باسمہ تعالیٰ
امام مہدی عج قرآن و سنت کی روشنی میں
سید محمد حسنین باقری۔ لکھنؤ
ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے آخری جانشین برحق ، فرزند زہرائے اطہرؑ امام زمانہ حضرت امام مہدی بن امام حسن عسکری علیہماالسلام کی ذات والا صفات اور آپ کا وجود ذی جود ایسی مسلمہ حقیقت ہے جس سے انکار کم از کم تاریخ سے معمولی آشنائی رکھنے والا نہیں کرسکتا۔ انکار کرنے کو تو لوگ خدا کا بھی کرتے ہیں، جس طرح خدا کے انکار سے خدا کے وجود پر کوئی آنچ نہیں آتی بلکہ انسان کے ضمیر و باطن اور اس کی عقل کا اندازہ ہوجاتا ہے اسی طرح قرآن و سنت سے معمولی سا ربط والا رکھنے والا اگر امام مہدی عج کا انکار کرے تو اس سے امام مہدیؑ پر کوئی آنچ نہیں آتی بلکہ سامنے والے کے بارے فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے۔یوں تو پیغمبر اکرمﷺ کی متفق علیہ حدیث: ’’مَنْ ماتَ وَ لَمْ یعْرِفْ إمامَ زَمانِهِ مَاتَ مِیتَةً جَاهِلِیة‘‘( کمال الدین،شیخ صدوق، ج۲، ص۴۱۰؛ مسند احمد حنبل، ج۲۸، ص۸۸)کی روشنی میں ہر زمانہ ہر شخص پر اپنے زمانے کے امام کا پہچاننا واجب ۔ (اس حدیث کی روشنی بھی ہر زمانہ میں ایک ایسے امام کا ہونا بدرجہ اولیٰ واجب و لازم ہے جس کی شناخت پر تمام لوگوں کا ایمان موقوف ہے۔)اس کے ساتھ آج کے دور میں خصوصیت کے ساتھ جب کہ ہر طرف کرونا جیسی وبا پھیلی ہوئی ہے، ہر طرف مصیبت و پریشانی کے بادل چھائے ہوئے ہیں، ہر شخص پریشان ہے، تمام دنیاوی سپر پاور طاقتیں بھی گھٹنے ٹیک چکی ہیں، تمام ترقیوں کےباوجودانسان اس کرونا کے سامنے شکست کا اعتراف کرنے پر مجبور ہے، تمام سائنسی و ٹکنالوجی میں ترقی و پیش رفت کے باوجود ابھی تک انسان علاج تلاش کرنے میں ناکام ہے۔ ایسے میں بھی انسان کی فطرت اور باطن آگے بڑھ کر آواز دے رہا ہے کہ ابھی بھی کوئی طاقت ہے جو تمام امیدوں کا مرکز ہے، ابھی بھی کوئی ذات و کوئی طاقت تمام مخلوق سے اوپر ہے جو تمام امور کو حل کرسکتی ہے۔ پہلے مرحلے میں وہ خداوندعالم کی ذات ہے اور اس کے بعد اس ذات باری تک پہنچانے والی، اس کے صفات کامظہر اور خالق و مخلوق کے درمیان رابطہ بھی ہے جو زمانہ کا امام اور پیغمبرؐ کا آخری جانشین برحق حضرت حجت ارواحنا لہ الفداء ہیں۔ آج امام زمانہ عج ہی خدا کے بعد تمام کائنات کے لیے امید کا مرکز و محور ہیں۔ لہذا آج کے دورمیں خصوصیت کے ساتھ ضروری ہے کہ ہم امام زمانہ عج کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ تلاش و جستجو کریں، انکی زیادہ سے زیادہ معرفت کے لیے ہر ممکنہ کوشش کریں، انھیں صحیح طور پہچانیں۔
امام زمانہ عج کے سلسلے میں بحث و گفتگو اور آپ کی شناخت و معرفت کے لیے عقلی دلیلوں کے علاوہ ایک راستہ قرآن کریم اور ایک راستہ سنت ہے۔ آئیے قرآن و سنت کی روشنی میں اجمالی طور پر امام کے سلسلے میں گفتگو کریں:
الف: قرآن کریم کی روشنی میں
قرآن کریم جو تمام عالم اسلام کے درمیان قابل قبول اور فیصلہ کن کتاب ہے اس میں متعدد آیات میں امام زمانہ عج کا تذکرہ موجود ہے۔البتہ یہ حقیقت ہے کہ امامؑ کا ذکر صراحت کے ساتھ واضح طور پر نہیں ہے۔ شائد اس کی وجہ بھی یہ ہو کہ لوگوں کی عقل و فکر اور شعور کا امتحان مقصود ہو اس لیے کہ اتنی اہم ذات کے لیے عقل جیسی نعمت کو استعمال میں لائے بغیر مان لینا اتنا اہمیت کا حامل نہیں ہوگا جتنا عقل و فکر کے ذریعہ یقین و اطمینان کرکے ماننے میں ہے۔
شیعہ مفسرین کرام احادیث سے استناد کرتے ہوئے اس حقیقت کے قائل ہیں کہ قرآن کی بہت سی آیات امام زمانہؑ کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ 250 [یا 260] آیات قرآنی کا تعلق امام مہدیؑ سے ہے۔( معجم احادیث امام مہدی،علامہ کورانی و ، جلد۵)
ذیل میں بعض آیات پیش کی جارہی ہیں۔ ابتداءً ایک دلیل جو مفسرین امام کی ضرورت کے لئے پیش کرتے ہیں، یہ ہے کہ قرآن کے لئے مُبَیِّن اور مُفَسِّر کی ضرورت ہے اور امام کے سوا کوئی بھی قرآن کریم کے تمام معانی اور خصوصیات سے آگاہ نہیں ہے۔ اس کی تائید نبی اعظم ﷺ کی مشہور و معروف اور متفق علیہ حدیث ’’حدیث ثقلین‘‘ سے بھی ہوتی ہے۔لہذا اس حدیث اور عقل کے تقاضوں کے مطابق، رسول اللہؐ کے بعد امام کا ہونا لازم اور ضروری ہے۔( مخزن العرفان در تفسير قرآن،امین، ج۳،ص۳۹، ذیل آیت۴۴ سورہ نحل۔) شیعہ عقیدے کے مطابق، امامت عالم وجود کے امن و سکون کا سرمایہ اور فیض خداوندی کے حصول کا واسطہ ہے اور اللہ کی نعمات اور برکات ان کے واسطے سے انسان کو ملتی ہیں اور اگر دنیا ایک لمحہ کے لیے بھی امام کے وجود سے خالی ہو جائے تو وہ اپنے باسیوں کو نگل لے۔( الغیبہ،نعمانی، ص۱۳۸۔؛ بحارالانوار، ج۲۳، ص۵۵)
(۱) "وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ۔’’ اور ہر قوم کا ایک [برگزیدہ] راہنما ہوتا ہے‘‘۔
اس آیت کی تفسیر میں امام جعفر صادقؑ نے فرمایا: ہر زمانے میں ہمارے خاندان میں سے ایک امام موجود ہوتا ہے جو لوگوں کو ان حقائق کی طرف ہدایت کرتا ہے جو رسول خداؐ اللہ کی طرف سے لائے ہیں۔( کمال الدین وتمام النعمہ، شیخ صدوق، ج۲،ص۶۶۷۔؛بحارالانوار، علامہ مجلسیؒ، ج۲۳،ص۵)
اس آیت کے مطابق خدا کی طرف سے امام موجود ہیں جو ہدایت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
(۲)’’وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ ‘‘‘ِ(سورہ انبیاء، آیت۱۰۵)
”اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے“۔
اس آیت کے سلسلے میں ا مام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:”زمین کو ارث میں لینے والوں سے مراد نیک اور صالح بندے ہیں، جو امام مہدی علیہ السلام اور ان کے ناصر و مددگار ہیں“۔(تفسیر قمی، ج۲، ص۵۲)
(۳) وَنُرِیدُ اَنْ نَمُنَّ عَلَی الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْاٴَرْضِ وَنَجْعَلَهمْ اٴَئِمَّةً وَنَجْعَلَهمْ الْوَارِثِینَ ۔>( سورہ قصص، آیت ۵ )
”اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور کر دیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انھیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کے وارث قرار دیدیں “۔
حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا:”(مستعضفین) سے مراد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آل ہے، خداوندعالم کوشش اور پریشانیوں کے بعد اس خاندان کے ”مہدی“ کے ذریعہ انقلاب برپا کرائے گا اور ان کو اقتدار اور شکوہ و عظمت کی اوج پر پہنچادے گا نیز ان کے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کردے گا“۔(غیبت طوسی علیہ الرحمہ ، ح۱۴۳، ص ۱۸۴)
(۴)’’بَقِيَّتُ اللَّـهِ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ۚ وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ‘‘،(سورہ ہود ،آیت ۸۶)
”اللہ کی طرف کا ذخیرہ تمہارے حق میں بہت بہتر ھے اگر تم صاحب ایمان ہو۔۔۔“۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:”جس وقت امام مہدی علیہ السلام ظھور فرمائیں گے خانہ کعبہ کی دیوار سے تکیہ لگا ئیں گے اور سب سے پہلے اسی آیت کی تلاوت فرمائیں گے اور اس کے بعد فرمائیں گے: اَنَا بَقِیَّةُ اللهِ فی اٴَرْضِه وَ خَلِیفَتُه وَ حُجَّتُه عَلَیکُمْ“ میں زمین پر ”بقیۃ اللہ ، اس کا جانشین، اور تم پر اس کی حجت ھوں۔ پس جو شخص بھی آپ کو سلام کرے گا تو اس طرح کھے گا: اَلسّلامُ عَلَیکَ یَا بَقِیَّةَ اللهِ فی اٴَرْضِه “(کمال الدین، ج۱، باب ۳۲، ح۱۶، ص ۶۰۳)
(۵)’’ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ‘‘( سورہ حدید آیت ۱۷)
”یاد رکھو کہ خدا مردہ زمینوں کا زندہ کرنے والا ہے اور ہم نے تمام نشانیوں کو واضح کر کے بیان کر دیا ہے تاکہ تم عقل سے کام لے سکو“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:”مراد یہ ہے کہ خداوندعالم زمین کو حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظھور کے وقت ان کی عدالت کے ذریعہ زمین کو زندہ فرمائے گا جو گمراہ حکام کے ظلم و ستم کی وجہ سے مردہ ہوچکی ہوگی“۔(غیبت نعمانی، ص ۳۲)
(۶) وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً(سورہ نور،۵۵)
’’ اللہ کا وعدہ ہے تم میں ان افراد سے جو صاحب ایمان ہیں اور نیک اعمال بجا لاتے رہے ہیں کہ وہ ضرور انہیں روئے زمین پر [اپنا] جانشین قرار دے گا جس طرح انہیں خلیفہ بنایا تھا جو ان کے پہلے تھے اور ضرور اقتدار [اور تسلط] عطا کرے گا ان کے پسندیدہ دین کو، اور ضرور بدل دے گا ان کے لئے ان کے ہر خوف کو امن و اطمینان میں؛ وہ میری عبادت کریں گے اس طرح کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے‘‘۔
ائمۂ اطہارؑ سے منقولہ احادیث نے اس آیت کریمہ کو امام زمانہؑ اور آپؑ کے اصحاب پر منطبق کیا ہے۔
(۷) ’’ وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ‘‘(سورہ قصص، آیت۵)
’’ اور ہم نے چاہا کہ احسان کریں ان پر جنہیں روئے زمین پر، دبایا [یا پیسا یا ضعیف کیا] گیا تھا اور ان ہی کو پیشوا قرار دیں، ان ہی کو وارث قرار دیں۔‘‘
(۸) ’’وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ ‘‘()
’’اور بے شک ہم نے توریت کے بعد زبور میں بھی یہ لکھ دیا ہے کہ میرے نیک بندے زمین کے وارث ہوں گے؛ ‘‘
ان دونوں آیہ کریمہ کو بہت سی احادیث کی بنیاد پر، مسئلۂ ظہور سے نسبت دی گئی ہے۔
(۹)نیز سورہ قدر کے مطابق ہر سال ملائکہ نازل ہوتے ہیں۔ یقینا ملائکہ حجت خدا اور صاحب امر پر ہی نازل ہوتے ہیں لہذا ہر زمانہ میں ایک حجت خدا اور صاحب امر کا ہونا ضروری ہے۔
ب: روایات کی روشنی میں
حضرت امام مہدی عج کے سلسلہ میں کثرت سے روایات ہمارے پاس موجود ہیں جن میں امام مہدی علیہ السلام کی زندگی کے مختلف حصوں پر ائمہ علیہم السلام کے ذریعہ تذکرہ ہوا ہے۔ جیسے آپ کی ولادت، بچپن کا زمانہ، غیبت صغریٰ اور غیبت کبریٰ، ظھور کی نشانیاں، ظھور کا زمانہ، عالمی حکومت۔ چنانچہ امام مہدی علیہ السلام کی ظاہری اور اخلاقی خصوصیات، غیبت کا زمانہ اور ان کے ظھور کے منتظرین کی جزا اور ثواب کے بارے میں بہت اہم روایات موجود ہیں، قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان میں سے متعدد روایات شیعہ کتابوں میں بھی بیان ہوئی ہیں اور اہل سنت کی کتابوں میں بھی، اور امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں بہت زیادہ روایات ”متواتر“ ہیں۔
اہل سنت کے مصادر حدیثی میں امام مہدیؑ اور منجی آخری الزمان کے سلسلہ میں متعدد روایات وارد ہوئی ہیں۔ ابری شافعی(دانشنامہ امام مہدیؑ، ج1، ص82)، عبد الحق شاہ محدث دھلوی(عبدالرحمن جامی، اشعۃ اللمعات، ج4، ص228)، سقارینی(السفارینی، لوامع الانوار البہیہ، ج2، ص70) اور شوکانی(دانشنامہ امام مہدیؑ، ج1، ص83) جیسے اہل سنت کے بعض بزرگ محدثین نے ان روایات کے متواتر ہونے کے سلسلہ میں تصریح کی ہے۔ اہل سنت ان روایات کی وجہ سے مہدی کے وجود کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اس موضوع کے سلسلہ میں شیعہ سنی عقیدہ کے مطابق مہم ترین مشترک خصوصیات یہ ہیں: وہ پیغمبر اکرم ؐ کی اولاد میں سے اور ان کے ہم نام ہوں گے اور ان کا لقب مہدی ہوگا۔ آخری زمانہ میں حتمی طور پر وہ قیام کریں گے اور تمام ظالمین پر کامیاب ہوں گے اور دنیا میں عدل و انصاف قائم کریں گے۔ جس طرح سے وہ ظلم و جور سے پر ہو چکی ہوگی اور وہ حضرت عیسیؑ کے ہمراہ زمین پر لوٹ کر آئیں گے۔ (دانشنامہ امام مہدیؑ، ج1، ص86-88)
ان روایات کے وہ اختلافی پہلو جو شیعوں کے عقیدہ کے خلاف ہیں:پیغمبر اکرم ؐ کے ہمنام ہونے کے علاوہ ان کے والد کا نام بھی آپ کے والد کے نام کی طرح عبد اللہ ہوگا، جبکہ شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ امام حسن عسکریؑ کے بیٹے ہیں۔(دانشنامہ امام مہدیؑ، ج1، ص88)
اہل سنت کا ایک گروہ ان کے امام حسنؑ کی نسل سے ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے۔(دانشنامہ امام مہدیؑ، ج1، ص89)
اہل سنت کے مشہور نظریے کے مطابق مہدی آخری زمانہ میں پیدا ہوں گے اور وہ امام حسن عسکری کے فرزند نہیں ہیں۔ (دانشنامہ امام مہدیؑ، ج1، ص90۔)
اہل سنت کی ایک قلیل تعداد نے عقیدہ مہدویت اور اس سلسلہ کی روایات کو ضعیف قرار دیا ہے۔ ان میں ابن خلدون کی تاریخ(ابن خلدون، محمد بن محمد، تاریخ ابن خلدون، ج1، ص199) میں اور رشید رضا کی تفسیر(رشید رضا، تفسیر المنار، ج10، ص342) المنار شامل ہیں۔
شیعوں کے نزدیک تو امام زمانہ عج سے متعلق بہت زیادہ روایتیں ہیں۔ رسول اکرمﷺ سے بھی اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے بھی۔ اس سلسلہ میں علماء نے مستقل کتابیں بھی تحریر کی ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ تمام ہی معصومین علیہم السلا م نے آپ کے بارے میں بہترین کلمات ارشاد فرمائے ہیں جو واقعاً علم و آگاہی کا مجموعہ ہے، جن میں عدالت کے اس علمبردار کے قیام اور انقلاب کی حکایت ہوئی ہے۔ ہم یہاں پر ہر معصوم سے ایک ایک حدیث بیان کررہے ہیں:
پیغمبر اسلامﷺ :مہدی ؑ میری اولاد میں سے ہیں۔ ان کا نام میرے نام پر اور کنیت میری کنیت ہوگی۔ ان کی صورت و سیرت سب سے زیادہ مجھ سے مشابہ ہوگی۔ غیبت اختیار کرے گا۔ جس کی وجہ سے لوگ حیرت و سرگردانی کا شکار ہوں گے۔ بہت سے لوگ گمراہ ہوجائیں گے اس وقت وہ روشن ستارے کے مانند پردہ غیب سے ظاہر ہوگا۔ اور زمین کو عد ل و انصاف سے اسی طرح بھرے گا جس طرح ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ (بحار الانوار جلد ۵۱، صفحہ ۷۱)۔”خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو مہدی (علیہ السلام) کی زیارت کریں گے، اور خوش نصیب ہے وہ شخص جو ان سے محبت کرتا ھوگا، اور خوش نصیب ہے وہ شخص جو ان کی امامت کو مانتا ہو“۔(بحار الانوار ج۵۲، ص ۳۰۹)
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام :میرا قائم طولانی غیبت اختیار کرے گا۔ میں شیعوں کو دیکھ رہا ہوں کہ اس کو ڈھونڈھنے کے لئے ہر طرح کی کوشش کررہے ہیں لیکن ڈھونڈھ نہیں پارہے ہیں۔ یاد رکھو! جو لوگ اس کی غَیبت کے زمانے میں اپنے دین پر ثابت قدم رہیں اوراس غَیبت کے طولانی ہونے کی وجہ سےاس کے منکر نہ ہوں تو ایسے لوگ قیامت کے دن ہمارے ساتھ ہوں گے۔ اور جب ہمارا قائم ظہور کرے گا اس وقت اس کی گردن پر کسی کی بھی بیعت نہیں ہوگی اسی وجہ سے اس کی ولادت پوشیدہ ہوگی اور خود نگاہوں سے اوجھل ہوگا۔ (بحار الانوار جلد ۵۱، ےا ۲، جلد ۱و۲۔صفحہ ۱۰۹و۱۱۰)۔”(آل محمد) کے ظہور کے منتظر رہو، اور خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک کہ خداوندعالم کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ کام ”ظھور کا انتظار“ ہے۔(بحار الانوار ج۵۲، ص ۱۲۳)
حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام :( امام حسین علیہ السلام سے فرمايا:) تمہاری ولادت کے بعد رسول خداؐ ميرے پاس تشريف لائے، تمہيں گودميں ليا، اور فرمايا : اپنے حسينؑ كکو لو اور جان لو کہ يہ نو اماموں کے باپ ہيں اور ان کی نسل سے صالح امام پيدا ہوں گے اور ان ميں نواں مہدی ہے ۔ (اثبات الہداۃ، ج۲، ص۵۵۲)۔حدیث لوح میں ارشاد خداوندی ہے(حدیث لوح حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے منسوب وہ روایت ہے جو جابر ابن عبد اللہ انصاری سے مروی ہے کہ: حضرت رسول اکرم ﷺ کے زمانہ میں ولادت امام حسین علیہ السلام کے موقع پر مبارکباد پیش کرنے کے لئے حضرت فاطمہ علیہا السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، چنانچہ بی بی دوعالم کے ہاتھوں میں ایک سبز رنگ کا ایک لوح (صفحہ) دیکھا، جس میں سورج کی طرح چمکتی ہوئی تحریر تھی، میں نے عرض کیا: یہ لوح کیسی ہے؟ فرمایا: اس لوح کو خداوندعالم نے اپنے رسول کو تحفہ دیا ہے، اس میں میرے پدر بزرگوار، میرے شوہر ،دونوں بیٹوں اور ان کے بعد ہونے والے جانشین کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ رسول خدا ﷺ نے یہ لوح مجھے عطا کی ہے تاکہ اس کے ذریعہ میرا دل خوش و خرم رہے۔):”۔۔۔ اس کے بعد اپنی رحمت کی وجہ سے اوصیاء کا سلسلہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند ارجمند پر مکمل کردوں گا؛ جو موسیٰ کا کمال، عیسیٰ کا شکوہ اور جناب ایوب کا صبر رکھتا ھوگا۔۔۔“۔(کمال الدین، ج۱، باب ۲۸، ح۱، ص ۵۶۹)
امام حسن علیہ السلام :ہمارا قائمؑ اپنے زمانے کے کسی بھی حاکم کی حاکمیت میں نہیںہوگا۔ عیسیٰ روح اللہ اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ اور خداوند عالم اس کی ولادت کو لوگوں سے پوشیدہ رکھے گا۔ اور خود وہ بھی نگاہوں سے پوشیدہ رہے گا۔ تاکہ جب ظہور کرے تو اس کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہو۔ وہ عورتوںکی سردار حضرت فاطمہ کےبیٹے میرے بھائی حسینؑ کی نویں اولاد ہے۔ خداوند عالم غَیبت کے زمانے میں اس کی عمر کو طولانی کرے گا پھر اپنی قدرت کاملہ سے اس کو چالیس سالہ جوان کی صورت میں ظاہر کرے گا تاکہ سب لوگ جان لیں کہ خداوند عالم ہر چیز پر قادر ہے۔ (بحار الانوار جلد ۵۱، صفحہ ۱۳۲)۔”خداوندعالم آخر الزمان میں ایک قائم کو بھیجے گا ۔۔۔اور اپنے فرشتوں کے ذریعہ اس کی مدد کرے گا، اور ان کے ناصروں کی حفاظت کرے گا۔۔۔ اور اس کو تمام زمین پر رہنے والوں پر غالب کرے گا۔۔۔ وہ زمین کو عدالت ، نور اور آشکار دلیلوں سے بھر دے گا۔۔۔ خوش نصیب ھے وہ شخص جو اس زمانہ کو درک کرے اور ان کی اطاعت کرے “۔(احتجاج، ج۲، ص ۷۰)
امام حسین علیہ السلام:ہمارے خاندان سے بارہ مہدی (ہدایت یافتہ امام) ہیں جن میں اول امیرالمؤمنین علي علیہ السلام ہیں اور آخری میرے نویں فرزند ہیں جو حق کے ساتھ قیام فرمائے گا اور زمین کو عدل و انصاف کے قیام سے زندہ کرے گا جب یہ ظلم و ستم کی وجہ سے مرچکی ہوگی؛ اور دین کو ـ جو مہجور اور تنہا ہوچکا ہوگا ـ دوسرے ادیان پر غلبہ دیں گے، حق و حقیقت کو روشن کریں گے، مہدی طویل عرصے تک غائب رہیں گے جس کے نتیجے میں بعض اقوام اور بعض جماعتیں مرتد ہوجائیں گی اور کفر اختیار کریں گی اور بعض لوگ دین پر ثابت قدم رہیں گے اور جو ثابت قدم رہيں گے ان کو آزار و اذیت کا نشانہ جائے گا اور اذيت دینے والے ان سے پوچھیں گے: اگر تم سچ بولتے ہو تو یہ بتاؤ کہ تمہارے امام کے ظہور کا وعدہ کب ہے؟ لیکن جان لو کہ جو لوگ غیبت کے زمانے میں لوگوں کی اذيت اور تکذيب و تردید کے مقابلے میں صبر و استقامت کریں گے اجر و ثواب کے حوالے سے اللہ کی راہ میں ان مجاہدوں کی مانند ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رکاب میں تلوار لے کر جہاد کرچکے ہیں۔(بحارالانوار، جلد۵۱، صفحہ ۱۳۳)۔”۔۔۔خداوندعالم اس (امام مہدی علیہ السلام)کے ذریعہ مردہ زمین کو زندہ اور آباد کردے گا، اور اس کے ذریعہ دین حق کو تمام ادیان پر غالب کردے گا، اگرچہ یہ بات مشرکین کو اچھی نہ لگے۔ وہ غیبت اختیار کرے گا جس میں ایک گروہ دین سے گمراہ ھوجائے گا اور ایک گروہ دین (حق) پر قائم رھے گا۔۔۔ بے شک جو شخص ان کی غیبت کے زمانہ میں پریشانیوں اور جھٹلائے جانے کی بنا پر صبر کرے وہ اس شخص کی مانند ھے جس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رکاب میں تلوار سے جہاد کیا ہو“۔(کمال الدین، ج۱، باب ۳۰، ح۳، ص ۵۸۴)
امام زین العابدین علیہ السلام:”جو شخص قائم آل محمد کی غیبت کے زمانہ میں ہمارے مودت اور دوستی پر ثابت قدم رھے خداوندعالم اس کو شہدائے بدر و اُحد کے ہزار شھیدوں کے برابر ثواب عنایت فرمائے گا“۔(کمال الدین، ج۱، باب ۳۱، ص ۵۹۲)
امام محمد باقر علیہ السلام :”ایک زمانہ وہ آئے گا کہ جب لوگوں کا امام غائب ھوگا، پس خوش نصیب ھے وہ شخص جو اس زمانہ میں ہماری ولایت پر ثابت قدم رھے۔۔۔“۔(کمال الدین، ج۱، باب ۳۲، ح۱۵، ص ۶۰۲)
امام جعفرصادق علیہ السلام :”قائم آل محمد کے لئے دو غیبتیں ہوں گی ایک غیبت صغریٰ اور دوسری غیبت کبریٰ ہوگی“۔(غیبت نعمانی، باب ۱۰، فصل ۴، ص ۱۷۶)
موسیٰ کاظم علیہ السلام :”امام (مہدی علیہ السلام) لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رہے گا لیکن مومنین کے دلوں میں ان کی یاد تازہ رھے گی“۔(غیبت نعمانی، باب ۳۴، ح ۶،ص ۵۷)
امام علی رضا علیہ السلام :”جس وقت (امام مہدی علیہ السلام) قیام کریں گے تو ان کے (وجود کے) نور سے زمین روشن ہوجائے گی، اور وہ لوگوں کے درمیان حق و عدالت کی ترازو قرار دیں گے اور اس موقع پر کوئی کسی پر ظلم و ستم نھیں کرے گا“۔(غیبت نعمانی، باب ۳۵، ح۶۵،ص ۶۰)
امام محمد تقی علیہ السلام :”قائم آل محمد کی غیبت کے زمانہ میں (مومنین کو) ان کے ظھور کا انتظار کرنا چاہئے اور جب وہ ظھور اور قیام کریں تو ان کی اطاعت کرنا چاہئے“۔(غیبت نعمانی، باب ۳۶، ح ۱،ص ۷۰)
امام علی نقی علیہ السلام :”میرے بعد میرا فرزند حسن (عسکری) امام ہوگا اور ان کے بعد ان کا فرزند ”قائم“ امام ہوگا، وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جیسا کہ ظلم و جور سے بھری ہوگی“۔(غیبت نعمانی، باب ۳۷، ح ۱۰،ص۹ ۷)
امام حسن عسکری علیہ السلام :”اس خدائے وحدہ لاشریک کا شکر ہے جس نے میری زندگی میں مجھے جانشین عطا کردیا، وہ خلقت اور اخلاق کے لحاظ سے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سب سے زیادہ مشابہ ہے“۔(غیبت نعمانی، باب ۳۷، ح ۷،ص ۱۱۸)
امام حجت ارواحنا لہ الفداء:’’میں ہی زمین پر (بقیۃاللہ)اللہ کا بقیہ ، اور تم پر خدا حجت اور اس کا جانشین ہوں‘‘(کمال الدیں، شیخ صدوقؒ، ص۳۳۱)۔ ’’ہم تمہاری خبر گیری سے غافل نہیں ہیں اور نہ تمہاری یاد کو ہم نے فراموش کیا ہے، اگر ایسا ہوتا تو بلائیں تم پر ٹوٹ پڑتیں اور دشمن تمہیں ریزہ ریزہ کر ڈالتے، لہذا تقائے الٰہی اختیار کرو۔(بحارالانوار، ج۵۳، ص۱۷۵)
خدا سے دعا ہے کہ ہم کو امام زمانہ کی صحیح و حقیقی معرفت عطا فرمائے، اور ان کے ظہور پُرنور کے ذریعہ دنیا میں امن و مان قائم فرمائے۔