منگل، 3 ستمبر، 2019

کربلا انسانیت کوپیغام دیتی ہے (1)

کربلا انسانیت کو پیغام دیتی ہے
سید محمد حسین باقری
 لکھنؤ ،
انسان کو بیدار تو ہولینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ
( جوشؔ)
نواسۂ نبی حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظیم الشان قربانی یقیناً انتہائی عظیم مقصد کےلئے تھی جہاں ایک طرف قربانی کا مقصد بقائے لا الہ تھا، عظمت توحید کی حفاظت تھی ، دین الٰہی پر آنچ نہ آنے دینا تھا ، پیغمبر عظیم الشان صلعم کی زحمتوں کو بچانا تھا، کلمہ شہادتین کی لاج رکھنا تھی ، ولایت خدا اور ولی خدا سے لوگوں کو روشناس کرانا تھا، امت مسلمہ کی اصلاح تھی، فریضۂ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ادائیگی تھی، نبیؐ و جانشین نبی کی صحیح و حقیقی سیرت کو عملی طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا، وہیں در حقیقت انسانیت کو بچانا اور انسانی اقدار کی پاسبانی تھی، امام حسینؑ نے اتنی بڑی قربانی کسی معمولی چیز کےلئے نہیں دی بلکہ انسانی اقدار کو بچایا ہے انسانی اصولوں کی حفاظت کی ہے کربلا میں قربانی دے کر بتایا ہے انسانیت کسے کہتے ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہے کہ یزید اور اس کا گروہ صرف حسینؑ ابن علیؑ ہی کا دشمن نہیں تھا بلکہ وہ انسانیت کا دشمن تھا انسانی اصولوں اور انسانی اقدار کو پامال کرنا چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ تنہا کربلا وہ جگہ ہے، تنہا یاد حسینؑ و تذکرہ حسینؑ ایسی یاد و تذکرہ ہے کہ جسے ہر انسان مناتا ہے۔ دنیا میں تنہا کربلا و نام حسینؑ وہ چیز ہے جہاں کسی بھی طرح کی کوئی تفریق نہیں ہے بلکہ ہر انسان چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب و ملت اور فرقہ سے ہو، ذکر حسینؑ کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ (جہاں انسانیت ہی نہ ہو وہ تو  مخالفت کرےگا ہی )
کیا یہ قابل غور نہیں ہے کہ چودہ سو سال گزرنے کے بعد تمام مخالفتوں کے باوجود آج سب سے زیادہ تذکرہ کربلا کا ہوتا ہے ۔ سب سے زیادہ  نام امام حسینؑ کا لیاجاتا ہے۔ دنیا کا کوئی خطہ کوئی علاقہ اس ذکر و یاد سے خالی نہیں ہے۔ دنیا کے ہر مذہب و مسلک سے تعلق رکھنے والا انسان نام حسینؑ لیتا ہے ۔ حسینؑ ابن علیؑ کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ دنیا کا ہر انسان واقعہ کربلا کے بارےمیں غور کرے۔ حسینؑ ابن علیؑ کی قربانی کو نگاہوں میں رکھے اور اس قربانی سے انسانیت کا درس حاصل کرے اس کربلا سے انسانی اقدار کو پہچانے اس عزاداری سے حق کی معرفت حاصل کرے۔
کربلا نے بہت سے پیغامات دیئے ہیں جن کی فہرست طویل ہے صرف بعض کو اجمالاً پیش کیا جارہا ہے :
 (۱) اپنے اندر علم و شعور و آگہی پیدا کرنا :
انسانیت کی پہچان علم و شعور ہے اس نعمت سے محروم انسان بظاہر تو انسان ہوتا ہے لیکن انسانی کمالات اس کے اندر نہیں آیا کرتے وہ خود اپنے فائدے و نقصان کو بھی پہچاننے کی صلاحیت نہیں رکھتا جو بھی چاہتا ہے اسے اپنے مقصد کے لئے استعمال کرلیتا ہے۔ علم و شعور تو اسلام کے آفاقی پیغام کی بنیاد ہے اسلام نے حق کی طرف دعوت دینے میں مجبور نہیں کیا بلکہ عقل و فکر و شعور کو بیدار کرنا چاہا ہے۔ جب تک انسان کے اندر عقل و فکر اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو وہ اسلام کو نہیں سمجھ سکتا۔ اس لئے اسلام زور دیتا ہے کہ علم حاصل کرو جہالت کی تاریکیوں سے باہر نکلو اور علم کی روشنی میں اس عقل کو بروئے کار لاکر حقائق کو درک کرو۔ جہالت صرف فرد کی موت نہیں ہے بلکہ سماج و معاشرہ کی موت کا سبب بن جاتی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ کربلا کے اس پیغام کو سامنے رکھا جائے کہ عقل و شعور و فکر نہ ہونے کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ فرزند رسولؐ کے قتل کے درپے ہوئے اور جہالت کے نتیجے میں یزید جیسے فاسق و فاجر اور دشمن  خدا و رسول کے ہاتھوں استعمال ہوگئے۔ لشکر یزید کی جہالت و لاعلمی اور عدم شعور ہی کا نتیجہ تھا کہ بظاہر تو آل نبیؐ کا گھراجڑ گیا۔ فرزند نبی کو قتل کردیا لیکن ان کے ہاتھ نہ دنیا آئی اور نہ آخرت خسر الدنیا والآخرۃ کا مکمل نمونہ بن کر سامنے آئے۔ کربلا آج بھی تمام انسانوں کو پیغام دیتی ہے اپنے کو علم کی دولت سے مالا مال کرو اپنی عقل و فکر کو بروئے کار لاؤ اپنے شعور کو پختہ کرو تاکہ اولاً تم خود اپنے کو پہچان سکو اور حق و باطل میں تمیز دے سکو، ساتھ ہی ساتھ دوسرے کو موقع نہ دو کہ تم کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرسکے ۔ کم از کم تمہارے اندر اتنی صلاحیت ہو کہ تم پہچان سکو سامنے والا تم کو کدھر لے جانا چاہتا ہے تم سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تمہارے ذریعہ اپنے کس مفاد کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ دنیاوی مفاد کےلئے تم کو دوزخ کا ایندھن بنارہا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ انسانیت کا گلا گھوٹنے کے لئے تمہارا سہارا لے رہا ہے۔ کمزوروں کو دبانے لوگوں پرظلم کرنے کے لئے تم کو سپر بنایا ہے۔
لہٰذا آؤ کربلا سے یہ پیغام لو کہ اپنے اور سماج کے درمیان سے جہالت و لاعلمی کی لعنت کو ختم کرو علم کی شمع روشن کرو اور علم و آگہی کی روشنی میں اپنی عقل و فکر اور شعور کو پختہ کرو تاکہ تم بھی محفوظ رہو اور تمہارا سماج بھی محفوظ رہے اور باطل طاقتیں اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
(۲) عزت و سربلندی کے ساتھ زندگی گزارنا:
 انسانی کمالات میں سے ایک  کمال عزت نفس ہے، عزت و سربلندی انسانیت کی پہچان ہے کربلا میں سید الشہداء کا ایک اہم پیغام تھا ’’ ھیھات منا الذلۃ‘‘ ہم ہر گز ہرگز ذلت کو گوارا نہیں کرسکتے۔ اگر تم انسان ہو ، اپنے کو اشرف المخلوقات کہتے ہو تو اپنی عزت نفس کا پاس و لحاظ کرو۔ اپنی عزت کا سودا نہ کرو۔ خدا نے تم کو عزیز بنایا ہے لہٰذا ہر قدم پر اس عزت کی حفاظت کرو۔ چاہے گلا کٹ جائے بچے قربان ہوجائیں بھرا گھر اجڑ جائے۔ خواتین اسیر و قیدی بنالی جائیں لیکن عزت نفس اور عزت انسانی پر آنچ نہ آنے دو۔ کسی ظالم کے آگے گھٹنے ٹیکنا ذلت کو گوارا کرنا ہے، فاسق و فاجر کی منشاء و خوشنودی کا خیال کرنا عزت نفس کا سودا کرنا ہے، باطل سے مرعوب ہوجانا اپنے کو نہ پہچاننا ہے ، شرک و الحاد سے راضی رہنا ذلت گوارا کرنا ہے، دنیاوی مفاد کے لئے باطل کی خوشنودی حاصل کرنا اپنے کو ذلیل کرنا ہے، ظلم و نا انصافی ، فسق و فجور، قتل و غارت گری، فتنہ و فساد ، بے دینی و بے حیائی کو دیکھ کر خاموشی اختیار کرنا عزت انسانی کا سودا کرنا ہے۔ چند روزہ زندگی کے لئے باطل آقاؤں کی جی حضور ی کرنا عزت نفس کو پامال کرنا ہے، خدا کو چھوڑ کر باطل سے کسی طرح کی امید وابستہ کرنا ذلت کے آگے سرجھکانا ہے، جھوٹی شہرت کےلئے دینی اصولوں کو پامال کردینا عزت کا گلا گھونٹنا ہے۔
عزت نفس اور سر بلندی کے ساتھ زندگی گزارنے کا مطلب ہےکہ صرف خدا کی طاقت پر بھروسہ کرو، کسی باطل طاقت سے نہ ڈرو، کسی ظالم و جابر سے مرعوب نہ ہو، اپنی قلت پر کسی طرح کا خوف نہ ہو، عزت نفس اور سر بلندی کے لئے ہوسکتا ہے قربانی دینا پڑے ہر طرح کی قربانی کے لئے تیار رہو۔ ہوسکتا ہے جان و مال سے گزرنا پڑے اپنی عزت و سربلندی کے لئے اپنی جان و مال سے گزرجاؤ، کربلا کا نمونہ سامنے ہے حسینؑ گلا کٹوا کر آج بھی عزیز ہیں اور یزید ظلم کرکے بھی ذلیل و رسوا ہے۔ کربلا کا یہ درس انتہائی اہم ہے کہ کسی بھی قدم پر کسی بھی مرحلے میں اپنی عزت نفس کو فراموش نہ کرو۔ ھیھات منا الذلہ کو عملی جامہ پہناؤ ، باطل کے آگے کسی بھی حالت میں سر نہ جھکاؤ چاہے سر کٹا نا ہی کیوں نہ پڑے۔
(۳) ظلم و نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنا:
 فطرت انسانی والے دین اسلام کا پیغام ہے نہ ظلم کرو نہ ظلم سہو، دین اسلام کی اساس و بنیاد عدل و انصاف پر ہے اس دین میں ظلم کا تصور ہی نہیں ہے قیام حسینؑ کا کربلا میں مقصد نیز منتقم خون حسینؑ امام مہدی عج کے قیام  کا مقصد ظلم و ستم کا خاتمہ اور عدل و  انصاف و امن و امان کا قیام ہے۔ اسلام چاہتا ہی ہے کہ امن و امان اور عدل وانصاف قائم رہے ظلم و ستم کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے۔ حسین  ابن علی علیہما السلام نے اپنے قیام کے ذریعہ پیغام دیا کہ اگر ظلم آشکار ہورہا ہو، ظالم ، انسانیت کا خون چوس رہا ہو، لوگوں کے حقوق پامال ہورہے ہوں، کمزوروں کو دبایاجارہا ہو، زمام حکومت ایسے ہاتھوں میں ہو جہاں انسانیت پامال ہورہی ہو، اقتدار ان لوگوں کے ہاتھوں میں آجائے جو انسانیت کی خو بو بھی نہ رکھتے ہوں، کسی بھی انسان کی جان و مال ، عزت و آبرو محفوظ نہ ہو تو ایسی صورت میں ہرحق پسند انسان کا فریضہ ہے کہ ظلم کے خلاف اقدام کرے، ایسے مواقع پر خاموش رہ جانا اور کوئی بھی اقدام نہ کرنا ظالم کے ظلم میں شرکت کے مترادف ہے۔ لہٰذا حسین ابن علی علیہ السلام نے قیام کربلا کے ذریعہ یہ پیغام بھی دیا کہ ظلم کے خاتمے کے لئے جو کرسکتے ہو کرو ، ظلم پر خاموشی و سکوت اختیار کرکے ظالم کو سہارا نہ دو اس لئے کہ اگر ایک طرف ظلم کرنا برا ہے تو دوسری طرف ظلم ہوتے دیکھ کر کوئی اقدام نہ کرنا بھی برا ہے۔
چونکہ یزید ظالم تھا اپنے آباؤ اجداد کی روش پر چلتے ہوئے بلکہ ظلم و نا انصافی کے راستے میں ان سے قدم آگے بڑھاتے ہوئے کمزوروں کو دبانا چاہتا تھا حق کو مٹانے کے درپے تھا، ظلم کی بنیادوں کو مضبوط کرکے انسانیت کوشرمسار کررہا تھا، انسانوں کو علی الاعلان انسانی حقوق سے محروم کرنا چاہ رہا تھا۔ حتیٰ محترم رشتوں کے تقدس کو بھی تار تار کررہا تھا ایسے میں امام حسینؑ نے اس کے خلاف قیام کرکے آوازدی تمہاری انسانیت کا تقاضا ہے کہ نہ ظلم کرو نہ ظالم کو ظلم کرنے دو۔ جس حد تک ظلم کے خلاف آواز بلند کرسکتے ہو آواز بلند کرو۔ ظلم و نا انصافی کے خلاف آواز اٹھا کر اپنی حد تک کوششیں  کرکے اپنے انسان ہونے کا ثبوت دو۔
(۴) حریت و آزادی
انسان کو اللہ نے آزاد پیدا کیا ہے حتیٰ کہ اسے مخلوق کی حاکمیت سے بھی آزاد رکھتے ہوئے نظام حکومت و حاکمیت اپنے ہاتھ میں رکھا ہے کہ حاکم بنانا اس کا کام ہے تاکہ انسانی عزت و وقار باقی رہے اور انسان کسی اپنے جیسے کا محکوم نہ بنے۔
 امام حسینؑ کےقیام کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ عزت انسانی کا تقاضا حریت و آزادی ہے۔ یہ انسان کی انسانیت کے خلاف ہے کہ وہ غلامی والی زندگی گزارے اور باطل کا غلام رہے۔ شرافت انسانی کا تقاضا ہے کہ وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑا نہ جائے۔ چاہے وہ جسمانی غلامی ہو یا فکری غلامی ہو، لہٰذا امام حسینؑ نے قیام کرکے تمام آزاد پسند انسانوں کو پیغام دیا کہ اپنی انسانی عزت و شرافت کا خیال کرتےہوئے اپنے کو غلامی سے آزاد رکھو۔ حریت و آزادی تو تمہارا سرمایہ ہے کسی باطل کی غلامی سے بہتر ہے جام شہادت نوش کرلینا۔ اگر اسی حریت و آزادی کےلئے سخت سے سخت امتحان سے بھی گزرنا پڑے تو گزر جاؤ تاکہ اپنی شناخت باقی رکھ سکو۔ اگر کربلا کے حریت و آزادی کے پیغام کے اثرات کا مشاہدہ کرنا ہے تو دور حاضر میں ہمارے سامنے دو واضح اور بہت ہی روشن نمونے موجود ہیں ایک طرف ایران کااسلامی انقلاب جہاں بقول بانی انقلاب ’’ ماہرچہ داریم از محرم و صفر است‘‘ آج ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ عزاداری اور پیغام کربلا کا نتیجہ ہے اسی پیغام کربلا کو سامنے رکھ کر ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کے چنگل سے نجات حاصل کرنے کےلئے اسلامی انقلاب ایران کی شکل میں حریت و آزادی کا تحفہ پیش کیا ہے تو دوسری طرف وطن عزیز ہندوستان کی آزادی ہے جہاں بقول مہاتما گاندھی: ہم نے کربلا کو سامنے رکھ کر ہندوستان کو آزاد کرایا ہے۔ یعنی ہندوستان نے بھی اگر انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کی ہے تو یہ بھی کربلا سے درس لینے کا نتیجہ ہے۔ کربلا آج بھی ہر انسان کو آواز دے رہی ہے کہ کسی کے غلام نہ رہو۔ غلامی تمہاری انسانی شرافت کے خلاف ہے حتیٰ کہ تم کو کسی باطل کی فکری غلامی سے بھی اپنے کو نجات دلانا ہے، کلچر و ثقافت راہ و روش  طور طریقہ بھی ایسا ہی اپناؤ جو خدائی اور خدا والوں کا ہو اگر اس کو چھوڑ کر کوئی اور کلچر اور طریقہ  اختیار کرو تو یہ بھی غلامی ہے لہذا اس سے بچو۔
اور اگر زادی والی زندگی چاہتے ہو ، اگر غیر ت و شرافت والی زندگی چاہتے ہو، اگر غلامی والی زندگی سے بچنا چاہتے ہو تو کربلا کو سامنے رکھو۔ جہاں بہتر نے ہزاروں کے مقابلے گلے تو کٹادیئے لیکن اپنے کو غلامی سے آزاد رکھا۔ اور دنیا میں پیغام حریت دیکر زندہ جاوید بن گئے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں