میں یا آپ
علامہ سید ذیشان حیدر جوادی اعلی اللہ مقامہ
مرسل اعظمؐ کے بعد جب باطل نے حق کی جگہ لینے کا عمل شروع کیا اور حق و باطل میں اشتباہ کی بنیاد ڈالی گئی تو مولائے کائناتؑ نے کمال صبر و ثبات کے باوجود اس فریضہ کو بہرحال انجام دیا کہ حق و باطل میں خط امتیاز قائم ہوجائے۔ اور کسی وقت بھی باطل کو حق کے استعمال کرنےکا موقع نہ مل سکے۔ چنانچہ تاریخی حقیقت ہے کہ خلیفۂ اول کی بیعت کے بعد یہ بات برابر دیکھنے میں آئی کہ خلیفہ اول کی طرف سے امیر المومنینؑ سے تعلقات ظاہر کرنے کی کوشش ہوتی رہی اور آپ کی طرف سے مسلسل ناراضگی کا اظہار ہوتا رہا۔ چنانچہ بروایت ابو سعید وراق امام حسینؑ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو بکر نے چاہا کہ امیر المومنینؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر معذرت کریں اور یہ کہیں کہ امت نے میرے اوپر اجماع کرلیا تھا ورنہ مجھے خلافت کی کوئی ہوس نہیں تھی۔ چنانچہ ایک دن تنہائی میں حاضرہوکر عرض پردا ز ہوئے کہ:
یا ا با الحسن! خدا کی قسم اس کام میں میری سازش شامل نہیں تھی اور نہ مجھے خلافت کی طمع تھی۔ میرے پاس مال اور قبیلہ بھی نہیں تھا کہ میں حکومت پر قبضہ کرلیتا۔ آپ مجھ سے کیوں ناراض ہیں اور کیوں مجھے بری نظروں سے دیکھتے ہیں؟
آپ نے فرمایا کہ جب آپ میں رغبت و حرص نہ تھی اور آپ اس کام کے قابل بھی نہ تھے تو آپ نے اس عہدے کو قبول کیوں کیا ؟
حضرت ابو بکر :
میں نے پیغمبر اسلامؐ سے سنا تھا کہ امت کا اجماع کسی گمراہی پر نہیں ہوسکتا اور جب لوگوں نے میری خلافت پر اجماع کرلیا تو میں نے اندازہ کرلیا کہ میری خلافت حق ہے۔ ورنہ کوئی شخص بھی اس اجماع کا مخالف ہوتا تو میں ہرگز اس عہدے کو قبول نہ کرتا۔
امیر المومنین علیہ السلام :
جب آپ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس حدیث کا سہارا لیا ہے تو کیامیں امت میں نہیں تھا۔۔۔۔ کیاسلمان، عمار، مقداد، ابوذر ابن عبادہ اور دیگر انصار امت میں نہ تھے ؟
حضرت ابو بکر :
بے شک یہ سب امت میں تھے۔
امیر المومنین علیہ السلام :
تو آپ نے اجماع امت کا نام کیونکر لیا جبکہ یہ مسلم الثبوت ہستیاں آپ کی خلافت کی مخالف تھیں؟
حضرت ابو بکر :
اس اختلاف کی اطلاع مجھے بیعت کے بعد ملی تو میں نے دیکھا کہ اب اگر میں انکار کردیتا ہوں تو لوگ دین سے مرتد ہوجائیں گے اور آپ حضرات کا میری حکومت کو قبول کرلیناقوم کے مرتد ہوجانے سے بہتر اور آسان تر تھا۔
امیر المومنین علیہ السلام :
یہ تو بتائیے کہ خلافت کا استحقاق کیونکر پیدا ہوتا ہے ؟
حضرت ابو بکر:
نصیحت ، وفا، محبت ، حسن کردار، عدالت ، علم کتاب و سنت ، زہد در دنیا ، انصاف۔
امیر المومنین علیہ السلام :
ذرا یہ تو بتائیے کہ یہ صفات آپ کے اندر پائے جاتے ہیں یا میرے اندر؟
حضرت ابو بکر :
آپ میں۔
امیر المومنین علیہ السلام :
قسم بخدا بتائیے کہ رسول اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت پر سب سے پہلے میں نے لبیک کہی تھی یا آپ نے ؟
حضرت ابو بکر :
آپ نے ۔
امیر المومنین علیہ السلام :
قسم بخدا یہ بتائیے کہ سورہ برأت کی تبلیغ میں نے کی تھی یا آپ نے ؟
حضرت ابو بکر :
آپ نے۔
امیر المومنین علیہ السلام :
روزغار (وقت ہجرت) رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جان میں نے بچائی تھی یا آپ نے ؟
حضرت ابو بکر :
آپ نے
امیر المومنین علیہ السلام :
آیت ولایت میں انگوٹھی دینے کا ذکر میرے بارے میں ہے یا آپ کے بارے میں ؟
حضرت ابو بکر :
آپ کے بارےمیں ۔
امیر المومنین علیہ السلام :
روز غدیر مرسل اعظمؐ نے مولائے مومنین مجھے بنایا تھا یا آپ کو؟
حضرت ابو بکر :
آپ کو۔
امیر المومنین علیہ السلام :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کےلئے بمنزلہ ہارون ؑ میں ہوں یا آپ؟
حضرت ابو بکر :
آپ۔
امیر المومنین علیہ السلام :
مباہلہ کے میدان میں میرے بچے اور میری زوجہ گئی تھیں یا آپ کے گھر والے ؟
حضرت ابو بکر :
آپ کے اہل و عیال ۔
امیر المومنین علیہ السلام :
آیۂ تطہیر میں میری اور میرے اہل و عیال کی طہارت کا تذکرہ ہے یا آپ کے ؟
حضرت ابو بکر :
آپ کے گھر والوں کا۔
امیر المومنین علیہ السلام :
روز کساء رسول اکرمﷺ نےمیرے گھر والوں کو اہلبیت کہہ کر دعا کی تھی یا آپ کے گھر والوں کو؟
حضرت ابو بکر :
آپ کے گھر والے۔
امیر المومنین علیہ السلام :
سورہ دہر میں ایفائے نذر کرنےو الے ہم ہیں یا آپ؟
حضرت ابو بکر :
آپ ۔
امیر المومنین علیہ السلام :
لافتیٰ الا علی کی آواز کا مصداق میں ہوںیا آپ؟۔
حضرت ابو بکر:
آپ ۔
امیر المومنین علیہ السلام :
جس کی نماز کےلئے مغرب سے آفتاب پلٹا وہ میں تھا یا آپ؟
حضرت ابو بکر :
آپ۔
امیر المومنین علیہ السلام :
روز خیبر جسے رایت اسلام دیا گیا اور اس نے خیبر فتح بھی کیا وہ میں تھا یا آپ؟
حضرت ابو بکر :
آپ۔
امیر المومنین علیہ السلام :
عمر بن عبدود کو قتل کرکے رسول اکرمؐ کو شر اعدا سے میں نے بچایا تھا یا آپ نے ؟
حضرت ابو بکر :
آپ نے ۔
امیر المومنین علیہ السلام :
جنوں تک رسول اکرمؐ کا پیغام میں نے پہونچایا تھا یا آپ نے ؟
حضرت ابو بکر :
آپ نے ۔
امیر المومنین علیہ السلام :
آدمؑ سے عبد المطلب تک جس کی نسل طیب و طاہر ہو وہ میں ہوں یا آپ؟
حضرت ابو بکر :
آپ۔
امیر المومنین علیہ السلام :
ساری دنیا میںانتخاب کرکے اپنی دختر کا عقد رسول اکرمؐ نے میرے ساتھ کیا تھا یا آپ کےساتھ؟
حضرت ابو بکر :
آپ کےساتھ۔
امیر المومنین علیہ السلام :
سردار ان جوانان جنت کا باپ اور ان سے بقول رسول اعظمؐ افضل میں ہوں یا آپ؟
حضرت ابو بکر :
آپ۔
امیر المومنین علیہ السلام :
جعفر طیار بن کر ملائکہ کے ساتھ فضائے جنت میں پرواز کرنےوالا میرا بھائی ہے یا آپ کا؟
حضرت ابو بکر:
آپ کا۔
امیر المومنین علیہ السلام :
رسول اکرمؐ کے قرض کا ذمہ دار اور اس کا ادا کرنے والا میں تھا یا آپ؟
حضرت ابو بکر :
آپ۔
امیر المومنین علیہ السلام :
محبوب ترین خلائق قرار دےکر طائر کے کھانے میں رسول اکرمؐ نے جسے شریک کیا تھا وہ میں تھا یا آپ؟
حضرت ابوبکر :
آپ۔
امیر المومنین علیہ السلام :
جسے رسول اکرمؐ نے باغیوں اور پیماں شکنوں سے تاویل قرآن پر جہاد کرنے کی بشارت دی تھی وہ میں تھا یا آپ؟
حضرت ابو بکر :
آپ۔
امیر المومنین علیہ السلام :
رسول اکرمؐ کی آخری گفتگو اور آپ کے غسل و کفن و دفن کا شاہد میں تھا یا آپ ؟
حضرت ابو بکر :
آپ ۔
امیر المومنین علیہ السلام :
رسول اکرمؐ نے اقضائے امت (سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ) مجھے قرار دیا تھا یا آپ کو؟
حضرت ابو بکر :
آپ کو۔
امیر المومنین علیہ السلام :
’’امیر المومنین‘‘ کہہ کر اصحاب کو سلام کرنے کا حکم رسول اعظمؐ نےمیرے بارےمیں دیا تھا یا آپ کے بارے میں؟۔
حضرت ابوبکر :
آپ کے بارےمیں۔
امیر المومنین علیہ السلام :
قرابت رسول ؐ میں سبقت کا شرف مجھے حاصل ہوا یا آپ کو ؟
حضرت ابو بکر :
آپ کو۔
امیر المومنین علیہ السلام :
جسے پروردگار نے وقت ضرور ت دینار عطا کیا تھا اور اس نے رسول اکرمؐ کی ضیافت کرکے ان کی اولاد کو سیر کیا تھا وہ میں تھا یا آپ؟
حضرت ابو بکر :
آپ ( یہ کہہ کر حضرت ابو بکر رو دیئے)
امیر المومنین علیہ السلام :
بت شکنی کے موقع پر تاحد آسمان رسول اکرمؐ نے اپنےکاندھوں پر مجھے بلند کیا تھا یا آپ کو؟
حضرت ابو بکر :
آپ کو
امیر المومنین علیہ السلام :
دنیا و آخرت میں حامل لوائے رسولؐ میں ہوں یا آپ؟
حضرت ابو بکر :
آپ۔
امیر المومنین علیہ السلام :
سارے مسلمانوں کے دروازوں کے بند ہونے کے بعد جس کا دروازہ مسجد میں کھلا رہا وہ میں تھا یا آپ؟
حضرت ابو بکر :
آپ۔
امیر المومنین علیہ السلام :
آیت نجویٰ کےموقع پر جب پروردگار عالم نے مسلمانوں پر عتاب نازل کیا تو صدقہ دینے والا میں تھا یا آپ؟
حضرت ابو بکر :
آپ۔
امیر المومنین علیہ السلام :
عقد فاطمہؑ کے موقع پر سب سے پہلا مومن اور سب سے عظیم مسلم رسول اکرمؐ نے مجھے قرار دیا تھا یا آپ کو؟
حضرت ابو بکر :
آپ کو۔
اسی طرح آپ کے بیان کا سلسلہ جاری رہا اور حضرت ابو بکر ایک ایک فضیلت کی تصدیق کرتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ نے فرمایا انہیں فضائل و کمالات سے استحقاق خلافت پیدا ہوتاہے تو آپ کو کیسے دھوکا ہوگیا کہ آپ نے خدا و رسولؐ اور دین سب کو چھوڑ کر حکومت اختیا رکرلی؟
حضرت ابو بکر نے بے تحاشہ گریہ کیا اور ایک شب کی مہلت مانگی تمام رات مسئلے پر غور و فکر کرتے رہے۔ ملاقاتوں پر پابندی عائد کردی یہاں تک کہ مرسل اعظمؐ کو خواب میں دیکھا۔ آپ نے حضرت ابو بکر کے سلام کا جواب دینے کے بجائے منہ پھیر لیا۔
حضرت ابو بکر نے کہا سرکار میں نے آپ کے کس حکم کی مخالفت کی کہ آپ ناراض ہیں؟
فرمایا : تم نے خدا و رسولؐ سے دشمنی کی ہے اور اللہ کے اولیاء سےعداوت کی ہے۔ جاؤ حقدار کا حق فوراً واپس کرو۔
حضرت ابو بکر نے پوچھا: حقدار کون؟
فرمایا: جس سے بحث کر آئے ہو یعنی علیؑ۔
حضرت ابو بکر نے خواب میں وعدہ کیا اور عالم گریہ و زاری میں آنکھ کھولی ۔ حضرت علیؑ کے دروازے پر حاضر ہوکر اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور کہا کہ آپ مسجد میں آئیے۔ میں سبھوں کے سامنے آپ کا حق واپس کردوں گا۔
یہ کہہ کر حضرت علیؑ کےمکان سے نکلے۔ راستے میں عمر بن الخطاب سے ملاقات ہوئی۔ جو رات سے بے خبر تھے کہ علیؑ سے کیا گفتگو ہوئی ہے۔
پوچھا : خلیفہ رسولؐ آپ کا کیا عالم ہے ؟
فرمایا : میں نے علیؑ سے ایسی گفتگو کی ہے اور ایسا خواب دیکھا اور اب میرا یہ ارادہ ہے۔
ابن خطاب نے کہا کہ بنی ہاشم پر انے جادو گر ہیں۔ آپ ان کے چکر میں نہ آئیے۔ اپنا کام کیجئے اور اس قدر اصرار کیا کہ حضرت ابو بکر نے رائے تبدیل کردی۔
امیر المومنینؑ حسب قرار داد مسجد میں آئے اور کسی کو نہ پاکر صورت حال کا اندازہ کرلیا۔ قبر رسولؐ کے پاس بیٹھ گئے۔ ادھر سے عمر بن الخطاب کا گزر ہوگیا۔ کہنے لگے یا علیؑ بیکار بیٹھے ہو۔ تمہارے منصوبے پر عمل محال ہے۔
(ماہنامہ اصلاح،لکھنؤ، ذی الحجہ۱۴۴۱ھ۔ جولائی ۲۰۲۰)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں