ولایت الٰہی ، ولایت اہلبیتؑ سے جدا نہیں ہوسکتی
آیۃاللہ مصباح یزدی مد ظلہ
ترجمہ: سید محمد حسنین باقری
قرآن کی نظر میں حزب اللہ (الہی گروہ ) کی اہم خصوصیت’ تسلیم ولایت‘
قرآن کریم نے دو آیات میں ’’حزب اللہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ایک سورہ مائدہ آیت ۵۵ و ۵۶ میں:
إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ. وَ مَنْ يَتَوَلَّ اللّهَ وَ رَسُولَهُ وَ الَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْغالِبُونَ؛
(ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔اور جو بھی اللہ ,رسول اور صاحبانِ ایمان کو اپنا سرپرست بنائے گا تو ’’اللہ کی ہی جماعت‘‘ غالب آنے والی ہے)
یہ آیۂ کریمہ نماز میں رکوع کی حالت میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے مشہور انفاق کے سلسلے میں ہے۔شیعہ و سنّی مفسرین و محدثین نے اس آیت کے شان نزول کے سلسلے میں بیان کیا ہے کہ ایک سائل مسجد میں آیا دست سوال دراز کیا لیکن کسی نے اس کو کچھ نہیں دیا۔ امیرالمومنین علیہ السلام جو اس وقت نماز میں مشغول تھے اور رکوع کی حالت میں تھے، سائل کی طرف اشارہ فرمایا اور اپنی انگوٹھی اسے دے دی۔اس واقعہ کے بعد مذکورہ آیت امام علی علیہ السلام کی عظمت و منزلت کے سلسلے میں نازل ہوئی۔ اس آیت میں جو لفظ زکات استعمال ہوا ہے وہ قرآن کی اصطلاح میں واجبی زکات سے مخصوص نہیں ہےبلکہ واجبی و مستحبی دونوں طرح کی زکات کو شامل ہے ۔
بہر صورت آیت آگے بیان کرتی ہے: جو لوگ خدا، رسول اور ذکر شدہ اوصاف کے حامل مومنین کی ولایت کو تسلیم کریں وہی ’’حزب اللہ‘‘ ہیں۔
لہذا خداوند عالم نے ’’صاحبان ولایت ‘‘ اور ’’حزب اللہ‘‘ کو ایک قرار دیا ہے۔
دوسری آیت جس میں حزب اللہ کی تعبیر بیان ہوئی ہے، سورہ مجادلہ کی آیت ۲۲ ہے:
لا تَجِدُ قَوْماً يُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ يُوادُّونَ مَنْ حَادَّ اللّهَ وَ رَسُولَهُ وَ لَوْ كانُوا آباءَهُمْ أَوْ أَبْناءَهُمْ أَوْ إِخْوانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمانَ وَ أَيَّدَهُمْ بِرُوح مِنْهُ وَ يُدْخِلُهُمْ جَنّات تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ خالِدِينَ فِيها رَضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ أُولئِكَ حِزْبُ اللّهِ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ؛
خداوند عالم نے اس آیت میں بھی ’’اہل ولایت‘‘ اور ’’حزب اللہ‘‘ کے اوصاف بیان کئے ہیںاور ارشاد فرمایا ہے:
’’آپ کبھی نہ دیکھیں گے کہ جو قوم اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھنے والی ہے وہ ان لوگوں سے دوستی کررہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی کرنے والے ہیں چاہے وہ ان کے باپ دادا یا اولاد یا برادران یا عشیرہ اور قبیلہ والے ہی کیوں نہ ہوں ‘‘-
خدا کے اوپر ایمان اور دشمنان خدا کے ساتھ دوستی ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتی۔ پھر ارشاد ہوتا ہے:ان کی جزا یہ ہے کہ’’ اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان لکھ دیا ہے‘‘ ( كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمانَ)۔ ان کی دوسری جزا یہ ہے کہ ’’اپنی خاص روح کے ذریعہ تائید کی ہے ‘‘ ( وَ أَيَّدَهُمْ بِرُوح مِنْه) روح الٰہی یہ بارگاہ الٰہی کا ایک عظیم و مقرب فرشتہ ہے۔ یہ دو جزائیں دنیا سے متعلق ہیں۔ان کی اخروی جزا جنت میں داخلہ ہے(: وَ يُدْخِلُهُمْ جَنّات تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ خالِدِينَ فِيها)رضوان خدا اور خوشنودیٔ خدا ان سے ہے:( رَضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْه)اور خدا کی خوشنودی عظیم ہے۔اور یہی عظیم کامیابی ہے۔وہ انہیں ان جنّتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ ا ن ہی میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے - خدا ان سے راضی ہوگا اور وہ خدا سے راضی ہوں گے یہی لوگ اللہ کا گروہ ہیں اور آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ کا گروہ ہی نجات پانے والا ہے‘‘۔
البتہ یہ بات کہ خدا کی خوشنودی کیا ہے؟ اس کا ثر کیسے ظاہر ہوتا ہے؟اور بنیادی طور پر یہ نعمت تمام بہشتی نعمتوں سے افضل ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ہماری اس وقت کی بحث سے خارج ہیں۔
بہر حال خداوند عالم نے اپنے بندوں و اپنے اولیاء کے لئے سب سے بڑا اجر و انعام اپنی رضا و خوشنودی کو قرار دیا ہے۔ اور اہل ولایت اس اجر سے بہرہ مند ہیں اور یہ رضایت دو طرفہ یعنی خدا اور اہل ولایت کے درمیان ہے ۔ خدا بھی ان سے راضی ہے اور وہ بھی خدا سے راضی ہیں: ’’ رَضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ‘‘۔پھر فرماتا ہے:یہ خدا کے گروہ ہیں اور فلاح و کامیابی ان کے لئے ہے:’’أُولئِكَ حِزْبُ اللّهِ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.‘‘۔
مذکورہ دونوں آیات(مائدہ ۵۶ اور مجادلہ ۲۲) کے مطالعہ اور دونوں کو آپس میں ربط دینے سے بخوبی یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام ہی ’’حزب اللہ‘‘ (الٰہی گروہ) کے واقعی و حقیقی اور مکمل مصداق ہیں۔ برترین کامیابی انہیں کے شایان شان ہے۔ اس کے علاوہ اس دنیا میں ہمیشہ خداکی جانب سے تائید یافتہ ہیں: ’’و ایّدھم بروح منہ‘‘ اگر ہم یہ دعوی کریں کہ اس طرح کی تائید ( روح منہ کے ذریعہ) اس دنیا میں سب سے عظیم الٰہی نعمت ہے، تو یہ غلط دعوی نہیں ہے اس دنیا میں بہت سی نعمتیں ہیں جن سے مومن کافر سب بہرہ مند ہوتے ہیں مثلاً زندگی، عقل، صحت و سلامتی، لباس و غذا و مکان۔۔۔لیکن اس دنیا میں کچھ نعمتیں ایسی بھی ہیں جو ان افراد سے مخصوص ہیں جو اپنی عقل سے بہتر طریقہ سے استفادہ کریں۔ اگر انسان اپنی عقل سے صحیح طور پر استفادہ کرےتو خداوندعالم اس کی عقل کو مزید نورانی بنادیتا ہے۔ ہدایت کی نعمت ابتدا میں تو تمام لوگوں کے اختیار میں ہے لیکن اس نعمت سے استفادہ وہی لوگ کرتے ہیں جو اہل تقوی ہوں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ خدا کی جانب سے غیبی تائید اور مدد سے بہرہ مند ہونے کے حقدار ہوجاتے ہیں۔ یہاں پر خدا کی جانب سے غیبی تائید سے بہرہ مند ہونے کا سب سے بڑا مرتبہ یہ ہے کہ خداوندعالم انتہائی عظیم فرشتے کے ذریعہ کسی کی تائید کرے۔ یہ فرشتہ انسان کو شیطان اور دوسرے انحرافی عوامل سے محفوظ رکھتا ہے اور شیطان کے مقابل مغلوب نہیں ہونے دیتا۔ بہر صورت جو لوگ اپنے مختلف مراتب کے ساتھ الٰہی تائید حاصل کرنے کے مستحق ہوجاتے ہیں وہی ’’حزب اللہ‘‘ (الٰہی گروہ) کہے جاتے ہیں۔
حزب اللہ کے مقابل دوسرا گروہ ہے جسے قرآن نے ’’حزب الشیطان‘‘ کہا ہے۔ حزب الشیطان کی تعبیر قرآن میں صرف ایک جگہ سورہ مجادلہ آیت ۱۹ میں آئی ہے اور قرآن نے اسی سورہ (آیت ۲۲) میں قبل اس کے کہ حزب اللہ اور اس کے اوصاف کے بارے میں گفتگو کرے، آیات ۱۴ تا ۱۹ میں شیطانی گروہ اور اس کی خصوصیات کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ الٰہی گروہ (حزب اللہ) وہ لوگ ہیں جنھوں نے خدا کی ولایت کو تسلیم کیا اور اس کو اپنا ولی مانا ہے اور ولایت الٰہی کو قبول کرنے کے بعد جب ان کے سامنے نبیؐ کو پیش کیا گیا تو نبیؐ کی ولایت کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ لوگ پیغمبرؐ کی ولایت کے بعد ان کے جانشینوں یعنی ائمہ معصومینؑ کی ولایت کو بھی قبول کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں اپنے آخری وظیفہ کو بھی پورا کیا ہے تو خدا بھی اپنا عظیم انعام انہیں عطا کرتا ہے۔ اس کے مقابل شیطانی گروہ خدا کی ولایت، رسولؐ کی ولایت اور ائمہؑ کی ولایت سے محروم ہے اور اپنے کو شیطان کی ولایت کا تابع قرار دیا ہے اس کی پیروی کرتا ہے۔
صاحب ولایت بننے کیلئے دو عوامل کی ضرورت ہے:
توجہ رکھنا چاہئے کہ خدا کی ولایت ، رسولؐ کی ولایت، امیرالمومنینؑ کی ولایت اور ائمہ معصومینؑ کی ولایت کے مختلف مراتب ہیں اور وہ تمام لوگ جو اس ولایت سے بہرہ مند ہیں وہ سب ایک درجہ میں نہیں ہیں۔ اس ولایت کے بالاترین درجہ پر پہنچنے کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہے: ۱)معرفت و شناخت۔ ۲) مضبوط ارادہ رکھنا و عمل کرنا۔
اسلامی تاریخ میں بہت سے افراد نے پیغمبر اکرمﷺؑ کوپہچانا، آپؐ پر ایمان لائے اور جو کچھ ان کے اختیار میں تھا اسے اسلام کی تقویت کے راستے میں بروئے کار لائے اور اس سلسلے میں اپنی طرف سے کسی کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کیا لیکن ان کی کوتاہی و کمی پیغمبر ﷺ کے جانشین کو پہچاننے میں ہے۔ البتہ ایسا نہیں ہے کہ ہمیشہ اس سلسلے میں ان کی جانب سے کوتاہی تھی بلکہ ان میں سے بہت سوں کو شناخت و معرفت کی توفیق نصیب نہیں ہوئی اگر اہل بیتؑ کی ولایت ان کے لئے ثابت ہوجاتی تو تسلیم کرنے میں تامّل نہ کرتے یہ لوگ ولایت ائمہ معصومین علیہم السلام کے اعتبار سے کمزوری و معرفت میں کمی میں مبتلا ہیں۔
بعض لوگ پہلے عامل (شناخت) میں کوئی دشواری نہیں رکھتے ان کا معاملہ دوسرے عامل میں ہے ان لوگوں نے اپنے عمل میں کوتاہی و کمی کا مظاہرہ کیا اور اپنے عمل و وظیفہ کو بجا نہ لائے۔
دوسری طرف جو لوگ معرفت کے تمام مراحل کو حاصل کرلیں یعنی خدا کی معرفت، رسول خداؐ کی معرفت، پیغمبرؐ کے جانشینوں کی معرفت میں کامیاب ہوجائیں اور مقام عمل میں بھی ان کےاحکامات و فرامین پر عمل پیرا ہوں اور امتحان کے مرحلے سے کامیابی سے گزرجائیں یہی لوگ ’’حزب اللہ‘‘ کا مصداق ہیں اور مکمل و مطلق کامیابی انہیں افراد کے لئے ہے: ’’ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ‘‘(مجادلہ؍۲۲) لہذا، حزب اللہ اور اہل ولایت کے زمرہ میں آنے کے لئے انسان خدا کی جانب سے دو طرح کی توفیقات کا محتاج ہے پہلی توفیق معرفت و شناخت کا حاصل کرنا اور دوسری توفیق حاصل شدہ معرفت کے مطابق عمل کی توفیق۔ مقام عمل میں خدا کی جانب سے سخت امتحان کا ایک مرحلہ اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب ایک شخص کی دنیاوی زندگی کی لذتیں و منافع اس کے عقائد کے ساتھ مطابقت و ہماہنگی نہ رکھتے ہوں۔ بہ الفاظ دیگر اگر اپنے عقائد کے مطابق عمل کرنا چاہے تو مجبور ہو کہ اپنی بعض لذتوں اور خوشیوں سے صرف نظر کرے۔ ایسے موقع پر اس کے لئے امتحان کی زمین فراہم ہوتی ہے کہ آیا اپنی لذت و منفعت کو مقدم کرے یا جس پر ایمان لایا ہے اس پر کاربند رہے۔ اگر اس طرح کا امتحان ہمارے سامنے پیش آجائے تو کیا جو عہد و پیمان ہم نے اولیائے خدا سے باندھا ہے اس پر وفادار رہیں گے۔
ولایت کے مفہوم میں تامّل و فکر
یہاں پر جس مطلب کی جانب غور و فکر اور تامل کرنا شائد ضروری ہو وہ یہ ہے کہ ولایت خدا، ولایت نبیؐ اور ولایت ائمہ معصومینؑ سے مراد کیا ہے؟
جواب سے پہلے یہ نکتہ قابل غور ہے کہ کسی زبان کے ایک کلمہ کو بعینہ دوسری زبان میں ترجمہ کرنا آسان نہیں ہے۔ بسا اوقات ناممکن ہے۔ جو لوگ زبان شناسی اور مختلف زبانوں سے آشنائی رکھتے ہیں اور اہل ترجمہ ہیں وہ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں ۔ مثلاً کبھی کسی لفظ کوایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنے کے لئے توضیح کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک کلمہ جو عربی سے فارسی یا اردو زبان میں منتقل کرنے کے لئے اس طرح کی مشکل سے دوچار ہے، کلمۂ ’’ولایت‘‘ ہے۔
ولایت کا ترجمہ کبھی دوستی کرتے ہیں۔ اگر اس معنی کو اختیار کریں تو اہل ولایت وہ لوگ ہیں جو اہل بیت علیہم السلام کو دوست رکھتے ہیں۔ کبھی ولایت کا معنی اطاعت و پیروی کرتے ہیں۔ اس معنی کے مطابق اہل ولایت یعنی وہ لوگ جو اہل بیتؑ کی اطاعت کرتے ہیں۔ کبھی اس لفظ کو نصرت و مدد اور سرپرستی وغیرہ کے معنی میں بیان کرتے ہیں۔
قرآن کریم نے متعدد جگہوں پر اس کلمہ کو استعمال کیا ہے۔ مثلاً ارشاد ہوتا ہے ’’تمہارا ولی صرف خدا ہے اور رسول ہیں اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور نماز قائم کرتے اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں‘‘ (سورہ مائدہ آیت ۵۵ و ۵۶) اس ولی سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں ان کے بعد ائمہ معصومین علیہم السلام ہیں ۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ولایت امیرالمومنینؑ اور ولایت ائمہؑ کس معنی میں ہے؟
اگر اس طرح کی آیات میں ولایت سے دوستی اور دوست رکھنے کے معنی اختیار کریں تو عالم اسلام میں جو لوگ ولایت سے محروم ہوں وہ بہت کم ہیں۔ یہانتک کہا جاسکتا ہے کہ آج تو اس طرح کے لوگوں کا کوئی اثر بھی باقی نہیں ہے اور ان کی نسل ختم ہوچکی ہے۔ گذشتہ زمانے میں ناصبی یا خارجی کے عنوان سے کچھ لوگ تھے جو اہل بیتؑ کے دشمن تھے۔ اور اس طرح کے لوگوں کے بارے میں تو خدا و رسول پر ایمان ہی میں شک کرنا چاہیے یعنی جو اہل بیتؑ سے دشمنی رکھتے ہوں وہ خدا و رسول پر ایمان ہی نہیں رکھتے۔پیغمبر اکرمﷺ نے اہل بیتؑ کے سلسلے میں جو تاکیدات و سفارشات فرمائی ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے لازم ہے کہ جو بھی پیغمبرﷺ پر ایمان رکھتا ہو وہ اہل بیتؑ سے بھی محبت کرتا ہو۔
بہر صورت آج شائد ہی کوئی ایسا مسلمان ہو جو ولایت کا اہل بیت سے دوستی کے معنی میں قائل نہ ہویعنی ولایت بمعنای دوستی کا ہر مسلمان قائل ہے۔ میں نے دنیا کے مختلف ممالک میں نزدیک سے دیکھا ہے کہ تمام مسلمان اہل بیتؑ سے لگاؤ رکھتے ہیں۔ حتی ان میں سے بعض اہل سنت تو ایسے بھی ہیں کہ محبت اور اظہار دوستی کے مرحلے میں ہم شیعوں سے کم نہیں ہیں۔ایک دفعہ میں حرم معصومۂ قم کے متولی کے ساتھ ملیشیا گیا تھا ایک دن ہم لوگ مصری سنّی عالم کے مہمان تھے۔ وہاں دوسرے مصری حضرات بھی موجود تھے۔ ایک مصری مہمان نے اہل بیتؑ کی شان میں اشعار پڑھےکہ میں اور حرم معصومہ کے متولی روپڑے۔ قابل غور ہے کہ ایک سنی مذہب، ایک دوسرے ملک میں اہل بیتؑ و امیرالمومنینؑ کی شان میں اتنے خوبصورت اور عالی شان اشعار پڑھتا ہے کہ انسان کو متاثر کردیتا ہے۔ اسی سفر میں ایک سنی مصری عالم جو سعودی عرب سے وابستہ ادارہ رابطۃالعالم الاسلامی کی طرف سے ایک جگہ پر تبلیغ کررہا تھا اس سے میں نے کہا کہ تم لوگ بھی اہل بیتؑ سے لگاؤ اور ان سے محبت کرتے ہو! اس نے جواب دیا: آپ کیا کہہ رہے ہیں!آپ دوستی کی بات کرتے ہیں! ’’نحن مفتونون باھل البیتؑ‘‘۔ ہم تو اہل بیتؑ کے گرویدہ اور شیدائی ہیں۔
لہذا اگر ولایت کا مطلب دوستی ہو تو شائد ہی ایسے افراد ملیں جو اسلام کا دعوی بھی کرتے ہوں اور اہل بیتؑ سے دوستی نہ کرتے ہوں۔ البتہ صدر اسلام میں ایسے منافق موجود تھے جو بظاہر تو پیغمبرﷺ سے لگاؤ کا اظہار کرتے تھے لیکن در حقیقت ایمان نہیں رکھتے تھے اسی وجہ سے ان کا رابطہ اہل بیت پیغمبرؑ سے بھی ٹھیک نہیں تھا۔
بہر حال ولایت کے سلسلے میں اہل بیتؑ سے محبت و دوستی سے بڑھ کر اور اس سے آگے کا معاملہ ہے، ولایت اہل بیتؑ سے مراد صرف اظہار محبت اور دوستی کرنا نہیں ہے۔
غدیر، ولایت کا روشن ترجمان:شائد سب سے واضح و روشن چیز جو امیرالمومنینؑ و اہل بیت علیہم السلام کی ولایت کو بیان کرے وہ حدیث غدیر ہے۔ واقعہ غدیر بطور متواتر شیعہ و سنی تمام علمائے اسلام سے نقل ہوا ہے۔ بعض نے اس مسئلہ کو بیان کرنے اور اس کی وضاحت میں اپنی پوری عمر صرف کی ہے۔ ان میں ایک ذات ہمارے زمانے کی علامہ امینیؒ صاحب الغدیر ہیں۔
بابرکت کتاب الغدیر علامہ امینیؒ کی زندگی کا ماحصل اور حدیث غدیر و ناقابل فراموش واقعہ غدیر کے سلسلے میں ایک عظیم الشان انسائیکلوپیڈیاہے۔علامہ امینیؒ نے متعدد جلدوں میں یہ کتاب تحریر فرمائی لیکن مع الاسف ابھی تک آخر کی جلدیں شائع نہیں ہوسکی ہیں۔ مرحوم نے اس کتاب کے سلسلے میں بہت زیادہ زحمات برداشت کی تھیں۔ بہر صورت غدیر کا معاملہ انتہائی اہم اور قابل توجہ ہے۔
پیغمبر اکرمﷺ نے اپنے آخری حج جسے حجۃالوداع کہا جاتا ہے اس پر روانہ ہونے سے قبل اعلان کروادیا کہ تمام مسلمان اور جولوگ چل سکتے ہوں تمام اسلامی ممالک سے وہ مناسک حج سیکھنے کے لئے مکہ کے لئے تیار ہوں اسی وجہ سے اس سال اس زمانے کا سب سے بڑا مسلمانوں کا اجتماع تھا جنھوں نے پیغمبرﷺ کے ساتھ اعمال حج انجام دئیے۔ جب اعمال حج انجام پذیر ہوگئے تو مسلمان اپنے شہروں کو واپسی کے لئے مکہ سے نکلے جب ایسے مرکز پر پہنچے جہاں سے قافلوں کے راستے الگ ہوتے تھے تو پیغمبرﷺ نے حکم دیا کہ سب ٹھہریں اور سامان سفر اتاریں۔ جیسا کہ اسلامی روایات میں آیا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے اس حکم کی وجہ یہ تھی کہ جبرئیل امین نازل ہوئے اور خدا کی جانب سے اہم پیغام لائے کہ پیغمبرﷺ اسی جگہ پر لوگوں کے لئے اعلان کریں۔ ظہر کا وقت نزدیک تھا آفتاب اپنے نصف النہار پر تھا شدید گرمی تھی۔ نبی اکرمﷺ نے حکم دیا جو لوگ آگے بڑھ گئے ہیں واپس آئیں اور جو لوگ رہ گئے ہیں ان کا انتظار کیا جائے تاکہ وہ بھی پہنچ جائیں۔ اہم پیغام ہے لہذا تمام مسلمانوں کا شریک رہنا ضروری ہے۔
کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ تمام اہتمام اور انتظامات صرف اس لئے تھے کہ پیغمبرﷺ یہ فرمائیں کہ علیؑ سے محبت کرو اور ان کو دوست مانو؟ کیا اس سے قبل اہل بیتؑ سے محبت کے سلسلے میں متعدد آیتیں نازل نہیں ہوچکی تھیں؟ کیا اس سے قبل پیغمبرﷺ نے متعدد مرتبہ امیرالمومنینؑ اور اہل بیت علیہم السلام سے محبت و مودت کے لئے تاکید نہیں فرمائی تھی؟ واقعا کیا ضرورت تھی کہ نبیﷺ کی زندگی کے آخری ایام میں اس انتہائی سخت دھوپ اور گرمی میں اس عظیم مجمع کے درمیان محبت کا پیغام دیا جائے؟
شیعہ و سنی اجماع کے مطابق اس دن یہ آیت نازل ہوئی: ’’ يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النّاسِ إِنَّ اللّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكافِرِينَ‘‘ (سورہ مائدہ، ۶۷)۔
خداوند عالم اپنے نبی سے فرماتا ہے: اگر لوگوں تک یہ پیغام نہ پہنچایا تو اپنی رسالت کا فریضہ ہی انجام نہیں دیا: وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ؛ اس پیغام کو پہنچانے میں لوگوں سے نہ ڈریے، خدا آپ کی حفاظت کرےگا: وَ اللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النّاسِ.کیا یہ کہنا کہ’’ علیؑ سے محبت کرو‘‘ اتنا خطرناک تھا کہ خدا کو پیغمبرﷺ کی حفاظت کی ذمہ دای لینی پڑی؟
لہذا ماننا پڑےگا کہ غدیر کا معاملہ محبت و مودت سے بھی بڑھ کر ہے۔پیغمبرﷺ نے اس دن ولایت کے مسئلہ کو پیش کرتے ہوئے فرمایاـ: مَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ فَهذا عَلِىُّ مَوْلاهُ. اب سوال یہ ہے کہ اس ولایت کے کیا معنی ہیں؟
ولایت کےلغوی معنی:
’’ولایت‘‘کا مادہ ’’و ل ی‘‘ ہے اوریہ اس وقت ہے کہ جب دو چیزیں ایک ساتھ اس طرح قرار پائیں کہ دونوں کے درمیان کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ مثلا یہ کہا جاتا ہے کہ ھذا العدد يلى عدداً آخر؛ يعنی:یہ عدد دوسرے عدد کے فورا بعد ہےمثلا تین کا عدد دو کے بعد ہےْاس کی وضاحت کے لئے ’ارتباط‘‘، ’’اتصال‘‘، وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کئے جاسکتے ہیںالبتہ ان میں سے کوئی لفظ بھی ولایت کے مکمل معنی بیان نہیں کرتا ہے۔
جب یہ لفظ دو ذی شعور موجودات مثلا دو انسانوں کے لئے استعمال ہو تو اس وقت یہ معنی ہونگے کہ دونوں کے درمیان مضبوط رابطہ پایا جاتا ہے جو ان کے وجود کے تمام مراحل کو گھیرے ہوئے ہے۔ ایسی صورت میں جو رابطہ دو انسانوں کے درمیان پایا جاتا ہے وہ دو جسموں کے رابطے سے مختلف ہے۔ بالفاظ دیگر مادہ ’’و ل ی‘‘ کے ایک عام معنی ہیں کہ جب بھی صاحب شعور موجود کی حیثیت سے انسان کے سلسلے میں استعمال ہو تو دو انسانوں کے درمیان رابطے کے لئے انسانی تمام مراحل کو مدنظر قرار دیا جائے۔ اور یہ رابطہ ایسا ہے کہ دو انسانوں کو آپس میں اتنا نزدیک کردیتا ہے کہ دونوں کے درمیان کسی طرح کی کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہ جاتی۔
انسانی مراحل کو تین چیزوں میں بیان کیا جاسکتا ہے: ۱) شناخت و معرفت۔ ۲) احساسات و عواطف و محبت۔ ۳) سابقہ دونوں قسموں یعنی شناخت و احساسات کا نتیجہ و حاصل جمع۔ جب بھی ’’و ل ی‘‘ کا مادہ دو انسانوں کے بارے میں استعمال ہو تو اس وقت یہ معنی ہونگے کہ دونوں اس حد تک ایک دوسرے سے قریب ہوئے ہیں کہ مذکورہ بالا تینوں چیزوں میں ایک ہو گئے ہیں۔ یعنی دونوں کی شناخت و معرفت ایک جیسی ہے۔ دونوں کے احساسات و عواطف آپس میں ملے ہوئے ہیں کہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیںاور دونوں کا کردار و رفتار بھی ایک دوسرے سے مشابہ ہے۔ ولایت حقیقی کا مفہوم اس رابطہ کو بیان کرنا ہے۔
لہذا ولایت کا رابطہ طرفینی رابطہ ہے۔ اور دونوں ایک دوسرے کی بنسبت اثرانداز بھی ہیں اور اثر پذیر بھی۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب دو دوستوں کی فکر و احساسات ایک ہوں تو عمل و کردار میں ایک دوسرے پر اثر ڈالتے ہیں۔ یہ اُس پر اثر ڈالتا ہے وہ اِس پر اثر انداز ہوتا ہے۔
’’وَٱلْمُؤْمِنُونَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍ‘‘(سورہ توبہ ۷۱) [مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں سب ایک دوسرے کے ولی ہیں] یعنی یہ مومن اُس مومن کا ولی ہے اور وہ مومن اِس مومن کا ولی ہے۔ اور دونوں ایک دوسرے پر اثر ڈالتے ہیں۔ البتہ موجود ذی شعور انسان سے مخصوص نہیں ہے ممکن ہے یہ رابطہ ’’انسان‘‘ اور ’’خدا‘‘ کے درمیان وجود میں آئے۔
خدا اور انسان کے درمیان رابطۂ ولایت کی وضاحت
جن جگہوں پر خدا اور انسان کے درمیان رابطہ برقرار ہوتا ہے تو کیا اس رابطہ کا مطلب یہ ہے کہ خدا ہمارے اوپر اثر انداز ہوتا ہے اور ہم خدا پر اثر انداز ہوتے ہیں؟ جواب واضح ہے: یقیناً اس صورت میں تعامل و تفاعل کی کوئی صورت نہیں ہے یعنی طرفینی معاملہ نہیں ہے بلکہ اثرانداز ہونا اور تاثیر گزاری صرف خداوندعالم کی جانب سے ہے۔ خدا اور انسان کے درمیان ولایت کے رابطہ کا یہ مطلب ہے کہ انسان کی شناخت، خدائی شناخت ہوجاتی ہے، اس کی محبت خدا کی محبت اور اس کی رفتار خدائی رفتار ہوجاتی ہے۔ ایسا انسان خدا کو سب سے زیادہ چاہتا ہے۔
’’۔۔۔وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّـهِ۔۔۔‘‘ (سورہ بقرہ، ۱۶۵) [ایمان والوںکی تمام تر محبّت خدا سے ہوتی ہے]۔ لہذا خدا اور انسان کے درمیان ولایت کے رابطے میں خدا انسان سے اثر نہیں قبول کرتا بلکہ بنیادی طور پر خداوندعالم کسی بھی چیز سے اثر قبول نہیں کرتا۔ البتہ یہاں پر بھی ولایت طرفینی ہے یہ بھی کہا جاتا ہے: ’’ٱللَّـهُ وَلِىُّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟۔۔۔‘‘ (بقرہ، ۲۵۷) [اللہ صاحبانِ ایمان کا ولی ہے]۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے : ’’اشھد انّ علیّا ولی اللہ‘‘۔ یا۔ ’’أَلَآ إِنَّ أَوْلِيَآءَ ٱللَّـهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ‘‘ (سورہ یونس، ۶۲) [آگاہ ہوجاؤ کہ اولیاء خدا پر نہ خوف طاری ہوتا ہے اور نہ وہ محزون اور رنجیدہ ہوتے ہیں]۔ البتہ باوجودیکہ یہاں پر ولایت طرفینی ہے لیکن اثر ڈالنا صرف ایک جانب سے ہے بالفاظ دیگر اتصال کا رابطہ دوطرفہ ہے انسان بھی خدا سے نزدیک ہے اور خدا بھی انسان سے نزدیک ہے لیکن تاثیر و تاثّر طرفینی نہیں ہے۔
دوانسانوں کے درمیان اور خدا و انسان کے درمیان رابطۂ ولایت کے علاوہ کبھی یہ رابطہ فرد اور اجتماع کے درمیان ہوتا ہے: ’’‘ٱلنَّبِىُّ أَوْلَىٰ بِٱلْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ‘‘ (احزاب، ۶) [بیشک نبی تمام مومنین سے ان کے نفس کے بہ نسبت زیادہ اولیٰ ہے]۔ اس جگہ پر رابطہ ولایت میں ایک طرف خود پیغمبر اکرم ﷺ ہیں اور دوسری طرف امت اسلامی ہے۔ اور کبھی اس ولایت کو ’’ولایۃالنبی علی الامۃ‘‘ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ کلی طور پر جب بھی ’’ولایت امر‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس سے انسانوں کے ایک گروہ کا رابطہ ولی امر سے مراد ہوتا ہے۔ لہذا ولی امر مسلمین وہ شخص ہے جو لوگوں سے مضبوط و مستحکم رابطہ رکھتا ہو اور لوگ اجتماعی و سیاسی امور میں بغیر کسی فاصلہ کے اس کے پیچھے چلتے ہوں اور اس سے اثر قبول کرتے ہوں۔
پیغمبر و اہلبیت علیہم السلام کی ولایت کو تسلیم کرنا، ولایت الٰہی کے تسلیم کرنے کا لازمہ ہے
ولایت در حقیقت صرف خدا کے لئے ہے: اللّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا‘‘ (بقرہ، ۲۵۷) ، لیکن ممکن ہے کہ خود خداوند عالم کسی کو ولی بنائے جیسا کہ اس نےیہ کام پیغمبر اور ائمہ معصومین علیہم السلام کےلئے انجام دیا: ’’إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ‘‘ (سورہ مائدہ، ۵۵)
خداوند عالم جو انسان پر ذاتی و بنیادی ولایت رکھتا ہے اس نے اپنے بعد ولایت کے سب سے بالاترین مرتبہ کو پیغمبر اکرم ﷺ کےلئے قرار دیا ہے، وہ سب سے عظیم و برتر انسان ہیں مومنین کےلئے ضروری ہے کہ ان کے ساتھ رابطہ ولایت برقرار کریں۔ انھوں نے چونکہ پیغمبر ؐکو اپنا ولی مانا ہے لہذا ضروری ہے کہ اپنی شناخت و معرفت کو انھیں کے تابع قرار دیں اور اپنے دین کو انھیں سے لیں:’’كَما أَرْسَلْنا فِيكُمْ رَسُولاً مِنْكُمْ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَ يُزَكِّيكُمْ وَ يُعَلِّمُكُمُ الْكِتابَ وَ الْحِكْمَةَ وَ يُعَلِّمُكُمْ ما لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ‘‘ (بقرہ، ۱۵۱)۔
[جس طرح ہم نے تمہارے درمیان تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے جو تم پر ہماری آیات کی تلاوت کرتاہے تمہیں پاک و پاکیزہ بنا تا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور وہ سب کچھ بتاتاہے جو تم نہیں جانتے تھے]
البتہ یہ پیروی اور اتباع محبت کی بنیاد پر ہے اور مومنین پیغمبرؐ کے ساتھ محبت کے برترین رابطہ کو برقرار کرتے ہیں۔
’’قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَ اللّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ‘‘(آل عمران، ۳۱)
اگر خدا سے محبت کے دعوے میں سچے ہوتو میری (پیغمبرؐ کی) پیروی کرو۔ چونکہ میں خدا کا نمائندہ اور جو خدا نے تم سے چاہا ہے اسے بیان کرنے والا ہوں۔
اگر کوئی کسی سے محبت کرتا ہے تو اس فکر میں ہوتا ہے کہ معلوم کرے اس کا محبوب اس سے کیا چاہتا ہے تاکہ اسے انجام دے۔ اسی وجہ سے یہ آیت بھی کہہ رہی ہے: اگر خدا سے محبت کا دعوی ہے تو خدا کیا چاہ رہا ہے اسے معلوم کرو پھر اسی کی پیروی کرو۔ خدا کیا چاہتا ہے اسے پیغمبرؐ بیان فرمائیں گے لہذا اگر واقعی خدا سے سچی محبت ہے تو پیغمبرؐ کی اطاعت کرو۔ اس کی دلیل بھی یہ ہے کہ تم مستقیم طور پر خدا سے مرتبط نہیں ہوا اور اس کی مطلوبہ چیزوں کو ڈائرکٹ حاصل نہیں کر رہے ہو لہذا تم یہ نہیں جانتے کہ تمہارا محبوب تم سے کیا چاہتا ہے: ’’۔۔۔وَمَا كَانَ ٱللَّـهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى ٱلْغَيْبِ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّـهَ يَجْتَبِى مِن رُّسُلِهِۦ مَن يَشَآءُ۔۔۔‘‘(سورہ آل عمران، ۱۷۹)۔[اور وہ تم کو غیب پر مطلع بھی نہیں کرنا چاہتا ہاں اپنے نمائندوں میں سے کچھ لوگوں کو اس کام کے لئے منتخب کرلیتا ہے]۔ تم اس مرتبہ پر فائز نہیں ہو کہ مستقیم طور پر خدا سے رابطہ برقرار کرسکو لیکن خداوندعالم نے کچھ لوگوں کو منتخب کیا جو یہ صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کے ذریعہ اپنی مرضی اور اپنی مطلوبہ چیزوں کو تم تک پہنچاتا ہے۔ جب پیغمبرؐ کے ذریعہ خدا کی مرضی تم تک پہنچی تو اگر خدا سے محبت کرنے میں سچے ہو تو پیغمبر اکرم ﷺ کی تعلیمات کی پیروی کرو تاکہ خدا بھی تم سے محبت کرے۔
کیا کسی عاشق کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی بات پسندیدہ و مطلوب ہوسکتی ہے کہ اس کا معشوق اس سے محبت کرتا ہو؟! کیا اس سے بڑھ کر اس کو خوش کرنے والی کوئی بات ہے کہ اس کو معلوم ہوجائے کہ اس کا معشوق اس سے راضی و خوشنود ہے؟! عاشق کے لئے تو معشوق کی مسکراہٹ اور اس کی مرضی کو حاصل کرلینا ہی بہت شیریں ہوتا ہے۔ اب اگر یہ معشوق خداوندعالم ہوتو اس کی مرضی تو سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوگی: ’’۔۔۔وَرِضْوَٰنٌ مِّنَ ٱللَّـهِ أَكْبَرُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ ‘‘(سورہ توبہ، ۷۲) [اور اللہ کی مرضی تو سب سے بڑی چیز ہے اور یہی ایک عظیم کامیابی ہے]۔
بہر حال ولایت الٰہی کو تسلیم کرنے کا لازمہ یہ ہے کہ اپنی معرفت کو خدا سے حاصل کیجئے اور اس کی محبت دل میں رکھیے۔ جب بھی خدا کے ساتھ اس طرح کی معرفت و محبت والا رابطہ برقرار ہوگا تو یقیناً آ پ کا طور طریقہ اور رفتار و کردار بھی اسی کے ارادے کا تابع ہوگا۔ یہ وہی ’’ولایت اللہ‘‘ ہے۔ اس ولایت کے بعد اور اس کے ذیل میں رسول اکرمﷺ کی ولایت سامنے آتی ہے اور رسولﷺ کی ولایت کے بعد یہ ولایت امیرالمومنین علیہ السلام میں متجلی ہوتی ہے۔ امام علی علیہ السلام سورۂ مائدہ آیت ۵۵ میں ’’الذین آمنوا‘‘ کے ذریعہ پہچنوائے گئے ہیں۔ سنی شیعہ محدثین و مفسرین کے مطابق یہ آیت امیرالمومنین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اور آپؑ کے بعد تمام ائمہ معصومین علیہم السلام خاص ادلّہ کے ذریعہ اس ولایت میں شامل ہیں۔
لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ جو بھی واقعی طور پر ایمان رکھتا ہو اور الہی ولایت کو تسلیم کرتا ہو اس کے لئے ضروری ہے رسول خداﷺ کی ولایت سے بھی بہرہ مند ہو اور تمام وجود کے ساتھ پیغمبرﷺ سے محبت کرے اور آنحضرتؐ کے احکام کی پیروی کرے۔
اسلام میں ولایت منحصر ہے رسول اکرمﷺ سے
تمام مسلمانوں اور جو لوگ رسول اکرمﷺ کی ولایت رکھتے ہیں اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں رکھتے کہ اپنے دین کی معرفت رسول کریمﷺ سے حاصل کریں۔ اختلاف اس میں ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد کس کی بات حجت ہے اور اپنی معرفت و شناخت کے لئے کس کی طرف رجوع کریں۔اکثر مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر ﷺ کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو بطور مستقیم ہم تک صحیح و یقینی معرفت پہنچا سکے لہذا کسی کی بات بھی حجت نہیں ہے۔ اور ہم کلام خدا یعنی قرآن کے علاوہ کوئی حجت نہیں رکھتے۔ اس کے مقابل ایک گروہ کا یہ عقیدہ ہے کہ بہت سی دلیلیں موجود ہیں جنھوں نے پیغمبر ﷺ کے بعد مسلمانوں کے وظیفہ کو معین کردیا ہے۔ مثلاً یہ آیت: ’’إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ ٱللَّـهُ وَرَسُولُهُۥ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱلَّذِينَ يُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٰةَ وَهُمْ رَٰكِعُونَ‘‘، (سورہ مائدہ، ۵۵) نیز مشہور و معروف حدیث ثقلین: ’’ إنّى تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللّهِ وَ عِتْرَتِى... ‘‘(بحارالانوار،جلد۲۳، باب۷، روایت۶۹)۔ اس روایت میں پیغمبر اکرمﷺ کی عترت کو قرآن کے مساوی و ہم پلہ اور قرآن کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ اہل بیتؑ کا کلام خدا کے کلام کی طرح معتبر ہے اسی وجہ سے ہم شیعہ پیغمبرؐ کے خاندان کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی طرح ہی محبت کرتے ہیں۔ اس لئے کہ ائمہ اطہار علیہم السلام پیغمبر اکرمﷺ کی طرح خداوندعالم کے نزدیک قرب و منزلت رکھتے ہیں۔
ولایت الٰہی پیغمبر اکرم ﷺ میں جلوہ گر ہوئی آپؑ کے بعد اس شخص میں آئی جس کی منزلت کو پیغمبر اکرمﷺ نے اپنی بنسبت جناب موسیٰؑ سے ہارونؑ کی نسبت کو قرار دیا یعنی وہ ذات گرامی جس سے آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’انت منی بمنزلۃ ھارون من موسی الا انّہ لا نبیّ بعدی‘‘ (بحار، ج۲۱، باب۲۷، روایت۵)۔ اے علیؑ! تم میری بنسبت اسی طرح ہو جس طرح ہاورنؑ موسیٰؑ کی بنسبت تھے سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
شیعہ و سنی کے نزدیک معتبر نقل کے مطابق پیغمبر اسلامﷺ نے اس حدیث کو امیرالمومنین علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا۔ اس حدیث کے مطابق جس طرح جناب ہارونؑ جناب موسیٰؑ کے جانشین تھے اسی طرح حضرت علی علیہ السلام بھی پیغمبرﷺ کے جانشین و خلیفہ ہیں اور ان دونوں میں فرق صرف نبوت و امامت کا ہے اسی وجہ سے اہل بیت علیہم السلام رسول خدا ﷺ کے عِدل و مساوی شمار ہوتے ہیں۔
اس اعتبار سے اگر کوئی ولایت خدا کو تسلیم کرنے میں صادق ہو تو اس کا لازمہ نبی اکرمﷺ کی پیروی اور آپ کی ولایت کو تسلیم کرنا ہے۔اسی طرح اگر کوئی رسول اکرمﷺ کی ولایت کو قبول کرنے میں صادق ہو تو اس کا لازمہ ائمہ اطہار علیہم السلام کی ولایت کو تسلیم کرنا اور ان کی پیروی ہے؛ اس لئے کہ یہ حضرات رسول کریمﷺ کے جانشین ہیں اور ان کی اطاعت و پیروی آنحضرتؐ کی پیروی ہے۔عوام کے لئے اس نکتہ کی وضاحت ضروری ہے اس لئے کہ صرف اسی صورت میں لوگوں کا دین کامل ہوکر ان کے عقائد کمی و نقصان سے محفوظ رہیں گے۔ جیسا کہ بہت سی روایات میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبرؐ و ائمہ معصومینؑ کی ولایت کو تسلیم کئے بغیر دین کامل نہیں ہوگا۔
ائمہ اطہار علیہم السلام کی بنسبت معرفت و شناخت کو حاصل کرنے کے بعد نوبت آتی ہے عمل کی۔ ضروری ہے کہ مقام عمل میں بھی ائمہ معصومین علیہم السلام کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہوئے انکی پیروی کریں۔ مسلمانوں کے لئے سردار و حاکم ہے جس کے احکام و دستورات کی پیروی ان پر لازم ہے یعنی وہی چیز جس کی غدیر کے دن نبی اکرمﷺ نے تاکید فرمائی: مَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ فَهذا عَلِىٌّ مَوْلاهُ‘‘ یہ وہی چیز ہے جس کی بنیاد پر دین کامل ہوا:الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًاً. (سورہ مائدہ آیت،۳)[آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے]۔اس مسئلہ کی اہمیت اتنی زیادہ تھی کہ پیغمبر اکرم ﷺ کے لئے اُس اہتمام و انتظام کی ضرورت پیش آئی۔ نبی اکرم ﷺ نے کم از کم ستّر ہزار (بہت سے افراد نے ایک لاکھ بیس ہزار لکھا ہے) افراد کو اس بے آب و گیاہ میدان میں انتہائی سخت دھوپ و گرمی میں روک کر ولایت کا پیغام ان تک پہنچایا۔ قرآن کی آیت نازل ہوئی کہ اگر اس پیغام کو لوگوں تک نہ پہنچایا تو تمہاری رسالت نامکمل اور دین ناقص ہے۔
واضح ہے کہ امام علی علیہ السلام سے صرف محبت کرنے کا حکم دینا اتنی اہمیت نہیں رکھتا تھا کہ اُن انتظامات و اہتمامات کی ضرورت پیش آتی اور اس کی بنیاد پر دین مکمل ہوتا۔ یہ ایسی دوستی کا حکم تھا جو امام علی علیہ السلام کے احکامات و دستورات کی پیروی کے ساتھ تھا۔ یہ دوستی ہرگز دشمنان خدا و رسول کے ساتھ سازگار نہیں ہوسکتی: ’’لَّا تَجِدُ قَوْمًا ۔۔۔۔‘‘ (سورہ مجادلہ، ۲۲) [آپ کبھی نہ دیکھیں گے کہ جو قوم اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھنے والی ہے وہ ان لوگوں سے دوستی کررہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی کرنے والے ہیں چاہے وہ ان کے باپ دادا یا اولاد یا برادران یا عشیرہ اور قبیلہ والے ہی کیوں نہ ہوں - اللہ نے صاحبان ایمان کے دلوں میں ایمان لکھ دیا ہے اور ان کی اپنی خاص روح کے ذریعہ تائید کی ہے اور وہ انہیں ان جنّتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ ا ن ہی میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے - خدا ان سے راضی ہوگا اور وہ خدا سے راضی ہوں گے یہی لوگ اللہ کا گروہ ہیں اور آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ کا گروہ ہی نجات پانے والا ہے] ۔ اس آیت میں خداوندعالم اپنے نبی سے فرماتا ہے: ایسے افراد کو نہیں پاسکتے جو خدا و قیامت پر ایمان رکھنے کے ساتھ دشمنان خدا سے بھی محبت کرتے ہوں۔ ناممکن ہے کہ جو لوگ اپنے دل میں دشمنان خداکی طرف میلان رکھتے ہوں اور پوشیدہ طور پر ان کے ساتھ روابط رکھتے ہوں وہ خدا و قیامت پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ گرچہ قسم کھاتے ہیں کہ ہم ایمان رکھتے ہیں لیکن قرآن کہتا ہے یہ جھوٹے ہیں : ’’إِذَا جَآءَكَ ٱلْمُنَـٰفِقُونَ قَالُوا۟ نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ ٱللَّـهِ ۗ وَٱللَّـهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُۥ وَٱللَّـهُ يَشْهَدُ إِنَّ ٱلْمُنَـٰفِقِينَ لَكَـٰذِبُونَ‘‘ (سورہ منافقون، ۱) [پیغمبر یہ منافقین آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ بھی جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیںلیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں]۔
منافقین دعوی کرتے ہیں کہ وہ سوائے خیر و صلاح اور نیکی کےکوئی اور ارادہ نہیں رکھتے لیکن قرآن کہتا ہے: کہ خدا گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں یہ لوگ سوائے اپنے مادی فائدے کے کسی اور چیز کو نہیں چاہتے یہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ دشمن ان پر مسلط ہوجائیں لہذا ابھی سے اپنے آقاؤں کے لئے خوشنودی چاہتے ہیں: ’’فَتَرَى ٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يُسَـٰرِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰٓ أَن تُصِيبَنَا دَآئِرَةٌ ۚ فَعَسَى ٱللَّـهُ أَن يَأْتِىَ بِٱلْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِۦ فَيُصْبِحُوا۟ عَلَىٰ مَآ أَسَرُّوا۟ فِىٓ أَنفُسِهِمْ نَـٰدِمِينَ‘‘ (سورہ مائدہ، ۵۲)۔ [پیغمبر آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ دوڑ دوڑ کر ان کی طرف جارہے ہیں اور یہ عذر بیان کرتے ہیں کہ ہمیں گردشِ زمانہ کا خوف ہے -پس عنقریب خدا اپنی طرف سے فتح یا کوئی دوسرا امر لے آئے گا تو یہ اپنے دل کے چھپائے ہوئے راز پر پشیمان ہوجائیں گے]۔
منافقین کہتے ہیں ہمیں گردشِ زمانہ کا خوف ہے ، لیکن خدا کہتا ہے کہ: تَو سہی کہ خدا ان کے معاملہ کو پلٹا دے اور وہ دھمکیاں خود دشمنوں پر پڑ جائیں اور خدا کی چال انکی چالوں کو ناکام بنادے۔ اس دن جو لوگ دشمنان خدا کے ساتھ رابطہ میں ہوں اور ان کے ہم نوالہ و ہم پیالہ ہوں وہ سخت پشیمان ہونگے۔ عنایات الٰہی سے وہ دن دور نہیں جب امریکہ ذلیل و رسوا ہو اور اس کے سپر پاور ہونے کا بت ٹوٹ جائے، آج جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ امریکہ (اور ہر استعمار و گدی نشین )سے تعلقات اور ان کی خوشنودی کے بغیر کوئی کام نہیں چل سکتا وہ پشیمان ہونگے اور شرم سے سر نہیں اٹھا سکیں گے ان کے سامنے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ اپنی غلطی کا اعتراف کریں گے اور امریکہ (و ہر باطل طاقت) سے تعلقات کی نفی کریں گے۔
خدا و قیامت پر ایمان رکھنے والے دشمنان خدا کے دشمن ہیں اور ہرگز ان کے ساتھ دوستی و تعلقات قائم نہیں کرتے یہ وہی ’’حزب اللہ‘‘ (الٰہی گروہ) ہیں جو حقیقی ولایت والے ہیں اور کامیابی و رستگاری ان ہی کا حصہ ہے: ’’وَمَن يَتَوَلَّ ٱللَّـهَ وَرَسُولَهُۥ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ فَإِنَّ حِزْبَ ٱللَّـهِ هُمُ ٱلْغَـٰلِبُونَ‘‘ (سورہ مائدہ، ۵۶)
[پیغمبر آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ دوڑ دوڑ کر ان کی طرف جارہے ہیں اور یہ عذر بیان کرتے ہیں کہ ہمیں گردشِ زمانہ کا خوف ہے -پس عنقریب خدا اپنی طرف سے فتح یا کوئی دوسرا امر لے آئے گا تو یہ اپنے دل کے چھپائے ہوئے راز پر پشیمان ہوجائیں گے]۔
(ماہنامہ اصلاح لکھنؤ)