ابوحمزہ ثمالی ؒ اور ان کی دعا
سید محمد حسنین باقری جوراسی
نام ثابت بن ابی صفیہ تھا ، ابو حمزہ ثمالی کے نام سے مشہور تھے ۔[ثابت کے والد] ابی صفیہ کا نام دینار ہے اور وہی ابو حمزہ ثمالی ہیں(نجاشی، احمد بن علی، فہرست أسماء مصنفی الشیعہ(رجال نجاشی)، ص 115، قم، دفتر انتشارات اسلامی، طبع ششم، 1365ش)۔قبیلہ ثمالی کی طرف منسوب ہیں جو بنی ازد کی ایک شاخ ہے اس قبیلہ کو ثُمالہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ ثمالہ کے معنی بقیہ یا باقی چیز کے ہیں اور اس قبیلہ نے ایک جنگ میں شرکت کی جسمیں پورا قبیلہ کام آگیا صرف چند افراد باقی رہ گئے جنھیں ثُمالہ کہا جاتا تھا(نقوش عصمت، ص ۲۹۵)۔
ابو حمزہ ثمالی کی شخصیت :
ثابت بن دینار یا ابو حمزہ ثمالی،امام زین العابدین علیہ السلام کے خاص صحابی تھے اور آپ سے خصوصی انس رکھتے تھے اس کے علاوہ امام محمد باقر علیہ السلام،امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام موسی کاظم علیہ السلام کے بھی صحابی تھے اور ان چاروں اماموں سے احادیث نقل کی ہیں(رجال نجاشی، ص 115؛ کشی، محمد بن عمر، اختیار معرفۃ الرجال، ص 124، نشر دانشگاہ مشہد، 1348ش.) ابو حمزہ ثمالی ائمہ اطہار علیہم السلام کے صحابی،ثقہ اور قابل اعتماد شخص ہیں،یہاں تک کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی گئی ہے کہ : "ابو حمزہ ثمالی اپنے زمانہ کے سلمان ہیں "۔(رجال نجاشی، ص 115.)۔ حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے بھی نقل کیا گیا ہے کہ : "ابو حمزہ ثمالی اپنے زمانہ کے لقمان تھے،انھوں نے ہم معصومینؑ میں سے چار افراد، یعنی امام علی بن حسینؑ ،امام محمد باقرؑ،امام جعفر صادقؑ کے علاوہ امام موسی کاظمؑ کا ایک مختصر زمانہ درک کیا ہے" ۔۔(ایضا، ص 203.).کوفہ کے رہنے والے تھے اور وہاں کے زاہدوں میں شمار ہوتے تھے۔ابو حمزہ ثمالی اس قدر مشہور تھے کہ اہل سنت نے بھی ان سے روایت نقل کی ہے(ملاحظہ ہو: سبحانی، جعفر، موسوعۃ طبقات الفقہاء، ج 1، ص 304، قم، مؤسسہ امام صادق (ع)، 1418ق.)۔
ابو حمزہ ثمالی کے پانچ نیک اور صالح بیٹے تھے جن میں تین یعنی نوح،حمزہ اورمنصور نے کوفہ میں زید بن علیؑ بن الحسینؑ کے قیام میں شرکت کی ہے اور ان کے ہمراہ امویوں کا مقابلہ کیا (ایضا، ص 115.)
ابو حمزہ کے یہ تینوں بیٹے قیام زید کے برجستہ ترین اور اہم افراد میں شمار ہوتے ہیں انھوں نے امام زین العابدین علیہ السلام کے بیٹے کے ہمراہ ظلم کے خلاف قیام کیا۔جب جنگ اپنے شباب پر تھی، جناب زید بن علیؑ کے ساتھیوں نے کمزوری و شکست کا احساس کیا تو بہت سے افراد نے بیعت کو توڑ کر راہ فرار اختیار کی، صرف تھوڑے سے لوگ جناب زید کے ہمراہ باقی بچے جنمیں سے ابو حمزہ کے بیٹے نوح، حمزہ اور منصور تھے۔ ان لوگوں نے آخری وقت تک استقامت و ثابت قدمی کا ثبوت دیا اور امام سجاد علیہ السلام کے بیٹے کے ساتھ درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
ابو حمزہ کے دوسرے دو بیٹے علی اور حسین، امام موسی کاظم علیہ السلام کے زمانے میں زندہ تھے۔ یہ دونوں محدثین و فقہائے شیعہ میں شمار ہوتے ہیں اور امام موسی کاظم علیہ السلام و دیگر ائمہؑ سے روایات نقل کی ہیں۔(اعیان الشیعہ، ج۴ ،ص۱۰ و نامہ دانشوران، ج۱ ،ص۵۰)
ابو حمزہ ثمالی کے علاوہ ان کے خاندان کے افراد بھی سارے کے سارے عظیم شخصیتیں اورثقات تھے(رجال کشی، ص 406.)
تالیفات :
ابو حمزہ ثمالی کی تالیفات میں سے "تفسیر قرآن"(ابن ندیم نے اپنی کتاب ’فہرست‘ میں اس کو بیان کیا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل یہ کتاب ایران میں شائع ہوئی ہے)،"کتاب النور"(اس کتاب کا موضوع حدیث ہے اور اس کو حسن بن محبوب نے ابوحمزہ ثمالی سے نقل کیا ہے)،اور"کتاب الزہد۔(شیخ طوسی، الفہرست، محقق و مصحح: آل بحر العلوم، سید محمد صادق، ص 105، نجف، المکتبۃ المرتضویہ، طبع اول، )باقی بچی ہیں اور "رسالہ حقوق امام سجادؑ" جو اپنی نوعیت کا بے مثال رسالہ ہے، کو بھی ابو حمزہ ثمالی نے امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل کیاہے۔(رجال نجاشی، ص 116. و من لایحضرہ الفقیہ)۔
اس کے علاوہ بہت ابو حمزہ ثمالی کے زرین آثار شیعہ و سنی کی اہم کتابوں مختلف موضوعات پر نظر آتے ہیں(من لایحضرہ الفقیہ۔ ج۲، ص۴۵۹ و قاموس الرجال، ج۲ ، ص۴۴۴)۔
وفات:
بعض مشہور روایتوں کے مطابق ابو حمزہ ثمالی نے سنہ۱۵۰ ھ میں وفات پائی ہے۔(شیخ طوسی، محمد بن حسن، الابواب (رجال طوسی)، محقق و مصحح: قیومی اصفہانی، جواد، ص 110، قم، دفتر انتشارات اسلامی، طبع سوم، 1427ق.)۔ لیکن ابن سعد ان کی وفات کو منصور کی خلافت کے زمانہ میں جانتے ہیں۔(ابن سعد کاتب واقدی، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق: عطا، محمد عبد القادر، ج 6، ص 345، بیروت، دار الکتب العلمیہ، طبع اول، 1410ق.)اور منصور کی خلافت ۱۳۶ سے ۱۵۸ ھ تک تھی۔ شیعوں کی احادیث کی شہرت یہ ہے کہ حسن بن محبوب، ابو حمزہ ثمالی سے حدیث نقل کرتے تھے، جبکہ ہم جانتے ہیں کہ ابن محبوب سنہ۲۲۴ھ میں فوت ہوئے ہیں اور اس وقت ان کی عمر ۷۵ سال تھی(لہذا حسن بن محبوب کا سنہ ولادت 149 هجری ہےدیکھئے: امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعہ، ج 4، ص 9، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1406ق.)۔ یعنی ابو حمزہ ثمالی کی وفات کے زمانہ [سنہ۱۵۰ھ]میں حسن بن محبوب دو سال سے کم تر عمر کے تھے ۔ پس جو تاریخ وفات ابن محبوب نے نقل کی ہے صحیح تر لگتی ہے،کیونکہ اگر ابو حمزہ ثمالی کی وفات کو ہم سنہ ۱۵۸ ھ مان لیں،تو اس زمانہ میں ابن محبوب کی عمر ۸ سال تھی اور اس قسم کی چیز کو ان کے ابو حمزہ ثمالی سے نقل کرنا مناسب لگتا ہے(اعیان الشیعہ، ج 4، ص 10.)۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابو بصیر سے فرمایا کہ ابو حمزہ سے ملاقات کرنا تو میرا سلام کہہ دینا اور کہنا کہ تم فلاں مہینہ میں فلاں دن انتقال کرجاؤ گے۔ ابو بصیر نے عرض کی کہ وہ آپ کے واقعی شیعوں میں ہیں؟ فرمایا: بیشک میرے پاس جو کچھ بھی ہے تم لوگوں کے لئے خیر ہے۔ ابو بصیر نے عرض کی کیا آپ کے شیعہ آپ کے ساتھ رہیں گے؟ فرمایا: بے شک اگر ان کے دل میں خوف خدا و رسولؐ ہے اور گناہوں سے پرہیز کرتے ہیں تو یقیناً۔
دعائے ابو حمزہ ثمالی:
رمضان المبارک میں سحر کے وقت پڑھی جانے والی بلند معنی و مفہوم سے لبریز دعا امام زین العابدین علیہ السلام کی دعا ہے چونکہ یہ دعا ابو حمزہ ثمالی کے ذریعہ بیان ہوئی ہے اس لئے ’’دعائے ابو حمزۂ ثمالی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔(آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ إلی تصانیف الشیعہ، ج 8، ص 186، قم، اسماعیلیان، 1408ق.)۔
محدث شیخ عباس قمی ؒ نے اپنی مشہور کتاب ’’مفاتیح الجنان‘‘ میں نقل کیا ہے کہ: ’’مصباح شیخؒ میں ابوحمزہؒ کی روایت ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام ماہ رمضان میں رات کے بیشتر حصہ میں نمازیں ادا فرماتے تھے اور جب وقتِ سحر ہوجاتا تھا تو یہ پڑھتے تھے۔یہ دعا یقینا بہت ہی اہم اور ضروری و مفید مطالب پر مشتمل ہے اگر ایک طرف اس میں دعا کا سلیقہ اور طریقہ بتایا گیا ہے تو دوسری طرف ہمارے لئے بہت سی ضروری و مفید باتیں بھی بیان کی گئی ہیں۔ لہذا کوشش ہونا چاہیے کہ اس مبارک مہینہ و قبولیت دعا کے مہینے میں اس اہم دعا سے بھی غافل نہ رہیں ۔ تلاوت و قرائت دعا کے ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ ضرور دیکھیں۔خدا سے دعا ہے ہم سب کو اس مہینہ تعلیمات آل محمدؐ پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
اس دعا کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے:
إلھِی لاَ تُؤَدِّبْنِی بِعُقُوبَتِکَ، وَلاَ تَمْکُرْ بِی فِی حِیلَتِکَ، مِنْ ٲَیْنَ لِیَ الْخَیْرُ یَارَبِّ وَلاَ یُوجَدُ إلاَّ مِنْ عِنْدِکَ وَمِنْ ٲَیْنَ لِیَ النَّجاۃُ وَلا تُسْتَطاعُ إلاَّ بِکَ لاَ الَّذِیارَبِّ وَلاَ یُوجَدُ إلاَّ مِنْ عِنْدِکَ وَمِنْ ٲَیْنَ لِیَ النَّجاۃُ وَلا تُسْتَطاعُ إلاَّ بِکَ لاَ الَّذِی ٲَحْسَنَ اسْتَغْنی عَنْ عَوْ نِکَ وَرَحْمَتِکَ، وَلاَ الَّذِی ٲَسائَ وَاجْتَرَٲَ عَلَیْکَ وَلَمْ یُرْضِکَ خَرَجَ عَنْ قُدْرَتِکَ، یَا رَبِّ یَا رَبِّ یَا رَبِّ۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے پروردگار !مجھے اپنے عذاب میں گرفتار نہ کرنا، اور مجھے اپنی قدرت کے ساتھ نہ آزمانا، مجھے کہاں سے بھلائی حاصل ہوسکتی ہے اے پالنے والے جب کہ وہ تیرے سوا کہیں موجود نہیں۔ مجھے کیسے نجات مل سکے گی جبکہ اس پر تیرے سوا کسی کو قدرت نہیں، نہ ہی کوئی نیکی کرنے میں تیری مدد اور رحمت سے بے نیاز ہے اور نہ ہی کوئی برائی کرنے والا تیرے سامنے جرأت کرنیوالا اور تیری رضا جوئی نہ کرنیوالاتیرے قابو سے باہر ہے اے پالنے والے اے پروردگار والے اے معبود۔