جمعہ، 20 ستمبر، 2019

طالب علم کا مقام و مرتبہ

طالب علم کا مقام و مرتبہ
آیۃاللہ مجتہدی تہرانی
ترجمہ سید محمد حسانین باقری
احتضار کے وقت انسان سے قرآنی علوم کے علاوہ تمام علوم لے لئے جاتے ہیںلہذا اس علم کے پیچھے جائیے جو باقی رہنے والا ہے یعنی قرآن کو پڑھیے اور حفظ کیجئے اور یہ یادرکھئے کہ جنت کی لفٹ قرآن سے چلتی ہے ۔جتنا بھی پڑھیے گا اتنا ہی اوپر جائیے گا اور جہاں بھی نہیں پڑھا، لفٹ رک جائے گی اور اترنا پڑے گا ۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’حملۃ القرآن عرفاء اہل الجنۃ‘‘(کافی ج۲،ص۴۶) حاملین اور حافظین قرآن عرفاء اہل جنت ہیں۔ جب تک جوان ہیں قرآن حفظ کیجئے ، جوانی میں جو آیتیں میں نے حفظ کی تھیں ،وہ آج تک مجھے یاد ہیں، کوشش کیجئے روزانہ کچھ قرآن پڑھئے اور اس کے معنی میں غور و فکر کیجئے اور خداوند عالم سے چاہئے کہ وہ آپ کو عمل کی توفیق عطا کرے۔
امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے :’’ الا لاخیر فی قرائۃ لیس فیھا تدبر‘‘(کافی ج۱،ص۳۶)آگاہ ہوجاؤ کہ جس قرائت میں تدبر و غور وفکر نہ ہواس میں کوئی بھلائی نہیں ہے ۔خداوند عالم قرآن میں بندوں سے شکایت کرتا ہے کہ قرآنی آیات میں غور وفکر اور تدبر کیوں نہیںکرتے؟ ’’ افلا یتدبرون القرآن ‘‘(نساء؍ ۸۲) امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: ’’ آیات القرآن خزائن فکلما فتحت خزانۃ ینبغی لک ان تنظر ما فیھا ‘‘ (کافی ۲،ص۹۰۶)۔قرآنی آیات خزانہ ہیں، لہذاجب بھی خزانہ کھلے تو تمہیں دیکھنا چاہئے کہ اس میں کیا ہے ؟
مرجع تقلید آیۃ اللہ العظمیٰ سید احمد خوانساری ، زخم معدہ کی وجہ سے ہاسپٹل میں بھرتی ہوئے ، اس وقت ان کی عمر ۸۹ سال تھی، ضعیفی اور کمزوری کی وجہ سے بیہوشی کے بغیر آپریشن ممکن نہ تھا ۔ دوسری طرف وہ بیہوش کرنے کی اجازت بھی نہیں دے رہے تھے اس لئے کہ ان کی نظر تھی کہ بیہوشی کے وقت مقلدین کی تقلید میں اشکال پیدا ہو جائے گا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ رپورٹوں کے مطابق آپ کا آپریشن ضروری ہے ۔ آیت اللہ خوانساری نے کہا: کوئی بات نہیں ہے ، جب بھی چاہو آپریشن کرو لیکن اس سے پہلے مجھے بتا دو تاکہ تلاوت قرآن اور اس میں توجہ کی وجہ سے بے ہوش کرنے کی تمہاری مشکل حل ہو جائے۔ ڈاکٹر نے کہا ٹھیک ہے اور آپریشن کی تیاری کرنے کے بعد کہا ہم آپریشن کرنے کے لئے تیار ہیں۔ آیت اللہ خوانساری نے کہا : جب میں تلاوت کرناشروع کروں تو تم بھی اپنا کام شروع کر دینا۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ : جب انھوںنے سورۂ انعام کی تلاوت شروع کی تو میں نے پیٹ کا آپریشن شروع کیا ۔وہ اس طرح آرام سے لیٹے تھے جیسے مکمل بیہوشی میں یہ کام ہو رہا ہو۔ آپریشن مکمل ہونے کے بعد ان سے کہا گیا جناب! ہمارا کا م ختم ہو گیا تو انھوںنے قرآن کوبند کیا اور کہا : صدق اللہ العلی العظیم ۔
میں نے کہا : جنابعالی آپ کے درد نہیں ہوا؟ جواب دیا : قرآن میں مشغول تھا۔ آپریشن کا پتہ بھی نہیں چلا۔
 عالم دین اور طالب علم، خدا و اہلبیت ؑ کے نزدیک بہت ہی اہمیت رکھتے ہیں۔ طالب علم کو چاہئے کہ خدا کے لئے درس پڑھے ،اس کا رزق بھی پہنچ جائے گا۔ اگر کوئی کہے کہ ہمارے ائمہ  ؑ تو کام کرتے تھے مثلا ً حضرت علی ؑ کام کرتے تھے، تم کیوں نہیں کا م کرتے ؟ جواب دینا چاہئے کہ آنحضرت ؐ کا علم خدا کی جانب سے لدنی تھا، لیکن ہم کو چاہئے ک علم کسب کریں ۔اگر چوبیس گھنٹے بھی درس پڑھیں توکم ہے۔
امام جعفرصادق علیہ السلام نے طالب علم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ’’طالب العلم یستغفر لہ کل شیٔ حتی الحیتان فی البحار و الطیر فی جو السماء( بحار الانوار ج۱ ،ص۱۷۳)
طالب علم کے لئے ہر شئے استغفار کرتی ہے حتی کہ سمندروں میں مجھلیاں اور آسمانوں میں پرندے ۔
ایک طالب علم نے اپنے استاد اخلاق سے کہا : عوام ہمارا اس طرح احترام کیوں نہیں کرتی جس طرح احادیث میں آیا ہے بلکہ بسا اوقات ایسابھی ہوتا ہے کہ لوگ ہماری توہین کرتے ہیں ؟ استاد نے بات سمجھانے کے لئے اس کو ایک سونے کا سکہ دیا اور کہا جاؤ سبزی خرید لاؤ ، وہ گیا لیکن سبزی فروش نے سکہ نہیں لیا اور کہا پیسہ لاؤ تب سبزی دوں گا۔ واپس آگیا ۔استاد نے دوبارہ اس کو چاول، شکر اور روٹی وغیرہ کے لئے بھیجا لیکن ان لوگوںنے بھی سکہ نہیں لیا۔ وہ واپس استاد کے پاس آیا ۔ استاد نے کہا ۔ا ب سونا بیچنے والے کے پاس جاؤ اور یہ سکہ بیچ دو۔طالب علم گیا اور سکہ بیچ کر استاد کے واپس آیا ۔استاد نے کہا : جس طرح اس سکہ کی قدر و قیمت کو جوہر ی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اورکسی نے تم سے معاملہ نہیں کیا اسی طرح سمجھ لو کہ تمہاری قدر وقیمت کو بھی خداو ائمہؑ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔
ایک دن میںآیت اللہ العظمیٰ بروجردی ؒکے پاس تھا ۔وزراء اور قوم کے رؤسا ان کے پاس آئے لیکن وہ ان کے لئے کھڑے نہیں ہوئے صرف یا اللہ کہا، اسی درمیان ایک طالبعلم داخل ہوا۔ آقائے بروجردی ؒ اس کے لئے پورے قدسے کھڑے ہو گئے تاکہ علم اور طلاب کی اہمیت کو بتائیں۔اسی طرح کا قضیہ آیت اللہ کاشانی کے یہاں بھی پیش آیا ۔ جب پارلیمنٹ کے ممبران اور رؤسا انکے پاس آئے وہ ان کے سامنے کھڑے نہیں ہوئے ، اور صرف فرمایا: آؤ یہاں بیٹھو،جب وہ لوگ بیٹھ گئے ، تو اچانک ایک طالب علم داخل ہوا۔ آقائے کاشانی انتہائی زحمت کے ساتھ پورے قد سے اس کے لئے کھڑے ہو گئے۔ وہ طالب علم متحیر رہ گیا لیکن میں سمجھ گیا وہ اس کام سے ان لوگوں کو طالب علم اور علماء کی اہمیت بتانا چاہتے ہیں۔ غرض یہ ہے کہ آپ بھی بعض لوگوںکی باتوں سے ناراض نہ ہوں بلکہ یہ یاد رکھیں کہ اگرہم اچھے ہوں تو عوام بھی ہمارے ساتھ حسن سلوک رکھیں گے ۔ ہم کو شکر کرنا چاہئے کہ ہم ایسے لباس اور ایسے راستے میں ہیں جس سے گناہگار شرم کرتے ہیں۔

سجدے

سجدے
علامہ سید ذیشان حیدر جوادی
تعظیم اور تحقیر دو زندہ حقیقتیں ہیں جن سے دنیا کی کوئی قوم خالی نہیں ہے۔ قوموں کی نگاہ میں کچھ لوگ قابل تعظیم ہوتے ہیں اور کچھ لوگ قابل تحقیر قابل تعظیم افراد کی تعظیم کی جاتی ہے اور قابل تحقیر افراد کی تحقیرو تذلیل۔
طریقے الگ الگ ہوتے ہیں۔ انداز جداگانہ ہوسکتے ہیں لیکن یہ ممکن نہیں کہ کسی قوم میں ہر شخص قابل تعظیم ہوجائے یا ہر کردار کا انسان قابل تحقیر و تذلیل ہوجائے۔ قابل تعظیم کی تعظیم کرنا بھی فریضہ ہے اور قابل تحقیر کی تحقیر کرنا بھی انسانی ذمہ داری ہے۔
 ایک قوم کا قابل تعظیم دوسری قوم کا قابل تحقیر بھی ہوسکتا ہے اور ایک قوم کا انداز تحقیر دوسری قوم کا طریقۂ تعظیم بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن تعظیم و تحقیر کا سلسلہ روز اول سے قائم ہے تو آخر کائنات تک قائم رہے گا۔ جنت میںبھی جانے والے تعظیم کےساتھ ہی لے جائے جائیں گے اور جہنم میں بھی پھینکے جانے والے ذلت کے ساتھ ہی پھینکے جائیں گے۔ قرآن مجید نے مختلف اعمال کی جزائیں جنت کے ساتھ عظمت کا ذکر کیا ہے اور مختلف اعمال کی سزائیں جہنم کے ساتھ ذلت کا تذکرہ کیا ہے ۔ دعا نہ کرنےوالوں کے بارےمیں اعلان ہوتا ہے کہ ’’ جو لوگ ہماری عبادت سے استکبار و غرور رکھتے ہیں انہیں جہنم میں ذلت کے ساتھ داخل کیا جائے گا۔ تاکہ انہیں اندازہ ہوسکے کہ تکبر و غرور کا انجام کیسا ہوتا ہےا ور دنیا کا استکبار کس انجام تک پہنچاسکتا ہے۔
اسلام میں تحقیر و تذلیل کے متعدد ذرائع ہیں جن کا ذکر احکام کے ذیل میں کیا جاتا ہے یعنی قطع تعلق سے لیکر لعنت ابدی تک سب بدکردار افراد کی حیثیت واقعی کے اظہار کے ذرائع ہیں۔ اور اس طرح تعظیم کے بھی مختلف انداز ہیں۔ طالب علم کے لئے قیام کرنا ایک انداز تعظیم ہے بھرے مجمع میںعالم دین کو الگ سے سلام کرنا ایک انداز تعظیم ہے۔ نبیؐ اور امامؑ کی مکمل اطاعت کرنا اور ان کے اشاروں پر زندگی گزارنا ایک طریقہ تعظیم ہے اور ان سب سے عظیم ترتعظیم کا ذریعہ سجدہ ہے ۔ سجدہ کی طرح رکوع میں بھی انداز تعظیم ہے اور اسی لئے بندہ رکوع میں جانے کے بعد خدا کے عظیم ہونے کا اعلان کرتا ہے کہ وہ عظیم نہ ہوتا تو یہ تعظیم نہ ہوتی اس لئے کہ بے جہت اور بلا سبب تعظیم کرنا کار عقلاء نہیں ہے۔ تعظیم کے لئے عظمت کا ہونا ضروری ہے۔ بغیر عظمت کے تعظیم، ناشناسی ، خوشامد ، فریب اور حماقت ہوسکتی ہے تعظیم نہیںہوسکتی اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے غیر خدا کے لئے سجدہ حرام کردیا ہے کہ سجدہ انتہائے عظمت کی نشانی ہے اور انتہائی عظمت کا مالک پروردگار کے علاوہ کوئی نہیں ہوسکتا۔ اس کے علاوہ جس کے پاس بھی عظمت و رفعت و بلندی ہے وہ اسی کے کرم کا نتیجہ ہے کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہے۔ صرف اس کی عظمت ہے جو اس کی ذات کا تقاضا ہے اس کے علاوہ سب اس کی رحمت کے زیر اثر ہیں اور یہی سبب ہے کہ غیر خدا کو جب بھی سجدہ ہوا ہے تو حکم خدا سے ہوا ہے۔ حکم خدا کے بغیر سجدہ خلاف قانون ہے ۔ سجدہ ٔآدمؑ کے بارے میں بھی قرآن مجید نے یہی بیان کیا ہے کہ انکار ابلیس کے بعد پروردگار نے یہی سوال کیا تھاکہ میرے حکم کے بعد تونے سجدہ کیوں نہیں کیا۔ یعنی سجدہ آدمؑ کا نہیں ہے کہ ان کے مادہ تخلیق پر نگاہ کی جائے۔ سجدہ میرے حکم کا ہے اور اس میں کسی چوں و چرا کی گنجائش نہیں ہے اور اسی لئے معصومین نے اس نکتہ کی طرف اشارہ کردیا ہے کہ سجدۂ آدمؑ حکم پر وردگار کا سجدہ تھا۔ آدمؑ کی عظمت کے لئے یہی کافی تھا کہ انہیں اس سجدہ کا قبلہ بنادیا گیا تھا ورنہ غیر خدا کے لئے سجدہ کی گنجائش نہیں ہے جناب یوسف کے سامنے برادران یوسف کا سجدہ بھی بقول روایات سجدہ ٔشکر تھا کہ اللہ نے یوسف کو اس مرتبہ تک پہنچادیا ہے ورنہ کسی اور سجدہ کی گنجائش نہیں ہے۔ ( عروۃ الوثقیٰ)
اور شاید یہی وجہ ہےکہ کائنات کی عظیم ترین شخصیت جس کے بارےمیں مرسل اعظمؐ نے اعلان کیا ہے کہ ’’ انا من الحسینؑ‘‘ اور جس کی عظمت کے سامنے دنیا کی ہر قوم جبین نیاز خم کرتی ہے۔ اس کی بارگاہ میں بھی حاضری کے بعد جو نماز زیارت پڑھی جاتی ہے ، اس کے بعد دعا کا اہم ترین فقرہ ہے کہ ’’ پروردگار یہ نماز یہ سجدہ ، یہ رکوع سب تیرے لئے ہے اس لئے کہ تیرے علاوہ کسی کے لئے نماز یا رکوع یا سجدہ جائز نہیں ہے تو وہ وحدہ لا شریک ہے اور یہ اندازہ تعظیم صرف تیرے لئے ہے۔ اب یہ نماز ہدیہ ہے حسینؑ بن علی علیہ السلام  کے لئے۔ لہٰذا یہ میرا ہدیہ ان کی بارگاہ تک پہنچا دے اور مجھے اس کا اجر عنایت فرما۔
 ظاہر ہے کہ جب ذات امام حسینؑ ان عظمتوں کے بعد سجدہ کا مرکز نہ قرار پائی جس نے اپنے ایک سجدہ سے کل کائنات کو سجدہ کی طرف کھینچ لیا تھا تو دوسرا کون سجدہ کا حقدار ہوسکتا ہے۔ علماء اعلام نے اسی نکتہ کے پیش نظر فرمایا ہے کہ ائمہ معصومین ؑ کے روضوں میں چوکھٹ پر جو سجدہ کیا جائے اسے سجدۂ شکر پروردگار ہونا چاہئے کہ اس نے اس بارگاہ میں حاضری کے قابل بنایا ہے اور یہاں تک پہنچا دیا ہے سجدہ صاحب قبر کا نہیں ہونا چاہئے کہ اس سے خود صاحب قبر نے منع فرمایا ہے اور بعض علماء کرام نے تو مقام زیارت میں بھی بقدر رکوع جھکنے پر بھی پابندی عائد کردی ہے کہ سجدہ کی طرح رکوع بھی عظمت پروردگار کی نشانی ہے اور بندوں کے لئے نہیں ہے جیسا کہ زیارت امام حسینؑ ہی کے ذیل میں نماز کے بارےمیں نقل کیا گیا ہے۔ دنیا کا فرشی سلام اور زمین بوس احترام ریاستوں کی پیداوار ہے اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ جب معصومینؑ نے اپنی بارگاہ میں یہ اعلان کردیا کہ رکوع اور سجدہ صرف خدائے وحدہ لا شریک کے لئے ہے تو نواب ، رئیس ، تعلقدار ، شیخ ، سلطان اور صدر جمہوریہ کی کیا حقیقت ہے اور وہ ان کے مقابلہ میں کس عظمت و حیثیت کے مالک ہیں۔
سجدہ کی ان عظمتوں کے بعد اسلام میں سجدوں کے اقسام پر بھی روشنی ڈال دی جائے تاکہ صاحبان ایمان مقام عمل میں مسائل شریعت کی طرف متوجہ رہیں اور کوئی سجدہ غلط نہ ہونے پائے:
سجدۂ نماز
یہ سجدہ ہر رکعت میںد و مرتبہ ہوتا ہے اور دونوں کا مجموعہ ایک رکن کی حیثیت رکھتا ہے اگر بھولے سے بھی دو کے چار ہوجائیں یا ایک سجدہ بھی نہ ہوسکے تو نماز باطل ہوجاتی ہے ایک یا تین پر نماز باطل نہیںہوتی بلکہ سجدہ سہو کرنا ہوتا ہے اس لئے کہ سجدہ آدھا رکن ہے اور آدھے رکن کی کمی یا زیادتی غفلت کی صورت میں نماز کو باطل نہیں کرسکتی قصداً ادنیٰ غلطی بھی نماز کو باطل کرسکتی ہے۔
سجدہ میں ساتوں اعضا کا زمین پر ٹکنا ضروری ہے ، پیشانی ، دونوں گھٹنے ، دونوں ہتھیلیاں ، اور دونوں پیر کے انگوٹھے  بعض حضرات سجدہ میں جاکر پیروں کے انگوٹھے اٹھالیتے ہیں۔ ان کا سجدہ باطل ہے۔ سجدہ میں ناک کا رکھنا مستحبات میں ہے واجبات میں نہیں ہے۔
 سجدہ کے لئے قابل سجدہ شے کا ہونا ضروری ہے اور وہ پہلی منزل میں زمین، پتھر، ریت ، سمینٹ، کچی پکی اینٹ ، اور لکڑی ، پتہ درخت کی چھال ، گھاس، ( بشرطیکہ یہ چیزیں کھانے اور پہننے میں استعمال نہ ہوتی ہوں)اور کاغذ ہے چاہے وہ سادہ ہو یا لکھا ہوا۔ سفید ہو یا رنگین ( بشرطیکہ رنگ رنگ ہو پینٹ نہ ہو)۔
اس کے بعد یہ چیزیں فراہم نہ ہوں اور وقت نماز بھی تنگ ہو تو اپنےد امن یا آستین پر سجدہ کرے اور اعضاء سجدہ کا زمین پر رکھنے کا بھی خیال رکھے ورنہ وقت میں گنجائش ہے تو نماز شروع نہ کرے یا شروع کرچکا ہے تو نماز کو توڑ کر مذکورہ بالا اشیاء کو تلا ش کرکے پھر سے نماز شروع کرے۔ دامن و آستین کی بھی گنجائش نہ ہو اور وقت نماز جارہا ہو تو بفتویٰ آیت اللہ الخوئی ؒاختیار ہے کہ چاہے پشت دست پر سجدہ کرے یا کسی بھی ناقابل سجدہ شے پر سجدہ کرلے وہ معدنیات ہوں یا فرش وغیرہ اور آیت اللہ الخمینیؒ کے فتوے کے مطابق پشت دست  پر سجدہ کرے اور یہ بھی ممکن نہ ہو تو معدنیات پر سجدہ کرے فرش وغیرہ کا ذکر نہیں ہے۔
 سجدۂ سہو
یہ سجدہ بھولے سے نمازمیں کلام کرنے یا بے موقع بھول کر واجب سلام پڑھ لینے یا تشہد کے بھول جانے یا ایک سجدہ کے بھول جانے یا قیام کی جگہ قعود اور قعود کی جگہ قیام کرلینے سے واجب ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ کسی زیادتی یا کمی کے لئے سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا بلکہ آیت اللہ الخمینیؒ کے یہاں تو قیام و قعود بے جا میں بھی سجدہ واجب نہیں ہے  اور خود آیت اللہ الخوئیؒ کے یہاں بھی بطور احتیاط ہی واجب ہے ’’ السلام علیک ایھا البنی ‘‘ کی زیادتی سے سجدہ واجب نہیں ہوتا ( سجدہ اور تشہد کے بھولنے میں سجدہ کے علاوہ ان کی قضا بھی واجب ہوتی ہے)۔
اس  سجدہ کا طریقہ یہ ہے کہ نماز تمام کرنے کے فوراً بعد دو سجدہ سہو کی نیت کرکے سجدہ میں جائے اور کہے : بسم اللہ وباللہ السلام علیکم ایھاالنبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ اور پھر سر اٹھا کر دوبارہ ایسا ہی سجدہ کرے اور پھر سر اٹھا کر باقاعدہ مکمل تشہد پڑھ کر ایک سلام السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ پڑھ کر سلام کو تمام کردے۔
اس سجدہ میں ساتوں اعضاء سجدہ کا زمین پر ہونا اور سجدہ کا قابل سجدہ چیز پر ہونا واقعاً واجب ہے اور با وضو ہونا رو بقبلہ ہونا احتیاطاً واجب ہے۔ ذکر کا بھی مذکورہ بالا مخصوص الفاظ میں ہونا احتیاطاً ضروری ہے۔
لیکن آیت اللہ الخمینیؒ کی نظر میں نہ طہارت ضروری ہے نہ روبقبلہ ہونا نہ کوئی خاص ذکر صرف سجدہ کرنا ضروری ہے اور اس فتویٰ کی طرف احتیاط میں رجوع ممکن ہے۔
نوٹ: اگر کوئی شخص سجدہ سہو بھول جائے تو جب بھی یاد آجائے سجدہ کرلے ، نماز پر کوئی اثر نہ پڑے گا۔
سجدۂ تلاوت:
قرآن مجید کے چار سوروں کی چار آیتوں پر سجدۂ تلاوت واجب ہے۔ سورہ والنجم کی آخری آیت سورہ اقرا کی آخری آیت ، سور الم تنزیل میں لا لیتکبرون پر اور سورہ حم فصلت میں تعبدون پر۔
یہ سجدہ آیت پڑھنے والے پر بھی واجب ہے اور بغور سننے والے پر بھی ۔ اتفاقیہ سننے والے پر واجب نہیں ہے لکھنے والے یا سوچنے والے پر بھی وا جب نہیں ہے ۔ سننے میں واجب ہونے کےلئے پڑھنے کا قصد تلاوت کرنا ضروری ہے ورنہ ٹیپ ریکارڈر سے یا نادان بچے کی تلاوت سننے سے سجدہ واجب نہیں ہوتا ۔ ریڈیو سے آیت سنی جارہی ہے تو وہاں بھی سجدہ واجب ہوگا لیکن اگر ریڈیو سےٹیپ بجایاجارہا ہے تو سجدہ واجب نہ ہوگا۔
اس سجدہ میں ساتوں اعضاء پر سجدہ کرنا اور پیشانی کا قابل سجدہ چیز پر ہونا احتیاط واجب ہے اس کے علاوہ طہارت، وضو، غسل، استقبال قبلہ وغیرہ ضروری نہیں ہے اورکوئی ذکر خاص یا تکبیر یا تشہد یا سلام بھی ضروری نہیں ہے ۔ آیت اللہ الخمینی کے یہاں ساتوں اعضاء پر سجدہ کرنا اور پیشانی کے قابل سجدہ شے پر ہونا بھی ضروری ہے صرف کھانے پہننے کی چیز پر سجدہ نہیں ہونا چاہئے ۔ ( یہ فتویٰ بھی احتیاط کے مقابلہ میں قابل عمل ہے )
سجدہ ٔ شکر
کسی بھی نعمت کے ملنے ، مصیبت کے دفع ہونے توفیق خیر کے حاصل ہونے پر سجدہ شکر مستحب ہے ۔ مولائے کائنات ؑنے شب ہجرت سلامتی پیغمبرؐ کی خبر سنکر سجدۂ شکر خدا کیا ہے جبکہ اپنی زندگی ہر طرف سے خطرہ میں پڑی ہوئی تھی اور دشمن مکمل طور پر گھر کا محاصرہ کئے ہوئے تھے یہ تاریخ اسلام کا پہلا سجدہؐ شکر تھا۔
اس سجدہ میں صرف پیشانی کا رکھ دینا ہی کافی ہےچاہے کسی چیز پر ہو اگر چہ احتیاط مستحب یہی ہے کہ ساتوں اعضاء پر سجدہ ہو اور پیشانی بھی قابل سجدہ چیز پر ہو اور آیت اللہ الخمینیؒ کے یہاں یہ بھی واجب ہے کہ کھانے پہننےوالی چیز پر سجدہ نہ ہو۔
اس سجدہ میں کوئی خاص ذکر ضروری نہیں ہے صرف شکراً کہہ دینا بھی کافی ہے۔ اگر چہ بہتر یہی ہے کہ ایک کے بجائے دو سجدے کرے اور دونوں کے درمیان رخسار خاک پر رکھے اور کہنیاں زمین پر فرش کردے اور سینہ و شکم کو زمین سے متصل کردے۔ اور سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد سجدہ گاہ کو ہاتھ سے مس کرکے ہاتھ کو چہرہ اور بدن کے سامنے کے تمام حصوں پر پھیرلے کہ یہ باعث برکت و ثواب ہے۔
 زمین پر سجدۂ شکر کرنا ممکن نہ ہو تو اشاروں سے سجدہ کرلے اور اپنے رخساروں کو اپنی ہتھیلی پر رکھ لے اور سواری پر ہو تو زمین پر سجدہ کرے اور رخسار کو ہتھیلی پر رکھ لے۔ اس روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ سجدہ ٔشکر میں بعض حالات میں پیشانی کی بھی قید نہیں ہے صرف رخسار سے بھی ادا ہوجاتا ہے لیکن حتیٰ الامکان انسان پر نعمت حاصل ہونے کے بعد سجدہ شکر کو فراموش نہیں کرنا چاہئے اور ہر حال میں شکر پروردگار کرنا چاہئے،۔
سجدۂ تعظیم
سجدہ ایک بہترین عبادت، بہترین عمل اور بہترین بندگی ہے۔ یہی تعظیم پروردگار کا بہترین ذریعہ ہے اور اس سجدہ کے لئے نماز، سہو ، تلاوت اور شکر کی شرط نہیں ہے۔ انسان جس وقت بھی سجدہ کرلے گا عبادت گزاروں میں شمار ہوجائے گا۔ سجدوں میں بھی طولانی سجدوں کا شرف اور زیادہ ہے جیسا کہ روایات میں ہے کہ جناب آدمؑ نے ایک سجدہ میں تین شب و روز گزار دیئے، امام سجادؑ نے ایک ناہموار پتھرپر پیشانی رکھ کر ہزار مرتبہ دعائے سجدہ پڑھی ہے امام جعفر صادق علیہ السلام اتنا طولانی سجدہ کرتے تھے کہ دیکھنے والے کو احساس ہوتا تھا کہ شاید آرام فرما رہے ہیں۔ امام موسیٰ ابن جعفر روزانہ طلوع آفتا ب سے زوال تک سجدہ میں مصروف رہتے تھے مولائے کائناتؑ نے اتنے طویل سجدے کئے ہیںکہ دیکھنے والے کو شبہہ ہوگیا کہ شاید دنیا سے انتقال فرماگئے  ہیں اور امام حسین علیہ السلام نے تو خاک گرم کربلا پر ایسا سجدہ کیا کہ جس کی انتہا ہیمعین نہ ہوسکی کہ آپ نے خود سجدہ سے سر نہیں اٹھایا۔ اٹھا تو ظالم کے ہاتھوں سرکٹ کر اٹھا اور پھر نوک نیزہ پر نظر آیا جس کے بعد کائنات میں زلزلہ آگیا۔ آفتاب کو گہن لگ گیا سیاہ آندھیاں چلنے لگیں اور فضائے کربلا میں ایک آواز گونجی:الا قتل الحسین بکربلا الا ذبح الحسین بکربلا۔ظظظ
( پندرہ روزہ تنظیم المکاتب ۵ـ؍اکتوبر ۱۹۸۳ء؁)

توحید از نظر امام جعفر صادق علیہ السلام

توحید ان نظر امام جعفر صادق علیہ السلام
آیۃاللہ العظمیٰ شیخ وحید خراسانی
ترجمہ سید محمد حسنین باقری
تکوینی اسمائے حسنیٰ کی ایک فرد امام جعفر صادق علیہ السلام ہیںجن کے دنیا میں تشریف لانے سے پہلے ہی پیغمبر اکرم ﷺ نے ’’صادق‘‘ نام رکھا۔ یہ نام بہت ہی عمیق معنی رکھتا ہے۔ ’’یا ایھا الذین آمنوا اتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین‘‘۔ ’اے صاحبان ایمان! تقویٰ اختیار کرو اور صادقین کے ساتھ ہوجاؤ‘۔یہ وہ ذات گرامی ہے جس کا نام اس کائناتِ ہستی کی پہلی ذات نے رکھا ہے اور آج جس کے نام سے مذہب پہچانا جاتا ہے یعنی مذہب جعفری۔
اس مذہب جعفری کی عظمت و اہمیت کا اندازہ تو اس وقت ہوگا جب تمام اسلامی مذاہب کو سامنے رکھا جائے اور آپس میں مقائسہ کیا جائے۔
مالکی مذہب کے امام مالک ابن انس وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں مذہب شافعیہ کے امام شافعی کی تعبیر یہ ہے کہ تمام علماء کے درمیان مالک بن انس ستارہ ہیں۔
عامہ کے امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک کے سامنے طفل مکتب کی طرح بیٹھتے تھے۔ حنبلی مذہب کے امام احمد بن حنبل نے عبداللہ بن نافع سے اور انھوں نے امام مالک بن انس سے نقل کیا ہے کہ مالک بن انس نے کہا: ’’اللہ فی السماء و علمہ فی کل مکان‘‘۔’یعنی خدا آسمان میں ہے اور خدا کا علم ہر جگہ ہے‘۔(مسائل أحمد من روايۃ أبی داود 263"، "السنۃ لعبد الله بن أحمد (1/280) "والشريعۃ للآجری 289"، "وشرح أصول اعتقاد أھل السنۃ للالکائی 673"وابن عبد البر فی"التمہيد"(7/138))
یہ جملہ احمد بن حنبل سے نقل ہوا ہے اور انھوں نے دو واسطوں سے اس جملہ کو مالک بن انس سے نقل کیا ہے اور مالک بن انس امام شافعی کے نزدیک تمام علمائے اہل سنت کے درمیان ستارہ ہیں اور امام ابو حنیفہ ان کے نزدیک طفل مکتب ہیں۔ ان امام مالک کا خدا کے بارے میں عقیدہ یہ ہے (گویا یہی عقیدہ ائمہ اربعہ اور تمام اہل سنت کا ہوا)
 اس جملہ کی تحلیل ضروری ہے:’’خداآسمان میں ہے‘‘۔ یعنی خدا اور آسمان کے درمیان ظرف اور مظروف کی نسبت ہوئی۔ ہر ظرف محیط (احاطہ کرنے والا و گھیرنے والا) ہے اور اور ہر مظروف مُحاط (جس کا احاطہ ہو) ہے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ آسمان محیط ہے اور خدا محاط ہے، آسمان ظرف ہے اور خدا مظروف۔
اگر خدا آسمان میں ہے تو کسی مکان و جگہ میں ہونے والے کا لازمہ جسمیت ہے لہذا خدا کا جسم ہونا لازم ہوا۔ اگر جسم ہو تو مرکب ہوگا۔ اس لئے ہر جسم یا مادہ و صورت سے مرکب ہوتاہے یا اجزاءسے مرکب ہوتا ہے۔ بہر صورت جسم ہونا مساوی ہے مرکب ہونے کے۔ اور مرکب، اجزاء کا محتاج ہوتا ہے۔
مرکَّب (ترکیب پانے والے) اجزاء محتاج ہیں مرکِّب(ترکیب دینے والے) کے۔ لہذا امام مالک کا خدا دو جہت سے محتاج ہوا۔ یعنی مذاہب اربعہ کا خدا اجزاء کا محتاج ہوگیا نیزا جزاء کے جوڑنے والے کا محتاج ہوگیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ خالق بدل گیا مخلوق میں یعنی خالق مخلوق ہوگیا، واجب ممکن میں تبدیل ہوگیا۔
ہر مظروف محصور ہے ظرف میں اس میں کوئی شک نہیں۔ اگر خدا آسمان میں ہے تو لامحالہ آسمان میں محصور ہے۔اور جب محصور ہوا تو محدود ہوگیا۔ اور ہر محدود محتاج ہے اور ہر محدود متناہی ہےگویا اس طرح بھی خالق بدل گیا مخلوق میں، واجب ہوگیا ممکن۔
دوسرا جملہ ہے: علمہ فی کل مکان۔ خدا خود تو آسمان میں ہے لیکن اس کا علم ہر جگہ ہے۔
اس جملہ کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خدا کا علم اس کی ذات سے الگ ہے اگر خدا کا علم اس کا عین ہے تو خدا ہر جگہ ہے نہ کہ آسمان میں ۔ اگر خدا کا علم اس کا غیر ہے تو ذات علم سے جدا ہوگی۔ لہذا اس کی ذات کے مرتبہ میں علم نہیں ہے۔ جب مرتبۂ ذات میں عالم نہیں ہے تو جاہل ہوا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عامہ کے ائمہ کے امام کا خدا جہل و نادانی والا ہے۔
علم خدا جدا ہے خدا سے۔ ائمہ اربعہ اور دیگر علمائے اہل سنت جواب دیں کہ اگر خدا کا علم خدا کے علاوہ ہے تو اس کا علم یا قدیم ہے یا حادث۔ یہ سب نفی و اثبات کے درمیان ہے۔ تیسرا فرض قابل تصور نہیں ہے۔ اور اگر قدیم ہو تو دو خدا لازم آئیں گے: ایک ذات اور ایک علم۔ اور یہ شرک ہے۔
اگر حادث ہے تو نتیجہ ہوگا کہ علم خدا قدیم نہیں ہے۔ لہذا ماننا پڑے گا کہ خدا تھا لیکن علم نہیں تھا بعد میں علم پیدا ہوا۔ اب یہ علم کہاں سے پیدا ہوا؟ کیا خدا نے خود اپنا علم پیدا کیا؟ خود اپنے علم کو وجود دیا؟ جبکہ قانون ہے کہ’ فاقدِ شیٔ معطی شیٔ نہیں ہوتی‘(جس کے پاس علم نہ ہو وہ علم کو کیسے پیدا کرے گا)جب خود خدا اپنے علم کو وجود میں نہیں لاسکتا تو کیا غیر خدا علم خدا کو وجود میں لایا ہے؟ جس کا لازمہ یہ ہوگا کہ علم خدا، غیر خدا کا پیدا کیا ہوا ہے۔
اب آئیے ملاحظہ کیجئے کہ پیغمبر اکرم ﷺ کے چھٹے جانشین برحق، مذہب جعفری کے رئیس حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام خداوند عالم کے سلسلے میں فرماتے ہیں:
سبحان من لا یعلم کیف ھو الا ھو۔ منزہ ہے وہ خدا کہ وہ کیسا ہے یہ کوئی بھی نہیں جانتا سوائے خدا کے۔
وہاں عامہ کا عقیدہ تھا کہ خدا آسمان میں ہے۔ اگر خدا آسمان میں ہے تو سورج بھی آسمان میں ہے۔ گویا سورج مثل خدا ہے اور خدا مثل سورج ہے۔ جبکہ ’لیس کمثلہ شیٔ‘۔ کوئی بھی خدا کے مثل نہیں ہے۔خدا کے مثل ہونا عقل کے بھی خلاف ہے اور وحی کے بھی خلاف ہے۔
اور امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:’’لیس کمثلہ شیٔ و ھو السمیع البصیر۔ لا یحدّ و لا یحس و لایمس و لاتدرکہ الحواس و لایحیط بہ شیٔ۔ انّ اللہ تبارک و تعالیٰ و لایشبہ شیئا و لایشبھہ شیٔ۔ و کل ماوقع فی الوھم فھو بخلافہ۔ لم یزل اللہ عزّ و جلّ۔ والعلم ذاتہ ولامعلوم۔(اصول کافی)
کوئی بھی خدا کے مثل نہیں ہے وہی سمیع و بصیر ہے۔ وہ محدود نہیں ہوسکتا، محسوس نہیں کیا جاسکتا، چھوا نہیں جاسکتا، حواس اس کو درک نہیں کرسکتے، کوئی بھی چیز اس کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ اس کا کوئی بھی مشابہ نہیں ہے اور نہ وہ کسی کے بھی مشابہ ہے۔اور جو بھی وہم و گمان میں سمائے وہ مخلوق ہوا خدا نہیں ہوسکتا۔ خدا ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہےگا۔ علم اس کا عین ذات ہے۔
جو کچھ بیان ہوا یہ چاروں مذاہب کا نچوڑ تھا اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے جو بیان ہوا وہ معارف الہیہ کے لامحدود سمندر کا ایک قطرہ تھا۔ یہاں سے سمجھیں کہ مذہب جعفری کیا ہے؟ دنیا بیدار ہو۔ اگر امام جعفر صادق علیہ السلام نہ ہوتے، اگر مذہب جعفری نہ ہوتا تو توحید کا نام و نشان نہ ہوتا، تسبیح و تہلیل و تحمید و تکبیر نہ ہوتی، ایک بہت بڑا احسان اہل بیت ؑ کا یہ بھی ہے کہ انھوں نے صحیح توحید کو دنیا میں پیش کیا۔ظظظ

منگل، 3 ستمبر، 2019

کربلا انسانیت کوپیغام دیتی ہے (1)

کربلا انسانیت کو پیغام دیتی ہے
سید محمد حسین باقری
 لکھنؤ ،
انسان کو بیدار تو ہولینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ
( جوشؔ)
نواسۂ نبی حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظیم الشان قربانی یقیناً انتہائی عظیم مقصد کےلئے تھی جہاں ایک طرف قربانی کا مقصد بقائے لا الہ تھا، عظمت توحید کی حفاظت تھی ، دین الٰہی پر آنچ نہ آنے دینا تھا ، پیغمبر عظیم الشان صلعم کی زحمتوں کو بچانا تھا، کلمہ شہادتین کی لاج رکھنا تھی ، ولایت خدا اور ولی خدا سے لوگوں کو روشناس کرانا تھا، امت مسلمہ کی اصلاح تھی، فریضۂ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ادائیگی تھی، نبیؐ و جانشین نبی کی صحیح و حقیقی سیرت کو عملی طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا، وہیں در حقیقت انسانیت کو بچانا اور انسانی اقدار کی پاسبانی تھی، امام حسینؑ نے اتنی بڑی قربانی کسی معمولی چیز کےلئے نہیں دی بلکہ انسانی اقدار کو بچایا ہے انسانی اصولوں کی حفاظت کی ہے کربلا میں قربانی دے کر بتایا ہے انسانیت کسے کہتے ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہے کہ یزید اور اس کا گروہ صرف حسینؑ ابن علیؑ ہی کا دشمن نہیں تھا بلکہ وہ انسانیت کا دشمن تھا انسانی اصولوں اور انسانی اقدار کو پامال کرنا چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ تنہا کربلا وہ جگہ ہے، تنہا یاد حسینؑ و تذکرہ حسینؑ ایسی یاد و تذکرہ ہے کہ جسے ہر انسان مناتا ہے۔ دنیا میں تنہا کربلا و نام حسینؑ وہ چیز ہے جہاں کسی بھی طرح کی کوئی تفریق نہیں ہے بلکہ ہر انسان چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب و ملت اور فرقہ سے ہو، ذکر حسینؑ کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ (جہاں انسانیت ہی نہ ہو وہ تو  مخالفت کرےگا ہی )
کیا یہ قابل غور نہیں ہے کہ چودہ سو سال گزرنے کے بعد تمام مخالفتوں کے باوجود آج سب سے زیادہ تذکرہ کربلا کا ہوتا ہے ۔ سب سے زیادہ  نام امام حسینؑ کا لیاجاتا ہے۔ دنیا کا کوئی خطہ کوئی علاقہ اس ذکر و یاد سے خالی نہیں ہے۔ دنیا کے ہر مذہب و مسلک سے تعلق رکھنے والا انسان نام حسینؑ لیتا ہے ۔ حسینؑ ابن علیؑ کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ دنیا کا ہر انسان واقعہ کربلا کے بارےمیں غور کرے۔ حسینؑ ابن علیؑ کی قربانی کو نگاہوں میں رکھے اور اس قربانی سے انسانیت کا درس حاصل کرے اس کربلا سے انسانی اقدار کو پہچانے اس عزاداری سے حق کی معرفت حاصل کرے۔
کربلا نے بہت سے پیغامات دیئے ہیں جن کی فہرست طویل ہے صرف بعض کو اجمالاً پیش کیا جارہا ہے :
 (۱) اپنے اندر علم و شعور و آگہی پیدا کرنا :
انسانیت کی پہچان علم و شعور ہے اس نعمت سے محروم انسان بظاہر تو انسان ہوتا ہے لیکن انسانی کمالات اس کے اندر نہیں آیا کرتے وہ خود اپنے فائدے و نقصان کو بھی پہچاننے کی صلاحیت نہیں رکھتا جو بھی چاہتا ہے اسے اپنے مقصد کے لئے استعمال کرلیتا ہے۔ علم و شعور تو اسلام کے آفاقی پیغام کی بنیاد ہے اسلام نے حق کی طرف دعوت دینے میں مجبور نہیں کیا بلکہ عقل و فکر و شعور کو بیدار کرنا چاہا ہے۔ جب تک انسان کے اندر عقل و فکر اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو وہ اسلام کو نہیں سمجھ سکتا۔ اس لئے اسلام زور دیتا ہے کہ علم حاصل کرو جہالت کی تاریکیوں سے باہر نکلو اور علم کی روشنی میں اس عقل کو بروئے کار لاکر حقائق کو درک کرو۔ جہالت صرف فرد کی موت نہیں ہے بلکہ سماج و معاشرہ کی موت کا سبب بن جاتی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ کربلا کے اس پیغام کو سامنے رکھا جائے کہ عقل و شعور و فکر نہ ہونے کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ فرزند رسولؐ کے قتل کے درپے ہوئے اور جہالت کے نتیجے میں یزید جیسے فاسق و فاجر اور دشمن  خدا و رسول کے ہاتھوں استعمال ہوگئے۔ لشکر یزید کی جہالت و لاعلمی اور عدم شعور ہی کا نتیجہ تھا کہ بظاہر تو آل نبیؐ کا گھراجڑ گیا۔ فرزند نبی کو قتل کردیا لیکن ان کے ہاتھ نہ دنیا آئی اور نہ آخرت خسر الدنیا والآخرۃ کا مکمل نمونہ بن کر سامنے آئے۔ کربلا آج بھی تمام انسانوں کو پیغام دیتی ہے اپنے کو علم کی دولت سے مالا مال کرو اپنی عقل و فکر کو بروئے کار لاؤ اپنے شعور کو پختہ کرو تاکہ اولاً تم خود اپنے کو پہچان سکو اور حق و باطل میں تمیز دے سکو، ساتھ ہی ساتھ دوسرے کو موقع نہ دو کہ تم کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرسکے ۔ کم از کم تمہارے اندر اتنی صلاحیت ہو کہ تم پہچان سکو سامنے والا تم کو کدھر لے جانا چاہتا ہے تم سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تمہارے ذریعہ اپنے کس مفاد کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ دنیاوی مفاد کےلئے تم کو دوزخ کا ایندھن بنارہا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ انسانیت کا گلا گھوٹنے کے لئے تمہارا سہارا لے رہا ہے۔ کمزوروں کو دبانے لوگوں پرظلم کرنے کے لئے تم کو سپر بنایا ہے۔
لہٰذا آؤ کربلا سے یہ پیغام لو کہ اپنے اور سماج کے درمیان سے جہالت و لاعلمی کی لعنت کو ختم کرو علم کی شمع روشن کرو اور علم و آگہی کی روشنی میں اپنی عقل و فکر اور شعور کو پختہ کرو تاکہ تم بھی محفوظ رہو اور تمہارا سماج بھی محفوظ رہے اور باطل طاقتیں اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
(۲) عزت و سربلندی کے ساتھ زندگی گزارنا:
 انسانی کمالات میں سے ایک  کمال عزت نفس ہے، عزت و سربلندی انسانیت کی پہچان ہے کربلا میں سید الشہداء کا ایک اہم پیغام تھا ’’ ھیھات منا الذلۃ‘‘ ہم ہر گز ہرگز ذلت کو گوارا نہیں کرسکتے۔ اگر تم انسان ہو ، اپنے کو اشرف المخلوقات کہتے ہو تو اپنی عزت نفس کا پاس و لحاظ کرو۔ اپنی عزت کا سودا نہ کرو۔ خدا نے تم کو عزیز بنایا ہے لہٰذا ہر قدم پر اس عزت کی حفاظت کرو۔ چاہے گلا کٹ جائے بچے قربان ہوجائیں بھرا گھر اجڑ جائے۔ خواتین اسیر و قیدی بنالی جائیں لیکن عزت نفس اور عزت انسانی پر آنچ نہ آنے دو۔ کسی ظالم کے آگے گھٹنے ٹیکنا ذلت کو گوارا کرنا ہے، فاسق و فاجر کی منشاء و خوشنودی کا خیال کرنا عزت نفس کا سودا کرنا ہے، باطل سے مرعوب ہوجانا اپنے کو نہ پہچاننا ہے ، شرک و الحاد سے راضی رہنا ذلت گوارا کرنا ہے، دنیاوی مفاد کے لئے باطل کی خوشنودی حاصل کرنا اپنے کو ذلیل کرنا ہے، ظلم و نا انصافی ، فسق و فجور، قتل و غارت گری، فتنہ و فساد ، بے دینی و بے حیائی کو دیکھ کر خاموشی اختیار کرنا عزت انسانی کا سودا کرنا ہے۔ چند روزہ زندگی کے لئے باطل آقاؤں کی جی حضور ی کرنا عزت نفس کو پامال کرنا ہے، خدا کو چھوڑ کر باطل سے کسی طرح کی امید وابستہ کرنا ذلت کے آگے سرجھکانا ہے، جھوٹی شہرت کےلئے دینی اصولوں کو پامال کردینا عزت کا گلا گھونٹنا ہے۔
عزت نفس اور سر بلندی کے ساتھ زندگی گزارنے کا مطلب ہےکہ صرف خدا کی طاقت پر بھروسہ کرو، کسی باطل طاقت سے نہ ڈرو، کسی ظالم و جابر سے مرعوب نہ ہو، اپنی قلت پر کسی طرح کا خوف نہ ہو، عزت نفس اور سر بلندی کے لئے ہوسکتا ہے قربانی دینا پڑے ہر طرح کی قربانی کے لئے تیار رہو۔ ہوسکتا ہے جان و مال سے گزرنا پڑے اپنی عزت و سربلندی کے لئے اپنی جان و مال سے گزرجاؤ، کربلا کا نمونہ سامنے ہے حسینؑ گلا کٹوا کر آج بھی عزیز ہیں اور یزید ظلم کرکے بھی ذلیل و رسوا ہے۔ کربلا کا یہ درس انتہائی اہم ہے کہ کسی بھی قدم پر کسی بھی مرحلے میں اپنی عزت نفس کو فراموش نہ کرو۔ ھیھات منا الذلہ کو عملی جامہ پہناؤ ، باطل کے آگے کسی بھی حالت میں سر نہ جھکاؤ چاہے سر کٹا نا ہی کیوں نہ پڑے۔
(۳) ظلم و نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنا:
 فطرت انسانی والے دین اسلام کا پیغام ہے نہ ظلم کرو نہ ظلم سہو، دین اسلام کی اساس و بنیاد عدل و انصاف پر ہے اس دین میں ظلم کا تصور ہی نہیں ہے قیام حسینؑ کا کربلا میں مقصد نیز منتقم خون حسینؑ امام مہدی عج کے قیام  کا مقصد ظلم و ستم کا خاتمہ اور عدل و  انصاف و امن و امان کا قیام ہے۔ اسلام چاہتا ہی ہے کہ امن و امان اور عدل وانصاف قائم رہے ظلم و ستم کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے۔ حسین  ابن علی علیہما السلام نے اپنے قیام کے ذریعہ پیغام دیا کہ اگر ظلم آشکار ہورہا ہو، ظالم ، انسانیت کا خون چوس رہا ہو، لوگوں کے حقوق پامال ہورہے ہوں، کمزوروں کو دبایاجارہا ہو، زمام حکومت ایسے ہاتھوں میں ہو جہاں انسانیت پامال ہورہی ہو، اقتدار ان لوگوں کے ہاتھوں میں آجائے جو انسانیت کی خو بو بھی نہ رکھتے ہوں، کسی بھی انسان کی جان و مال ، عزت و آبرو محفوظ نہ ہو تو ایسی صورت میں ہرحق پسند انسان کا فریضہ ہے کہ ظلم کے خلاف اقدام کرے، ایسے مواقع پر خاموش رہ جانا اور کوئی بھی اقدام نہ کرنا ظالم کے ظلم میں شرکت کے مترادف ہے۔ لہٰذا حسین ابن علی علیہ السلام نے قیام کربلا کے ذریعہ یہ پیغام بھی دیا کہ ظلم کے خاتمے کے لئے جو کرسکتے ہو کرو ، ظلم پر خاموشی و سکوت اختیار کرکے ظالم کو سہارا نہ دو اس لئے کہ اگر ایک طرف ظلم کرنا برا ہے تو دوسری طرف ظلم ہوتے دیکھ کر کوئی اقدام نہ کرنا بھی برا ہے۔
چونکہ یزید ظالم تھا اپنے آباؤ اجداد کی روش پر چلتے ہوئے بلکہ ظلم و نا انصافی کے راستے میں ان سے قدم آگے بڑھاتے ہوئے کمزوروں کو دبانا چاہتا تھا حق کو مٹانے کے درپے تھا، ظلم کی بنیادوں کو مضبوط کرکے انسانیت کوشرمسار کررہا تھا، انسانوں کو علی الاعلان انسانی حقوق سے محروم کرنا چاہ رہا تھا۔ حتیٰ محترم رشتوں کے تقدس کو بھی تار تار کررہا تھا ایسے میں امام حسینؑ نے اس کے خلاف قیام کرکے آوازدی تمہاری انسانیت کا تقاضا ہے کہ نہ ظلم کرو نہ ظالم کو ظلم کرنے دو۔ جس حد تک ظلم کے خلاف آواز بلند کرسکتے ہو آواز بلند کرو۔ ظلم و نا انصافی کے خلاف آواز اٹھا کر اپنی حد تک کوششیں  کرکے اپنے انسان ہونے کا ثبوت دو۔
(۴) حریت و آزادی
انسان کو اللہ نے آزاد پیدا کیا ہے حتیٰ کہ اسے مخلوق کی حاکمیت سے بھی آزاد رکھتے ہوئے نظام حکومت و حاکمیت اپنے ہاتھ میں رکھا ہے کہ حاکم بنانا اس کا کام ہے تاکہ انسانی عزت و وقار باقی رہے اور انسان کسی اپنے جیسے کا محکوم نہ بنے۔
 امام حسینؑ کےقیام کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ عزت انسانی کا تقاضا حریت و آزادی ہے۔ یہ انسان کی انسانیت کے خلاف ہے کہ وہ غلامی والی زندگی گزارے اور باطل کا غلام رہے۔ شرافت انسانی کا تقاضا ہے کہ وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑا نہ جائے۔ چاہے وہ جسمانی غلامی ہو یا فکری غلامی ہو، لہٰذا امام حسینؑ نے قیام کرکے تمام آزاد پسند انسانوں کو پیغام دیا کہ اپنی انسانی عزت و شرافت کا خیال کرتےہوئے اپنے کو غلامی سے آزاد رکھو۔ حریت و آزادی تو تمہارا سرمایہ ہے کسی باطل کی غلامی سے بہتر ہے جام شہادت نوش کرلینا۔ اگر اسی حریت و آزادی کےلئے سخت سے سخت امتحان سے بھی گزرنا پڑے تو گزر جاؤ تاکہ اپنی شناخت باقی رکھ سکو۔ اگر کربلا کے حریت و آزادی کے پیغام کے اثرات کا مشاہدہ کرنا ہے تو دور حاضر میں ہمارے سامنے دو واضح اور بہت ہی روشن نمونے موجود ہیں ایک طرف ایران کااسلامی انقلاب جہاں بقول بانی انقلاب ’’ ماہرچہ داریم از محرم و صفر است‘‘ آج ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ عزاداری اور پیغام کربلا کا نتیجہ ہے اسی پیغام کربلا کو سامنے رکھ کر ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کے چنگل سے نجات حاصل کرنے کےلئے اسلامی انقلاب ایران کی شکل میں حریت و آزادی کا تحفہ پیش کیا ہے تو دوسری طرف وطن عزیز ہندوستان کی آزادی ہے جہاں بقول مہاتما گاندھی: ہم نے کربلا کو سامنے رکھ کر ہندوستان کو آزاد کرایا ہے۔ یعنی ہندوستان نے بھی اگر انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کی ہے تو یہ بھی کربلا سے درس لینے کا نتیجہ ہے۔ کربلا آج بھی ہر انسان کو آواز دے رہی ہے کہ کسی کے غلام نہ رہو۔ غلامی تمہاری انسانی شرافت کے خلاف ہے حتیٰ کہ تم کو کسی باطل کی فکری غلامی سے بھی اپنے کو نجات دلانا ہے، کلچر و ثقافت راہ و روش  طور طریقہ بھی ایسا ہی اپناؤ جو خدائی اور خدا والوں کا ہو اگر اس کو چھوڑ کر کوئی اور کلچر اور طریقہ  اختیار کرو تو یہ بھی غلامی ہے لہذا اس سے بچو۔
اور اگر زادی والی زندگی چاہتے ہو ، اگر غیر ت و شرافت والی زندگی چاہتے ہو، اگر غلامی والی زندگی سے بچنا چاہتے ہو تو کربلا کو سامنے رکھو۔ جہاں بہتر نے ہزاروں کے مقابلے گلے تو کٹادیئے لیکن اپنے کو غلامی سے آزاد رکھا۔ اور دنیا میں پیغام حریت دیکر زندہ جاوید بن گئے۔

جمعہ، 23 اگست، 2019

ولایت امام محمد باقر علیہ السلام کی نظر میں

ولایت امام محمد باقر علیہ السلام کی نظر میں
سید محمد حسنین باقری
۱۸؍ ذی الحجہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا دن ہے اسی دن پیغمبر اکرم ﷺ نے حکم خداوندی پر عمل کرتے ہوئے اپنے بعد کے لیے امام علی علیہ السلام کی ولایت و جانشینی کا اعلان فرمایاتھا۔ دین اسلام میں اصل ولایت کی اہمیت و عظمت تو اتنی زیادہ ہے کہ قرآن اور اہل بیت علیہم السلام کی روایات میں توحید کے بعد سب سے اہم اسلامی بنیاد ’’ولایت‘‘ کو بتایا گیا ہے اور جیسا کہ قرآن کریم میں اس سلسلے میں بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا میں تمام انسانوں کی زندگی دو ولایتوں کے محور پر گردش کرتی ہے۔ یا خدا کی ولایت ( اللہ ولی اللہ آمنوا) یا شیطان اور طاغوت کی ولایت ( والذین کفرو اولیائھم الطاغوت) اور تمام انسان ان دو ولایتوں سے باہر نہیں ہوسکتے۔ 
کوئی بھی انسان بالخصوص اپنی معاشرتی زندگی میں اصل ولایت ، یا حکومت یا کسی قانون کو قبول کئے بغیر اپنی اجتماعی زندگی کو آگے نہیں بڑھا سکتا۔ لہٰذا اسلامی معارف میںجس چیز کی اہمیت ہے وہ ولایت خدا کا تسلیم کرنا ہے چاہے تکوینی نظام میں ہو یا تشریعی نظام میں ۔ تاکہ ولایت خدا کے سایہ میں ہر شیطان اور طاغوت کی ولایت سے رہائی حاصل کی جائے ۔ اور ان اولیاء کی ولایت کو قبول کیا جائے جو خدا کے اذن سے اس کی حجت اور اس کی جانب سے ولی ہیں۔ انھیں اولیاء میں امیرالمومنینؑ کی ذات گرامی ہے جنکی ولایت درحقیقت خدا ہی کی ولایت ہے۔جو ہمیں ہر شیطان و طاغوت کی ولایت سے محفوظ رکھ کر خدا کی ولایت تک پہنچاتی ہے۔
 صدر اسلام ہی سے پیغمبرؐ اور ائمہ معصومینؑ کی طرف سے ولایت کے سلسلہ میں بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے اور غدیر کا واقعہ اس اساس و بنیاد پر تاکید کا واضح اور بہت بڑا نمونہ ہے۔ 
اسی ماہ ولایت و امامت کی ۷؍تاریخ کو ولیٔ خدا ، امام برحق حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے بھی شہادت پائی ، ان دونوں ،مناسبتوں کے پیش نظر ذیل کی تحریر پیش کی جارہی ہے:
امام پنجم امام محمد باقرعلیہ السلام نے بھی متعدد مواقع پر اس اہم مسئلہ کو بیان فرمایا اور اس سلسلے میں تاکید فرمائی ہے۔ جن میں سے بعض نمونے نذر قارئین ہیں :
۱: ولایت ، دین کی اساس و بنیاد ہے :
امام باقر ؑ فرماتے ہیں : ’’اسلام پانچ ستونوں پر قائم ہے :اقامۂ نماز، ادائیگیٔ زکات، ماہ رمضان کا روزہ، حج خانۂ خد اور اہم اہلبیتؑ کی ولایت 
 دوسری جگہ فرماتے ہیں: ’’ولایت جیسی کوئی چیز اہم اور مورد توجہ نہیں ہے‘‘۔ (امالی شیخ صدوقؒ، ص۳۵۳) 
۲: ولایت ، معاشرہ کے اتحاد کا محور:
جیسا کہ بعض لوگ خیال کرتے ہیں اس کے برخلاف آج ولایت کی بحث کرنا معاشرہ میں اختلاف و تفرقہ کا سبب نہیں بلکہ سماج میں اتحاد و بھائی چارگی کا انتہائی اہم محور ہے۔ یہی ولایت ایک مرکز پر جمع کرتی ہے۔ اس کی مخالفت اور اس سے دوری ہی کے نتیجے میں اختلافات وجود میں آئے اور امت مسلمہ فرقوں میں تقسیم ہوگئی۔ اس سلسلے میں حضرتؑ فرماتے ہیں :
’’ خداوند علام جانتا تھا عنقریب پیغمبرؐ کے بعد لوگ متفرق اور آپس میں اختلاف کا شکار ہوں گے۔ لہٰذا جس طرح پہلے والوں کو اختلاف سے روکا اسی طرح ان کو بھی اختلاف و تفرقہ سے منع کیا اور انہیں حکم دیا کہ ولایت آل محمدؑ کی بنیاد پر مجتمع ہوں اور متفرق نہ ہوں‘‘۔ ( بحار الانوار جلد ۶۵ ص۲۲۳)
اور یہ وہی یاددہانی ہے جسے صدیقہ طاہرہؑ نے بیان فرمایا:’’ ہماری امامت اختلاف و جھگڑے سے بچنے کا سبب ہے‘‘۔(خطبہ فدک) 
۳: ولایت ، خداوندعالم کی عظیم ترین نعمت ہے:
قرآن کا اعلان ہے :’’ اس قیامت کے دن نعمتوں کے بارےمیں سوال ہوگا‘‘ ( سورہ تکاثر آیت ۸)
امام نے فرمایا: ’’اس نعمت سے مراد ولایت علیؑ کی نعمت ہے‘‘(جس کے بارے میں سوال ہوگا) ۔ ( بحار الانوار جلد ۲۴، ص۵۴)
سورہ لقمان کی آیت ۲۰ میںبیان ہوا: ’’خداوند عالم نے اپنی ظاہری و باطنی نعمتیں تم پر کامل کردیں‘‘۔
 امامؑ نے فرمایا : ’’نعمت ظاہری سے مراد پیغمبر اکرمؐ اور آپ نے معرفت و توحید کے متعلق جو کچھ بیان فرمایا ہے وہ ہے اور باطنی نعمت سے مراد ہم اہل بیتؑ کی ولایت اور ہمارےساتھ مودت کا وعدہ کرنا ہے‘‘۔ ( المناقب جلد ۴ ص۱۸۰)
سورہ نحل آیت ۸۳ میں ارشاد ہے: ’’خدا کی نعمتوں کو پہچانتے ہیں پھر اس کا انکار کرتے ہیں‘‘۔
 امامؑ نے فرمایا : ’’یعنی ولایت علیؑ کو جانتے ہیں اور یہ بات بھی جانتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے ولایت کا حکم دیا ہے لیکن رسول اکرمؐ کی وفات کے بعد اس ولایت کے منکر ہوگئے۔ ( بحار ، ۳۵/۴۲۴)
۴: ولایت نور الٰہی ہے :خداوند عالم کا سورہ بقرہ ، آیت ۲۵۷ میں اعلان ہے:’’ جو لوگ کافر ہوگئے ان کے ولی طاغوت ہیں ،جو انکو نور سے تاریکی و ظلمت کی طرف نکال کر لے جاتے ہیں‘‘۔ امامؑ نے اس کے سلسلے میںفرمایا :’’ جو کافر ہوئے علی ابن ابی طالبؑ کی ولایت کے سلسلے میں جن کے ولی طاغوت ہیںا س سے مراد علیؑ اور ان کے پیرکاروں کے دشمن ہیں۔ جو لوگوں کو نور الٰہی کی فضا سے خارج کرتے ہیں ۔ اور ولایت علی ابن ابی طالبؑ کا نور ہے جو لوگوں کے دشمنوں کو ظلمت کی طرف یعنی دشمنان اہل بیت کی ولایت کی طرف لے جاتے ہیں‘‘۔ 
 اسی طرح سورہ توبہ آیت ۳۲ میں اعلان ہے : ’’وہ لوگ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ سے نور خدا کو بجھادیں لیکن خدا اپنے نور کو تمام و کامل کرے گا‘‘۔ 
یہاں پر مراد ’’ولایت اہل بیتؑ کا نور ہے‘‘۔ (بحار الانوار جلد ۳۵ ، ص۳۹۶)
۵:صراط مستقیم اور سبیل اللہ ( راہ خدا) سے مراد ولایت ہے :
قرآن کریم نے سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۹ میں بیان کیا ہے :’’بیشک یہ قرآن سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے‘‘۔
 حضرتؑ نے فرمایا : سیدھے راستے سے مراد اہل بیتؑ کی ولایت ہے‘‘۔ ( بحار الانوار جلد ۶۷، صفحہ۳۳۹)
اسی سورہ کی آیت ۴۸ میں اعلان ہے : ’’کفار گمراہ ہوئے۔ وہ راہ الٰہی ( سبیل خدا) تک رسائی کی طاقت نہیں رکھتے‘‘۔
 امام پنجمؑنے اس آیت کی شرح میں فرمایا : ’’وہ لوگ جو گمراہ ہوئے اور ولایت علیؑ سے خارج ہوگئے وہی لوگ راہ خدا تک رسائی کی طاقت نہیں رکھتے اور علی ہی سبیل اللہ ہیں‘‘۔ ( بحار الانوار جلد ۳۵ ص۳۶۳)
اسی طرح سورہ انعام کی آیت ۱۵۳ ،’ و صراطی مستقیما‘ کے سلسلے میں امامؑ نے برید عجلی سے پوچھا: کیا اس آیت ’’ میرا راستہ مستقیم ہے ‘‘ کے معنی جانتے ہو؟ برید نے کہا نہیں؟ حضرتؑ نے فرمایا : اس سے مراد علیؑ اور ان کے معصوم فرزندوں کی ولایت ہے۔ پھر سوال کیا: کیا تم آیت کے اس حصہ کو ’’ دوسرے کے راستے کی پیروی نہ کرو‘‘ اس کا مطلب جانتے ہو؟ برید نے کہا : نہیں۔ حضرت نے فرمایا : اس سے مراد علیؑ کے دشمنوں کی ولایت ہے جس سے روکا گیا ہے۔ اس کے بعد سوال کیا کہ آیت کے اس ٹکڑے ’’ کہیں ایسا نہ ہو کہ راہ خدا سے جدا ہو جاؤ‘‘ اس کا مطلب جانتے ہو؟ جواب دیا نہیں تو حضرت نے فرمایا : اس سے مراد علیؑ کا راستہ اور ان کی ولایت ہے۔ ( بحار الانوار جلد ۶۴ ص۳۱)
۶: ولایت ، امانت الٰہی ہے :
امام محمد باقر علیہ السلام نے سورہ نساء کی آیت ۵۸: ’’ خداوند عالم نے تم کو حکم دیا ہے کہ امانت کو اس کے اہل کو پلٹاؤ‘‘ اس آیت کی تفسیر میں فرمایا : اس آیت میں امانت سے مراد امر ولایت ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اہل کو پلٹایا جائے۔ ( بحار ۲۳/۲۸۳)
اسی طرح سورہ احزاب آیت ۷۲ُ: ’’ ہم نے امانت کو زمین و آسمان پر پیش کیا ‘‘۔
 اس آیت کے بارےمیں فرمایا : یہ امانت جسے آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا گیا لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا ، وہی ولایت ہے۔ ( بحار الانوار جلد ۶۴، ص۴۲)
اس طرح کی روایات بیان کررہی ہیں کہ اس ولایت سے مراد ولایت تکوینی و تشریعی دونوں ہیں۔ 
 ۷: بعض قرآنی تعبیرات میں نیکیاں، حسنات، خیرات اور حیات طیبہ سے مراد ولایت ہے
امامؑ نے سورہ بقرہ ، آیت ۱۴۸، ’’فاستبقوا الخیرات ‘‘ ’’نیک کاموں میں ایک دوسرے پر سبقت کرو‘‘۔ اس آیت کی تفسیر میں فرمایا: ’’خیرات یعنی نیک کام جس میں سبقت کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد ولایت ہے‘‘ ( بحار الانوار جلد ۸۱ ص ۴۳)
سورہ شوری آیت ۲۳:’’ جو بھی نیکی و حسنہ انجام دے ہم اس کی نیکیوں میں اضافہ کریں گے‘‘۔ امام باقرؑ نے اس کی وضاحت میں فرمایا : ’’حسنہ و نیکی ، امیر المومنین کی ولایت و محبت ہے اور سیئہ و برائی آنحضرت سے دشمنی و کینہ ہے اور اس سیئہ کے ساتھ کوئی بھی عمل قابل قبول نہیں ہے‘‘۔ ( بحار الانوار جلد ۳۶ ص ۱۰۲)
سورہ انفال آیت ۲۴: ’’اے ایمان والو! خدا و رسول کی آواز پر لبیک کہو جب وہ تمہیں پکاریں تاکہ وہ تم کو زندگی و حیات عطا کریں‘‘۔ امامؑ نے اس آیت کے ضمن میں فرمایا : ’’ جس زندگی کی طرف دعوت دی گئی ہے وہ علیؑ و اولاد علیؑ کی ولایت ہے‘‘۔ ( بحار الانوار ۳۶/۱۳۳)
۸: شیعہ وہ ہیں جو گزشتہ عوالم میں ولایت تکوینی و تشریعی پر کیے ہوئےعہد و پیمان پر قائم ہیں: امام محمد باقر علیہ السلام نے عوالم گزشتہ، آغاز خلقت، انبیاء و اولیاء اور بہت سے انسانوں کی جانب سے اہل بیتؑ کی ولایت تکوینی و تشریعی قبول کرنےمیں عہد و پیمان کے سلسلے میں وضاحت کرتے ہوئے تفصیلی طور پر گفتگو فرماتی ہے اختصار کے مد نظر اس کی وضاحت نہیں کی جاسکتی اصل روایت علل الشرائع جلد ۲ ص ۶۰۶ پر بیان ہوئی ہے۔ 
دوسری جگہ امامؑ فرماتے ہیں : ’’شیعیان علیؑ ہماری ولایت کے سلسلے میں بذل و بخشش کرتے ہیں اور ہماری مودت کی راہ میں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور ہمارے امر ولایت کو زندہ رکھنے کے لئے ایک ووسرے سے ملتےہیں۔ اور اس ولایت کے تسلیم کرنے کے آثار میں سے یہ ہے کہ جب غصہ و غضبناک ہوتے ہیں تو ستم نہیں کرتے۔ جب راضی و خوشنود ہوتے ہیں تو اسراف و زیادہ روی نہیں کرتے۔ اپنے پڑوسیوں کے لئے باعث خیر و برکت اور ساتھیوں کے لئے سکون و آرام کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ ( تحف العقول ص۴۱۰)
۹: ولایت کا قبول نہ کرنا ہلاکت و بد بختی کا سبب ہے :
سورہ بقرہ آیت ۱۹۵ :’’اپنے ہاتھوں اپنے کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘ کے سلسلے میں امام ؑ نے فرمایا : اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری ولایت سے روگرانی نہ کرو اس سے انحراف اختیار نہ کرو ورنہ دنیا و آخرت میں ہلاک ہوجاؤ گے( بحار ۳۹ /۲۶۳)
دوسری جگہ فرماتے ہیں : اگر کوئی پوری عمر کعبہ میں رکن و قیام کےد رمیان عبادت کرتے ہوئے مرجائے اور میرے اہل بیتؑ کی ولایت نہ رکھتا تو خداوند عالم اس کو منہ کے بل دوزخ میں ڈالے گا۔ ( تاویل الآیات ص ۳۰۹)
امام باقرؑنے اپنے آباؤ اجداد اور انہوں نے رسول اکرمؐ سے نقل کیا ہے کہ فرمایا : ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ جب آل ابراہیم و آل عمران کا تذکرہ ہوتا ہے تو خوش ہوتے ہیں لیکن جب آل محمدؑ کی بات آتی ہے تو ان کے دل میں درد شروع ہوجاتا ہے اور ان کو برا لگتا ہے۔ اس خدا کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمدؐ کی جان ہے اگر ان میں سے ہر آدمی ستر انبیاء کے برابر عمل لیکر بھی قیامت میں آئے تو خدا ان سے قبول نہیں فرمائے گا جب تک کہ وہ میری اور علیؑ کی ولایت کے عہد کے وفادار نہ ہوں۔ (تاویل الآیات ص ۱۱۲)
البتہ یہ نکتہ نگاہوں میں رہے کہ چونکہ اہل بیتؑ کی ولایت خدا کے اذن و حکم سے اور اس کی ولایت کے تحت ہے لہٰذا ان کی ولایت کو قبول نہ کرنے کا مطلب خدا کی ولایت سے خارج ہوکر شیطان و طاغوت کی ولایت میں داخل ہونا ہے۔ اسی وجہ سے خداوند عالم اس طرح کے افراد کے سلسلے میں اور ان کے اعمال و عبادات کے سلسلے میں کوئی اجر عطا فرماتا ہے۔ 
۱۰: ولایت قبول کرنےکی شرط کیا ہے :
اب تک کی گفتگو سے کسی حد تک ولایت کی اہمیت و عظمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہےاور یہ معلوم کیا جاسکتا ہےکہ یہ ولایت کتنی فضیلت کی حامل اور کتنے عظیم آثار و برکات رکھتی ہے ۔ لہذا اس ولایت کا تسلیم و قبول کرنا اور اس ولایت کا پابند ہوجانا بھی یقیناًعظمت و اہمیت کا حامل ہے۔ جن لوگوں کے پاس ولایت علیؑ ہے جو ولایت علیؑ کے ذریعہ ولایتِ خدا تک پہنچے ہیں یقیناً ان کی عظمت و فضیلت کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ بات بھی مسلّم ہے کہ ولایتِ علیؑ کے حاملین کے لیے اگر ولایت باعث فخر و ناز ہے تو بجا ہے لیکن اس ولایت کا حامل ہونا ان کے لیے باعث عجب و غرور بھی نہ ہونے پائے۔ یہ ولایتِ علیؑ ان کو خدا سے نزدیک کرنے کا سبب ہو، ولایت علوی ان کو خدائی بنائے، خدا کا مطیع و فرمانبردار بندہ ہونے کا ذریعہ ہو، ولایت علیؑ سبب ہو کہ گناہ و معصیت سے دوری ہوجائے، ولایت علیؑ سبب ہو کہ بے دینی سے نفرت ہوکر دینداری و مذہب سے لگاؤ و رجحان میں روز بروز اضافہ ہو۔ولایت علیؑ کا مطلب ہی خدائی رنگ میں رنگنا ہے۔ اگر یہ ولایت ہمارے پاس ہو تو صرف زبان ہی سے نہ کہنا پڑے کہ ہم ولایت علیؑ کے پیروکار ہیں بلکہ ہمارا کردار و عمل بھی گواہی کہ ہمارے پاس علیؑ کی ولایت ہے ، ہماری زبان ہی پر نام علیؑ علیؑ نہ ہو بلکہ ہمارا وجود علیؑ علیؑ کررہا ہو، ولایت تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف ہم ہی نہ کہیں کہ ہمارے پاس ولایت علیؑ ہے بلکہ ہمارا مولا کہے کہ یہ ہمارا مولائی ہے ۔ 
جیسا کہ امام محمد باقرؑ نے اپنے بعض شیعوں کو مخاطب قرار دیتےہوئے فرمایا:
معصیت میں عذر تراشی نہ کرو اور باطل باتوں کی پیروی نہ کرو کہ ہم تو شیعہ ہیں اور یہی بات ہماری نجات کےلئے کافی ہے ۔ خدا کی قسم ہمارا شیعہ تو وہی ہے جو خدا کی اطاعت کرے۔ (اصول کافی،ج۲،ص۷۳، کتاب ایمان و کفر، باب الطاعۃ و التقوی، حدیث ۱) 
آپ نے اپنے ایک صحابی جابر اپنی یزید جعفی کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:ہمارے شیعوں کو بتادو کہ ہم خدا سے بے نیاز نہیں بناتے ( یعنی ہم پر بھروسہ کرکےعمل کو ترک نہ کردینا) اور ہمارےشیعوں کو یہ خبر بھی دے دو کہ خدا کے پاس جو چیزیں ہیں وہ بغیر عمل نہیں مل سکتیں اور ( یہ بھی) ہمارے شیعوں سے کہہ دو کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ حسرت و افسوس اس کو ہوگا جو عدل کی توصیف کرے اور اس کی ( عملاً) مخالفت کرے اور یہ بھی خبر دے دو کہ اگر انہوں نے حکم خدا پر عمل کیا تو قیامت کے دن وہی کامیاب ہوں گے۔ (امالی ،ص۳۸۰، جزء ۱۳)
اے جابر! جو لوگ اپنے کو شیعہ کہتے ہیںکیا صرف ہماری محبت کا قائل ہونا ان کے لئے کافی ہے؟ خدا کی قسم ہمارا شیعہ صرف وہی ہے جو تقوائے الٰہی رکھتا ہو اور خدا کی اطاعت کرتا ہو۔ ( یہاں تک کہ فرمایا: ) لہٰذا خدا سے ڈرو اور جو خدا کے پاس ہے اس کے لئے عمل کرو خدا اور کسی کے درمیان کوئی رشتہ داری نہیں خدا کے نزدیک سب سے محبوب اور سب سے محترم وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی اور سب سے زیادہ اس کی اطاعت کرنےوالا ہو۔ 
اے جابر! خدا کی قسم خدا سے تقرب صرف اطاعت کے ذریعہ ہوسکتا ہے۔ ہمارےپاس (گنہ گاروں و معصیت کاروں کے لیے )آتش جہنم سے برأت کا پروانہ نہیں ہےاور نہ کسی کے پاس خدا کے خلاف کوئی حجت ہے جو خدا کا مطیع ہے وہ ہمارا دوست ہے۔ جو خدا کا نافرمان ہے وہ ہمارا دشمن ہے اور ہماری ولایت کا حصول صرف عمل و تقویٰ ہی سے ہوسکتا ہے۔ 
(اصول کافی،ج۲،ص۷۴، کتاب ایمان و کفر، باب الطاعۃ و التقوی، حدیث ۳) 
اے جابر! باطل آرا اور فاسد مذاہب تم کو دھوکہ نہ دیں کہ تم یہ گمان کرلو کہ صرف حضرت علیؑ کی محبت کافی ہے۔ کیا اگر کوئی شخص کہے میں علیؑ سے محبت کرتا ہوں اور دارائے ولایت علیؑ ہوں لیکن فعال نہ ہو اور کثرت سے عمل نہ کرتا ہو تو کیا یہ اس کے لیے کافی ہوسکتا ہے؟ اگر کوئی کہے میں رسولخداﷺ کو دوست رکھتا ہوں ۔ لیکن رسولﷺ کی سیرت پر عمل نہ کرے ان کی سنت کی پیروی نہ کرے تو کیا آنحضرتﷺ کی محبت سے اس کو کچھ نفع پہنچے گا؟!۔ (اصول کافی،ج۲،ص۷۴، کتاب ایمان و کفر، باب ایمان و کفر، باب الطاعۃ والتقویٰ، حدیث۳)
خداوند عالم سے دعا ہے اولیاء برحق اور پہلی مدافع حق کے صدقے میں ہم سب کو حقیقی ولایت کو سمجھنے، اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عنایت فرمائے تاکہ ہمارا شمارا واقعی موالیان امیرالمومنینؑ میں ہوسکے اور ہم اپنے مولا کی نگاہ میں ان کے مولائی قرار پاسکیں۔

بدھ، 14 اگست، 2019

عید سعید غدیر کی اہمیت اور اعمال و آداب

عید سعید غدیر کی اہمیت اور اعمال و آداب

سید محمد حسنین باقری
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 
 اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَنَا مِنَ الْمُتَمَسِّکِیْنَ بِوِلَایَۃِ اَمِیْرِ المُؤْمِنِیْنَ وَ الاَئِمَّۃِ عَلَیْھِمُ السَّلام
(اس خدا کی حمد ہے جس نے ہم کو امیر المومنین علیہ السلام اور ائمہ علیہم السلام کی ولایت سے تمسک کرنے والوں میں قرار دیا)
’عید غدیر‘، اللہ کی عظیم ترین عید ہے،آل محمد ؑ کے لئے عظیم ترین عیدوں میں اور عید ولایت ہے،خدا وند عالم نے ہر پیغمبر کے لئے اس دن کو عید قرار دیا اور محترم بنایا ہے،اس کا نام آسمان میں روز ’’عید موعود‘‘ اور زمین میں روز ’’میثاق ماخوذ‘‘ اور ’’جمع مشہود‘‘ قرار پایا۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام کو وصیت کی کہ غدیر کے دن کو عید سمجھیں اور ہر پیغمبر نے اپنے وصی کو وصیت کی کہ اس دن کو عید قرار دیں۔ یہ بے حد مبارک دن اور شیعوں کے اعمال قبول ہونے کا دن ہے اور ان کے غموں کے دور ہونے کا دن ہے۔
اس دن یعنی ۱۸؍ ذی الحجہ ۱۰ ہجری کو پیغمبر اکرمؐ نے اپنے آخری حج سے واپسی میں آیهٔ بلّغ( يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّـهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ﴿سورہ مائدہ آیت:۶۷﴾اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے ) نازل هونے پر حكم خدا كی بجاآوری كرتے هوئے ’’مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَھَذَا عَلِیٌّ مَوْلَاہُ‘‘  کے ذریعہ اپنے بعد كے لئے حضرت علی علیه السلام كو اپنا جانشین و خلیفه بلا فصل معین فرمایا۔ جس کے بعد آیۂ اكمال (۔۔۔اَلْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۔سورہ مائدہ، آیت۳۔ ۔۔۔آج کے دن کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں لہذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو -آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے۔۔۔) نے نازل هوکر غدیر کے دن دین کے مکمل اور جاودانی ہونے اور کفار و منافقین کی مایوسی کا اعلان کیا۔
امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا:جہاں کہیں بھی رہو کوشش کرو کہ روز غدیر حضرت علیؑ کی قبر مطہر کے پاس حاضر ہو ،خداوند عالم اس دن ہر مومن اور مومنہ کے ساٹھ سال کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے اور اس دن آتش جہنم سے اُس کے دوگنا لوگوں کو آزاد کرتا ہے جتنے ماہ رمضان اور شب قدر اور شب عید فطر میں آزاد کرتا ہے اور اس دن برادر مومن کو ایک درہم دینا ہزار درہم دینے کے برابر ہے اور اس دن برادران ایمانی کے ساتھ احسان کرو اور مومنین اور مومنات کوخوش کروبخدا اگر لوگوں کو اس دن کی فضیلت معلوم ہوجائے تو اس روز دس مرتبہ ملائکہ ان سے مصافحہ کریں گے۔
اس دن جناب موسیٰ ؑ نے جادوگروں پر غلبہ حاصل کیا، خدا نے جناب ابراہیم ؑ کے لئے آتش نمرود کو گلزار کیا، حضرت موسیؑ نے یوشع بن نون کو اپنا وصی بنایا، حضرت عیسیؑ نے شمعون الصّفا کو اپنا وصی بنایا،حضرت سلیمانؑ نے اپنی رعایا کو آصف بن برخیا کے خلیفہ ہونے پر گواہ بنایا ، رسول خداؐ نے اصحاب کے درمیان رشتۂ اخوت قائم کیا۔
اس دن کے بعض اعمال و آداب:روزہ رکھنا(یہ روزہ دنیا کی عمر کے روزہ کے برابر ،سو مقبول حج اور سو مقبول عمرہ کے برابر اور ساٹھ سال کے گناہوں کا کفارہ ہے )،غسل کرنا، زیارت امیرالمومنین ؑ پڑھنا،نماز عید پڑھنا،غسل کرنا،دعائے ندبہ پڑھنا۔
اس دن کثرت سے عبادت کرنا، محمد و آل محمد ؑ کو یاد کرنا چاہیے اور ان پر بہت زیادہ درود بھیجنا چاہیے اور ان پر ظلم کرنے والوں سے برائت کرنا چاہیے،قبر حضرت علیؑ کی زیارت،مومنین کو عیدی دینا،مومن بھائیوں کے ساتھ احسان کرنا،مومنین کو خوش کرنا،اچھے لباس پہننا، زینت کرنا، خوشبو استعمال کرنا، خوش ہونا شیعوں کو خوش کرنا ،ان کی تقصیروں اور خطاؤں کو معاف کرنا، حاجتوں کو پورا کرنا ، صلہ رحم کرنا، بیوی بچوں کو خوش کرنا اور ان کے لئے وسعت پیدا کرنا،مومنین کو کھانا کھلانا، روزہ رکھنے والوں کو روزہ کھلانا، مومنین سے مصافحہ کرنا، مومنین سے ملاقات کے لئے جانا، مومنین کو دیکھ کر مسکرانا، مومنین کے لئے تحفہ تحائف بھیجنا، ولایت کی عظیم نعمت کے لئے شکر بجا لانا، زیادہ صلوات پڑھنا، کثرت سے عبادت و اطاعت کرنا اسمیںسے ہر ایک عمل عظیم ترین فضیلت کا حامل ہے۔
اور اس دن جو ایک روپیہ برادر مومن کو دیتا ہے وہ اس ایک لاکھ روپیہ کے برابر ہوتا ہے جوا س کے علاوہ کسی اور دن دیا ہو۔
 اور اس دن مومن کو کھانا کھلانا تمام پیغمبروں اور صدیقین کو کھانا کھلانے کے برابر ہے۔ اور امیرالمومنین علیہ السلام کے خطبہ میں ہے کہ غدیر کے دن جو شخص مومن روزہ دار کو افطار کرائے افطار کے وقت تو گویا اس نے دس ’فئام‘ کو افطار کرایا ہے۔ کسی نے اٹھ کر پوچھا: یا امیرالمومنینؑ یہ فئام کیا ہے؟ فرمایا : ایک لاکھ پیغمبر، صدیق اور شہید۔ تو اب سوچو اس شخص کا حال کیا ہوگا جو تمام مومنین و مومنات کی کفالت کرے! میں اس کے لئے خدا کی بارگاہ میں ضامن ہوں کفر فقر وغیرہ سے محفوظ رہنے کا۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اس دن یہ جملات بہت زیادہ کہو:
 اللّٰھُمَّ الْعَنِ الْجَاحِدِینَ والنَّاکِثِینَ والمُغَیِّرِینَ والمُبَدِّلِینَ والمُکذِّبِینَ الَّذِینَ یُکَذِّبُونَ بِیَومِ الدِّینِ مِنَ الَاوَّلِینَ والآخِرِینَ۔ 
(اے خدا قیامت کے دن انکار کرنے والے عہد توڑنے والے ،تغیر وتبدل کرنے والے ،بدلنے(بدعت ایجاد کرنے والے) اور جھٹلانے والے چاہے وہ اولین میں سے ہوں یا آخرین میں سے سب پر لعنت کر۔)
نماز عید:حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فر ماتے ہیں :زوال سے آدھا گھنٹہ پہلے(خدا وند عالم کے شکرانہ کے عنوان سے)دور کعت نماز پڑھو ۔ہر رکعت میں سورہ حمد دس مرتبہ ، سورہ توحید دس مر تبہ ، آیۃ الکر سی دس مرتبہ اور سورہ قدر دس مر تبہ پڑھو ۔اس نماز کے پڑھنے والے کو خدا وند عالم ایک لاکھ حج اور ایک لاکھ عمرے کا ثواب عطا کرتاہے اور وہ خدا وند عالم سے جو بھی دنیا اور آخرت کی حاجت طلب کرے گا وہ بہت ہی آسانی کے ساتھ بر آ ئیگی۔
عقد اخوت و برادری: عید غدیر کے لئے جو رسم رسومات بیان ہوئی ہیں ان میں سے ایک عقد اخوت ہے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ مومنین ایک اسلامی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے آپس میں اپنی برادری کو مستحکم کرتے ہیں ،اور ایک دوسرے سے یہ عھد کرتے ہیں کہ قیامت میں بھی ایک دوسرے کو یاد رکھیں گے ضمنی طور پر اسلامی بھائی چارے کے حقوق چونکہ بہت زیادہ ہیں لہذا ان کی رعایت کیلئے خاص توجہ کی ضرورت ہے لہذا ان کے ادا نہ کرسکنے کی حلیت طلب کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کوحقوق کی ادا ئیگی کی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔
 صیغہ اخوت پڑھنے کا طریقہ یہ ہے : اپنے داہنے ہاتھ کو اپنے مو من بھا ئی کے داہنے ہاتھ پر رکھ کر کہو :
وآخَیتُکَ فِی اللہِ وصَافَیتُکَ فِی اللہِ وصَافَحْتُکَ فِی اللہِ وعَاھَدْتُ االلہَ وملا ئِکتَہ و کُتُبَہٗ وَ رُسُلَہٗ وَ اَنْبِیَائَہٗ والا ئِمۃَ الْمَعصُومِینَ علیھِمُ السَّلامِ عَلٰی اَنِّی اِنْ کُنْتُ مِنْ اَھْلِ الجَنَّۃِ وَالشَّفَاعَۃِ وَاُذِنَ لِیْ بِاَنْ اَدخُلَ الْجَنَّۃَ لا اَدْخُلُھَا اِلّا وَاَنْتَ مَعِیْ۔ 
(میں راہِ خدا میں تیرا بھائی ہوں ،اور راہِ خدا میں میں نے تجھ سے صفائی کی،اور راہِ خدا میں میں نے تجھ سے مصافحہ کیا،اور میں نے خدا سے اور اس کے ملائکہ، کتابوں، رسولوں، انبیاء اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے عہد کیا ہے کہ میں اگر جنت والوں میں اور شفاعت والوں میں ہوا اور مجھ کو اجازت دی گئی کہ میں جنت میں داخل ہوجاؤں تو میں جنت میں تمہارے بغیر داخل نہ ہوں گا۔ )
پھر برادر مومن کہے :’’قبِلتُ ‘‘(میں نے قبول کیا)۔ اس کے بعد کہے : اَسْقَطْتُ عَنْکَ جَمِیْعَ حُقُوْقِ الْاُخُوَّۃِ مَاخَلا الشَّفَاعَۃَ وَالدُّعَاءَ وَالزِّیَارَۃَ ۔( میں نے بھائی چارگی کے اپنے تمام حقوق تجھ سے اٹھا لئے(تجھ کو بخش دئے )سوائے شفاعت ،دعا اور زیارت کے۔ )