جمعہ، 14 اگست، 2020

کربلا، درسگاہ انسانیت


 باسمہ تعالیٰ

کربلا، درسگاہ انسانیت

سید محمد حسنین باقری

کیا صرف مُسلمان کے پیارے ہیں حُسینؑ
چرخِ نوعِ بَشَر کے تارے ہیں حُسینؑ
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حُسینؑ
(جوشؔ ملیح آبادی)
نواسۂ نبیؐ حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظیم الشان قربانی یقیناً انتہائی عظیم مقصد کےلئے تھی جہاں ایک طرف قربانی کا مقصد بقائے لا الہ الااللہ تھا،دشمنان خدا و دشمنان دین خدا کو ان کے مقاصد میں ناکام کرنا تھا، یزید جیسے نام نہاد مسلمانوں کے چہروں سے نقاب پلٹنا تھی، عظمت توحید کی حفاظت تھی ، دین الٰہی پر آنچ نہ آنے دینا تھا ، پیغمبر عظیم الشان صلعم کی زحمتوں کو بچانا تھا، کلمۂ شہادتین کی لاج رکھنا تھی ، ولایت خدا اور ولی خدا سے لوگوں کو روشناس کرانا تھا، امت مسلمہ کی اصلاح تھی، فریضۂ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ادائیگی تھی، نبیؐ و جانشین نبی کی صحیح و حقیقی سیرت کو عملی طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا، بندگان خدا کو جہالت و گمراہی سے نجات دینا تھا؛وہیں در حقیقت انسانیت کو بچانا اور انسانی اقدار کی پاسبانی بھی تھی، امام حسینؑ نے اتنی بڑی قربانی کسی معمولی چیز کےلئے نہیں دی۔ آپ نے انسانی اقدار کو بچایا ہے، انسانی اصولوں کی حفاظت کی ہے۔ کربلا میں قربانی دے کر بتایا ہے کہ انسانیت کسے کہتے ہیں۔ 
اس سے یہ بھی ثابت ہے کہ یزید اور اس کا گروہ صرف حسینؑ ابن علیؑ ہی کا دشمن نہیں تھا بلکہ وہ انسانیت کا دشمن تھا انسانی اصولوں اور انسانی اقدار کو پامال کرنا چاہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تنہا کربلا وہ جگہ ہے، تنہا یاد حسینؑ و تذکرہ حسینؑ ایسی یاد و تذکرہ ہے کہ جسے ہر انسان مناتا ہے۔ دنیا میں تنہا کربلا و نام حسینؑ وہ چیز ہے جہاں کسی بھی طرح کی کوئی تفریق نہیں ہے بلکہ ہر انسان چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب و ملت اور فرقہ سے ہو، ذکر حسینؑ کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ (جہاں انسانیت ہی نہ ہو وہاں بات الگ ہے )
کیا یہ قابل غور نہیں ہے کہ چودہ سو سال گزرنے کے بعد تمام مخالفتوں کے باوجود آج سب سے زیادہ تذکرہ کربلا کا ہوتا ہے ۔ سب سے زیادہ نام امام حسینؑ کا لیاجاتا ہے۔ جیسے بھی حالات ہوں، یہ ذکر ہوتا ہے۔دنیا کا کوئی خطہ کوئی علاقہ اس ذکر و یاد سے خالی نہیں ہے۔ دنیا کے ہر مذہب و مسلک سے تعلق رکھنے والا انسان نام حسینؑ لیتا ہے ۔ حسینؑ ابن علیؑ کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ دنیا کا ہر انسان واقعہ کربلا کے بارےمیں غور کرے۔ حسینؑ ابن علیؑ کی قربانی کو نگاہوں میں رکھے اور اس قربانی سے انسانیت کا درس حاصل کرے، اس کربلا سے انسانی اقدار کو پہچانے، اس عزاداری سے حق کی معرفت حاصل کرے۔
مفہومِ عزا جاننے والے کم ہیں
احسان کو گرداننے والے کم ہیں
شبیرؑ تِرے چاہنے والے ہیں بہت
لیکن تِرے پہچاننے والے کم ہیں
(علامہ نجمؔ آفندی)
کربلا نے انسانیت کو بہت سے دروس دیئے ہیں جن کی فہرست طویل ہے صرف بعض کو اجمالاً پیش کیا جارہا ہے :
(۱) اپنے خالق و پروردگار کو پہچاننا:
نبی و آل نبی علیہم السلام کا اصل مشن پرچم توحیدکو بلند کرنا، دنیا کو اس کے خالق سے آشنا کرنا، عبد و معبود کے رشتے کو پہچنوانا اور انسانوں کو اس سے کمتر کی بندگی سے نجات دلاکر صرف خالق یکتا و خدائے بزرگ و برتر کی بندگی میں لانا تھا۔صادق آل محمدؐ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: إِنَّ أَفْضَلَ اَلْفَرَائِضِ وَ أَوْجَبَهَا عَلَى اَلْإِنْسَانِ مَعْرِفَةُ اَلرَّبِّ وَ اَلْإِقْرَارُ لَهُ بِالْعُبُودِيَّةِ،(إثبات الہداۃ بالنصوص و المعجزات، جلد۲ ، صفحہ۱۸۲) ’’انسان پر سب سے ضروری اور سب سے اہم و برتر ذمہ داری، اپنے رب کا پہچاننا اور اس کی بندگی کا اقرار کرنا ہے‘‘؛اسی مشن کوکربلا میں حسین ابن علی علیہما السلام نے عملی شکل میں پیش کیا۔ اپنے خطبات، خطوط اور اپنی دعاؤںمیں توحید کا تذکرہ و عبد و معبود کا بیان ، قدم قدم پر ذکر خدا، مختلف مواقع پر خدا کی جانب توجہ دلانا، میدان جنگ میں اقامۂ نماز، آخری لمحات میں سجدۂ خالق میں سر رکھنا اس بات کا پیغام تھا کہ یہ قربانی خدا کی راہ میں اس کے مشن کی حفاظت اور توحید کی لاج رکھنے کے لیے ہے۔اتنی بڑی قربانی پیش کرکے دنیا کو بتا دیا کہ آؤ میرے ذریعہ اس جہان کے خالق اور اپنے حقیقی معبود کو پہچانو کہ وہ کتنی عظمتوں کا حامل ہے۔ میری قربانی کے ذریعہ توحید کی اہمیت کا اندازہ کرو، میرے اقدام کے ذریعہ خدائی احکام اور الہی شریعت کے مرتبے کو سمجھو، خدا و دین خدا کو حسین ابن علی ؑ کی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کرو۔ میں نبی اکرمﷺ کا نواسہ ، علی ؑ کا نور نظر اور فاطمہؑ کا لخت جگر ہوکر اگر کربلا میں جام شہادت پی رہاہوں تو میرے سامنے جو مقصد ہے وہ اتنا زیادہ اہمیت و عظمت کا حامل ہے کہ اس کے لیے میں ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار ہوں حتی میں تو دشمن کی تین دن کی پیاس اور ششماہہ علی اصغرؑ کی قربانی بھی دے رہا ہوں تاکہ اگر میری شہادت کے بعد کربلا کی طرف نگاہ اٹھاکر دیکھو، حسینؑ کا نام سنو،  حسین ابن علی ؑ کا تذکرہ کرو تو تمہاری نگاہوں میں حسینؑ کا مقصد اور مشن بھی ہو۔تم اپنے خالق و معبود کو پہچان رہے ہو، تم ذکر حسینؑ و یاد حسینؑ کے ذریعہ خدا والے بن رہے ہو۔ عزائے حسینؑ تم کو خدا سے نزدیک کرنے کا ذریعہ ہو۔ 
قربانی کربلا کو نگاہوں میں رکھ کر خالق و معبود کو پہچان کر اس سے اتنا قریب ہوجاؤ کہ دنیا کی سختیاں، مشکلات، دشواریاں، پریشانیاں، آفتیں، مصیبتیں تم کو کسی بھی قدم پر مایوس نہ ہونے دیں۔ تم عزائے حسینؑ کے ذریعہ یہ جذبہ بھی حاصل کرو کہ چاہے پوری دنیا میں کرونا وبا اپنا قہر برپا کرہی ہو، اس وبا کی آڑ میں لوگ سیاست کر رہے ہوں ، انسان کو کوئی راہ چارہ دکھائی نہ دے رہا ہو ایسے میں تم اپنے خالق سے لو لگاؤ، خدا پر بھروسہ کرو، ہوسکتا ہے تمہیں امتحانات، دشواریوں و سختیوں سے گزرنا پڑے لیکن تمہاری کامیابی یقینی ہوگی۔ حسین ابن علی جب سخت سے سخت امتحان سے گزر گئے تو کربلاوالے ہوکر سختیاں و دشواریاں تو تمہارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ جب امام حسینؑ اپنے بچوں و عورتوں کے ساتھ اُن مصائب و مشکلات کو شکست دے گئے تو تم بھی نام حسینؑ کے ذریعہ ہر سختی، ہر امتحان، ہر مصیبت سے گزر جاؤاور شہید کربلا سے درس لیکر کسی بھی موقع پر کسی بھی مرحلے میں اپنے پروردگار سے مایوس نہ ہو۔ ہر وقت اپنے معبود کی اپنی نگاہوں میں رکھو۔ 
 (۲) اپنے اندر علم و شعور و آگہی پیدا کرنا :
انسانیت کی پہچان علم و شعور ہے اس نعمت سے محروم انسان بظاہر تو انسان ہوتا ہے لیکن انسانی کمالات اس کے اندر نہیں آیا کرتے وہ خود اپنے فائدے و نقصان کو بھی پہچاننے کی صلاحیت نہیں رکھتا جو بھی چاہتا ہے اسے اپنے مقصد کے لئے استعمال کرلیتا ہے۔ علم و شعور تو اسلام کے آفاقی پیغام کی بنیاد ہے اسلام نے حق کی طرف دعوت دینے میں مجبور نہیں کیا بلکہ عقل و فکر و شعور کو بیدار کرنا چاہا ہے۔ جب تک انسان کے اندر عقل و فکر اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو وہ اسلام کو نہیں سمجھ سکتا۔ اس لئے اسلام زور دیتا ہے کہ علم حاصل کرو جہالت کی تاریکیوں سے باہر نکلو اور علم کی روشنی میں عقل کو بروئے کار لاکر حقائق کو درک کرو۔ جہالت صرف فرد کی موت نہیں ہے بلکہ سماج و معاشرہ کی موت کا سبب بن جاتی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ کربلا کے اس پیغام کو سامنے رکھا جائے کہ عقل و فکر اور شعور و بصیرت نہ ہونے کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ فرزند رسولؐ کے قتل کے درپے ہوئے اور جہالت و بے بصیرتی کے نتیجے میں یزید جیسے فاسق و فاجر اور دشمن خدا و رسول کے ہاتھوں استعمال ہوگئے۔ لشکر یزید کی جہالت و لاعلمی اور عدم شعور و بے بصیرتی ہی کا نتیجہ تھا کہ بظاہر تو آل نبیؐ کا گھراجڑ گیا، فرزند نبیؐ کو قتل کردیا لیکن ان کے ہاتھ نہ دنیا آئی اور نہ آخرت خسر الدنیا والآخرۃ کا مکمل نمونہ بن کر سامنے آئے۔
 کربلا آج بھی تمام انسانوں کو پیغام دیتی ہے کہ جب حسین ابن علی علیہماالسلام نے اپنی عظیم قربانی زیارت اربعین کے اس جملہ ’’بَذَلَ مُهْجَتَهُ فِیک لِیسْتَنْقِذَ عِبَادَک مِنَ الْجَهَالَةِ وَ حَیرَةِ الضَّلالَةِ‘‘(التہذیب، شیخ طوسیؒ، ج۶،ص۱۱۳؛ بحار ۹۸؍۳۳۱))؛[’خدایا! حسین ابن علیؑ نے تیری راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تاکہ تیرے بندوں کو جہالت اور گمراہی سے نجات دیں‘] کی روشنی میں بندگان خدا سے جہالت و گمراہی کو دور کرنے کے لیے دی۔ اور کربلا میں غازی عباسؑ جیسی ایک ذات کو رہتی دنیا تک بطور آئیڈیل و نمونہ پیش کیا جنھوں نے اپنے علم و شعور و بصیرت کی وجہ سے اپنے کو اس درجہ تک پہنچایا کہ آج کربلا ہی نہیں بلکہ تاریخ عصمت میں چہاردہ معصومین علیہم السلام کے بعد سرفہرست نظر آتے ہیں۔جن کے لیے امام معصوم حضرت جعفر صادق علیہ السلام نے گواہی دی: ’’کانَ عَمُّنَا العَبَاسُ بنُ عَلِیٍ نَافِذَ البَصِیرَةِ صُلبَ الاِیمَانِ جَاهَدَ مَعَ أَبِی عَبدِاللهِ وَ أَبلَی بلاءً حَسَناً وَ مَضَی شَهِیداً.( عمدۃالطالب،ص۳۵۶؛ تنقیح المقال، ج۲،ص۱۲۸)[میرے چچا عباس ابن علیؑ با بصیرت، دور اندیش، مضبوط ایمان کے حامل تھے، امام حسینؑ کی رکاب میں جہاد کیا، بہترین آزمایش کے مرحلے سے گزرے اور شہادت کے درجے پر فائز ہوئے]۔ تو تم بھی اپنے کو علم کی دولت سے مالا مال کرو اپنی عقل و فکر کو بروئے کار لاؤ اپنے شعور و بصیرت کو پختہ کرو تاکہ اولاً تم خود اپنے کو پہچان سکو اور حق و باطل میں تمیز دے سکو، ساتھ ہی ساتھ دوسرے کو موقع نہ دو کہ تم کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرسکے ۔ کم از کم تمہارے اندر اتنی صلاحیت ہو کہ تم پہچان سکو سامنے والا تم کو کدھر لے جانا چاہتا ہے تم سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تمہارے ذریعہ اپنے کس مفاد کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ دنیاوی مفاد کےلئے تم کو دوزخ کا ایندھن بنارہا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ انسانیت کا گلا گھوٹنے کے لئے تمہارا سہارا لے رہا ہے۔ کمزوروں کو دبانے، لوگوں پرظلم کرنے کے لئے تم کو سپر بنایا ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ دشمن تم کو مقدسات کے بہانے اسلام کے خلاف لا کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ دین کے نام پر تم کو محافظ دین سے برسر پیکار کر رہا ہے۔
لہٰذا آؤ کربلا سے یہ پیغام لو کہ اپنے اور سماج کے درمیان سے جہالت و لاعلمی کی لعنت کو ختم کرو علم کی شمع روشن کرو اور علم و آگہی کی روشنی میں اپنی عقل و فکر اور شعور کو پختہ کرو تاکہ تم بھی محفوظ رہو اور تمہارا سماج بھی محفوظ رہے اور باطل طاقتیں اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ 
(۳) عزت و سربلندی کے ساتھ زندگی گزارنا:
 انسانی کمالات میں سے ایک کمال عزت نفس ہے، عزت و سربلندی انسانیت کی پہچان ہے کربلا میں سید الشہداءؑ کا ایک اہم پیغام تھا ’’ ھیھات منا الذلۃ‘‘ ہم ہر گز ہرگز ذلت کو گوارا نہیں کرسکتے۔ فرمایا: ’’موتٌ فى عزٍّ خیرٌ مِن حیاةٍ فى ذُلّ‘‘(بحار، ج۴۴، ص۱۹۲)[ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے] ۔ اور شہید کربلا ؑ نے تو یہاں تک فرمادیا کہ اس راہ میں اگر موت بھی آجائے تو وہ سعادت و خوشبختی ہے اورذلت و رسوائی کے سائے میں ظالمین کے ساتھ زندگی گزارنا نا قابل قبول ہے:  ’’«انّى لا ارى الموتَ الا سعادةً وَ الحیاةَ مَعَ الظَّالمینَ الّابَرما»‘‘(بحار، ج۴۴، ص۱۹۲)۔
کیا پاس تھا قولِ حق کا، اللہ اللہ
تنہا تھے، پہ اعدا سے یہ فرماتے تھے شاہ
میں اور اطاعتِ یزیدِ گمراہ
لا حَولَ و لا قُوّۃَ الّا باللہ
(مولانا الطاف حسین حالیؔ)
لہذا  اگر تم انسان ہو ، اپنے کو اشرف المخلوقات کہتے ہو تو اپنی عزت نفس کا پاس و لحاظ کرو۔ اپنی عزت کا سودا نہ کرو۔ خدا نے تم کو عزیز بنایا ہے لہٰذا ہر قدم پر اس عزت کی حفاظت کرو۔ چاہے گلا کٹ جائے، بچے قربان ہوجائیں، بھرا گھر اجڑ جائے، خواتین اسیر و قیدی بنالی جائیں لیکن عزت نفس اور عزت انسانی پر آنچ نہ آنے دو۔ کسی ظالم کے آگے گھٹنے ٹیکنا ذلت کو گوارا کرنا ہے، فاسق و فاجر کی منشاء و خوشنودی کا خیال کرنا عزت نفس کا سودا کرنا ہے، باطل سے مرعوب ہوجانا اپنے کو نہ پہچاننا ہے ، شرک و الحاد سے راضی رہنا ذلت گوارا کرنا ہے، دنیاوی مفاد کے لئے باطل کی خوشنودی حاصل کرنا اپنے کو ذلیل کرنا ہے، ظلم و نا انصافی ، فسق و فجور، قتل و غارت گری، فتنہ و فساد ، بے دینی و بے حیائی کو دیکھ کر خاموشی اختیار کرنا عزت انسانی کا سودا کرنا ہے۔ چند روزہ زندگی کے لئے باطل آقاؤں کی جی حضور ی کرنا عزت نفس کو پامال کرنا ہے، خدا کو چھوڑ کر باطل سے کسی طرح کی امید وابستہ کرنا ذلت کے آگے سرجھکانا ہے، جھوٹی شہرت کےلئے دینی اصولوں کو پامال کردینا عزت کا گلا گھونٹنا ہے، کسی مخلوق کے آگے ہاتھ پھیلانا عزت نفس کو پامال کرنا ہے۔
عزت نفس اور سر بلندی کے ساتھ زندگی گزارنے کا مطلب ہےکہ صرف خدا کی طاقت پر بھروسہ کرو، کسی باطل طاقت سے نہ ڈرو، کسی ظالم و جابر سے مرعوب نہ ہو، اپنی قلت پر کسی طرح کا خوف نہ ہو، عزت نفس اور سر بلندی کے لئے ہوسکتا ہے قربانی دینا پڑے ہر طرح کی قربانی کے لئے تیار رہو۔ ہوسکتا ہے جان و مال سے گزرنا پڑے اپنی عزت و سربلندی کے لئے اپنی جان و مال سے گزرجاؤ، کربلا کا نمونہ سامنے ہے حسینؑ گلا کٹوا کر آج بھی عزیز ہیں اور یزید ظلم کرکے بھی ذلیل و رسوا ہے۔ کربلا کا یہ درس انتہائی اہم ہے کہ کسی بھی قدم پر کسی بھی مرحلے میں اپنی عزت نفس کو فراموش نہ کرو۔ ھیھات منا الذلہ کو عملی جامہ پہناؤ ، باطل کے آگے کسی بھی حالت میں سر نہ جھکاؤ چاہے سر کٹا نا ہی کیوں نہ پڑے۔
(۴) ظلم و نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنا:
 فطرت انسانی والے دین اسلام کا پیغام ہے نہ ظلم کرو نہ ظلم سہو، دین اسلام کی اساس و بنیاد عدل و انصاف پر ہے اس دین میں ظلم کا تصور ہی نہیں ہے قیام حسینؑ کا کربلا میں مقصد نیز منتقم خون حسینؑ امام مہدی عج کے قیام کا مقصد ظلم و ستم کا خاتمہ اور عدل و انصاف و امن و امان کا قیام ہے۔ خود امام حسینؑ نے اپنے بھائی محمد حنفیہ کے نام خط میں اپنے قیام کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’إِنّی لَمْ أَخرُجْ أَشِراً و لا بَطِراً و لا مُفْسِداً و لا ظالِماً، إِنَّما خَرجْتُ لِطَلَبِ إلاصلاحِ فی أُمَّهِ جَدّی۔’’میں ہرگز شر و برائی یا ظلم و ستم اور فتنہ و فساد کے لیے نہیں نکلا ہوں بلکہ میں تو اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لیے قربانی دینے جارہا ہوں‘‘۔امام مہدی عج کے لیے پیغمبر اکرمﷺ و دیگر ائمہ معصومین علیہم السلام سے متعدد و متفق علیہ حدیثوں میں یہ جملہ ملتا ہے: ’’’’فَيَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطاً وَ عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً وَ ظُلْماً‘‘۔(سنن ابی داؤد، ج۴، ص۱۰۷ ؛ کنز العمال، ج۱۴، ص۲۶۴؛کمال الدین و تمام النعمۃ ج۱، ص۲۸۰)۔’’وہ اسی طرح زمین کو عدل و انصاف سے پُر کریں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔‘‘
یعنی اسلام چاہتا ہی ہے کہ امن و امان اور عدل وانصاف قائم رہے ظلم و ستم کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے۔ حسین ابن علی علیہما السلام نے اپنے قیام کے ذریعہ پیغام دیا کہ اگر ظلم آشکار ہورہا ہو، ظالم ، انسانیت کا خون چوس رہا ہو، لوگوں کے حقوق پامال ہورہے ہوں، کمزوروں کو دبایاجارہا ہو، زمام حکومت ایسے ہاتھوں میں ہو جہاں انسانیت پامال ہورہی ہو، اقتدار ان لوگوں کے ہاتھوں میں آجائے جو انسانیت کی خو بو بھی نہ رکھتے ہوں، کسی بھی انسان کی جان و مال ، عزت و آبرو محفوظ نہ ہو تو ایسی صورت میں ہرحق پسند انسان کا فریضہ ہے کہ ظلم کے خلاف اقدام کرے، ایسے مواقع پر خاموش رہ جانا اور کوئی بھی اقدام نہ کرنا ظالم کے ظلم میں شرکت کے مترادف ہے۔ لہٰذا حسین ابن علی علیہ السلام نے قیام کربلا کے ذریعہ یہ پیغام بھی دیا کہ ظلم کے خاتمے کے لئے جو کرسکتے ہو کرو ، ظلم پر خاموشی و سکوت اختیار کرکے ظالم کو سہارا نہ دو اس لئے کہ اگر ایک طرف ظلم کرنا برا ہے تو دوسری طرف ظلم ہوتے دیکھ کر کوئی اقدام نہ کرنا بھی برا ہے۔ امام حسینؑ نے فرمایا: اَیُّهَا النّاسُ اِنَّ رَسولَ الله صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ قالَ مَن رَأَى سُلطاناً جائِراً مُستَحِلّاً لِحُرُمِاتِ الله ناکِثاً لِعَهدِ الله ... یَعمَلُ فی عِبادِ الله بِالجَورِ وَ العُدوانِ و لَم یُغیِّرُ عَلَیهِ بِقَولٍ وَ لا فِعلٍ کانَ حَقّاً عَلَى الله اَن یُدخِلَهُ مَدخَلَه۔(وقعۃالطّف، ص ۱۷۲)
’’اے لوگو! رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جو بھی کسی ظالم حاکم کو دیکھے جو محرمات الٰہی کو پامال کررہا ہو، عہد خدا کو توڑ رہا ہو۔۔۔ لوگوں کے ساتھ ظلم و جور سے پیش آرہا ہو۔ اگر کوئی یہ سب دیکھ کر خاموش رہے اور اس کے خلاف قول و فعل سے مخالفت نہ کرے تو خدا پر حق ہے کہ اسے آتش دوزخ کے حوالے کرے۔ ‘‘
چونکہ یزید ظالم تھا اپنے آباؤ اجداد کی روش پر چلتے ہوئے بلکہ ظلم و نا انصافی کے راستے میں ان سے قدم آگے بڑھاتے ہوئے کمزوروں کو دبانا چاہتا تھا حق کو مٹانے کے درپے تھا، ظلم کی بنیادوں کو مضبوط کرکے انسانیت کوشرمسار کررہا تھا، انسانوں کو علی الاعلان انسانی حقوق سے محروم کرنا چاہ رہا تھا۔ حتیٰ محترم رشتوں کے تقدس کو بھی تار تار کررہا تھا ایسے میں امام حسینؑ نے اس کے خلاف قیام کرکے اسلامی مزاج کو پہچنوا دیا:’’عَلَی الْإِسْلَامِ السَّلَامُ إِذْ قَدْ بُلِیتِ الْأُمَّةُ بِرَاعٍ مِثْلِ یزِیدَ (لہوف،ص۲۴؛ مقتل مقرم،ص۱۳۳ )؛ اگر یزید جیسے ظالم و جابر اور فاسق و فاجر حاکم اسلامی کے عنوان سے سامنے آئیں تو ایسے اسلام ہی کا فاتحہ پڑھ دینا چاہیے۔ یعنی نبیؐ کے لائے ہوئے دین اسلام میں یزید جیسوں کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔
لہذا تمہاری انسانیت کا تقاضا ہے کہ نہ ظلم کرو نہ ظالم کو ظلم کرنے دو۔ جس حد تک ظلم کے خلاف آواز بلند کرسکتے ہو آواز بلند کرو۔ ظلم و نا انصافی کے خلاف آواز اٹھا کر اپنی حد تک کوششیں کرکے اپنے انسان ہونے کا ثبوت دو۔
(۵) حریت و آزادی:
انسان کو اللہ نے آزاد پیدا کیا ہے حتیٰ کہ اسے مخلوق کی حاکمیت سے بھی آزاد رکھتے ہوئے نظام حکومت و حاکمیت اپنے ہاتھ میں رکھا ہے کہ حاکم بنانا اس کا کام ہے تاکہ انسانی عزت و وقار باقی رہے اور انسان کسی اپنے جیسے کا محکوم نہ بنے۔اسی لیے اگر اس نے نبی و رسول اپنی جانب سے معین کیے تو آخری رسول کے بعد جانشین رسول و خلیفۂ رسول کو بھی اپنی ہی جانب سے معین کیا جس کا سلسلہ قیام تک جاری و ساری رہے گا۔
 امام حسینؑ کےقیام کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ عزت انسانی کا تقاضا حریت و آزادی ہے۔ یہ انسان کی انسانیت کے خلاف ہے کہ وہ غلامی والی زندگی گزارے اور باطل کا غلام رہے۔ یہ عظمت انسانی سے سازگاری نہیں رکھتا کہ انسان اپنے خالق حقیقی کے علاوہ کسی اور کی عبادت و پرستش کرے۔ شرافت انسانی کا تقاضا ہے کہ وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑا نہ جائے۔ چاہے وہ جسمانی غلامی ہو یا فکری غلامی ۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: لاَ تَكُنْ عَبْدَ غَيْرِكَ .وَقَدْ جَعَلَكَ اللهُ حُرّا (نہج البلاغہ)، کسی غیر کے غلام نہ بنو اللہ نے تو تم کو آزاد پیدا کیا ہے۔
 لہٰذا امام حسینؑ نے قیام کرکے تمام آزاد پسند انسانوں کو پیغام دیا کہ اپنی انسانی عزت و شرافت کا خیال کرتےہوئے اپنے کو غلامی سے آزاد رکھو۔ حریت و آزادی تو تمہارا سرمایہ ہے کسی باطل کی غلامی سے بہتر ہے جام شہادت نوش کرلینا: مَوْتٌ فی عِزٍّ خیرٌ مِنْ حَیاةٍ فی ذلّ۔ (بلاغۃ الحسین، ص 141)، ’’ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے‘‘۔ لَیْسَ المَوْتُ فی سبیلِ العِزِّ الاّ حیاةٌ خالِدَةً و لیستِ الحیاةُ معَ الذُّلِّ الاّ الموت الذی لاحیاةَ مَعَهُ.(احقاق الحق، ج 11، ص 60)، عزت کے لیے موت کو گلے لگاناتو حیات جاوید حاصل کرنا ہے اور ذلت کے ساتھ زندگی ایسی موت ہے جس کے ساتھ حیات کا تصور نہیں‘‘۔ اگر اسی حریت و آزادی کےلئے سخت سے سخت امتحان سے بھی گزرنا پڑے تو گزر جاؤ تاکہ اپنی شناخت باقی رکھ سکو۔اس لیے کہ: ما اَهوَنَ الموتُ علی سبیل نَیل العزّ و احیاءِ الحقِّ.(امام حسینؑ۔احقاق الحق، ج 11، ص 60)بقائے عزت اور احیائے حق کی راہ میں موت تو انتہائی آسان ہے۔
 اگر کربلا کے حریت و آزادی کے پیغام کے اثرات کا مشاہدہ کرنا ہے تو دور حاضر میں ہمارے سامنے دو واضح اور بہت ہی روشن نمونے موجود ہیں ایک طرف ایران کااسلامی انقلاب جہاں بقول بانی انقلاب ’’ ماہرچہ داریم از محرم و صفر است‘‘ آج ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ عزاداری اور پیغام کربلا کا نتیجہ ہے اسی پیغام کربلا کو سامنے رکھ کر ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کے چنگل سے نجات حاصل کرنے کےلئے اسلامی انقلاب ایران کی شکل میں حریت و آزادی کا تحفہ پیش کیا ہے تو دوسری طرف وطن عزیز ہندوستان کی آزادی ہے جہاں بقول مہاتما گاندھی: ہم نے کربلا کو سامنے رکھ کر ہندوستان کو آزاد کرایا ہے۔ یعنی ہندوستان نے بھی اگر انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کی ہے تو یہ بھی کربلا سے درس لینے کا نتیجہ ہے۔ کربلا آج بھی ہر انسان کو آواز دے رہی ہے کہ کسی کے غلام نہ رہو۔ غلامی تمہاری انسانی شرافت کے خلاف ہے حتیٰ کہ تم کو کسی باطل کی فکری غلامی سے بھی اپنے کو نجات دلانا ہے، کلچر و ثقافت، راہ و روش، طور طریقہ بھی ایسا ہی اپناؤ جو خدائی اور خدا والوں کا ہو اگر اس کو چھوڑ کر کوئی اور کلچر اور طریقہ اختیار کرو تو یہ بھی غلامی ہے لہذا اس سے بچو۔
اور اگر آزادی والی زندگی چاہتے ہو ، اگر عز ت و شرافت والی زندگی چاہتے ہو، اگر غلامی والی زندگی سے بچنا چاہتے ہو تو کربلا کو سامنے رکھو۔ جہاں بہتر نے ہزاروں کے مقابلے گلے تو کٹادیئے لیکن اپنے کو غلامی سے آزاد رکھا۔ اور دنیا میں پیغام حریت دیکر زندۂ جاوید بن گئے۔
(۶) اتحاد و یکجہتی:
’’انسان‘‘ کا ایک مطلب ’’انس رکھنے والا‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔ اپنے جیسوں سے لگاؤ، آپس میں ایک دوسرے سے مانوس ہونا، ایک دوسرے کی فکر کرنا جس کا لازمہ ہے آپسی اختلافات سے دوری۔ انسانیت کا مطلب یہی ہوگا کہ آپس میں اتحاد و یکجہتی رکھنے والا۔ قرآن کریم ’’ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا‘‘ (سورہ آل عمران، آیت۱۰۳) ’’اور اللہ کی ر سّی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو‘‘،کہہ کر اتحاد کا پیغام دے رہا ہے۔ پیغمبر اسلامﷺ نے ’’المسلم اخو المسلم‘‘(فتح الباری شرح بخاری، کتاب المظالم، باب لایظلم المسلم المسلم، ح۲۳۱۰)کہہ کر تمام مسلمانوں کو آپس میں متحد رہنے اور اختلافات سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔ 
دنیا کے تمام مذاہب اختلاف و جھگڑے کو اچھا نہیں سمجھتے۔ کربلا میں حسین ابن علی علیہماالسلام نے بھی امت کو اتحاد و یکجہتی کا پیغام دیا۔ یہ امت میں اتحاد و یکجہتی کا نہ ہونا ہی تھا کہ یزید جیسا فاسق و فاجر نواسۂ رسول ﷺ کے قتل کا درپے ہوگیا اور دوسری طرف ۷۲ افراد اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہزاروں کے مقابلے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اسلام و انسانیت کی حفاظت کو یقینی بناگئےاور یزید کو اس کے مشن میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ کربلا میں یہ حسین ابن علی علیہماالسلام کا ایک کارنامہ ہی تو تھا کہ ۱۰ محرم الحرام ۶۱ ہجری سے پہلے تک مختلف نظریات ، مختلف افکار، مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو کربلا میں لاکر ایک بنا دیا، اب کربلا میں دیکھنے میں تو بہتر تھے لیکن سب کا مشن ایک، سب کا مقصد ایک، سب کا نظریہ ایک، بلکہ سب ایک تھے۔
عزاداریٔ امام حسین علیہ السلام کابہت بڑا پیغام اتحاد و یکجہتی ہے، اور کربلا کی قربانی کی یاد منانے کا مقصد بھی امام حسین علیہ السلام کی اس سیرت اتحاد کو نگاہوں میں رکھنا اور اس پر عمل پیرا ہونا ہے۔ گویا عزاداری، مجالس، جلوس، فرش عزا، امام باڑے، انجمنیں؛ غرض امام حسینؑ سے متعلق تمام چیزیں آپسی اتحاد کا ذریعہ ہیں۔ اس سے ہٹ کر کہیں اور اختلاف و دوریاں ہوسکتی ہیں لیکن نام حسینؑ، فرش عزا پر، انجمن و جلوس عزا میں ہرگز اختلاف و دوری نہیں ہوسکتی۔ عزاداری اس لیے بھی کرنا ہے کہ امام حسینؑ کے تمام ماننے والوں کے درمیان اتحاد قائم و ہمدلی قائم رہے، فرش عزا پر اس لیے بھی بیٹھنا ہے کہ یہاں بیٹھ کر نام حسینؑ پر دلوں سے کدورتیں و نفرتیں، کینہ و بغض کو نکال سکیں۔
 حسین بن علیؑ کا پیغام یہ بھی تو ہوگا کہ میں نے کربلا میں علوی و غیر علوی، عیسائی و عثمانی، صغیر و کبیر، آقا و غلام ؛ سب کو ایک مرکز پر جمع کرکے سب کو ایک بناکر دنیا کے سامنے عملی سیرت پیش کردی۔ یہاں دیکھنے میں تو ۷۲ ہیں لیکن سب ایک ہیں۔ یہاں کسی طرح کا اختلاف نہیں ہے ۔ لہذا اگر کسی نام پر تمام لوگ اکٹھا ہوسکتے ہیں تو وہ نام حسینؑ ہے اور اگر کسی جگہ پر آکر سارے اختلافات ختم کیے جاسکتے ہیں تو وہ کربلا ہے۔ اتحاد ہر دور کی ضرورت ہے۔ دشمن سب سے زیادہ اختلاف سے فائدہ اٹھاتا ہے، انسانیت کے دشمنوں کو ناکام کرنے کے لیے تمام انسانوں کے درمیان اتحاد ضروری ہے، اسلام دشمن طاقتوں کو مایوس کرنے کے لیے مسلمانوں میں اتحاد لازم ہے اور دشمنان اہل بیتؑ و دشمنان ولایت کو انکے مقاصد میں ناکام کرنے کے لیے مومنین کے درمیان اتحاد و اتفاق ضروری ہے ۔ ہم نام حسینؑ پر، فرش عزا پر، جلوس عزا و انجمنوں میں متحد ہوکر، اپنے تمام اختلافات ختم کرکے ثابت کریں کہ ہم واقعی حسینی اور حقیقی عزادار ہیںاور ہم دشمنان عزا و دشمنان اہل بیتؑ کو ان کے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔  ہم آپس میں تمام اختلافات کو مٹاکر، اپنے دلوں سے کینہ و نفرت نکال کر، ہر حسینی و ہر علوی کو اپنا سمجھ کر دشمن عزا کو بھی مایوس کریں گے، دشمن ولایت کو بھی اس کے مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ خخخ
شہید ظلم کلیجے ہلا دیئے تونے
حسینؑ درد کے دریا بہا دئیے تونے 
ہر ایک ذرّۂ بے حس میں اِک تڑپ بھردی
دماغ وضع کیے دل بنا دئیے تونے
(علامہ نجمؔ آفندی)
x
x

بدھ، 12 اگست، 2020

’’انوارِ بصیرت‘‘

 باسمہ تعالیٰ

’’انوارِ بصیرت‘‘

امام حسین علیہ السلام کے خطبۂ منیٰ کے تناظر میں

سید محمد حسنین باقری، لکھنؤ  


مقدمہ :

 سرکار سید الشہداء حضرت اباعبداللہ الحسین علیہ السلام نے کربلا کے عظیم الشان انقلاب سے قبل (۵۸ھ؁ یا ۵۹ھ میں )میدان منیٰ (مکہ) میں حج کے دوران ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔ یہ خطبہ جسے ’’خطبۂ مِنیٰ‘‘ بھی کہا جاتا ہے،اس وقت کی سیاسی و دینی اہم شخصیات، علماء و عمائدین قوم کے سامنے بیان ہوا ۔ اس خطبہ کےپہلے حصے میں آپؑ نے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی عظمت و فضیلت کی جانب خصوصی اشارہ فرمایا گویا یہ اعلان کردیا کہ پیغمبر اکرمﷺ کے بعد حالات کی ابتری، مسلمانوں کی ناگفتہ بہ حالت، کربلا جیسے واقعہ کے مقدمات فراہم ہونا ، مسلمانوں کا قتل عام اور جگر خوارہ کی اولادوں کے مسند خلافت تک پہنچنے کی وجہ لوگوں کا امام علی علیہ السلام کے حق سے چشم پوشی اور اللہ و رسول کے صریحی حکم کے باوجود آپؑ کو چھوڑ دینا تھا، اسی خطبہ میں آپ نے حاکم شام کی ریشہ دوانیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے گویا کربلا کا ایک ایجنڈہ بھی پیش کیا اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کی اہمیت نیز علماء کی ذمہ داریوں و انکی کوتاہیوں کے نقصانات کی جانب متوجہ کرکے واضح فرما دیا کہ یہاں تک نوبت پہنچنے کی ایک وجہ علماء و دانشور اور عمائدین ملت کی کوتاہیاں اور اپنے وظیفہ پر عمل نہ کرنا ہے ، آپؑ نے ایک مناسب اور حساس موقع پر اسلام کی تقریبا ایک ہزار مختلف مذہبی شخصیات، بنی‌ہاشم، صحابہ، مہاجرین و انصار کے مرد اور خواتین افراد کو مخاطب بناتے ہوئے لوگوں کو حقائق سے آگاہ فرمایا، انکو انکی ذمہ داریوں کی جانب متوجہ کیا اور رہتی دنیا تک آنے والے افراد کو پیغام دے دیا۔ علماء و عمائدین ملت اور سرکردہ شخصیات کو مخاطب بناکر ان کی ذمہ داریوں و کوتاہیوں کی جانب متوجہ کرنے میں یہ اشارہ بھی مضمر رہا ہوگا کہ وفات پیغمبرؐ کے بعد سے ابتک اور آئندہ رونما ہونے والے واقعات و حالات میں کس حد تک ان افراد کا دخل ہے، اگر یہ گروہ اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرے ، اپنے وظائف کو سمجھے، باطل کا آلۂ کار نہ بنے تو اسلام و مسلمین کی یہ حالت نہ ہوجو ہوئی یا آئندہ ہوگی ۔ چاہے پیغمبر ﷺ کے بعد پچیس سالہ دور خلافت ہو یا امیرالمومنین علیہ السلام کا پانچ سالہ ظاہری دور حکومت ، امام حسن مجتبیٰ ؑ کے دور کے حالات ہوں یا پھر آہستہ آہستہ کربلا کی طرف بڑھتے ہوئے قدم ؛ ان سب میں بہت بڑا قصور اس خاص گروہ کا بھی رہا ہے جس نے اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کیا، یہ گروہ باطل کا آلۂ کار بن گیا، جن لوگوں کو سماج کو سچے و حقیقی ہادی کی طرف راہنمائی کرنی چاہیے تھی اس نے معمولی سے مفاد کے لیے باطل کی نہ صرف حمایت کی بلکہ سادہ لوح عوام کو بھی باطل کے دروازے پر لاکھڑا کیا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار

اس خطبہ کو علماء نے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے:

پہلے حصہ میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اور اپنے خاندان عصمت و طہارت کی فضیلت اور ان آیات و روایات کا بیان جن میں اہل بیت علیہم السلام خاص کر امام علیؑ کی افضیلت بیان ہوئی ہے۔ 

 دوسرے حصہ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی طرف دعوت اور اسلام میں اس وظیفہ کی اہمیت۔

تیسرے حصہ میں ستمگروں اور مفسدین کے خلاف قیام کرنے کو علماء کی اہم ذمہ داری قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف علماء کے سکوت اور خاموشی کے نقصانات اور علماء کی جانب سے اس الہی وظیفہ کی انجام دہی میں سہل انگاری کے بھیانک نتائج کو پیش فرمایا ہے۔

البتہ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ امامؑ نے پہلا حصہ الگ اور دوسرا و تیسرا حصہ الگ موقع پر ارشاد فرمایا ہے۔ دلیل اس کی یہ بیان کی ہے کہ دونوں حصوں کے مضامین اور مخاطب مختلف ہیں۔( تاریخ قیام و مقتل جامع سیدالشہداء،گروہی از تاریخ‌پژوہان، ج۱، ص۳۹۴،حاشیہ ۱) اسی وجہ سے بعض کتابوں میں دونوں خطبے الگ الگ بیان ہوئے ہیں۔

خطبہ کے منابع: 

یہ خطبہ جن کتابوں میں نقل ہوا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں:

۱۔ سلیم بن قیس ہلالی (۹۰ ہجری ) نے اپنی کتاب کے صفحہ ۲۰۶ پر مطالب کی مناسبت سے صرف پہلے حصے کو نقل کرتے ہوئے اس خطبہ کے زمان و مکان کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔

۲۔ حسن بن شعبہ حرّانی جو چوتھی صدی کے محدثین میں سے ہیں انھوں نے تحف العقول، ص۱۶۸  میں دوسرے اور تیسرے حصے کو ذکر کیا ہے۔ 

۳۔ علامہ مجلسیؒ نے بھی بحار الانوار، جلد ۱۰۰، صفحہ ۷۹، حدیث ۳۷ میں تحف العقول سے دوسرے اور تیسرے حصے کو نقل کیا ہے۔

۴۔ احمد بن علی طبرسی (متوفیٰ ۵۸۸ھ) نے اس خطبے کے اسباب و علل - جو کہ معاویہ کی حد سے زیادہ ظلم و زیادتی تھی - کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خطبے کا خلاصہ‌ چند سطروں میں نقل کیا ہے۔ وہ تصریح کرتے ہیں کہ معاویہ کی وفات کے دو سال قبل مِنیٰ میں کم از کم ہزار سے زیادہ مذہبی شخصیات کے سامنے امام حسین علیہ السلام نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا ہے۔( سخنان حسین بن علی از مدینہ تا کربلا، نجمی، ص۳۴۱-۳۴۲؛ دیکھیے: الاحتجاج،طبرسی، ج۲، ص۱۷) 

۵- فیض کاشانیؒ اور آیت الله شہیدی تبریزی نے بھی اس خطبے کے آخری دو حصوں کو تحف العقول سے نقل کیا ہے لیکن پہلے حصے یا خطبہ دیئے جانے کے مقام اور اس کی تاریخ کی جانب کوئی اشارہ نہیں کیا۔( بحارالانوار ۔ نیا ایڈیشن ۔ج ۱۰۰ ۔ص ۷۹، وافی ۔ باب الحث، علی الامربالمعروف والنہی عن المنکر ۔ حاشیۂ مکاسب بحث ولایت فقیہ)۔

۶-مرحوم علامہ امینیؒ نے الغدیر میں پہلے حصے کے چند جملات درج کیے ہیں جن میں امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل بیان ہوئے ہیں ۔( الغدیر ۔ ج ۱۔ ص ۹۹ ۱)۔

۷۔ علامہ مصطفیٰ موسوی حائریؒ نے امام حسینؑ کے خطبات و خطوط اور کلمات پر مشتمل اپنی کتاب بلاغۃ الحسینؑ میں تینوں حصوں کو د وخطبوں کے طور پر پیش کیا ہے۔

۸-ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی آیت الله العظمیٰ سید روح الله خمینی رضوان الله تعالی علیہ نے ولایت فقیہ کی بحث کی مناسبت سے اور علمائے دین کی ذمہ داریوں کو بیان کرتے ہوئے اس خطبے کے آخری دو حصے تحف العقول سے نقل کیے ہیں ( ولایت فقیہ ۔ ص ۵ ۱۲ ) لیکن تحف العقول کے مصنف اور اسی طرح مرحوم فیض کاشانی ا ور علامہ مجلسی کے برخلاف آپ نے واضح طور پر لکھا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے یہ خطبہ دوسرا اور تیسرا حصہ منیٰ میں ارشاد فرمایا ۔

(۱)  روشنگری کے لیے خواص کو  دعوت اور  وقت پر اقدام 

پیغمبر اکرم ﷺ کی نگاہ میں خواص کون لوگ ہیں؟: 

رسول اکرمﷺ نے فرمایا: میری امت کے عوام اس وقت تک صالح نہیں ہو سکتے اور اسوقت تک انکی اصلاح نہیں ہوسکتی جب تک خواص صالح نہ ہوں اور جب تک ان کی اصلاح نہ ہو۔ ایک شخص نے سوال کرلیا: امت کے خواص کون لوگ ہیں؟ فرمایا:’’خَوَاصُ اُمَّتِي اَرْبَعَۃٌ: اَلْمُلُوکُ وَ الْعُلَماءُ وَ الْعُبَّادُ وَ التُّجَّارُ‘‘ میری امت کے خواص چار گروہ ہیں: صاحبان اقتدار و کرسی نشین افراد، علماء ودانشوران، عبادت گزار اور تاجر و صاحبان ثروت و دولت۔

ایک شخص نے پھر سوال کیا کہ کس طرح ؟ تو فرمایا:’’اَلْمُلُوکُ رُعَاۃُ الْخَلْقِ؛ فَإِذَا کَانَ الرَّاعِي ذِئْباً فَمَنْ یَرْعَی الْغِنَمَ؟ وَ الْعُلَمَاءُ أَطِبَّاءُ الْخَلْقِ فَإِذَا کَانَ الطَّبِیبُ مَرِیضاً فَمَنْ یُدَاوِی الْمَریِضَ؟ وَ الْعُبَّادُ دَلیِلُ الْخَلْقِ فَإِذَا کَانَ الدَّلِیلُ ضَالّاً فَمَنْ یَهْدِی السَّالِکَ؟ وَ التُّجَّارُ اُمَنَاءُ اللهِ فِي الْخَلْقِ فَإِذَا کَانَ الْأَمِینُ خَائِناً فَمَنْ یُعْتَمَدُ‘‘(المواعظ العددیہ، محمد بن محمد عیناثی، نشر طلیعہ نور، قم،۱۳۸۴ ش، طبع اول، ص۱۲۵)۔ 

’’صاحبان اقتدار امت کے رکھوالے اور محافظ ہوتے ہیں،جب محافظ ہی بھڑیا ہوجائے تو بکریوں کی حفاظت کون کرے گا۔ علماء امت کے طبیب ہوتے ہیں ، جب ڈاکٹر ہی مریض ہو تو بیمار کا علاج کون کرے گا۔ عبادت گزار، لوگوں کے راہنما ہوتے ہیں اگر رہنما ہی گمراہ ہو تو راستہ چلنے والوں کی رہنمائی کون کرے گا۔ اور تجار لوگوں کے امین ہوتے ہیں اور جب امین ہی خائن ہوجائے تو کس پر بھروسہ کیا جائے گا‘‘۔  

قرآن کی نگاہ میں خواص کی حسّاس موقعیت

قرآن کریم خواص کی ذمہ داری اور انکی اہمیت کو قابل توجہ انداز میں پیش کرتا ہے: بطور نمونہ:

۱۔ انسان کے عقیدہ اور کلچر و ثقافت کے سلسلے میں سب سے بڑی خیانت علماء و خواص کی عمدی تحریف اور جان کر ذاتی مصلحت کی وجہ سے انجان بن جانا ہے:’’یقُولُونَ عَلَی اللَّهِ الْکذِبَ وَ هُمْ یعْلَمُون‘‘  (آل عمران، ۷۸)۔’’یہ خدا کے خلاف جھوٹ بولتے ہیں حالانکہ سب جانتے ہیں‘‘۔

۲۔ سماج کی تمام خبریں اور معلومات سے آگاہ ہونا سب کے لیے نہیں بلکہ بعض معاملات میں صرف خواص کو مطلع ہونا چاہیے: ’’فَلا تَبْتَئِس‘‘۔(سورہ یوسف، آیت ۶۹)۔’’رنج و افسوس نہ کرنا‘‘۔

۳۔ منافقین ہمیشہ خواص و اہل حق کے درمیان تشکیک ایجاد کرنے اور تفرقہ ڈالنے کی کوشش کیا کرتے ہیں چونکہ جانتے ہیں کہ سماج میں خواص کیا اثر رکھتے ہیں: ’’وَ مِنْهُمْ مَنْ یسْتَمِعُ إِلَیک حَتَّی إِذا خَرَجُوا مِنْ عِنْدِک قالُوا لِلَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْم مَاذَا قَالَ آنِفَاً؟‘‘(سورہ محمدؐ، آیت۱۶)۔

’’اور ان میں سے کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو آپ کی باتیں بظاہر غور سے سنتے ہیں اس کے بعد جب آپ کے پاس سے باہر نکلتے ہیں تو جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے ان سے کہتے ہیں کہ انہوں نے ابھی کیا کہا تھا‘‘۔

امام حسین علیہ السلام کی خواص پر توجہ

تاریخ نے ثابت کیاہے کہ ہر امت کے خواص بسا اوقات حقائق سے صحیح طور پر آگاہ ہونے اور صحیح تحلیل و تجزیہ سے بے نیاز نہیں ہوتے ، اس لیے کہ صرف سیاسی یا دینی اعتبار سے خاص بن جانے سے وہ لوگ ہر چیز سے آگاہ نہیں ہوجاتے بلکہ ضرورت ہوتی ہے کہ مختلف طریقوں سے حقائق تک پہنچیں، باصلاحیت افراد اکٹھا ہوکر تجزیہ و تحلیل کے ذریعہ شعور و بصیرت میں اضافہ کریں۔ 

امام حسین ؑ کے خطبۂ منیٰ کی روشنی میں خواص تک حقائق پہنچانے کےلیے مندرجہ ذیل نکات کی طرف توجہ ضروری ہے:

۱۔ واقعہ کے وجود میں آنے سے قبل خواص کو یکجا کرکے مسئلہ کو واضح کیا جائے ورنہ فتنہ کے وجود میں آنے کے بعد معلوم نہیں وہ کیا کربیٹھیں، جیسا کہ امام حسین علیہ السلام نے واقعہ کربلا سے کئی سال قبل، معاویہ کے زمانے ہی میں اہم شخصیات کو جمع کرکے یہ خطبہ ارشاد فرمایا:’’فَلَمَّا کانَ قَبْلَ مَوْتِ مُعَاوِیة بِسَنَةِ حَجَّ الحُسَینُ بْنُ عَلِی صَلَوَاتُ اللهِ عَلَیْهِ... فَجَمَعَ الْحُسَینُ (علیه السلام) بَنِی هَاشمٍ‘‘ ۔

’’مرگ معاویہ سے ایک سال قبل امام حسین علیہ السلام حج پر تشریف لے گئے ۔۔۔آپؑ نے جو بنی ہاشم حج پر تھے انھیں جمع کیا ‘‘تاکہ روشنگری کا آغاز یہاں سے کریں۔

۲۔ بصیرت پیدا کرنے والے اجتماعات کو دین محور اور علمائے دین کی راہنمائی میں انجام پانا چاہیے ورنہ صحیح نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ جیسا کہ امام حسین علیہ السلام نے تقریباً سات سو مذہبی و دینی مشہور شخصیات اور دو سو انصار کو جمع کیا اور اس بصیرت افزا خطبہ کو دینی بنیادوں کے مطابق بیان فرمایا:’’أَرْسَلَ رُسُلًا لَا تَدَعُوا أَحَداً مِمَّنْ حَجَّ الْعَامَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ (قدس سره) الْمَعْرُوفِينَ بِالصَّلَاحِ وَ النُّسُک إِلَّا اجْمَعُوهُمْ لِي فَاجْتَمَعَ إِلَیهِ بِمِنًی أَکثَرُ مِنْ سَبْعِمِائَة رَجُلٍ وَ هُمْ فِي سُرَادِقِهِ عَامَّتُهُمْ مِنَ التَّابِعِینَ وَ نَحْوٌ مِنْ مِائَتَي رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِي (قدس سره)‘‘ 

افراد کو روانہ کیا اور فرمایا: اصحاب پیغمبرؐ میں جو نیکی اور عبادت میں مشہور ہیں اور اس سال حج پر آئے ہوئے ہیں انمیں سے کوئی بھی رہنے نہ پائے ان سب کو میرے پاس لاؤ۔ منیٰ میں آنحضرتؑ کے پاس خیمہ میں سات سو لوگ جو اکثر تابعین تھے اور دوسو اصحاب پیغمبرؐ  جمع ہوئے۔ 

۳۔ اسلامی امت کے شعور و بصیرت میں اضافہ کے حوالہ سے کوشش وسرگرمی کو امت کے بہترین افراد کے ذریعہ، بہترین جگہ پر اور بہترین وقت میں ہونا چاہیےکہ اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ حضرت اباعبداللہ الحسین علیہ السلام نے حج کے موسم کو اس امر کے لیے انتخاب فرمایا: ’’فَجَمَعَ الْحُسَینُ (علیه السلام) بَنِی هَاشِمٍ رِجَالَهُمْ وَ نِسَاءَهُمْ وَ مُوَالِیهُمْ وَ شِیعَتَهُمْ مَنْ حَجَّ مِنْهُمْ وَ مِنَ الْأَنْصَارِ مِمَّنْ یعْرِفُهُ الْحُسَینُ (علیه السلام) وَ أَهْلُ بَیتِه‘‘

’’پس آپؑ نے بنی ہاشم کے مرد و زن، ان کے ماننے والوں اور شیعوں میں جو لوگ حج پر آئے ہوئے تھے،نیز انصار میں جو لوگ امام حسینؑ اور آپ کے اہل بیتؑ سے وابستہ تھے سب کو جمع کیا۔‘‘ 

۴۔ دعوت دینے میں اولیت و ترجیح ان افراد کے لیے ہے جو سماج و امت مسلمہ کی اصلاح کی فکر رکھتے ہیں ، وہ اپنی مختصر عبادت حلقۂ درس پر اکتفا نہیں کرتے اور اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو اہمیت دیتے ہیں: ’’أَرْسَلَ رُسُلًا لَا تَدَعُوا أَحَداً مِمَّنْ حَجَّ الْعَامَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ (قدس سره) الْمَعْرُوفِينَ بِالصَّلَاحِ وَ النُّسُک إِلَّا اجْمَعُوهُمْ لِي‘‘( بحار الأنوار، ج۳۳، ص۱۸۲، باب ۱۷)۔ 

نتیجہ: سماج اور پیش آنے والے واقعات میں خواص کے کردار و موقعیت سے غافل نہ ہونا چاہیے۔ یہاں تک کہ عام مجالس و تقریروں میں بھی خواص کی جانب توجہ رہے، انھیں دعوت دی جائے اور انکی بصیرت افزائی کی جائے۔

(۲)  حق گوئی کا اقرار اور اعلان

قرآن کی نگاہ میں حق شناسی کی ضرورت اور اس کی پیروی

قرآن کریم نے حق شناسی، حق گوئی اور حق کی تلاش کے حوالے سے گفتگو کی ہے، بعض نکات کی جانب اشارہ کیا جارہا ہے:

۱۔ حتی کہ وہ لوگ جو اولیاء خدا ہیں ان کے لیے بھی ضروری ہے کہ راہ حق پر باقی رہنے اور نور ہدایت میں اضافہ کے لیے دعا کریں: 

’’وَالَّذِینَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدی‘‘ (سورہ محمد ؐ، آیت ۱۷)۔ ’’اور جن لوگوں نے ہدایت حاصل کرلی خدا نے ان کی ہدایت میں اضافہ کردیا‘‘۔

۲۔ مہر و محبت تم کو راہ حق سے منحرف نہ کرنے پائے: ’’شُهَداءَ لِلَّهِ وَ لَوْ عَلی أَنْفُسِکم أَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْأَقْرَبِینَ‘‘ (نساء، آیت۱۳۵)۔ 

 ’’اور اللہ کے لئے گواہ بنو چاہے اپنی ذات یا اپنے والدین اور اقربا ہی کے خلاف کیوں نہ ہو‘‘۔

۳۔ قرآن کی نگاہ میں حق کے آگے تسلیم نہ ہونا سفاہت و نادانی ہے: ’’إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهاءُ‘‘ (بقرہ، ۱۳)۔’’یہی بے وقوف ہیں‘‘۔

۴۔ منافقین وہ لوگ ہیں جو حق سننے سے بہرے، حق دیکھنے سے اندھے اور حق کہنے سے گونگے ہیں۔ لہذا یہ لوگ حق کی جانب پلٹ نہیں سکتے: ’’صُمٌّ بُکمٌ عُمْی فَهُمْ لا یرْجِعُون‘‘(بقرہ، ۱۸)۔’’یہ سب بہرے گونگے اور اندھے ہوگئے ہیں اور اب پلٹ کر آنے والے نہیں ہیں‘‘۔

۵۔ جو حق کی پیروی نہ کریں وہ جانور سے بدتر ہیں: ’’أُولئِک کالْأَنْعامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولئِک هُمُ الْغافِلُونَ‘‘ (سورہ اعراف، آیت ۱۷۹)۔

 ’’یہ چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں اور یہی لوگ اصل میں غافل ہیں‘‘۔

حق شناسی اور حق کی پیروی کے سلسلے میں امام محمد تقی علیہ السلام کی دعا

حق شناسی اور حق گوئی کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ امام جواد علیہ السلام اپنی دعا میں فرماتے ہیں: ’’اللَّهُمَّ أَرِنِي الْحَقَّ حَقّاً فَأَتَّبِعَهُ وَ أَرَنِي البَاطِلَ بَاطِلاً حَتَّی أَجْتَنِبَهُ‘‘ (بحار الانوار، ج۹۹، ص۲۱)۔ ’’خدایا مجھے حق اس طرح دکھا دے کہ اسکی پیروی کروں اور باطل سے اس طرح آگاہ کردے کہ اس سے اپنے کو بچا سکوں ‘‘۔

روایات کی روشنی میں حق گوئی

حق گوئی اور حق شناسی کے سلسلے میں روایات میں کثرت سے تذکرہ ہوا ہے۔ صرف دونمونے پیش ہیں:

۱۔ بہترین جہاد و مقابلہ یہ ہے کہ ظالم کے سامنے بھی حق بات ہی کہی جائے۔ نبی اعظم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’أَفْضَلُ الْجَهَادِ کلِمَة حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ‘‘ (عوالی اللئالی، محمد بن زین الدین، ابن ابی جمہور، نشر دار سید الشہداء، قم، ج۱، ص ۴۳۳)۔ ’’بہترین جہاد یہ ہے کہ ظالم حاکم کے سامنے بھی حق بات ہی کہی جائے۔ ‘‘، وہاں چاپلوسی، مفاد پرستی یا خوف کو بالائے طاق رکھ کر حق بات کہی جائے اس لیے کہ سب سے بڑا حاکم تو خدا ہے۔  

۲۔ سب سے بڑا متقی و پرہیزگار وہ ہے جو ہر حال میں حق بات کہے چاہے اس کا فائدہ ہو یا نقصان۔ پیغمبر ﷺ فرماتے ہیں: ’’أَتْقَی النَّاسِ مَنْ قَالَ الْحَقَّ فِي مَا لَهُ وَ عَلَیهِ‘‘(من لایحضرہ الفقیہ، محمد بن علی بن بابویہ، دفتر نشر اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ج۴، ص۳۹۴)۔ ’’سب سے بڑا متقی وہ ہے جو چاہے اس کا فائدہ ہو یا نقصان لیکن حق بات ہی کہے‘‘ ۔

مبارزہ و مقابلہ، حق گوئی اور تقوائے الہی کے درمیان مضبوط و مستحکم رابطہ پایا جاتا ہے۔ جب تک تقوائے الٰہی نہ ہو اس وقت تک حقیقی معنی میں حق گوئی نہیں ہوسکتی اور اہل تقویٰ کے مبارزہ کا پہلا قدم ظالمین کے سلسلے میں حق بیانی ہے، صرف اپنے کو متقی کہنے یا باتقوا ظاہر کرنے سے کوئی متقی نہیں ہوتا بلکہ اس کے کردار و عمل سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ وہ کیا ہے۔ 

حقیقت آشکار کرنے کے لیے امام حسین علیہ السلام کی خواص کو تاکید 

 ۱۔ ضروری ہے کہ ہمیشہ خداوندعالم کو حق و حقیقت کا مبدا و مظہر سمجھا جائےاور مبارزہ و مقابلہ کی ابتدا میں اور اس کے درمیان اسی سے مدد طلب کی جائے: ’’فَقَامَ فِيهِمُ الْحُسَینِ (علیه السلام) خَطِیباً فَحَمِدَ اللهَ وَ أثْنَی عَلَیهِ‘‘۔’’امام حسین علیہ السلام ان کے سامنے خطاب کے لیے کھڑے ہوئے، پھر خدا کی حمد و ثنا فرمائی۔‘‘

۲۔ خطرناک فتنہ کے درمیان حق کو بیان کرنے میں کلی گوئی، پردہ پوشی یا ابہام نہ ہو بلکہ واضح طور پر اصل مسئلہ کو لوگوں کے سامنے لایا جائے: ’’أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ هَذَا الطَّاغِیة قَدْ فَعَلَ بِنَا وَ بِشِیعَتِنَا مَا قَدْ رَأَیتُمْ وَ عَلِمْتُمْ وَ شَهِدْتُم‘‘۔

’’اما بعد! اس طاغوت و ستمگر نے ہمارے ساتھ اور ہمارے شیعوں کے ساتھ جو سلوک روارکھا ہے وہ تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا بھی ، جانتے بھی ہو اور اس کے گواہ بھی ہو‘‘۔

۳۔ اپنی ذمہ داری کو واضح کرنا:  اگر حق ہے تو اس کی تصدیق ہو اور اگر باطل ہے تو اس کی تکذیب ہو، ہر جگہ سکوت و کنارہ کشی ہی میں اپنی عافیت سمجھنا صحیح نہیں ہے: ’’فَإِنْ صَدَقْتُ فَصَدِّقُونِي وَ إِنْ کذَبْتُ فَکذِّبُونِي‘‘۔ ’’اگر میں سچ کہوں تو میری بات کی تصدیق کرو اور اگر صحیح نہ کہوں تو میری تکذیب کرو‘‘۔

۴۔ حق کا جاننا کافی نہیں ہے بلکہ حق کی تصدیق، اس کا بیان کرنا ، اس کی مدد کے لیے انصار جمع کرنا بھی ذمہ داری ہے: ’’وَصَفْتُمْ مَقَالَتِي وَ دَعَوْتُمْ أَجْمَعِینَ فِي أَنْصَارِکمْ مِنْ قَبَائِلِکمْ مَنْ أَمِنْتُمْ مِنَ النَّاسِ وَ وَثِقْتُمْ بِهِ فَادْعُوهُمْ إِلَی مَا تَعْلَمُونَ مِنْ حَقِّنَا‘‘ ۔ ’’میں نے اپنی بات تمہارے سامنے بیان کردی ہے جاؤ میری باتوں کو لوگوں کے سامنے پہنچاؤ، ہمارا جو حق جانتے ہو ان کو اسکی طرف دعوت دو۔‘‘

۵۔ گرچہ خداوندعالم نے حق کی حفاظت اور مدد کا وعدہ کیا ہے لیکن ہمارے لیے ضروری ہے کہ حق بیان کرنے اور اس کی مدد کرنےمیں کوتاہی نہ کریں۔ امام حسینؑ کو اس بات کی فکر تھی کہ کہیں حق پوشی لوگوں کی عادت نہ بن جائے جس کا نتیجہ حق کا مٹ جانا ہو: ’’فَإِنِّي أَتَخَوَّفُ أَنْ یدْرُسَ هَذَا الْأَمْرُ وَ یذْهَبَ الْحَقُّ وَ یغْلَبَ وَ اللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَ لَوْ کرِهَ الْکافِرُون‘‘۔ مجھے خوف ہے کہ کہیں یہ (ولایت کا) معاملہ کہنہ ہوجائے ، حق مٹ جائےاور مغلوب ہوجائے۔ لیکن خداوندعالم تو اپنے نور کو کامل کرے گا چاہے کافروں کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے‘‘۔

نتیجہ: حق و حقیقت کو بیان کرنا اور اس کی تبلیغ بہت ہی اہمیت کی حامل ہے، اس میں باطل کی خوشنودی کی ہرگز پرواہ نہ ہو،نہ اپنے ذاتی مفاد نگاہوں میں ہوں حتی حق بیانی میں نہ کوئی مروت ہو نہ لگی لپٹی بلکہ واضح و آشکار بیان کیا جائے۔ اسی لیے حضرتؑ نے خواص کو خدا و رسولؐ اور اپنی ان سے قرابت کی قسم دی تاکہ وہ اس سے غفلت نہ کریں اَن سُنی نہ کردیں۔

(۳) ہم کیوں شیعہ ہیں؟

حضرت اباعبداللہ الحسین علیہ السلام نے اپنے خطبہ میں لوگوں کو ولایت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی حقیقت کی جناب متوجہ فرمایا اور آپ کی سترہ فضیلتوں کو بیان کیا اور حضار نے ان منحصر بفرد صفات و فضائل کی تائید و تصدیق بھی کی۔ مذکورہ صفات جو ہم شیعوں کے لیے انتہائی اہم سند بھی شمار ہوتے ہیں مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ پیغمبر ﷺ کے بھائی اور ہم پیمان:

’’أَنْشُدُکمُ اللَّهَ أَ تَعْلَمُونَ أَنَّ عَلِي بْنَ أَبِی طَالِبٍ (علیه السلام) کانَ أَخَا رَسُولِ اللَّهِ حِینَ آخَی بَینَ أَصْحَابِهِ فَآخَی بَینَهُ وَ بَینَ نَفْسِهِ وَ قَالَ: أَنْتَ أَخِي وَ أَنَا أَخُوک فِي الدُّنْیا وَ الْآخِرَة ؟ قَالُوا اللَّهُمَّ نَعَم‘‘۔

’’تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں: کیا تم نہیں جانتے کہ جب رسول الله ﷺ نے اپنے اصحاب کے درمیان رشتۂ اخوت قائم فرمایا تو اس وقت آنحضرتؐ نے علی ابن ابی طالب کو اپنا بھائی قرار دیاتھااورفرمایا تھا کہ دنیا اور آخرت میں تم میرے اور میں تمہارا بھائی ہوں؟۔ سامعین نےکہا : بارالہا ! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔‘‘

۲۔ گھر کے دروازے کا بند نہ کرنا:

’’أَنْشُدُکمُ اللَّهَ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ (قدس سره) اشْتَرَی مَوْضِعَ مَسْجِدِهِ وَ مَنَازِلِهِ فَابْتَنَاهُ ثُمَّ ابْتَنَی فِيهِ عَشَرَة مَنَازِلَ تِسْعَۃ لَهُ وَ جَعَلَ عَاشِرَهَا فِي وَسَطِهَا لِأَبِي ثُمَّ سَدَّ کلَّ بَابٍ شَارِعٍ إِلَی الْمَسْجِدِ غَیرَ بَابِهِ فَتَکلَّمَ فِي ذَلِک مَنْ تَکلَّمَ فَقَالَ: مَا أَنَا سَدَدْتُ أَبْوَابَکمْ وَ فَتَحْتُ بَابَهُ وَ لَکنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي بِسَدِّ أَبْوَابِکمْ وَ فَتْحِ بَابِه‘‘

’’ تمہیں خدا کی قسم دے کے پوچھتا ہوں، کیا تم جانتے ہو کہ رسول الله ﷺ نے اپنی مسجد اور اپنے گھروں کے لئے جگہ خریدی۔ پھرمسجد تعمیر کی اور اس میں دس گھر بنائے۔ نو گھر اپنے لئے اور دسواں وسط میں میرے والد علیؑ کے لئے رکھا۔ پھر میرے والد کے دروازے کے سوا مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کروا دیئے۔ اور جب اعتراض کرنے والوں نے اعتراض کیا تو فرمایا : میں نے تمہارے دروازے بند نہیں کئے اور علیؑ کا دروازہ کھلارکھا، بلکہ الله نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہارے دروازے بند کروں اور علیؑ  کادروازہ کھلا رکھوں۔؟ سب نے بیک زبان کہا: خداکو گواہ بناکر کہتے ہیں کہ یہ بات سچ ہے۔ 

۳۔ مسجد، امام علیؑ کا گھر تھا:

’’ثُمَّ نَهَی النَّاسَ أَنْ ینَامُوا فِي الْمَسْجِدِ غَیرَهُ؛ وَ کانَ یجْنِبُ فِي الْمَسْجِدِ وَ مَنْزِلُهُ فِي مَنْزِلِ رَسُولِ اللَّهِ (قدس سره) فَوُلِدَ لِرَسُولِ اللَّهِ (قدس سره) وَ لَهُ فِيهِ أَوْلَادٌ قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَم‘‘۔

 اس کے بعد نبی اکرم ﷺ نے علی علیہ السلام کے سوا تمام لوگوں کو مسجد میں سونے سے منع فرمادیا۔ چونکہ حضرت علیؑ کا حجرہ مسجد میں رسول الله ﷺ کے حجرے کے ساتھ ہی تھا لہذا علیؑ مسجد میں شب خوابی فرماتے اور اسی حجرے میں نبی اکرم ﷺ اور علی علیہ السلام کو الله تعالی نے اولاد یں عطا کیں؟ 

سب نے جواب دیا: ہاں، ایسا ہی ہے۔‘‘

۴۔ مسجد میں سکونت کا صرف امام علیؑ کو حق:

’’أَ فَتَعْلَمُونَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ حَرِصَ عَلَی کُوَّة قَدْرَ عَینِهِ یدَعُهَا مِنْ مَنْزِلِهِ إِلَی الْمَسْجِدِ فَأَبَی عَلَیهِ ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَبْنِي مَسْجِداً طَاهِراً لَا یسْکنُهُ غَیرِي وَ غَیرُ أَخِي وَ ابْنَیهِ ۔قَالُوا: اللَّهُمَّ! نَعَم‘‘۔

’’ کیا تم جانتے ہو کہ عمر ابن خطاب نے بہت چاہا کہ انکے گھر کی دیوار سے مسجد میں ایک سوراخ رہے تاکہ وہ مسجد کے اندر دیکھ سکیں لیکن پیغمبرﷺ نے اس کی اجازت نہیں دی؟ کیا پیغمبر ﷺ نے اپنے خطبہ میں یہ نہیں فرمایا تھا کہ: چونکہ خداوند عالم نے آپؐ کو پاک و طاہر مسجد بنانے کا حکم دیا ہے اس لیے میرے اور علیؑ اور انکی اولادوں کے سوا کوئی اس مسجد میں سکونت نہیں کرسکتا؟ سب نے جواب دیا: خدا گواہ ہے بالکل ایسا ہی ہے‘‘۔

۵۔ لوگوں کو امام علیؑ کی ولایت پہنچانے کا حکم :

’’أَنْشُدُکمُ اللَّهَ أَ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ (قدس سره) نَصَبَهُ یوْمَ غَدِیرِ خُمٍّ فَنَادَی لَهُ بِالْوَلَایۃ وَ قَالَ لِیبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ! نَعَم‘‘۔

’’تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے غدیر خم کے دن علیؑ کو بلند کیا اور انہیں مقام ولایت پر نصب کرنے کااعلان فرمایا۔ اور کہا کہ یہاں حاضرلوگ اس واقعے کی اطلاع یہاں غیر موجود لوگوں تک پہنچا دیں؟ سب نے جواب دیا: ہاں سچ ہے‘‘۔

۶۔ حدیث منزلت:

’’أَنْشُدُکمُ اللَّهَ أَ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ  (قدس سره) قَالَ لَهُ فِي غَزْوَۀ تَبُوک أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَة هَارُونَ مِنْ مُوسَی وَ أَنْتَ وَلِيُّ کلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ! نَعَمْ‘‘۔

’’ تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہارے علم میں ہے کہ رسول الله ﷺ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر علی علیہ السلام سے فرمایا : تم میرے لئے ایسے ہی ہو جیسے موسٰی کے لئے ہارون اور فرمایا تم میرے بعد تمام مومنوں کے ولی اور سرپرست ہو؟۔ سامعین نے کہا : بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا‘‘۔

۷۔ واقعہ مباہلہ:

’’أَنْشُدُکمُ اللَّهَ أَ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ  (قدس سره) حِینَ دَعَا النَّصَارَی مِنْ أَهْلِ نَجْرَانَ إِلَی الْمُبَاهَلَة لَمْ یأْتِ إِلَّا بِهِ وَ بِصَاحِبَتِهِ وَ ابْنَیهِ؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ! نَعَم‘‘۔

’’تمہیں الله کی قسم دے کر پوچھتاہوں کہ جب رسول الله ﷺ نے نجران کے عیسائیوں کو مباہلے کی دعوت دی، تو اپنے ساتھ، سوائے علیؑ، ان کی زوجہ اور ان کے دو بیٹوں کے کسی اور کو نہیں لے گئے؟

 سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا‘‘۔

۸۔ کرّار غیر فرّار:

’’أَنْشُدُکمُ اللَّهَ أَ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ دَفَعَ إِلَیهِ اللِّوَاءَ یوْمَ خَیبَرَ ثُمَّ قَالَ لَأَدْفَعُهُ إِلَی رَجُلٍ یحِبُّهُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ یحِبُّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ کرَّارٍ غَیرِ فَرَّارٍ یفْتَحُهَا اللَّهُ عَلَی یدَیهِ؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ! نَعَمْ‘‘۔

’’ تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسول اکرم ﷺ نے جنگ خیبرکے دن لشکر اسلام کا پرچم حضرت علیؑ کے سپرد کیا اور فرمایا کہ میں پرچم اس شخص کے سپرد کر رہا ہوں جس سے الله اور اس کا رسول محبت کرتے ہیں اور وہ الله اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ ایسا حملہ کرنے والا کرار ہے کہ کبھی پلٹتا نہیں، غیرفرار ہے۔ اور خدا قلعہ خیبرکو اس کے ہاتھوں فتح کرائے گا۔؟

سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا‘‘۔

نتیجہ: ہم اپنی حقانیت کی دلیلوں کے تذکر و یاددہانی کے محتاج ہیں، عقائد و اصول کو ہر کچھ عرصہ میں حتی بزرگان دین و سیاست کو بھی یاددہانی کرانا چاہیے، ان مسائل میں سب سے اہم اپنی شیعیت کی دلیلیں ہیں۔ اس لیےکہ فتنہ گروں سے مبارزہ و مقابلہ کا جذبہ ہماری شیعی بنیادوں کے سایہ میں اپنا خاص اثر رکھتی ہے۔ 

۹۔ حکم پیغمبرﷺ سے اکیلے سورۂ برائت کی تبلیغ کرنے والے:

’’أَ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ  (قدس سره) بَعَثَهُ بِبَرَاءَة وَ قَالَ لَا یبَلِّغُ عَنِّي إِلَّا أَنَا أَوْ رَجُلٌ مِنِّي؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ! نَعَمْ‘‘۔

’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله ﷺ نے علی علیہ السلام کو سورۂ برائت دے کر بھیجا اور فرمایا کہ :میرا پیغام پہنچانے کا کام خود میرے یا ایسے شخص کے علاوہ جو مجھ سے ہو اور کوئی انجام نہیں دے سکتا؟

لوگوں نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ یہ بات سچ ہے۔‘‘

۱۰۔ رسول اکرمﷺ کی سختیوں کے وقت کے تنہا ساتھی اور معتمد:

’’أ َتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ (قدس سره) لَمْ ینْزِلْ بِهِ شِدَّة قَطُّ إِلَّا قَدَّمَهُ لَهَا ثِقَة بِهِ وَ أَنَّهُ لَمْ یدَعْهُ بِاسْمِهِ قَطُّ إِلَّا یقُولُ یا أَخِي، وَ ادْعُوا إِلَی أَخِي ؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ! نَعَم‘‘۔

’’ کیا تم جانتے ہو کہ رسول الله ﷺ کو جب کبھی کوئی مشکل پیش آتی تھی تو آنحضرت حضرت علیؑ پر اپنے خاص اعتمادکی وجہ سے انہیں آگے بھیجتے تھے اور کبھی انہیں ان کے نام سے نہیں پکارتے تھے ، بلکہ اے میرے بھائی کہہ کر مخاطب کرتے تھے؟ سامعین نے کہا : بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا‘‘۔

۱۱۔ مومنین کے ولی و سرپرست:

’’أَ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ (قدس سره) قَضَی بَینَهُ وَ بَینَ جَعْفَرٍ وَ زَیدٍ فَقَالَ یا عَلِی أَنْتَ مِنِّي وَ أَنَا مِنْک وَ أَنْتَ وَلِي کلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ! نَعَم‘‘۔

’’ کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله ﷺ نے علی علیہ السلام، جعفر اور زید کے درمیان فیصلہ سناتے وقت فرمایا : اے علی! تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں اور میرے بعد تم تمام مومنوں کے ولی اور سرپرست ہو گے؟ لوگوں نے کہا :بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا‘‘۔

۱۲۔ رسول ﷺ کے تنہا ہمنشین و مصاحب:

’’أَ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ کانَتْ لَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ (قدس سره) کلَّ یوْمٍ خَلْوَة وَ کلَّ لَیلَة دَخْلَة إِذَا سَأَلَهُ أَعْطَاهُ وَ إِذَا سَکتَ ابْدَأَهُ؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ! نَعَم‘‘۔

’’ کیا تم جانتے ہو کہ وہ حضرت علیؑ ہر روز، ہرشب تنہائی میں رسول الله ﷺ سے ملاقات کرتے تھے۔ اگر علیؑ سوال کرتے تو نبی اکرم ﷺ اس کا جواب دیتے اور اگر علی علیہ السلام خاموش رہتے تو نبیؐ خود سے گفتگو کا آغاز فرماتے؟

 سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بناکر کہتے ہیں کہ ہاں! بالکل صحیح ہے‘‘۔

۱۳۔پیغمبر ﷺ کی دامادی کا شرف:

’’ أَ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ (قدس سره) فَضَّلَهُ عَلَی جَعْفَرٍ وَ حَمْزَة حِینَ قَالَ لِفَاطِمَة زَوَّجْتُک خَیرَ أَهْلِ بَیتِي أَقْدَمَهُمْ سِلْماً وَ أَعْظَمَهُمْ حِلْماً وَ أَکبَرَهُمْ عِلْماً ؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ! نَعَم‘‘۔

’’ کیا تمہیں علم ہے کہ رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر حضرت علی علیہ السلام کو جعفر طیار اور حمزہ سید الشہدا پر فضیلت دی ،جب حضرت فاطمہؑ سے مخاطب ہو کر فرمایا : میں نے اپنے خاندان کے بہترین شخص سے تمہاری شادی کی ہے ، جو سب سے پہلےاسلام لانے والا، سب سے زیادہ حلیم وبردبار اور سب سے بڑھ کر علم و فضل کا مالک ہے۔؟

سامعین نے کہا: بارالہا! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا‘‘۔

۱۴۔ عظیم الشان خاندان سے عرب کے سید و سالار:

’’أَ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ (قدس سره) قَالَ أَنَا سَیدُ وُلْدِ آدَمَ وَ أَخِي عَلِيٌّ سَیدُ الْعَرَبِ وَ فَاطِمَة سَیدَة نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنّة وَ ابْنَايَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَینُ سَیدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّة؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ! نَعَمْ‘‘۔

’’فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمام اولاد آدم کا سیدوسردار ہوں ، میرا بھائی علی عربوں کا سردار ہے، فاطمہ تمام اہل جنت خواتین کی رہبر ہیں اور میرے بیٹے حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔؟

 سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔‘‘۔

۱۵۔ پیغمبر اسلام ﷺ کی تجہیز و تکفین کے تنہا مامور:

’’أَ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ (قدس سره) أَمَرَهُ بِغُسْلِهِ وَ أَخْبَرَهُ أَنَّ جَبْرَئِیلَ (علیه السلام) یعِینُهُ عَلَیْهِ؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ! نَعَم‘‘۔

’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله ﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہی ان کے جسد اقدس کو غسل دیں اور فرمایا کہ جبرئیل اس کام میں ان کے معاون و مددگار ہوں گے؟

 سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا‘‘۔

۱۶۔ نبی اعظم ﷺ کی بیش قیمت امانت:

’’أَ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ (قدس سره) قَالَ فِي آخِرِ خُطْبَةٍ خَطَبَهَا إِنِّي قَدْ تَرَکتُ فِيکمُ الثَّقَلَینِ کتَابَ اللَّهِ وَ أَهْلَ بَیتِي فَتَمَسَّکوا بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ! نَعَم‘‘۔

’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں فرمایا : میں تمہارے درمیان دو گرانقدر امانتیں چھوڑے جا رہا ہوں ۔ الله کی کتاب اور میرے اہل بیت۔ ان دونوں کومضبوطی سے تھامے رہو تاکہ گمراہ نہ ہو جاؤ؟

 سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا‘‘۔

۱۷۔ پیغمبر ﷺ سے دوستی اور حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتی:

’’ثُمَّ قَدْ نَاشَدَهُمْ أَنَّهُمْ قَدْ سَمِعُوهُ یقُولُ: مَنْ زَعَمَ أَنَّهُ یحِبُّنِي وَ یبْغِضُ عَلِیاً فَقَدْ کذَبَ، لَیسَ یحِبُّنِي وَ یبْغِضُ عَلِیاً، فَقَالَ لَهُ: قَائِلٌ یا رَسُولَ اللَّهِ! وَ کیفَ ذَلِک؟ قَالَ: لِأَنَّهُ مِنِّي وَ أَنَا مِنْهُ [مَنْ أَحَبَّهُ فَقَدْ أَحَبَّنِي] وَ مَنْ أحَبَّنِي فَقَدْ أحَبَّ اللهَ وَ مَنْ أَبْغَضَهُ فَقَدْ أَبْغَضَنِي وَ مَنْ أَبْغَضَنِي فَقَدْ أَبْغَضَ اللَّهَ، فَقَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ‘‘۔(بحار الانوار و کتاب سلیم ابن قیس ہلالی)

اس کے بعد جب امیر المومنینؑ کے فضائل پر مشتمل امامؑ کی گفتگو اختتام کو پہنچنے لگی تو آپ نے سامعین کو خداکی قسم دے کر کہا کہ : ’’کیا انہوں نے رسول الله ﷺ سے یہ سنا ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا : جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے، جبکہ علیؑ کا بغض اس کے دل میں ہوتو وہ جھوٹا ہے، ایسا شخص جو علیؑ سے بغض رکھتا ہو، مجھ سے محبت نہیں رکھتا۔ اس موقع پر کسی کہنے والے نے کہا کہ یا رسول الله یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ رسول الله ﷺ نے فرمایا : کیونکہ وہ علیؑ مجھ سے ہیں اور میں علیؑ سے ہوں۔ جس نے علیؑ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے الله سے محبت کی اور جس نے علیؑ سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے مجھ سے دشمنی کی اس نے الله سے دشمنی کی ۔ 

سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا‘‘۔

لہذا ناممکن ہےکہ کسی بھی حالت میں مکتب حقہ اور اس کے اصول سے پیچھے ہٹا جائے اور اپنی اساس و بنیاد کو فراموش کردیا جائے۔حق کا محور و مرکز ذات مولائے متقیانؑ ہے ان کے سلسلے میں کسی طرح کی کوتاہی حق سے محرومی اور باطل کے سامنے آنے کا سبب ہوگی۔ ذی الحجہ اور محرم کا مہینہ ولایت کے ساتھ عہد و پیمان کی تجدید اور اپنی شیعیت کی تجدید کا موقع ہم سب بالخصوص خواص کے لیے ہے۔صرف تشیع کی عظیم تعلیمات کی روشنی ہی میں ہم اپنے وظائف پر صحیح طور پر عمل کرسکتے ہیں۔لہذا امام حسین علیہ السلام قیام عاشور سے چند سال قبل امت کے خواص کے درمیان اہم جلسہ میں ان مسائل کی یاددہانی فرماتے ہیں جو مکتب اسلام کی اساس و بنیاد شمار ہوتے ہیں۔

(۴) علمائے یہود کے برے انجام سے عبرت:

امام حسین علیہ السلام نے خطبہ کے اس حصہ میں امت کے خواص کے سامنے علمائے یہود کے برے انجام کو پیش فرمایا تاکہ یہ لوگ اس انجام کا شکار نہ ہوں۔ اس جگہ اس بحث کے پیش کرنے سے پہلے قرآن کی نگاہ میں علمائے یہود کے انجام کو پیش کرنا شائد مناسب ہو:

قرآن کی نگاہ میں علمائے یہود کا تعارف:

دینی منابع بالخصوص قرآن میں علمائے یہود کے حوالے سے کافی تذکرہ موجود ہے۔ اجمالی نگاہ کے لیے مندرجہ ذیل موارد پیش کیے جارہے ہیں:

۱۔ باجودیکہ پیغمبر ﷺ کو اپنے درمیان اور اپنوں کی اولاد ہی سمجھتے تھے پھر بھی اپنے علم کے برخلاف آپؐ کی تکذیب کرتے: ’’وَ لَمَّا جاءَهُمْ رَسُولٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِما مَعَهُمْ نَبَذَ فَریقٌ مِنَ الَّذینَ أُوتُوا الْکتابَ کتابَ اللَّهِ وَراءَ ظُهُورِهِمْ کأَنَّهُمْ لا یعْلَمُونَ‘‘۔(سورہ بقرہ، آیت ۱۰۱)

’’اور جب ان کے پاس خدا کی طرف سے سابق کی کتابوں کی تصدیق کرنے والا رسول آیا تو اہل کتاب کی ایک جماعت نے کتاب خدا کو پسِ پشت ڈال دیا جیسے وہ اسے جانتے ہی نہ ہوں‘‘۔

۲۔ علمائے یہود نے کچھ یہودیوں اور منافقین کو پیغمبرﷺ کے پاس بھیجا اور خود روبرو ہونے سے خودداری کی: ’’یا أَیهَا الرَّسُولُ لا یَحْزُنْک الَّذینَ یسارِعُونَ فِي الْکفْرِ مِنَ الَّذینَ قالُوا آمَنَّا بِأَفْواهِهِمْ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوبُهُمْ وَ مِنَ الَّذینَ هادُوا سَمَّاعُونَ لِلْکذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرینَ لَمْ یأْتُوک یحَرِّفُونَ الْکلِمَ مِنْ بَعْدِ مَواضِعِهِ یقُولُونَ إِنْ أُوتیتُمْ هذا فَخُذُوهُ وَ إِنْ لَمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا وَ مَنْ یرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَنْ تَمْلِک لَهُ مِنَ اللَّهِ شَیئاً أُولئِک الَّذینَ لَمْ یرِدِ اللَّهُ أَنْ یطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ لَهُمْ فِي الدُّنْیا خِزْی وَ لَهُمْ فِي الْآخِرَۀ عَذابٌ عَظیمٌ‘‘(مائدہ، ۴۱)۔

’’اے رسول ایمان کا دعویٰ کرنے والوں میں جو لوگ کفر کی طرف جلد بازی سے بڑھ رہے ہیں ان کی حرکات سے آپ رنجیدہ نہ ہوں -یہ صرف زبان سے ایمان کا نام لیتے ہیں اور ان کے دل مومن نہیں ہیں اور یہودیوں میں سے بھی بعض ایسے ہیں جو جھوٹی باتیں سنتے ہیں اور دوسری قوم والے جو آپ کے پاس حاضر نہیں ہوئے انہیں سناتے ہیں - یہ کلمات کو ان کی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ اگر پیغمبر کی طرف سے یہی دیا جائے تو لے لینا اور اگر یہ نہ دیا جائے تو پرہیز کرنا اور جس کے فتنہ کے بارے میں خدا ارادہ کرلے اس کے بارے میں آپ کا کوئی اختیار نہیں ہے یہ وہ افراد ہیں جن کے بارے میں خدا نے یہ ارادہ ہی نہیں کیا کہ زبردستی ان کے دلوں کو پاک کردے گا -ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی عذابِ عظیم ہے‘‘۔

۳۔ علمائے یہود رشوت خور تھے: ’’سَمَّاعُونَ لِلْکذِبِ أَکالُونَ لِلسُّحْتِ فَإِنْ جاؤُک فَاحْکمْ بَینَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ وَ إِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ یضُرُّوک شَیئاً وَ إِنْ حَکمْتَ فَاحْکمْ بَینَهُمْ بِالْقِسْطِ إِنَّ اللَّهَ یحِبُّ الْمُقْسِطینَ‘‘(مائدہ، ۴۲)۔

’’یہ جھوٹ کے سننے والے اور حرام کے کھانے والے ہیں لہذا اگر آپ کے پاس مقدمہ لے کر آئیں تو آپ کو اختیار ہے کہ فیصلہ کردیں یا اعراض کرلیں کہ اگر اعراض بھی کرلیں گے تو یہ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے لیکن اگر فیصلہ ہی کریں تو انصاف کے ساتھ کریں کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘۔

۴۔ وہ لوگ توریت کی زیادہ تر باتوں کو یا مخفی کرتے یا تحریف کرتے تھے: ’’وَ ما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قالُوا ما أَنْزَلَ اللَّهُ عَلی بَشَرٍ مِنْ شَی ءٍ قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْکتابَ الَّذی جاءَ بِهِ مُوسی نُوراً وَ هُدی لِلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَراطیسَ تُبْدُونَها وَ تُخْفُونَ کثیراً وَ عُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا أَنْتُمْ وَ لا آباؤُکمْ قُلِ اللَّهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ فی خَوْضِهِمْ یلْعَبُونَ‘‘(انعام، ۹۱)۔

’’اور ان لوگوں نے واقعی خدا کی قدر نہیں کی جب کہ یہ کہہ دیا کہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ نہیں نازل کیا ہے تو ان سے پوچھئے کہ یہ کتاب جو موسٰیؑ لے کر آئے تھے جو نور اور لوگوں کے لئے ہدایت تھی اور جسے تم نے چند کاغذات بنادیا ہے اور کچھ حصّہ ظاہر کیا اور کچھ چھپادیا حالانکہ اس کے ذریعہ تمہیں وہ سب بتادیا گیا تھا جو تمہارے باپ دادا کو بھی نہیں معلوم تھا یہ سب کس نے نازل کیا ہے اب آپ کہہ دیجئے کہ وہ وہی اللہ ہے اور پھر انہیں چھوڑ دیجئے یہ اپنی بکواس میں کھیلتے پھریں‘‘۔

۵۔ فتنہ و فساد اور انحراف کے موقع پر خاموش رہتے تھے اور اپنے وظیفہ پر عمل نہیں کرتے تھے: ’’لَوْ لا ینْهاهُمُ الرَّبَّانِیونَ وَ الْأَحْبارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَ أَکلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ ما کانُوا یصْنَعُونَ‘‘(مائدہ، ۶۳)۔

’’آخر انہیں اللہ والے اور علماء ان کے جھوٹ بولنے اور حرام کھانے سے کیوں نہیں منع کرتے -یہ یقینا بہت برا کررہے ہیں‘‘۔

قرآن اور امام حسین علیہ السلام کے کلام میں تعیّنی خطاب

علمائے یہود سے قرآن کا خطاب، خطاب تعیّنی ہے (تعلیقہ بر بحار الانوار، سید محمد حسین طباطبایی، نشر احیای تراث، قم، چاپ اول، ج ۳، ص ۸۲) لہذا توجہ دینا چاہیے کہ اس سے بے اعتنا نہیں ہوا جاسکتا اور غفلت نہیں برتی جاسکتی۔ اگر حق کی پائمالی کے مقابلہ سکوت حرام ہے تو صرف علمائے یہود کے لیے ہی حرام نہیں ہے بلکہ تمام اہل علم کے لیے حرام ہے۔

امام حسین علیہ السلام نے بھی اسی روش کو بروئے کار لاتے ہوئے قرآن کی آیات کے مطابق علمائے یہود کی حالت بیان کرکے موجود افراد اور قیامت تک آنے والے تمام علمائے اسلام کو متوجہ کیا کہ بعض مواقع پر علماء کی بے جا خاموشی اور اپنے علم کا ظاہر نہ کرنا ایسے انحراف کا سبب ہوتا ہے کہ جس کے نقصانات تاریخ میں موجود ہیں۔ لہذا یہ علماء کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ جہاں پر ضرورت ہو ، جہاں فتنہ و فساد، اختلافات و دشمنیاں سراٹھا رہی ہوں، جہاں استعمار کے آلۂ کا ردین میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہوں، جہاں سادح لوح افراد کو ورغلا کر دین سے دور کیا جارہا ہو، جہاں مصلحین کے خلاف ماحول تیار کیا جارہا ہو وہاں سکوت و کنارہ کشی کے بجائے اپنے وظیفہ پر عمل کرتے ہوئے سامنے آئیں۔

امام حسین علیہ السلام کی نگاہ میں علماء کی خاموشی کی مذمت اور دلیل

 واضح ہے کہ ہر مذہب کے علماء کی لاپرواہی اور بے جا سکوت کا نقصان عام لوگوں کے گناہ کی طرح نہیں ہے بلکہ اس سے بہت زیادہ ہے اس لیے کہ ان کا سکوت خود مذہب کو نقصان پہنچاتا اور اس کی بنیادوں کو ختم کردیتا ہے۔ لہذا امامؑ نے خطبہ منیٰ میں فرمایا:’’اعْتَبِرُوا أَیهَا النَّاسُ بِمَا وَعَظَ اللَّهُ بِهِ أَوْلِیاءَهُ مِنْ سُوءِ ثَنَائِهِ عَلَی الْأَحْبَارِ إِذْ یقُولُ:  (لَوْ لا ینْهاهُمُ الرَّبَّانِیونَ وَ الْأَحْبارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ‘‘(مائدہ، ۶۳) ’’وَ قَالَ:  (لُعِنَ الَّذِینَ کفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرائِیلَ‘‘(مائدہ، ۷۸) ’’ إِلَی قَوْلِهِ:  (کَانُوا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنْکَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ ما کانُوا یفْعَلُون‘‘(مائدہ، ۷۹)(بحار الانوار، ج۱۰۰، ص۷۹)۔

’’اے لوگو! خدا نے علمائے یہود کی مذمت کی شکل میں جو نصیحت اپنے اولیاء و چاہنے والوں کو کی ہے اس سے عبرت حاصل کرو، اس لیے کہ خدا کا اعلان ہے:’آخر انہیں اللہ والے اور علماء ان کے جھوٹ بولنے اور حرام کھانے سے کیوں نہیں منع کرتے ‘، اور کہا: ’بنی اسرائیل میں سے کفر اختیار کرنے والوں پر لعنت کی جاچکی ہے‘،یہاں تک ارشاد خداوندی ہوا:’انہوں نے جو برائی بھی کی ہے اس سے باز نہیں آتے تھے اور بدترین کام کیا کرتے تھے‘ ،‘‘۔

امام حسین علیہ السلام نے آیت کی وضاحت میں فرمایا: علماء کے بے جا سکوت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر ترک کردینے کی وجہ یا تو ظالموں کے مفاد و منافع ہوتے ہیں یا ان سے خوف ہوتا ہے:’’رَغْبَة فِيمَا کانُوا ینَالُونَ مِنْهُمْ وَ رَهْبَۃ مِمَّا یحْذَرُون، وَ انَّمٰا عٰابَ الله ذٰلکَ عَلَیْھم لاَنَّھمْ کٰانوْا یَرَونَ منَ الظَّلَمَة الَّذیْنَ بَیْنَ اَظْھَرھم الْمنْکَرَ وَ الْفَسٰادَ فَلاٰ یَنْھَوْنَھمْ عَنْ ذٰلکَ رَغْبَةً فیمٰا کٰانوْا یَنٰالوْنَ منْھمْ وَ رَھْبَةً ممّٰا یَحْذَروْنَ وَ الله یَقوْل : فَلاَ تَخْشَوا النّٰاسَ وَ اخْشَوْن وَ قٰالَ : الْمؤْمنوْنَ وَ الْمؤْمنٰات بَعْضھمْ اَوْلیآء بَعْضٍ یامروْنَ بالْمَعْروْف وَ یَنْھَوْنَ عَن الْمنْکَر فَبَدَءَ الله باْلأَمْر بالْمَعْروْف وَ النَّھْی عَن الْمنْکَر فَریضَةً منْہ لعلْمہ باَنَّھٰا اذٰا ادّیَتْ وَ اقیْمَتْ اسْتَقٰامَت الْفَرائض کلّھٰا ھَیَّنھٰا وَ صَعْبھٰا وَ ذٰلکَ أَنَّ اْلاَمْرَ بالْمَعْروْف وَ النَّھْیَ عَن الْمنْکَر دعٰاءٌ الیٰ اْلاسْلاٰم مَعَ رَدّ الْمَظٰالم وَ مخٰالَفَة الظّٰالم وَ قسْمَة الْفَیء وَ الْغَنٰائم وَ اَخْذ الصَّدَقٰات منْ مَوٰاضعھٰا وَ وَضْعھٰا فی حَقّھٰا‘‘

درحقیقت الله تعالیٰ نے اس لئے انہیں برا قرار دیا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے یہ دیکھنے کے باوجود کہ ظالمین کھلم کھلا برائیوں کو پھیلا رہے ہیں ، ان ظالموں کو اس عمل سے باز رکھنے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ انہیں،ان ظالموں کی طرف سے ملنے والے مال و متاع سے دلچسپی تھی اور ان کی طرف سے پہنچ سکنے والی سختیوں سے خوفزدہ تھے۔ جبکہ خداوند متعال کا ارشاد ہے کہ: لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ اور پروردگار نے فرمایا ہے: مومنین اور مومنات ایک دوسرے کے دوست اور سرپرست ہیں، اچھائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں ۔اس آیت کریمہ میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے الله تعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے آغاز کیا اور اسے اپنی طرف سے واجب قرار دیا کیونکہ پروردگار جانتا ہے کہ اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انجام پائے اور معاشرے میں برقرار رکھا جائے تو تمام واجبات، خواہ وہ آسان ہوں یا مشکل، خودبخود انجام پائیں گے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جائے اور ساتھ ہی مظلوموں کو انکے حقوق لوٹائے جائیں، ظالموں کی مخالفت کی جائے ،عوامی دولت اور مال غنیمت عادلانہ نظام کے تحت تقسیم ہو، اور صدقات یعنی زکات اور دوسرے واجب اور مستحب مالیات کو صحیح مقامات سے وصول کر کے حقداروں پر خرچ کیا جائے۔‘‘

نتیجہ:امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سلسلے میں علماء کی ذمہ داری زیادہ ہے ، ممکن ہے سماج میں بہت سی برائیوں کے پھیلنے اور بدعتوں کے رائج ہونے کی وجہ اہل علم کا سکوت اور انکی بے توجہی ہو، اگر یہ سکوت برے و ظالم افراد کے خوف سے ہو تب بھی غلط ہے اور اگر ذاتی مفاد کی وجہ سے ہے تو بھی بُرا ہے۔ یعنی صحیح عالم ہی وہ ہوگا جو امربالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضے سے کبھی غافل نہ ہو، وہ صحیح بات کہنے، برائیوں کے خلاف قدم اٹھانے میں نہ تو کسی باطل طاقت سے خوف زدہ ہوتا ہے اور نہ کسی مفاد و خودغرضی کی وجہ سے باطل کی چاپلوسی کرتا ہے۔اُسے نہ کوئی طاقت حق بیانی سے روک سکتی ہے اور نہ مال دنیا باطل نوازی پر مجبور کرسکتی ہے۔  

(۵) علماء و دانشور حضرات کی سماجی موقعیت

امام حسین علیہ السلام نے اپنے اس خطبہ میں فرمایا:

 ’’ثُمَّ أَنْتُمْ أَیَّتُهَا الْعِصَابَةُ عِصَابَةٌ بِالْعِلْمِ مَشْهُورَةٌ وَ بِالْخَیرِ مَذْکورَةٌ وَ بِالنَّصِیحَةِ مَعْرُوفَةٌ وَ بِاللَّهِ فِي أَنْفُسِ النَّاسِ مَهَابَةٌ یهَابُکمُ الشَّرِیفُ وَ یکرِمُکمُ الضَّعِیفُ وَ یؤْثِرُکمْ مَنْ لَا فَضْلَ لَکمْ عَلَیهِ وَ لَا یدَ لَکمْ عِنْدَهُ تَشْفَعُونَ فی الْحوَائِجِ إِذَا امْتَنَعَتْ مِنْ طُلَّابِهَا وَ تَمْشُونَ فِي الطَّرِیقِ بِهَیبَةِ الْمُلُوک وَ کرَامَةِ الْأَکابِر‘‘( تحف العقول عن آل الرسولؐ، ابن شعبہ حرّانی، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ص۲۳۷)۔

’’اے وہ گروہ جو علم وفضل کے لئے مشہور ہے، جس کاذکر نیکی اور بھلائی کے ساتھ کیا جاتا ہے ، وعظ و نصیحت کے سلسلے میں تمہاری شہرت ہے اور الله والے ہونے کی بنا پر لوگوں کے دلوں پر تمہاری ہیبت و جلالت ہے ،یہاں تک کہ طاقتور تم سے خائف اور ضعیف و ناتواں تمہارا احترام کرتا ہے، حتیٰ وہ شخص بھی خود پر تم کو ترجیح دیتا ہے جس کے مقابلے میں تم  کو کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی تم اس پر قدرت رکھتے ہو ۔جب حاجت مندوں کے سوال رد ہو جاتے ہیں تو اس وقت تمہاری ہی سفارش کارآمد ہوتی ہے تم کو وہ عزت و احترام حاصل ہے کہ گلی کوچوں میں تمہارا گزر بادشاہوں کے سے جاہ و جلال اور اعیان و اشراف کی سی عظمت کے ساتھ ہوتا ہے‘‘۔

اس حصہ کی وضاحت سے علماء و دانشور حضرات کی معاشرتی حیثیت کو قرآن کی نگاہ میں اس طرح پیش کیا جاسکتا ہے:

قرآن اور علماء و دانشوروں کا مرتبہ

قرآن کریم جو خداوندعالم کی جانب سے نازل ہونے والی آخری کتاب ہے اس لیے اسمیں قیامت تک کی بشری ضرورتوں کو پیش کیا گیا ہے۔ انھیں میں علماء کی شان و منزلت بالخصوص علمائے دین جو شریعت کے مفسر و معلم ہیں انکے سلسلے میں چند شرطیں بیان کی گئی ہیں:

۱۔ معنوی مرتبہ کا حامل ہونا:

علماء کا پابند دین و شریعت ہونا سماج کو پروان چڑھاتا اور ترقی دیتا ہے تو دوسری طرف علماء ہی اگر پابند شریعت نہ ہوں اور کج روی کا شکار ہوں تو پورا سماج نقصان اٹھاتا اور لوگوں کی گمراہی کا سبب ہوتا ہے۔ قرآن کا اعلان ہے: ’’وَ آمِنُوا بِما أَنْزَلْتُ مُصَدِّقاً لِما مَعَکم وَ لا تَکونُوا أَوَّلَ کافِرٍ بهِ‘‘(سورہ بقرہ، آیت۴۱)۔

’’ہم نے جو قرآن تمہاری توریت کی تصدیق کے لئے بھیجا ہے اس پر ایمان لے آؤ اور سب سے پہلے کافر نہ بن جاؤ ‘‘۔

۲، علمی امانت داری:

قرآن کی نگاہ میں علماء آسمانی علوم کے امانت دار اور انبیائے الٰہی کے وارث ہوتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ وہ ہر طرح کی تحریف اور حق پوشی سے شدت سے اپنے کو بچائیں۔ قرآن کریم علمائے یہود کے ذریعہ تحریف اور حقائق چھپانے کے سلسلے میں فرماتا ہے: ’’أَ فتَطْمَعُونَ أَنْ یؤْمِنُوا لَکمْ وَ قَدْ کانَ فَرِیقٌ مِنْهُمْ یسْمَعُونَ کلامَ اللَّهِ ثُمَّ یحَرِّفُونَهُ منْ بعْدِ ما عَقَلُوهُ وَ هُمْ یعْلَمُونَ‘‘(بقرہ، ۷۵)۔

’’مسلمانو! کیا تمہیں امید ہے کہ یہ یہودی تمہاری طرح ایمان لے آئیں گے جبکہ ان کے اسلاف کا ایک گروہ کلامِ خدا کو سن کر تحریف کردیتا تھا حالانکہ سب سمجھتے بھی تھے اور جانتے بھی تھے‘‘۔

 ۳۔ کردار و گفتار میں صداقت:

علماء کے گفتار و کردار کی صداقت و درستگی معاشرہ کے افراد پر اتنا زیادہ اثر رکھتی ہے کہ قرآن مجید ان علماء کے بارے میں جو عوام کے بھروسے سے سوء استفادہ کرتے اور جھوٹ و مکر کے ذریعہ شہرت حاصل کرتے ہیں ان کے بارے تین مرتبہ کلمۂ ویل(وائے و افسوس اور عذاب ہو) استعمال کرتا ہے: ’’فَوَیلٌ لِلَّذِینَ یکتُبُونَ الْکتابَ بِأَیدِیهِمْ ثُمَّ یقُولُونَ هذا منْ عنْدِ اللَّهِ لِیشْتَرُوا بِهِ ثَمَناً قَلِیلًا فَوَیلٌ لَهُمْ مِمَّا کتَبَتْ أَیدِیهِمْ وَ وَیلٌ لَهُمْ ممَّا یکسبُونَ‘‘(بقرہ، ۷۹)۔

’’وائے ہو ان لوگوںپر جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھ کر یہ کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے تاکہ اسے تھوڑے دام میں بیچ لیں. ان کے لئے اس تحریر پر بھی عذاب ہے اور اس کی کمائی پر بھی‘‘۔

۴۔ حقائق نہ چھپانا:

حق کا چھپانا مختلف صورتوں میں ہوتا ہے۔ کبھی سکوت اور عدم اظہار حق کے ذریعہ، کبھی بےجا توجیہ کے ذریعہ اور کبھی عوام کو جزئیات میں الجھا کر اصلی مسائل سے غافل کردینے کے ذریعہ۔ البتہ بعض مواقع پر مومنین کے اسرار پوشیدہ رکھنے اور دینی بھائیوں کے عیوب چھپانے کی طرح کتمان واجب یا مستحب بھی ہوتا ہے۔(تفسیر نور، محسن قرائتی،ج۱، ص۲۴۶)

لیکن اس آیت: ’’إِنَّ الَّذِینَ یَکتُمُونَ ما أَنْزَلْنا مِنَ الْبَیناتِ وَ الْهُدی مِنْ بَعْدِ ما بینَّاهُ لِلناسِ فِي الْکتابِ أُولئِک یلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَ یلْعَنُهُمُ اللَّاعنُون‘‘(بقرہ، ۱۵۹)؛ ’’جو لوگ ہمارے نازل کئے ہوئے واضح بیانات اور ہدایات کو ہمارے بیان کردینے کے بعد بھی چُھپاتے ہیں ان پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں‘‘،میں جملۂ ’’ یَکتُمُونَ‘‘ جو استمرار پر دلالت کرتا ہے،یہ جملہ طول تاریخ میں حق و حقیقت کے کتمان کرنے والے تمام افراد کو شامل ہے۔ جس طرح سے خدا کی لعنت بھی ہمیشہ جاری رہنے والی ہے۔ کتمان کا گناہ زیادہ تر علماء ہی کی طرف سے ہے لہذا خدا نے اہل کتاب سے یہ عہد لیا کہ حقائق لوگوں کے سامنے بیان کریں اور کتمان نہ کریں: ’’وَ إِذْ أَخَذَ اللَّهُ میثاقَ الَّذِین أُوتُوا الْکتابَ لَتُبَینُنَّهُ لِلنَّاسِ وَ لا تَکتُمُونَهُ‘‘(آل عمران، ۱۸۷)۔

 ’’اس موقع کو یاد کرو جب خدا نے جن کو کتاب دی ان سے عہد لیا کہ اسے لوگوں کے لئے بیان کریں گے اور اسے چُھپائیں گے نہیں.‘‘ ۔

امام حسین علیہ السلام کے کلام میں علماء کے صفات

امامؑ نے اپنے خطبہ میں علماء کی سماجی اعتبارسے خوبیوں اور لوگوں کی ان کے بارے میں رائے کو اس طرح سے بیان فرمایا ہے:

۱۔ علمی شہرت: ’’بِالْعِلْمِ مَشْهُورَة‘‘ ۔ ’’علم و دانش میں مشہور‘‘۔ یعنی تم علمی شہرت رکھتے ہو اور لوگ اسی علم کے وجہ سے تمہاری طرف رجوع کرتے ہیں اور علمی معاملات میں تم پر بھروسہ کرتے ہیں۔یہ بھی نتیجہ ہے اس فریضہ کے انجام دینے والے کا صاحب علم ہونا اور اس کے علم کا ظاہر ہونا پہلی شرط ہے۔ 

۲۔ ذکر خیر: ’’بِالْخَیرِ مَذْکورَةٌ‘‘ ۔’’ نیکی و بھلائی سے یاد کیے جانے والے‘‘۔ یعنی لوگوں کے نزدیک اچھے ہو اور لوگ تم کو نیکی و بزرگی کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ اور جب نیک ہوگے تبھی نیکی سے یاد کیے جاؤ گے۔

۳۔ ناصح ہونا: ’’وَ بِالنَّصِیحَةِ مَعْرُوفَةٌ‘‘، وعظ و نصیحت میں مشہور‘‘۔یعنی خیر خواہی و نصیحت کرنے میں مشہور ہو، منبر پر لوگوں کو اخلاق و عقائد سکھاتے ہو۔ اچھائیوں و برائیوں کی طرف متوجہ کرتے ہو۔گویا اگر عالم نصیحت کرنے والا نہ ہو تو حقیقی عالم ہی نہیں ہے۔

۴۔ رعب و دبدبہ والا ہونا: ’’وَ بِاللَّهِ فِي أَنْفُسِ النَّاسِ مَهَابَةٌ‘‘؛’’لطف خدا سے لوگوں کے دلوں میں تمہاری ہیبت و جلالت ہے‘‘۔ یعنی خدا کی وجہ سے لوگوں کے نزدیک ہیبت و رعب و دبدبہ رکھتے ہو، لوگ تمہارا احترام کرتے ہیں ورنہ انسان اپنے جیسے کے سامنے آسانی سے مرعوب نہیں ہوتا۔

۵۔ شرافت: ’’یهَابُکمُ الشَّرِیفُ‘‘؛  ’’شریف و قدرت والے پر تمہارا رعب طاری رہتا ہے‘‘۔ یعنی صاحبان قدرت تم کو کچھ سمجھتے ہیں، تمہارے عالم ہونے کی وجہ سے اپنے کو تم سے کمتر سمجھتے یا کم از کم اپنے کو کمتر ظاہر کرتے ہیں۔

۶۔ کرامت: ’’وَ یُکرِمُکمُ الضَّعِیفُ‘‘؛ ’’ضعیف و ناتواں تمہارا احترام و اکرام کرتے ہیں‘‘۔ یعنی کمزور و ناتواں افراد تمہاری عزت کرتے، تمہاری باتوں پر توجہ دیتے ہیں۔

۷۔ اثر انداز ہونا: ’’وَ یؤْثِرُکمْ مَنْ لَا فَضْلَ لَکمْ عَلَیهِ وَ لَا یدَ لَکمْ عِنْدَهُ‘‘؛ ’’حتیٰ وہ شخص بھی خود پر تم کو ترجیح دیتا ہے جس کے مقابلے میں تم کو کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی تم اس پر قدرت رکھتے ہو ‘‘۔ یعنی جن لوگوں پر تم کو کوئی فوقیت و برتری نہیں ہے پھر بھی وہ تم کو اپنے اوپر مقدم کرتے ہیں۔ 

۸۔ واسطہ و شفیع قرار پانا: ’’تَشْفَعُونَ فِي الْحَوَائِجِ إِذَا امْتَنَعَتْ مِنْ طُلَّابِهَا‘‘؛ ’’جب حاجت مندوں کے سوال رد ہو جاتے ہیں تو اس وقت تمہاری سفارش کارآمد ہوتی ہے‘‘۔ یعنی جب ان کے حقوق پامال ہوتے یا انکا کام نہیں بن پاتا اس وقت تمہاری سفارش کام آتی ہے۔ 

۹۔ شاہانہ رفتار کا حامل ہونا: ’’وَ تَمْشُونَ فِي الطَّرِیقِ بِهَیبَةِ الْمُلُوک وَ کرَامَةِ الْأَکابِرِ‘‘؛’’ تم کو وہ عزت و احترام حاصل ہے کہ گلی کوچوں میں تمہارا گزر بادشاہوں کے سے جاہ و جلال اور اعیان و اشراف کی سی عظمت کے ساتھ ہوتا ہے‘‘۔ یعنی تم شاہوں و نیتاؤں کی طرح بڑی شان و دبددبہ کے ساتھ چلتے ہو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم شخصیت جارہی ہے۔ 

مذکورہ خصوصیات کی وجہ :

امام حسین علیہ السلام ان تمام خصوصیات و صفات کو صرف اور صرف ایک سبب سے جانتے ہیں جسے سوالیہ انداز میں پیش فرماتے ہیں: ’’أَ لَیس کلُّ ذَلِک إِنمَا نلْتُمُوهُ بِمَا یرْجَی عِنْدَکمْ مِنَ الْقِیامِ بِحَقِّ اللَّهِ وَ إِنْ کنْتُمْ عَنْ أَکثَرِ حَقِّهِ تُقَصِّرُونَ؟‘‘( تحف العقول عن آل الرسول ؐ،ص۲۳۸) ’’یہ سب عزت و احترام اور تمہاری یہ موقعیت صرف اس لئے ہے کہ تم سے توقع کی جاتی ہے کہ تم الہٰی احکام کا اجراء کرو گے ،اگرچہ اس سلسلے میں تمہاری کوتاہیاں بہت زیادہ ہیں۔ ‘‘

نتیجہ: اگر کسی عالم و دانشورکی کسی دیہات، شہر ، علاقہ یا کسی ملک میں کوئی اہمیت اور سماج میں کوئی عزت و آبرو ہے تو یہ خدا کی دی ہوئی ہے لہذا اسے خدمت خلق ، دین کی ترویج ، حقوق الٰہی کی پاسداری اور باطل سے مقابلہ میں استعمال کرنا چاہیے ۔ اور موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا، خوشنودی خدا کو نگاہوں میں رکھنااور آخرت کی فکر کرتے ہوئے خدمت خلق کرنا چاہیے نا کہ اس نام و نمود اور شہرت سے سوء استفادہ کرے اور صرف ذاتی مفاد کو نگاہوں میں رکھے۔ اور یہ معیار شائد اس لیے بھی امامؑ نے بیان فرمادیا ہو کہ اگر کوئی مفاد پرست یا استعمار کا آلۂ کار عالم کے بھیس میں ہمارے سامنے آجائے تو عوام کے اندر اتنی بصیرت ہو کہ وہ عالم و عالم نما کے درمیان فرق کرسکیں۔   

(۶)۔ کیا تم کو دین کی بھی فکر ہے!

امام حسین علیہ السلام اس خطبہ میں فرماتے ہیں: ’’أَ لَیسَ کلُّ ذَلِک إِنَّمَا نِلْتُمُوهُ بِمَا یرْجَی عِنْدَکمْ مِنَ الْقِیامِ بِحَقِّ اللَّهِ‘‘؛  ’’یہ سب عزت و احترام صرف اس لئے ہے کہ تم سے توقع کی جاتی ہے کہ تم الہٰی احکام کا اجراء کرو گے ‘‘، علماء کی موقعیت و مقام و مرتبہ کی وجہ کو بیان کرنے کے بعد ایک اور پہلو کو پیش فرماتے ہیں کہ انسان کو چاہیے ہر حال میں، ہرجگہ ،ہر وقت اپنے دین و احکام دین کی جانب خصوصی توجہ دےاور یہ اس کی زندگی کا اہم مقصد ہونا چاہیے۔

مومن کی ذمہ داریوں میں سے یہ ذمہ داری بھی ہے کہ دین و دین داری کے رہزنوں و لٹیروں کو پہچان کر ہمیشہ ان سے دور رہنے کی کوشش کرے۔ اس سلسلے میں ائمہ معصومین علیہم السلام سے بہت زیادہ تاکیدات ہم تک پہنچی ہیںجن میں سے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کا جملہ: ’’اِحذَرُوا علَی دِینِکم‘‘(وسائل الشیعہ، شیخ حر عاملی،ج۲۷، ص۱۳۰)؛لوگو!اپنے دین و دینداری سے ہوشیار رہو‘‘۔

جو چیز انسان کے لیے اہمیت کی حامل ہو اس کی حفاظت و پاسداری میں وہ کوتاہی نہیں کرتا ہے، لہذا اپنے دین و آئین کی حفاظت و پاسداری وہی کرے گا جسے دین و دینداری کا خیال اور اس کا درد ہو۔ ایسے انسان کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ دین کے لٹیروں اور دین فروشوں کو پہچانے اور ان سے دوری اختیار کرے۔ اگر مقابلہ و نہی عن المنکر کا موقع ہو تو اپنے وظیفہ پر عمل کرتے ہوئے نہی عن المنکر و امر بالمعروف کرے۔

جنتی لوگوں کو اپنے دین کی فکر اور امت کی دینداری کا خیال

قرآن مجید جنتیوں کے اوصاف کو بیان کرتے ہوئے ایک اہم نکتہ کی جانب اشارہ کررہا ہے، امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں بہت سے لوگ جس سے غافل تھےاور وہ نکتہ ہے زندگی سے متعلق پیش آنے والے معاملات میں بے توجہی اور لاتعلقی۔ قرآن اس بے توجہی کو رد کرتے ہوئے اعلان کرتا ہے: ’’وَ أَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلی بَعْضٍ یتَساءَلُونَ‘‘؛ ’’جنتی ایک دوسرے کی طرف رخ کرکے سوال کریں گے‘‘(کہ ان تمام کامیابیوں کا راز کیاہے؟)  ’’قالُوا إِنَّا کنَّا قَبْلُ فِي أَهلِنا مشْفِقِینَ‘‘؛ ’’ کہ ہم اس سے پہلے (دنیا میں ) اپنے اہل و اپنی امت کی بنسبت خیر خواہ تھے‘‘(اور انکو عذاب الٰہی سے آگاہ کرتے تھے)، ’’فَمَنَّ اللَّهُ عَلَینا وَ وَقانا عَذابَ السمُومِ‘‘(سورہ طور، آیت ۲۵ تا ۲۷)؛ ’’پس خدا نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں سخت عذاب سے محفوظ رکھا‘‘۔

اس میں فرق نہیں کہ مندرجہ بالا آیت کو ہم گھر والوں کے لیے سمجھیں یا امت اسلامی کے لیے، اس لیے کہ امت اسلامی بھی عظیم خانوادہ کی طرح ہےجس کی پاسداری و حفاظت اور اس کا خیال کرنا ہر دیندار کی شرعی و عقلی ذمہ داری ہے۔

قرآن سے محبت کرنے والا امام حسین علیہ السلام کا محب ہے

دین کی حفاظت و پاسداری، شہدائے کربلا کی واضح خصوصیت تھی۔ وہ سب اپنی دین کی حفاظت کے وظیفہ کی بنیاد پر کربلا میں آئے تھے۔ جناب حبیب ابن مظاہرؓ تاریخ بشریت کی عظیم الشان شخصیت تھے جنھوں اپنے امام پر اپنے کو فدا کردیا، اپنے محاسن کو اپنے خون سے خضاب کیا اور آخری لمحات تک دین سے دست بردار نہ ہوئے۔

شہید مطہریؒ جناب حبیب ابن مظاہرؓ کے سلسلے میں کہتے ہیں: ’’شہید کی منطق و فلسفہ ایک طرف تو عشق الٰہی کا معاملہ ہے دوسری طرف سماج کی اصلاح کے لیے قدم اٹھانا ہے۔ مصلح و عارف کا مجموعہ شہید ہوتا ہے۔ ۔۔حبیب ابن مظاہرؓ جیسا انسان سامنے آتا ہے۔ البتہ شہدا بھی سب ایک درجہ پر نہیں ہیں، جناب حبیب صرف ریش و سفید بالوں کی وجہ سے حبیب نہیں ہوئے، حبیب نے کوفہ میں علی الاعلان اپنے موقف اور امام حسینؑ کی حمایت کا اظہار کیا۔ شب عاشور اپنی حماسی تقریر سے وہ جوش ولولہ ایجاد کیا جس کی توصیف ناممکن ہے‘‘(مجموعہ آثار، مرتضی مطہری، ج۲۴، ص۴۷۶)

نتیجہ: جو شخص دین کو اہمیت دیتا ہو، جس کا ہم و غم دین و دینداری ہو؛ اس کے مقابلے میں وہ شخص جو اس سلسلے میں لاپرواہ ہو، دشمن کا آلہ کار آسانی سے بن جائے، اپنے مفاد ہی نگاہوں میں ہوں ، دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جناب حبیب ابن مظاہر نے ثابت کردیا کہ دین و مذہب کے لیے ہر طرح کی قربانی دی جائےاپنے رہبر کو کسی بھی حال میں تنہا نہ چھوڑا جائے ۔

(۷)۔ حسینی منطق میں امت کے علماء کی افسوسناک حالت

امام حسین علیہ السلام لوگوں کے ہاتھوں شہید ہونے سے پہلے بعض افراد کی بے جا خاموشی اور بعض کے دائرۂ دین سے خارج ہونے کے فتوے سے بھی روبرو ہوئے۔ لہذا بہتر ہے کہ کہا جائے کہ امام حسینؑ کربلا میں شہید ہونے سے پہلے بالائے منبر ان لوگوں کے ہاتھوں شہید ہوئے جو اسلام کے دعوےدار اور مومنین کی مصلحتوں کے اپنے کو پاسدار کہتے تھے۔

حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام نے علماء کے معاشرتی صفات کو بیان کرنے کے بعد اس واقعہ کے تدریجی اسباب کی جانب بھی اشارہ فرمایا جس نے بہت سے افراد کے چہروں سے نقاب پلٹ دی جو عوام کے اعتماد سے سوءِ استفادہ کرتے ہوئے خدمت دین کے بجائے دین کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کررہے تھے۔جن کو باطل بھی عوام کو دھوکہ دینے کے لیے ذریعہ بنا رہا تھا۔جن کے فتاویٰ پر مسلمانوں ہی نہیں خانوادۂ رسالت و حجت خدا کا خون بہایا جارہا تھا۔ امام حسین ؑ نے اہل علم کی بری عادات اور انکی سماج میں کوتاہیوں کی جانب اشارہ فرماکر ایک معیار بھی بتا دیا کہ کون حقیقی عالم ہے اور کون اپنے مفاد کے لیے یا استعمار کے ذریعہ عالم کا لباس پہن کر صف علماء میں شامل ہوگیا ہے۔ آپ نے اپنے خطبہ میں علماء کی کوتاہیوں، انکے برے صفات اور انکی کمیوں کی جانب یا یہ کہا جائے کہ عالم نما کی پہچان اس طرح بیان فرمائی: 

۱۔ ولایت کی تحقیر: ’’فَاسْتَخْفَفْتُمْ بِحَقِ الْأَئِمَّةِ‘‘، تم نے اپنے ائمہ کے حقوق کو پائمال کیا‘‘، یعنی تم نے امامت کے حق کو معمولی سمجھا۔ ولایت اہل بیتؑ کی تحقیر کے مصادیق دو چیزیں ہیں: 

الف: عوام کو اہل بیتؑ کے سلسلے میں صرف مادیات اور بعض خاص چیزوں ہی میں محصور کردینا،اہل بیتؑ کے سلسلے میں معرفت کی جانب توجہ نہ دینا اور اہل بیتؑ کی معرفت میں اضافہ کی کوشش نہ کرنا ہے۔

ب: ولایت کا قبول نہ کرنا اور دینی حاکمیت کو بے اہمیت کرنا۔

۲۔ کمزوروں کے حقوق ضائع کرنا: ’’فَأَمَّا حَقَّ الضُّعَفَاءِ فَضَیعْتُمْ وَ أَمَّا حَقَّکمْ بِزَعْمِکمْ فَطَلَبْتُمْ‘‘؛ضعیف و کمزور لوگوں کے حقوق تم نے پائمال کیے اور جو اپنا حق سمجھا اسی کے پیچھے پڑے رہے‘‘۔یعنی کمزوروں کے حقوق ضائع کیے، ضرورت مندوں کا خیال نہیں کیا، ناداروں کا استحصال کیا اس کے مقابلے اپنی ہمیشہ فکر رہی، دوسروں پر اپنا حق ہی سمجھتے رہے۔ جو اپنے کو صرف اپنے گھر اور اپنوں کے درمیان ہی محصور رکھے تو یقینا اسے کمزوروں و ضرورتمندوں کے بارے کچھ معلوم نہیں ہوگا، جو اپنی ذات اور اپنے اطرافیوں کے علاوہ کچھ نہ دیکھے تو یہی ضعیفوں کے حقوق ضائع کرنا کہا جائے گا۔ 

۳۔ راہ خدا میں مال خرچ نہ کرنا: ’’فَلَا مَالًا بَذَلْتُمُوهُ‘‘؛’’راہ خدا میں مال خرچ نہیں کرتے ہو‘‘۔ یعنی راہ خدا میںمال خرچ کرنا صرف عوام کا کام نہیں ہے، صرف انھیں کی ذمہ داری نہیں کہ ہر اچھے کام میں وہی پیسہ خرچ کریں، ثواب صرف انہی کے لیے نہیں ہے ۔ یہ اہل علم و علماء کی بھی ذمہ داری ہے، ان کا کام صرف مال جمع کرنا نہ ہو بلکہ دین کی راہ میں مال خرچ کرنا بھی ہو، دین کو اپنی روزی روٹی ہی کا ذریعہ بنانے کے بجائے اپنی روزی روٹی کو دین پر فدا کرنے کا بھی جذبہ ہو۔ صرف دوسروں ہی کو مال خرچ کرنے کا ثواب نہ بتاکر کبھی اپنی جیب سے بھی خرچ کرنے کا حوصلہ پیدا ہو۔ 

۴۔ عافیت طلبی: ’’وَ لَا نفْساً خاطَرْتُمْ بِهَا لِلَّذِی خَلَقَهَا‘‘،اور نہ تم خدا کی راہ میں اپنے کو خطرے میں ڈالنا چاہتے ہو‘‘۔ یعنی اپنی جان کو راہ خدا میں خطرے میں نہیں ڈالتے ہو، جو شخص خدا کے لیے اور مظلوموں و ستم دیدہ افراد کی حمایت میں اپنے نام و اپنی عوام میں مقبولیت کو خطرہ میں ڈالنا گوارہ نہ کرے وہ یقینا اپنی جان سے نہیں گزر سکتا۔وہ ہمیشہ عافیت کی تلاش میں رہتا ہے کہ ہم کیسے محفوظ رہیں، بس ہماری عزت و آبرو بچی رہے، ہمارے تعلقات محفوظ رہیں ؛دین کو نقصان ہوتا ہے ہوتا رہے، دین پر آنچ آتی ہے آتی رہے۔ 

۵۔ دشمن کے خلاف عدم قیام: ’’وَ لَا عَشِیرَةً عَادَیتُمُوهَا فِي ذَاتِ اللَّهِ‘‘  ؛ خدا کے لیے، خدا کے دین کے لیے دشمنوں کے خلاف نہیں کھڑے ہوتے‘‘۔ یعنی دشمن کے مقابلے پر نہیں آتے ہو، جب دین الٰہی پر آنچ آتی ہے تو میدان میں نہیں آتے ہو۔ کیا دشمنوں سے مقابلہ، فتنہ و فساد کا خاتمہ، صرف عوام کا کام ہے۔ دوسروں کو تو دشمن سے مقابلہ کی تشویق کرتے ہو، لیکن خود اور اپنے گھر والوں کی ہمیشہ عافیت کی فکر رہتی ہے۔  

۶۔ لمبی لمبی آرزوئیں: ’’أَنْتُمْ تَتَمَنَّوْنَ علَی اللَّه جنَّتَهُ وَ مُجَاوَرَةَ رُسُلِهِ وَ أَمَاناً مِنْ عَذَابِهِ‘‘؛ ’’خدا سے اپنے لیے جنت، رسول کی ہمنشینی اور عذاب سے محفوظ رہنے کی تمنا کرتے ‘‘۔ اگر تمنا ہے تو اسی اعتبار سے کوشش بھی کرو، اپنے کو اس لائق بناؤ، ویسا ہی عمل بھی تو کرو۔صرف لمبی لمبی آرزوئیں اور تنہا توقعات پر زندگی گزارنا عالم کی شان کے خلاف ہے۔

۷۔ الٰہی عذاب کے مستحق: ’’لَقَدْ خَشِیتُ عَلَیکمْ أَیهَا الْمُتَمَنُّونَ عَلَی اللَّهِ أَنْ تَحُلَّ بِکمْ نَقِمَةٌ مِنْ نقِمَاتِهِ‘‘؛ ’’اے وہ لوگو جو خدا سے اس طرح کی تمنائیں رکھتے ہو مجھے خوف ہے کہیں خدائی انتقام کا شکار نہ ہوجاؤ‘‘۔ یعنی مجھے خوف ہے کہیں عذاب الٰہی کا شکار نہ ہوجاؤ، وہ عذاب جسے اپنی ذمہ داریوں کے سلسلے میں بے توجہی،لاپرواہی کی وجہ سے تم نے خود اپنی طرف دعوت دی ہے۔    

۸۔ اچھےو نیک لوگوں کا احترام نہ کرنا: ’’لِأَنَّکمْ بَلَغْتُمْ مِنْ کرَامَةِ اللَّهِ مَنْزِلَةً فُضِّلْتُمْ بِهَا وَ مَنْ یعْرَفُ بِاللَّهِ لَا تُکرِمُونَ‘‘؛ اس لیے کہ تم لطف و کرم خدا کی وجہ سے وہاں پہنچے کہ تم کو دوسروں پر فوقیت و برتری حاصل ہوئی لیکن تم نے خدا والوں کا اکرام و احترام نہ کیا‘‘۔ یعنی خدا کی وجہ ہی سے تم کو یہ عزت و آبرو ملی لیکن تم نے خداوالوں کا خیال نہ کیا ، تمہاری نگاہوں میں دینداروں کی وہ اہمیت و احترام نہ رہا۔ تمہارے وجود کا مقصد شہرت، مقام و منصب نہیں تھا بلکہ تم کو خدمت خلق ، خدمت دین، اور خدا کی راہ میں فداکاری و قربانی کے لیے آگے بڑھنا چاہیے تھا، خدا والوں اور دیندار افراد کا احترام کرنا چاہیے تھا ، تمہاری نگاہوں میں وقعت و احترام کا معیار دولتمند، صاحب منصب، شہرت نہ ہونا چاہیے تھا بلکہ دوسروں کی عزت و احترام کا معیار انکا دین،خوف خدا، تقویٰ و پرہیزگاری ہونا چاہیے تھا۔ تم کو صرف اپنا ہی احترام کروانے کی فکر نہ ہونا چاہیے تھی بلکہ جو دیندار و مخلص اور نیک لوگ ہوں ان کا احترام بھی تمہیں کرنا چاہیے تھا۔    

۹۔ بیکاری ، کاہلی و سستی: ’’وَ أَنْتُمْ بِاللَّهِ فِي عِبَادِهِ تُکرَمُونَ وَ قدْ ترَوْنَ عُهُودَ اللَّهِ مَنْقُوضَةً فَلَا تَفْزَعُونَ‘‘؛  لوگوں کے درمیان جو تمہاری قدر و قیمت ہے وہ خدا ہی کی وجہ سے ہےلیکن تم اپنی نگاہوں کے سامنے خدائی عہد و پیمان کو ٹوٹتے ہوئے دیکھتے ہو لیکن تمہیں کوٗئی خوف نہیں ہوتا‘‘۔ یعنی تم کو خدا ہی کی وجہ عزت ملی لیکن تم خدا کی مخالفت اپنے سامنے ہوتے ہوئے دیکھتے ہو پھر بھی کچھ نہیں کرتے، جب دیکھتے ہو کہ حلال خدا کو حرام اور حرام خداکو حلال کیا جارہا ہے، دین و شریعت کی مخالفت ہورہی ہے، گناہ علی الاعلان ہورہے ہیں، واجبات کی لوگوں کو کوئی فکر نہیں، بے گناہوں کا خون بہایا جارہا ہے ، کمزوروں کو دبایا جارہا ہے، احکام خداوندی کا مذاق اڑایا جارہا بھی پھر تم پر کوئی اثر نہیں ہوتا تم کو ان سب کی کوئی فکر نہیںہوتی ہے، حالانکہ سب سے پہلے تو تم کو ہی اس کی فکر ہونا چاہیے تھی۔

۱۰۔ دور جاہلیت و غیر اسلامی رسم و رواج کی فکر: ’’وَ أَنْتُمْ لِبَعْضِ ذِمَمِ آبائِکمْ تفْزَعُونَ وَ ذِمةُ رَسُولِ اللَّهِ صلی الله علیه و آله مَحْقُورَةٌ‘‘؛تم اپنے باپ دادا اور بزرگوں کے عہد و پیمان کے ٹوٹنے اور بعض رسموں کے ختم ہونے سے ڈرتے ہو لیکن رسول اکرم ﷺ کی لائی ہوئی شریعت و ولایت کی مخالفت و توہین ہونے پر تم پر کوئی اثر نہیں پڑتا‘‘۔ یعنی تم اپنے چلے آرہے غلط طور طریقہ، رسم و رواج کے ختم ہونے سے تو ڈرتے ہو لیکن رسول اکرم ﷺ کے لائے ہوئے احکام اگر بدلے جاتے ہیں تو تمہیں کوئی خیال نہیں ہوتا۔  

۱۱۔ لوگوں میں بصیرت و شعور پیدا نہ کرنا: ’’وَ الْعُمْی وَ الْبُکمُ وَ الزَّمْنَی فِي الْمَدَائِنِ مُهْمَلَةٌ لَاتُرْحَمُونَ‘‘؛تمہارے سامنے، نابینا و گونگے اور درماندہ و مجبور افراد تمہارے شہروں میں چھوڑ دیے گئے ہیں اور ان پر کوئی رحم و مہربانی نہیں ہوتی‘‘۔ یعنی اپنے علاقے کے لوگوں کو نابینا، گونگا و لاچار چھوڑ رکھا ہے، انکی مدد نہیں کرتے ۔تمہاری بات کا اثر ہے، تمہاری بات لوگ سنتے ہیں، تمہاری تقریریں سنتے ہیں لیکن تم انکے شعور و بصیرت میں اضافہ نہیں کرتے، انہیں صحیح بات کرنے و صحیح بات کہنے کے لائق نہیں بناتے، جو لوگ دین کے کام آسکتے ہیں بہت سے کام کرسکتے ہیں لیکن تم انکو آمادہ و تیار نہیں کرتے اور اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری نہیں نبھاتے ہو؛ قوم کی بصیرت افزائی، انکے شعور میں اضافہ کی کوئی کوشش نہیں کرتے ہو۔ ممکن ہے تم کو یہ خوف ہو کہ اگر قوم صاحب بصیرت اور باشعور ہوگئی تو تمہاری دکان بند ہوجائے گی۔  

۱۲۔ لوگوں کی پریشانی و ضرورت کا کوئی خیال نہیں: ’’وَ لَا فِي مَنْزِلَتِکمْ تَعْمَلُونَ‘‘؛تم اپنی موقعیت و اثر و رسوخ کو لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے میں صرف نہیں کرتے ہو‘‘۔ یعنی تم کو لوگوں کے جس طرح کام آنا چاہیے نہیں آتے ہو، جس طرح لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے تگ و دو کرنا چاہیے تم نہیں کرتے ہو۔ تاریخ نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ جب عوام غلط کام ہوتے دیکھتے، یا ظلم و ستم کا مشاہدہ کرتے اور اس کے مقابل شخصیات کے سکوت و بے توجہی کو دیکھتے ہیں تو یا خود اس غلط کام یا ظلم کے مرتکب ہونے لگتے ہیں یا وہ بھی بے توجہی کرتے ہیں۔ 

۱۳۔ ظالمین کے ساتھ سانٹ گانٹھ:’’وَ لَا مَنْ عَمِلَ فیهَا تعِینُونَ وَ بِالْإِدْهَانِ وَ الْمصَانَعَةِ عنْدَ الظلَمَةِ تَأْمَنُونَ‘‘؛ جو اپنے وظیفہ پر عمل کرتا، جو میدان عمل میں آتا ہے تم اس کی مدد نہیں کرتے اس کا ساتھ نہیں دیتے ہو بلکہ تم باطل کی چاپلوسی ، اور اسکی خوشنودی حاصل کرنے میں اپنی عافیت سمجھتے ہو‘‘۔ یعنی تم باطل و ظالم کے مقابلے کھڑے ہونے یا مقابلہ کرنے کے بجائے اس کے ساتھ تعلقات نبھانے اور اسکی خوشنودی ہی حاصل کرنے میں لگے رہتے ہو، تم اپنے مفاد ہی کو دیکھتے ہو، تمہاری نظر میں خدا کی خوشنودی نہیں باطل کی خوشنودی ہوتی ہے۔ اگر کوئی اپنے وظیفہ پر عمل کرتا بھی ہے تو اس کی مدد و تعاون کے بجائے باطل کی خوشنودی کے لیے اسی کی مخالفت کرتے ہو۔   

۱۴۔ نہی عن المنکر کے فریضہ کو انجام نہ دینا: ’’کلُّ ذَلِک مِمَّا أَمَرَکمُ اللَّه بهِ مِنَ النَّهْی وَ التَّنَاهِی وَ أَنْتُمْ عَنْهُ غافِلُون‘‘؛’’یہ وہ باتیں ہیں جن سے خدا نے تم کو روکا ہے لیکن تم اس سے غافل ہو‘‘؛ یعنی تم خدا کے احکامات سے غافل ہو ، تم کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں ہے، تم اپنے وظیفہ پر عمل نہیں کرتے۔ تم کو تو نہی عن المنکر کے فریضہ کو انجام دینے میں سب سے آگے ہونا چاہیے لیکن تم کو اس کا خیال نہیں۔ اگر تم اپنی کوتاہیوں کو ختم کرلو تو اس کا اثر عوام پر خود بخود پڑے گا۔

نتیجہ: نہی عن المنکر کا فریضہ ترک کردینا اور اس سے بے توہی سماج و معاشرہ میں بہت سی بدبختیوں کا سبب ہوتا ہے، علماء و بزرگوں کی ذمہ داری ہے کہ اس فریضہ پر عمل کریںاور اسے اہمیت دیں۔ 

(۸) علماء و شخصیات کی سب سے بڑی مصیبت:

امام حسین علیہ السلام کی نگاہ میں علماء و دانشور اور اہم شخصیات دوسروں سے زیادہ معرض خطر میں ہوتے ہیں، ایک طرف تو وہ اپنے وظیفہ پر عمل نہیں کرتے ، بعض حلال و حرام کی فکر نہیں کرتے، اپنی ذمہ داریوں کا خیال انکو نہیں ہوتا جس کا ایک نقصان یہ ہوتاہے کہ معاملات ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آجاتے ہیں جو اہلیت نہیں رکھتے، جنھیں شریعت کا علم نہیں ہوتا، جن کے پاس صلاحیت نہیں ہوتی۔ ظاہر سی بات ہے جب معاملات ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہونگے، اس طرح کے لوگ کمان سنبھالیں گے تو نقصان کے سوا کچھ نہیں ہوگا، اختلافات بھی ہونگے، کینہ و نفرتیں بھی بڑھیں گی، لوگ دین و شریعت سے بھی دور ہونگے، نتیجہ خسرالدنیا و الآخرۃ ہوگا۔

امام اسی خطبۂ منیٰ میں فرماتے ہیں: ’’وَ أَنتُمْ أَعظَمُ النَّاسِ مُصِیبَةً لِمَا غُلِبْتُمْ عَلَیهِ مِنْ مَنَازِلِ الْعُلَمَاءِ لَوْ کنْتُمْ تَشْعُرُونَ ذَلِک بِأَنَّ مَجَارِی الْأُمُورِ وَ الْأَحْکامِ عَلَی أَیدِی الْعُلَمَاءِ بِاللَّهِ الْأُمَنَاءِ عَلَی حَلَالِهِ وَ حَرَامِهِ فَأَنْتُمُ الْمَسْلُوبُونَ تلْک الْمنْزِلَةَ وَ مَا سُلِبْتُمْ ذَلِک إِلَّا بِتَفَرُّقِکمْ عنِ الْحقِّ وَ اخْتِلَافِکمْ فِي السُّنَّةِ بَعْدَ الْبَینَةِ الْوَاضِحَة‘‘ سب سے بڑی مصیبت تو تمہارے ہی لیے ہے اس لیے کہ تم علماء کے واقعی مقام و مرتبہ کی حفاظت نہ کرسکے اور اس سلسلے میں مغلوب ہوگئے۔ کاش تم اس سلسلے میں اپنے شعور کو بروئے کار لاتے !۔ یہ اس لیے کہ معاملات کی انجام دہی علماء کے ہاتھ میں ہےجو حلال و حرام خدا کے امین ہیں، اور یہ موقعیت تم سے سلب کرلی گئی اس وجہ سے کہ تم حق کے سلسلے میں اختلاف و تفرقہ کا شکار ہوگئے پیغمبر ﷺ کی سیرت و سنت کے سلسلے میں واضح و روشن دلائل کے باوجود اختلاف کا شکار ہوئے‘‘۔

اور ایسا ہونا ہی چاہیے تھا!

اگر علماء و دانشوران قوم عافیت طلبی ، خودبینی ، انا و ذاتی مفاد کے بجائے مسلمانوں کے معاملات کی فکر کریں، اگر ولی خدا کی پیروی اور اس راہ میں صبر و تحمل سے کام لیں، راہ خدا میں ہر طرح کے امتحان و سختی برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں تو سماج و معاشرہ کے معاملات انکے ہاتھ میں آتے ہیں اور اسکے مثبت نتائج کا مشاہدہ ہوتا ہے اور نا اہل پیچھے ہٹتے ہیں: ’’وَ لَوْ صبَرْتُمْ علَی الْأَذَی وَ تَحَمَّلْتُمُ الْمَئُونَةَ فِي ذَاتِ اللَّهِ کانَتْ أُمُورُ اللَّهِ عَلَیکمْ تَرِدُ وَ عَنْکمْ تَصْدُرُ وَ إِلَیکمْ تَرْجِع‘‘؛ اگر سختیوں پر صبر کرتے اور راہ خدا میں تحمل و برداشت کا مظاہرہ کرتے تو معاملات تمہارے ہاتھوں میں ہوتے اور خدائی احکام تمہارے ذریعہ جاری ہوتے اور تمہاری طرف لوگ رجوع کرتے‘‘،

’’  وَ لَکنَّکمْ مَکَّنْتم الظَّلَمَةَ منْ مَنْزلَتکمْ وَ اسْتَسلَمتم اموْرَ اللّٰہ فی اَیْدیْھمْ یَعْمَلوْنَ بالشّبَھٰات وَ یَسیْروْنَ فی الشَّھَوٰات سَلَّطَھمْ عَلیٰ ذٰلکَ فرٰارکمْ منَ الْمَوْت وَ اعْجٰابکمْ بالْحَیٰات الَّتی ھیَ مفٰارقَتکمْ فاَسْلَمْتمْ الضعَفٰاءَ فی اَیْدیھمْ فَمنْ بَیْن مسْتَعْبَدٍ مَقْھوْرٍ وَ بَیْن مسْتَضْعَفٍ عَلیٰ مَعیْشَتہ مَغْلوْبٍ ‘‘

’’لیکن تم نے ظالموں اور جابروں کو یہ موقع دیا کہ وہ تم سے یہ مقام و منزلت چھین لیں اور الله کے حکم سے چلنے والے امور وہ امور جن میں حکم الہٰی کی پابندی ضروری تھی اپنے کنٹرول میں لے لیں تاکہ اپنے اندازوں اور وہم و خیال کے مطابق فیصلے کریں اور اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کریں۔وہ حکومت پر قبضہ کرنے میں ا س لئے کامیاب ہو گئے کیونکہ تم موت سے ڈرکر بھاگنے والے تھے اور اس فانی اور عارضی دنیا کی محبت میں گرفتار تھے۔ پھر تمہاری یہ کمزوریاں سبب بنیں کہ ضعیف اور کمزور لوگ ان کے چنگل میں پھنس گئے اور نتیجہ یہ ہے کہ کچھ تو غلاموں کی طرح کچل دیئے گئے اور کچھ مصیبت کے ماروں کی مانند اپنی معیشت کے ہاتھوں بے بس ہو گئے۔‘‘

 سنہ ۶۰ ہجری کے سیاسی حالات:

جس بات سے ہرگز غافل نہ ہونا چاہیے، وہ زمان شناسی اور وقت کی پہچان ہے۔ سنہ ۶۰ ہجری میں لوگوں کے سکوت اور بزرگان قوم کے امام حسین ؑ کا ساتھ نہ دینے کی وجہ سے تھا۔ سیاسی و معاشرتی اعتبار سے حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ حکام وقت نے کیا نہیں کیا۔ ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا، خدا کے بجائے ظالم و جابر افراد کی پیروی ہونے لگی، امام حسین ؑ اسی جانب اشارہ فرماتے ہیں: ’’یتَقَلَّبُونَ فِي الْمُلْک بِآرَائِهِمْ وَ یسْتَشْعِرُونَ الْخِزْی بِأَهْوَائِهِمْ اقْتِدَاءً بِالْأَشْرَارِ وَ جُرْأَةً عَلَی الْجَبَّار‘‘ ؛ اپنی رائے و مرضی سے ملک کو تہہ و بالا کریں، باطل کی پیروی اور خدائے جبار کے مقابلہ جسارت و جرئت کرتے ہوئے دلی آرزوئیں پوری کرنے کی فکر میں رہتے ہیں‘‘۔ 

بنی امیہ کا ہر شہر میں ایک نمائندہ تھا جو انکی باتوں کو پہنچاتا تھا اور انکی نمائندگی کرتا تھا، ہر جگہ فتنہ و فساد و برائیاں عام تھیں، عوام بدترین حکام کے آگے سر جھکانے پر مجبور تھے، طاقت و قوت کے زور پر کمزوروں کو دبایا جارہا تھا، ایسے حکام جنھیں نہ خدا کی پروا تھی نہ آخرت کی: ’’فی کلِّ بَلَدٍ مِنْهُمْ عَلَی مِنْبَرِهِ خَطِیبٌ یصْقَعُ فَالْأَرْضُ لَهُمْ شَاغِرَةٌ وَ أَیدِیهِمْ فِيهَا مَبْسُوطَةٌ وَ النَّاسُ لَهُمْ خَوَلٌ لَا یدْفَعُونَ یدَ لَامِسٍ فَمِنْ بَینِ جَبَّارٍ عنِیدٍ وَ ذِی سطْوَةٍ علَی الضَّعَفَةِ شَدِیدٍ مُطَاعٍ لَا یعْرِفُ الْمُبْدِئَ الْمُعِید‘‘؛ ’’ہر شہر میں ان کا یک ماہر خطیب منبر پر بیٹھا ہے ۔ زمین میں ان کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں ہے اور ان کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں یعنی جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں عوام ان کے غلام بن گئے ہیں اور اپنے دفاع سے عاجز ہیں۔ حکام میں سے کوئی حاکم تو ظالم، جابر اور دشمنی اور عناد رکھنے والا ہے اور کوئی کمزوروں کو سختی سے کچل دینے والا ،ان ہی کا حکم چلتا ہے جبکہ یہ نہ خدا کو مانتے ہیں اور نہ روز جزا کو ۔‘‘

امامؑ کا یہ جملہ پیغام ہے کہ پیغمبر ﷺ کے بعد کے حالات کی ایک وجہ بنی امیہ جیسے بدترین افراد کا سامنے آنا اور بہت سے سرکردہ افراد کا انکی سیاست کا شکار ہوجانا تھا، انھوں نے اپنے باطل مقاصد اور حق کے مقابلے کے لیے شناختہ شدہ اور اہل علم کو بھی استعمال کیا اور انکے ذریعہ عوام کا بھی استحصال کیا، امام برحق سے دور کرنے کے لیے صاحبان علم کو بھی ذریعہ بنایا اور منبروں و مقدسات کو بھی ۔ 

یزید کی حکومت نتیجہ تھی شناختہ شدہ افراد کے عالم بزمان نہ ہونے کی

یزید اور یزیدیوں کی حکومت اچانک اور ایک رات میں وجود میں نہیں آگئی، بلکہ مختلف عوامل و اسباب جمع ہوتے گئے جس کا نتیجہ اس ظالم حکومت کی شکل میں سامنے آیا۔ امام حسینؑ کی نگاہ میں اس ظالمانہ حکومت کے معرض وجود میں آنے کی وجہ علماء و برجستہ شخصیات کا عالم بزمان نہ ہونا اور حسینی فکر کی پیروی نہ کرنا تھا۔یہ بات سبب بنتی ہے کہ یزید بن معاویہ جیسے بدترین افراد برسر اقتدار آئیںجو نہ صرف پیغمبر اکرمﷺ کی جانشینی کی لیاقت و صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ اپنے ظالمانہ افکار و کردار کی وجہ سے لوگوں کے ساتھ بے رحمی والا سلوک بھی کرتے ہیں۔

امام حسین علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں:’’فَیا عَجَباً وَ مَا لِي لَا أَعْجَبُ وَ الْأَرْضُ مِنْ غَاشٍّ غَشُومٍ وَ مُتَصَدِّقٍ ظَلُومٍ وَ عَامِلٍ عَلَی الْمؤْمِنِینَ بهِمْ غَیرِ رَحِیمٍ فَاللَّهُ الْحَاکمُ فِيمَا فِيهِ تَنَازَعْنَا وَ الْقَاضِی بِحُکمِهِ فِيمَا شجَرَ بینَنَا‘‘۔

’’تعجب ہے اور کیوں تعجب نہ ہو! ملک ایک دھوکے باز ستم کار کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے مالیاتی عہدیدار ظالم ہیں اور صوبوں میں اسکے مقرر کردہ گورنر مومنوں کے لئے سنگ دل اور بے رحم۔ آخر کار الله ہی ان امور کے بارے میں فیصلہ کرے گا جن کے بارے میں ہمارے اور ان کے درمیان نزاع ہے اور وہی ہمارے اور ان کے درمیان پیش آنے والے اختلاف پر اپنا حکم صادر کرے گا۔‘‘

نتیجہ: اگر ہم بھی امام حسینؑ  اور انکے مشن کو نہ پہچان سکیں، اپنے زمانے میں اپنے وظیفے کی شناخت ہم کو نہ ہوسکے، آج کربلا ہم سے کیا چاہتی ہے؟ یہ ہمیں معلوم نہ ہوسکے۔ ہم اپنے مولا کے مقابلے جناب عباسؑ سے ادب و تواضع و پیروی کا درس نہ سیکھ سکیں، آج دین کے لیے ہم قربانی کا جذبہ پیدا نہ کرسکیں، ہم کو اپنی اور اپنی دنیا ہی کی فکر ہو تو ہمیں نہ صرف اعتراض کا حق نہیں ہے بلکہ بدترین نتائج کا سامنا کرنے کے لیے ہم کو تیار رہنا ہوگا۔ 

(۹) امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد

قیام و انقلاب کے مقصد کو واضح ہونا چاہیے تاکہ انقلابی افراد اور تاریخ اس کے بارے میں صحیح طور پر فیصلہ کرسکے۔ ہر انقلاب کے کچھ ایجابی اہداف و مقاصد ہوتے ہیں اور کچھ سلبی جنکی بنیاد پر وہ انقلاب جود میں آتا ہے اور آگے بڑھتا ہے۔ حضرت اباعبداللہ الحسین علیہ السلام کے عظیم الشان انقلاب کے بھی ایجابی و سلبی مقاصد تھے:

امام حسین علیہ السلام کے قیام کے سلبی اہداف و مقاصد

امامؑ کا سلبی معین ہدف تھا جس کا بارہا آپ نے اعلان فرمایا: ’’خدایا! میں اقتدار کی ہوس و مادی فائدہ کے لیے اس راہ کی طرف نہیں آیا ہوں، میں لوگوں پر حکومت و مالکیت کی فکر میں نہیں ہوں، مجھے قدرت کی تمنا نہیں ہے بلکہ میں تو اسلام و مسلمین کی خدمت چاہتا ہوں۔‘‘ 

امامؑ خطبہ منیٰ میں اس جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اللَّهُمَّ إِنَّک تعْلَمُ أَنهُ لَمْ یکنْ مَا کان منَّا تَنَافُساً فِي سُلْطَانٍ وَ لَا الْتِمَاساً مِنْ فُضُولِ الْحُطَام‘‘؛ خدایا! تو جانتا ہے کہ میں نے جو اقدام بھی کیا وہ جاہ و منصب، مال و منال کے لیے نہیں تھا‘‘۔

امام حسینؑ کے قیام کے ایجابی اہداف

امام علیہ السلام نے اپنے قیام کے چار ایجابی اہداف و مقاصد بیان کرتے ہوئے تمام انقلابیوں، اسلامی بیداری چاہنے والوں کو راستہ بتایااور قیامت تک کے لیے واضح طور پر راہنمائی فرمادی:

۱۔اقدار کو نمایاں کرنا:صرف مسلمان ہونے کا اعلان کردینا اور دین کو گھر ومسجد تک محدود کردینا کافی نہیں ہے۔ معاشرتی و سیاسی اقدار سامنے نہ آئیں اور سماج میں مختلف بہانوں سے اسلامی اصول و اقدار ظاہر نہ ہوں تو ہم نے صحیح طور پر اسلام کو پیش نہیں کیا، دینی احکام اور اسلام ہماری عملی زندگی میں بھی ظاہر ہو۔ امام حسین علیہ السلام اسلامی اقدار کی حفاظت کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور فرماتے ہیں: ’’وَ لَکنْ لِنُرِی الْمَعَالِمَ مِنْ دِینِک‘‘؛ اے خدا میں چاہتا ہوں کہ تیرے دین کی علامتیں پیش کروں، تیرے دین کی نشانیوں کو نمایاں کروں‘‘۔ ہمارے عمل و کردار سے بھی معلوم ہو کہ ہمارا دین و مذہب اور ہمارا راستہ کیا ہے۔ صرف ہماری زبان پر نہ ہو کہ ہمارا دین و مذہب بہت اچھا ہے بلکہ ہماری رفتار و گفتار ثابت کرے کہ ہم بہترین دین کے ماننے والے ہیں۔

۲۔ اسلامی ممالک کی اصلاح: اچھا ہونا کافی نہیں ہے بلکہ سماج اور دوسروںکی زندگی کی اصلاح اہم ہے، قرآن کی نظر میں برے، خطرناک اور کج فکر دانشوروں کے ہوتے ہوئے سماج کی اصلاح نہیں ہوسکتی (سورہ بقرہ، آیت۷۵: مسلمانو! کیا تمہیں امید ہے کہ یہ یہودی تمہاری طرح ایمان لے آئیں گے جبکہ ان کے اسلاف کا ایک گروہ کلامِ خدا کو سن کر تحریف کردیتا تھا حالانکہ سب سمجھتے بھی تھے اور جانتے بھی تھے) اور امت کی اصلاح کےلیے حتی لوگوں کے احساسات سے بھی استفادہ کیا جائے(سورہ آل عمران، آیت۳۱:اے پیغمبر! کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبّت کرتے ہو تو میری پیروی کرو- خدا بھی تم سے محبّت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا کہ وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے)، سماج کی اصلاح، اور برائیوں کی روک تھام بغیر قدرت کے انسجام اور معین ذمہ دار کے ممکن نہیں ہے۔ بالآخر جو لوگ معاشرہ کی اصلاح و ترقی کی کوشش کرتے ہیں وہی کامیاب ہیں اور خاموش رہ کر گوشہ نشینی اختیار کرنے والوں کا اس میں کوئی سہم و حصہ نہیں ہے(سورہ آل عمران، آیت ۱۰۴:اور تم میں سے ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہئے جو خیر کی دعوت دے، نیکیوں کا حکم دے برائیوں سے منع کرے اور یہی لوگ نجات یافتہ ہیں)۔

امام حسین علیہ السلام دین کے عظیم مصلح ہیں ، دیگر تمام قیام وانقلاب آپ کے نقش قدم پر چل کر اور آپ کے قیام کو سامنے رکھ کر ہی صحیح اور شرعی ہوسکتے ہیں۔ امامؑ اپنے ایک ایجابی مقصد کو اسلامی شہروں کی اصلاح قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں: ’’وَ نظْهِرَ الْإِصْلَاحَ فی بِلَادِک‘‘؛ تیرے شہروں کی اصلاح کروں‘‘۔

۳۔ مظلوموں کو امنیت فراہم کرنا:اگرچہ مومنین اور بندوں کے لیے حقیقی امن و امان قائم کرنے والا خداوند عالم ہے ، جیسا کہ قرآن کہتاہے: ’’فَلْیعْبُدُوا رَبَّ هذَا الْبیتِ الَّذِی أَطعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَ آمَنَهُمْ مِنْ خَوْف‘‘(سورہ قریش آیت ۳ و ۴) ’’تم اس گھر کے رب کی عبادت کرو جو تمہیں بھوک میں غذا بھی فراہم کرتا ہے اور خوف میں امن بھی‘‘۔ لیکن امن و امان کے سلسلے میں ذمہ داریاں ہیں اس سے غافل بھی نہیں ہوا جاسکتا، وحی کی نگاہ میں واقعی امن و سکون دین کی پیروی اور خدائی احکامات کی بجا آوری میں ہے:

’’فَمَنْ تَبِعَ هُدای فَلا خَوْفٌ عَلَیهِمْ وَ لا همْ یحْزَنُونَ‘‘(بقرہ، ۳۸)؛ جو بھی ہدایت کے راستے پر چلے گا اس کے لیے نہ خوف ہے اور نہ حزن‘‘۔ امن و امان قائم کرنا حکم کے عنوان سے تمام انبیاء و اولیاء سے کہا گیا ہے۔ انبیائے کرام ہدایت و راہنمائی کے علاوہ لوگوں کی مادّی ضروریات مثلا امن و امان اور معیشت پر توجہ دیتے اور ان ضرورتوں کو بھی پورا کرتے تھے(سورہ بقرہ، آیت۱۲۶:اور اس وقت کویاد کرو جب ابراہیمؑ نے دعا کی کہ پروردگار اس شہر کو امن کاشہر قرار دے دے اور اس کے ان اہلِ شہر کو جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہوں پھلوں کا رزق عطا فرما. ارشاد ہوا کہ پھر جو کافر ہوجائیں گے انہیں دنیا میں تھوڑی نعمتیں دے کر آخرت میں عذابِ جہّنم میں زبردستی ڈھکیل دیا جائے گا جو بدترین انجام ہے)۔

امام حسینؑ اپنے قیام عاشورہ کے ایجابی ہدف کو بیان کرتے ہوئے اس جانب اشارہ فرماتے ہیں:’’ وَ یَأْمَنَ الْمَظْلوْموْنَ منْ عبٰادکَ‘‘تاکہ تیرے مظلوم بندے امن وامان میں زندگی گزاریں‘‘۔

۴۔ الٰہی احکامات کا اجرا: 

معاشرہ میں حکومتی دین اور دینی حکومت میں تنہا فرق الٰہی احکامات و دستورات کے اجرا کی فکر کا ہونا اور نہ ہونا ہے۔ حکومتی میدان میں اگر صرف دین کا نام ہو اس میں دین کی خدمت نہ ہو تو یہ صرف دین سے سوء استفادہ ہے، اس لیے اگر دشمن حکومت میں نفوذ کرلے تو دین کے نام سے سوء استفادہ کرتے ہوئے الٰہی احکام کی خلاف ورزی کرتا اور اپنے شوم مقاصد کو پورا کرتا ہے۔ اگر عوام اپنے رہبر و رہنما کی دینی احکام کے اجراء میں مدد و حمایت نہ کریں تو ظالم قدرت مند و قوی ہوتے ہیں ۔

امامؑ اس سلسلے میں فرماتے ہیں: ’’وَ یعْمَلَ بِفَرَائِضِک وَ سُنَنِک وَ أَحْکامِک‘‘؛ تاکہ تیرے احکام و فرائض پر عمل ہوسکے‘‘۔

 فَانَّکمْ انْ لاتَنْصروْنٰا وَ تَنْصفوْنٰا قَويَ الْظَّلَمَة عَلَیْکمْ وَ عَملوْا فی اطْفٰاء نوْر نَبیّکم وَ حَسْبنٰا اللَّہ وَ عَلَیْہ تَوَکَّلْنٰا وَ الَیْہ اَنَبْنٰا وَ الَیْہ الْمَصیْر

’’ اب اگر تم نے ہماری مدد نہ کی اور ہمارے ساتھ انصاف نہ کیا تو ظالم تم پر اور زیادہ چھا جائیں گے اور نور نبوت کو بجھانے میں اور زیادہ سرگرم ہو جائیں گے۔ ہمارے لئے تو بس خدا ہی کافی ہے، اسی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف ہماری توجہ ہے اور اسی کی جانب پلٹنا ہے۔‘‘

نتیجہ: سب سے بڑی مصیبت تو یہ ہوگی کہ امام حسینؑ ہماری بصیرت و شعور کو بیدار کریں، ہم کو توحید پروردگار کی عظمت سے آشنا کریں، ہم کو ولایت کا صحیح مفہوم بتائیں، ہم کو عظیم مقاصد کی راہنمائی فرمائیں ، ہمارے سامنے حق و باطل کو آشکار کردیں، ہم کو عمل کی راہ دکھائیں، ہمیں خوشنودی پروردگار تک پہنچانا چاہیں، ہم کو دشمنان دین و انسانیت سے مقابلہ کا طریقہ سکھائیں، ہمیں عزت کی زندگی جینے کا سلیقہ بتائیں، ہمیں یزیدان وقت کو انکے مقاصد میں ناکام کرنے کی راہ دکھائیں، ہمیں ولایت کا عملی درس دیں، ہمیں دین کی عظمت سے آشنا کریں لیکن ہم کثرت سے ذکر امام حسینؑ کرکے بھی ان سےعملی درس نہ لے سکیں۔ ہماری زبان پر تو امام حسینؑ کا مقدس نام ہو لیکن عمل و کردار سے حسینیت نہ جھلک رہی ہو، ہم ولایت علی ؑ کا دم بھرنے کے باوجود ولایت کے تقاضوں کو پورا نہ کرسکیں، ہم عزائے امام حسینؑ برپا کرکے بھی اپنے دور کے یزیدیوں اور ان کے ناپاک عزائم کو نہ پہچان سکیں۔

خدا سے دعا ہے ہم کو تاریخ سے عبرت لیتے ہوئے امام حسین علیہ السلام کی راہ پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے ، ہمیں سچا حسینی بنادے، ہم کو عظمت ولایت غدیر سمجھ کر اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عنایت فرمائے، ہردور کے یزید کو پہچان کر اس سے مقابلہ کرنے کی توفیق عنایت فرمائے، علمائے حقہ و فقہائے اہل بیتؑ کی تائید و نصرت فرمائے ، ہمارے درمیان اتحاد و اتفاق کی توفیق مرحمت فرمائے۔ منتقم خون حسینؑ حضرت حجت ارواحنا لہ الفداء کے ظہور پرنور میں تعجیل فرمائے اور ہم کو امام وقت کا سچا ناصر بنادے۔ آمین

منابع:

ترجمہ قرآن کریم، علامہ جوادیؒ

مقالہ: بصیرت آفرینی در کلام امام حسین (ع) [شرح خطبہ منا]،محمد رضا حدادپور جہرمی(hawzah.net)

منا میں امام حسینؑ کا خطبہ(wikishia.net)

سرزمین منی پر حسین بن علی علیہما السلام کا تاریخی خطبہ،علامہ محمد صادق نجمی(duas.org)

بلاغۃالحسینؑ، علامہ مصطفیٰ حائریؒ