طلاق و حلالہ کیا ہے؟
سید محمد حسنین باقری
مقدمہ:اللہ تبارک و تعالیٰ ہی سب کا خالق و معبود ہے۔ مختلف زبانوں میں اللہ، خدا،God،بھگوان، ۔۔۔نام الگ الگ ہیں لیکن ذات ایک ہی ہے۔ اس خالق یکتا کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ اس میں کسی طرح کا عیب و نقص ہرگز نہیں ہے۔ وہ ہر عیب سے مبرّا ہے لہذا اس کی طرف سے آنے والی ہر چیز کا بے عیب ہونا اور ہر طرح کی کمی و نقص سے پاک ہونا بھی ضروری ہے۔ قرآن کریم کو اس خدائے واحد نے نازل کیا ہے (سورہ حجر،۹؛ سورہ انسان ۲۳ )، رسول اکرمﷺ کو اسی خد نے رسول بناکر بھیجا ہے(سورہ آل عمران،۱۴۴ و ۱۶۴؛نساء ۱۷۰؛ )، دین اسلام بھی اسی خدا کا بنایا ہوا دین ہے(سورہ آل عمران، ۱۹ و ۸۵)۔ لہذا جس طرح خدا بے عیب ہے اسی طرح قرآن کریم، نبی اعظم ﷺ اور اسلام و اُس کے احکامات کا بھی بے عیب ہونا ضروری ہے۔ ان میں کسی طرح کی نہ کوئی کمی ہوسکتی ہے اور نہ کسی طرح کا نقص۔ اگر قرآن و پیغمبر اکرمؐ اور دین اسلام میں کوئی کمی و عیب ہو تو وہ خدا کی طرف نسبت دی جائے گی جو ناممکن ہے۔
لہذا ماننا پڑے گا کہ اسلام کے تمام قوانین و احکام چونکہ عادل و حکیم خداوندعالم کے بنائے ہوئے ہیںلہذا ان میں کسی طرح کی کمی نہیں ہوسکتی۔
اور چونکہ خداوند عزوجل نے اپنی مخلوق کے لیے وہی قوانین بنائے ہیں جنمیں انسانوں کے فوائد پوشیدہ ہیں۔ شادی بھی خداوند عالم کا بنایا ہوا قانون ہے اس لیے کہا جاسکتاہے کہ شادی انسانی ضرورت کا نام ہے۔ تزویج کی حقیقت وہ خاص ربط ہے جو شرائط کے ساتھ مرد اور عورت کے درمیان قائم ہوتا ہے اور دو مختلف افراد کو ایک دوسرے کا قرین اور کفو بنا دیتا ہے۔ عائلی نظام میں زن و شوہر کے توافق و اشتراک کو دونوں آنکھوں اور ہاتھوں سے تشبیہ دینا چاہئے جو ایک دوسرے کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں۔ سورۂ روم آیت ۲۱ میں شریک حیات کو خدا کی نشانی سے تعبیر کرتے ہوئے اعلان ہے: ’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تم ہی میں سے پیدا کیاہے تاکہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو اورپھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے کہ اس میں صاحبانِ فکر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں‘‘۔
نیز یہ بات کس قدر لائق توجہ اور قابل غور ہے کہ وہ دو ہستیاں جو آپس میں بالکل غیر ہوتی ہیں ’’ رشتۂ ازدواج‘‘ انہیں اس مضبوطی سے ملا دیتاہے، اس شدت سے ان میں اتحاد پیدا کرتا ہے کہ اس سے زیادہ مستحکم علاقہ یگانگت کا تصور ناممکن ہے بلکہ اس خصوصی وابستگی اور اس کے گہرے اثرات کو ظاہر کرنے کے لئے کلام الٰہی کی اس آیت کے علاوہ اور کوئی مناسب و موزوں عبارت سمجھ میںنہیں آتی: ھُنّ لِباسٌ لَّکُم و انتم لباسٌ لھُنّ(بقرہ،۱۸۷) ’’وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو‘‘۔ واقعہ یہ ہے کہ اس آیہ ٔ وافی ہدایہ میں اس قدر معجزانہ محاسن اور محیر العقول نکات پنہاں ہیں جن کے اعتراف سے قلم قاصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام شادی کے سلسلے میں سخت تاکید کرتا اور اس کو انتہائی آسان بناکر پیش کرتا ہے تاکہ ہر انسان بآسانی اس ضرورت کو پورا کرسکے۔ اور نتیجہ میں قافلۂ انسانی آگے بڑھتا رہے۔ اب ہم سب کا فریضہ یہ بھی ہے کہ شادی کے سلسلے میں اسلامی دستورات کو نگاہوں میں رکھتے ہوئے اس مقدس عمل میں پائی جانے والی بے جا رکاوٹوں کو ختم کریں۔ اور اسے وقت پر انجام دیں تاکہ ہماری نوجوان نسل بے راہ روی سے محفوظ رہے اور سماج برائیوں کا شکار نہ ہو۔ نیز وہ مرد و خواتین جو کسی وجہ سے اکیلے ہوگئے ہیں انکی بھی دوبارہ شادی کے بارے میں توجہ دیں۔
ظاہر ہے کہ اس رشتہ کا قدرتی تقاضہ یہ ہونا چاہئے کہ مرتے دم تک نہ ٹوٹے بلکہ مرنے کے بعد قائم رہے مگر یہ کہ کوئی ایسی شکل نکل آئے جس کے باعث مشترکہ زندگی بسر کرنے کا مذکورہ معاہدہ ختم ہوجائے۔ بسااوقات کچھ ایسے ناگزیر حالات، واقعات اور ضرورتیں پیش آجاتی ہیں جن کی وجہ سےا س گرہ کا کھولنا لازم ہوجاتا ہے۔‘‘ چونکہ دین اسلام، الٰہی دین اور دین فطرت ہے اس لیے اس میں ہر مشکل کا حل موجود ہے ، کبھی اس آپسی رشتے کی جدائی اگر ناگزیر ہوجائے تو دین نے اس راستہ کو ’’طلاق‘‘ کی صورت میں پیش کیا ہے۔
البتہ اسلام ایک اجتماعی دین ہے اور اس کی عمارت و حدت و یکتائی کی بنیادوں پر کھڑی کی گئی ہے۔ اس مذہب کا سب سے بڑا مقصد محبت و اتفاق ہے اس لئے اس کی حدوں میں انتشار اور تفرقہ کو انتہائی مذموم سمجھا جاتا ہے۔ بنابریں اسلام نے طلاق کو ناپسند قرار دیتے ہوئے اسے مکروہ قرار دیا ہے۔ لیکن عادل و خبیر خدا نے اپنی مخلوق کے لیے اگر یہ قانون بنایا ہے تو یقیناً اس میں مصلحتیں بھی ضرور ہیں۔ ممکن ہے یہ بھی ایک مصلحت ہو کہ جہاں پر ایک مرد و عورت کے لیے ساتھ رہنا کسی پر ظلم کا سبب ہو یا ساتھ نبھانا حد سے زیادہ دشوار ہو وہاں پر اسلام نے طلاق کے ذریعہ دونوں کو ایک بہتر زندگی کا موقع فراہم کیا ہے۔ یا بعض جگہوں پر طلاق اس لیے بھی ہے کہ آپسی رشتوں کا تقدس باقی رہے اور شادی کے بندھن کے بہانے کوئی اپنے شریک زندگی پر ناروا ظلم جاری نہ رکھ سکے۔
طلا ق قرآن میں: طلاق کے نام سے قرآن میں ایک سورہ بھی ہے اور لفظ طلاق ۱۴ دفعہ قرآن میں استعمال ہوا ہے اور ان میں سے اکثر ان موارد کی طرف اشاہ ہے جن میں طلاق کا صیغہ جاری ہوا ہو اور عورت عدّت گزار رہی ہو اور مستقیم یا غیر مستقیم طور پر انہیں مشترک زندگی کی طرف لوٹ آنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر سورہ بقرہ میں 12 دفعہ "معروف" کا لفظ تکرار ہوا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں دوسروں کے حقوق کا احترام کرنا اور ان کے حقوق سے سوء استفادہ نہ کرنا اور ایک محترمانہ اور اچھا طریقہ اختیار کرنے کی کتنی اہمیت ہے۔
قرآن سورہ نساء میں مردوں کو اپنی بیویوں کو طلاق نہ دینے کی سفارش کرتا ہے۔ اس حوالے سے آیت ۱۹ میں ایک ددسرے سے صلح صفائی کو اچھا اقدام قرار دیتے ہوئے اعلان ہے کہ بعض اوقات تمہاری بھلائی ان بیویوں یا شوہروں میں رکھی ہوتی ہے جنہیں تم پسند نہیں کرتے ہو۔ اعلان ہوتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا ۖ وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّـهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا ﴿١٩﴾
اے ایمان والو تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ جبرا عورتوں کے وارث بن جاؤ اور خبردار انہیں منع بھی نہ کرو کہ جو کچھ ان کو دے دیا ہے اس کا کچھ حصہّ لے لو مگر یہ کہ واضح طور پر بدکاری کریں اور ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرو اب اگر تم انہیں ناپسند بھی کرتے ہو تو ہوسکتا ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور خدا اسی میں خیر کثیر قرار دے دے۔
نیز آیت ۳۵ میں میاں بیوی کے درمیان جھگڑے و فساد کی صورت میں یہ تجویز پیش کی ہے کہ میاں اور بیوی کے خاندان سے ایک ایک فیصلہ کرانے والے مل بیٹھ کر مشورت کریں اور مشترک زندگی کو جاری رکھنے کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔تاکہ جدائی کی نوبت نہ آنے پائے۔
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّـهُ بَيْنَهُمَا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا ﴿٣٥﴾ ۔
’’اور اگر دونوں کے درمیان اختلاف کا اندیشہ ہے تو ایک حَکُم مرد کی طرف سے اور ایک عورت والوں میں سے بھیجو- پھر وہ دونوں اصلاح چاہیں گے تو خدا ان کے درمیان ہم آہنگی پیدا کردے گا بیشک اللہ علیم بھی ہے اور خبیر بھی۔
آخر میں خداوندعالم میاں بیوی دونوں کو طلاق کے بعد بھی اپنے غیبی خزانوں سے بے نیاز کرنے کا وعدہ دیتے ہوئے آیت ۱۳۰ میں فرماتا ہے:
وَإِن يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّـهُ كُلًّا مِّن سَعَتِهِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ وَاسِعًا حَكِيمًا ﴿١٣٠﴾ ۔’’اور اگر دونوں الگ ہی ہونا چاہیں تو خدا دونوں کو اپنے خزانے کی وسعت سے غنی اور بے نیاز بنادے گا کہ اللہ صاحبِ وسعت بھی ہے اور صاحبِ حکمت بھی ہے‘‘۔
مذکورہ آیات میں غور کرنے سے ایک یہ نتیجہ بھی سامنے آتا ہے کہ زوجین اور متعلقہ دوسرے تمام افراد کا فریضہ ہے کہ جدائی کی نوبت نہ آنے دیں۔ ہر ایک پوری کوشش کرے کہ طلاق کی نوبت نہ آئے ہاں واقعا جب اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو۔ اور اس سے بڑی مصلحت سامنے ہو تو اس عمل سے متمسک ہوں۔
طلاق حدیث میں: بعض روایات میں طلاق کو منفورترین حلال کا نام دیا گیا ہے،رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ما أحَلَّ اللّہ ُ شیئا أبغَضَ إلَیہ مِن الطَّلاقِ ‘‘ ( کنزالعمال ۲۷۸۷۱)؛ ’’خداوندعالم نے طلاق سے زیادہ منفور شیٔ کو حلال نہیں فرمایا ہے‘‘۔ دوسری حدیث میں آیا ہے:ما من حلالٍ أبغض الی اللہ من الطلاق‘‘ (کافی،ج۶،ص۵۴،ح۲ و ۳)حلال خدا میںطلاق سے زیادہ کوئی ناپسندیدہ چیز نہیں ‘‘۔إنَّ اللّه َ يُبغِضُ الطلاقَ و يُحِبُّ العَتاقَ .خداوند عالم طلاق کو ناپسند کرتا ہے اور بندہ کو آزاد کرنے کو پسند کرتا ہے۔(کنز العمّال : ۲۷۸۷۰) ۔ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جب روئے زمین پر طلاق واقع ہوتی ہے تو اس سے عرش الہی کو زلزلہ آتا ہے۔[روض الجنان ج۴ ص۷۸]۔
طلاق کی تعریف: ’’لغت میں طلاق کے معنی علیحدگی، آزاد کرنا، ترک کرنا، مفارقت اور جدائی ہیں[فرہنگ معاصر عربی فارسی،ص۴۰۲] اور شریعت کی نظر میں خاص شرائط کی رعایت کرتے ہوئے مخصوص صیغہ کے ساتھ زوجین کا ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرنے کو طلاق کہا جاتا ہے[جواہر الکلام،ج۳۲، ص۲]۔ طلاق ایقاعات میں سے ہے عقود میں نہیں ہے بنابراین ایک شخص (مرد) کی جانب سے انجام پاتا ہے اور عورت کی جانب سے قبول کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
طلاق کے اقسام:طلاق کی ، رجوع کر سکنے اور رجوع نہ کر سکنے کے لحاظ سےدو قسمیں ہیں: بائن اور رجعی۔
طلاق رجعی: طلاق رِجعی، اس طلاق کو کہا جاتا ہے جس میں مرد عدّت کے دوران دوبارہ نکاح کئے بغیر مطلقہ عورت (سابقہ بیوی) کو اپنی زوجیت میں لانے کا حق رکھتا ہے۔
طلاق بائن: طلاقِ بائن سے مراد وہ طلاق ہے جس کے بعد زوجہ اور شوہر کے درمیان ازدواجی رشتہ کاملًا ختم ہو جاتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے لیے مکمل طور پر بیگانے بن جاتے ہیں۔ اگر دونوں دوبارہ ازدواجی تعلق کو قائم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں دوبارہ نیا عقدِ نکاح کرنا ہو گا۔
طلاق بائن میں مرد عدّت کے دوران اپنی بیوی سے رجوع نہیں کر سکتا اس کی چھ صورتیں فقہاء کرام نے ذکر کی ہیں جوکہ درج ذیل ہیں:
۱) وہ خاتون جو یائسہ ہو اس کو دی گئی طلاق۔ ۲) وہ بچی جس کی عمر ۹ سال سے کم ہے اس کو دی گئی طلاق۔ ۳) اس خاتون کو دی گئی طلاق جس کے شوہر نے نکاح کے بعد اس سے قربت و نزدیکی اختیار نہیں کی۔ ۴) دو طلاقوں کے بعد خاتون کو دی جانے والی تیسری طلاق طلاقِ بائن کہلائے گی۔ ۵) طلاق خلع اور طلاق مبارات، یہ دونوں طلاقیں طلاقِ بائن کا حکم رکھتی ہیں۔۶) حاکمِ شرع کا اس خاتون کے لیے طلاق جاری کرنا جس کا شوہر اسے نان نفقہ نہیں دیتا اور طلاق بھی نہیں دیتا۔(نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج ۳۲، ص ۱۱۹۔ ، رسالہ توضیح المسائل مراجع، ج ۲، ص ۵۳۰۔ )
طلاق کے شرائط اور احکام
طلاق کے چار ارکان ہیں: ۱- طلاق دینے والا ۲- طلاق لینے والی ۳- طلاق کا صیغہ ۴- گواہ [ لمعۃ الدمشقیہ، ج ۲، ص۳۸۷.]
طلاق دینے والے کے لیے چار شرائط کا حامل ہونا ضروری ہے:ےبالغ ہو؛ےعاقل ہو؛ ےاپنے اختیار سے طلاق دے کسی نے مجبور نہ کیا ہو؛ ےکسی کو وکالت دیتے وقت یا خود صیغہ طلاق جاری کرتے وقت، حقیقتا طلاق دینے کا قصد و ارادہ رکھتا ہو[ لمعۃ الدمشقیہ، ج ۲، ص۳۸۷.]۔
مطلَّقہ (وہ عورت جسے طلاق دی جا رہی ہو) میں بھی تین شرائط ضروری ہیں:ےطلاق دیتے وقت عورت حیض اور نفاس سے پاک ہو وگرنہ طلاق باطل ہے۔ یہ شرط یائسہ اور حاملہ اسی طرح وہ لڑکی جو ابھی حیض دیکھنے کی عمر میں نہیں پہنچی ہو، میں ساقط ہے۔
ےحیض اور نفاس سے پاکی (طُہر) کے وہ ایام جس میں طلاق دی جا رہی ہو، اسمیں شوہر نے بیوی کے ساتھ ہمبستری نہ کی ہو۔
ےاگر طلاق دینے والا کئی بیویاں رکھتا ہو تو جسے طلاق دی جارہی ہے اسے معین کرنا ضرروی ہے[ جواہر الکلام، ج ۳۲، ص۴ و ۵۶.]
صیغہ طلاق اور گواہ رکھنے میں بھی کئی شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:
ےطلاق مخصوص صیغہ ہی سے ہوتی ہے: "هی طالِقٌ یا فُلانَة طالِقٌ یا اَنتِ طالِقٌ"۔ے عربی میں پڑھنا ضروری ہے مگر یہ کہ کوئی بات نہ کر سکتا ہو تو اس سے یہ شرط ساقط ہو جاتی ہے۔[ جواہر الکلام، ج ۳۲، ص۴ و ۵۶.]۔
گواہ کے شرائط:ےطلاق کے وقت دو یا دو سے زیادہ عادل مرد کا بطور گواہ ہونا ضروری ہے[ جواہر الکلام، ج ۳۲، ص۴ و ۵۶۔ تحریر الوسیلہ، ج ۲، ص۴۴۱.]۔ ےگواہ میں عدالت شرط ہے ، غیر عادل گواہ نہیں بن سکتا۔قرآن میں ہے:’’وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ‘‘(سورہ طلاق،۲)( اور طلاق کے لئے اپنے میں سے دو عادل افراد کو گواہ بناؤ)۔ اگر دو عادل گواہوں کے بغیر طلاق دی جائے گی تو وہ باطل متصور ہوگی۔یہ دونوں گواہ مرد ہوں، دو سے زیادہ بھی گواہ ہوسکتے ہیں۔
گواہ کی شرط باہمی نفرت کو ختم کرنےکا بہترین وسیلہ ہے۔ کیونکہ نیک اور عادل نفوس کو معاشرہ میں ایک ممتاز حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اور ان کی شخصیت عام دلوں پر خاصہ اثر کرتی ہے۔ نیز گواہ جب اچھے صفات کے حامل ہوں گے تو وعظ و نصیحت اور صلح و صفائی کی جانب توجہ دینا اپنا فرض سمجھیں گے۔ ہاں! یہ ضروری نہیں کہ ہر موقع پر ان کی کوششیں بار آور ہوجائیں ۔لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ اس طریقہ سے جدائی و طلاق کے واقعات میں کافی کمی واقع ہوسکتی ہے۔ لہذاطلاق پڑھنے والوں کے ساتھ گواہوں کو بھی پہلے صلح و صفائی کی پوری کوشش کرنا چاہیے۔جب جدائی کے سوا کوئی چارہ نہ ہو تب ہی گواہی دیں۔ ممکن ہے گواہوں کے عادل ہونے کی شرط اس لیے ہو کہ دونوں افراد گواہی دینے میں بھی عدالت برتیں یعنی یہ فیصلہ کرلیں کہ آیا یہاں دونوں کا جدا ہونا عدالت کا تقاضا ہے یا دونوں کا ایک رہنا عدالت کا تقاضا ہے۔ ہماری عدالت و انصاف کیا کہتی ہے، دونوں ایک رہیں یا ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں؟
یہ بات طلاق پڑھوانے والوں کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہےکہ دین و شریعت کے مسائل سے آشنائی رکھنے والے متقی و پرہیزگار افراد ہی سے طلاق پڑھوائیں اور گواہوں میں انکے عادل ہونے کا اطمینان حاصل کریں، ورنہ معمولی سی غفلت کے نتیجے میں گھر کی بربادی کا سبب بنیں گے اور خدا کے سامنے جوابدہ بھی ہونا پڑے گا۔مذکورہ شرائط سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ طلاق کھیل اور معمولی کام نہیں ہے بہت ہی سے زیادہ سوچ سمجھ کر اور سنجیدگی اور غور و فکر کے بعد اٹھانے والا قدم ہے۔
نیز یہ بھی واضح ہے کہ غیر اسلامی ملکوں میں صرف کورٹ سے طلاق لے لینے سے شرعی طلاق نہیں ہوتی بلکہ مذکورہ تمام شرائط کے ساتھ طلاق ہونا ضروری ہے۔
طلاق خلع: طلاق خُلع سے مراد یہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے نفرت کرتی ہو اور اس کے ساتھ زندگی گزارنے پر راضی نہ ہو یوں شوہر سے علیحدگی اختیار کرنے کیلئے شوہر کو کچھ مقدار میں مال دے دیتی ہے تاکہ شوہر اس کے بدلے اسے طلاق دے دے۔
طلاق خلع انجام پانے کیلئے درج ذیل شرائط کا ہونا ضروری ہے:
ےبیوی کو شوہر سے نفرت ہو؛ےکچھ مقدار میں مال بعنوان فدیہ دیا جائے، ممکن ہے فدیہ کی مقدار بیوی کے مہر کے برابر ہو یا اس سے کمتر یا بیشتر۔
ےطلاق اگرچہ ایقاع ہے اور اس کے واقع ہونے کیلئے بیوی کا قبول کرنا شرط نہیں ہے لیکن جب بھی طلاق، خلع کی صورت میں واقع ہو تو چونکہ اس میں طلاق عورت کی طرف سے کچھ مقدرا میں مال کے عوض واقع ہوتی ہے، عقد کی طرح ایجاب و قبول کی ضرورت پڑتی ہے یعنی میاں اور بیوی دونوں کے توافق سے طلاق خلغ متحقق ہوتی ہے۔
اس قسم کی طلاق میں اگر بیوی پشیمان ہو جائے تو فدیہ کی رقم واپس لے سکتی ہے یوں طلاق بائن، طلاق رجعی میں تبدیل ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں شوہر کو بھی عدّت کے دوران دوباہ رجوع کرنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ طلاق واقع ہونے کے بعد شوہر "فدیہ" کا مالک بن جاتا ہے اور اس میں جس طرح چاہے تصرف کر سکتا ہے، عورت صرف عدّت کے دوران "فدیہ" کو واپس لینے کا حق رکھتی ہے اس صورت میں بھی عورت کو فورا رجوع کرنا ضروری ہے تاکہ مرد طلاق رجعی میں رجوع کرنے کے اپنے حق سے استفادہ کر سکے۔
طلاق مبارات: طلاق مُبارات میں نفرت دونوں طرف سے ہو یعنی میاں بیوی دونوں کو ایک دوسرے سے نفرت ہو اس صورت میں فدیہ کی مقدار مہر سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔طلاق مبارات بھی طلاق خلع کی طرح دو طرفہ ہے یعنی صرف مرد طلاق مبارات جاری کرے تو کافی نہیں ہے بلکہ بیوی کی طرف سے بھی اس پر رضایت کا اظہار کرنا ضروری ہے۔
عِدّۂ طلاق: طلاق کا صیغہ جاری ہونے کے بعد عورت ایک مدت تک دوسری شادی نہیں کر سکتی اس مدت کو عدّت کہا جاتا ہے۔ یہ مدت مختلف حالات میں مختلف ہو سکتی ہے۔ نیز طلاق رجعی میں مرد عدّت تمام ہونے تک اپنی بیوی کو گھر سے نہیں نکال سکتا اور اس دوران مرد نکاح کے بغیر دوبارہ بیوی کی طرف رجوع کرکے اسے اپنی زوجیت میں لا سکتا ہے۔
طلاق کا اختیار: خداوندعالم نے طلاق دینے کا اختیار صرف مرد کے ہاتھ میں رکھا ہے۔عورت طلاق نہیں دےسکتی۔ جیسا کہ بیان ہوا کہ طلاق خلع بھی عورت نہیں دیتی ہے بلکہ وہ مرد سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے۔ اگرچہ بعض مواقع پر یہ قانون مردوں کی راجداری کا باعث بنتا ہے اور مرد مشترک زندگی میں اس کے ذریعے عورت پر سختیاں ایجاد کرتا ہے۔ لہذا عقد کے دوران اگر بیوی چاہے تو شوہر کو اس بات پر راضی کر سکتی ہے کہ خاص شرائط کے ساتھ عورت شوہر سے اپنے آپ کو طلاق دینے کا مطالبہ کرے اگر شوہر عقد کے ضمن میں اسے قبول کر لے تو معین شرائط کے ساتھ عورت شوہر سے طلاق کا تقاضا کر سکتی ہے۔ وہ شرائط درج ذیل ہیں:
ے شوہر چھ مہینے تک بیوی کا نفقہ (خرچہ) اور دیگر واجب حقوق ادا نہ کرے۔ے شوہر کی بیوی بچوں کے ساتھ غیر قابل تحمل بد سلوکی۔ے شوہر کسی ایسی لاعلاج بیماری میں مبتلا ہو جائے جس سے بیوی کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہو۔ے شوہر ایسے وقت میں دیوانہ ہو جائے جس میں نکاح فسخ کرنا ممکن نہ ہو۔ ےشوہر کا کسی ایسے کام میں مشغول ہونا جو بیوی یا اس کے خاندان کی آبرو ریزی کا باعث ہو۔ے شوہر کو پانج سال سے زیادہ قید کی سزا سے محکوم ہونا۔ے شوہر کسی ایسی چیز کا عادی ہو جائے جس سے خاندانی بنیادوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو مثلا یہ کہ عادت کی وجہ سے بیکار ہو جائے اور گھریلو سامان وغیرہ بیچنے پر مجبور ہ جائے۔ ے شوہر کا بغیر کسی وجہ کے بیوی بچوں کو ترک کرنا یا چھ ماہ سے زیادہ کسی عذر موجہ کے غائب رہنا۔ے شوہر کا کسی ایسی سزا کا مستحق ہونا جس سے بیوی کی آبرو خطرہ میں پڑے۔ ے پانچ سال کے بعد بھی شوہر بچہ دار نہ ہو سکتا ہو۔ے شوہر کا طولانی مدت تک غائب رہنا یا اصلا اس کا کوئی پتہ نہ ملے۔ے شوہر کا بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرنا۔ چنانچہ مرد نے عقد کے وقت طلاق کا حق بیوی کو دیا ہو تو بیوی بغیر کسی شرط کے بھی طلاق اور مہر کا تقاضا کر سکتی ہے۔
تین طلاق:تین طلاق، سے مراد یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کو تین بار طلاق دے۔ شیعہ اور اہل سنت فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو تین بار طلاق دے تو اس کے بعد اس عورت سے شادی کرنا اس مرد پر حرام ہو جاتا ہے؛ مگر یہ کہ وہ عورت کسی اور شخص سے شادی کرے اور دوسرا شوہر اسے طلاق دے یا وہ مر جائے تو عدت ختم ہونے کے بعد پہلا شوہر دوبارہ اس عورت سے شادی کر سکتا ہے۔نیز یہی عمل نو بار جاری رہے تو نویں مرتبہ کے بعد بیوی ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائیگی۔ تین طلاق طلاق بائن کے اقسام میں سے ہے اس بنا پر شوہر رجوع نہیں کر سکتا ہے۔
شیعہ فقہاء کے مطابق تین طلاق اس وقت واقع ہو گی جب مرد اپنی بیوی کو دو دفعہ طلاق دے اور ہر دفعہ اس سے رجوع کرے یا عدت ختم ہونے کے بعد دوبارہ شادی کرے اس طرح جب تیسری بار طلاق دے تو تین طلاق صدق آتی ہے، دوسرے لفظوں میں ایک ہی مجلس میں تین دفعہ طلاق طلاق طلاق کہنے سے تین طلاق واقع نہیں ہوتی۔
سواد اعظم کے بیشتر علماء نے ’’ طلاق ثلاث‘‘ کے ضمن میں اختلاف کیا ہے ان حضرات کے نقطہ نظر سے کسی شوہر کا اپنی زوجہ سے یہ کہہ دینا کہ ’’ میں نے تجھ کو تین مرتبہ طلاق دی ‘‘ طلاق بائن ہے۔ جس میں بغیر محلل کے دوبارہ حلال ہونا ممکن نہیں۔ حالانکہ ان کے صحاح میں یہ صراحت موجود ہے کہ ’’ طلاق ثلاث‘‘ طلاق واحد ہی کے مانند ہے۔ جیسا کہ جناب ابن عباس کی سند سے مذکور ہے۔آپ فرماتے ہیںکہ ’’ عہد رسالت‘‘ دور ابو بکر اور حضرت عمر کی خلافت کےد و سال تک طلاق ثلاث طلاق واحد شمار ہوتی تھی۔ مگر حضرت عمر نے کہا کہ جس معاملہ میںانتظار چاہئے تھا۔ لوگوں نے اس میں جلد بازی شروع کردی۔ پس اگر ہم اسے نافذ کردیں، چنانچہ یہ رواج پاگیا‘‘۔( روایت صحیح مسلم جلد ۹ صفحہ ۱۰۹۹، جلد ۱۰ اور مسند احمد جلد ۱ ص ۳۱۴ )
خود قرآن مجید واشگاف لفظوں میںاعلان کررہا ہے :الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ
’’طلاق ( رجعی) دو مرتبہ ہے۔ اس کے بعد یا تو قاعدہ کےمطابق روک لینا چاہئے اور یا پھر اچھے برتاؤ کے ساتھ رخصت کردیا جائے ‘‘۔
اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے :فان طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ(سورہ بقرہ ۲۲۹۔۲۳۰)۔‘‘
نیز طلاق ایک ہی نکاح کو توڑتاہے چاہے جتنی دفعہ طلاق طلاق کہیں۔ جب دوسرا نکاح متحقق ہوجائیگا تب ہی دوسری طلاق کے ذریعہ دوسرے نکاح کے ٹوٹنے کا تصور ہوسکتا ہے۔ پھر جب تیسرے نکاح کے بعد اگر طلاق ہو تو یہ طلاق تیسرے نکاح کے ختم ہونے کا سبب ہوگی جسے طلاق بائن کہا گیا ہے۔
مُحَلِّل(حلالہ):تین طلاق کا فقہی حکم یہ ہے کہ اس کے بعد وہ عورت مرد پر حرام ہوجاتی ہے یعنی شوہر اپنی مطلقہ بیوی سے نہ رجوع کر سکتا ہے اور نہ اس سے دوبارہ شادی کر سکتا ہے، مگر یہ کہ مذکورہ عورت عدت پوری ہونے کے بعد تمام شرائط کے ساتھ کسی اور شخص سے شادی کرے اور وہ اسے طلاق دے یا وہ مر جائے۔[ امام خمینی، تحریر الوسیلہ، ج۳، ص۵۹۱؛ محقق حلی، شرایع الاسلام، ج۳، ص۱۷۔] اس کے بعد پہلا شخص اس عورت سے شادی کرسکتا ہے۔اس حکم پر فقہا کا اجماع ہے۔[ سبحانی، نظام الطلاق في الشريعۃ الإسلاميۃ الغراء، ص۱۶۷۔] مذکورہ عورت کا کسی اور شخص سے شادی کرنا تحلیل (یا حلالہ ) کہلاتا ہے اور دوسرے شوہر کو مُحَلِّل (حلال کرنے والا) کہا جاتا ہے۔[ مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ج۲، ص۳۷۷۔و ۳۷۹]
اگرکوئی شخص اپنی بیوی کودودفعہ طلاق دے کراس کی طرف رجوع کرلے یا اسے دو دفعہ طلاق دے اور ہر طلاق کے بعداس سے نکاح کرے یا ایک طلاق کے بعد رجوع کرے اوردوسری طلاق کے بعد نکاح کرے توتیسری طلاق کے بعدوہ اس مرد پرحرام ہوجائے گی۔لیکن اگرعورت تیسری طلاق کے بعدکسی دوسرے مرد سے نکاح کرے تووہ پانچ شرطوں کے ساتھ پہلے مردپرحلال ہوگی یعنی وہ اس عورت سے دوبارہ نکاح کرسکے گا:
۱:) دوسرے شوہرکانکاح دائمی ہو۔پس اگر اس عورت سے متعہ کرلے تواس مرد کے اس سے علیٰحدگی کے بعدپہلا شوہر اس سے نکاح نہیں کرسکتا۔ ۲:)دوسراشوہرجماع کرے اوراحتیاط واجب یہ ہے کہ جماع فرج(آگے کی شرم گاہ) میں کرے دُبر (پیچھے کی شرم گاہ )میں نہ ہو۔ ۳:)دوسراشوہراسے طلاق دے یامرجائے۔ ۴:)دوسرے شوہر کی طلاق کی عدت یاوفات کی عدت ختم ہوجائے۔ ۵:)احتیاط واجب کی بناپردوسراشوہرجماع کرتے وقت بالغ ہو۔(توضیح السائل آیۃاللہ سیستانی، مسئلہ نمبر۲۵۴۵)
حلالہ کے سلسلے میں سورہ بقرہ کی آیت ۲۳۰ میں حلالہ کے مسئلے کی جانب اشارہ ہے:(فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿٢٣٠﴾۔پھر اگر تیسری مرتبہ طلاق دے دی تو عورت مرد کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ دوسرا شوہر نکاح کرے پھر اگر وہ طلاق دے دے تو دونوں کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ آپس میں میل کرلیں اگر یہ خیال ہے کہ حدود الہٰیہ کو قائم رکھ سکیں گے. یہ حدود الہٰیہ ہیں جنہیں خدا صاحبانِ علم واطلاع کے لئے واضح طور سے بیان کررہا ہے۔ ) ۔ اور اس سلسلے میں وارد روایات میں شرائط وغیرہ کو بیان کیا گیا ہے(وسائل الشیعہ میں ۴۶ روایات بیان ہوئی ہیں)۔
منابع: توضیح المسائل، اصل و اصول شیعہ؛ ویکی شیعہ، ویکی فقہ و دیگر ویب سائٹس۔