جمعہ، 23 اگست، 2019

ولایت امام محمد باقر علیہ السلام کی نظر میں

ولایت امام محمد باقر علیہ السلام کی نظر میں
سید محمد حسنین باقری
۱۸؍ ذی الحجہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا دن ہے اسی دن پیغمبر اکرم ﷺ نے حکم خداوندی پر عمل کرتے ہوئے اپنے بعد کے لیے امام علی علیہ السلام کی ولایت و جانشینی کا اعلان فرمایاتھا۔ دین اسلام میں اصل ولایت کی اہمیت و عظمت تو اتنی زیادہ ہے کہ قرآن اور اہل بیت علیہم السلام کی روایات میں توحید کے بعد سب سے اہم اسلامی بنیاد ’’ولایت‘‘ کو بتایا گیا ہے اور جیسا کہ قرآن کریم میں اس سلسلے میں بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا میں تمام انسانوں کی زندگی دو ولایتوں کے محور پر گردش کرتی ہے۔ یا خدا کی ولایت ( اللہ ولی اللہ آمنوا) یا شیطان اور طاغوت کی ولایت ( والذین کفرو اولیائھم الطاغوت) اور تمام انسان ان دو ولایتوں سے باہر نہیں ہوسکتے۔ 
کوئی بھی انسان بالخصوص اپنی معاشرتی زندگی میں اصل ولایت ، یا حکومت یا کسی قانون کو قبول کئے بغیر اپنی اجتماعی زندگی کو آگے نہیں بڑھا سکتا۔ لہٰذا اسلامی معارف میںجس چیز کی اہمیت ہے وہ ولایت خدا کا تسلیم کرنا ہے چاہے تکوینی نظام میں ہو یا تشریعی نظام میں ۔ تاکہ ولایت خدا کے سایہ میں ہر شیطان اور طاغوت کی ولایت سے رہائی حاصل کی جائے ۔ اور ان اولیاء کی ولایت کو قبول کیا جائے جو خدا کے اذن سے اس کی حجت اور اس کی جانب سے ولی ہیں۔ انھیں اولیاء میں امیرالمومنینؑ کی ذات گرامی ہے جنکی ولایت درحقیقت خدا ہی کی ولایت ہے۔جو ہمیں ہر شیطان و طاغوت کی ولایت سے محفوظ رکھ کر خدا کی ولایت تک پہنچاتی ہے۔
 صدر اسلام ہی سے پیغمبرؐ اور ائمہ معصومینؑ کی طرف سے ولایت کے سلسلہ میں بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے اور غدیر کا واقعہ اس اساس و بنیاد پر تاکید کا واضح اور بہت بڑا نمونہ ہے۔ 
اسی ماہ ولایت و امامت کی ۷؍تاریخ کو ولیٔ خدا ، امام برحق حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے بھی شہادت پائی ، ان دونوں ،مناسبتوں کے پیش نظر ذیل کی تحریر پیش کی جارہی ہے:
امام پنجم امام محمد باقرعلیہ السلام نے بھی متعدد مواقع پر اس اہم مسئلہ کو بیان فرمایا اور اس سلسلے میں تاکید فرمائی ہے۔ جن میں سے بعض نمونے نذر قارئین ہیں :
۱: ولایت ، دین کی اساس و بنیاد ہے :
امام باقر ؑ فرماتے ہیں : ’’اسلام پانچ ستونوں پر قائم ہے :اقامۂ نماز، ادائیگیٔ زکات، ماہ رمضان کا روزہ، حج خانۂ خد اور اہم اہلبیتؑ کی ولایت 
 دوسری جگہ فرماتے ہیں: ’’ولایت جیسی کوئی چیز اہم اور مورد توجہ نہیں ہے‘‘۔ (امالی شیخ صدوقؒ، ص۳۵۳) 
۲: ولایت ، معاشرہ کے اتحاد کا محور:
جیسا کہ بعض لوگ خیال کرتے ہیں اس کے برخلاف آج ولایت کی بحث کرنا معاشرہ میں اختلاف و تفرقہ کا سبب نہیں بلکہ سماج میں اتحاد و بھائی چارگی کا انتہائی اہم محور ہے۔ یہی ولایت ایک مرکز پر جمع کرتی ہے۔ اس کی مخالفت اور اس سے دوری ہی کے نتیجے میں اختلافات وجود میں آئے اور امت مسلمہ فرقوں میں تقسیم ہوگئی۔ اس سلسلے میں حضرتؑ فرماتے ہیں :
’’ خداوند علام جانتا تھا عنقریب پیغمبرؐ کے بعد لوگ متفرق اور آپس میں اختلاف کا شکار ہوں گے۔ لہٰذا جس طرح پہلے والوں کو اختلاف سے روکا اسی طرح ان کو بھی اختلاف و تفرقہ سے منع کیا اور انہیں حکم دیا کہ ولایت آل محمدؑ کی بنیاد پر مجتمع ہوں اور متفرق نہ ہوں‘‘۔ ( بحار الانوار جلد ۶۵ ص۲۲۳)
اور یہ وہی یاددہانی ہے جسے صدیقہ طاہرہؑ نے بیان فرمایا:’’ ہماری امامت اختلاف و جھگڑے سے بچنے کا سبب ہے‘‘۔(خطبہ فدک) 
۳: ولایت ، خداوندعالم کی عظیم ترین نعمت ہے:
قرآن کا اعلان ہے :’’ اس قیامت کے دن نعمتوں کے بارےمیں سوال ہوگا‘‘ ( سورہ تکاثر آیت ۸)
امام نے فرمایا: ’’اس نعمت سے مراد ولایت علیؑ کی نعمت ہے‘‘(جس کے بارے میں سوال ہوگا) ۔ ( بحار الانوار جلد ۲۴، ص۵۴)
سورہ لقمان کی آیت ۲۰ میںبیان ہوا: ’’خداوند عالم نے اپنی ظاہری و باطنی نعمتیں تم پر کامل کردیں‘‘۔
 امامؑ نے فرمایا : ’’نعمت ظاہری سے مراد پیغمبر اکرمؐ اور آپ نے معرفت و توحید کے متعلق جو کچھ بیان فرمایا ہے وہ ہے اور باطنی نعمت سے مراد ہم اہل بیتؑ کی ولایت اور ہمارےساتھ مودت کا وعدہ کرنا ہے‘‘۔ ( المناقب جلد ۴ ص۱۸۰)
سورہ نحل آیت ۸۳ میں ارشاد ہے: ’’خدا کی نعمتوں کو پہچانتے ہیں پھر اس کا انکار کرتے ہیں‘‘۔
 امامؑ نے فرمایا : ’’یعنی ولایت علیؑ کو جانتے ہیں اور یہ بات بھی جانتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے ولایت کا حکم دیا ہے لیکن رسول اکرمؐ کی وفات کے بعد اس ولایت کے منکر ہوگئے۔ ( بحار ، ۳۵/۴۲۴)
۴: ولایت نور الٰہی ہے :خداوند عالم کا سورہ بقرہ ، آیت ۲۵۷ میں اعلان ہے:’’ جو لوگ کافر ہوگئے ان کے ولی طاغوت ہیں ،جو انکو نور سے تاریکی و ظلمت کی طرف نکال کر لے جاتے ہیں‘‘۔ امامؑ نے اس کے سلسلے میںفرمایا :’’ جو کافر ہوئے علی ابن ابی طالبؑ کی ولایت کے سلسلے میں جن کے ولی طاغوت ہیںا س سے مراد علیؑ اور ان کے پیرکاروں کے دشمن ہیں۔ جو لوگوں کو نور الٰہی کی فضا سے خارج کرتے ہیں ۔ اور ولایت علی ابن ابی طالبؑ کا نور ہے جو لوگوں کے دشمنوں کو ظلمت کی طرف یعنی دشمنان اہل بیت کی ولایت کی طرف لے جاتے ہیں‘‘۔ 
 اسی طرح سورہ توبہ آیت ۳۲ میں اعلان ہے : ’’وہ لوگ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ سے نور خدا کو بجھادیں لیکن خدا اپنے نور کو تمام و کامل کرے گا‘‘۔ 
یہاں پر مراد ’’ولایت اہل بیتؑ کا نور ہے‘‘۔ (بحار الانوار جلد ۳۵ ، ص۳۹۶)
۵:صراط مستقیم اور سبیل اللہ ( راہ خدا) سے مراد ولایت ہے :
قرآن کریم نے سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۹ میں بیان کیا ہے :’’بیشک یہ قرآن سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے‘‘۔
 حضرتؑ نے فرمایا : سیدھے راستے سے مراد اہل بیتؑ کی ولایت ہے‘‘۔ ( بحار الانوار جلد ۶۷، صفحہ۳۳۹)
اسی سورہ کی آیت ۴۸ میں اعلان ہے : ’’کفار گمراہ ہوئے۔ وہ راہ الٰہی ( سبیل خدا) تک رسائی کی طاقت نہیں رکھتے‘‘۔
 امام پنجمؑنے اس آیت کی شرح میں فرمایا : ’’وہ لوگ جو گمراہ ہوئے اور ولایت علیؑ سے خارج ہوگئے وہی لوگ راہ خدا تک رسائی کی طاقت نہیں رکھتے اور علی ہی سبیل اللہ ہیں‘‘۔ ( بحار الانوار جلد ۳۵ ص۳۶۳)
اسی طرح سورہ انعام کی آیت ۱۵۳ ،’ و صراطی مستقیما‘ کے سلسلے میں امامؑ نے برید عجلی سے پوچھا: کیا اس آیت ’’ میرا راستہ مستقیم ہے ‘‘ کے معنی جانتے ہو؟ برید نے کہا نہیں؟ حضرتؑ نے فرمایا : اس سے مراد علیؑ اور ان کے معصوم فرزندوں کی ولایت ہے۔ پھر سوال کیا: کیا تم آیت کے اس حصہ کو ’’ دوسرے کے راستے کی پیروی نہ کرو‘‘ اس کا مطلب جانتے ہو؟ برید نے کہا : نہیں۔ حضرت نے فرمایا : اس سے مراد علیؑ کے دشمنوں کی ولایت ہے جس سے روکا گیا ہے۔ اس کے بعد سوال کیا کہ آیت کے اس ٹکڑے ’’ کہیں ایسا نہ ہو کہ راہ خدا سے جدا ہو جاؤ‘‘ اس کا مطلب جانتے ہو؟ جواب دیا نہیں تو حضرت نے فرمایا : اس سے مراد علیؑ کا راستہ اور ان کی ولایت ہے۔ ( بحار الانوار جلد ۶۴ ص۳۱)
۶: ولایت ، امانت الٰہی ہے :
امام محمد باقر علیہ السلام نے سورہ نساء کی آیت ۵۸: ’’ خداوند عالم نے تم کو حکم دیا ہے کہ امانت کو اس کے اہل کو پلٹاؤ‘‘ اس آیت کی تفسیر میں فرمایا : اس آیت میں امانت سے مراد امر ولایت ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اہل کو پلٹایا جائے۔ ( بحار ۲۳/۲۸۳)
اسی طرح سورہ احزاب آیت ۷۲ُ: ’’ ہم نے امانت کو زمین و آسمان پر پیش کیا ‘‘۔
 اس آیت کے بارےمیں فرمایا : یہ امانت جسے آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا گیا لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا ، وہی ولایت ہے۔ ( بحار الانوار جلد ۶۴، ص۴۲)
اس طرح کی روایات بیان کررہی ہیں کہ اس ولایت سے مراد ولایت تکوینی و تشریعی دونوں ہیں۔ 
 ۷: بعض قرآنی تعبیرات میں نیکیاں، حسنات، خیرات اور حیات طیبہ سے مراد ولایت ہے
امامؑ نے سورہ بقرہ ، آیت ۱۴۸، ’’فاستبقوا الخیرات ‘‘ ’’نیک کاموں میں ایک دوسرے پر سبقت کرو‘‘۔ اس آیت کی تفسیر میں فرمایا: ’’خیرات یعنی نیک کام جس میں سبقت کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد ولایت ہے‘‘ ( بحار الانوار جلد ۸۱ ص ۴۳)
سورہ شوری آیت ۲۳:’’ جو بھی نیکی و حسنہ انجام دے ہم اس کی نیکیوں میں اضافہ کریں گے‘‘۔ امام باقرؑ نے اس کی وضاحت میں فرمایا : ’’حسنہ و نیکی ، امیر المومنین کی ولایت و محبت ہے اور سیئہ و برائی آنحضرت سے دشمنی و کینہ ہے اور اس سیئہ کے ساتھ کوئی بھی عمل قابل قبول نہیں ہے‘‘۔ ( بحار الانوار جلد ۳۶ ص ۱۰۲)
سورہ انفال آیت ۲۴: ’’اے ایمان والو! خدا و رسول کی آواز پر لبیک کہو جب وہ تمہیں پکاریں تاکہ وہ تم کو زندگی و حیات عطا کریں‘‘۔ امامؑ نے اس آیت کے ضمن میں فرمایا : ’’ جس زندگی کی طرف دعوت دی گئی ہے وہ علیؑ و اولاد علیؑ کی ولایت ہے‘‘۔ ( بحار الانوار ۳۶/۱۳۳)
۸: شیعہ وہ ہیں جو گزشتہ عوالم میں ولایت تکوینی و تشریعی پر کیے ہوئےعہد و پیمان پر قائم ہیں: امام محمد باقر علیہ السلام نے عوالم گزشتہ، آغاز خلقت، انبیاء و اولیاء اور بہت سے انسانوں کی جانب سے اہل بیتؑ کی ولایت تکوینی و تشریعی قبول کرنےمیں عہد و پیمان کے سلسلے میں وضاحت کرتے ہوئے تفصیلی طور پر گفتگو فرماتی ہے اختصار کے مد نظر اس کی وضاحت نہیں کی جاسکتی اصل روایت علل الشرائع جلد ۲ ص ۶۰۶ پر بیان ہوئی ہے۔ 
دوسری جگہ امامؑ فرماتے ہیں : ’’شیعیان علیؑ ہماری ولایت کے سلسلے میں بذل و بخشش کرتے ہیں اور ہماری مودت کی راہ میں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور ہمارے امر ولایت کو زندہ رکھنے کے لئے ایک ووسرے سے ملتےہیں۔ اور اس ولایت کے تسلیم کرنے کے آثار میں سے یہ ہے کہ جب غصہ و غضبناک ہوتے ہیں تو ستم نہیں کرتے۔ جب راضی و خوشنود ہوتے ہیں تو اسراف و زیادہ روی نہیں کرتے۔ اپنے پڑوسیوں کے لئے باعث خیر و برکت اور ساتھیوں کے لئے سکون و آرام کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ ( تحف العقول ص۴۱۰)
۹: ولایت کا قبول نہ کرنا ہلاکت و بد بختی کا سبب ہے :
سورہ بقرہ آیت ۱۹۵ :’’اپنے ہاتھوں اپنے کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘ کے سلسلے میں امام ؑ نے فرمایا : اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری ولایت سے روگرانی نہ کرو اس سے انحراف اختیار نہ کرو ورنہ دنیا و آخرت میں ہلاک ہوجاؤ گے( بحار ۳۹ /۲۶۳)
دوسری جگہ فرماتے ہیں : اگر کوئی پوری عمر کعبہ میں رکن و قیام کےد رمیان عبادت کرتے ہوئے مرجائے اور میرے اہل بیتؑ کی ولایت نہ رکھتا تو خداوند عالم اس کو منہ کے بل دوزخ میں ڈالے گا۔ ( تاویل الآیات ص ۳۰۹)
امام باقرؑنے اپنے آباؤ اجداد اور انہوں نے رسول اکرمؐ سے نقل کیا ہے کہ فرمایا : ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ جب آل ابراہیم و آل عمران کا تذکرہ ہوتا ہے تو خوش ہوتے ہیں لیکن جب آل محمدؑ کی بات آتی ہے تو ان کے دل میں درد شروع ہوجاتا ہے اور ان کو برا لگتا ہے۔ اس خدا کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمدؐ کی جان ہے اگر ان میں سے ہر آدمی ستر انبیاء کے برابر عمل لیکر بھی قیامت میں آئے تو خدا ان سے قبول نہیں فرمائے گا جب تک کہ وہ میری اور علیؑ کی ولایت کے عہد کے وفادار نہ ہوں۔ (تاویل الآیات ص ۱۱۲)
البتہ یہ نکتہ نگاہوں میں رہے کہ چونکہ اہل بیتؑ کی ولایت خدا کے اذن و حکم سے اور اس کی ولایت کے تحت ہے لہٰذا ان کی ولایت کو قبول نہ کرنے کا مطلب خدا کی ولایت سے خارج ہوکر شیطان و طاغوت کی ولایت میں داخل ہونا ہے۔ اسی وجہ سے خداوند عالم اس طرح کے افراد کے سلسلے میں اور ان کے اعمال و عبادات کے سلسلے میں کوئی اجر عطا فرماتا ہے۔ 
۱۰: ولایت قبول کرنےکی شرط کیا ہے :
اب تک کی گفتگو سے کسی حد تک ولایت کی اہمیت و عظمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہےاور یہ معلوم کیا جاسکتا ہےکہ یہ ولایت کتنی فضیلت کی حامل اور کتنے عظیم آثار و برکات رکھتی ہے ۔ لہذا اس ولایت کا تسلیم و قبول کرنا اور اس ولایت کا پابند ہوجانا بھی یقیناًعظمت و اہمیت کا حامل ہے۔ جن لوگوں کے پاس ولایت علیؑ ہے جو ولایت علیؑ کے ذریعہ ولایتِ خدا تک پہنچے ہیں یقیناً ان کی عظمت و فضیلت کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ بات بھی مسلّم ہے کہ ولایتِ علیؑ کے حاملین کے لیے اگر ولایت باعث فخر و ناز ہے تو بجا ہے لیکن اس ولایت کا حامل ہونا ان کے لیے باعث عجب و غرور بھی نہ ہونے پائے۔ یہ ولایتِ علیؑ ان کو خدا سے نزدیک کرنے کا سبب ہو، ولایت علوی ان کو خدائی بنائے، خدا کا مطیع و فرمانبردار بندہ ہونے کا ذریعہ ہو، ولایت علیؑ سبب ہو کہ گناہ و معصیت سے دوری ہوجائے، ولایت علیؑ سبب ہو کہ بے دینی سے نفرت ہوکر دینداری و مذہب سے لگاؤ و رجحان میں روز بروز اضافہ ہو۔ولایت علیؑ کا مطلب ہی خدائی رنگ میں رنگنا ہے۔ اگر یہ ولایت ہمارے پاس ہو تو صرف زبان ہی سے نہ کہنا پڑے کہ ہم ولایت علیؑ کے پیروکار ہیں بلکہ ہمارا کردار و عمل بھی گواہی کہ ہمارے پاس علیؑ کی ولایت ہے ، ہماری زبان ہی پر نام علیؑ علیؑ نہ ہو بلکہ ہمارا وجود علیؑ علیؑ کررہا ہو، ولایت تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف ہم ہی نہ کہیں کہ ہمارے پاس ولایت علیؑ ہے بلکہ ہمارا مولا کہے کہ یہ ہمارا مولائی ہے ۔ 
جیسا کہ امام محمد باقرؑ نے اپنے بعض شیعوں کو مخاطب قرار دیتےہوئے فرمایا:
معصیت میں عذر تراشی نہ کرو اور باطل باتوں کی پیروی نہ کرو کہ ہم تو شیعہ ہیں اور یہی بات ہماری نجات کےلئے کافی ہے ۔ خدا کی قسم ہمارا شیعہ تو وہی ہے جو خدا کی اطاعت کرے۔ (اصول کافی،ج۲،ص۷۳، کتاب ایمان و کفر، باب الطاعۃ و التقوی، حدیث ۱) 
آپ نے اپنے ایک صحابی جابر اپنی یزید جعفی کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:ہمارے شیعوں کو بتادو کہ ہم خدا سے بے نیاز نہیں بناتے ( یعنی ہم پر بھروسہ کرکےعمل کو ترک نہ کردینا) اور ہمارےشیعوں کو یہ خبر بھی دے دو کہ خدا کے پاس جو چیزیں ہیں وہ بغیر عمل نہیں مل سکتیں اور ( یہ بھی) ہمارے شیعوں سے کہہ دو کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ حسرت و افسوس اس کو ہوگا جو عدل کی توصیف کرے اور اس کی ( عملاً) مخالفت کرے اور یہ بھی خبر دے دو کہ اگر انہوں نے حکم خدا پر عمل کیا تو قیامت کے دن وہی کامیاب ہوں گے۔ (امالی ،ص۳۸۰، جزء ۱۳)
اے جابر! جو لوگ اپنے کو شیعہ کہتے ہیںکیا صرف ہماری محبت کا قائل ہونا ان کے لئے کافی ہے؟ خدا کی قسم ہمارا شیعہ صرف وہی ہے جو تقوائے الٰہی رکھتا ہو اور خدا کی اطاعت کرتا ہو۔ ( یہاں تک کہ فرمایا: ) لہٰذا خدا سے ڈرو اور جو خدا کے پاس ہے اس کے لئے عمل کرو خدا اور کسی کے درمیان کوئی رشتہ داری نہیں خدا کے نزدیک سب سے محبوب اور سب سے محترم وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی اور سب سے زیادہ اس کی اطاعت کرنےوالا ہو۔ 
اے جابر! خدا کی قسم خدا سے تقرب صرف اطاعت کے ذریعہ ہوسکتا ہے۔ ہمارےپاس (گنہ گاروں و معصیت کاروں کے لیے )آتش جہنم سے برأت کا پروانہ نہیں ہےاور نہ کسی کے پاس خدا کے خلاف کوئی حجت ہے جو خدا کا مطیع ہے وہ ہمارا دوست ہے۔ جو خدا کا نافرمان ہے وہ ہمارا دشمن ہے اور ہماری ولایت کا حصول صرف عمل و تقویٰ ہی سے ہوسکتا ہے۔ 
(اصول کافی،ج۲،ص۷۴، کتاب ایمان و کفر، باب الطاعۃ و التقوی، حدیث ۳) 
اے جابر! باطل آرا اور فاسد مذاہب تم کو دھوکہ نہ دیں کہ تم یہ گمان کرلو کہ صرف حضرت علیؑ کی محبت کافی ہے۔ کیا اگر کوئی شخص کہے میں علیؑ سے محبت کرتا ہوں اور دارائے ولایت علیؑ ہوں لیکن فعال نہ ہو اور کثرت سے عمل نہ کرتا ہو تو کیا یہ اس کے لیے کافی ہوسکتا ہے؟ اگر کوئی کہے میں رسولخداﷺ کو دوست رکھتا ہوں ۔ لیکن رسولﷺ کی سیرت پر عمل نہ کرے ان کی سنت کی پیروی نہ کرے تو کیا آنحضرتﷺ کی محبت سے اس کو کچھ نفع پہنچے گا؟!۔ (اصول کافی،ج۲،ص۷۴، کتاب ایمان و کفر، باب ایمان و کفر، باب الطاعۃ والتقویٰ، حدیث۳)
خداوند عالم سے دعا ہے اولیاء برحق اور پہلی مدافع حق کے صدقے میں ہم سب کو حقیقی ولایت کو سمجھنے، اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عنایت فرمائے تاکہ ہمارا شمارا واقعی موالیان امیرالمومنینؑ میں ہوسکے اور ہم اپنے مولا کی نگاہ میں ان کے مولائی قرار پاسکیں۔

بدھ، 14 اگست، 2019

عید سعید غدیر کی اہمیت اور اعمال و آداب

عید سعید غدیر کی اہمیت اور اعمال و آداب

سید محمد حسنین باقری
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 
 اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَنَا مِنَ الْمُتَمَسِّکِیْنَ بِوِلَایَۃِ اَمِیْرِ المُؤْمِنِیْنَ وَ الاَئِمَّۃِ عَلَیْھِمُ السَّلام
(اس خدا کی حمد ہے جس نے ہم کو امیر المومنین علیہ السلام اور ائمہ علیہم السلام کی ولایت سے تمسک کرنے والوں میں قرار دیا)
’عید غدیر‘، اللہ کی عظیم ترین عید ہے،آل محمد ؑ کے لئے عظیم ترین عیدوں میں اور عید ولایت ہے،خدا وند عالم نے ہر پیغمبر کے لئے اس دن کو عید قرار دیا اور محترم بنایا ہے،اس کا نام آسمان میں روز ’’عید موعود‘‘ اور زمین میں روز ’’میثاق ماخوذ‘‘ اور ’’جمع مشہود‘‘ قرار پایا۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام کو وصیت کی کہ غدیر کے دن کو عید سمجھیں اور ہر پیغمبر نے اپنے وصی کو وصیت کی کہ اس دن کو عید قرار دیں۔ یہ بے حد مبارک دن اور شیعوں کے اعمال قبول ہونے کا دن ہے اور ان کے غموں کے دور ہونے کا دن ہے۔
اس دن یعنی ۱۸؍ ذی الحجہ ۱۰ ہجری کو پیغمبر اکرمؐ نے اپنے آخری حج سے واپسی میں آیهٔ بلّغ( يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّـهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ﴿سورہ مائدہ آیت:۶۷﴾اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے ) نازل هونے پر حكم خدا كی بجاآوری كرتے هوئے ’’مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَھَذَا عَلِیٌّ مَوْلَاہُ‘‘  کے ذریعہ اپنے بعد كے لئے حضرت علی علیه السلام كو اپنا جانشین و خلیفه بلا فصل معین فرمایا۔ جس کے بعد آیۂ اكمال (۔۔۔اَلْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۔سورہ مائدہ، آیت۳۔ ۔۔۔آج کے دن کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں لہذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو -آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے۔۔۔) نے نازل هوکر غدیر کے دن دین کے مکمل اور جاودانی ہونے اور کفار و منافقین کی مایوسی کا اعلان کیا۔
امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا:جہاں کہیں بھی رہو کوشش کرو کہ روز غدیر حضرت علیؑ کی قبر مطہر کے پاس حاضر ہو ،خداوند عالم اس دن ہر مومن اور مومنہ کے ساٹھ سال کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے اور اس دن آتش جہنم سے اُس کے دوگنا لوگوں کو آزاد کرتا ہے جتنے ماہ رمضان اور شب قدر اور شب عید فطر میں آزاد کرتا ہے اور اس دن برادر مومن کو ایک درہم دینا ہزار درہم دینے کے برابر ہے اور اس دن برادران ایمانی کے ساتھ احسان کرو اور مومنین اور مومنات کوخوش کروبخدا اگر لوگوں کو اس دن کی فضیلت معلوم ہوجائے تو اس روز دس مرتبہ ملائکہ ان سے مصافحہ کریں گے۔
اس دن جناب موسیٰ ؑ نے جادوگروں پر غلبہ حاصل کیا، خدا نے جناب ابراہیم ؑ کے لئے آتش نمرود کو گلزار کیا، حضرت موسیؑ نے یوشع بن نون کو اپنا وصی بنایا، حضرت عیسیؑ نے شمعون الصّفا کو اپنا وصی بنایا،حضرت سلیمانؑ نے اپنی رعایا کو آصف بن برخیا کے خلیفہ ہونے پر گواہ بنایا ، رسول خداؐ نے اصحاب کے درمیان رشتۂ اخوت قائم کیا۔
اس دن کے بعض اعمال و آداب:روزہ رکھنا(یہ روزہ دنیا کی عمر کے روزہ کے برابر ،سو مقبول حج اور سو مقبول عمرہ کے برابر اور ساٹھ سال کے گناہوں کا کفارہ ہے )،غسل کرنا، زیارت امیرالمومنین ؑ پڑھنا،نماز عید پڑھنا،غسل کرنا،دعائے ندبہ پڑھنا۔
اس دن کثرت سے عبادت کرنا، محمد و آل محمد ؑ کو یاد کرنا چاہیے اور ان پر بہت زیادہ درود بھیجنا چاہیے اور ان پر ظلم کرنے والوں سے برائت کرنا چاہیے،قبر حضرت علیؑ کی زیارت،مومنین کو عیدی دینا،مومن بھائیوں کے ساتھ احسان کرنا،مومنین کو خوش کرنا،اچھے لباس پہننا، زینت کرنا، خوشبو استعمال کرنا، خوش ہونا شیعوں کو خوش کرنا ،ان کی تقصیروں اور خطاؤں کو معاف کرنا، حاجتوں کو پورا کرنا ، صلہ رحم کرنا، بیوی بچوں کو خوش کرنا اور ان کے لئے وسعت پیدا کرنا،مومنین کو کھانا کھلانا، روزہ رکھنے والوں کو روزہ کھلانا، مومنین سے مصافحہ کرنا، مومنین سے ملاقات کے لئے جانا، مومنین کو دیکھ کر مسکرانا، مومنین کے لئے تحفہ تحائف بھیجنا، ولایت کی عظیم نعمت کے لئے شکر بجا لانا، زیادہ صلوات پڑھنا، کثرت سے عبادت و اطاعت کرنا اسمیںسے ہر ایک عمل عظیم ترین فضیلت کا حامل ہے۔
اور اس دن جو ایک روپیہ برادر مومن کو دیتا ہے وہ اس ایک لاکھ روپیہ کے برابر ہوتا ہے جوا س کے علاوہ کسی اور دن دیا ہو۔
 اور اس دن مومن کو کھانا کھلانا تمام پیغمبروں اور صدیقین کو کھانا کھلانے کے برابر ہے۔ اور امیرالمومنین علیہ السلام کے خطبہ میں ہے کہ غدیر کے دن جو شخص مومن روزہ دار کو افطار کرائے افطار کے وقت تو گویا اس نے دس ’فئام‘ کو افطار کرایا ہے۔ کسی نے اٹھ کر پوچھا: یا امیرالمومنینؑ یہ فئام کیا ہے؟ فرمایا : ایک لاکھ پیغمبر، صدیق اور شہید۔ تو اب سوچو اس شخص کا حال کیا ہوگا جو تمام مومنین و مومنات کی کفالت کرے! میں اس کے لئے خدا کی بارگاہ میں ضامن ہوں کفر فقر وغیرہ سے محفوظ رہنے کا۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اس دن یہ جملات بہت زیادہ کہو:
 اللّٰھُمَّ الْعَنِ الْجَاحِدِینَ والنَّاکِثِینَ والمُغَیِّرِینَ والمُبَدِّلِینَ والمُکذِّبِینَ الَّذِینَ یُکَذِّبُونَ بِیَومِ الدِّینِ مِنَ الَاوَّلِینَ والآخِرِینَ۔ 
(اے خدا قیامت کے دن انکار کرنے والے عہد توڑنے والے ،تغیر وتبدل کرنے والے ،بدلنے(بدعت ایجاد کرنے والے) اور جھٹلانے والے چاہے وہ اولین میں سے ہوں یا آخرین میں سے سب پر لعنت کر۔)
نماز عید:حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فر ماتے ہیں :زوال سے آدھا گھنٹہ پہلے(خدا وند عالم کے شکرانہ کے عنوان سے)دور کعت نماز پڑھو ۔ہر رکعت میں سورہ حمد دس مرتبہ ، سورہ توحید دس مر تبہ ، آیۃ الکر سی دس مرتبہ اور سورہ قدر دس مر تبہ پڑھو ۔اس نماز کے پڑھنے والے کو خدا وند عالم ایک لاکھ حج اور ایک لاکھ عمرے کا ثواب عطا کرتاہے اور وہ خدا وند عالم سے جو بھی دنیا اور آخرت کی حاجت طلب کرے گا وہ بہت ہی آسانی کے ساتھ بر آ ئیگی۔
عقد اخوت و برادری: عید غدیر کے لئے جو رسم رسومات بیان ہوئی ہیں ان میں سے ایک عقد اخوت ہے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ مومنین ایک اسلامی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے آپس میں اپنی برادری کو مستحکم کرتے ہیں ،اور ایک دوسرے سے یہ عھد کرتے ہیں کہ قیامت میں بھی ایک دوسرے کو یاد رکھیں گے ضمنی طور پر اسلامی بھائی چارے کے حقوق چونکہ بہت زیادہ ہیں لہذا ان کی رعایت کیلئے خاص توجہ کی ضرورت ہے لہذا ان کے ادا نہ کرسکنے کی حلیت طلب کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کوحقوق کی ادا ئیگی کی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔
 صیغہ اخوت پڑھنے کا طریقہ یہ ہے : اپنے داہنے ہاتھ کو اپنے مو من بھا ئی کے داہنے ہاتھ پر رکھ کر کہو :
وآخَیتُکَ فِی اللہِ وصَافَیتُکَ فِی اللہِ وصَافَحْتُکَ فِی اللہِ وعَاھَدْتُ االلہَ وملا ئِکتَہ و کُتُبَہٗ وَ رُسُلَہٗ وَ اَنْبِیَائَہٗ والا ئِمۃَ الْمَعصُومِینَ علیھِمُ السَّلامِ عَلٰی اَنِّی اِنْ کُنْتُ مِنْ اَھْلِ الجَنَّۃِ وَالشَّفَاعَۃِ وَاُذِنَ لِیْ بِاَنْ اَدخُلَ الْجَنَّۃَ لا اَدْخُلُھَا اِلّا وَاَنْتَ مَعِیْ۔ 
(میں راہِ خدا میں تیرا بھائی ہوں ،اور راہِ خدا میں میں نے تجھ سے صفائی کی،اور راہِ خدا میں میں نے تجھ سے مصافحہ کیا،اور میں نے خدا سے اور اس کے ملائکہ، کتابوں، رسولوں، انبیاء اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے عہد کیا ہے کہ میں اگر جنت والوں میں اور شفاعت والوں میں ہوا اور مجھ کو اجازت دی گئی کہ میں جنت میں داخل ہوجاؤں تو میں جنت میں تمہارے بغیر داخل نہ ہوں گا۔ )
پھر برادر مومن کہے :’’قبِلتُ ‘‘(میں نے قبول کیا)۔ اس کے بعد کہے : اَسْقَطْتُ عَنْکَ جَمِیْعَ حُقُوْقِ الْاُخُوَّۃِ مَاخَلا الشَّفَاعَۃَ وَالدُّعَاءَ وَالزِّیَارَۃَ ۔( میں نے بھائی چارگی کے اپنے تمام حقوق تجھ سے اٹھا لئے(تجھ کو بخش دئے )سوائے شفاعت ،دعا اور زیارت کے۔ )