جمعہ، 20 ستمبر، 2019

توحید از نظر امام جعفر صادق علیہ السلام

توحید ان نظر امام جعفر صادق علیہ السلام
آیۃاللہ العظمیٰ شیخ وحید خراسانی
ترجمہ سید محمد حسنین باقری
تکوینی اسمائے حسنیٰ کی ایک فرد امام جعفر صادق علیہ السلام ہیںجن کے دنیا میں تشریف لانے سے پہلے ہی پیغمبر اکرم ﷺ نے ’’صادق‘‘ نام رکھا۔ یہ نام بہت ہی عمیق معنی رکھتا ہے۔ ’’یا ایھا الذین آمنوا اتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین‘‘۔ ’اے صاحبان ایمان! تقویٰ اختیار کرو اور صادقین کے ساتھ ہوجاؤ‘۔یہ وہ ذات گرامی ہے جس کا نام اس کائناتِ ہستی کی پہلی ذات نے رکھا ہے اور آج جس کے نام سے مذہب پہچانا جاتا ہے یعنی مذہب جعفری۔
اس مذہب جعفری کی عظمت و اہمیت کا اندازہ تو اس وقت ہوگا جب تمام اسلامی مذاہب کو سامنے رکھا جائے اور آپس میں مقائسہ کیا جائے۔
مالکی مذہب کے امام مالک ابن انس وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں مذہب شافعیہ کے امام شافعی کی تعبیر یہ ہے کہ تمام علماء کے درمیان مالک بن انس ستارہ ہیں۔
عامہ کے امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک کے سامنے طفل مکتب کی طرح بیٹھتے تھے۔ حنبلی مذہب کے امام احمد بن حنبل نے عبداللہ بن نافع سے اور انھوں نے امام مالک بن انس سے نقل کیا ہے کہ مالک بن انس نے کہا: ’’اللہ فی السماء و علمہ فی کل مکان‘‘۔’یعنی خدا آسمان میں ہے اور خدا کا علم ہر جگہ ہے‘۔(مسائل أحمد من روايۃ أبی داود 263"، "السنۃ لعبد الله بن أحمد (1/280) "والشريعۃ للآجری 289"، "وشرح أصول اعتقاد أھل السنۃ للالکائی 673"وابن عبد البر فی"التمہيد"(7/138))
یہ جملہ احمد بن حنبل سے نقل ہوا ہے اور انھوں نے دو واسطوں سے اس جملہ کو مالک بن انس سے نقل کیا ہے اور مالک بن انس امام شافعی کے نزدیک تمام علمائے اہل سنت کے درمیان ستارہ ہیں اور امام ابو حنیفہ ان کے نزدیک طفل مکتب ہیں۔ ان امام مالک کا خدا کے بارے میں عقیدہ یہ ہے (گویا یہی عقیدہ ائمہ اربعہ اور تمام اہل سنت کا ہوا)
 اس جملہ کی تحلیل ضروری ہے:’’خداآسمان میں ہے‘‘۔ یعنی خدا اور آسمان کے درمیان ظرف اور مظروف کی نسبت ہوئی۔ ہر ظرف محیط (احاطہ کرنے والا و گھیرنے والا) ہے اور اور ہر مظروف مُحاط (جس کا احاطہ ہو) ہے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ آسمان محیط ہے اور خدا محاط ہے، آسمان ظرف ہے اور خدا مظروف۔
اگر خدا آسمان میں ہے تو کسی مکان و جگہ میں ہونے والے کا لازمہ جسمیت ہے لہذا خدا کا جسم ہونا لازم ہوا۔ اگر جسم ہو تو مرکب ہوگا۔ اس لئے ہر جسم یا مادہ و صورت سے مرکب ہوتاہے یا اجزاءسے مرکب ہوتا ہے۔ بہر صورت جسم ہونا مساوی ہے مرکب ہونے کے۔ اور مرکب، اجزاء کا محتاج ہوتا ہے۔
مرکَّب (ترکیب پانے والے) اجزاء محتاج ہیں مرکِّب(ترکیب دینے والے) کے۔ لہذا امام مالک کا خدا دو جہت سے محتاج ہوا۔ یعنی مذاہب اربعہ کا خدا اجزاء کا محتاج ہوگیا نیزا جزاء کے جوڑنے والے کا محتاج ہوگیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ خالق بدل گیا مخلوق میں یعنی خالق مخلوق ہوگیا، واجب ممکن میں تبدیل ہوگیا۔
ہر مظروف محصور ہے ظرف میں اس میں کوئی شک نہیں۔ اگر خدا آسمان میں ہے تو لامحالہ آسمان میں محصور ہے۔اور جب محصور ہوا تو محدود ہوگیا۔ اور ہر محدود محتاج ہے اور ہر محدود متناہی ہےگویا اس طرح بھی خالق بدل گیا مخلوق میں، واجب ہوگیا ممکن۔
دوسرا جملہ ہے: علمہ فی کل مکان۔ خدا خود تو آسمان میں ہے لیکن اس کا علم ہر جگہ ہے۔
اس جملہ کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خدا کا علم اس کی ذات سے الگ ہے اگر خدا کا علم اس کا عین ہے تو خدا ہر جگہ ہے نہ کہ آسمان میں ۔ اگر خدا کا علم اس کا غیر ہے تو ذات علم سے جدا ہوگی۔ لہذا اس کی ذات کے مرتبہ میں علم نہیں ہے۔ جب مرتبۂ ذات میں عالم نہیں ہے تو جاہل ہوا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عامہ کے ائمہ کے امام کا خدا جہل و نادانی والا ہے۔
علم خدا جدا ہے خدا سے۔ ائمہ اربعہ اور دیگر علمائے اہل سنت جواب دیں کہ اگر خدا کا علم خدا کے علاوہ ہے تو اس کا علم یا قدیم ہے یا حادث۔ یہ سب نفی و اثبات کے درمیان ہے۔ تیسرا فرض قابل تصور نہیں ہے۔ اور اگر قدیم ہو تو دو خدا لازم آئیں گے: ایک ذات اور ایک علم۔ اور یہ شرک ہے۔
اگر حادث ہے تو نتیجہ ہوگا کہ علم خدا قدیم نہیں ہے۔ لہذا ماننا پڑے گا کہ خدا تھا لیکن علم نہیں تھا بعد میں علم پیدا ہوا۔ اب یہ علم کہاں سے پیدا ہوا؟ کیا خدا نے خود اپنا علم پیدا کیا؟ خود اپنے علم کو وجود دیا؟ جبکہ قانون ہے کہ’ فاقدِ شیٔ معطی شیٔ نہیں ہوتی‘(جس کے پاس علم نہ ہو وہ علم کو کیسے پیدا کرے گا)جب خود خدا اپنے علم کو وجود میں نہیں لاسکتا تو کیا غیر خدا علم خدا کو وجود میں لایا ہے؟ جس کا لازمہ یہ ہوگا کہ علم خدا، غیر خدا کا پیدا کیا ہوا ہے۔
اب آئیے ملاحظہ کیجئے کہ پیغمبر اکرم ﷺ کے چھٹے جانشین برحق، مذہب جعفری کے رئیس حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام خداوند عالم کے سلسلے میں فرماتے ہیں:
سبحان من لا یعلم کیف ھو الا ھو۔ منزہ ہے وہ خدا کہ وہ کیسا ہے یہ کوئی بھی نہیں جانتا سوائے خدا کے۔
وہاں عامہ کا عقیدہ تھا کہ خدا آسمان میں ہے۔ اگر خدا آسمان میں ہے تو سورج بھی آسمان میں ہے۔ گویا سورج مثل خدا ہے اور خدا مثل سورج ہے۔ جبکہ ’لیس کمثلہ شیٔ‘۔ کوئی بھی خدا کے مثل نہیں ہے۔خدا کے مثل ہونا عقل کے بھی خلاف ہے اور وحی کے بھی خلاف ہے۔
اور امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:’’لیس کمثلہ شیٔ و ھو السمیع البصیر۔ لا یحدّ و لا یحس و لایمس و لاتدرکہ الحواس و لایحیط بہ شیٔ۔ انّ اللہ تبارک و تعالیٰ و لایشبہ شیئا و لایشبھہ شیٔ۔ و کل ماوقع فی الوھم فھو بخلافہ۔ لم یزل اللہ عزّ و جلّ۔ والعلم ذاتہ ولامعلوم۔(اصول کافی)
کوئی بھی خدا کے مثل نہیں ہے وہی سمیع و بصیر ہے۔ وہ محدود نہیں ہوسکتا، محسوس نہیں کیا جاسکتا، چھوا نہیں جاسکتا، حواس اس کو درک نہیں کرسکتے، کوئی بھی چیز اس کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ اس کا کوئی بھی مشابہ نہیں ہے اور نہ وہ کسی کے بھی مشابہ ہے۔اور جو بھی وہم و گمان میں سمائے وہ مخلوق ہوا خدا نہیں ہوسکتا۔ خدا ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہےگا۔ علم اس کا عین ذات ہے۔
جو کچھ بیان ہوا یہ چاروں مذاہب کا نچوڑ تھا اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے جو بیان ہوا وہ معارف الہیہ کے لامحدود سمندر کا ایک قطرہ تھا۔ یہاں سے سمجھیں کہ مذہب جعفری کیا ہے؟ دنیا بیدار ہو۔ اگر امام جعفر صادق علیہ السلام نہ ہوتے، اگر مذہب جعفری نہ ہوتا تو توحید کا نام و نشان نہ ہوتا، تسبیح و تہلیل و تحمید و تکبیر نہ ہوتی، ایک بہت بڑا احسان اہل بیت ؑ کا یہ بھی ہے کہ انھوں نے صحیح توحید کو دنیا میں پیش کیا۔ظظظ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں