ہفتہ، 8 اگست، 2020

ولایت، پیوند الہی

 ولایت ،پیوند الٰہی


تقریر: استاذآیۃاللہ مصباح یزدی مدّ ظلہ


ولایت کا مطلب صرف محبت نہیں ہے:

ہم شیعوں کا افتخار، اہل بیت علیہم السلام کی ولایت ہے اور یہ عظیم سرمایہ ہے جس سے دنیا و آخرت میں سعادت و کامیابی کے لیے ہم نے تمسک کیا ہے۔ہم سب کم و بیش ولایت کے مفہوم سے آشنا ہیں، ’’ولایت‘‘، شیعی ثقافت کا جزء ہے اور ہم اس ولایت کے معنی، خصوصیات اور امتیازات کے بارے میں کم ہی غور کرتے ہیں۔ 

’’ولایت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے فارسی یا اردو میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جو مکمل طور پر اس کے معنی و مفہوم کو ادا کرسکے۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ولایت کا مطلب محبت کرنا یا کسی سے دوستی کرنا ہے۔ ہاں، دوستی کرنا ولایت کا لازمہ ہے۔ لیکن بالکل مکمل طور پر ولایت کا مطلب نہیں ہے۔ محبت اہل بیتؑ تو شیعوں ہی سے مخصوص نہیں ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت اہل بیتِ نبیؐ سے محبت کرتی ہے۔ اہل سنت میں اس طرح کے افراد ہیں جو ہماری طرح اہل بیتؑ سے محبت کرنے میں پیچھے نہیں ہیں۔ اہل بیتؑ کے عاشق ہیں، ان کی امامت کا تو عقیدہ نہیں رکھتے لیکن پیغمبرﷺ سے نسبت اور ان کے فضائل و مناقب کی وجہ سے محبت کرتے ہیں۔امام کے علم، شجاعت، زہد اور دوسرے کمالات کا انکار نہیں کرتے ہیں۔ نہیں معلوم کہ آپ اہل سنت سے کتنے نزدیک ہیں اور کس حد تک ان سے آشنا ہیں لیکن ایران میں اور ایران سے باہر دوسرے ملکوں میں بہت سے اہل سنت ایسے ہیں جو اہل بیتؑ سے عشق کرتے ہیں۔غرض کہ حتیٰ کفار بھی اہل بیتؑ سے محبت رکھتے ہیں۔ کیاممکن ہے کہ کوئی مسلمان ہو اور پیغمبر ﷺ کی اولاد سے محبت نہ کرتا ہو۔ بہت ہی کم افراد ہیں جو اہل بیتؑ سے دشمنی رکھتے ہیں۔ لہذا ولایت کا مطلب اگر محبت ہے تو تمام مسلمان محبت کرتے ہیںاور اظہار محبت کرتے ہیں۔ لہذا ہم شیعہ حضرات جس ولایت کا دعویٰ کرتے ہیں اس کے معنی کیا ہیں؟ یقیناً صرف محبت و دوستی نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی کچھ ہے۔

قرآن میں ولایت:

بہتر ہے کہ قرآن میں ولایت اورا سکے مشتقات کو دیکھیں کہ کس معانی میں استعمال ہوئے ہیں۔ مکمل بحث تو ایک جلسہ میں نہیں ہوسکتی اس جلسہ میں صرف چند نکات پیش کررہا ہوں۔ کلمہ ’’ولایت‘‘ اور اس کے مشتقات یعنی ’’ولی‘‘، ’’مولیٰ‘‘، ’’تولی‘‘ یہ سب ایک مادّہ سے ہیں ان سب کی اصل، ولایت ہے۔ اس کی صفت مشبہ ولی ہے۔ اور جمع اولیاء ہے۔ اس کا فعل تولی ہے۔ کلمہ ولی قرآن میں کبھی خدا کے لیے استعمال ہوا ہے مثلاً آیۃالکرسی میں ’’اللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُواْ يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النور‘‘[اللہ صاحبانِ ایمان کا ولی ہے وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے]۔ خدا مومنین پر ولایت رکھتا ہے اس کے مقابلے میں کفار بھی اپنا ولی رکھتے ہیں لیکن ان کا ولی خدا نہیں ہے بلکہ ان کا ولی طاغوت ہے: ’’ وَالَّذِينَ كَفَرُواْ أَوْلِيَآؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُوْلَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ [ اور کفارکے ولی طاغوت ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں میں لے جاتے ہیں یہی لوگ جہنّمی ہیں اور وہاں ہمیشہ رہنے والے ہیں](سورہ بقرہ، آیت ۲۵۷)۔ خدا کے لیے صرف کہا ’’ولی‘‘ لیکن کفار کے لیے کہا: ’’اولیاء‘‘۔ اس لیے کہ شیطان ایک نہیں ہے بلکہ بہت ہیں مثلاً نور و ظلمت ۔ نور ایک ہے لیکن ظلمت کے اقسام ہیں۔

 بہر حال ولایت کا ایک مورد مومنین پر خدا کی ولایت ہے۔ مولیٰ کے سلسلے میں اسی سے مشابہ معنی سورۂ محمدؐ میں ہے: ’’ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّـهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَأَنَّ الْكَافِرِينَ لَا مَوْلَىٰ لَهُمْ‘‘(سورہ محمد، آیت۱۱)[یہ سب اس لئے ہے کہ اللہ صاحبانِ ایمان کا مولا اور سرپرست ہے اور کافروں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے]

خدا مومنین کا ولی ہے، کافروں کا کوئی مولیٰ نہیں ہے۔ معمولا ہم مولی کو آقا و سید و سردار کے معنی میں لیتے ہیں۔ کہتے ہیں خدا مومنین کا سید و سردار ہے، مومنین کا آقاہے۔ لیکن کافروں کا کوئی آقا نہیں ہے۔ بعض روایات نے مومنین کو خدا کا ولی کہا ہے۔ توجہ رہے کہ گذشتہ آیات نے خدا کو مومنین کا ولی بتایا ہے: ’’أَلا إِنَّ أَوْلِيَاء اللّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ‘‘(یونس، ۶۲) اولیاء جو مومنین خالص ہیں کوئی ڈر و خوف نہیں رکھتے۔ اولیاء اللہ کا لفظ ہم بہت کثرت سے استعمال کرتے ہیں اور قرآن میں بھی متعدد مرتبہ استعمال ہوا ہے۔

لہذا ایک طرف تو خدا مومنین کا ولی ہے اور دوسری طرف مومنین خدا کے ولی ہیں۔ ایک تعبیر اور ہے کہ مومنین آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں: وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ...‘‘۔(توبہ، ۷۱) مومنین اور مومنات بعض ولی ہیں بعض کے۔ یہ اُن کے ولی ہیں اور وہ اِن کے ولی ہیں۔ لہذا کلمہ ولی اور مفہوم ولایت ایسا کلمہ ہے جو کبھی خدا کے بندوں کی بنسبت، کبھی بندوں کے لیے خدا کی بنسبت اور کبھی مومنین کے لیے ایک دوسرے کی بنسبت استعمال ہوتا ہے۔ 

مفسرین اور لغت شناسوں نے ولایت کے سلسلے میں بحث کرتے ہوئے یہ نتیجہ پیش کیا ہے کہ لغت میں ولایت کا مطلب یہ ہے کہ دوموجود آپس میں اتنا نزدیک ہوں کہ انکے درمیان کوئی غیر نہیں ہو ۔ اگر دو موجودات کے درمیان اس طرح کا رابطہ ہو تو کہتے ہیں کہ یہ اُس کا ولی ہے۔

اگر کوئی خدا سے اتنا نزدیک ہو کہ اس کے اور خدا کے درمیان کوئی اور نہ ہو ؛ خدا اس سے نزدیک ہو اور وہ خدا سے قریب ہو تو ایسی صورت میں خدا اس کا ولی ہے اور وہ خدا کا ولی ہے۔لہذا خدا مومنین کا ولی ہے اور مومنین خدا کے ولی ہیں۔ مومنین بھی آپس میں ایسی کیفیت رکھتے ہیں۔ وہ لوگ جن کا ایمان واقعا کامل ہے وہ آپس میں اتنا ایک دوسرے سے قریب ہوتے ہیں کہ کوئی بھی انکے درمیان نفوذ نہیں کرسکتا۔ البتہ یہ ولایت ایسی ولایت ہے جو مثبت ولایت ہے لیکن ہمیشہ ارتباط مثبت نہیں ہوتا، کبھی ممکن ہےکہ انسان کسی سے قریب ہو اور اس سے نقصان اٹھائے۔ شیطان کے سلسلے میں یہی معاملہ ہے۔ اسی آیۃالکرسی میں کہا: ’’کافروں کے ولی طاغوت ہیں‘‘۔ طاغوت کے ساتھ بھی ولایت ہوسکتی ہے۔ خداوند عالم نے شیطان کے سلسلے میں فرمایا ہے: ’’شیطان کسی پر مسلط نہیں ہوسکتا مگر یہ کہ کوئی اپنے کو شیطان کا ولی بنالے‘‘۔ یعنی ممکن ہے کہ انسان شیطان سے اس طرح سے رابطہ برقرار کرے کہ اپنے کو شیطان کے اختیار میں دیدے۔جب ایسا ہوجائے تو شیطان اس پر مسلط ہوجاتا ہے۔ لیکن ابتدائا وہ تسلط نہیں رکھتا بلکہ انسان خود اپنے ہاتھوں اپنے کو شیطان کے حوالے کردیتا ہے۔

ولایت تکوینی اور ولایت تشریعی:

ا س گفتگو سے دو نتیجے سامنے آئے: خداوند عالم اپنی تمام مخلوق کے ساتھ تکوینی اور وجودی رابطہ رکھتا ہے، وہ تمام چیزوں سے سب سے زیادہ نزدیک ہے: ’’وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ‘‘ (سورہ ق، ۱۷) یہ قربت اور رابطہ الہی تکوینی ولایت تمام موجودات پر ہے۔ لیکن خدا وندعالم ایک ولایت اور رکھتا ہے۔ اگر انسان اپنے کو خدا کے حوالے کردےتو اس سے مزید ایک رابطہ برقرار کرتا ہے، ایسا رابطہ جسمیں خدا چاہتا ہے کہ اس کو خیر و بھلائی پہنچائے، اس کی سرپرستی کرے، اس سے بلاؤں کو دور کرکے اس کی حفاظت کرے۔ یہ ولایت اس وقت ہے جب انسان اپنے اختیار سے خود کو خدا کے حوالے کردے۔اہم پہلو یہ کہ ولایت تکوینی کو ختم یا قطع نہیں کیا جاسکتا اس لیے کہ اس کی بنیاد تمام چیزوں کی نسبت خدا کی مالکیت ہے اور اس مالکیت کو خدا سے سلب نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن ولایت دوسرے معنی میں، یعنی کوئی مقابل کے امور کا ذمہ دار ہوجائے۔ خدا اس ولایت کو سلب کرسکتا ہے۔ کہے کہ تم میرے ساتھ نہیں ہو، میں اب تم سے کوئی مطلب نہیں رکھتا، کہہ سکتا ہے جاؤ چلے جاؤ ، تم مجھ سے کوئی رابطہ نہیں رکھتے۔وہ تکوینی ولایت تھی اور یہ تشریعی ولایت ہے۔

خدا کے بعد لوگوں کا ولی:

خداوندعالم نے کچھ لوگوں کو معین کیا ہے کہ جن سے ہم رابطہ برقرار کریں۔ اس رابطہ میں خدا کے اذن و اجازت سے اپنے کو انکے اختیار میں دیتے ہیں:’’النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ‘‘ (سورہ احزاب، ۶) یہ ولایت خدا نے پیغمبر ﷺ کے لیے قرار دی ہے۔ اگر لوگ اپنے کو پیغمبر ﷺ کے حوالے کردیںاور کہیں کہ جو بھی آپ فرمائیں ہمیں قبول ہے، تو یہ پیغمبر ﷺ کی ولایت کا قبول کرنا ہے۔لیکن کچھ لوگ ایسے تھے جنھوں نے یہ نہیں کیا۔ کہتے تو یہ تھے کہ ہم مسلمان اور مطیع ہیں لیکن عمل میں مخالفت کرتے تھے۔ کبھی تو پیغمبرؐکے خلاف اقدام کرتے تھے، کبھی اپنی خاص نشستوں میں مومنین کا مذاق اڑاتے تھے، حتی کہ پیغمبرؐ کے خلاف سازشیں کرتے تھے۔ قرآن نے ان لوگوں کو منافق کہا ہے۔ ایک جنگ میں منافقین کے سردار عبداللہ ابن ابی نے کہا : یہ مہاجریں(مومنین) کچھ آوارہ لوگ ہیں جو مدینہ آگئے ہیں اور ہمارے لیے پریشانی کا سبب ہیں۔ ہم انھیں مدینہ سے نکال باہر کریں گے:’’يَقُولُونَ لَئِن رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ  ‘‘(سورہ منافقون، ۸)[یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینہ واپس آگئے تو ہم صاحبان عزت ان ذلیل افراد کو نکال باہر کریں گے ] ۔

قرآن کہتا ہے جو لوگ اپنے کو مسلمان کہتے ہیں اس طرح کی سازشیں کرتے ہیں ، ان کے پاس ولایت پیغمبر ہے ہی نہیں؛حقیقی ولایت یہ ہے کہ انسان اپنے کو پیغمبرﷺ و امام معصوم کے حوالے کردے۔اور انکے بعد بھی جن کی امام معصوم تائید فرمائیں وہ مسلمانوں کے معاملات کا ولی ہوگا۔ ائمہ معصومین علیہم السلام کے ارشاد کے مطابق ان شرائط کا حامل امامؑ کا جانشین ہے: جو علم و فقاہت و دین کو دوسروں کے مقابلے بہتر پہچانتا ہو، تقوی و خداترسی دوسروں سے زیادہ ہو، سماج کےمفاد، اسلام کی مصلحتوں کو ذاتی مفاد و مصلحت پر قربان نہ کرے، معاشرہ کے مسائل سے آگاہ ہو اور دشمنوں کی چالوں میں نہ آئے تو ایسے شخص پر امامت کا نور اپنی جلوہ افشانی کرتا ہے اور وہ امام معصوم سے قریب ہوتا  ہے۔ اب اگر انسان ایسے شخص کے حوالے اپنے کو کردے اور کہے: جو بھی آپ کہیں گے میں مانوں گا ، تو یہ ولایت برقرار ہوگی۔

پیغمبرﷺ کے بعد مومنین کا ولی:

غدیر کے دن پیغمبر اکرمﷺ نے مکہ میں آنے والے تمام حجاج کو حکم دیا کہ اس غدیر(گڑھے) کے پاس جمع ہوں ، اس کے بعد ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا: ’’ألستُ اولي بالمؤمنين مِن اَنفسهم‘‘، کیا میں تمہارے نفسوں پر تمہارا مولیٰ نہیں ہوں؟ (بحارالانوار، ج۲۸، ص۹۸) سب نے جواب دیا : ہاں ، خدا نے اس ولایت کو آپ کے لیے قرار دیا ہے:  ’’النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ‘‘ اس کا مطلب ہے کہ خدا نے پیغمبر ﷺ کو مختار بنایا ہے کہ وہ لوگوں پر ان سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔

نبی اکرمﷺ نے یہ کیوں فرمایا؟ تاکہ یہ بتائیں کہ جو مقام و مرتبہ خدا نے آپ کو عطا کیا ہے آپ نے وہی مقام و مرتبہ خدا کے اذن و حکم سے حضرت علیؑ کے لیے بھی معین کیا ہے۔ پھر فرمایا: ’’من كنت مولاه فهذا علي مولاه‘‘ ۔ اس مقدمہ کو بیان کیا تاکہ بتائیں یہ مولیٰ جو میں نے بنایا ہے یہ وہی ’’اولي من انفسهم‘‘ ہے جس کا پہلے ہی تم سے اقرار لے چکا ہوں۔’’الست اولیٰ بالمومنین من انفسھم‘‘ کیا اس آیت کی روشنی میں میں تم پر تم سے زیادہ اختیار نہیں رکھتا؟۔ سب نے کہا: یقینا، ہاں۔ فرمایا: خدا نے یہی ولایت حضرت علیؑ کے لیے قرار دی ہے۔

جب اس ولایت کی شعاع و کرن ولی امر(و فقیہ) پر پڑتی ہے تو وہ سورج کی روشنی کی طرح ہے جو چاند پڑتی ہے۔ یہ اس کا اپنا نور نہیں ہے۔ جب دے دیا گیا تو اس سے استفادہ کرتے ہیں جس طرح سورج کی روشنی سے استفادہ کرتے ہیں۔  

لہذا ولایت کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے اختیار سے اپنے کو کسی کے تابع کرلے، اسی کو تولی کہتے ہیں۔ اس آیت میں بھی جو خدا فرماتا ہے کچھ لوگ شیطان کی بنسبت یہی کام کرتے ہیں :’’ إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُوَالَّذِينَ هُم بِهِ مُشْرِكُونَ‘‘(نحل، ۱۰۰) [اس کا غلبہ صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جو اسے سرپرست بناتے ہیں اور اللہ کے بارے میں شرک کرنے والے ہیں] یعنی خود کو شیطان کے اختیار میں دے دیتے ہیں۔کہتے ہیں جو بھی کہو میں تیار ہوں۔ کہتا ہے: آنکھ کا استعمال یہاں کرو، کہتے ہیں: بسروچشم۔ زبان کا استعمال اس طرح کرو۔ کہتے ہیں: ضرور۔ کہتا ہے: ہاتھوں کو لوگوں کے مال کی طرف دراز کرو، پیروں کو فلاں غصبی ملکیت کی طرف بڑھاؤ۔ کہتے ہیں: ٹھیک ہے۔اسے کہتے ہیں شیطان کی ولایت۔ تو خدا کی ولایت کیا ہے؟ وہ فرماتا ہے: آنکھوں کی حفاظت کرو، نامحرم کی طرف نہ دیکھو، کہے: قبول ہے۔ فرمائے: حرام میوزک و گانے نہ سنو، غیبت نہ کرو۔ کہے: ٹھیک ہے۔ اگر انسان اپنے کو خدا کے حوالے کردے وہ ولی خدا ہوتا ہے۔ 

معلوم ہوا کی ولایت کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے اختیار سے اپنے کو کسی کا تابع بنا لے۔ اس کے ساتھ ایسا رابطہ ہو کہ دل میں اس سے محبت کرے اور عمل میں اس کی پیروی اور مرضی کا خیال ہو، جب دشمن اس پر حملہ آور ہو تو اس کی حمایت کرے اور جان و مال کو اسکی مصلحت کے آگے قربان کرے؛ یہ ہے ولایت۔ خداوند عالم چاہتا ہے کہ بندہ سب سے پہلے اس کے سامنے اس طرح تسلیم ہو پھر پیغمبرﷺ کے اس کے بعد امام معصوم کے سامنے اپنے کو حوالے کردے ، امام معصوم کے بعد امامؑ کے نائب اور جانشین کے مقابل تسلیم ہو، یہ شیعی انداز ہے اور شیعیت کا مزاج ہے۔ 

اہل سنت پیغمبر اکرمﷺ تک تو مانتے ہیں، اگرچہ ان میں سے بہت سے اس پر عمل نہیں کرتے، جس طرح ہم میں بہت سے اہل بیت کی ولایت کو مانتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے۔ اہل سنت خدا و رسول کی ولایت کا تو عقیدہ رکھتے ہیں لیکن اس کے بعد حضرات معصومین ؑ کی ولایت کو نہیں مانتے۔ ان کے یہاں امام زمانہ کے نائب کا وہ مرتبہ نہیں ہے جو ہمارے یہاں ہے۔ لیکن شیعی نظریہ و مزاج یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحلے میں خدا کی اطاعت کریں، دل خدا کے ہمراہ ہو، خدا کو دوست رکھیں؛ اس کے بعد کے مرحلے میں ضروری ہے کہ یہی چیز پیغمبر اور ائمہ معصومین کی بنسبت بھی ہو، ان کے نام ہی سے ہمیں وجد آئے، دل سے ان سے محبت کریں، ان کا احترام کریں، عمل سے بھی ثابت کریں اور انکے احکامات پر عمل کریں۔ یہ ہوگی پیغمبر اور امام کی ولایت۔ اور جب امام معصوم تک رسائی نہ ہوتو امام معصوم کے نائب کے تابع ہوں۔ یہ ولایت کا مفہوم قرآنی ثقافت و مزاج میں ہے۔

ہیومانیزم (Humanism) ولایت کے مد مقابل   ہے:

اسلامی مزاج اور الحادی مزاج میں کوئی سنخیت و مشابہت نہیں ہے۔ ہم اپنی زندگی میں اپنے کلچر و ثقافت کے مقابلے ایک اور کلچر سے روبرو ہیں۔ ہم نے بیان کیا کہ اسلام کا مطلب ہے اپنے اختیار سے اپنے کو خدا کے سامنے تسلیم کردینا۔ لیکن مقابل والا کلچر کہتا ہے کہ انسان کو کسی کے سامنے تسلیم ہونا ہی نہ چاہیے، ہر انسان خود مستقل ہے، آگاہ ہے ، کسی کو حق نہیں ہے کہ اُسے  امر و نہی کرے۔ مغرب والے اسے آزادی کا نام دیتے ہیں اور کہتے ہیں: حتی خدا کو بھی حق نہیں کہ ہمیں حکم دے! ہم خدا پر حق رکھتے ہیں! آج بعض افراد ہمارے یہاں بھی اس فکر کے حامل ہیں۔کہ اس دور کا انسان نہ صرف کوئی ذمہ داری نہیں رکھتا بلکہ ہر چیز پر حق رکھتا ہے۔ آج کا انسان اپنے حق کا طلب گار ہے، یہاں تک کہ ہم خدا سے اپنا حق لیں، خدا ہم پر کوئی حق نہیں رکھتا۔یہ ہیومانیزم کی انتہا ہے یعنی انسانیت پسندی، انسان محوری ہے۔ یہ ہیومانیزم کا کلچر ہے جو لیبرالیزم کی آئیڈیالوجی میں پنپتا اور تجلی پیدا کرتا ہے۔ یقینا ایسا طرز تفکر تسلیم نہیں کرے گا کہ ہم امام و نبی کے احکامات پر عمل کریں۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ خدا حق نہیں رکھتا ہم کو حکم دے تو ظاہر سی بات ہے کہ پھر پیغمبر و امام بھی حق نہیں رکھتے ۔ اور جب ان کے نزدیک پیغمبر و امام کو حکم جاری کرنے کا حق نہ ہو تو جانشین امام و ولی مسلمین کو تو کوئی حکم دینے کا حق نہیں رہ جائے گا۔

مذکورہ دو طرز تفکر میں پہلے ہم واضح کریں کہ کس طرف ہیں؟ اصل مسئلہ تو یہیں پر ہے۔ اسلام کہتا ہے تم خدا کے بندے ہو، تمہارا پورا وجود خدا کے لیے ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں ہم خود اپنے لیے ہیں، تمام چیزوں کو اپنا تابع کریں، ہم دنیا کے سردار ہیں، بندگی کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔

ولایت خدا یا ولایت شیطان:

اسلام کہتا ہے: ’’وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ‘‘ (سورہ ذاریات، آیت۵۶) [اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے]۔اُن لوگوں کا کہنا ہے کہ بندگی کا مفہوم ہی نادرست ہے، اس جملہ کو تو انسانی لغت میں سے حذف ہونا چاہیے، انسان اپنا مالک و مختار ہے، جو بھی اس کا دل چاہے وہی ہے، قابل قبول نہیں ہے کہ کوئی خدا کی یا کسی اور کی اطاعت و بندگی کا حکم دے۔ سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم جہت معین کریں کہ اِس طرف ہیں یا اُدھر؟ اگر ہمارے دل کی گہرائیوں میں یہ ہے کہ ہم خدا کے بندے نہیں ہیں اور خدا کو بھی کوئی حق نہیں ہے کہ ہم کو کوئی حکم دے، تو پھر تو ولایت فقیہ کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔

 سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم جہت معین کریں کہ اِس طرف ہیں یا اُدھر؟ اگر ہمارے دل کی گہرائیوں میں یہ ہے کہ ہم خدا کے بندے نہیں ہیں اور خدا کو بھی کوئی حق نہیں ہے کہ ہم کو کوئی حکم دے، تو پھر تو ولایت فقیہ کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔اگر کہیں کہ اسلام کو بھی مانتے ہیں، انقلاب کو بھی تسلیم کرتے ہیں اور ساتھ لیبرل یا ہیومانیزم و انسان پسندی کو بھی قبول کرتے ہیں تو یہ تو ناممکن ہے، ہو ہی نہیں سکتا کہ مسلمان بھی رہیں اور احکام خداوندی کو قبول بھی نہ کریں۔ کہتے ہیں خدا کو بھی حق نہیں ہے کہ ہم کو حکم دے ، ہر چیز کا قانون وہی ہے جو ہم چاہیں۔ جب اُن سے سوال کیجیے کہ پس اسلام کا مطلب کیا ہے؟ کہیں گے کہ اسلام کا مطلب یہی ہے کہ ہم آزاد ہیں۔ اسلام یعنی آزادی! کس سے آزادی؟ خدا سے؟ یہی تمام اختلافات کی بنیاد ہے جسے آج ہم اپنے زمانے میں دیکھ رہے ہیں۔یہی تمام فتنوں کی جڑ ہے۔ تمام فتنوں کا سرچشمہ یہیں ہے۔ یہ لوگ تیار نہیں ہیں کہ جو خدا نے کہا اس پر عمل کریں۔ جب اُن سے کہیے کہ قرآن و حدیث و پیغمبرؐ و امام معصومؑ کے علاوہ ولی فقیہ کی بھی اطاعت کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو خدا ہی کو نہیں مانتے تو ولی فقیہ کو کیا مانیں گے!۔ 

واضح ہے کہ اس طرز فکر کا نتیجہ یہی ہوگا۔ ہیومانیزم (انسان پسندی) سے یہ توقع رکھنا بے جا ہے کہ وہ ولایت فقیہ کا قائل ہو، یہ ناممکن ہے۔ اگر اس طرح کے لوگ تھوڑا بہت قائل بھی ہوتے ہیں تو وہ ہم کو اور آپ کو دھوکہ دینے کے لیے، اگر اسلام و نظام اسلامی کی بات کرتے ہیں تو یوں ہی ہوتا ہے ، چاہتے ہیں کہ ہم کو دھوکہ دیں ورنہ یہ دونوں نظریات باہم جمع نہیں ہوسکتے۔یا تو خدا کی بندگی یا نفس کی بندگی، اس میں انتخاب کرنا ہے۔ پہلے ہی معاملہ صاف کریں، یا تو خدا کی ولایت تسلیم کریں یا طاغوت کی ولایت کو۔یا خدا کی بندگی یا شیطان کی بندگی۔اگر ہم خدا کی بندگی نہ کریں تو یہ نہ سوچیں کہ ہم آزاد ہیں، ہزاروں خدا اپنے لیے بنا لیئے ہیں۔ لباس میں دنیا کی پیروی، ماحول و تاریخ و کلچر میں غیروں کی پیروی اگر اس میں اپنا کوئی اختیار نہ ہو تو یہ بھی ایک طرح کی بندگی ہے۔خدا تو کہتاہے ان سب کو چھوڑو صرف اور صرف خدا :  ’’قُلِ اللهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ‘‘(سورہ انعام، ۹۱) خدا کو اپنا لو سب کو چھوڑ دو۔جب یہ طے ہے کہ ہم بندے رہیں ، بندگی کریں، تو ایسے کی بندگی کریں جو ہمارا مالک ہے اور ہماری تمام چیزیں اسی کی ہیں۔ ایسے کی بندگی کیوں کریں جو خود ہم سے کمتر ہے۔ لباس وغیرہ میں ، زندگی گزارنے کے انداز و طریقہ میں کیوں غیروں کے کلچر کے غلام بنیں، مغربی ثقافت کے پابند کیوں بنیں؟!پہلے تو یہی طے کرنا ہوگا کہ ہم خدا کے بندے ہیں یا شیطان کے، اگر شیطان کے ہوئے تو اس وقت نفس کے غلام ہوئے، مغرب کے غلام ہوئے ، امریکہ و یورپ کے غلام ہوئے ، مختلف اقسام ہیں یہ سب ظلمت و تاریکی ہے، لیکن خدا کی بندگی کا صرف ایک راستہ : ’’‌أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ  أَنْ اعْبُدُونِي هَذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ‘‘ راہ راست اور صراط مستقیم، وہی بندگیٔ خدا ہے۔

ترجمہ: سید محمد حسنین باقری

(ماہناہ اصلاح، ذی الحجہ ۱۴۴۱ھ، جولائی ۲۰۲۰ء)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں