مجادلہ؍۲۲) لہذا، حزب اللہ اور اہل ولایت کے زمرہ میں آنے کے لئے انسان خدا کی جانب سے دو طرح کی توفیقات کا محتاج ہے پہلی توفیق معرفت و شناخت کا حاصل کرنا اور دوسری توفیق حاصل شدہ معرفت کے مطابق عمل کی توفیق۔ مقام عمل میں خدا کی جانب سے سخت امتحان کا ایک مرحلہ اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب ایک شخص کی دنیاوی زندگی کی لذتیں و منافع اس کے عقائد کے ساتھ مطابقت و ہماہنگی نہ رکھتے ہوں۔ بہ الفاظ دیگر اگر اپنے عقائد کے مطابق عمل کرنا چاہے تو مجبور ہو کہ اپنی بعض لذتوں اور خوشیوں سے صرف نظر کرے۔ ایسے موقع پر اس کے لئے امتحان کی زمین فراہم ہوتی ہے کہ آیا اپنی لذت و منفعت کو مقدم کرے یا جس پر ایمان لایا ہے اس پر کاربند رہے۔ اگر اس طرح کا امتحان ہمارے سامنے پیش آجائے تو کیا جو عہد و پیمان ہم نے اولیائے خدا سے باندھا ہے اس پر وفادار رہیں گے۔
ولایت کے مفہوم میں تامّل و فکر
یہاں پر جس مطلب کی جانب غور و فکر اور تامل کرنا شائد ضروری ہو وہ یہ ہے کہ ولایت خدا، ولایت نبیؐ اور ولایت ائمہ معصومینؑ سے مراد کیا ہے؟ 
جواب سے پہلے یہ نکتہ قابل غور ہے کہ کسی زبان کے ایک کلمہ کو بعینہ دوسری زبان میں ترجمہ کرنا آسان نہیں ہے۔ بسا اوقات ناممکن ہے۔ جو لوگ زبان شناسی اور مختلف زبانوں سے آشنائی رکھتے ہیں اور اہل ترجمہ ہیں وہ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں ۔ مثلاً کبھی کسی لفظ کوایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنے کے لئے توضیح کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک کلمہ جو عربی سے فارسی یا اردو زبان میں منتقل کرنے کے لئے اس طرح کی مشکل سے دوچار ہے، کلمۂ ’’ولایت‘‘ ہے۔
ولایت کا ترجمہ کبھی دوستی کرتے ہیں۔ اگر اس معنی کو اختیار کریں تو اہل ولایت وہ لوگ ہیں جو اہل بیت علیہم السلام کو دوست رکھتے ہیں۔ کبھی ولایت کا معنی اطاعت و پیروی کرتے ہیں۔ اس معنی کے مطابق اہل ولایت یعنی وہ لوگ جو اہل بیتؑ کی اطاعت کرتے ہیں۔ کبھی اس لفظ کو نصرت و مدد اور سرپرستی وغیرہ کے معنی میں بیان کرتے ہیں۔
قرآن کریم نے متعدد جگہوں پر اس کلمہ کو استعمال کیا ہے۔ مثلاً ارشاد ہوتا ہے ’’تمہارا ولی صرف خدا ہے اور رسول ہیں اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور نماز قائم کرتے اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں‘‘ (سورہ مائدہ آیت ۵۵ و ۵۶) اس ولی سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں ان کے بعد ائمہ معصومین علیہم السلام ہیں ۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ولایت امیرالمومنینؑ اور ولایت ائمہؑ کس معنی میں ہے؟
اگر اس طرح کی آیات میں ولایت سے دوستی اور دوست رکھنے کے معنی اختیار کریں تو عالم اسلام میں جو لوگ ولایت سے محروم ہوں وہ بہت کم ہیں۔ یہانتک کہا جاسکتا ہے کہ آج تو اس طرح کے لوگوں کا کوئی اثر بھی باقی نہیں ہے اور ان کی نسل ختم ہوچکی ہے۔ گذشتہ زمانے میں ناصبی یا خارجی کے عنوان سے کچھ لوگ تھے جو اہل بیتؑ کے دشمن تھے۔ اور اس طرح کے لوگوں کے بارے میں تو خدا و رسول پر ایمان ہی میں شک کرنا چاہیے یعنی جو اہل بیتؑ سے دشمنی رکھتے ہوں وہ خدا و رسول پر ایمان ہی نہیں رکھتے۔پیغمبر اکرمﷺ نے اہل بیتؑ کے سلسلے میں جو تاکیدات و سفارشات فرمائی ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے لازم ہے کہ جو بھی پیغمبرﷺ پر ایمان رکھتا ہو وہ اہل بیتؑ سے بھی محبت کرتا ہو۔
بہر صورت آج شائد ہی کوئی ایسا مسلمان ہو جو ولایت کا اہل بیت سے دوستی کے معنی میں قائل نہ ہویعنی ولایت بمعنای دوستی کا ہر مسلمان قائل ہے۔ میں نے دنیا کے مختلف ممالک میں نزدیک سے دیکھا ہے کہ تمام مسلمان اہل بیتؑ سے لگاؤ رکھتے ہیں۔ حتی ان میں سے بعض اہل سنت تو ایسے بھی ہیں کہ محبت اور اظہار دوستی کے مرحلے میں ہم شیعوں سے کم نہیں ہیں۔ایک دفعہ میں حرم معصومۂ قم کے متولی کے ساتھ ملیشیا گیا تھا ایک دن ہم لوگ مصری سنّی عالم کے مہمان تھے۔ وہاں دوسرے مصری حضرات بھی موجود تھے۔ ایک مصری مہمان نے اہل بیتؑ کی شان میں اشعار پڑھےکہ میں اور حرم معصومہ کے متولی روپڑے۔ قابل غور ہے کہ ایک سنی مذہب، ایک دوسرے ملک میں اہل بیتؑ و امیرالمومنینؑ کی شان میں اتنے خوبصورت اور عالی شان اشعار پڑھتا ہے کہ انسان کو متاثر کردیتا ہے۔ اسی سفر میں ایک سنی مصری عالم جو سعودی عرب سے وابستہ ادارہ رابطۃالعالم الاسلامی کی طرف سے ایک جگہ پر تبلیغ کررہا تھا اس سے میں نے کہا کہ تم لوگ بھی اہل بیتؑ سے لگاؤ اور ان سے محبت کرتے ہو! اس نے جواب دیا: آپ کیا کہہ رہے ہیں!آپ دوستی کی بات کرتے ہیں! ’’نحن مفتونون باھل البیتؑ‘‘۔ ہم تو اہل بیتؑ کے گرویدہ اور شیدائی ہیں۔
لہذا اگر ولایت کا مطلب دوستی ہو تو شائد ہی ایسے افراد ملیں جو اسلام کا دعوی بھی کرتے ہوں اور اہل بیتؑ سے دوستی نہ کرتے ہوں۔ البتہ صدر اسلام میں ایسے منافق موجود تھے جو بظاہر تو پیغمبرﷺ سے لگاؤ کا اظہار کرتے تھے لیکن در حقیقت ایمان نہیں رکھتے تھے اسی وجہ سے ان کا رابطہ اہل بیت پیغمبرؑ سے بھی ٹھیک نہیں تھا۔
بہر حال ولایت کے سلسلے میں اہل بیتؑ سے محبت و دوستی سے بڑھ کر اور اس سے آگے کا معاملہ ہے، ولایت اہل بیتؑ سے مراد صرف اظہار محبت اور دوستی کرنا نہیں ہے۔
غدیر، ولایت کا روشن ترجمان:شائد سب سے واضح و روشن چیز جو امیرالمومنینؑ و اہل بیت علیہم السلام کی ولایت کو بیان کرے وہ حدیث غدیر ہے۔ واقعہ غدیر بطور متواتر شیعہ و سنی تمام علمائے اسلام سے نقل ہوا ہے۔ بعض نے اس مسئلہ کو بیان کرنے اور اس کی وضاحت میں اپنی پوری عمر صرف کی ہے۔ ان میں ایک ذات ہمارے زمانے کی علامہ امینیؒ صاحب الغدیر ہیں۔
بابرکت کتاب الغدیر علامہ امینیؒ کی زندگی کا ماحصل اور حدیث غدیر و ناقابل فراموش واقعہ غدیر کے سلسلے میں ایک عظیم الشان انسائیکلوپیڈیاہے۔علامہ امینیؒ نے متعدد جلدوں میں یہ کتاب تحریر فرمائی لیکن مع الاسف ابھی تک آخر کی جلدیں شائع نہیں ہوسکی ہیں۔ مرحوم نے اس کتاب کے سلسلے میں بہت زیادہ زحمات برداشت کی تھیں۔ بہر صورت غدیر کا معاملہ انتہائی اہم اور قابل توجہ ہے۔
پیغمبر اکرمﷺ نے اپنے آخری حج جسے حجۃالوداع کہا جاتا ہے اس پر روانہ ہونے سے قبل اعلان کروادیا کہ تمام مسلمان اور جولوگ چل سکتے ہوں تمام اسلامی ممالک سے وہ مناسک حج سیکھنے کے لئے مکہ کے لئے تیار ہوں اسی وجہ سے اس سال اس زمانے کا سب سے بڑا مسلمانوں کا اجتماع تھا جنھوں نے پیغمبرﷺ کے ساتھ اعمال حج انجام دئیے۔ جب اعمال حج انجام پذیر ہوگئے تو مسلمان اپنے شہروں کو واپسی کے لئے مکہ سے نکلے جب ایسے مرکز پر پہنچے جہاں سے قافلوں کے راستے الگ ہوتے تھے تو پیغمبرﷺ نے حکم دیا کہ سب ٹھہریں اور سامان سفر اتاریں۔ جیسا کہ اسلامی روایات میں آیا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے اس حکم کی وجہ یہ تھی کہ جبرئیل امین نازل ہوئے اور خدا کی جانب سے اہم پیغام لائے کہ پیغمبرﷺ اسی جگہ پر لوگوں کے لئے اعلان کریں۔ ظہر کا وقت نزدیک تھا آفتاب اپنے نصف النہار پر تھا شدید گرمی تھی۔ نبی اکرمﷺ نے حکم دیا جو لوگ آگے بڑھ گئے ہیں واپس آئیں اور جو لوگ رہ گئے ہیں ان کا انتظار کیا جائے تاکہ وہ بھی پہنچ جائیں۔ اہم پیغام ہے لہذا تمام مسلمانوں کا شریک رہنا ضروری ہے۔
کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ تمام اہتمام اور انتظامات صرف اس لئے تھے کہ پیغمبرﷺ یہ فرمائیں کہ علیؑ سے محبت کرو اور ان کو دوست مانو؟ کیا اس سے قبل اہل بیتؑ سے محبت کے سلسلے میں متعدد آیتیں نازل نہیں ہوچکی تھیں؟ کیا اس سے قبل پیغمبرﷺ نے متعدد مرتبہ امیرالمومنینؑ اور اہل بیت علیہم السلام سے محبت و مودت کے لئے تاکید نہیں فرمائی تھی؟ واقعا کیا ضرورت تھی کہ نبیﷺ کی زندگی کے آخری ایام میں اس انتہائی سخت دھوپ اور گرمی میں اس عظیم مجمع کے درمیان محبت کا پیغام دیا جائے؟
شیعہ و سنی اجماع کے مطابق اس دن یہ آیت نازل ہوئی: ’’ يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النّاسِ إِنَّ اللّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكافِرِينَ‘‘ (سورہ مائدہ، ۶۷)۔
خداوند عالم اپنے نبی سے فرماتا ہے: اگر لوگوں تک یہ پیغام نہ پہنچایا تو اپنی رسالت کا فریضہ ہی انجام نہیں دیا: وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ؛ اس پیغام کو پہنچانے میں لوگوں سے نہ ڈریے، خدا  آپ کی حفاظت کرےگا: وَ اللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النّاسِ.کیا یہ کہنا کہ’’ علیؑ سے محبت کرو‘‘ اتنا خطرناک تھا کہ خدا کو پیغمبرﷺ کی حفاظت کی ذمہ دای لینی پڑی؟
لہذا ماننا پڑےگا کہ غدیر کا معاملہ محبت و مودت سے بھی بڑھ کر ہے۔پیغمبرﷺ نے اس دن ولایت کے مسئلہ کو پیش کرتے ہوئے فرمایاـ: مَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ فَهذا عَلِىُّ مَوْلاهُ. اب سوال یہ ہے کہ اس ولایت کے کیا معنی ہیں؟
ولایت کےلغوی معنی:
’’ولایت‘‘کا مادہ ’’و ل ی‘‘ ہے اوریہ اس وقت ہے کہ جب دو چیزیں ایک ساتھ اس طرح قرار پائیں کہ دونوں کے درمیان کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ مثلا یہ کہا جاتا ہے کہ ھذا العدد يلى عدداً آخر؛ يعنی:یہ عدد دوسرے عدد کے فورا بعد ہےمثلا تین کا عدد دو کے بعد ہےْاس کی وضاحت کے لئے ’ارتباط‘‘، ’’اتصال‘‘، وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کئے جاسکتے ہیںالبتہ ان میں سے کوئی لفظ بھی ولایت کے مکمل معنی بیان نہیں کرتا ہے۔
جب یہ لفظ دو ذی شعور موجودات مثلا دو انسانوں کے لئے استعمال ہو تو اس وقت یہ معنی ہونگے کہ دونوں کے درمیان مضبوط رابطہ پایا جاتا ہے جو ان کے وجود کے تمام مراحل کو گھیرے ہوئے ہے۔ ایسی صورت میں جو رابطہ دو انسانوں کے درمیان پایا جاتا ہے وہ دو جسموں کے رابطے سے مختلف ہے۔ بالفاظ دیگر مادہ ’’و ل ی‘‘ کے ایک عام معنی ہیں کہ جب بھی صاحب شعور موجود کی حیثیت سے انسان کے سلسلے میں استعمال ہو تو دو انسانوں کے درمیان رابطے کے لئے انسانی تمام مراحل کو مدنظر قرار دیا جائے۔ اور یہ رابطہ ایسا ہے کہ دو انسانوں کو آپس میں اتنا نزدیک کردیتا ہے کہ دونوں کے درمیان کسی طرح کی کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہ جاتی۔ 
انسانی مراحل کو تین چیزوں میں بیان کیا جاسکتا ہے:  ۱) شناخت و معرفت۔ ۲) احساسات و عواطف و محبت۔ ۳) سابقہ دونوں قسموں یعنی شناخت و احساسات کا نتیجہ و حاصل جمع۔ جب بھی ’’و ل ی‘‘ کا مادہ دو انسانوں کے بارے میں استعمال ہو تو اس وقت یہ معنی ہونگے کہ دونوں اس حد تک ایک دوسرے سے قریب ہوئے ہیں کہ مذکورہ بالا تینوں چیزوں میں ایک ہو گئے ہیں۔ یعنی دونوں کی شناخت و معرفت ایک جیسی ہے۔ دونوں کے احساسات و عواطف آپس میں ملے ہوئے ہیں کہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیںاور دونوں کا کردار و رفتار بھی ایک دوسرے سے مشابہ ہے۔ ولایت حقیقی کا مفہوم اس رابطہ کو بیان کرنا ہے۔
لہذا ولایت کا رابطہ طرفینی رابطہ ہے۔ اور دونوں ایک دوسرے کی بنسبت اثرانداز بھی ہیں اور اثر پذیر بھی۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب دو دوستوں کی فکر و احساسات ایک ہوں تو عمل و کردار میں ایک دوسرے پر اثر ڈالتے ہیں۔ یہ اُس پر اثر ڈالتا ہے وہ اِس پر اثر انداز ہوتا ہے۔ 
’’وَٱلْمُؤْمِنُونَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍ‘‘(سورہ توبہ ۷۱) [مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں سب ایک دوسرے کے ولی ہیں] یعنی یہ مومن اُس مومن کا ولی ہے اور وہ مومن اِس مومن کا ولی ہے۔ اور دونوں ایک دوسرے پر اثر ڈالتے ہیں۔ البتہ موجود ذی شعور انسان سے مخصوص نہیں ہے ممکن ہے یہ رابطہ ’’انسان‘‘ اور ’’خدا‘‘ کے درمیان وجود میں آئے۔
خدا اور انسان کے درمیان رابطۂ ولایت کی وضاحت
جن جگہوں پر خدا اور انسان کے درمیان رابطہ برقرار ہوتا ہے تو کیا اس رابطہ کا مطلب یہ ہے کہ خدا ہمارے اوپر اثر انداز ہوتا ہے اور ہم خدا پر اثر انداز ہوتے ہیں؟ جواب واضح ہے: یقیناً اس صورت میں تعامل و تفاعل کی کوئی صورت نہیں ہے یعنی طرفینی معاملہ نہیں ہے بلکہ اثرانداز ہونا اور تاثیر گزاری صرف خداوندعالم کی جانب سے ہے۔ خدا اور انسان کے درمیان ولایت کے رابطہ کا یہ مطلب ہے کہ انسان کی شناخت، خدائی شناخت ہوجاتی ہے، اس کی محبت خدا کی محبت اور اس کی رفتار خدائی رفتار ہوجاتی ہے۔ ایسا انسان خدا کو سب سے زیادہ چاہتا ہے۔
’’۔۔۔وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّـهِ۔۔۔‘‘ (سورہ بقرہ، ۱۶۵) [ایمان والوںکی تمام تر محبّت خدا سے ہوتی ہے]۔ لہذا خدا اور انسان کے درمیان ولایت کے رابطے میں خدا انسان سے اثر نہیں قبول کرتا بلکہ بنیادی طور پر خداوندعالم کسی بھی چیز سے اثر قبول نہیں کرتا۔ البتہ یہاں پر بھی ولایت طرفینی ہے یہ بھی کہا جاتا ہے: ’’ٱللَّـهُ وَلِىُّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟۔۔۔‘‘ (بقرہ، ۲۵۷) [اللہ صاحبانِ ایمان کا ولی ہے]۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے : ’’اشھد انّ علیّا ولی اللہ‘‘۔ یا۔ ’’أَلَآ إِنَّ أَوْلِيَآءَ ٱللَّـهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ‘‘ (سورہ یونس، ۶۲) [آگاہ ہوجاؤ کہ اولیاء خدا پر نہ خوف طاری ہوتا ہے اور نہ وہ محزون اور رنجیدہ ہوتے ہیں]۔ البتہ باوجودیکہ یہاں پر ولایت طرفینی ہے لیکن اثر ڈالنا صرف ایک جانب سے ہے بالفاظ دیگر اتصال کا رابطہ دوطرفہ ہے انسان بھی خدا سے نزدیک ہے اور خدا بھی انسان سے نزدیک ہے لیکن تاثیر و تاثّر طرفینی نہیں ہے۔
دوانسانوں کے درمیان اور خدا و انسان کے درمیان رابطۂ ولایت کے علاوہ کبھی یہ رابطہ فرد اور اجتماع کے درمیان ہوتا ہے: ’’‘ٱلنَّبِىُّ أَوْلَىٰ بِٱلْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ‘‘ (احزاب، ۶) [بیشک نبی تمام مومنین سے ان کے نفس کے بہ نسبت زیادہ اولیٰ ہے]۔ اس جگہ پر رابطہ ولایت میں ایک طرف خود پیغمبر اکرم ﷺ ہیں اور دوسری طرف امت اسلامی ہے۔ اور کبھی اس ولایت کو ’’ولایۃالنبی علی الامۃ‘‘ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ کلی طور پر جب بھی ’’ولایت امر‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس سے انسانوں کے ایک گروہ کا رابطہ ولی امر سے مراد ہوتا ہے۔ لہذا ولی امر مسلمین وہ شخص ہے جو لوگوں سے مضبوط و مستحکم رابطہ رکھتا ہو اور لوگ اجتماعی و سیاسی امور میں بغیر کسی فاصلہ کے اس کے پیچھے چلتے ہوں اور اس سے اثر قبول کرتے ہوں۔ 
پیغمبر و اہلبیت علیہم السلام کی ولایت کو تسلیم کرنا، ولایت الٰہی کے تسلیم کرنے کا لازمہ ہے
ولایت در حقیقت صرف خدا کے لئے ہے: اللّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا‘‘ (بقرہ، ۲۵۷) ، لیکن ممکن ہے کہ خود خداوند عالم کسی کو ولی بنائے جیسا کہ اس نےیہ کام پیغمبر اور ائمہ معصومین علیہم السلام کےلئے انجام دیا: ’’إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ‘‘ (سورہ مائدہ، ۵۵) 
خداوند عالم جو انسان پر ذاتی و بنیادی ولایت رکھتا ہے اس نے اپنے بعد ولایت کے سب سے بالاترین مرتبہ کو پیغمبر اکرم ﷺ کےلئے قرار دیا ہے، وہ سب سے عظیم و برتر انسان ہیں مومنین کےلئے ضروری ہے کہ ان کے ساتھ رابطہ ولایت برقرار کریں۔ انھوں نے چونکہ پیغمبر ؐکو اپنا ولی مانا ہے لہذا ضروری ہے کہ اپنی شناخت و معرفت کو انھیں کے تابع قرار دیں اور اپنے دین کو انھیں سے لیں:’’كَما أَرْسَلْنا فِيكُمْ رَسُولاً مِنْكُمْ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَ يُزَكِّيكُمْ وَ يُعَلِّمُكُمُ الْكِتابَ وَ الْحِكْمَةَ وَ يُعَلِّمُكُمْ ما لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ‘‘ (بقرہ، ۱۵۱)۔ 
[جس طرح ہم نے تمہارے درمیان تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے جو تم پر ہماری آیات کی تلاوت کرتاہے تمہیں پاک و پاکیزہ بنا تا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور وہ سب کچھ بتاتاہے جو تم نہیں جانتے تھے]
البتہ یہ پیروی اور اتباع محبت کی بنیاد پر ہے اور مومنین پیغمبرؐ کے ساتھ محبت کے برترین رابطہ کو برقرار کرتے ہیں۔
 ’’قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَ اللّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ‘‘(آل عمران، ۳۱)
اگر خدا سے محبت کے دعوے میں سچے ہوتو میری (پیغمبرؐ کی) پیروی کرو۔ چونکہ میں خدا کا نمائندہ اور جو خدا نے تم سے چاہا ہے اسے بیان کرنے والا ہوں۔ 
اگر کوئی کسی سے محبت کرتا ہے تو اس فکر میں ہوتا ہے کہ معلوم کرے اس کا محبوب اس سے کیا چاہتا ہے تاکہ اسے انجام دے۔ اسی وجہ سے یہ آیت بھی کہہ رہی ہے: اگر خدا سے محبت کا دعوی ہے تو خدا کیا چاہ رہا ہے اسے معلوم کرو پھر اسی کی پیروی کرو۔ خدا کیا چاہتا ہے اسے پیغمبرؐ بیان فرمائیں گے لہذا اگر واقعی خدا سے سچی محبت ہے تو پیغمبرؐ کی اطاعت کرو۔ اس کی دلیل بھی یہ ہے کہ تم مستقیم طور پر خدا سے مرتبط نہیں ہوا اور اس کی مطلوبہ چیزوں کو ڈائرکٹ حاصل نہیں کر رہے ہو لہذا تم یہ نہیں جانتے کہ تمہارا محبوب تم سے کیا چاہتا ہے: ’’۔۔۔وَمَا كَانَ ٱللَّـهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى ٱلْغَيْبِ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّـهَ يَجْتَبِى مِن رُّسُلِهِۦ مَن يَشَآءُ۔۔۔‘‘(سورہ آل عمران، ۱۷۹)۔[اور وہ تم کو غیب پر مطلع بھی نہیں کرنا چاہتا ہاں اپنے نمائندوں میں سے کچھ لوگوں کو اس کام کے لئے منتخب کرلیتا ہے]۔ تم اس مرتبہ پر فائز نہیں ہو کہ مستقیم طور پر خدا سے رابطہ برقرار کرسکو لیکن خداوندعالم نے کچھ لوگوں کو منتخب کیا جو یہ صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کے ذریعہ اپنی مرضی اور اپنی مطلوبہ چیزوں کو تم تک پہنچاتا ہے۔ جب پیغمبرؐ کے ذریعہ خدا کی مرضی تم تک پہنچی تو اگر خدا سے محبت کرنے میں سچے ہو تو پیغمبر اکرم ﷺ کی تعلیمات کی پیروی کرو تاکہ خدا بھی تم سے محبت کرے۔
کیا کسی عاشق کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی بات پسندیدہ و مطلوب ہوسکتی ہے کہ اس کا معشوق اس سے محبت کرتا ہو؟! کیا اس سے بڑھ کر اس کو خوش کرنے والی کوئی بات ہے کہ اس کو معلوم ہوجائے کہ اس کا معشوق اس سے راضی و خوشنود ہے؟! عاشق کے لئے تو معشوق کی مسکراہٹ اور اس کی مرضی کو حاصل کرلینا ہی بہت شیریں ہوتا ہے۔ اب اگر یہ معشوق خداوندعالم ہوتو اس کی مرضی تو سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوگی: ’’۔۔۔وَرِضْوَٰنٌ مِّنَ ٱللَّـهِ أَكْبَرُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ  ‘‘(سورہ توبہ، ۷۲) [اور اللہ کی مرضی تو سب سے بڑی چیز ہے اور یہی ایک عظیم کامیابی ہے]۔
بہر حال ولایت الٰہی کو تسلیم کرنے کا لازمہ یہ ہے کہ اپنی معرفت کو خدا سے حاصل کیجئے اور اس کی محبت دل میں رکھیے۔ جب بھی خدا کے ساتھ اس طرح کی معرفت و محبت والا رابطہ برقرار ہوگا تو یقیناً آ پ کا طور طریقہ اور رفتار و کردار بھی اسی کے ارادے کا تابع ہوگا۔ یہ وہی ’’ولایت اللہ‘‘ ہے۔ اس ولایت کے بعد اور اس کے ذیل میں رسول اکرمﷺ کی ولایت سامنے آتی ہے اور رسولﷺ کی ولایت کے بعد یہ ولایت امیرالمومنین علیہ السلام میں متجلی ہوتی ہے۔ امام علی علیہ السلام سورۂ مائدہ آیت ۵۵ میں ’’الذین آمنوا‘‘ کے ذریعہ پہچنوائے گئے ہیں۔ سنی شیعہ محدثین و مفسرین کے مطابق یہ آیت امیرالمومنین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اور آپؑ کے بعد تمام ائمہ معصومین علیہم السلام خاص ادلّہ کے ذریعہ اس ولایت میں شامل ہیں۔
لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ جو بھی واقعی طور پر ایمان رکھتا ہو اور الہی ولایت کو تسلیم کرتا ہو اس کے لئے ضروری ہے رسول خداﷺ کی ولایت سے بھی بہرہ مند ہو اور تمام وجود کے ساتھ پیغمبرﷺ سے محبت کرے اور آنحضرتؐ کے احکام کی پیروی کرے۔
اسلام میں ولایت منحصر ہے رسول اکرمﷺ سے
تمام مسلمانوں اور جو لوگ رسول اکرمﷺ کی ولایت رکھتے ہیں اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں رکھتے کہ اپنے دین کی معرفت رسول کریمﷺ سے حاصل کریں۔ اختلاف اس میں ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد کس کی بات حجت ہے اور اپنی معرفت و شناخت کے لئے کس کی طرف رجوع کریں۔اکثر مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر ﷺ کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو بطور مستقیم ہم تک صحیح و یقینی معرفت پہنچا سکے لہذا کسی کی بات بھی حجت نہیں ہے۔ اور ہم کلام خدا یعنی قرآن کے علاوہ کوئی حجت نہیں رکھتے۔ اس کے مقابل ایک گروہ کا یہ عقیدہ ہے کہ بہت سی دلیلیں موجود ہیں جنھوں نے پیغمبر ﷺ کے بعد مسلمانوں کے وظیفہ کو معین کردیا ہے۔ مثلاً یہ آیت: ’’إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ ٱللَّـهُ وَرَسُولُهُۥ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱلَّذِينَ يُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٰةَ وَهُمْ رَٰكِعُونَ‘‘، (سورہ مائدہ، ۵۵) نیز مشہور و معروف حدیث ثقلین: ’’ إنّى تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللّهِ وَ عِتْرَتِى... ‘‘(بحارالانوار،جلد۲۳، باب۷، روایت۶۹)۔ اس روایت میں پیغمبر اکرمﷺ کی عترت کو قرآن کے مساوی و ہم پلہ اور قرآن کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ اہل بیتؑ کا کلام خدا کے کلام کی طرح معتبر ہے اسی وجہ سے ہم شیعہ پیغمبرؐ کے خاندان کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی طرح ہی محبت کرتے ہیں۔ اس لئے کہ ائمہ اطہار علیہم السلام پیغمبر اکرمﷺ کی طرح خداوندعالم کے نزدیک قرب و منزلت رکھتے ہیں۔
ولایت الٰہی پیغمبر اکرم ﷺ میں جلوہ گر ہوئی آپؑ کے بعد اس شخص میں آئی جس کی منزلت کو پیغمبر اکرمﷺ نے اپنی بنسبت جناب موسیٰؑ سے ہارونؑ کی نسبت کو قرار دیا یعنی وہ ذات گرامی جس سے آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’انت منی بمنزلۃ ھارون من موسی الا انّہ لا نبیّ بعدی‘‘ (بحار، ج۲۱، باب۲۷، روایت۵)۔ اے علیؑ! تم میری بنسبت اسی طرح ہو جس طرح ہاورنؑ موسیٰؑ کی بنسبت تھے سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
شیعہ و سنی کے نزدیک معتبر نقل کے مطابق پیغمبر اسلامﷺ نے اس حدیث کو امیرالمومنین علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا۔ اس حدیث کے مطابق جس طرح جناب ہارونؑ جناب موسیٰؑ کے جانشین تھے اسی طرح حضرت علی علیہ السلام بھی پیغمبرﷺ کے جانشین و خلیفہ ہیں اور ان دونوں میں فرق صرف نبوت و امامت کا ہے اسی وجہ سے اہل بیت علیہم السلام رسول خدا ﷺ کے عِدل و مساوی شمار ہوتے ہیں۔
اس اعتبار سے اگر کوئی ولایت خدا کو تسلیم کرنے میں صادق ہو تو اس کا لازمہ نبی اکرمﷺ کی پیروی اور آپ کی ولایت کو تسلیم کرنا ہے۔اسی طرح اگر کوئی رسول اکرمﷺ کی ولایت کو قبول کرنے میں صادق ہو تو اس کا لازمہ ائمہ اطہار علیہم السلام کی ولایت کو تسلیم کرنا اور ان کی پیروی ہے؛ اس لئے کہ یہ حضرات رسول کریمﷺ کے جانشین ہیں اور ان کی اطاعت و پیروی آنحضرتؐ کی پیروی ہے۔عوام کے لئے اس نکتہ کی وضاحت ضروری ہے اس لئے کہ صرف اسی صورت میں لوگوں کا دین کامل ہوکر ان کے عقائد کمی و نقصان سے محفوظ رہیں گے۔ جیسا کہ بہت سی روایات میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبرؐ و ائمہ معصومینؑ کی ولایت کو تسلیم کئے بغیر دین کامل نہیں ہوگا۔
ائمہ اطہار علیہم السلام کی بنسبت معرفت و شناخت کو حاصل کرنے کے بعد نوبت آتی ہے عمل کی۔ ضروری ہے کہ مقام عمل میں بھی ائمہ معصومین علیہم السلام کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہوئے انکی پیروی کریں۔ مسلمانوں کے لئے سردار و حاکم ہے جس کے احکام و دستورات کی پیروی ان پر لازم ہے یعنی وہی چیز جس کی غدیر کے دن نبی اکرمﷺ نے تاکید فرمائی: مَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ فَهذا عَلِىٌّ مَوْلاهُ‘‘ یہ وہی چیز ہے جس کی بنیاد پر دین کامل ہوا:الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًاً. (سورہ مائدہ آیت،۳)[آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے]۔اس مسئلہ کی اہمیت اتنی زیادہ تھی کہ پیغمبر اکرم ﷺ کے لئے اُس اہتمام و انتظام کی ضرورت پیش آئی۔ نبی اکرم ﷺ نے کم از کم ستّر ہزار (بہت سے افراد نے ایک لاکھ بیس ہزار لکھا ہے) افراد کو اس بے آب و گیاہ میدان میں انتہائی سخت دھوپ و گرمی میں روک کر ولایت کا پیغام ان تک پہنچایا۔ قرآن کی آیت نازل ہوئی کہ اگر اس پیغام کو لوگوں تک نہ پہنچایا تو تمہاری رسالت نامکمل اور دین ناقص ہے۔
واضح ہے کہ امام علی علیہ السلام سے صرف محبت کرنے کا حکم دینا اتنی اہمیت نہیں رکھتا تھا کہ اُن انتظامات و اہتمامات کی ضرورت پیش آتی اور اس کی بنیاد پر دین مکمل ہوتا۔ یہ ایسی دوستی کا حکم تھا جو امام علی علیہ السلام کے احکامات و دستورات کی پیروی کے ساتھ تھا۔ یہ دوستی ہرگز دشمنان خدا و رسول کے ساتھ سازگار نہیں ہوسکتی: ’’لَّا تَجِدُ قَوْمًا ۔۔۔۔‘‘ (سورہ مجادلہ، ۲۲) [آپ کبھی نہ دیکھیں گے کہ جو قوم اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھنے والی ہے وہ ان لوگوں سے دوستی کررہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی کرنے والے ہیں چاہے وہ ان کے باپ دادا یا اولاد یا برادران یا عشیرہ اور قبیلہ والے ہی کیوں نہ ہوں - اللہ نے صاحبان ایمان کے دلوں میں ایمان لکھ دیا ہے اور ان کی اپنی خاص روح کے ذریعہ تائید کی ہے اور وہ انہیں ان جنّتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ ا ن ہی میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے - خدا ان سے راضی ہوگا اور وہ خدا سے راضی ہوں گے یہی لوگ اللہ کا گروہ ہیں اور آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ کا گروہ ہی نجات پانے والا ہے] ۔ اس آیت میں خداوندعالم اپنے نبی سے فرماتا ہے: ایسے افراد کو نہیں پاسکتے جو خدا و قیامت پر ایمان رکھنے کے ساتھ دشمنان خدا سے بھی محبت کرتے ہوں۔ ناممکن ہے کہ جو لوگ اپنے دل میں دشمنان خداکی طرف میلان رکھتے ہوں اور پوشیدہ طور پر ان کے ساتھ روابط رکھتے ہوں وہ خدا و قیامت پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ گرچہ قسم کھاتے ہیں کہ ہم ایمان رکھتے ہیں لیکن قرآن کہتا ہے یہ جھوٹے ہیں : ’’إِذَا جَآءَكَ ٱلْمُنَـٰفِقُونَ قَالُوا۟ نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ ٱللَّـهِ ۗ وَٱللَّـهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُۥ وَٱللَّـهُ يَشْهَدُ إِنَّ ٱلْمُنَـٰفِقِينَ لَكَـٰذِبُونَ‘‘ (سورہ منافقون، ۱) [پیغمبر یہ منافقین آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ بھی جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیںلیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں]۔ 
منافقین دعوی کرتے ہیں کہ وہ سوائے خیر و صلاح اور نیکی کےکوئی اور ارادہ نہیں رکھتے  لیکن قرآن کہتا ہے: کہ خدا گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں یہ لوگ سوائے اپنے مادی فائدے کے کسی اور چیز کو نہیں چاہتے یہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ دشمن ان پر مسلط ہوجائیں لہذا ابھی سے اپنے آقاؤں کے لئے خوشنودی چاہتے ہیں: ’’فَتَرَى ٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يُسَـٰرِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰٓ أَن تُصِيبَنَا دَآئِرَةٌ ۚ فَعَسَى ٱللَّـهُ أَن يَأْتِىَ بِٱلْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِۦ فَيُصْبِحُوا۟ عَلَىٰ مَآ أَسَرُّوا۟ فِىٓ أَنفُسِهِمْ نَـٰدِمِينَ‘‘ (سورہ مائدہ، ۵۲)۔ [پیغمبر آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ دوڑ دوڑ کر ان کی طرف جارہے ہیں اور یہ عذر بیان کرتے ہیں کہ ہمیں گردشِ زمانہ کا خوف ہے -پس عنقریب خدا اپنی طرف سے فتح یا کوئی دوسرا امر لے آئے گا تو یہ اپنے دل کے چھپائے ہوئے راز پر پشیمان ہوجائیں گے]۔
منافقین کہتے ہیں ہمیں گردشِ زمانہ کا خوف ہے ، لیکن خدا کہتا ہے کہ: تَو سہی کہ خدا ان کے معاملہ کو پلٹا دے اور وہ دھمکیاں خود دشمنوں پر پڑ جائیں اور خدا کی چال انکی چالوں کو ناکام بنادے۔ اس دن جو لوگ دشمنان خدا کے ساتھ رابطہ میں ہوں اور ان کے ہم نوالہ و ہم پیالہ ہوں وہ سخت پشیمان ہونگے۔ عنایات الٰہی سے وہ دن دور نہیں جب امریکہ ذلیل و رسوا ہو اور اس کے سپر پاور ہونے کا بت ٹوٹ جائے، آج جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ امریکہ (اور ہر استعمار و گدی نشین )سے تعلقات اور ان کی خوشنودی کے بغیر کوئی کام نہیں چل سکتا وہ پشیمان ہونگے اور شرم سے سر نہیں اٹھا سکیں گے ان کے سامنے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ اپنی غلطی کا اعتراف کریں گے اور امریکہ (و ہر باطل طاقت) سے تعلقات کی نفی کریں گے۔
خدا و قیامت پر ایمان رکھنے والے دشمنان خدا کے دشمن ہیں اور ہرگز ان کے ساتھ دوستی و تعلقات قائم نہیں کرتے یہ وہی ’’حزب اللہ‘‘ (الٰہی گروہ) ہیں جو حقیقی ولایت والے ہیں اور کامیابی و رستگاری ان ہی کا حصہ ہے: ’’وَمَن يَتَوَلَّ ٱللَّـهَ وَرَسُولَهُۥ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ فَإِنَّ حِزْبَ ٱللَّـهِ هُمُ ٱلْغَـٰلِبُونَ‘‘ (سورہ مائدہ، ۵۶)
[پیغمبر آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ دوڑ دوڑ کر ان کی طرف جارہے ہیں اور یہ عذر بیان کرتے ہیں کہ ہمیں گردشِ زمانہ کا خوف ہے -پس عنقریب خدا اپنی طرف سے فتح یا کوئی دوسرا امر لے آئے گا تو یہ اپنے دل کے چھپائے ہوئے راز پر پشیمان ہوجائیں گے]۔  
(ماہنامہ اصلاح لکھنؤ)

جمعہ، 29 جون، 2018

سلامٌ علیکم

باسمہ تعالیٰ
سلامٌ علیکم
اسلامی تہذیب و ثقافت اور کلچر دنیا کیہر تہذیب سے برتر ہے۔ اسلامی تعلیمات میں ہر پہلو، ہر قدم، ہر جگہ، ہر مرحلہ، ہر کام، ہر چیز میں راہنمائی موجود ہے۔ زندگی سے متعلق ہر چیز کے لئے احکامات بیان ہوئے ہیں کوئی بھی شعبۂ حیات راہنمائی و احکامات سے خالی نہیں ہے۔ انھیں احکامات و تعلیمات میں ’’سلام‘‘ بھی ہے۔ سلام کا مطلب ہے ایک دوسرے کی سلامتی چاہنا اور خدا سے سلامتی کی دعا کرنا۔ تم صحیح و سالم رہو، خدا تم کو سلامت رکھے، تمہارے لئے سلامتی ہو۔ یہ ہے ’’سلامٌ علیکم‘‘ کا مطلب۔ کسی بھی دین و مذہب اور کلچر و ثقافت میں سلام کی اتنی تاکید نہیں ہے جتنی اسلام میں ہے۔ جہاں ایک طرف قرآن کہہ رہا ہے:’’وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا۔۔۔‘‘ (سورہ نساء آیت۸۶) یعنی ’’اور جب تم لوگوں کو کوئی تحفہ(سلام) پیش کیا جائے تو اس سے بہتر یا کم سے کم ویسا ہی واپس کرو‘‘۔یا جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ابدؤا بالسلام قبل الكلام فمن بدأ بالكلام قبل السلام فلا تجيبوہ‘‘ ۔ گفتگو سے پہلے سلام کرو اور اگر کوئی سلام سے پہلے گفتگو کرے تو اس کا جواب نہ دو۔یعنی جبتک آپس میں سلام و آداب سلام انجام نہ پا جائیں گفتگو شروع نہ کرو۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اسلام میں سلام کا انداز و طریقہ ’’سلام علیکم‘‘ ہے۔ اسی جملہ کی تاکید ہے، اس کی جگہ پر دوسرے الفاظ سلام کا اسلامی طریقہ نہیں ہیں۔ جب معصومینؑ نے سلام علیکم کے لئے فرمایا ہےتو ہم اسی لفظ کے ذریعہ اس عمل کو انجام دیں۔ اور سلام علیکم کا جواب بھی علیکم السلام ہی ہے کوئی اور لفظ نہیں۔ اگر کسی نے ہم سے ’’سلام علیکم‘‘ کہا ہے تو صرف سر ہلا دینے یا ہاتھ اٹھادینے سے جواب نہیں ہوجاتا بلکہ اپنی زبان سے ’’علیکم السلام‘‘ کہنا پڑے گا۔ سلام کے لئے بہتر تو یہی ہے کہ چھوٹے بڑوں کو سلام کریں لیکن لازم و ضروری نہیں کہ بلکہ بڑے بھی اگر چھوٹوں کو سلام کریں تو ان کی تربیت کے لئے یہ بہتر ہے۔ اسی طرح اگر شوہر بیوی کو سلام تو کائی حرج نہیں ہے۔ 

سوال: مسجد میں وارد ہوتے وقت سلام کرنے کا کیا حکم ہے؟ اس لیٔے کہ سلام کرنا، نمازیوں کی توجہ ہٹ جانے کا سبب بنتا ہے؟
جواب: بہتر ہے کہ سلام نہ کیا جائے۔
۲سوال: آیا نماز کی حالت میں سلام کا جواب دینا واجب ہے؟
جواب: ہاں جواب واجب ہے لیکن واجب ہیکہ جس طرح سلام کیا ہے اسی طرح جواب دے پس لفظ سلام کے جواب میں سلام کہے اور علیکم کو نیت میں رکھے یا پھر سلام علیکم کہے اور سلام علکیم کے جواب میں احتیاط واجب کی بنا پر سلام علیکم کہے علیکم سلام نہ کہے۔
۳سوال: کافر اگر سلام کرے تو جواب دینے کا کیا حکم ہے؟
جواب: اگر لفظ سلام کے علاوہ کویٔی اور لفظ بولے تو اسی طرح جواب دے سکتے ہیں، لیکن اگر لفظ سلام کا استعال کرے تو جواب میں فقط (علیک) کہیں۔

عزاداری اور گریہ و بکا دین و شریعت اور سیرت پیغمبرؐ کے آئینہ میں

عزاداری اور گریہ و بکا 
دین و شریعت اور سیرت پیغمبرؐ کے آئینہ میں 
سید محمد حسنین باقری
نواسۂ رسول ؐ، فرزند بتولؑ،سید الشہداء حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کی عزاداری شعائر الہی کی تعظیم کا نمونۂ کامل اور پیرویٔ قرآن ہے اس لئے کہ ارشاد الہی ہے :’’وَمَنْ یُعَظِّمْ شَعَائِرَ اﷲِ فَإِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوب‘‘(۱)یہ ایسا عمل جسے ہر دور میں انجام دیا جاتارہا ہے اور قیامت تک انجام دیا جاتا رہے گا اس لئے کہ عزاداریٔ سید الشہدائؑ ،ظلم کے خلاف آواز، ظالم سے نفرت اور مظلوم سے حمایت کا اعلان ہے :یہ عزاداری سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور سیرت اصحاب و تابعین ہے ؛یہ عزاداری حق کی جیت اور باطل کی شکست کا اعلان ہے ،یہ عزاداری کمزوروں اور مستضعفین کو قوت عطا کرنے والی ہے۔
مسلمان اسی لئے عزائے حسین ؑ برپا کرتا ہے کہ اسے معلوم ہے کہ آج اسلام کا نام باقی ہے اسی شہادت حسین ؑ کی وجہ سے اگر قربانیٔ حسینؑ نہ ہوتی تو نہ اسلام ہوتا نہ مسلمان ،اگر اسلام ہوتا بھی تو اسلام یزیدی ہوتا اسلام محمدی ہرگز نہ ہوتا ۔پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نواسے نے اپنے نانا کے دین کو بچانے ہی کے لئے قربان گاہ میں قدم رکھا اور آواز دی:میرا یہ قیام دین محمدی کی حفاظت کے لئے ہے میرے قیام کا مقصد:  ’’وَ أَنِّی لَمْ أخْرُجْ أَشِرًا وَ لا بَطِرًا وَ لا مُفْسِدًا وَ لا ظَالِمًا وَ اِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاِصلاحِ فِی أُمَۃِ جَدِّیْ صلیّ اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم   أُرِیْدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ أَنْہٰی عَنِ الْمُنْلکَرِ وَ أَسِیْرُ بِسِیْرِۃِ جَدِّی وَ أَبِی عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبؑ(۲)۔(میں ظلم و فساد برپا کرنے کے لئے نہیں نکلا ہوں میرے قیام کا مقصد نانا کے دین کی حفاظت اور اس کی اصلاح ہے میں احکام الہی کا نفاذ چاہتا ہوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے نکلا ہوں میں چاہتا ہوں کہ اپنے نانااور والد گرامی کی سیرت کو زندہ کروں اور اس پر عمل پیرا ہوں)۔
جب امام حسین ؑنے اس عظیم مقصد کے لئے راہ خدا میں اپنا سب کچھ لٹا دیا تو آج ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم اس یاد کو زندہ رکھتے ہوئے حسینی مشن کو آگے بڑھاتے رہیں اور عزائے حسین علیہ السلام کے ذریعہ اسلام کی کامیابی اور باطل کی شکست کا اعلان کرتے رہیں ۔عزاداری کی مخالفت کا راز بھی یہی ہے کہ باطل نہیں چاہتا دشمنان اسلام کے چہرے بے نقاب ہوں اور اسلامی مشن کو دوام ملے ۔دشمن عزا کو معلوم ہے کہ جب تک یہ عزاداری باقی ہے اسلام حقیقی باقی رہے گا ۔جب تک حسین ؑ کا نام زندہ ہے اس وقت تک پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نام بھی زندہ رہے گا ۔جب تک کربلا کا تذکرہ ہوتا رہے گا اس وقت تک اسلام کا تذکرہ بھی ہوتا رہے گا۔لہذا آئیے اسلام کی بقا کے لیے عزاداری کی حفاظت کریں ،نام محمدی کی حفاظت کے لیے حسین مظلومؑ کی یاد کو زندہ رکھیں،اپنا تشخص برقرار رکھنے کے لیے عزائے حسین ؑ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
عزائے حسینؑ کو ختم کرنے کی کوششیں ہوئی ہیں اور ہمیشہ ہوتی رہیں گی ،اس کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال ہوئے  ہیں اور ہوتے رہیں گے! یہ الگ بات ہے کہ حق وہی ہے کہ تمام کوششوں کے باوجود بھی جس کی لَو مدھم نہ پڑے،تمام مخالفتوں کے باوجود بھی جس میں کسی طرح کی کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا رہے ،جیسا کہ ہوبھی رہا ہے۔
جیسا کہ عرض کیا کہ ہر دور میں اعتراضات ہوتے رہے ہیں اور ہمیشہ انکا جواب دیا گیا ہے ۔آج کوئی ایسا اعتراض نہیں ہے جو نیا ہو یا جسکا جواب نہ دیا گیا ہو لیکن تعجب یہی ہے کہ دشمنان اسلام اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے وہی اعتراضات دہراتے رہتے ہیں ۔ لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بسا اوقات جواب نہ دینے سے معترض اپنے زعم ناقص میں یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ میں نے کوئی بہت بڑی بات کہہ دی ۔بطور مثال ایک نام نہاد دشمن اہلبیت نے ہمیشہ کی طرح اپنے دل کا عناد ظاہر کرنے کے لیے عزاداریٔ سیدالشہداء علیہ السلام کو کم کرنے اور راہ خدا میں آپؑ کی قربانی کی اہمیت گھٹانے کی غرض سے مسلمانوں کو منحرف کرنے کی کوشش کی ۔
اس سلسلے میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ محراب میں اپنی سزا کو پہنچنے والا(بالفرض اگر محراب میں مارا گیا ہو!)، میدان میں پشت فرس پر اللہ کی راہ میں دین کی حفاظت کی خاطرشہید ہونے والے سے کبھی بھی افضل تو کیا اس کے ہم پلہ نہیں ہو سکتاورنہ اگر جگہ ہی معیار ہو تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو بستر ہی پر اس دنیا سے تشریف لے گئے لہذا وہ تو بدرجۂ اولیٰ محراب میں مارے جانے والے سے معاذ اللہ مفضول قرار پائیںگے!؟
اسلام میں یہ ہرگز نہیں دیکھا جائے گا کہ فلاں کس طرح مرا ہے بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون ہے؟ خدا کے نزدیک اس کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟ پھر یہ دیکھنا ہے کہ آیا وہ اللہ کی راہ میں شہید ہوا ہے یا اپنی سزا کو پہنچا ہے؟! 
امام حسینؑ کی ذات والاصفات وہ ہے جس کے سلسلے میں ہر انصاف پسند یہ مانتا ہے کہ آپ ؑ اللہ کی راہ میں اور اپنے نانا کے دین کی حفاظت کے لئے شہید ہوئے ،آپ کی شہادت پر انبیاء و اصیاء اور ملائکہ کے علاوہ زمین و آسمان نے بھی گریہ کیا ،آپؑ کی مظلومیت پر اشرف المخلوقات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی روئے  لہذا امام حسین علیہ السلام کی قربانی کا کسی شہید سے بھی مقایسہ نہیں کیا جا سکتا ۔اگر کوئی سید الشہداء ہے تو صرف اور صرف ابو عبد اللہ الحسین ؑ ہیں۔
امام حسین ؑ پر گریہ:-جیسا کہ عرض کیا گیا کہ حضرت اباعبداللہ علیہ السلام کی عزاداری اور آپؑ پر گریہ و بکاء ہمیشہ دشمنوں کے لیے ناگوار رہا اور انھوں نے ہمیشہ اس پر اعتراض اور اس کی مخالفت کی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو امام حسین- کی عزاداری اور آپؑ کے مصائب پر گریہ و زاری ایک طرف تو فطری تقاضوں میں سے ہے جس سے نہ اسلام نے روکا ہے اور نہ کسی مذہب نے ،دوسری طرف یہ عمل پیغمبر   صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنت اور صحابہ کی روش ہے ۔حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے شہادت حسینؑ سے قبل ہی صرف خبر سن کر گریہ کیا اور آنسو بہائے ہیں۔ہم ذیل میں قرآن و حدیث اور سنت پیغمبر  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی روشنی میں اہل سنت کی معتبر کتابوں سے اس پر نظر ڈالتے ہیں:
الف:گریہ قرآن کی نظر میں:قرآن کریم میںجناب یعقوبؑ کے سلسلے میں ذکر ہوتا ہے:’’ وَتَوَلَّی عَنْہُمْ وَقَالَ یَاأَسَفَی عَلَی یُوسُفَ وَابْیَضَّتْ عَیْنَاہُ مِنَ الْحُزْنِ فَہُوَ کَظِیمٌ ۔ قَالُوا تَاﷲِ تَفْتَأُ تَذْکُرُ یُوسُفَ حَتَّی تَکُونَ حَرَضًا أَوْ تَکُونَ مِنْ الْہَالِکِین‘‘(۳)
(اور یعقوبؑ نے ان لوگوں کی طرف سے منھ پھیر لیا اور روکر کہنے لگے :ہائے افسوس یوسفؑ پر اور اس قدر روئے کہ ان کی آنکھیں صدمہ سے سفید ہوگئیں ۔وہ تو بڑے رنج کے ضابط تھے ۔یہ دیکھ کر ان کے بیٹے کہنے لگے کہ آپ تو ہمیشہ یوسف ؑکو یاد ہی کرتے رہیے گا یہاں تک کہ بیمار ہو جائیے گا یا جان ہی دے دیجیے گا ۔)
طبری نے اس آیت کی تفسیر میں یوں نقل کیا ہے کہ حضرت یعقوب ؑسے جناب یوسف ؑکے فراق کا عرصہ ۸۰؍سال تھا ، اس مدت میں مسلسل جناب یعقوب ؑروتے رہے یہاں تک کہ آپؑ کی آنکھیں سفید ہوگئیں جبکہ جناب یعقوب ؑیہ بھی جانتے تھے کہ جناب یوسفؑ زندہ ہیں۔(۴)
طبری ہی نے جناب آدمؑ کے سلسلے میں لکھا ہے کہ : جب آدم ؑکے بیٹے کو اس کے بھائی نے قتل کردیا تو جناب آدمؑ نے اس پر گریہ کیا ۔(۵)
ب:گریہ سیرت رسول  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلممیںحضور اکرمؐ کی زندگی میں متعدد مواقع ایسے آئے کہ آپؐ نے گریہ فرمایا یہاں تک کہ بعض مواقع پر دوسروں سے بھی رونے کے لئے کہا۔ذیل میں اہل سنت کی کتابوں سے بعض موارد پیش کیے جارہے ہیں : 
رسولؐ شہدائے احد اور جناب حمزہؑ کی شہادت پر روئے اور دوسروں سے بھی رونے کے لئے کہا ۔(۶)اور پیغمبر  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا ؐ کے لئے نقل ہوا ہے کہ ہر جمعہ کو اپنے چچا حمزہؑ کی قبر کی زیارت کرتیں اور کنار قبر نماز پڑھتیں و گریہ کرتی تھیں(۷)
 اپنے داداجناب عبد المطلبؑ کی وفات پر گریہ کیا۔(۸)
جنگ موتہ کے شہیدوں پر روئے(۹)۔
جناب جعفر بن ابی طالبؑ کی شہادت پر گریہ کیااور دوسروں سے گریہ کے لئے کہا(۱۰)
اپنی ماں کی قبر پر گریہ کیا ۔(۱۱)
فاطمہؑ بنت اسدؑ کے دنیا سے گزرجانے پر روئے ۔(۱۲)
عبد اللہ بن مظعون کی میت پر گریہ کیا ۔(۱۳)
زید بن حارثہ کی شہادت پر گریہ کیا(۱۴)
اپنے بیٹے ابراہیم کی وفات پر روئے(۱۵)
اپنے ایک نواسے کی جدائی پر روئے(۱۶)
اپنے بعض اصحاب مثلا عبد الرحمن ابن عوف ،سعد ابن ابی وقاص اور عبد اللہ ابن مسعود کے ساتھ سعد ابن عبادہ کی عیادت کے لئے گئے وہاں آپؐ نے اور آپ کے اصحاب نے گریہ کیا(۱۷)۔
پیغمبرؐ کی وفات پر اصحاب کا گریہ:پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ کے غم میں زمین و آسمان بھی مغموم ہوئے ،ملائکہ نے غم منایا ،ایسے وقت میں آپؐ کے اصحاب کا آپ پر گریہ کرنا اور غم منانا ایک فطری امر ہے ۔ذیل میں بعض مثالیں پیش ہیں:
قیس نے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جدائی پر مرثیہ پڑھا(۱۸)
اصحاب کے گروہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر آنسو بہائے(۱۹)
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیٹی حضرت زہرا  ؐ نے اپنے بابا کی جدائی پر گریہ کیا(۲۰)
عمر و ابوبکر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر گریہ کیا(۲۱)
اہل سنت کے بزرگوں کے مرنے پر عزاداری و سوگواری:
احمد ابن حنبل کے مرنے پر مسلمانوں نے ان کے سوگ میں گریہ و زاری کی(۲۲)
عالم اہل سنت ’’جوینی‘‘ کی وفات پر بازاروں میں تعطیل ہوئی ،مرثیے کہے گئے۔انکے چار سو شاگرد تھے جنھوں نے ایک سال تک عزاداری منائی،سروں سے عمامے اتار دیے،نوحہ و گریہ کرتے ہوئے جلوس کی شکل میں سڑکوں پر نکلے(۲۳)۔
ابن جوزی کی موت پر عزاداری منائی گئی اور مجلس و ماتم ہوا(۲۴)۔
ابن تیمیہ کے مرنے پر لوگوں نے گریہ و زاری کیا اور آنسو بہائے(۲۵)۔
امام حسین ؑپر آنحضرت ؐ کا گریہ:۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو جب جبرئیل امین نے شہادت امام حسین ؑکی خبر سنائی تو آپ ؐنے گریہ کیا۔اس سلسلے میں متعدد روایتیں متعدد راویوں سے وارد ہوئی ہیں ۔ جن بزرگوں سے روایت نقل ہوئی ہے ان میں مندرجہ ذیل اصحاب و ازواج ہیں:ام الفضل بنت حارث(۲۶)،ام المومنین زینب بنت جحش(۲۷)،ام المومنین عائشہ(۲۸)، ام المومنین جناب ام سلمہ(۲۹)،انس ابن مالک(۳۰)
امام حسین ؑپر اصحاب پیغمبر ؐ کا گریہ :روایت میں ہے کہ امام حسین ؑکی شہادت کی خبر سن کر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمے ساتھ آپؐ کے اصحاب نے بھی گریہ کیا (۳۱)
جنگ صفین کے موقع پر کربلا سے گزرتے ہوئے امیر المومنین حضرت علی  ؑاور ابن عباس نے امام حسینؑ پر آنسو بہائے(۳۲)
اس کے علاوہ دیگر جن اصحاب اور بزرگان نے امام حسینؑ پر آنسو بہائے ان میں سے بعض یہ ہیں:انس ابن مالک(۳۳)؛زید ابن ارقم(۳۴)؛ جناب ام سلمہ(۳۵)؛حسن ابن ابوالحسن بصری(۳۶)؛ربیع ابن خُثیم تابعی(۳۷)وغیرہ۔۔۔۔۔
مذکورہ تمام مثالوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی عزیز کے مرجانے پر آہ و بکاء اور گریہ و زاری تقاضائے فطرت ہے جو اسلام کے منافی نہیں ہے اور دنیا سے جانے والے پر آنسو بہانا خلاف اسلام نہیں اور بالخصوص امام حسین ؑ کی عزاداری اور آپ پر آنسوبہانا مطابق اسلام اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنت ہے ۔گریہ و بکاء اور عزاداری کی مخالفت سنت رسولؐ کی مخالفت ہے۔ ٭٭٭
(۱)۔سورہ حج: ۳۲
(۲)۔بحارالانوار،ج۴۴،ص۳۲۹،باب۳۷ باب ما جری علیہ بعد بیعۃالناس؛المناقب،ج۴،ص۸۹،فصل فی مقتلہ -۔۔۔
(۳)۔سورۂ یوسف۸۴ و ۸۵
(۴)۔تاریخ طبری ، ج۱، ص۳۷؛
(۵)۔تفسیر طبری ، ج۱۳، ص۳۲۔
(۶)۔السیرۃ الحلبیۃ ، ج۲، ص۲۶۰(حالات جنگ احد،شہادت جناب حمزہ)؛الاستیعاب،ج۱،ص۲۷۵؛مسند،بھامشۃمنتخب کنز العمال فی سنن الاقوال و الافعال،امام احمد حنبل،ج۲،ص۴۰؛ المستدرک علی الصحیحین،حاکم نیشاپوری،کتاب الجنائز،ج۱،ص۳۸۱؛مغازی،واقدی،ج۱،ص۳۱۵۔۳۱۷؛استیعاب،ابن البرواسد الغابہ،ابن اثیر؛طبقات ابن سعد،ج۳ص۱۱ ،طبع دار صادر بیروت؛امتاع الاسماع،ج۱،ص۱۶۳؛تاریخ طبری،ج۲،ص۵۳۲ طبع مصر؛(حالات جناب حمزہ)تاریخ طبری،ج۲،ص۲۷۔
(۷)۔سنن بیہقی،ج۴،ص۷۸۸؛مستدرک الصحیحین حاکم نیشاپوری،ج۱،ص۳۷۷۔
(۸)۔تذکرۃ الخواص ، ص۷۔
(۹)۔صحیح بخاری،ج۲،ص۲۰۴،کتاب فضائل الصحابہ،باب مناقب خالد؛البدایہ والنہایہ ،ابن کثیر،ج۴،ص۲۵۵؛سنن الکبری،بیہقی،ج۴،ص۷۰؛انساب الاشراف،ج۲،ص۴۳؛شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید،ج۱۵،ص۷۳۔
(۱۰۔کامل ابن اثیر ، ج۲، ص۹۰؛اسد الغابہ،ج۲،ص۲۸۹؛الاستیعاب،ج۱،ص۲۲۱؛الاصابہ(زندگانی جعفر ابن ابی طالبؑ)۔
۱۱۔صحیح مسلم ، ج۲، ص ۶۷۱، کتاب الجنائز ، باب ۳۶، ح۱۰۸؛مسند احمد حنبل،ج۲،ص۴۴۱؛سنن نسائی،ج۴،ص۹۰،کتاب الجنائز؛سنن ابن ماجہ،ج۱،ص۵۰۱،حدیث۱۵۷۲۔ (۱۲)۔ذخائر العقبی، ص ۵۶۔
(۱۳)۔جامع الاصول،محمد ابن اثیر جزری،ج۱۱،ص۹۵،نمبر۸۵۶۶فی الجنائز باب تقبیل ا  لمیت وقال الترمذی :حدیث حسن صحیح و فی الباب عن ابن عباس و جابر و عائشہ:’’انّ ابا بکر قبّل النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم و ھو میّت‘‘۔
(۱۵)۔صحیح بخاری،ج۱،ص۱۵۸؛صحیح مسلم ،ج۴،ص۱۸۰۸،کتاب الصبیان؛سنن ابن داؤد،ج۳،ص۱۹۳،باب البکاء علی ا  لمیت؛سنن ابن ماجہ،ج۱،ص۵۰۷ وص۴۷۳،کتاب الجنائز؛سنن ترمذی،ج۴،ص۲۲۶،کتاب الجنائز،باب الرخصۃ فی البکاء علی ا  لمیت،۔
(۱۶)۔صحیح بخاری،کتاب الجنائز،باب قول النبی  ﷺ ’’یعذب ا  لمیت ببعض بکاء اہلہ‘‘؛کتاب المرضی ،باب:عبادۃ الصبیان،ج۴،ص۳ و۱۹۱؛کتاب التوحید،باب انّ رحمۃ اللہ قریب من المحسنین؛صحیح مسلم،کتاب الجنائز،باب البکاء علی ا  لمیت،ج۲،ص۶۳۶،حدیث۱۱؛سنن ابی داؤد،کتاب الجنائز،باب البکاء علی ا  لمیت ،ج۳،ص۱۹۳،حدیث ۳۱۲۵؛سنن نسائی،ج۴،ص۲۲،کتاب الجنائز،باب الامر بالاحتساب والصبر؛مسند احمد حنبل،ج۵،ص۲۰۴و۲۰۶ و۲۰۷۔
(۱۷)۔صحیح مسلم،ج۲،ص۶۳۶،کتاب الجنائز،باب ۶۔
(۱۸)۔الاصابۃ فی تمییز الصحابہ،ابن حجر عسقلانی،ج۳،ص۲۵۳،نمبر ۷۲۶۳،حرف قاف(البتہ بہت سے اصحاب نے پیغمبر  ﷺ کی وفات پر مرثیہ پڑھا ۔مزید اطلاع کے لئے ’’الاصابۃ‘‘دیکھیے
(۱۹)۔اسد الغابہ،ج۵،ص۱۰۲؛جامع الاصول ،ابن اثیر جزری،نمبر۸۵۳۴سنن نسائی،ج۴،ص۱۳ فی الجنائز،باب فی بکاء علی ا  لمیت۔
(۲۰)۔مختصر حیاۃ الصحابہ،دہلوی،ص۲۸۵؛ارشاد الساری فی شرح بخاری،ج۲،ص۴۰۶؛مستدرک علی الصحیحین،حاکم نیشاپوری،ص۳۷۷،کتاب الجنائز۔
(۲۱)۔دلائل النبوۃ،ابوبکر بیہقی،ج۷،ص۲۶۶،باب ماجاء فی عظم المصیبۃ بوفاۃ رسول اللہ  ﷺ؛صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابہ،فضائل ام ایمن ،حدیث ۱۰۳؛حلیۃالاولیاء،ابونعیم اصفہانی،ج۲،ص۶۷،نمبر۱۴۷؛سنن ابن ماجہ،کتاب الجنائز،حدیث۱۶۳۵،ج۱،ص۵۳۴۔ 
(۲۲)۔تاریخ بغداد،خطیب بغدادی،ج۴،ص۴۲۳۔
(۲۳)۔سیر اعلام النبلاء،ذہبی،ج۱۸،ص۴۶۸۔
(۲۴)۔سیر اعلام النبلاء،ج۱۸،ص۳۷۹۔
(۲۵)۔تاریخ ابن کثیر،ج۱۴،ص۱۲۸۔
(۲۶)۔مستدرک صحیحین ،ج۳،ص۱۷۶ اور اس کا خلاصہ صفحہ ۱۷۹ پر؛تاریخ ابن عساکر،حدیث۶۳۱ اسی سے ملتی جلتی حدیث نمبر ۶۳۰؛مجمع الزوائد،ج۹،ص۱۷۹؛مقتل خوارزمی،ج۱،ص۱۵۹ و ۱۶۲،تاریخ ابن اثیر،ج۶،ص۲۳۰(جلد ۸ صفحہ ۱۹۹ پر بھی اشارہ کیا ہے)؛امالی شجری،ص۱۸۸؛فصول المہمہ، ابن صباغ مالکی،ص۱۴۵؛روض النضیر،ج۱،ص۸۹؛صواعق محرقہ،ص۱۵۵ (بعض میں صفحہ۱۹۰)؛کنز العمال،ج۶،ص۲۲۳(طبع قدیم)،الخصائص الکبری،ج۲،ص۱۲۵۔
(۲۷)۔تاریخ ابن عساکر،حالات امام حسین -،حدیث۶۲۹؛مجمع الزوائد،ج۹،ص۱۸۸؛کنزالعمال،ج۱۳،ص۱۱۲؛تاریخ ابن کثیر،ج۸،ص۱۹۹۔
طبقات ابن سعد،حدیث۲۶۹؛تاریخ ابن عساکر،حالات امام حسین -،حدیث۶۲۷؛مقتل خوارزمی،ج۱،ص۱۵۹؛مجمع الزوائد،ج۹،ص۱۸۷ و۱۸۸؛کنز العمال ،ج۱۳،ص۱۰۸طبع جدید اور ج۶،ص۲۲۳ طبع قدیم ؛الصواعق المحرقہ،ابن حجر،ص۱۵۵؛خصائص السیوطی،ج۲،ص۱۲۵ و۱۲۶؛جوھرۃ الکلام للقرۃ الغولی،ص۱۱۷۔
(۲۸)۔مستدرک صحیحین ،ج۴،ص۳۹۸؛المعجم الکبیر ،طبیرانی،حدیث۵۵؛تاریخ ابن عساکر،حدیث۶۱۹؛طبقات ابن سعد،تحقیق و نشر عبدالعزیز طباطبائی،ص۴۲ ۔۴۴،حدیث۶۲۸؛تاریخ الاسلام ،ذہبی،ج۳،ص۱۱ ؛سیر اعلام النبلاء،ج۳،ص۱۹۴و۱۹۵؛مقتل خوارزمی،ج۱،ص۱۵۸و۱۵۹؛ذخائر العقبی،محب الطبریی،ص۱۴۸و۱۴۹؛تاریخ ابن کثیر،ج۶،ص۲۳۰؛کنز العمال،متقی،ج۱۶،ص۲۶۶۔
(۲۹)۔مسند احمد حنبل،ج۳،ص۲۴۲ و۲۶۵،تاریخ ابن عساکر ،حالات امام حسین -،ح۶۱۵ و ۶۱۷؛معجم الکبیر ،طبرانی،حالات امام حسین -،ح۴۷؛مقتل خوارزمی،ج۱،ص۱۶۰۔۱۶۲؛تاریخ الاسلام،ذہبی،ج۳،ص۱۰ ؛سیر اعلام النبلاء،ج۳،ص۱۹۴؛ذخائر العقبی،ص۱۴۶و۱۴۷؛مجمع الزوائد،ج۹،ص۱۸۷(اور صفحہ ۱۹۰ پر دوسری سند کے ساتھ)؛تاریخ ابن کثیر،باب الاخبار بمقتل الحسین ؑ،ج۶،ص۲۲۹اورج۸،ص۱۹۹؛کنزالعمال،ج۱۶،ص۲۶۶؛الصواع قالمحرقہ،ابن حجر،ص۱۱۵؛الدلائل ابی نعیم،ج۳،ص۲۰۲،الروض النضیر،ج۱،ص۱۹۲؛المواھب اللدنیہ، قسطلانی،ج۲،ص۱۹۵؛ خصائص سیوطی،ج۲،ص۲۵؛ موارد الضمآن بزوائد صحیح ابن حبان،ابوبکر ھیتمی،ص۵۵۴۔ٰ
(۳۰)۔تاریخ ابن کثیر ، ج۱۱، ص ۲۹و ۳۰، تذکرۃ الحفاظ ، ج۲، ص ۱۶۴، کامل ابن اثیر ، ج۵۰، ص ۳۶۴، مستدرک حاکم ، ج۳، ص ۱۷۱، مسند احمد ، ج۳، ص ۳۴۲۔
امام حسین ؑ پر پیغمبر  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے گریہ کے سلسلے میںان منابع کو بھی دیکھا جاسکتا ہے:مستدرک حاکم ، ج۱، ص ۳۶۱؛تاریخ الخمیس،ج۲،ص۷۴؛طبقات الکبری،ج۳،ص۴۷؛صحیح بخاری،ج۱،ص۱۴۸؛صحیح مسلم،ج۴،ص۱۸۰۸،کتاب الصبیان؛سنن ابی داؤد،ج۳،ص۱۹۳،باب البکاء علی ا  لمیت؛سنن ابن ماجہ،ج۱،ص۴۷۳،کتاٰب الجنائز وص۵۰۷؛صحیح بخاری،ج۱،ص۱۵۸؛سنن ترمذی،ج۴،ص۲۲۶،کتاب الجنائز،باب الرخصۃفی البکاء علی ا  لمیت(علمائے اہل سنت کے نزدیک یہ حدیث ’’حسن‘‘ہے)۔
(۳۱)۔مقتل ،ابن جوزی،ج۱،ص۱۶۴۔
(۳۲)۔مقتل خوارزمی،ص۱۶۲،باب ثامن؛تذکرۃ الخواص،ابن جوزی،ص۲۲۵؛کتاب صفین،نصر ابن مزاحم،ص۵۸۔
(۳۳)۔ینابیع المؤدۃ،قندوزی حنفی،ص۳۸۹ بنقل از ترمذی۔
(۳۴)۔اسد الغابہ،ج۲،ص۲۱؛سیر اعلام النبلاء،ج۳،ص۳۱۵؛کامل ابن اثیر،ج۳،ص۴۳۴۔
(۳۵)۔صواعق محرقہ،ص۱۹۶۔
(۳۶)۔تذکرۃ الخواص،ص۲۶۵؛انساب الاشراف،ج۳،ص۲۲۷؛المعجم الکبیر،ج۳،ص۱۲۷۔
(۳۷)۔تذکرۃ الخواص،ص۲۶۸۔٭٭٭

حضرت ابو الفضل العباسؑ

حضرت ابو الفضل العباسؑ
مولانا سید محمد حسنین باقری جوراسی 
مدرسۂ حجتیہ قم ایران 
حضرت عباس ابن علی ابن ابی طالبؑ ، کنیت ابو الفضل(۱) ، امام حسنؑ و امام حسین ؑکے بھائی ۴/ شعبان {یا۱۱یا ۱۷/ شعبان }  ۲۶ھ؁ کو مدینۂ منورہ میں پیدا ہوئے۔اور   ۶۱ ھ ؁ کو عاشورہ کے دن جام شہادت نوش فرمایا شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک ۳۴ سال بیان کی گئی ہے اس مدت میں سے ۱۴سال اپنے پدر بزرگوار حضرت علی ؑ کے ساتھ اور ۹ /سال اپنے بھائی امام حسن ؑکے ساتھ اور ۱۱/ سال امام حسینؑ کے ساتھ گذارے۔(۲) آپ کی مادر گرامی فاطمہ بنت حزام(۳) جو بنی کلاب کی نسل سے تھیں اور کنیت ام البنین تھی آپ کو امیر المومنین ؑنے حضرت زہراؐ کی شہادت کے بعد جناب عقیل کے مشورہ سے اپنی ہمسری کے لئے منتخب کیا اس لئے کہ حضرت علی ؑ نے جناب عقیل سے خواہش ظاہر کی کہ آپ کے لئے شجاع خاندان کی عورت تلاش کریں تاکہ ایک بہادر اور شجاع بیٹا پیدا ہو لہذا جناب عقیل نے جناب ام البنین سے شادی کرنے کا مشورہ دیا ۔
اس شادی کے نتیجہ میں  چاربیٹے عباسؑ ،عبد اللہ، جعفر ،عثمان پیدا ہوئے ۔(۴)
 امام زین العابدین  ؑ اپنے چچا عباس ؑکی اس طرح توصیف فرماتے ہیں :
’’رحم اللہ عمی العباس فلقدآثر و ابلی و فدا اخاہ بنفسہ حتیٰ قطعت یداہ فابدلہ اللہ عز و جل منھما جناحین یطیربھما مع الملائکۃ فی الجنۃ کما جعل لجعفر بن ابی طالب و ان للعباس عند اللہ تعالیٰ منزلۃ یغبطہ بھا جمیعا الشہداء یوم القیامۃ‘‘(۵)
خدا وند عالم میرے چچا عباس پر رحمت نازل کرے جنھوں نے ایثار کیا اور خود کو مشقت میں ڈالا اور اپنے بھائی پر اپنی جان نثار کردی ۔ یہاں تک کہ ان کے بازو قلم ہوگئے جس کے بدلے میں خدا نے ان کو جناب جعفر بن ابی طالب کی طرح دو پر عطا کئے جس کے ذریعہ وہ جنت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کرتے ہیں اور جناب عباس خدا کے نزدیک وہ مقام ومنزلت رکھتے ہیں کہ جس پر قیامت کے دن شہداء غبطہ کرینگے ۔
۱۔آپ کی دوسری کنیتیں :ابو القربہ (مقاتل الطالبین ص ۸۴)ابو القاسم (العباس ،مقرم ص ۸۰ بنقل از زیارت الاربعین جابر)
آپ کے القاب : قمر بنی ہاشم (مقاتل الطالبین ص۸۵ )سقا (  مقاتل الطالبین ص۸۴ ) علمدار(مقاتل الطالبین ص۸۵) العبد الصالح (کامل الزیارات  ص ۴۴۱)المواسی الصابر(المزار شیخ مفید ص ۱۲۴)المحتسب(بطل العلقمی ج:۲، ص ۷۰ ) 
۲۔اعیان الشیعہ ج  ۷، ص ۴۲۹
۳۔ الاصابۃ :۔۔
۴۔الخصال ج ۱۷  ،  ص ۳۵ 
امام صادق ؑ جناب عباسؑ کی توصیف میں فرماتے ہیں :
’’کان عمنا العباس نافذالبصیرۃ ،صلب الایمان،جاھد مع ابی عبد اللہ ؑو ابلیٰ بلاء  حسنا و مضی شہیدا (۱)‘‘۔
ہمارے چچا عباس ؑبابصیرت تھے ۔اور قوی ایمان رکھتے تھے امام حسین ؑ کے ساتھ جہاد کیا اور امتحان سے کامیاب باہر آئے اور شہید ہوئے۔
جناب عباس ؑ کے بچپن کے سلسلے میں نقل ہوا ہے ایک دن اپنے پدر بزرگوار امیر المومنین ؑ کے زانو پر بیٹھے ہوئے تھے حضرت ؑنے فرمایا: کہو ایک ۔ جناب عباسؑ نے کہا ایک ۔ آپؑ نے فرمایا : کہو’’ دو‘‘ ۔ عرض کیا: جس زبان سے ایک کہا مجھے شرم آتی ہے کہ اسی سے دو کہوں (۲)آپ کی نوجوانی کے سلسلہ میں کہا گیا ہے کہ جنگ صفین میںموجود تھے ۔(۳) بعض د وسرے مورخین نے ابوالشعشا اور اسکے سات بیٹوں کے قتل کی نسبت آپ کی طرف دی ہے  (۴) خوار زمی نے دوسری جگہ لکھا ہے کہ جنگ صفین میں جب’’ کریب‘‘ امام  علی ؑ کے ساتھ جنگ کے لئے آیا تو حضرتؑ اپنے بیٹے عباسؑ جومثل ایک کامل مردکے تھے کا لباس پہن کرانکے ساتھ جنگ کے لئے باہر آئے (۵)
حضرت عباسؑ کے دو بیٹے تھے فضل اور عبید اللہ ،جو لبابہ بنت عبید اللہ بن عباس بن عبد المطلب سے تھے ۔اور آپ کی نسل عبید اللہ کے ذریعہ آگے بڑھی۔ (۶)
واقعۂ کربلا میں حضرت عباسؑ کی پہلی ماموریت  ۹/محرم کو عصر کے وقت انجام پائی جس میں آپ اپنے بھائی کے حکم سے دشمنوں کے پاس گئے اور ان سے  ایک رات کی مہلت مانگی تاکہ خدا کے ساتھ راز و نیاز کریں  (۷) اس وقت عبد اللہ بن ابی محل (۸) کا غلام کزمان جناب عباسؑ اور ان کے بھائیوں کیلئے امان نامہ لایا جس کو شمر اور عبد اللہ بن ابی محل نے ابن زیاد سے لیا تھا ۔جب ام البنین کے بیٹو ں کی نظر امان نامہ پر پڑی تو کہا: اس سے کہو کہ ہمیں تمہارے امان نامہ کی ضروت نہیں ہے ۔
امان خدا سمیہ کے بیٹے کی امان سے بہتر ہے (۱۰)
۱۔عمدۃ الطالب ، ص ۳۵۶
۲۔ مصابیح القلوب ،ص۳۶۷، مقتل الحسین ؑ ، خوار زمی ، ج ۱، ص۱۷۹، انوار الھدیٰ لیکن مرحوم نقدی نے اس واقعہ کی نسبت حضرت زینب ؐکی طرف بھی دی ہے
۳۔ (زینب الکبریٰ ص۳۵ ) 
۴۔ اعیان الشیعہ ج۷، ص ۴۲۹
۵۔ کبریت احمر، ص ۳۸۵ 
۶۔ مناقب ،خوارزمی، ص ۲۲۷
۷۔ المجدی ،ص ۲۳۱
۸۔کامل بن اثیر، ج ۴، ص ۵۶
۹۔ عبد اللہ بن ابی محل ، حضرت کی ماں جناب ام البنین کا بھتیجہ تھا لہذا جناب عباس ؑ کا ماموںزاد بھائی ہوا ۔
۱۰۔  تاریخ طبری ، ج۵، ص۴۱۵
ایک روایت کے مطابق شمر (جو خود بھی قبیلہ بنی کلاب سے تھا ) پشت خیمہ پر آیا اور آواز دی کہ کہاں ہیں میرے بھانجے ؟
علی ؑ کے بیٹوں نے اس کو جواب نہیں دیا امامؑ نے فرمایا: اس کو جواب دو گرچہ فاسق ہے۔(۱)
عباسؑ و جعفر و عثمان باہر نکلے اور پوچھا تجھ کو کیا ہوگیا ہے ؟ اور کیا چاہتا ہے ؟ اس نے کہا : اے میرے بھانجو!میری طرف آجاؤ تاکہ امان میں رہو اور اپنے کو حسین ؑ کے ساتھ قتل نہ کراؤ(۲)
انھوں نے اس پر لعنت بھیجتے ہوئے فرمایا: خدا تجھ پر اورتیرے امان نامہ پر لعنت کرے ! چونکہ تو(رشتہ میں) ہمارا ماموں ہے اس لئے ہمیں امان دے رہا ہے اور رسول خدا ؐکے فرزند کے لئے امان نہیں ہے ؟
آیا ہم سے چاہتا ہے کہ ملعون اور ملعون زادوں کی اطاعت کریں ؟ شمر یہ جواب سن کر پیچ و تاپ کھاتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔(۳)
  شب عاشور امام حسین ؑ نے اپنے ساتھیوں کو بلا کر ایک خطبہ ارشاد فرمایا:اور ان سے اپنی بیعت کو اٹھاتے ہوئے فرمایا:’’تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ اس لئے کہ ان ظالموں کو صرف مجھ سے سروکار ہے اس موقع پر حضرت عباس ؑ پہلے شخص تھے جنھوں نے وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:کیوں ایسا کریں ؟ کیا اس لئے کہ آپ کے بعد زندہ رہیں ؟خدا کبھی وہ دن نہ لائے (۴)
عاشورا کے دن میمنہ و میسرہ کے سردار معین ہوئے۔ فوج کا علم حضرت عباس ؑکو دیا گیا ۔ ایک کے بعد ایک ساتھی نے میدان کارخ کیا ۔ اس درمیان ایسا بھی ہوتا کہ بعض اصحاب لشکر کے درمیان گھر جاتے تو حضرت عباس ؑان کو نجات دیتے ۔ مثلا عمر بن خالد صیداوی، جابر بن حارث سلمانی و سعد غلام عمر بن خالد صیداوی ،مجمع بن عبد اللہ عائذی جو آغاز جنگ میں  دشمنوں کے محاصرہ میں آگئے تھے ۔ حضرت عباس ؑ نے حملہ کرکے ان کو نجات دی (۵)
۱۔ابصار العین ،ص ۵۸
۲۔ الملھوف ،ص ۱۴۹
۳۔ تاریخ طبری ،ج۵ ص۴۱۶۔ ایک نقل کے مطابق جب حضرت ابو الفضل ؑ نے شمر کو جواب دیا اس وقت حضرت زہیر قین آپ کے پاس آئے اور کہا:آپ کے والد امیر المومنین ؑ نے جناب عقیل سے ایک بہادر خاندان کی عورت کی خواہش ظاہر کی تھی تاکہ اس سے ایک بہادر اور شجاع بیٹا پیدا ہو جو کربلا میں حسین ؑکی مدد کرے لہذا آپ کے والد نے آپ کو اسی دن کے لئے ذخیرہ کیا تھا ۔ایسا نہ ہو کہ آپ اپنی بہنوں اور امام حسین ؑکی مدد سے منھ موڑلیں! جناب عباس یہ سن کر غضبناک ہوئے اور قسم کھائی اور کہا وہ کام کروں گا کہ ہرگز نہ دیکھا ہوگا (کبریت احمر، ص ۳۸۶)
۴۔ تاریخ طبری ، ج۵، ص ۴۱۹
 ۵۔ تاریخ طبری، ج۵، ص ۴۶۴
جب امامؑ کے تمام اصحاب اور بعض بنی ہاشم شہید ہو چکے تو حضرت عباس ؑ نے اپنے بھائیوں عثمان ،عبد اللہ اور جعفر سے فرمایا:کہ آگے بڑھو اور اپنے آقا اور مولا کی مدد کرو یہاں تک کہ ان کے سامنے جام شہادت پیو ۔ وہ سب میدان جنگ میں گئے اور شہید ہوئے (۱) اس کے بعد حضرت عباس ؑعازم میدان جنگ ہوئے ۔
خوارزمی اور ابن اعثم کوفی نے حضرت ؑکی شہادت کے سلسلے میں لکھا ہے کہ حضرت عباس ؑ میدان جنگ میں آئے اس وقت آپ کی زبان پر مندرجہ ذیل رجز جاری تھا۔
اقسمت باللہ الاعزالاعظم
 و بالحجون صادقا و زمزم 
و بالحطیم والفنا المحرم 
لیخضین الیوم جسمی بدمی
دون الحسین ذی الفخار الاقدم
امام اہل الفضل و لتکرم 
ترجمہ: میں قسم کھاتا ہوں خدائے بزرگ و بر تر کی اور حجون و زمزم و حطیم کی اور اس آستانہ کی جو محترم ہے کہ اپنے جسم کو اپنے خون سے رنگین کروں ۔ان حسینؑ کے دفاع میں جو ہمیشہ صاحب فخر اور اہل فضل و کرم ہیں ۔
۱۔ اخبار الطوال، ص ۲۵۷ اپنے بھائیوں کو میدان جنگ میں بھیجتے ہوئے حضرت عباس ؑ کی گفتگو میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ جناب عباسؑ نے اپنے بھائیوں عثمان ،عبداللہ اور جعفر سے کہا میدان جنگ میں جاؤ تاکہ میں تم سے میراث لوں(تاریخ طبری ،ج۵،ص۴۴۸)لیکن علماء شیعہ ،حضرت عباسؑ کی طرف اس نسبت کو جھوٹ اور تہمت مانتے ہیں جس کو دشمنوں نے آپؑ کی شخصیت کو مجروح کرنے کیلئے گڑھا ہے۔اس لئے کہ یہ کام انتہائی پست ہے جس کو دنیا پرست بھی انجام نہیں دیتے چہ رسد بہ حضرت ابو الفضلؑ علاوہ براین کہ ان کی ماں جناب ام البنین کے ہوتے ہوئے آپ کو بھائیوں کی میراث نہیں مل سکتی اس لئے کہ جب ماںموجود ہو تو بھائی کو میراث نہیں ملتی(العباس،مقرم ،ص ۱۱۳)
اسی وجہ سے بعض نے کہا ہے کہ کتابوں میں عربی متن أرثیکم (میںتمہارے غم میں بیٹھوں )أرثیکم ( میں تم سے میراث لوں)سے مشتبہ ہوا ہے یعنی در اصل أثیکم تھا جس کو لوگوں نے غلطی سے أرثکم پڑھا ہے (العباس ، مقرم ،ص ۱۱۴ بنقل از شیخ آقا بزرگ تہرانی صاحب الذریعہ) دوسرے بعض لوگوں نے کہا ہے أرثکم کے بجائے ’’أرزء بکم‘‘یا ’’ارزئکم‘‘(یعنی میں تمہاری مصیبت میں گرفتار ہوں) تھا ( العباس ، مقرم  بنقل از النقد النزیہ، ج ۱، ص ۹۹)
  حضرت عباس ؑ متعدد دشمنوں کو فی النار کرنے کے بعد شہید ہوئے امام حسین ؑآپ کے سر ہانے آئے اور کہا :
 ’’الآن انکسرظہری وقلت حیلتی ‘‘اب میری کمر ٹوٹ گئی اور راہ چارہ مسدود ہوگئی۔ (۱)
ابن شہر آشوب آپ کی شہادت کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ :سقا ،قمر بنی ہاشم، علمدار حضرت عباس ؑ  جو اپنے بقیہ بھائیوں سے بڑے تھے پانی لینے کے لئے باہر آئے ، دشمنوںنے ان پر حملہ کیا آپ نے بھی دشمنوں پر حملہ کیا ۔ اور یہ رجز پڑھا:
لا ارھب الموت اذا الموت رقا
حتیٰ اواری فی المصالیت لقا
 نفسی لنفس المصطفیٰ الطھر وقا
انی انا العباس أعدو بالسقا 
 ولا أخاف الشر یوم الملتقیٰ
’’میں موت سے نہیں ڈر تا ہوں اس لئے کہ موت کمال کا ذریعہ ہے یہاں تک کہ میرا جسم دوسرے بہادروں کے جسم کی طرح خاک میں پوشیدہ ہوجائے میری جان قربان ہو مصطفیٰؐ کی پاک جان پر میں عباس ؑہوں میرا لقب سقا ہے اور دشمن سے مقابلہ کے دن ہرگز خوف و ہراس نہیں رکھتا ‘‘یہ کہہ کر آپ نے حملہ کیا اور دشمنوں کو تتر بتر کردیا زید بن ورقہ جھنی نے درخت کی آڑ میں چھپ کر حکیم بن طفیل سنبسی کی مدد ے داہنے ہاتھ پر وار کیا جب عباسؑ نے شمشیر کو بائیں ہاتھ میں لے کر یہ رجز پڑھا :
واللہ ان قطعتم یمینی
 انی احامی ابدا عن دینی
عن امام صادق الیقین 
 نجل النبی الطاہر الامین 
قسم بخدا اگر میرا داہنا ہاتھ قلم کردو پھر بھی میں ہمیشہ اپنے دین اور صادق الیقین امام اور پاک و امین نبیؐ کے فرزند کی حمایت کروں گا۔
یہ کہہ کر آپ ؑنے سخت جنگ کی یہاں تک کہ آپ پر ضعف طاری ہوا اس موقع پر حکیم بن طفیل طائی نے درخت کے آڑسے آپ کے بائیں ہاتھ پر وار کیا  حضرت عباس ؑ نے اس طرح رجزپڑھا :
یا نفس لا تخشیٰ من الکفار
 و ابشری برحمۃ الجبار
مع النبی السید المختار
قد قطعوا ببغیھم یساری
فاصلھم یا رب حر النار
اے نفس کافروں سے مت ڈر خدائے جبار کی رحمت اور سید مختار نبی اکرم کی ہمنشینی کی بشارت ہو ان ملعونوں نے ظلم و ستم کے ذریعہ میرے بائیں ہاتھ کو بھی قلم کردیاخدایا! ان کو دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال ۔
۱۔مقتل الحسین خوارزمی، ج ۲، ص ۳۴  ؛ انوار الھدیٰ؛ المفتوح، ج ۵، ص ۲۰۷
پھر اس ظالم نے لوہے کا گرز آپ کے سر پر مارا اور آپ کو شہید کیا۔(۱)
اس  مقام پر علامہ مجلسی  مرحوم صاحب مناقب کے کلام کو ذکر کرنے کے بعد بعض مرسل منابع کو نقل کرتے ہوئے حضرت کی شہادت کی کیفیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’جب حضرت عباس ؑ نے اپنے بھائی کی تنہائی کو دیکھا تو آپؑ کے پاس تشریف لائے اور میدان میں جانے کی اجازت چاہی امامؑ نے فرمایا:تم میرے لشکر کے علمدار ہو اگر تم چلے گئے تو لشکر منتشر ہوجائے گا آپ نے عرض کیا :اب میرا سینہ تنگ ہوگیا ہے اور اب زندگی سے سیر ہوچکا ہوں چاہتا ہوں ان منافقوں سے اپنا انتقام لوں امامؑ نے فرمایا: (اگر جانا ہی چاہتے ہو تو ) ان بچوں کیلئے سبیل آب کردو  حضرت عباس ؑ دشمنوں کے مد مقابل آئے اور ان کو نصیحتیں کیں لیکن کسی نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوا واپس آکر امام کو اطلاع دی اس وقت سنا کہ بچے العطش العطش  ہائے پیاس ہائے پیاس کی صدائیں بلند کر رہے ہیں آپ نے مشک لی اور رہوار پر سوار ہوکر فرات کا رخ کیا ۔چار ہزار پہریداروںنے آپ کو گھیر لیا اور تیروں کی بارش کی آپ نے دشمنوں کو منتشر کیا اور ایک روایت کے مطابق اسی افراد کو قتل کیا فرات میں داخل ہوئے اور چلو میںپانی اٹھایا امام اور آپ کے ساتھیوں و بچوں کی پیاس یاد آگئی پانی کو فرات میں پھیکا مشک کو بھر کر ابنے داہنے کندھے پررکھااور خیمہ کی جانب روانہ ہوئے دشمنوں نے راستہ روکا اور ہر طرف سے محاصرہ کرلیا حضرت عباس ؑ نے ان کے ساتھ جنگ کی اچانک نوفل ارزقی نے آپ کے داہنے ہاتھ پر وار کیاآپ نے مشک کو بائیں کندھے پر رکھا نوفل نے ایک وار بائیں بازو پر کیا بازو جدا ہو گیا اس وقت حضرت عباس ؑ نے تسمے کو دانتوں سے دبایا اس درمیان ایک تیر آیا اور مشک میں پیوست ہوگیا۔اور سارا پانی بہہ گیا ایک دوسرا تیر سینۂ مبارک پر لگا گھوڑے سے زمین پر تشریف لائے اور امام حسین ؑ کو آواز دی اے آقا میری مدد کیجئے ۔جب امام آپ کے سرہانے پہونچے دیکھا اپنے خون میں نہائے ہوئے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ جب  حضرت عباس ؑ شہید ہوئے اس وقت امام حسین ؑ نے فرمایا:
 الآن انکسر ظہری و قلت حیلتی (۲)
اب میری کمر ٹوٹ گئی اور راہ چارہ مسدود ہوگئی 
زیارت ناحیہ میں امام زمانہ نے آپ کو اس طرح یاد فرمایا :
السلا م علی ابی الفضل العباس ؑ بن امیر المومنینؑ المواسی أخاہ بنفسہ ،الآخذ لغدہ من امسہ ،الفادی لہ الواقی الساعی الیہ بمائہ ، المقطوعۃیداہ ،لعن اللہ قاتلیہ یزیدبن الرّقاد الجھنی،۔۔۔۔۔۔وحیکم بن الطفیل الطائی ،  (۳)
۱۔مناقب آل ابی طالب ج ۴ ص :۱۱۴
۲۔بحار الانوار، ج ۴۵، ص ۴۱  ؛روضۃ الشہداء، ص ۴۱۵ 
۳۔ اقبال ،ج۳ص۷۴
سلام ہو امیرالمومنین ؑ کے بیٹے ابوالفضل العباس علیہ السلام پر جنہوں نے اپنے بھائی پر اپنی جان نثار کردی اپنے کو فداکیا اورخود کو سپر قراردیا پانی پہنچانے میں پوری کوشش کی لیکن دونوں ہاتھ قلم ہوگئے خدا لعنت کر ے ان کے قاتلین یزید بن رقادجہنی اور حکیم ابن طفیل پر ، حضرت عباس علیہ السلام کا روضہ بقیہ دوسرے شہیدوں سے الگ نہر علقمہ کے کنارے ہے  ۔

حضرت عباس علیہ السلام کا علم

باسمہ تعالیٰ

حضرت عباس علیہ السلام کا علم

سید محمد حسنین باقری

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ عالم علم لدنی اور علم الٰہی کا مظہر صرف اور صرف رسولﷺ و آل رسولؑ ہیں۔ تاریخ بشریت میں اگر کسی نے سلونی کا دعویٰ کیا اور اس دعوے کی لاج رکھی تو صرف یہی افراد تھے۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ اس گھر کے پروردہ اور ان آغوشوں کے پلے ہوئے اگر علم و معرفت کی معراج حاصل کرلیں تو جائے تعجب نہیں۔ اگر کسی آغوش میں پل کر اور حصار عصت میں رہ کر کوئی خاتون عالمۂ غیر معلمہ ہو تو اسی گھرانے میں انہیں آغوشوں کے پروردہ جسے ہم تمنائے علیؑ کہتے ہیں اگر وہ علم و فقاہت کی معراج پرپہنچ جائے تو تعجب کا مقام نہیں بلکہ بر عکس اگر اس مقام تک نہ پہنچے تو تعجب ہونا چاہئے۔ حضرت عباسؑ نے جس آغوش میں آنکھ کھولی ، جن گودیوں میںپروان چڑھے وہ ایک طرف حضرت علیؑ جیسا باپ تو دوسری طرف امام حسنؑ و امام حسینؑ جیسے بھائی تھے پھر تیسری طرف عالمۂ غیر معلمہ جناب زینبؑ جیسی بہن تھیں، اس کے علاوہ ام البنین جیسی ماں جن کا عالمہ اور شاعرہ ہونا کتابوں میں مذکور ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ حضرت عباسؑ خود عالم ربانی اور علم لدنی کے حامل تھے۔ اس لئے کہ ’’حضرت عباسؑمیں ایک طرف تو فطری ذہانت و ذکاوت تھی تو دوسری طرح امیر المومنینؑ نے آپ کی استعداد کو اس قدر جلا بخشی کہ جناب عباس ؑ عصمت کبریٰ حضرت فاطمہ زہرا ؐ کی آرزوؤں کا مرکز بن گئے۔ حضرت علیؑنے اپنے بعض اصحاب کی بھی اس طرح پرورش فرمائی تھی کہ ان کے ظرف میں ہستی کے اسرار اور موت و قیامت کے حالات قبل از وقت معلوم کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی تھی مثلاً حبیب ، میثم ، رشید وکمیل؛ کیا ایسی صورت میں ممکن ہے کہ اپنے لخت جگر کو ایسے علوم و اسرار سے باخبر نہ کیا ہو جب کہ حضرت عباسؑمیں اور وں کی بنسبت زیادہ صلاحیت و استعداد تھی۔
کردار علیؑشاہد ہے حضرتؑ نے ہر شخص کو اس کی صلاحیت و استعداد کے بقدر اپنے علم سے بہرہ مند فرمایا۔’’ لہٰذا جب علیؑجیسا فیض رساں علم لٹا رہا ہو اور عباسؑجیسی جامع صفات و صاحب استعداد ذات علم لے رہی ہو تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عباسؑکائنات میں بعد از معصومؑایمان و ایقان میں سب سے اعلیٰ و ارفع مرتبہ پر فائز ہیں۔
 حضرت عباسؑنے امیر المومنینؑ کے بعد معلمان الٰہی حضرات حسنینؑسے کسب فیض کیا اور ایک لحظہ کےلئے تاریخ نہیں کہتی کہ حضرت عباسؑفرزند ان زہراؑکی عصمتی و علمی بزم سے دور رہے ہوں، ان دو اماموں کے بحر بیکراں میں غواصی فرمائی اور خوب دل کھول کر معارف الٰہیہ کے درِ بے بہا حاصل کئے مزید اس ماحول کو عالمہ غیر معلمہ زینب کبریؑ نے بام عروج تک پہنچادیا تھا۔
ماحول کی پاکیزگی اور ذاتی فضائل و مناقب ، اخلاص ، طاعت و عبادت کی پابندگی جیسے افعال نے ابو الفضل العباس علیہ السلام میں علم و معرفت کے دریچے وَا کردیئے تھے۔
پیغمبر اکرمﷺ سے مروی ہے:اگر کوئی شخص چالیس روز تک خدا کےلئے کام انجام دیتا رہے تو اس کے قلب و زبان سے حکمت کے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں۔ (۱)
 اس حدیث کی روشنی میںاس شخص کےلئے کیا کہا جاسکتا ہے جس نے اپنی پوری عمر خدا کی خوشنودی و رضا کے لئے بسر کی ہو جو ہر برائی سے مبرا اور ہر نیک صفت سے آراستہ رہا ہو۔ اس طرح کے لوگوں پر خدا کے نور کی چھوٹ پڑتی رہتی ہے اور ان کا علم فقط اکتسابی نہیںہوتا بلکہ وہبی ہوا کرتا ہے۔
حضرت عباسؑ کے سلسلے میں یہ روایت بھی نقل ہوئی ہے جس سے آپ کے علم وہبی کی گواہی ملتی ہے :’’ اِنّہ زُقّ العلم زَقّاً ‘‘جناب عباسؑ کو اس طرح علم سکھایا گیا جس طرح پرندہ اپنے بچے کو دانا بھراتا ہے۔ (۲)
اس تشبیہ میں کچھ باتوں کی طرف اشارہ ہے : ایک تو یہ کہ طائر اپنے بچے کو اتنا دانا بھراتا ہے کہ وہ سیر ہوجائے مزید طلب نہ رہے۔ لہٰذا جناب عباسؑ کو اتنا علم دیا گیا کہ اب انہیں کہیں اور سے علم لینے کی ضرورت نہ رہی۔ دوسری بات یہ کہ طائر اپنے بچے کو اس کی ابتدائی عمر میں رزق فراہم کرتا ہے اسی طرح جناب عباسؑ کو بچپنے ہی میں رزق علم اپنے بزرگوں سے مل چکا تھا۔ اور پھر تیسری بات یہ کہ طائر پرندہ کو وہی بھراتا ہے جو لیکر آتا ہے۔ جناب عباسؑ کو امیر المومنینؑ اور حضرات حسنین ؑ نے وہ علم سکھایا جو خدا کے یہاں سے لیکر آئے تھے۔ چوتھا اشارہ یہ کہ بچے میں دانا ہضم کرنے کی صلاحیت تو ہوتی ہے لیکن دانا فراہم کرنے کی توانائی نہیںہوتی اس تعبیر سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ حضرت عباسؑمیں بچپنے ہی سے علم حاصل کرنے کی صلاحیت و قابلیت موجود تھی۔
 صاحب کنزالمصائب کے  بیان کے مطابق : ’’ان العباسؑ اخذ علما جماً فی اوائل عمرہ عن ابیہ و امہ و اخواتہ‘‘  یعنی حضرت عباسؑ نے صغر سنی میں ہی اپنے والد والدہ اور بھائی بہنوں سے بہت زیادہ علم حاصل کرلیا تھا ۔(۳)
اسی طرح علامہ محمد باقر بیر جندی نے تحریر فرمایا ہے کہ : جناب عباس ؑ خاندان عصمت و طہارت کے عظیم المرتبت علماء و فقہا و افاضل میں اکابر میں تھے بلکہ غیر متعلم تھے۔یعنی آپ وہ عالم تھے جن کو غیر از معصوم کسی نے تعلیم نہیں دیا تھا ۔ (۴)
حضرت علیؑ اور امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی تربیت اور ان حضرات کی آغوش علم و عمل و ایمان نے جناب عباسؑ کو علم کے ساتھ ساتھ ایسی معرفت بھی عطا کی کہ آپ کو توحید کا بلند ترین منارہ قرار دیا ۔ عصمتی تربیت گاہ کی وجہ سے حضرت عباسؑ اسرار لاہوت سے باخبر تھے اور انوار ملکوت کا مظہر بنے ہوئے تھے۔
آپ کی کمسنی کا واقعہ ہے کہ ایک دن امیر المومنین ؑ کے زانوپر بیٹھے تھے تو دوسری طرف جناب زینبؑ تشریف فرما تھیں۔ امیر المومنینؑ  نے جناب عباسؑ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا : بیٹا کہو ایک (واحد) جناب عباسؑ نے ـجواب میں کہا: ایک (واحد) امام ؑ نے پھر فرمایا: کہو دو (اثنان) جناب عباسؑ نے جواب دیا : کہ بابا جان جس زبان سے میں نے ایک کہا ہے اس سے دو کہتے ہوئے شرم آرہی ہے۔( یعنی جس زبان سے خدا کی وحدانیت کا اقرار کرلیا اس سے دو کا لفظ استعمال نہیں کرسکتا۔) ۔۔۔ (۵)
حضرت عباسؑ کے اس جواب سے ظاہر ہے کہ ان کے اندر بچپنے ہی سے نور الٰہی ضو فگن تھا ورنہ اس سن و سال کے بچے اس سے کم سطح کی باتوں کو بھی محسوس نہیں کرپاتے لہٰذا ماننا پڑے گا کہ حضرت عباسؑ پر امیر المومنینؑ حضرات حسنین ؑ کے نورانی وعصمتی کردار کے اثرات تھے تو دوسری طرف خدا نے اپنے خاص عطیہ سے بھی نوازا تھا۔
 جناب عباسؑ کے علم و معرفت کی گواہ یہ حدیث بھی ہے جس میں امام جعفر صادق ؑ اپنے چچا کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں : کان عمنا العباسؑ نافذ البصیرۃ ،صلب الایمان ، جاہد مع ابی عبد اللہ و ابلا بلاءً حسناً و مضیٰ شہیداً یعنی ہمارے چچا عباس ؑ کمال بصیرت اور مستحکم ایمان والے تھے۔ آپ نے امام حسینؑ کے ساتھ جہاد کیا اور بلا و مصیبت میں گرفتار ہوکر جام شہادت نوش فرمایا۔ (۶)
ابتک کی گفتگو کو سامنے رکھتے ہوئے آسانی سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ جناب عباس علم معصومؑ کا مظہر تھے۔ آپ کو معصومینؑ کی جانب سے علم عطا ہوا تھا، آ پ علم وہبی کے حامل اور عالم ربانی و عالم علم لدنی تھے اور آپ کی عظمت و کردار اور مقام و مرتبہ نتیجہ تھا صحیح علم اور مکمل معرفت کا ۔ غازی ابوالفضل العباسؑ کا علوم اہل بیتؑ سے آراستہ ہونا اور علمی کمال حاصل کرنا ایک ایسی فضیلت ہے جو عام طور پر بیان نہیں ہوپاتی۔ یقینایہ ایک ایسی صفت تھی جو اہل بیتؑ کے بعد جناب عباس کو عطا ہوئی لہذا اگر ہم غازی عباسؑ کے نام لیوا ہیں ، ان سے عقیدت و محبت رکھتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم بھی علمی میدانوں میں کمال حاصل کریں کم از کم یہ سوچ کرعلم حاصل کریں کہ یہ اہل بیتؑ کی میراث اور غازی عباسؑ کی سیرت ہے۔ یقیناً علم کے ساتھ جو معرفت حاصل ہوتی ہے وہ بغیر علم کے کبھی حاصل نہیں ہوسکتی اگر ابو الفضل العباس نے وہ عظیم کارنامہ انجام دیا جس کی نظیر دنیا پیش نہیں کرسکتی ، امام معصوم کی اطاعت میں اس طرح سر تسلیم خم کیا کہ اطاعت اولی الامر کی تفسیر بن گئےتو وہ نتیجہ تھا علم و معرفت کا۔ لہذا ہم بھی اگر جناب عباس کو اپنا مقتدا مانتے ہیں ، ان کی سیرت پر چلنے کے دعوے دار ہیں، دنیامیں غازی عباس کی طرح عزت کی زندگی جینا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی علم کو اہمیت دیکر اسے حاصل کرنا ہوگا اور علمی میدانوں میں ترقی کرکے اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کو دوبارہ واپس لینا ہوگا۔ آج اگر ہم نے علمی میدانوں میں ترقی کی، خوب علم حاصل کیا، علمی کارنامے انجام دیے تو گویا ہل بیتؑ کی میراث کی حفاظت کی اور اپنی ملکیت کو اپنے پاس رکھا جس سے یقیناً اہل بیتؑ اور غازی عباس کی خوشنودی کا سامان فراہم کیا۔
لہذا آئیے آج ہی عہد کریں کہ اہل بیتؑ کی میراث کی اور ان کی ملکیت یعنی علم جس کے وارث صرف اور صرف ہم ہیں اسے جس طرح حاصل کرنا چاہیے حاصل کریں گے اور اس کی حفاظت کا فریضہ انجام دیں گے۔
۱۔بحار الانوار،ج۷۰،ص۲۴۲؛کنزالعمال،۳،ص۵۲۷۱۔۲۔حقائق العباسیہ محمد ابراہم کلباسی صفحہ ۲۹۷ ، چہرہ درخشاں جلد ایک صفحہ ۸، فرسان الہیجا جلد ۱ صفحہ ۱۹۲۔۳۔معالی السبطین جلد۱ صفحہ ۴۳۱۔۴۔کبریت احمر جلد۳ صفحہ ۳۵ بنقل از صحیفہ وفا،ص۱۶۲۔۵۔ مستدرک الوسائل نوری جلد۱۵ صفحہ ۲۱۵، حدیث ۱۸۰۴۰ابواب احکام اولاد باب ۷۹ بنقل از کبریت احمر صفحہ ۷۳۳۔۶۔ عمدۃ الطالب صفحہ ۲۳۹ از کبریت احمر صفحہ ۷۳۵۔���

جمعرات، 28 جون، 2018

قرآن اور امام حسین

اگر قرآن سيد الکلام ہے (1) تو امام حسين سيد الشہداء ہيں (2) ہم قرآن کے سلسلے ميں پڑھتے ہيں، ''ميزان القسط'' (3) تو امام حسين فرماتے ہيں،''امرت بالقسط'' (4) اگر قرآن پروردگار عالم کا موعظہ ہے،''موعظة من ربکم''(5) تو امام حسين نے روز عاشورا فرمايا ''لا تعجلوا حتيٰ اعظکم بالحق'' (6) (جلدي نہ کرو تاکہ تم کو حق کي نصيحت و موعظہ کروں) اگر قرآن لوگوں کو رشد کي طرف ہدايت کرتا ہے، ''يھدي الي الرشد'' (7) تو امام حسين نے بھي فرمايا،''ادعوکم الي سبيل الرشاد'' (8) (ميں تم کو راہ راست کي طرف ہدايت کرتاہوں) اگر قرآن عظيم ہے، ''والقرآن العظيم'' (9) تو امام حسين بھي عظيم سابقہ رکھتے ہيں،''عظيم السوابق''(1٠ )-
اگر قرآن حق و يقين ہے،''وانہ لحق اليقين''(11) تو امام حسين کي زيارت ميں بھي ہم پڑھتے ہيں کہ :صدق و خلوص کے ساتھ آپ نے اتني عبادت کي کہ يقين کے درجہ تک پہنچ گئے''حتيٰ اتاک اليقين''(12) اگر قرآن مقام شفاعت رکھتا ہے ،''نعم الشفيع القرآن''(13) تو امام حسين بھي مقام شفاعت رکھتے ہيں''وارزقني شفاعة الحسين''(14) اگر صحيفہ سجاديہ کي بياليسويں دعا ميں ہم پڑھتے ہيں کہ قرآن نجات کا پرچم ہے ،''علم نجاة''تو امام حسين کي زيارت ميں بھي ہم پڑھتے ہيں کہ آپ بھي ہدايت کا پرچم ہيں،''انہ راےة الھديٰ''(15) اگر قرآن شفا بخش ہے،''وننزل من القرآن ما ھو شفائ'' (16) تو امام حسين کي خاک بھي شفا ہے ،''طين قبر الحسين شفائ'' (17)-
اگر قرآن منار حکمت ہے (18) تو امام حسين بھي حکمت الٰہي کا دروازہ ہيں ،''السلام عليک يا باب حکمة رب العالمين''(19) اگر قرآن امر بالمعروف کرتا ہے ،''فالقرآن آمروا زاجراً''(٢٠ ) تو امام حسين نے بھي فرمايا،''ميرا کربلا جانے کا مقصد امر بالمعروف ونھي عن المنکر ہے-اريد ان آمر بالمعروف و انھيٰ عن المنکر''(21) اگر قرآن نور ہے،''نوراً مبيناً''تو امام حسين بھي نور ہيں ،''کنت نوراً في اصلاب الشامخة''(22) اگر قرآن ہر زمانے اور تمام افرادکے لئے ہے،''لم يجعل القرآن لزمان دون زمان ولا للناس دون ناس''(23) تو اما م حسين کہ سلسلہ ميں بھي پڑھتے ہيں کہ کربلا کے آثار کبھي مخفي نہيں ہوں گے،''لا يدرس آثارہ ولا يمحيٰ اسمہ''(24)-
اگر قرآن مبارک کتاب ہے،''کتاب انزلناہ اليک مبارک'' (25) تو امام حسين کي شہادت بھي اسلام کے لئے برکت و رشد کا سبب ہے،''اللہم فبارک لي في قتلہ'' (26) اگر قرآن ميں کسي طرح کا انحراف و کجي نہيں ہے،''غير ذي عوج''(27) تو امام حسين کے سلسلے ميں بھي ہم پڑھتے ہيں کہ آپ ايک لمحہ کے لئے بھي باطل کي طرف مائل نہيں ہوئے،''لم تمل من حق الي الباطل'' (28) اگر قرآن ،کريم ہے ،''انہ لقرآن کريم'' (29) تو امام حسين بھي اخلاق کريم کے مالک ہيں،''وکريم الاخلاق'' (٣٠ ) اگر قرآن ،عزيز ہے، ''انہ لکتاب عزيز'' (31) تو امام حسين نے بھي فرمايا: کبھي بھي ذلت کو برداشت نہيں کرسکتا،''ھيھات من الذلة'' (32)-
اگر قرآن مضبوط رسي ہے،''ان ھٰذا القرآن والعروة الوثقيٰ'' (33) تو امام حسين بھي کشتي نجات اور مضبوط رسي ہيں،''ان الحسين سفينة النجاة والعروة الوثقيٰ''(34) اگر قرآن بين اور روشن دليل ہے ،''جائکم بينة من ربکم''(35) تو امام حسين بھي اس طرح ہيں،''اشھد انک عليٰ بينة من ربکم''(36) اگر قرآن آرام سے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہئے ،''ورتل القرآن ترتيلا'' (37) تو امام حسين کي قبر کي زيارت کو بھي آہستہ قدموں سے انجام دينا چاہئے،''وامش يمشي العبيد الذليل''(38) اگر قرآن کي تلاوت حزن کے ساتھ ہونا چاہيئے ،''فاقروا بالحزن'' (39) تو امام حسين کي زيارت کو بھي حزن کے ساتھ ہونا چاہيئے ،''وزرہ وانت کشيب شعث''(٤٠ )-
ہاں! کيوں نہ ہو حسين قرآن ناطق اور کلام الٰہي کا نمونہ ہيں-
حوالہ جات:
(1)مجمع البيان،ج2،ص361- (2)کامل الزيارات-
(3)جامع الاحاديث الشيعہ،ج12،ص481-
(4)سورہ يونس/57-
(5)لواعج الاشجان،ص26-
(6) سورہ جن/2-
(7)لواعج الاشجان،ص128-
(8)سورہ حجر/87-
(9)بحار،ج98،ص239-
(1٠ )سورہ الحاقہ/51-
(11)کامل الزيارات،ص2٠ 2-
(12)نھج الفصاحة،جملہ،ص662-
(13)زيارات عاشورا-
(14)کامل الزيارات،ص٧٠ -
(15)سورہ اسرائ/82-
(16)من لا يحضر ہ الفقيہ،ج2،ص446-
(17)الحياة،ج2،ص188-
(18)مفاتيح الجنان-
(19)نھج البلاغہ،ح182-
(٢٠ ) مقتل خوارزمي،ج1،ص188-
(21)سورہ نسائ/174-
(22)کامل الزيارات،ص2٠٠ -
(23)سفينة البحار،ج2،ص113-
(24)مقتل مقرم-
(25)سورہ ص/29-
(26)مقتل خوارزمي يہ پيغمبر کا جملہ ہے-
(27)سورہ زمر/28-
(28)فروع کافي،ج4،ص561-
(29)سورہ واقعہ /77-
(3٠ )نفس المہموم،ص7-
(31)فصلت/41-
(32)لہوف،ص54-
(33)بحار،ج2،ص31-
(34)پرتوي از عظمت امام حسين ،ص6-
(35)سورہ انعام/157-
( 36)فروع کافي،ج2،ص565-
(37)سورہ مزمل/4-
(38)کامل الزيارات-
(39)وسائل،ج2،ص857-
(4٠ )کامل الزيارات-

تحرير: استادقراءتي
مترجم : مولانا سيد حسنين باقري