اتوار، 30 ستمبر، 2012

اصولی و اخباری



اصولی و اخباری
ایک جائزہ

سید محمد حسنین باقری

 استاذ جامعہ ناظمیہ و نائب مدیر ماہنامہ اصلاح لکھنؤ

''دین اسلام''، وہ دین ہے جسے ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی بعثت کے آغاز میں دنیا کے سامنے پیش کیا ۔ظاہر سی بات ہے کہ شروع میں بہت ہی کم افراد آپ کے ارد گر د جمع ہوئے نتیجتاً اگر کسی مسئلے میں کوئی مشکل پیش آتی تو لوگ آنحضرتۖ کی طر ف رجوع کرتے اور مشکل کو دور کرتے تھے لیکن جب اسلام پھیلنے لگا ،وحی کا سلسلہ رک گیا او ر تشریع کا زمانہ ختم ہوگیا نیز حضور اکرم ۖکی وفات ہوگئی تو مختلف علاقوں میں اسلام پھیلنے کی وجہ سے بہت سے نئے مسائل کا پیش آنا ناگزیر تھا جو مناسب جواب طلب کر رہے تھے جب کہ دوسری طرف وحی کا چراغ خاموش ہوچکا تھا ۔
ان مشکلات کے مقابلے میں اسلامی معاشرے میں دو نظریات سامنے آئے:
پہلا نظریہ یہ تھا کہ پیغمبرۖ کی حیات کے زمانے میں احکام کا بیان کرنا آنحضرتۖ کے ذمہ تھا اور آپۖنے وفات سے قبل خداوند عالم کے حکم کے مطابق حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین معین فرمایا اور آپ کو عِدل قرآن قرار دیا اور احکام کے بیان کرنے کی ذمہ داری بھی آپ کے سپرد کی ۔اس نظریہ کے مطابق رسول خدا ۖکے بعد احکام کا بیان کرنا اور قرآنی مفاہیم کی تفسیر و تبیین ،اہلبیت پیغمبرکی ذمہ داری ہے اسی وجہ سے شیعہ حضرات احکام الٰہی حاصل کرنے کے لئے آئمہ  یا ان کے شاگردوں کی طرف رجو ع کرتے تھے ایسے شاگرد جو اتنی صلاحیت رکھتے تھے کہ ائمہ معصومین  کی رائے کو استنباط و استخراج کرکے رجو ع کرنے والوں کو بتائیں۔
دوسرا گروہ کسی خاص شخص کو اسلامی احکام کے بیان کرنے کے لئے معین نہیں کرتا تھا بلکہ صرف قرآن وسنت رسولۖکو تنہا منبع و مأخذ جانتا تھا لیکن جب عملی منزل میں اس گروہ کے سامنے مشکلات و مسائل پیش آئے تو متوجہ ہوئے کہ صرف یہ دو منابع ان لوگوں کے لئے جو ابدہ نہیں ہیں اسی وجہ سے دوسرے منابع مثلا قیاس و استحسان ،مصالح مرسلہ،سدّ ذرائع وغیرہ کی پناہ لی اور ان کے ذریعہ اجتہاد اور استنباط احکام کرکے اپنی مشکل کو حل کیا ۔

اجتہاد کب شروع ہوا؟

بنیادی طور پر یہ سوال پیش آتا ہے کہ کیا اسلام کے ظاہر ہونے کے ساتھ ہی اجتہاد بھی وجود میں آیا ہے؟ اس کے جواب میں بعض کہتے ہیں کہ چونکہ اجتہاد کے معنی فرع کو اصل پر پلٹانے کے ہیں یعنی اصولی عالم ایک فرعی حکم کو اصول کے عمومی و اصلی قواعد سے استنباط و استخراج کرتاہے لہذا اجتہاد اس معنی میں ایک ایسا امر ہے جو ائمہ کے زمانے میں موجود نہیں تھا بعد میں وجود میں آیا۔اس وجہ سے علمائے امامیہ کے درمیان اجتہاد امام زمانہ  کی غیبت کبریٰ کے بعد شروع ہوا ہے لہذا علم اصول بھی کہ جس کا نتیجہ اجتہاد تھا امام عصر کی غیبت کے بعد وجود میں آیا ہے اگر چہ اہل سنت پیغمبرۖ کے زمانے میں بھی ضرورت کے وقت اجتہاد کرتے تھے ۔بزرگ عالم شیخ آقا بزرگ تہرانی ،مقریزی سے نقل کرتے ہیں کہ '' ان العشرة المبشرہ کانوا یجتھدون ویفتون فی حیاة النبیۖ'' وہ دس افراد جنھیں پیغمبرۖ نے جنت کی بشارت دی تھی، پیغمبرۖ کے زمانے میں بھی اجتہاد کرتے اور فتویٰ دیتے تھے ۔مقریزی کا کہنا ہے : پیغمبر اسلام  ۖکی وفات کے بعد آپ ۖ کے اصحاب مختلف شہروں میںگئے اوربعض مدینے میں ابو بکر کے پاس رک گئے۔ ابو بکر بھی کتاب و سنت کے مطابق حکم کرتے اور جب کوئی مسئلہ کتاب و سنت میں نہیں پاتے تو دوسرے اصحاب سے سوال کرتے ا ور جب ان کے پاس بھی کچھ نہیں ہوتا تھا تو اس مسئلے میں اجتہاد کرتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ علم اصول اہل سنت کے درمیان اجتہاد و استنباط کی وجہ سے خلفاء کے زمانے سے موجود ہے(١)۔
پروفیسر چارلس آدامس نے لکھا ہے کہ : شیعہ حضرات، ائمہ کی زندگی تک اجتہاد نہیں کرتے تھے اور اجتہاد کی ضرورت بھی نہیں تھی اس لئے کہ جس مسئلے میں بھی کوئی مشکل پیش آتی  اس کے حل کے لئے اپنے زمانے کے امام معصوم کی طرف رجوع کرتے تھے (٢)۔
جیسا کہ بعض علماء حقوق نے بھی اپنی کتابوں میں اس نظریے کی پیروی کی ہے(٣)۔ (مبانی استنباط حقوق اسلامی ،ص ١٣)

اجتہاد ائمہ معصومین  کے زمانے میں شروع ہوا

حقیقت کیا ہے ؟ کیا مذکورہ معنی میں اجتہاد شیعوں کے درمیان امام زمانہ  کی غیبت کے بعد وجو دمیں آیا اور اہل سنت اس مسئلے میں شیعوں سے پیش قدم رہے ہیں یا ایسا نہیں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ شیعہ حضرات خود ائمہ ہی کے دستور کے مطابق اجتہاد کرتے تھے ،اسی وجہ سے امام صادق اور امام رضا نے فرمایا ہے : اصول بیان کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور اس کے فروعات تلاش کرنا تمہارے ذمہ ہے:قال الصادق علیہ السلام: انما علینا القاء الاصول وعلیکم ان تفرعوا ،وقال الرضا علینا القاء الاصول وعلیکم التفریع ''(٤)ہمارا کام ہے اصول و کلیات بیان کرنا یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ ان اصول کی روشنی میں فروعات تلاش کرو۔
لہذا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ائمہ کے زمانے میں اجتہاد کی ضرورت ہی نہیں تھی اس لئے کہ ضرورت کے وقت ان کے ماننے والے خود ان سے پوچھ لیتے تھے۔ دلیل یہ ہے کہ :
(١) ائمہ معصومین زیادہ تر مدینے میں رہتے تھے اور مدینے کے شیعوں کا آپ سے رجوع کرنا آسان تھا لیکن دوسرے اسلامی ممالک کے شیعہ کس طرح اپنے مسائل ائمہ سے حاصل کرتے خاص کر خلیفۂ دوم کے زمانے میں کہ جب اسلامی حکومت کا دائرہ دنیا کے بہت سے حصوں میں پھیلا ہوا تھا اور سفر بھی چارپایوں اور جانوروں کے ذریعے انجام پاتے تھے لہذاکسی شیعہ کو مدینہ پہنچ کر اپنا مسئلہ پیش کرنے کے لئے مہینوں وقت درکار تھا یا بعض لوگوں کے لئے تو پہنچنا بھی ناممکن تھا۔اسی وجہ سے لوگ اپنے شہروں ہی میں ائمہ کے اصحاب اور شاگردوں کی طرف رجوع کرتے تھے جو ائمہ کے ذریعہ تعلیم دیے گئے اصول و کلیات کے ذریعہ فروعات و جزئیات کو حاصل کرتے اور حکم الہی کو استنباط و استخراج کرکے آنے والوں کو مناسب جواب دیتے تھے۔
(٢) ائمہ معصومین کبھی قید خانہ میں،کبھی حکومت کے زیر نظر اور کبھی مخصوص جگہوں پر ٹھہرائے جاتے تھے ایسی صورت میں کس طرح ممکن تھا کہ شیعہ اپنے مسائل کو ان سے دریافت کرتے ؟ جیسا کہ امام صادق کے سلسلے میں نقل ہوا ہے کہ آپ کا ایک شیعہ آپ سے کوئی مسئلہ معلوم کرنا چاہتا تھا لیکن یہ جانتا تھا حضرت تحت نظر ہیں لہذا مجبور ہوکر سبزی بیچنے والے کے لباس میں ٹوکری اپنے سر پر رکھ کر سبزی بیچنے کے بہانے سے امام صادق کے مکان میں گیا اور اپنا شرعی مسئلہ معلوم کیا۔لہٰذاکس طرح کہا جاسکتا ہے کہ شیعہ جب بھی کوئی مسئلہ معلوم کرنا چاہتے تھے، اپنے زمانے کے امام کے پاس مراجعہ کرتے تھے ؟ کیا امام ہادی اور امام حسن عسکری نے سرّ من رائے(سامرہ) میں فوجی چھاؤنی میں مجبوراًزندگی نہیں گزاری ؟کیا شیعوں کے لئے ممکن تھا کہ آسانی کے ساتھ ان کے پاس جائیں؟ کیا امام موسیٰ بن جعفرکئی سال قید خانہ میں نہیں رہے؟کیا شیعوں کو اس زمانے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی؟اور کیا اس زمانے میں ان کا کوئی وظیفہ نہیں تھا اور وہ بلا تکلیف رہے ؟ یا پھر یہ مانیں کہ اس اجتہاد کے ذریعہ جسے ائمہ کے شاگرد انجام دیتے تھے ،اپنے جواب حاصل کرتے تھے۔
(٣) ائمہ سے جو روایتیں صادر ہوتی تھیں وہ بغیر کسی شک و شبہ کے عام و خاص ،مطلق و مقید وغیرہ ہوتی تھیں ۔اور ایسی صورت میں ان روایات کو ایک ساتھ رکھنا، ان کے درمیان کے تعارض کو دورکرنا او ر ان کے مطابق فتویٰ دینا اس زمانے میں بھی رائج اور معمول تھا اور یہ کام اجتہاد و استنباط کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔
(٤) جب دو یا چند روایتوں کے درمیان مضمون و مطلب کے اعتبار سے تعارض ہو تو ائمہ اطہار نے ایسی صورت میں روایات علاجیہ کے ذریعہ تکلیف کو معین فرماتے ہوئے وظیفہ کو معین کیا ہے او ر ان روایات میں کوئی قید نہیں لگائی ہے مثلا یہ نہیں کہا کہ :امام زمانہ کی غیبت کے زمانے میں تمہاری ذمہ داری یہ ہے۔ راوی کہتا ہے امام صادق  سے میں نے سوال کیا: کبھی آپ سے دو خبریں ایسی نقل ہوتی ہیں کہ دونوں ایک دوسرے سے متعارض و مخالف ہوتی ہیں ایسی صورت میں تکلیف ووظیفہ کیاہے ؟ حضرت نے فرمایا :روایت مشہور پر عمل کرو اور غیر مشہور کو چھوڑ دو۔ میں نے عرض کیا کہ اگر دونوں مشہور ہوںتو کیا کیا جائے ؟فرمایا جس روایت کا راوی زیادہ عادل ،زیادہ فقیہ ،زیادہ سچا اور زیادہ تقوے والا ہوتو اس پر عمل کرو۔میں نے عرض کیا کہ اگر دونوں ہی ایسے ہوں تو کیا کریں ؟ حضرت نے مختلف راستے بتاتے ہوئے فرمایا :ان دونوں روایتوں میں سے جس کا مضمون اہل سنت کے موافق ہو اس کو تر ک کرو اور مخالف روایت پر عمل کرو ۔آخر میں جب راوی کہتا کہ اگر تمام شرائط مساوی ہوں؟حضرت نے فرمایا:ایسی صورت میں توقف کرو یہاں تک کہ اپنے امام کو پالو اور اس سے پوچھو(٥)۔ 
 چونکہ ان تمام روایات  علاجیہ میں اس طرح کی کوئی قید بیان نہیں ہوئی ہے کہ یہ وظیفہ ائمہ کے حضور کے زمانے کے لئے نہیں ہے بلکہ غیبت کے زمانے سے مخصوص ہے۔لہذا ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ائمہ کے زمانے میں بھی اجتہاد موجود تھا۔
(٥) مقبولۂ ابن حنظلہ میں راوی امام جعفر صادق سے سوال کرتا ہے : اگر اصحاب میں سے دو آدمی آپ سے کوئی بات نقل کرنے میں اختلاف کریں تو تکلیف و وظیفہ کیا ہے؟ حضرت نے فرمایا:علمائے شیعہ کے درمیان تلاش وجستجو کر کے ایسے کو انتخاب کرو جو احادیث وکلمات کے سلسلے میں اچھی معلومات رکھتا ہو اور احکام کے استنباط میں اہل نظر ہو (قلت کیف یصنعان؟ قال انظروا الی من کان منکم قد روی حدیثنا ونظر فی حلالنا و حرامنا وعرف احکامنا فارضوا بہ حکما فانی قدجعلتہ علیکم حاکما)(٦)
حضر ت نے یہ جو فرمایا کہ  ''نظرفی حلالنا و حرامنا''اس سے مراد یہ ہے کہ ایسا شخص ہوجو ادلۂ احکام یعنی احادیث و کتاب خدا کی معرفت اور اطلاع کے ذریعہ حرام وحلال تک پہنچے۔سوال یہ ہے کہ کیا اجتہاد اس کے علاوہ اور کچھ ہے ؟ اور ''عرف احکامنا ''اس جملے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس راوی کی طرف رجوع کرنا چاہئے جس نے احکام کو معرفت کے ساتھ حاصل کیا ہو ۔یہ نہیں فرمایا کہ''علم احکامنا ''ہمارے احکام کو جانتا ہو ۔ بلکہ فرمایا کہ ہمارے احکام کو پہچانتا ہو اور پہچاننا (شناخت و معرفت) ادلّہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ بات بھی اجتہاد کو بیان کر رہی ہے ۔اسی طرح حضرت آگے فرماتے ہیں ''فانّی قد جعلتہ علیکم حاکما ''(بیشک میں نے اس کو تمہارے اوپر حاکم قرار دیا ہے)اس جملے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایسے افراد کا اجتہاد اور انکی رائے حجت ہے چاہے امام معصوم کے حضور کے زمانے میں ہو یا ان کی غیبت کے زمانے میں۔
(٦) ائمہ معصومین خود بھی اپنے بعض جلیل القدر اصحاب کو حکم دیتے تھے کہ مسجد میں بیٹھیں اور لوگوں کے لئے فتویٰ صادر کریں مثلا امام باقر  نے ابان ابن تغلب سے فرمایا:مسجد مدینہ میں بیٹھو اور لوگوں کے لئے فتویٰ صادر کرواس لئے کہ میں چاہتا ہوں کہ ہمارے شیعوں کے درمیان تمہارے جیسے لوگ دیکھے جائیں :( قال لہ ابو جعفر الباقر:اجلس فی مسجد المدینة وافت الناس فانی احب ان یریٰ فی شیعتی مثلک ''(٧) ۔
(٧) متعدد روایتوں میں ملتا ہے کہ ائمہ کرام اپنے شیعوں کو فتویٰ حاصل کرنے کے لئے اپنے فاضل اصحاب اور شاگردوں کے پاس بھیجتے تھے ۔مثلا عبد العزیز بن مہتدی نے امام رضا  سے نقل کیا ہے کہ: جب میں نے حضرت  سے عرض کیا میں ہر وقت آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوسکتا ایسی صورت میں فرمائیے کہ میںاپنے مسائل کس سے دریافت کروں ؟ تو حضرت نے فرمایا : یونس بن عبد الرحمن سے پوچھو:عن عبدالعزیز بن المہتدی قال :'' سألت الرضا(ع)فقلت انّی لا القاک فی کل وقت فممّن آخذ معالم دینی؟قال:خذ عن یونس بن عبد الرحمن ''(٨)۔اسی طرح علی بن مسیب ہمدانی جب یہی سوال امام رضا  سے کرتے ہیں کہ میرا گھر دور ہے میں ہر وقت آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہو سکتا ایسی صورت میں کس سے دین کی باتیں معلوم کروں؟ تو حضرت فرماتے ہیں: زکریا بن آدم قمی سے پوچھو جو دین و دنیا کے امین ہیں: (عن علی ابن المسیب الہمدانی قال ''قلت للرضا  شقتی بعیدة ولست اصل الیک فی کل وقت فمن آخذ عنہ معالم دینی ؟قال من زکریا بن آدم المامون  علی الدین والدنیا ''(٩)۔
اسی طرح امام صادق  ابن ابی یعفور کو اسی طرح کے سوال کے جواب میں محمد بن مسلم کے پاس بھیجتے ہیں: (عن عبد اللہ بن یعفور قال قلت لابی عبد اللہ  ''انہ لیس کل ساعة القاک ولا یمکن القدوم ویجیٔ الرجل من اصحابنا یسئلنی ولیس عندی کل ما یسئلنی عنہ قال فمایمنعک عن محمد بن مسلم الثقفی فانہ قد سمع من ابی وکان عندہ وجیھا (١٠)۔
(٨) نتیجہ یہ نکلا کہ جاہل کا عالم کی طرف رجوع کرنا تمام عقلائے عالم کے نزدیک ایک فطری چیز ہے اور وظیفہ واحکام کو معین و مشخص کرنے کے لئے پیغمبر اکرم ۖ کے بعد سے اسلام کے ماننے والوں کے درمیان یہی سیرت جاری رہی ہے ۔
اب تک بیان شدہ باتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ائمہ کے زمانے میں بھی شیعہ اجتہاد کے محتاج رہے ہیں اور یہ کام آپ کے شاگردوں کے ذریعہ انجام پاتا رہا ۔اسی بنا پر سید حسن صدر کی کتاب ''تأسیس الشیعہ لعلوم الاسلام'' میں بیان ہوا ہے کہ : سب سے پہلے جس نے علم اصول کی بنیاد رکھی وہ امام محمد باقر  اور پھر امام صادق  ہیں اور آپ علم اصول کے قواعد اپنے اصحاب کو لکھواتے تھے ۔
تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام میں اصول فقہ کے لکھوانے کی نسبت امام باقر  اور امام صادق  کی طرف دی گئی ہے اور یہ بات ہمارے دعوے کے منافی نہیں ہے چونکہ ہم کہتے ہیں کہ اصول میں سب سے پہلی تصنیف شافعی کے توسط سے ہے ''ہم بیان کر چکے ہیں کہ اصول فقہ کا لکھوانا ان دو امام معصوم کے ذریعہ تھا جب کہ پہلی تصنیف آپ کے شاگردہشام بن حکم کے ذریعہ وجود میں آئی ۔

علم اصول کی پہلی کتاب : 

سوال پیدا ہوتا ہے کہ علم اصول کی سب سے پہلی کتاب کس نے تصنیف کی؟ علم اصول میں سب سے پہلی تصنیف کس شخص کے ذریعہ وجود میں آئی؟ اس سلسلے میں علماء اہل سنت کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ،بعض نے ابو حنیفہ اور ایک گروہ نے محمد بن حسن شیبانی اور کچھ نے شافعی اور بعض نے ابو یوسف کے نام لئے ہیں۔جلال الدین سیوطی سے کتاب الوسائل الی معرفة الاوائل (١١) میں نقل ہوا ہے کہ اصول میں سب سے پہلی کتاب اصول الفقہ کے نام سے ابو حنیفہ(متوفی ١٥٠ھ) کے ذریعہ لکھی گئی ہے (١٢)لیکن ابن ندیم نے اپنی کتاب فہرست میں محمد بن حسن شیبانی (١٣) کا نام لیا ہے (١٤) اور کتاب مقدمہ ابن خلدون (١٥) اور کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون (١٦) وغیرہ میں بیان ہوا ہے کہ محمد بن ادریس شافعی (متوفی ٢٠٤ ھ) اصول میں پہلے مؤلف ہیں اور ابن خلدون کی تصنیف کتاب وفیات الاعیان (١٧) اسی طرح کتاب اعلام زرکلی (١٨) میں آیا ہے کہ اصول میں پہلی تصنیف ابو یوسف (١٩) کی ہے۔ ڈاکٹرمحمود شہبانی کا نظریہ ہے کہ :اصول میں پہلی تالیف ابی یوسف یا محمد بن حسن شیبانی کی ہے (٢٠) اور ڈاکٹر ابو الحسن محمدی کا بھی عقیدہ ہے کہ یہ کام شافعی کے ذریعے انجام پایا ہے (٢١)۔
 مندرجہ بالا گفتگو کو دیکھتے ہوئے کہنا چاہئے کہ اصول میں سب سے پہلی کتاب ''الفاظ و مباحثھا'' کے نام سے ہشام بن حکم (متوفیٰ ١٧٩ھ) کے ذریعہ وجود میںآئی اسکے بعد یونس بن عبد الرحمن نے کتاب ''اختلاف الحدیث و مسائلہ'' (٢٢) تالیف کی اور اس میں دو حدیثوں کے تعارض اور تعادل وتراجیح کے مسئلے کو بیان کیا ہے۔اوریہ دو نوں افراد شیعوں کی عظیم اور جلیل القدر شخصیتوں میں سے تھے اس لئے کہ ہشام بن حکم امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھے اور یونس ابن عبد الرحمن امام موسیٰ کاظم  او ر امام علی رضاعلیہما السلام کے شاگردوں میں سے تھے ۔
اس کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام کے معاصر اسماعیل بن علی بن اسحاق بن ابی سہل نوبخت'ابو سہل نوبختی'(متوفیٰ ٣١١ھ) کی ''الخصوص و العموم'' و ''ابطال القیاس'' و...۔اور اس کے بعد ابو سہل کے بھانجے حسن بن مو سی نوبخت کی ''خبر الواحد و العمل بہ''اور''الخصوص و العموم'' کی کتابیں ہیں۔
شیخ آقا بزرگ تہرانی کہتے ہیں کہ امام صادق  نے چار ہزار شاگردوں کی تربیت کی ان میں سے چار سو شاگرد ایسے تھے جو امام سے جو کچھ سنتے تھے اسے لکھتے اور احکام کے قواعد سے متعلق موضوعات کو ''اصل'' کے عنوان سے ضبط کرتے جن کو جمع کر کے ''اصول اربعمأة ''وجود میں آئی جو شیعوں کی چار قابل اعتبار کتابوں کی تالیف کا منشاء ہے وہ چار کتابیں: 
(١) کافی (شیخ کلینی (متوفیٰ ٣٢٩ھ )،١٦١٩٩حدیثوں پر مشتمل)
(٢) من لا یحضرہ الفقیہ (شیخ صدوق  (متوفیٰ ٤٦٠ھ )،٩٠٤٤  احادیث پر مشتمل)
(٣) تہذیب الاسلام (شیخ طوسی (متوفیٰ ٤٦٠ھ)، ١٢٥٩٠حدیثوں پر مشتمل)
(٤) استبصار (شیخ طوسی،١١ ٥٥  احادیث پر مشتمل)(٢٣)۔ 
اس بحث سے یہ تو ثابت ہو جاتا ہے کہ علم اصول میں سب پہلی کتاب شیعوں کے ذریعہ لکھی گئی 

غیبت کے زمانے میں علم اصول:

امام زمانہ کی غیبت کے بعد ابو محمد حسین ابن علی ابی عقیل نعمانی پہلے شخص ہیں جنہوں نے اصول فقہ کو اختیار کیا اور فقہ میں ایک کتاب ''التمسک بحبل الرسول ''کے نام سے لکھی (٢٤ ) ان کے بعد محمد بن احمد بن دائود بن علی ابن الحسن (متوفیٰ ٣٦٨ھ) نے کتاب ''مسائل الحدیثین المختلفین'' لکھی ،پھر ابو علی محمد بن احمد بن جنید اسکانی (متوفیٰ ٣٨١ھ) نے ''کشف التمویہ والالباس علی اعمار الشیعہ فی امر القیاس'' اور'' اظہار ماسترہ اہل العباد من الروایة عن ائمة العترة فی امر الاجتہاد''جیسی کتابیں لکھیں،ان کے بعد شیخ مفید ابو عبد اللہ محمد بن محمد بن نعمان (متوفیٰ ٤١٣ھ) نے کتاب ''اصول الفقہ'' لکھی پھر ان کے شاگرد علی ابن الحسین بن موسیٰ بن محمد بن ابراہیم بن موسیٰ کاظم المعروف بہ سید مرتضیٰ علم الھدیٰ (متوفیٰ ٤٣٦ھ) نے کتاب'' الذریعة الی اصول شریعة'' اور سید مرتضیٰ کے بعد ان کے شاگرد ابو جعفر محمد بن الحسن بن علی الطوسی المعروف شیخ طوسی (متوفیٰ ٤٦٠ھ) نے کتاب ''عدة الاصول ''عالم تشیع کو پیش کیں،شیخ طوسی کے بعدایک صدی تک اجتہاد متوقف ہوگیا اور در حقیقت سب ہی مرحوم طوسی ہی کے مقلد تھے (٢٥) یہاں تک کی شیخ طوسی کے پوتے محمد بن ادریس (متوفیٰ ٥٩٨ھ) نے کتاب ''سرائر ''تحریر کی ،ابن ادریس کے بعد ایک دوسرا مرحلہ شروع ہوا ۔پھر محقق حلی (متوفیٰ ٦٧٦ھ) کا زمانہ آیا انھوں نے'' نہج الاصول الی معرفة الاصول ''اور'' المعارج'' لکھیں،پھر محقق حلی کے بھانجے ابو منصور جمال الدین حسن ابن یوسف بن علی بن مطہر المعروف بہ علامہ حلی ( متوفیٰ ٧٢٦ھ )نے متعدد کتابیں لکھیں جن میں سے ایک ''مبادی الاصول الی علم الاصول'' ہے۔ دسویں صدی ہجری تک تمام علماء علامہ حلی  کے نظریات و افکار سے متاثر رہے یہانتک کہ شہید ثانی کے بیٹے ابو منصور جمال الدین حسن بن زین الدین (متوفیٰ ١٠١١ھ) نے کتاب ''معالم الدین و ملاذالمجتہدین'' لکھی۔اسی زمانے میں عبد اللہ بن محمد بشراوی ''فاضل تونی'' (متوفی ١٠٧١ھ) نے ''الوافیة فی اصول الفقہ'' تحریر کی۔
معالم کے لکھے جانے کے بعد سے علم اصول پر تین زمانے گزرے :(١) زمانہ ٔ  توقف ۔(٢) زمانۂ توسیع (٣) زمانۂ تلخیص :
(١) توقف کا دور :گیارہویں اور بارہویں صدی ہجری میں اکثر اصولی بحثیں کتاب معالم کے ارد گرد تھیں اور کوئی خاص کتاب سامنے نہیں آئی اور شاید اس کی وجہ ،اخباریوں کا نفوذ تھا جو اصولیوں کو آگے بڑھنے نہیں دیتے تھے۔
(٢) توسیع و گسترش کا دور :تیرہویں صدی ہجری سے آقا محمدباقر بن محمد اکمل المعروف بہ وحیدبہبہانی کے سامنے آنے کی وجہ سے اصول اوراصولیوں نے نئی زندگی پائی اور اخباریوں کی بساط الٹ گئی۔ا س زمانہ میں بعض اصولی کتابوں نے اصول فقہ کو آگے بڑھایا اور اس کی اصلاح کی ،مثلا مرزا ابو القاسم گیلانی المعروف بہ میرازئے قمی (متوفیٰ ١٢٣١ھ )کی کتاب ''قوانین الاصول'' اور شیخ مرتضیٰ ابن محمد امین المعروف بہ شیخ مرتضیٰ انصاری (متوفی ١٢٨١ھ) کی کتاب ''فرائد الاصول''(رسائل) نے اس سلسلے میں اہم رول ادا کیا اور اسی زمانے میں صاحب حاشیہ کے نام سے مشہور محمد تقی ابن عبد الرحیم (متوفی ١٢٤٨ھ) نے ''ھدایة المسترشدین'' تالیف کی۔
(٣)تلخیص کا دور: چودہویں صدی ہجری کے شروع سے علمائے اصول نے کوشش کی کہ علم اصول کے حواشی و زوائد کو کم کرکے اس کی تکمیل کریں۔ملا محمد کاظم خراسانی (متوفیٰ ١٣٢٩ھ) المعروف بہ آخوندنے اس دور میں'' کفایة الاصول'' لکھی جو آج تک حوزہ کی اہم درسی کتابوں میں سے ہے(٢٦)۔
آج حوزات علمیہ نے میرزائے قمی و شیخ مرتضیٰ انصاری وآخوند خراسانی اور ان کے زبر دست شاگرد وں مثلا میرزا محمد حسین غروی نائینی (متوفی ١٣٥٥ھ)صاحب کتاب'' فوائد الاصول'' و شیخ ضیاء الدین عراقی (متوفیٰ ١٣٦١ھ)صاحب کتاب ''مقالات الاصول'' و ''نہایة الافکار''،شیخ محمد حسین اصفہانی المعروف بہ کمپانی (متوفی ١٣٦١ھ)صاحب کتاب '' الاجتہاد و التقلید و العدالة''و''الاصول عل النہج الحدیث'' اور '' بحوث فی الاصول'' اور آخوند کے باواسطہ شاگردوں کے بلند افکار و نظریات سے استفادہ کیا ہے،اور دور حاضر کے جید اصولیوں مثلاً سید محسن الحکیم (متوفیٰ ١٣٩٠ھ)صاحب کتاب ''حقائق الاصول'' ؛ شیخ محمد رضا مظفر (متوفیٰ ١٣٩٢ھ) صاحب کتاب ''اصول الفقہ'' ؛شہید سید باقر الصدر (متوفیٰ ١٤٠٠ھ) صاحب کتاب ''دروس فی علم الاصول'' ؛سید روح اللہ الموسوی خمینی(متوفیٰ ١٤٠٩ھ) صاحب کتاب'' تہذیب الاصول'' ؛سید ابوالقاسم الخوئی (متوفیٰ ١٤١٣ھ)صاحب کتاب ''مصباح الاصول''، ''محاضرات فی اصول الفقہ'' و ''اجود التقریرات''(٢٧)؛میرزا جواد تبریزی (متوفیٰ ١٤٢٧ھ)صاحب کتاب ''فی علم الصول'' و ''شرح کفایة الاصول'' اور شیخ فاضل لنکرانی(متوفیٰ ١٤٢٩ھ)صاحب کتاب ''سیری کامل در اصول فقہ'' وغیرہ نے اپنی وسعت نظر اور اجتہاد کے ذریعہ اصول استنباط میں ایک عظیم اور جدید تحول ایجاد کیا ہے۔

غیبت کے زمانے میں علم فقہ:

علم اصول کا نتیجہ علم فقہ ہے علماء و فقہاء نے علم اصول کے ذریعہ علم فقہ میں عظیم کارنامے انجام دیے اور اجتہاد و استنباط کے ذریعہ دور غیبت میں فقہی موضوعات پر کثرت سے کتابیں دنیائے تشیع کو پیش کیں،ذیل میں بعض اہم اور مشہور کتابوں کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے ورنہ اس موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں کو صرف بیان کرنے کے لئے کئی جلدیں درکار ہیں:
''الھدایة'' اور ''المقنع''،ابو جعفر محمد بن علی بن بابویہ 'شیخ صدوق'(متوفیٰ ٣٨١ھ)۔''المقنعة''، محمد بن محمد بن نعمان ابن معلم ابو عبد اللہ عکبری بغدادی'شیخ مفید' (متوفیٰ ٤١٣ھ)۔ ''الانتصار''،علی بن حسین بن موسیٰ ''شریف مرتضیٰ علم الھدیٰ' (متوفی٤٣٦ھ)۔''المبسوط فی فقہ الامامیة''، محمد بن حسن شیخ جعفر طوسی 'شیخ الطائفہ' (متوفیٰ ٤٦٠ھ)۔''السرائر الحاوی لتحریر الفتاویٰ''، ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن ادریس حلّی عجلی (متوفیٰ ٥٩٨ھ)۔ ''شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام''و ''مختصر النافع''،جعفر بن حسن سعید ھُذلی نجم الدین ابو القاسم حلّی 'محقق حلّی'(متوفیٰ ٦٧٦ھ)۔''تبصرة المتعلمین فی احکام الدین'' و ''مختلف الشیعہ'' و ''قواعد الاحکام''،ابو منصور حسن بن سدید یوسف بن زین الدین علی بن مطھر حلّی 'علامہ حلّی'(متوفیٰ ٧٢٦ھ)۔ ''اللمعة الدمشقیة''و ''الدروس الشرعیة فی فقہ الامامیة'' و ''ذکریٰ الشیعة فی احکام الشریعة''،محمد بن مکی بن محمد بن حامد بن احمد مطلّبی شمس الدین ابو عبد اللہ عاملی جزینی 'شہید اول ' (متوفیٰ ٧٨٦ھ)۔''جامع المقاصد فی شرح القواعد''، شیخ علی بن حسین کرکی 'محقق ثانی '(متوفیٰ ٩٤٠ھ)۔ ''الروضة البھیة فی شرح اللمعة الدمشقیة'' و ''مسالک الافھام فی شرح شرائع الاسلام''،زین الدین بن علی بن احمد عاملی 'شہید ثانی' (متوفیٰ ٩٦٦ھ)۔ ''مجمع الفائدة و البرھان فی شرح ارشاد الاذھان''، احمد بن محمد اردبیلی 'مقدس اردبیلی ' (متوفیٰ ٩٩٣ھ)۔ ''مدارک الاحکام فی شرح شرایع الاسلام''، سید محمد بن علی موسوی عاملی (متوفیٰ ١٠٠٩ھ)۔''کشف اللثام عن قوا عد الاحکام''،ابو الفضل بہاء الدین محمد بن حسن اصفہانی 'فاضل ہندی ' (متوفیٰ ١١٣٧ھ)۔ ''کشف الغطاء عن مبھمات شریعة الغرائ''، شیخ جعفر بن خضر 'کاشف الغطائ '(متوفیٰ ١٢٢٧ھ)۔ ''جامع الشتات'' میرزا ابوالقاسم بن حسین گیلانی قمی 'میرزای قمّی ' (متوفیٰ ١٢٣١ھ)۔ ''المکاسب'' ، شیخ مرتضی انصاری(متوفیٰ ١٢٨١ھ)۔''جواھر الکلام''،حاج محمد حسن نجفی ابن شیخ باقر نجفی(متوفیٰ ١٢٦٦ھ)۔ ''عروة الوثقیٰ'' ،حاج سید کاظم ابن سید عبد العزیز طباطبائی یزدی (متوفیٰ ١٣٣٧ھ)۔''مستمسک العروة الوثقیٰ''، سید محسن الحکیم ابن سید مہدی(متوفیٰ ١٣٩٠ھ) ۔تحریر الوسیلة''و ''المکاسب المحرمة''،سید روح الخمینی (متوفیٰ ١٤٠٩ھ)۔ 'التنقیح فی شرح العروة الوثقیٰ''و ''مستند العروة الوثقیٰ''، سید ابو القاسم الخوئی (متوفیٰ ١٤١٣ھ)۔

اخباریت اور اس کے وجود میں آنے کا سبب:

احکام شرعی تک پہنچنے کے لئے دو راستے اختیار کئے گئے ،یا یہ کہا جائے کہ دو گروہ ہوئے ہوگئے ایک اصولی عالم اور ایک اخباری ،جو علماء احکام میں اجتہاد و استنباط کی طرف متوسل ہوئے ان کو اصولی کہا گیا اور جو صرف روایات کی طرف متوسل ہوئے اور مقام تعارض میں بھی احتیاط کیا انہیں اخباری کہا گیا ۔ 
(١)اصولیوں کا طریقہ:علمائے اصول چاروں ادلّہ (کتاب ،سنت،اجماع ،عقل )کے ذریعے احکام کو استنباط و استخراج کرتے ہیں یعنی اکثر فقہائِ شیعہ احکام شرعی کو حاصل کرنے کے لئے پہلے کتاب الٰہی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اگر اس میں موردنظر حکم نہیں پاتے تو معتبر روایات کی طرف رجوع کرتے اور آیت وروایت کے نہ ملنے کی صورت میں ،آیات و احادیث اور اسلامی اصول و ضوابط کی روشنی میں عقل کی طرف مراجعہ کرتے ہوئے برائت یا احتیاط یا تخییر یا استصحاب (ان لوگوں کے نظریے کے مطابق جو استصحاب کی حجیت کو از باب عقل جانتے ہیں)کا حکم لگاتے ہیں۔لیکن اجماع! اگر اجماع کو معصوم کی رائے کے کشف ہونے کی وجہ سے حجت مانیں تو ایسی صورت میںاجماع کی طرف رجوع در حقیقت عقل کی طرف رجوع ہوگا اور اگر اجماع کو اس جہت سے حجت مانیں کہ اس کو اجماع کرنے والوں کے آپس میں متفق ہونے کی وجہ سے حاصل کرتے ہیں کہ امام معصوم بھی اجماع کرنے والوں کے درمیان ہے تو ایسی صورت میں اجماع از باب رجوع بہ سنت ،حجت ہوگا ۔
(٢)اخباریوں کا طریقہ:اخباری لوگ اپنے استنباط میں صرف روایات سے تمسک کرتے تھے اور ان میں سے بہت سے ایسے بھی گزرے ہیں جو ظواہر قرآن کو بھی حجت نہیں جانتے اس لئے کہ وہ معتقد تھے کہ قرآن سب کے لئے قابل فہم نہیں ہے بلکہ جن پر قرآن نازل ہو اہے صرف وہی لوگ قرآن کو سمجھ سکتے ہیں (یعنی پیغمبرۖ اور معصومین )لہٰذا اخباریوں کے نزدیک عمل کا معیار وہ روایتیں تھیں جو کتب چہار گانہ (کافی ، من لایحضرہ الفقیہ،تہذیب ،استبصار )اور دوسری معتبر کتابوں میں ذکر ہوئی ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ روایات کے ذریعہ احکام کی تبیین مکمل ہوچکی ہے ۔لہٰذا امام زمانہ  کی غیبت کے بعد سے اخباری حضرات ظواہر اخبار (ظاہر حدیث)پر عمل کرتے تھے اوریہی قاعدۂ کلیہ ان کا ملاک عمل قرار پایاکہ'' جس چیز میں بھی حرمت کا احتمال ہو وہ حرام اور جس میں وجوب کا احتمال ہو وہ واجب ہے'' (البتہ اس وقت صورت حال کچھ اور ہے!اور بقولے 'آج اپنے کو اخباری کہنے والے اخبار پڑھ پڑھ کر اخباری بنے ہیں!)
اخبار ی گروہ کے مٔوسس میرزامحمد امین استرآبادی (متوفی١٠٢٣ھ ساکن مدینہ )تھے انہوں نے اپنی کتاب ''الفوائدالمدینة'' میں اپنے مشرب کی تشریح کی ہے ۔ملّا امین پہلے آدمی ہیں جنھوں نے مجتہدین و فقہاء پر طعن و تشنیع کا دروازہ کھولا اور اپنی کتاب میں مجتہدین کی سرزنش کرتے ہوئے دین حق کی تخریب و تضییع کا ان پر ناروا الزام لگایا۔
اخباری افکار نے ایک صدی تک علماء اور حوزات علمیہ کو متاثر کیا اور تیرہویں صدی میں محمد باقر ابن محمد اکمل المعروف وحید بہبہانی کے سامنے آنے تک یہی طریقہ چلتارہا ۔اگرچہ وحید بھبھانی سے پہلے کے علماء نے بھی کوششیں کیں حتیٰ کہ فاضل تونی ،سید حسین خوانساری ،سلطان العلماء ،اور محقق شیروانی جیسے اصولیوں نے علم اصول میں کتابیں لکھیں ، لیکن پھر بھی اخباری ذہنیت حوزات علمیہ میںپائی جاتی رہی ۔
مرحوم محقق خوانساری اپنی کتاب روضات الجنات میں جناب وحید بہبہانی کے سامنے آنے سے پہلے ،اخباریوں کے تسلط کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:عراقی شہر خاص کر کربلا ونجف میں اخباریوں کی ایک تعداد تھی لیکن ان میں سے بعض اتنے متعصب وجاہل تھے کہ کو ئی ہمت نہیں کرتا تھا کہ ان کے سامنے اصولی فقہا کی کوئی کتاب اعلانیہ طور پر اپنے ساتھ لیکر چلے اور اصولی کتابیں پوشیدہ طور پر اور لوگوں کی نظروں سے مخفی کرکے رد و بدل ہوتیں تھیں ۔
علامہ  وحید بہبہانی جب سے سامنے آئے تو ان کے قوی استدلال اور حوزہ علمیہ نجف اشرف کی سرپرستی اور اس پر تسلط کی وجہ سے اصولیوں کا مشرب غالب آیا اور اخباری گری ماند پڑگئی ۔پھر جلیل القدر وبزرگ اصولی جناب شیخ مرتضیٰ انصاری نے خاص نبوغ کی وجہ سے اصولی تفکر کو زندہ کرنے میں بنیادی رول ادا کیا اور آج تمام حوزات علمیہ میں اخباریت کا نام و نشان نہیں ہے اور اس وقت کوئی بھی واقعی عالم دین اخباری فکر کی ترویج کرتا نظر نہیں آتا۔اس کے مقابلے میں ہرطرف اور ہر جگہ صرف اور صرف جید اصولی علماء مذہب اہل بیت کی حفاظت و پاسداری کا وظیفہ انجام دیتے ہوئے ائمہ موصومین  کے زمانے سے شروع ہوئے 'علم اصول' کو آگے بڑھاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

١۔حصر الاجتہاد،ص ٩٠۔ ٢۔ ہزارۂ شیخ طوسی ج ٢ ،ص ٣٣٧۔ ٣۔فرائد الاصول ،ج ١ ،ص  ٨۔ ٤۔وسائل الشیعہ ،کتاب القضاء ،ج ١٨، حدیث ٥١۔ ٥۔وسائل الشیعہ ،کتاب القضاء ،ص ٧٥،جلد ١٨۔ ٦۔فروع کافی ،کتاب القضاء ،ج ٧،ص ٤١٢حدیث ٥۔ ٧۔جامع الرواة ،ج ١ ،ابان بن تغلب ،فہرست شیخ طوسی ''ابان''۔ ٨۔ جامع الرواة ،ج ٢ ،یونس بن عبد الرحمن ،فہرست شیخ طوسی ،یونس بن عبد الرحمن ۔ ٩۔ جامع الراوة ،ج ١، زکریا بن آدم ''۔
١٠۔جامع الراوة ج ٢ ،محمد بن مسلم ۔ ١١۔البتہ کتاب'تأسیس الشیعہ لعلوم الاسلام' ،ص٣١٠؛اسی طرح 'فوائد الاصول' ،ج١،ص٧،میں کتاب الاوائل ،جلال الدین سیوطی سے نقل اجماع ہوا ہے کہ اصول میں سب سے پہلی تصنیف شافعی کے ذریعہ ہے۔ اور کتاب'اصول الاستنباط '، ص٤٢ میں سیوطی کے قول کو نقل کرنے کے ضمن میں بیان کیا ہے کہ سیوطی کا مقصد یہ ہے کہ اہل سنت کے ائمہ اربعہ کے درمیان اصول فقہ میں پہلی تالیف شافعی کی ہے۔
١٢۔ملاک استنباط،٩۔ ١٣۔ہارون رشید کے قاضی القضاة ،متوفی ١٨٢ھ یا ١٨٩ھ۔ ١٤۔فہرست ابن قدیم ،ص ٣٧٨۔
١٥۔مقدمہ ابن خلدون ،ص ٣٦٠۔ ١٦۔کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون ،ج١،ص ١١١۔ ١٧۔وفیات الاعیان وانباء ابناء الزمان ،ج٦،ص ٣٨٢۔ ١٨۔اعلام قاموس تراجم ،ج٨،ص ١٩٣۔ ١٩۔یعقوب بن ابراہیم معروف بہ ابی یوسف ،قاضی القضاة خلفائے بنی عباسی،متوفیٰ ١٨٢ھ۔
٢٠۔فوائد الاصول ،ج ١،ص ٧۔ ٢١۔مبانی استنباط حقوق اسلامی ص١٢۔ ٢٢۔تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام ،ص ٣١٠،اصول الاستنباط ،ص ٤١۔
٢٣۔حصر الاجتہاد ،ص ٤١۔ ٢٤۔کتاب تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام ،ص ٣١١، میں پہلے ابو سہل نوبختی ،پھر حسن بن موسیٰ نو بختی اور ان دونوں کے بعد ابن جنید کا نام ذکر ہوا ہے۔ ٢٥۔فوائد الاصول ،ج١،ص ١٠۔ ٢٦۔فوائد الاصول ،ج ١،ص ١٣۔ ٢٧۔صحیفۂ نور ج ٢١،ص ٦١،٩٨،١٠٠۔
(ماہنامہ اصلاح لکھنؤ)٢٨۔گذشتہ ماخذ۔ ٢٩۔استفادہ از ''فرہنگ تشریحی اصطلاحات اصول''۔