سجدے
علامہ سید ذیشان حیدر جوادی
تعظیم اور تحقیر دو زندہ حقیقتیں ہیں جن سے دنیا کی کوئی قوم خالی نہیں ہے۔ قوموں کی نگاہ میں کچھ لوگ قابل تعظیم ہوتے ہیں اور کچھ لوگ قابل تحقیر قابل تعظیم افراد کی تعظیم کی جاتی ہے اور قابل تحقیر افراد کی تحقیرو تذلیل۔
طریقے الگ الگ ہوتے ہیں۔ انداز جداگانہ ہوسکتے ہیں لیکن یہ ممکن نہیں کہ کسی قوم میں ہر شخص قابل تعظیم ہوجائے یا ہر کردار کا انسان قابل تحقیر و تذلیل ہوجائے۔ قابل تعظیم کی تعظیم کرنا بھی فریضہ ہے اور قابل تحقیر کی تحقیر کرنا بھی انسانی ذمہ داری ہے۔
ایک قوم کا قابل تعظیم دوسری قوم کا قابل تحقیر بھی ہوسکتا ہے اور ایک قوم کا انداز تحقیر دوسری قوم کا طریقۂ تعظیم بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن تعظیم و تحقیر کا سلسلہ روز اول سے قائم ہے تو آخر کائنات تک قائم رہے گا۔ جنت میںبھی جانے والے تعظیم کےساتھ ہی لے جائے جائیں گے اور جہنم میں بھی پھینکے جانے والے ذلت کے ساتھ ہی پھینکے جائیں گے۔ قرآن مجید نے مختلف اعمال کی جزائیں جنت کے ساتھ عظمت کا ذکر کیا ہے اور مختلف اعمال کی سزائیں جہنم کے ساتھ ذلت کا تذکرہ کیا ہے ۔ دعا نہ کرنےوالوں کے بارےمیں اعلان ہوتا ہے کہ ’’ جو لوگ ہماری عبادت سے استکبار و غرور رکھتے ہیں انہیں جہنم میں ذلت کے ساتھ داخل کیا جائے گا۔ تاکہ انہیں اندازہ ہوسکے کہ تکبر و غرور کا انجام کیسا ہوتا ہےا ور دنیا کا استکبار کس انجام تک پہنچاسکتا ہے۔
اسلام میں تحقیر و تذلیل کے متعدد ذرائع ہیں جن کا ذکر احکام کے ذیل میں کیا جاتا ہے یعنی قطع تعلق سے لیکر لعنت ابدی تک سب بدکردار افراد کی حیثیت واقعی کے اظہار کے ذرائع ہیں۔ اور اس طرح تعظیم کے بھی مختلف انداز ہیں۔ طالب علم کے لئے قیام کرنا ایک انداز تعظیم ہے بھرے مجمع میںعالم دین کو الگ سے سلام کرنا ایک انداز تعظیم ہے۔ نبیؐ اور امامؑ کی مکمل اطاعت کرنا اور ان کے اشاروں پر زندگی گزارنا ایک طریقہ تعظیم ہے اور ان سب سے عظیم ترتعظیم کا ذریعہ سجدہ ہے ۔ سجدہ کی طرح رکوع میں بھی انداز تعظیم ہے اور اسی لئے بندہ رکوع میں جانے کے بعد خدا کے عظیم ہونے کا اعلان کرتا ہے کہ وہ عظیم نہ ہوتا تو یہ تعظیم نہ ہوتی اس لئے کہ بے جہت اور بلا سبب تعظیم کرنا کار عقلاء نہیں ہے۔ تعظیم کے لئے عظمت کا ہونا ضروری ہے۔ بغیر عظمت کے تعظیم، ناشناسی ، خوشامد ، فریب اور حماقت ہوسکتی ہے تعظیم نہیںہوسکتی اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے غیر خدا کے لئے سجدہ حرام کردیا ہے کہ سجدہ انتہائے عظمت کی نشانی ہے اور انتہائی عظمت کا مالک پروردگار کے علاوہ کوئی نہیں ہوسکتا۔ اس کے علاوہ جس کے پاس بھی عظمت و رفعت و بلندی ہے وہ اسی کے کرم کا نتیجہ ہے کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہے۔ صرف اس کی عظمت ہے جو اس کی ذات کا تقاضا ہے اس کے علاوہ سب اس کی رحمت کے زیر اثر ہیں اور یہی سبب ہے کہ غیر خدا کو جب بھی سجدہ ہوا ہے تو حکم خدا سے ہوا ہے۔ حکم خدا کے بغیر سجدہ خلاف قانون ہے ۔ سجدہ ٔآدمؑ کے بارے میں بھی قرآن مجید نے یہی بیان کیا ہے کہ انکار ابلیس کے بعد پروردگار نے یہی سوال کیا تھاکہ میرے حکم کے بعد تونے سجدہ کیوں نہیں کیا۔ یعنی سجدہ آدمؑ کا نہیں ہے کہ ان کے مادہ تخلیق پر نگاہ کی جائے۔ سجدہ میرے حکم کا ہے اور اس میں کسی چوں و چرا کی گنجائش نہیں ہے اور اسی لئے معصومین نے اس نکتہ کی طرف اشارہ کردیا ہے کہ سجدۂ آدمؑ حکم پر وردگار کا سجدہ تھا۔ آدمؑ کی عظمت کے لئے یہی کافی تھا کہ انہیں اس سجدہ کا قبلہ بنادیا گیا تھا ورنہ غیر خدا کے لئے سجدہ کی گنجائش نہیں ہے جناب یوسف کے سامنے برادران یوسف کا سجدہ بھی بقول روایات سجدہ ٔشکر تھا کہ اللہ نے یوسف کو اس مرتبہ تک پہنچادیا ہے ورنہ کسی اور سجدہ کی گنجائش نہیں ہے۔ ( عروۃ الوثقیٰ)
اور شاید یہی وجہ ہےکہ کائنات کی عظیم ترین شخصیت جس کے بارےمیں مرسل اعظمؐ نے اعلان کیا ہے کہ ’’ انا من الحسینؑ‘‘ اور جس کی عظمت کے سامنے دنیا کی ہر قوم جبین نیاز خم کرتی ہے۔ اس کی بارگاہ میں بھی حاضری کے بعد جو نماز زیارت پڑھی جاتی ہے ، اس کے بعد دعا کا اہم ترین فقرہ ہے کہ ’’ پروردگار یہ نماز یہ سجدہ ، یہ رکوع سب تیرے لئے ہے اس لئے کہ تیرے علاوہ کسی کے لئے نماز یا رکوع یا سجدہ جائز نہیں ہے تو وہ وحدہ لا شریک ہے اور یہ اندازہ تعظیم صرف تیرے لئے ہے۔ اب یہ نماز ہدیہ ہے حسینؑ بن علی علیہ السلام کے لئے۔ لہٰذا یہ میرا ہدیہ ان کی بارگاہ تک پہنچا دے اور مجھے اس کا اجر عنایت فرما۔
ظاہر ہے کہ جب ذات امام حسینؑ ان عظمتوں کے بعد سجدہ کا مرکز نہ قرار پائی جس نے اپنے ایک سجدہ سے کل کائنات کو سجدہ کی طرف کھینچ لیا تھا تو دوسرا کون سجدہ کا حقدار ہوسکتا ہے۔ علماء اعلام نے اسی نکتہ کے پیش نظر فرمایا ہے کہ ائمہ معصومین ؑ کے روضوں میں چوکھٹ پر جو سجدہ کیا جائے اسے سجدۂ شکر پروردگار ہونا چاہئے کہ اس نے اس بارگاہ میں حاضری کے قابل بنایا ہے اور یہاں تک پہنچا دیا ہے سجدہ صاحب قبر کا نہیں ہونا چاہئے کہ اس سے خود صاحب قبر نے منع فرمایا ہے اور بعض علماء کرام نے تو مقام زیارت میں بھی بقدر رکوع جھکنے پر بھی پابندی عائد کردی ہے کہ سجدہ کی طرح رکوع بھی عظمت پروردگار کی نشانی ہے اور بندوں کے لئے نہیں ہے جیسا کہ زیارت امام حسینؑ ہی کے ذیل میں نماز کے بارےمیں نقل کیا گیا ہے۔ دنیا کا فرشی سلام اور زمین بوس احترام ریاستوں کی پیداوار ہے اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ جب معصومینؑ نے اپنی بارگاہ میں یہ اعلان کردیا کہ رکوع اور سجدہ صرف خدائے وحدہ لا شریک کے لئے ہے تو نواب ، رئیس ، تعلقدار ، شیخ ، سلطان اور صدر جمہوریہ کی کیا حقیقت ہے اور وہ ان کے مقابلہ میں کس عظمت و حیثیت کے مالک ہیں۔
سجدہ کی ان عظمتوں کے بعد اسلام میں سجدوں کے اقسام پر بھی روشنی ڈال دی جائے تاکہ صاحبان ایمان مقام عمل میں مسائل شریعت کی طرف متوجہ رہیں اور کوئی سجدہ غلط نہ ہونے پائے:
سجدۂ نماز
یہ سجدہ ہر رکعت میںد و مرتبہ ہوتا ہے اور دونوں کا مجموعہ ایک رکن کی حیثیت رکھتا ہے اگر بھولے سے بھی دو کے چار ہوجائیں یا ایک سجدہ بھی نہ ہوسکے تو نماز باطل ہوجاتی ہے ایک یا تین پر نماز باطل نہیںہوتی بلکہ سجدہ سہو کرنا ہوتا ہے اس لئے کہ سجدہ آدھا رکن ہے اور آدھے رکن کی کمی یا زیادتی غفلت کی صورت میں نماز کو باطل نہیں کرسکتی قصداً ادنیٰ غلطی بھی نماز کو باطل کرسکتی ہے۔
سجدہ میں ساتوں اعضا کا زمین پر ٹکنا ضروری ہے ، پیشانی ، دونوں گھٹنے ، دونوں ہتھیلیاں ، اور دونوں پیر کے انگوٹھے بعض حضرات سجدہ میں جاکر پیروں کے انگوٹھے اٹھالیتے ہیں۔ ان کا سجدہ باطل ہے۔ سجدہ میں ناک کا رکھنا مستحبات میں ہے واجبات میں نہیں ہے۔
سجدہ کے لئے قابل سجدہ شے کا ہونا ضروری ہے اور وہ پہلی منزل میں زمین، پتھر، ریت ، سمینٹ، کچی پکی اینٹ ، اور لکڑی ، پتہ درخت کی چھال ، گھاس، ( بشرطیکہ یہ چیزیں کھانے اور پہننے میں استعمال نہ ہوتی ہوں)اور کاغذ ہے چاہے وہ سادہ ہو یا لکھا ہوا۔ سفید ہو یا رنگین ( بشرطیکہ رنگ رنگ ہو پینٹ نہ ہو)۔
اس کے بعد یہ چیزیں فراہم نہ ہوں اور وقت نماز بھی تنگ ہو تو اپنےد امن یا آستین پر سجدہ کرے اور اعضاء سجدہ کا زمین پر رکھنے کا بھی خیال رکھے ورنہ وقت میں گنجائش ہے تو نماز شروع نہ کرے یا شروع کرچکا ہے تو نماز کو توڑ کر مذکورہ بالا اشیاء کو تلا ش کرکے پھر سے نماز شروع کرے۔ دامن و آستین کی بھی گنجائش نہ ہو اور وقت نماز جارہا ہو تو بفتویٰ آیت اللہ الخوئی ؒاختیار ہے کہ چاہے پشت دست پر سجدہ کرے یا کسی بھی ناقابل سجدہ شے پر سجدہ کرلے وہ معدنیات ہوں یا فرش وغیرہ اور آیت اللہ الخمینیؒ کے فتوے کے مطابق پشت دست پر سجدہ کرے اور یہ بھی ممکن نہ ہو تو معدنیات پر سجدہ کرے فرش وغیرہ کا ذکر نہیں ہے۔
سجدۂ سہو
یہ سجدہ بھولے سے نمازمیں کلام کرنے یا بے موقع بھول کر واجب سلام پڑھ لینے یا تشہد کے بھول جانے یا ایک سجدہ کے بھول جانے یا قیام کی جگہ قعود اور قعود کی جگہ قیام کرلینے سے واجب ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ کسی زیادتی یا کمی کے لئے سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا بلکہ آیت اللہ الخمینیؒ کے یہاں تو قیام و قعود بے جا میں بھی سجدہ واجب نہیں ہے اور خود آیت اللہ الخوئیؒ کے یہاں بھی بطور احتیاط ہی واجب ہے ’’ السلام علیک ایھا البنی ‘‘ کی زیادتی سے سجدہ واجب نہیں ہوتا ( سجدہ اور تشہد کے بھولنے میں سجدہ کے علاوہ ان کی قضا بھی واجب ہوتی ہے)۔
اس سجدہ کا طریقہ یہ ہے کہ نماز تمام کرنے کے فوراً بعد دو سجدہ سہو کی نیت کرکے سجدہ میں جائے اور کہے : بسم اللہ وباللہ السلام علیکم ایھاالنبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ اور پھر سر اٹھا کر دوبارہ ایسا ہی سجدہ کرے اور پھر سر اٹھا کر باقاعدہ مکمل تشہد پڑھ کر ایک سلام السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ پڑھ کر سلام کو تمام کردے۔
اس سجدہ میں ساتوں اعضاء سجدہ کا زمین پر ہونا اور سجدہ کا قابل سجدہ چیز پر ہونا واقعاً واجب ہے اور با وضو ہونا رو بقبلہ ہونا احتیاطاً واجب ہے۔ ذکر کا بھی مذکورہ بالا مخصوص الفاظ میں ہونا احتیاطاً ضروری ہے۔
لیکن آیت اللہ الخمینیؒ کی نظر میں نہ طہارت ضروری ہے نہ روبقبلہ ہونا نہ کوئی خاص ذکر صرف سجدہ کرنا ضروری ہے اور اس فتویٰ کی طرف احتیاط میں رجوع ممکن ہے۔
نوٹ: اگر کوئی شخص سجدہ سہو بھول جائے تو جب بھی یاد آجائے سجدہ کرلے ، نماز پر کوئی اثر نہ پڑے گا۔
سجدۂ تلاوت:
قرآن مجید کے چار سوروں کی چار آیتوں پر سجدۂ تلاوت واجب ہے۔ سورہ والنجم کی آخری آیت سورہ اقرا کی آخری آیت ، سور الم تنزیل میں لا لیتکبرون پر اور سورہ حم فصلت میں تعبدون پر۔
یہ سجدہ آیت پڑھنے والے پر بھی واجب ہے اور بغور سننے والے پر بھی ۔ اتفاقیہ سننے والے پر واجب نہیں ہے لکھنے والے یا سوچنے والے پر بھی وا جب نہیں ہے ۔ سننے میں واجب ہونے کےلئے پڑھنے کا قصد تلاوت کرنا ضروری ہے ورنہ ٹیپ ریکارڈر سے یا نادان بچے کی تلاوت سننے سے سجدہ واجب نہیں ہوتا ۔ ریڈیو سے آیت سنی جارہی ہے تو وہاں بھی سجدہ واجب ہوگا لیکن اگر ریڈیو سےٹیپ بجایاجارہا ہے تو سجدہ واجب نہ ہوگا۔
اس سجدہ میں ساتوں اعضاء پر سجدہ کرنا اور پیشانی کا قابل سجدہ چیز پر ہونا احتیاط واجب ہے اس کے علاوہ طہارت، وضو، غسل، استقبال قبلہ وغیرہ ضروری نہیں ہے اورکوئی ذکر خاص یا تکبیر یا تشہد یا سلام بھی ضروری نہیں ہے ۔ آیت اللہ الخمینی کے یہاں ساتوں اعضاء پر سجدہ کرنا اور پیشانی کے قابل سجدہ شے پر ہونا بھی ضروری ہے صرف کھانے پہننے کی چیز پر سجدہ نہیں ہونا چاہئے ۔ ( یہ فتویٰ بھی احتیاط کے مقابلہ میں قابل عمل ہے )
سجدہ ٔ شکر
کسی بھی نعمت کے ملنے ، مصیبت کے دفع ہونے توفیق خیر کے حاصل ہونے پر سجدہ شکر مستحب ہے ۔ مولائے کائنات ؑنے شب ہجرت سلامتی پیغمبرؐ کی خبر سنکر سجدۂ شکر خدا کیا ہے جبکہ اپنی زندگی ہر طرف سے خطرہ میں پڑی ہوئی تھی اور دشمن مکمل طور پر گھر کا محاصرہ کئے ہوئے تھے یہ تاریخ اسلام کا پہلا سجدہؐ شکر تھا۔
اس سجدہ میں صرف پیشانی کا رکھ دینا ہی کافی ہےچاہے کسی چیز پر ہو اگر چہ احتیاط مستحب یہی ہے کہ ساتوں اعضاء پر سجدہ ہو اور پیشانی بھی قابل سجدہ چیز پر ہو اور آیت اللہ الخمینیؒ کے یہاں یہ بھی واجب ہے کہ کھانے پہننےوالی چیز پر سجدہ نہ ہو۔
اس سجدہ میں کوئی خاص ذکر ضروری نہیں ہے صرف شکراً کہہ دینا بھی کافی ہے۔ اگر چہ بہتر یہی ہے کہ ایک کے بجائے دو سجدے کرے اور دونوں کے درمیان رخسار خاک پر رکھے اور کہنیاں زمین پر فرش کردے اور سینہ و شکم کو زمین سے متصل کردے۔ اور سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد سجدہ گاہ کو ہاتھ سے مس کرکے ہاتھ کو چہرہ اور بدن کے سامنے کے تمام حصوں پر پھیرلے کہ یہ باعث برکت و ثواب ہے۔
زمین پر سجدۂ شکر کرنا ممکن نہ ہو تو اشاروں سے سجدہ کرلے اور اپنے رخساروں کو اپنی ہتھیلی پر رکھ لے اور سواری پر ہو تو زمین پر سجدہ کرے اور رخسار کو ہتھیلی پر رکھ لے۔ اس روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ سجدہ ٔشکر میں بعض حالات میں پیشانی کی بھی قید نہیں ہے صرف رخسار سے بھی ادا ہوجاتا ہے لیکن حتیٰ الامکان انسان پر نعمت حاصل ہونے کے بعد سجدہ شکر کو فراموش نہیں کرنا چاہئے اور ہر حال میں شکر پروردگار کرنا چاہئے،۔
سجدۂ تعظیم
سجدہ ایک بہترین عبادت، بہترین عمل اور بہترین بندگی ہے۔ یہی تعظیم پروردگار کا بہترین ذریعہ ہے اور اس سجدہ کے لئے نماز، سہو ، تلاوت اور شکر کی شرط نہیں ہے۔ انسان جس وقت بھی سجدہ کرلے گا عبادت گزاروں میں شمار ہوجائے گا۔ سجدوں میں بھی طولانی سجدوں کا شرف اور زیادہ ہے جیسا کہ روایات میں ہے کہ جناب آدمؑ نے ایک سجدہ میں تین شب و روز گزار دیئے، امام سجادؑ نے ایک ناہموار پتھرپر پیشانی رکھ کر ہزار مرتبہ دعائے سجدہ پڑھی ہے امام جعفر صادق علیہ السلام اتنا طولانی سجدہ کرتے تھے کہ دیکھنے والے کو احساس ہوتا تھا کہ شاید آرام فرما رہے ہیں۔ امام موسیٰ ابن جعفر روزانہ طلوع آفتا ب سے زوال تک سجدہ میں مصروف رہتے تھے مولائے کائناتؑ نے اتنے طویل سجدے کئے ہیںکہ دیکھنے والے کو شبہہ ہوگیا کہ شاید دنیا سے انتقال فرماگئے ہیں اور امام حسین علیہ السلام نے تو خاک گرم کربلا پر ایسا سجدہ کیا کہ جس کی انتہا ہیمعین نہ ہوسکی کہ آپ نے خود سجدہ سے سر نہیں اٹھایا۔ اٹھا تو ظالم کے ہاتھوں سرکٹ کر اٹھا اور پھر نوک نیزہ پر نظر آیا جس کے بعد کائنات میں زلزلہ آگیا۔ آفتاب کو گہن لگ گیا سیاہ آندھیاں چلنے لگیں اور فضائے کربلا میں ایک آواز گونجی:الا قتل الحسین بکربلا الا ذبح الحسین بکربلا۔ظظظ
( پندرہ روزہ تنظیم المکاتب ۵ـ؍اکتوبر ۱۹۸۳ء)
علامہ سید ذیشان حیدر جوادی
تعظیم اور تحقیر دو زندہ حقیقتیں ہیں جن سے دنیا کی کوئی قوم خالی نہیں ہے۔ قوموں کی نگاہ میں کچھ لوگ قابل تعظیم ہوتے ہیں اور کچھ لوگ قابل تحقیر قابل تعظیم افراد کی تعظیم کی جاتی ہے اور قابل تحقیر افراد کی تحقیرو تذلیل۔
طریقے الگ الگ ہوتے ہیں۔ انداز جداگانہ ہوسکتے ہیں لیکن یہ ممکن نہیں کہ کسی قوم میں ہر شخص قابل تعظیم ہوجائے یا ہر کردار کا انسان قابل تحقیر و تذلیل ہوجائے۔ قابل تعظیم کی تعظیم کرنا بھی فریضہ ہے اور قابل تحقیر کی تحقیر کرنا بھی انسانی ذمہ داری ہے۔
ایک قوم کا قابل تعظیم دوسری قوم کا قابل تحقیر بھی ہوسکتا ہے اور ایک قوم کا انداز تحقیر دوسری قوم کا طریقۂ تعظیم بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن تعظیم و تحقیر کا سلسلہ روز اول سے قائم ہے تو آخر کائنات تک قائم رہے گا۔ جنت میںبھی جانے والے تعظیم کےساتھ ہی لے جائے جائیں گے اور جہنم میں بھی پھینکے جانے والے ذلت کے ساتھ ہی پھینکے جائیں گے۔ قرآن مجید نے مختلف اعمال کی جزائیں جنت کے ساتھ عظمت کا ذکر کیا ہے اور مختلف اعمال کی سزائیں جہنم کے ساتھ ذلت کا تذکرہ کیا ہے ۔ دعا نہ کرنےوالوں کے بارےمیں اعلان ہوتا ہے کہ ’’ جو لوگ ہماری عبادت سے استکبار و غرور رکھتے ہیں انہیں جہنم میں ذلت کے ساتھ داخل کیا جائے گا۔ تاکہ انہیں اندازہ ہوسکے کہ تکبر و غرور کا انجام کیسا ہوتا ہےا ور دنیا کا استکبار کس انجام تک پہنچاسکتا ہے۔
اسلام میں تحقیر و تذلیل کے متعدد ذرائع ہیں جن کا ذکر احکام کے ذیل میں کیا جاتا ہے یعنی قطع تعلق سے لیکر لعنت ابدی تک سب بدکردار افراد کی حیثیت واقعی کے اظہار کے ذرائع ہیں۔ اور اس طرح تعظیم کے بھی مختلف انداز ہیں۔ طالب علم کے لئے قیام کرنا ایک انداز تعظیم ہے بھرے مجمع میںعالم دین کو الگ سے سلام کرنا ایک انداز تعظیم ہے۔ نبیؐ اور امامؑ کی مکمل اطاعت کرنا اور ان کے اشاروں پر زندگی گزارنا ایک طریقہ تعظیم ہے اور ان سب سے عظیم ترتعظیم کا ذریعہ سجدہ ہے ۔ سجدہ کی طرح رکوع میں بھی انداز تعظیم ہے اور اسی لئے بندہ رکوع میں جانے کے بعد خدا کے عظیم ہونے کا اعلان کرتا ہے کہ وہ عظیم نہ ہوتا تو یہ تعظیم نہ ہوتی اس لئے کہ بے جہت اور بلا سبب تعظیم کرنا کار عقلاء نہیں ہے۔ تعظیم کے لئے عظمت کا ہونا ضروری ہے۔ بغیر عظمت کے تعظیم، ناشناسی ، خوشامد ، فریب اور حماقت ہوسکتی ہے تعظیم نہیںہوسکتی اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے غیر خدا کے لئے سجدہ حرام کردیا ہے کہ سجدہ انتہائے عظمت کی نشانی ہے اور انتہائی عظمت کا مالک پروردگار کے علاوہ کوئی نہیں ہوسکتا۔ اس کے علاوہ جس کے پاس بھی عظمت و رفعت و بلندی ہے وہ اسی کے کرم کا نتیجہ ہے کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہے۔ صرف اس کی عظمت ہے جو اس کی ذات کا تقاضا ہے اس کے علاوہ سب اس کی رحمت کے زیر اثر ہیں اور یہی سبب ہے کہ غیر خدا کو جب بھی سجدہ ہوا ہے تو حکم خدا سے ہوا ہے۔ حکم خدا کے بغیر سجدہ خلاف قانون ہے ۔ سجدہ ٔآدمؑ کے بارے میں بھی قرآن مجید نے یہی بیان کیا ہے کہ انکار ابلیس کے بعد پروردگار نے یہی سوال کیا تھاکہ میرے حکم کے بعد تونے سجدہ کیوں نہیں کیا۔ یعنی سجدہ آدمؑ کا نہیں ہے کہ ان کے مادہ تخلیق پر نگاہ کی جائے۔ سجدہ میرے حکم کا ہے اور اس میں کسی چوں و چرا کی گنجائش نہیں ہے اور اسی لئے معصومین نے اس نکتہ کی طرف اشارہ کردیا ہے کہ سجدۂ آدمؑ حکم پر وردگار کا سجدہ تھا۔ آدمؑ کی عظمت کے لئے یہی کافی تھا کہ انہیں اس سجدہ کا قبلہ بنادیا گیا تھا ورنہ غیر خدا کے لئے سجدہ کی گنجائش نہیں ہے جناب یوسف کے سامنے برادران یوسف کا سجدہ بھی بقول روایات سجدہ ٔشکر تھا کہ اللہ نے یوسف کو اس مرتبہ تک پہنچادیا ہے ورنہ کسی اور سجدہ کی گنجائش نہیں ہے۔ ( عروۃ الوثقیٰ)
اور شاید یہی وجہ ہےکہ کائنات کی عظیم ترین شخصیت جس کے بارےمیں مرسل اعظمؐ نے اعلان کیا ہے کہ ’’ انا من الحسینؑ‘‘ اور جس کی عظمت کے سامنے دنیا کی ہر قوم جبین نیاز خم کرتی ہے۔ اس کی بارگاہ میں بھی حاضری کے بعد جو نماز زیارت پڑھی جاتی ہے ، اس کے بعد دعا کا اہم ترین فقرہ ہے کہ ’’ پروردگار یہ نماز یہ سجدہ ، یہ رکوع سب تیرے لئے ہے اس لئے کہ تیرے علاوہ کسی کے لئے نماز یا رکوع یا سجدہ جائز نہیں ہے تو وہ وحدہ لا شریک ہے اور یہ اندازہ تعظیم صرف تیرے لئے ہے۔ اب یہ نماز ہدیہ ہے حسینؑ بن علی علیہ السلام کے لئے۔ لہٰذا یہ میرا ہدیہ ان کی بارگاہ تک پہنچا دے اور مجھے اس کا اجر عنایت فرما۔
ظاہر ہے کہ جب ذات امام حسینؑ ان عظمتوں کے بعد سجدہ کا مرکز نہ قرار پائی جس نے اپنے ایک سجدہ سے کل کائنات کو سجدہ کی طرف کھینچ لیا تھا تو دوسرا کون سجدہ کا حقدار ہوسکتا ہے۔ علماء اعلام نے اسی نکتہ کے پیش نظر فرمایا ہے کہ ائمہ معصومین ؑ کے روضوں میں چوکھٹ پر جو سجدہ کیا جائے اسے سجدۂ شکر پروردگار ہونا چاہئے کہ اس نے اس بارگاہ میں حاضری کے قابل بنایا ہے اور یہاں تک پہنچا دیا ہے سجدہ صاحب قبر کا نہیں ہونا چاہئے کہ اس سے خود صاحب قبر نے منع فرمایا ہے اور بعض علماء کرام نے تو مقام زیارت میں بھی بقدر رکوع جھکنے پر بھی پابندی عائد کردی ہے کہ سجدہ کی طرح رکوع بھی عظمت پروردگار کی نشانی ہے اور بندوں کے لئے نہیں ہے جیسا کہ زیارت امام حسینؑ ہی کے ذیل میں نماز کے بارےمیں نقل کیا گیا ہے۔ دنیا کا فرشی سلام اور زمین بوس احترام ریاستوں کی پیداوار ہے اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ جب معصومینؑ نے اپنی بارگاہ میں یہ اعلان کردیا کہ رکوع اور سجدہ صرف خدائے وحدہ لا شریک کے لئے ہے تو نواب ، رئیس ، تعلقدار ، شیخ ، سلطان اور صدر جمہوریہ کی کیا حقیقت ہے اور وہ ان کے مقابلہ میں کس عظمت و حیثیت کے مالک ہیں۔
سجدہ کی ان عظمتوں کے بعد اسلام میں سجدوں کے اقسام پر بھی روشنی ڈال دی جائے تاکہ صاحبان ایمان مقام عمل میں مسائل شریعت کی طرف متوجہ رہیں اور کوئی سجدہ غلط نہ ہونے پائے:
سجدۂ نماز
یہ سجدہ ہر رکعت میںد و مرتبہ ہوتا ہے اور دونوں کا مجموعہ ایک رکن کی حیثیت رکھتا ہے اگر بھولے سے بھی دو کے چار ہوجائیں یا ایک سجدہ بھی نہ ہوسکے تو نماز باطل ہوجاتی ہے ایک یا تین پر نماز باطل نہیںہوتی بلکہ سجدہ سہو کرنا ہوتا ہے اس لئے کہ سجدہ آدھا رکن ہے اور آدھے رکن کی کمی یا زیادتی غفلت کی صورت میں نماز کو باطل نہیں کرسکتی قصداً ادنیٰ غلطی بھی نماز کو باطل کرسکتی ہے۔
سجدہ میں ساتوں اعضا کا زمین پر ٹکنا ضروری ہے ، پیشانی ، دونوں گھٹنے ، دونوں ہتھیلیاں ، اور دونوں پیر کے انگوٹھے بعض حضرات سجدہ میں جاکر پیروں کے انگوٹھے اٹھالیتے ہیں۔ ان کا سجدہ باطل ہے۔ سجدہ میں ناک کا رکھنا مستحبات میں ہے واجبات میں نہیں ہے۔
سجدہ کے لئے قابل سجدہ شے کا ہونا ضروری ہے اور وہ پہلی منزل میں زمین، پتھر، ریت ، سمینٹ، کچی پکی اینٹ ، اور لکڑی ، پتہ درخت کی چھال ، گھاس، ( بشرطیکہ یہ چیزیں کھانے اور پہننے میں استعمال نہ ہوتی ہوں)اور کاغذ ہے چاہے وہ سادہ ہو یا لکھا ہوا۔ سفید ہو یا رنگین ( بشرطیکہ رنگ رنگ ہو پینٹ نہ ہو)۔
اس کے بعد یہ چیزیں فراہم نہ ہوں اور وقت نماز بھی تنگ ہو تو اپنےد امن یا آستین پر سجدہ کرے اور اعضاء سجدہ کا زمین پر رکھنے کا بھی خیال رکھے ورنہ وقت میں گنجائش ہے تو نماز شروع نہ کرے یا شروع کرچکا ہے تو نماز کو توڑ کر مذکورہ بالا اشیاء کو تلا ش کرکے پھر سے نماز شروع کرے۔ دامن و آستین کی بھی گنجائش نہ ہو اور وقت نماز جارہا ہو تو بفتویٰ آیت اللہ الخوئی ؒاختیار ہے کہ چاہے پشت دست پر سجدہ کرے یا کسی بھی ناقابل سجدہ شے پر سجدہ کرلے وہ معدنیات ہوں یا فرش وغیرہ اور آیت اللہ الخمینیؒ کے فتوے کے مطابق پشت دست پر سجدہ کرے اور یہ بھی ممکن نہ ہو تو معدنیات پر سجدہ کرے فرش وغیرہ کا ذکر نہیں ہے۔
سجدۂ سہو
یہ سجدہ بھولے سے نمازمیں کلام کرنے یا بے موقع بھول کر واجب سلام پڑھ لینے یا تشہد کے بھول جانے یا ایک سجدہ کے بھول جانے یا قیام کی جگہ قعود اور قعود کی جگہ قیام کرلینے سے واجب ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ کسی زیادتی یا کمی کے لئے سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا بلکہ آیت اللہ الخمینیؒ کے یہاں تو قیام و قعود بے جا میں بھی سجدہ واجب نہیں ہے اور خود آیت اللہ الخوئیؒ کے یہاں بھی بطور احتیاط ہی واجب ہے ’’ السلام علیک ایھا البنی ‘‘ کی زیادتی سے سجدہ واجب نہیں ہوتا ( سجدہ اور تشہد کے بھولنے میں سجدہ کے علاوہ ان کی قضا بھی واجب ہوتی ہے)۔
اس سجدہ کا طریقہ یہ ہے کہ نماز تمام کرنے کے فوراً بعد دو سجدہ سہو کی نیت کرکے سجدہ میں جائے اور کہے : بسم اللہ وباللہ السلام علیکم ایھاالنبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ اور پھر سر اٹھا کر دوبارہ ایسا ہی سجدہ کرے اور پھر سر اٹھا کر باقاعدہ مکمل تشہد پڑھ کر ایک سلام السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ پڑھ کر سلام کو تمام کردے۔
اس سجدہ میں ساتوں اعضاء سجدہ کا زمین پر ہونا اور سجدہ کا قابل سجدہ چیز پر ہونا واقعاً واجب ہے اور با وضو ہونا رو بقبلہ ہونا احتیاطاً واجب ہے۔ ذکر کا بھی مذکورہ بالا مخصوص الفاظ میں ہونا احتیاطاً ضروری ہے۔
لیکن آیت اللہ الخمینیؒ کی نظر میں نہ طہارت ضروری ہے نہ روبقبلہ ہونا نہ کوئی خاص ذکر صرف سجدہ کرنا ضروری ہے اور اس فتویٰ کی طرف احتیاط میں رجوع ممکن ہے۔
نوٹ: اگر کوئی شخص سجدہ سہو بھول جائے تو جب بھی یاد آجائے سجدہ کرلے ، نماز پر کوئی اثر نہ پڑے گا۔
سجدۂ تلاوت:
قرآن مجید کے چار سوروں کی چار آیتوں پر سجدۂ تلاوت واجب ہے۔ سورہ والنجم کی آخری آیت سورہ اقرا کی آخری آیت ، سور الم تنزیل میں لا لیتکبرون پر اور سورہ حم فصلت میں تعبدون پر۔
یہ سجدہ آیت پڑھنے والے پر بھی واجب ہے اور بغور سننے والے پر بھی ۔ اتفاقیہ سننے والے پر واجب نہیں ہے لکھنے والے یا سوچنے والے پر بھی وا جب نہیں ہے ۔ سننے میں واجب ہونے کےلئے پڑھنے کا قصد تلاوت کرنا ضروری ہے ورنہ ٹیپ ریکارڈر سے یا نادان بچے کی تلاوت سننے سے سجدہ واجب نہیں ہوتا ۔ ریڈیو سے آیت سنی جارہی ہے تو وہاں بھی سجدہ واجب ہوگا لیکن اگر ریڈیو سےٹیپ بجایاجارہا ہے تو سجدہ واجب نہ ہوگا۔
اس سجدہ میں ساتوں اعضاء پر سجدہ کرنا اور پیشانی کا قابل سجدہ چیز پر ہونا احتیاط واجب ہے اس کے علاوہ طہارت، وضو، غسل، استقبال قبلہ وغیرہ ضروری نہیں ہے اورکوئی ذکر خاص یا تکبیر یا تشہد یا سلام بھی ضروری نہیں ہے ۔ آیت اللہ الخمینی کے یہاں ساتوں اعضاء پر سجدہ کرنا اور پیشانی کے قابل سجدہ شے پر ہونا بھی ضروری ہے صرف کھانے پہننے کی چیز پر سجدہ نہیں ہونا چاہئے ۔ ( یہ فتویٰ بھی احتیاط کے مقابلہ میں قابل عمل ہے )
سجدہ ٔ شکر
کسی بھی نعمت کے ملنے ، مصیبت کے دفع ہونے توفیق خیر کے حاصل ہونے پر سجدہ شکر مستحب ہے ۔ مولائے کائنات ؑنے شب ہجرت سلامتی پیغمبرؐ کی خبر سنکر سجدۂ شکر خدا کیا ہے جبکہ اپنی زندگی ہر طرف سے خطرہ میں پڑی ہوئی تھی اور دشمن مکمل طور پر گھر کا محاصرہ کئے ہوئے تھے یہ تاریخ اسلام کا پہلا سجدہؐ شکر تھا۔
اس سجدہ میں صرف پیشانی کا رکھ دینا ہی کافی ہےچاہے کسی چیز پر ہو اگر چہ احتیاط مستحب یہی ہے کہ ساتوں اعضاء پر سجدہ ہو اور پیشانی بھی قابل سجدہ چیز پر ہو اور آیت اللہ الخمینیؒ کے یہاں یہ بھی واجب ہے کہ کھانے پہننےوالی چیز پر سجدہ نہ ہو۔
اس سجدہ میں کوئی خاص ذکر ضروری نہیں ہے صرف شکراً کہہ دینا بھی کافی ہے۔ اگر چہ بہتر یہی ہے کہ ایک کے بجائے دو سجدے کرے اور دونوں کے درمیان رخسار خاک پر رکھے اور کہنیاں زمین پر فرش کردے اور سینہ و شکم کو زمین سے متصل کردے۔ اور سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد سجدہ گاہ کو ہاتھ سے مس کرکے ہاتھ کو چہرہ اور بدن کے سامنے کے تمام حصوں پر پھیرلے کہ یہ باعث برکت و ثواب ہے۔
زمین پر سجدۂ شکر کرنا ممکن نہ ہو تو اشاروں سے سجدہ کرلے اور اپنے رخساروں کو اپنی ہتھیلی پر رکھ لے اور سواری پر ہو تو زمین پر سجدہ کرے اور رخسار کو ہتھیلی پر رکھ لے۔ اس روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ سجدہ ٔشکر میں بعض حالات میں پیشانی کی بھی قید نہیں ہے صرف رخسار سے بھی ادا ہوجاتا ہے لیکن حتیٰ الامکان انسان پر نعمت حاصل ہونے کے بعد سجدہ شکر کو فراموش نہیں کرنا چاہئے اور ہر حال میں شکر پروردگار کرنا چاہئے،۔
سجدۂ تعظیم
سجدہ ایک بہترین عبادت، بہترین عمل اور بہترین بندگی ہے۔ یہی تعظیم پروردگار کا بہترین ذریعہ ہے اور اس سجدہ کے لئے نماز، سہو ، تلاوت اور شکر کی شرط نہیں ہے۔ انسان جس وقت بھی سجدہ کرلے گا عبادت گزاروں میں شمار ہوجائے گا۔ سجدوں میں بھی طولانی سجدوں کا شرف اور زیادہ ہے جیسا کہ روایات میں ہے کہ جناب آدمؑ نے ایک سجدہ میں تین شب و روز گزار دیئے، امام سجادؑ نے ایک ناہموار پتھرپر پیشانی رکھ کر ہزار مرتبہ دعائے سجدہ پڑھی ہے امام جعفر صادق علیہ السلام اتنا طولانی سجدہ کرتے تھے کہ دیکھنے والے کو احساس ہوتا تھا کہ شاید آرام فرما رہے ہیں۔ امام موسیٰ ابن جعفر روزانہ طلوع آفتا ب سے زوال تک سجدہ میں مصروف رہتے تھے مولائے کائناتؑ نے اتنے طویل سجدے کئے ہیںکہ دیکھنے والے کو شبہہ ہوگیا کہ شاید دنیا سے انتقال فرماگئے ہیں اور امام حسین علیہ السلام نے تو خاک گرم کربلا پر ایسا سجدہ کیا کہ جس کی انتہا ہیمعین نہ ہوسکی کہ آپ نے خود سجدہ سے سر نہیں اٹھایا۔ اٹھا تو ظالم کے ہاتھوں سرکٹ کر اٹھا اور پھر نوک نیزہ پر نظر آیا جس کے بعد کائنات میں زلزلہ آگیا۔ آفتاب کو گہن لگ گیا سیاہ آندھیاں چلنے لگیں اور فضائے کربلا میں ایک آواز گونجی:الا قتل الحسین بکربلا الا ذبح الحسین بکربلا۔ظظظ
( پندرہ روزہ تنظیم المکاتب ۵ـ؍اکتوبر ۱۹۸۳ء)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں